Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 39

سورة يوسف

یٰصَاحِبَیِ السِّجۡنِ ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَیۡرٌ اَمِ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ﴿ؕ۳۹﴾

O [my] two companions of prison, are separate lords better or Allah , the One, the Prevailing?

اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ ... O two companions of the prison! Prophet Yusuf went on calling his two prison companions to worship Allah alone, without partners, and to reject whatever is being worshipped instead of Him like the idols, which were worshipped by the people of the two men, Yusuf said, ... أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Are many different lords (gods) better or Allah, the One, the Irresistible! to Whose grace and infinite kingdom everything and everyone has submitted in humiliation.

شاہی باورچی اور ساقی کے خواب کی تعبیر اور پیغام توحید یوسف علیہ السلام سے وہ اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے ہیں ۔ آپ نے انہیں تعبیر خواب بتا دینے کا اقرار کر لیا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے انہیں توحید کا وعظ سنا رہے ہیں اور شرک سے اور مخلوق پرستی سے نفرت دلا رہے ہیں ۔ فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ واحد جس نے ہر چیز پر قبضہ کر رکھا ہے جس کے سامنے تمام مخلوق پست و عاجز لاچار بےبس ہے ۔ جس کا ثانی شریک اور ساجھی کوئی نہیں ۔ جس کی عظمت و سلطنت چپے چپے اور ذرے ذرے پر ہے وہی ایک بہتر؟ یا تمہارے یہ خیالی کمزور اور ناکارے بہت سے معبود بہتر؟ پھر فرمایا کہ تم جن جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو بےسند ہیں ۔ یہ نام اور ان کے لیے عبادت یہ تمہاری اپنی گھڑت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہارے باپ دادے بھی اس مرض کے مریض تھے ۔ لیکن کوئی دلیل اس کی تم لا نہیں سکتے بلکہ اس کی کوئی عقلی دلیل دنیا میں اللہ نے بنائی نہیں ۔ حکم تصرف قبضہ ، قدرت ، کل کی کل اللہ تعالیٰ ہی کی ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کا اور اپنے سوا کسی اور کی عبادت کرنے سے باز آنے کا قطعی اور حتمی حکم دے رکھا ہے ۔ دین مستقیم یہی ہے کہ اللہ کی توحید ہو اس کے لئے ہی عمل و عبادت ہو ۔ اسی اللہ کا حکم اس پر بیشمار دلیلیں موجود ۔ لیکن اکثر لوگ ان باتوں سے ناواقف ہیں ۔ نادان ہیں توحید و شرک کا فرق نہیں جانتے ۔ اس لیے اکثر شک کے دلدل میں دھنسے رہتے ہیں ۔ باوجود نبیوں کی چاہت کے انہیں یہ منصیب نہیں ہوتا ۔ خواب کی تعبیر سے پہلے اس بحث کے چھیڑنے کی ایک خاص مصلحت یہ بھی کہ ان میں سے ایک کے لیے تعبیر نہایت بری تھی تو آپ نے چاہا کہ یہ اسے نہ پوچھیں تو بہتر ہے ۔ لیکن اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ خصوصا ایسے موقعہ پر جب کہ اللہ کے پیغمبر ان سے تعبیر دینے کا وعدہ کر چکے ہیں ۔ یہاں تو صرف یہ بات ہے کہ انہوں نے آپ کی بزرگی و عزت دیکھ کر آپ سے ایک بات پوچھی ۔ آپ نے اس کے جواب سے پہلے انہیں اس سے زیادہ بہتر کی طرف توجہ دلائی ۔ اور دین اسلام ان کے سامنے مع دلائل پیش فرمایا ۔ کیونکہ آپ نے دیکھا تھا کہ ان میں بھلائی کے قبول کرنے کا مادہ ہے ۔ بات کو سوچیں گے ۔ جب آپ اپنا فرض ادا کر چکے ۔ احکام اللہ کی تبلیغ کر چکے ۔ تو اب بغیر اس کے کہ وہ دوبارہ پوچھیں آپ نے ان کا جواب شروع کیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 قید خانے کے ساتھی۔ اسلئے قرار دیا کہ یہ سب ایک عرصے سے جیل میں محبوس چلے آ رہے تھے۔ 39۔ 2 تفریق ذات، صفات اور عدد کے لحاظ سے ہے۔ یعنی وہ رب، جو ذات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفرق، صفات میں ایک دوسرے سے مختلف اور تعداد میں باہم متنافی ہیں، وہ بہتر ہیں یا اللہ، جو اپنی ذات وصفات میں متفرد ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ سب پر غالب اور حکمران ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] یہ دونوں قیدی چونکہ پہلے ملازم تھے اس لیے انھیں ان کے حسب حال ہی دلیل پیش کی اور انھیں اس بات کی خوب سمجھ آسکتی تھی کہ بہت سے آقاؤں کی غلامی سے ایک آقا کی غلامی بہرحال بہتر ہوتی ہے بالخصوص اس صورت میں جبکہ آقا بھی ایسا ہو جو سب دوسروں سے بڑھ کر طاقت ور اور غالب ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ :” صَاحِبَیِ “ اصل میں ” صَاحِبَیْنِ “ تھا جو ” صَاحِبٌ“ (ساتھی) کی تثنیہ ہے۔ ” السِّجْنِ “ کی طرف مضاف کیا تو نون تثنیہ گرگیا اور یاء کو کسرہ دے کر آگے ملا دیا گیا، یہ یاء متکلم کی نہیں، اس لیے معنی ہے ” اے قید خانے کے دو ساتھیو ! “ یہ الفاظ اکٹھے رہنے کی وجہ سے انس کا بھی اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ کوئی قریب ہوتا ہے تو انس ہی سے ہوتا ہے جو دعوت کے لیے ضروری ہے، مگر درحقیقت ایک دوسرے سے الگ الگ ہونے کا بھی کہ ہم تم قید خانے میں اکٹھے رہنے والے ساتھی ہیں، اس کے باوجود اصل ساتھی نہیں، کیونکہ وہ تعلق صرف ایمان والوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ ۔۔ : مصر کے لوگوں کا دین اکثر زمانوں میں شرک یعنی متعدد معبودوں کی عبادت ہی رہا ہے، جیسا کہ تاریخ سے اور مصر کے آثار قدیمہ سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر وہ بقول شخصے ایک رب کو مانتے بھی تھے تو دوسری تمام مشرک اقوام کی طرح اس کے تحت مختلف کاموں کا اختیار رکھنے والے کئی ارباب کی عبادت بھی کرتے تھے، کیونکہ ان کے ذہن اس شاہی نظام اور اس کے تحت جاگیر داری نظام سے آگے نہیں سوچ سکتے تھے جو ان پر مسلط تھا، جیسا کہ یونانیوں کے ہاں ہر کام کی الگ دیوی تھی۔ عراق والے بادشاہ کے ساتھ ساتھ سورج، چاند، ستاروں اور بتوں کی پرستش بھی کرتے تھے، جن سے ابراہیم (علیہ السلام) کو سابقہ پڑا، اس لیے یوسف (علیہ السلام) نے سب سے پہلے قید کے ساتھیوں کی عقل کو جھنجوڑتے ہوئے یہی سوال کیا کہ بتاؤ کہ یہ الگ الگ رب بہتر ہیں یا ایک اللہ جو اکیلا ہے اور سب پر غالب اور زبردست ہے، کوئی اس کے آگے دم نہیں مار سکتا، نہ کوئی اس کی مرضی کے خلاف کچھ کرسکتا ہے ؟ مزید دیکھیے سورة زمر (٢٩) ، انبیاء (٢٢) اور بنی اسرائیل (٤٢) ظاہر ہے کہ عقل اگر درست ہو تو اکیلے، زبردست اور غالب رب ہی کو بہتر قرار دے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝ ٣٩ۭ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ تفریق والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، ( ف ر ق ) الفرق التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔ قهر القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] ، فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ، فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی/ 9] أي : لا تذلل، وأَقْهَرَهُ : سلّط عليه من يقهره، والْقَهْقَرَى: المشي إلى خلف . ( ق ھ ر ) القھر ۔ کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ ۔ فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی/ 9] تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرو اسے ذلیل نہ کرو ۔ اقھرہ ۔ کسی پر ایسے شخص کو مسلط کرنا جو اسے ذلیل کردے ۔ القھقری پچھلے پاؤں لوٹنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) لیکن اہل مصر اس ذات پر ایمان نہیں لاتے اے قیدیو ! یا قید خانہ کے رکھوالو ! ذرا سوچ کر بتلاؤ کہ بہت سے معبودوں کی عبادت اچھی ہے یا ایک معبود برحق کی جو کہ وحدہ لاشریک اور سب سے زبردست اور تمام مخلوق پر غالب ہے، اس کی عبادت بہتر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٩۔ ٤٠۔ یوسف (علیہ السلام) نے کفر کی مذمت کی اور توحید کا حال اور خداوند جل جلالہ کے اوصاف بیان کر کے یہ نصیحت فرمائی کہ اے میرے قید کے مصاحبہ ذرا غور کرو کہ یہ بت پرستی بہتر ہے یا حق پرستی اور یہ تمہارے کئی جدا جدا معبود اچھے ہیں۔ یا وہ خدائے برتر کہ جو اپنی ذات اور صفات میں اکیلا اور ساری خدائی میں اسی کا بول بالا ہے اس کے قہر کے آگے کسی کی کچھ نہیں چل سکتی پھر فرمایا کہ تم جو ان بتوں کی پرستش کرتے ہو اس کی پوری سند نہیں ہے یہ بت تو تمہارے جعلی معبود ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادا نے پتھر کی مورتیں تراش کر ان کے جدا جدا نام رکھ چھوڑے ہیں اور اسی کو پوجنے لگے ہیں ورنہ ان میں کوئی طاقت اور کوئی قدرت نہیں ہے جو معبود بننے کے لائق ہو سکیں اگر سارے جہاں کو پیدا کیا ہے تو اسی اللہ نے اور اگر حکومت اور قضہ سارے جہان پر ہے تو وہ فقط اس اللہ جل شانہ کا ہے اس میں کسی غیر کی شرکت نہیں ہے۔ اس بنا پر اگر پرستش کی لائق ہے تو وہی ہے اور تم بھی اب سے خبر دار ہوجاؤ کہ اسی کو اکیلا جانو اور اسی کی خالص بندگی کرو کیوں کہ یہی دین مستقیم ہے اور اسی کا نام صراط مستقیم ہے جو شخص اس راہ سے ذرا بھی ورے پرے ہوا تو شیطان کا تسلط اس پر ہوجاوے گا اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے ہیں اور اسی سبب سے گمراہی اور شرک و کفر میں مبتلا رہتے ہیں۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پچھلے زمانے میں کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے کا رنج و غم ان کے رشتہ داروں اور معتقدوں کے دلوں پر بہت تھا شیطان نے موقع پاکر ان لوگوں کو یہ بہکایا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کے بت بنا کر رکھ لئے جاویں تاکہ ان بتوں کے دیکھ لینے سے ان نیک لوگوں کی صورت آنکھوں کے سامنے رہے اور اس تدبیر سے ان نیک لوگوں کی صورتوں کے آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج و غم کچھ کم ہوجاوے۔ شیطان کے بہکانے سے ان لوگوں نے وہ بت بنائے اور رفتہ رفتہ ان بتوں کی پوجا ہونے ١ ؎ لگی جو آج تک چلی آتی ہے۔ ہشام بن محمد کلبی مفسر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ نیک لوگ قابیل بن آدم کی اولاد میں سے تھے اور اسی زمانے میں یہ مورتیں بنائی گئیں اور ادریس (علیہ السلام) کے نبی ہونے کے زمانے میں ان مورتوں کی پوجا ہونے لگی پہلے ادریس (علیہ السلام) اور پھر حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بعد نوح (علیہ السلام) اسی بت پرستی کے مٹانے کو نبی ہو کر آئے اور رفتہ رفتہ اسی مورت پرستی کی شاخیں ستارہ پرستی آتش پرستی وغیرہ نکل آئیں۔ ٢ ؎ حاصل کلام یہ ہے۔ کہ یہ سب پوجائیں دین الٰہی سے الگ لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں اللہ تعالیٰ کو ایسی ناپسند ہیں کہ ان کے وبال میں نوح (علیہ السلام) سے لے کر فرعون تک بہت سی قوموں کو اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اسی واسطے ان پوجاؤں کو بےسند اور توحید کو سیدھی راہ فرمایا یہ ہشام بن محمد اگرچہ حدیث کی روایت میں معتبر نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ان کا اعتبار ہے یہ ٢٦٠ ؁ھ کے علماء میں ہیں حافظ عبدالرحمن ابن جوزی نے اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں ان کے قول کا جگہ جگہ حوالہ دیا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٢ ج ٢ تفسیر سورة نوح ٢ ؎ فتح الباری ص ٣٧٧ ج ٤ تفسیر سورة نوح

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:39) یصحبی السجن۔ صاحبی۔ دو ساتھی۔ دو رفیق۔ صاحبی اصل میں صاحبینی (میرے دو ساتھی) تھا۔ منادی ۔ (صاحبین) ی (ضمیر واحد متکلم) کی طرف مضاف ہوا۔ یصحبی السجن اے قید خانہ کے میرے دو ساتھیو ! ء ارباب۔ رب کی جمع ۔ ء ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا جدا جدا بہت سے رب بہتر ہیں یا کہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہو۔ یعنی جدا جدا بہت سارے رب بہتر نہیں ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ایک اللہ ہو جو سب پر غالب ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ان نہایت ہی مختصر ، واضح اور فیصلہ کن کلمات کے اندر دین اسلام کے پورے نشانات راہ نقش کرکے رکھ دیے ہیں۔ اس دین کے پورے عناصر ترکیبی بیان کردیے گئے ہیں۔ حضرت یوسف ان نشانات اور ان عناصر کی براہ راست دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کو ایک موضوع غور و فکر کے طور پر ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ : " اے زندان کے ساتھیو ، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ " یہ ایک ایسا سوال ہے کہ براہ راست انسانی فطرت کی گہرائیوں میں لگتا ہے اور فطرت انسانی کو خوب جھنجھوڑتا ہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ الہ ایک ہونا چاہیے۔ اگر تم محسوس کرتے ہو کہ یہ فطرت کا تقاضا ہے تو پھر کیوں تم ارباب متفرقون کے قائل ہو ، یعنی جو ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اسے رب اور حاکم تسلیم کیا جائے ، جس کی عبادت اور بندگی کی جائے اور جس کی اطاعت کی جاتی رہے۔ وہ صرف اللہ واحد اور قہار ہی ہے۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ انسانی فطرت اور عالم کی فطرت کا الہ اور رب اللہ وحدہ ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی اخیتار زندگی میں رب ، حکم اور شارع وہی اللہ وحدہ ہو۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ وحدہ ہی خالق اور قہر ہے اور پھر بھی وہ غیر اللہ کی بندگی اور اطاعت کریں۔ اور اس کے سوا پھر کوئی ان کا حاکم ہو۔ رب ہی الہ اور حاکم ہوتا ہے۔ وہ اس پوری کائنات کے امور کو بھی چلاتا ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ذات کائنات کو نہ چلا سکتی ہو اور وہ ھو رب الناس ہو یہ عقلاً ممکن نہیں ہے۔ لہذا اللہ واحد اور قہار ہی اس بات کا مستحق ہے اور بہتر ہے کہ لوگ اس کی بندگی کریں۔ بجائے اس کے کہ وہ ارباب متفرقہ کی بندگی کریں جن کو اندھی جاہلیت نے گھڑ رکھا ، جس کی نظر کوتاہ ہوتی ہے اور وہ فریب کے سوا کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے انسانیت کے لیے سب سے بڑی بدبختی ہی یہ ہے کہ وہ ایک الہ کے بجائے متعدد الہوں کو مانے اور یہ متعدد الٰہ اس کی زندگی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ ان کے رجحانات اور میلانات کے اندر بھی کشمکش ہو اللہ کے سوا جس قدر ارباب ہم نے بنا رکھے ہیں یہ در اصل اللہ تعالیٰ کے حق حاکمیت پر دست درازی کرتے ہیں اور ہم نے اپنی جاہلیت کی وجہ سے ، وہم پرستی کی وجہ سے خرافات اور قصے کہانیوں کی وجہ سے ان ارباب من دون اللہ کو رب تسلیم کر رکھا ہے۔ یا بعض جبار وقہار انسانی الٰہوں نے اپنی ربوبیت کا نظام لوگوں پر جبراً مسلط کر رکھا ہے۔ اور یہ انسانی ارباب ایک منٹ کے لیے بھی اپنے ذاتی مفادات ، اپنے وجود اور اپھنی عزت کی بقا کے جذبات اور خواہشات سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ اور ان کے دلوں میں یہ خواہش کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کہ عوام الناس پر ان کا تسلط جاری اور باقی رہے۔ ایسے الٰہوں کی پالیسی اور دائمی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ان قوتوں کو کچل کر رکھ دیتے جن سے انہیں براہ راست یا بالواسطہ کوئی بھی خوف ہو۔ نیز الٰہ ان قوتوں کو ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں ان کی پرورش کرتے ہیں اور ان کے حق میں پروپیگنڈہ کرتے جو ان کی خدائی کے قیام اور بقا میں ممد و معاون ہوتی ہیں۔ یہ الٰہ ایسے تمام اداروں کی ترقی اور عزت افزائی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ جبکہ اللہ واحد اور قہار ہے اور وہ دونوں جہاد سے غنی ہے۔ اللہ کا مطالبہ لوگوں سے صرف یہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ، نیکی کی راہ لیں اور اپنی اصلاح اور اپنے ماحول کی اصلاح و تعمیر کریں اور یہ اصلاح اور تعمیری کام اللہ کی قائم کردہ شریعت کے مطابق ہو۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا کام بھی پورے کا پورا عبادت ہوگا۔ اللہ نے جو عبادات انسانوں کے لیے فرض کی ہیں وہ بھی ایسی ہیں جن سے خود انسانوں کے دل و دماغ اور سیرت و کردار کی اصلاح مطلوب ہے۔ ورنہ اللہ کو تو انسانوں کی طرف سے کسی عبادت اور بندگی کی ضرورت نہیں ہے۔ یا ایہا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ھو الغنی الحمدی " اے لوگو تم اللہ کی طرف محتاج ہو اور صرف اللہ ہی غنی اور حمید ہے۔ اس لیے اللہ کی بندگی اور غلامی اور اللہ کے دوسرے الٰہوں کی بندگی اور غلامی میں بہت فرق ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ اب جیل کے دونوں ساتھیوں کو حکیمانہ انداز میں اسلام کی دعوت دی اور فرمایا تم خود ہی اپنی خداداد عقل سے سوچو کہ بہت سے خدا اچھے ہیں جن کے سامنے زانوئے عبودیت تہ کرے اور جن کے سامنے سر نیاز مندی جھکائے اور جن سے اپنی حاجتیں مانگے یا صرف ایک خدا اچھا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور ساری کائنات پر قاہر ہے۔ بالفاظ دیگر بہت سے بیچارے اور عاجز معبودوں کی محتاجی بھلی یا ایک قادر و توانا خدا کی ؟۔” مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ الخ “ اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم کارساز اور متصرف و مختار سمجھ کر پکارتے ہو یہ سب تمہارے اور تمہارے آباء و اجداد کے خود ساختہ ہیں۔ تم لوگوں نے ان کو بلا دلیل و حجت معبود بنا رکھا ہے ان کے معبود ہونے پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ای سمیتم ما لا یستحق الالہیۃ اٰلھۃ ثم طفقتم تعبدونھا (مدارک ج 2 ص 171) ۔ ” اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ “ اور دین کے معاملے میں اور اس بارے میں کہ کون عبادت اور پکار کا مستحق ہے فیصلہ دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ای ما الحکم فی شان العبادۃ المتفرعۃ علی تلک التسمیۃ وفی صحتھا الا للہ (روح ج 12 ص 245) ۔ جب یہ فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے تو ” اَمَرَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ “ اس نے حکم دیدیا اور فیصلہ فرما دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے اور حاجات میں کسی اور کو نہ پکارا جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی عبادت اور پکارے جانے کے لائق نہیں۔ ” ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ “ یہی یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عابدت اور پکار ہی دین قیم اور مضبوط و محکم ملت ہے جو دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ سے ثابت ہے۔ الثابت الذی دلت علیہ البراھین العقلیۃ والنقلیۃ (روح ج 12 ص 245) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 ۔ اے قید خانہ کے رفیقو ! کیا بہت سے متفرق اور الگ الگ معبود عبادت کرنے کو اچھے ہیں یا ایک اللہ تعالیٰ جو سب سے زبردست اور یکتا ہے وہ بہتر ہے ۔ یعنی بہت سے معبود قراردینا بہتر یا اکیلا برحق معبود بہتر ۔