Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 40

سورة يوسف

مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اَسۡمَآءً سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۰﴾

You worship not besides Him except [mere] names you have named them, you and your fathers, for which Allah has sent down no authority. Legislation is not but for Allah . He has commanded that you worship not except Him. That is the correct religion, but most of the people do not know.

اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی فرمانروائی صرف اللہ تعالٰی کی ہے ، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو ، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَابَأوُكُم ... "You do not worship besides Him but only names which you have named (forged) - you and your fathers - Prophet Yusuf explained to them next that it is because of their ignorance that they worship false deities and give them names, for these names were forged and are being transferred from one generation to the next generation. They have no proof or authority that supports this practice, hence his statement to them, ... مَّا أَنزَلَ اللّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ... for which Allah has sent down no authority, or proof and evidence. ... إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ... The command is for none but Allah. He has commanded that you worship none but Him; He then affirmed that the judgement, decision, will and kingdom are all for Allah alone, and He has commanded all of His servants to worship none but Him. He said, ... ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ... that is the straight religion, `this, Tawhid of Allah and directing all acts of worship at Him alone in sincerity, that I am calling you to is the right, straight religion that Allah has ordained and for which He has revealed what He wills of proofs and evidences,' ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ but most men know not. and this is why most of them are idolators, وَمَأ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِينَ And most of mankind will not believe even if you eagerly desire it. (12:103)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان کا نام معبود تم نے خود ہی رکھ لیا ہے، دراں حالیکہ وہ معبود ہیں نہ ان کی بابت کوئی دلیل اللہ نے اتاری ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان معبودوں کے جو مختلف نام تم نے تجویز کر رکھے ہیں۔ مثلا خواجہ غریب نواز، گنج بخش کرنی والا، کرماں والا وغیرہ یہ سب تمہارے خود ساختہ ہیں۔ ان کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ 40۔ 2 یہی دین، جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے، درست اور رقیم ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ 40۔ 3 جس کی وجہ سے اکثر لوگ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں (وَمَاوَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ) 12 ۔ یوسف :106) ' ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ' اور فرمایا (وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 12 ۔ یوسف :103) اے پیغمبر تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] شرک اور تقلید آباء :۔ علاوہ ازیں یہ دوسرے آقا یا معبود جن کی عبادت کی جاتی ہے۔ ان کی اصلیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی ایک آدمی نے ایسے مشرکانہ عقائد گھڑ کر کسی معبود یا آستانے کے نام منسوب کردیے۔ پھر یہی عقائد نسلاً بعد نسل ان کی اولاد میں منتقل ہوتے چلے گئے اور بزرگوں کی اندھی عقیدت نے ایسے عقائد کو مذہبی جامہ پہنا دیا۔ کسی نے یہ تحقیق کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ کسی الہامی کتاب میں ان کی کچھ دلیل ہے بھی یا نہیں لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہے جو بلاتحقیق اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید میں ان معبودوں کے ساتھ ایسے عقائد وابستہ کیے چلی آرہی ہے اور ان کے نام کی نذریں اور قربانیاں دیتی ہے تاکہ وہ انھیں کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ حالانکہ یہ سب ناواقفیت اور جہالت کی باتیں ہیں۔ البتہ جن لوگوں نے یہ کاروبار سنبھالا ہوا ہے۔ انھیں مفت میں نذرانے ملتے رہتے ہیں۔ لہذا وہ شرکیہ رسوم کسی صورت چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً ۔۔ : ان کے ذہن میں ایک رب اور کئی ارباب کے موازنے کی سوچ ابھارنے کے بعد اب صاف لفظوں میں کئی ارباب کا باطل ہونا بیان فرمایا کہ تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو حقیقت میں وہ کہیں موجود ہی نہیں ہیں، محض فرضی اور خیالی چیزیں ہیں، جن کے نام تم نے اور تمہارے آبا و اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ حکم تو اللہ کے سوا کسی کا ہے ہی نہیں، نہ قدری حکم نہ شرعی، یعنی نہ کائنات کے نظام میں اس کے سوا کسی کا کوئی حکم چلتا ہے، مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ سورج کو چلنے کا حکم دے اور یہ اسے روک دے، یا وہ کسی کو مارنا چاہے اور یہ اسے مرنے نہ دے اور نہ شریعت اور عبادت میں اس کے سوا کسی کو اپنا حکم چلانے کی اجازت ہے، اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا اور محکم و مضبوط دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، اس لیے وہ شرک کے گورکھ دھندے میں پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی یہ تقریر ملت ابراہیم، یعنی اسلام کی بہترین مختصر ترجمانی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝ ٠ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝ ٠ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٤٠ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ قَيِّمُ وماء روی، وعلی هذا قوله تعالی: ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف/ 40] ، وقوله : وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف/ 1- 2] ، وقوله : وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة/ 5] فَالْقَيِّمَةُ هاهنا اسم للأمّة القائمة بالقسط المشار إليهم بقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] ، وقوله : كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء/ 135] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] فقد أشار بقوله : صُحُفاً مُطَهَّرَةً إلى القرآن، وبقوله : كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 3] إلى ما فيه من معاني كتب اللہ تعالی، فإنّ القرآن مجمع ثمرة كتب اللہ تعالیٰ المتقدّمة . اور آیت کریمہ : ۔ دِيناً قِيَماً [ الأنعام/ 161] یعنی دین صحیح ہے ۔ میں قیما بھی ثابت ومقوم کے معنی میں ہے یعنی ایسا دین جو لوگوں کے معاشی اور اخروی معامات کی اصلاح کرنے والا ہے ایک قرات میں قیما مخفف ہے جو قیام سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صفت کا صغیہ ہے جس طرح کہ قوم عدی مکان سوی لحم ذی ماء روی میں عدی سوی اور ذی وغیرہ اسمائے صفات ہیں اور اسی معنی میں فرمایا : ۔ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف/ 40] یہی دین ( کا ) سیدھا راستہ ) ہے ؛ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف/ 1- 2] اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ سیدھی اور سلیس اتاری ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة/ 5] یہی سچا دین ہے ۔ میں قیمتہ سے مراد امت عادلہ ہے جس کیطرف آیت کریمہ : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] تم سب سے بہتر ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء/ 135] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ میں اشارہ پایاجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] جو پاک اوراق پڑھتے ہیں جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ میں صحفا مطھرۃ سے قرآن پاک میں کی طرف اشارہ ہے ۔ اور کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک میں تمام کتب سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کتب متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) تم لوگ تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر چند مردہ بتوں کی عبادت کرتے ہو، جن کو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے معبود ٹھہرا لیا ہے اللہ تعالیٰ نے تو ان کی عبادت کے بارے میں کوئی کتاب اور حجت یعنی دلیل عقلی ونقلی نہیں بھیجی۔ اور اوامرو نواہی کے حکم کے دینے اور دنیا وآخرت میں فیصلہ فرمانے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے، اس نے تمام آسمانی کتابوں میں اسی چیز کا حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت مت کرو یہ توحید خداوندی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ سیدھا راستہ ہے یعنی دین اسلام اور مصر والے اس طریقہ کو نہیں جانتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ) قانون بنانے اور اس کے مطابق حکم چلانے کا اختیار صرف اللہ کا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:40) ما تعبدون من دونہ الا اسمائ۔ یعنی اس کے سوا تم جن چیزوں کی پرستش کرتے ہو وہ محض چند نام ہیں (جن کو تم نے اور تمہارے آباد و اجداد نے من گھڑت نام دے رکھے ہیں) بھا۔ میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب کا مرجع وہ معبود ان باطل ہیں جن کو مشرکین نے ازخود نامزد کر رکھا ہے۔ سلطان۔ حجت۔ سند۔ الذین القیم۔ موصوف و صفت وہ دین جو دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہو۔ درست ، ٹھیک ، سیدھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ اس لئے وہ شرک کے گورکھ دھند سے میں پڑے ہوئے ہیں۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ ایمان کے ارکان کی تبلیغ کرکے اب ان کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عقیدۂ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شرک کی نفی نہ کی جائے۔ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) توحید کے اثبات کے ساتھ شرک کی نفی کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مصر کے معاشرہ میں لوگ اپنے بڑوں کو رب کے لفظ سے پکارا کرتے تھے جیسا کہ اب بھی ہندوستان اور ایران میں ہزاروں شرک زدہ لوگ اپنے اپنے بزرگوں کو خداوند یا خدائیگان کہا کرتے ہیں۔ پاکستان میں مدفون بزرگوں، خاص کر حضرت علی ہجویری کو داتا اور بابا فرید آف پاکپتن کو فرید گنج، سندھ میں شہباز قلندر کو لجپال یعنی عزت دینے اور حفاظت کرنے والا کہتے ہیں۔ کسی نے وشنو، کسی نے برہما، کسی نے مہادیو، کسی نے ابو الہول، کسی نے تیان چینی، کسی نے غول بیابانی، کسی نے عارف عراق، کسی نے سلطان الہند، کسی نے ابدال شامی، کسی نے اوتاد مصری، غرض مختلف ملکوں میں ہر ایک شخص نے اپنے اپنے تعلق و محبت اور اپنے اپنے میلان طبع کی مناسبت سے خدائی اختیارات کسی نہ کسی کو دے رکھے ہیں۔ انہی کو اس آیت میں ( اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ ) فرمایا گیا ہے۔ قیدی ساتھیوں کو توحید کا سبق پڑھاتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ اب یہ ذہنی طور پر اس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں کہ کھلے الفاظ کے ساتھ شرک کی نفی اور اس کے بنیادی اسباب کا ذکر کیا جائے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو یہ تو تمہارے دماغ کی اختراع اور اپنی طرف سے تمہارے رکھے ہوئے نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے اور ان کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔ توحید سمجھنا، اس پر ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا۔ دین کے باقی ارکان اس عقیدہ کے تقاضے ہیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کا دین ہے۔ جو ہمیشہ سے انھی اصولوں پر قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ صرف اسی ایک کی عبادت کرنے کے ساتھ تمام معبودان باطل کا انکار کیا جائے۔ اسی کا نام عقیدۂ توحید ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دین قیم کے الفاظ استعمال فرما کر یہ بھی سمجھایا کہ اگر کسی کے پاس عقیدۂ توحید نہیں تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ بیشک وہ کتنا دیندار ہونے کے دعوے کرتا رہے۔ یہی عقیدہ مضبوط اور دین ہمیشہ رہنے والا ہے۔ (عَنْ وَّھْبِ ابْنِ مُنَبِِِِّۃٍ قِےْلَ لَہٗ اَلَےْسَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لَّےْسَ مِفْتَاحٌ اِلَّا وَلَہٗٓ اَسْنَانٌ فَاِنْ جِءْتَ بِمِفْتَاحٍ لَّہٗٓ اَسْنَانٌ فُتِحَ لَکَ )[ رواہ البخاری فی ترجمۃ الباب ] ” حضرت وہب بن منبہ (رض) سے کسی نے یہ سوال کیا کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی نہیں ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں ؟ لیکن ہر چابی کے دندانے (پیچ) ہوا کرتے ہیں اگر تو پیچ دار چابی سے تالا کھولے گا تو کھل سکتا ہے (بصورت دیگر تیرے لیے دروازہ نہیں کھل سکتا۔ ) “ مسائل ١۔ عبادت صرف ایک اللہ ہی کی کرنی چاہیے، باقی سب معبود ان باطل ہیں۔ ٢۔ پوری کائنات میں صرف اللہ ہی کا حکم چلتا ہے۔ ٣۔ دین اسلام سیدھا، سچا اور مضبوط دین ہے۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت توحید کا علم نہیں رکھتی۔ تفسیر بالقرآن صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے : ١۔ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو۔ (ھود : ٢٦) ٢۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہے۔ ( الاعراف : ٧٠) ٣۔ اللہ کا شکر ادا کرو اور خاص اس کی ہی عبادت کرو۔ (البقرۃ :) ٤۔ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اور خاص اس کی ہی عبادت کرو۔ ( النحل : ١١٤) ٥۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کو یہی حکم دیا کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ( الانبیاء : ٢٥) ٦۔ اللہ نے ہر امت میں رسول بھیجے تاکہ لوگوں کو بتلائیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ (النحل : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد حضرت یوسف ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ اور اب وہ ذرا کھل کر جاہلیت کے افکار اور اوہام پر تنقید فرماتے ہیں : مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ : اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ یہ ارباب ، خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا غیر انسان ہوں ، مثلا فرشتے ، ارواح اور شیاطین یا دوسری کائناتی قوتیں جو اللہ کے تابع ہیں ، یہ کسی معنی میں بھی رب نہیں ہیں۔ اور انہ ان کو حقیقت ربوبیت میں سے کوئی حقیقت حاصل ہے۔ کیونکہ حق ربوبیت اور مقام ربوبیت صرف اللہ وحدہ کو حاصل ہے اور وہی اس کا سزاوار ہے۔ کیونکہ وہی خالق ہے اور اسی کے کنٹرول میں تمام مخلوقات زندہ رہ رہی ہیں۔ لیکن مختلف جاہلیتوں میں لوگوں نے خود اپنی طرف سے بعض قوتوں کو رب کے نام سے موسوم کردیا ہے ، یہ رب حقیقی کی صفات کو ان نام نہاد ارباب کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ درحقیقت ان کے اندر نہ صفات موجود ہیں اور نہ ان کو رب حقیقی کی طرح کسی پر قہر اور غلبہ حاصل ہے۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) ان کے غلط عقائد پر آخری ضرب لگاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اصل سلطنت کا حقدار و سزاوار کون ہے ؟ کون اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ؟ کون اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی بندگی کی جائے فقط اس کی ؟ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : فرمانروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو ، یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ حکم اور حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے ، حاکمیت خاصہ خدائی ہے۔ اس لیے اللہ کے سوا کوئی اور حاکم ہو ہی نہٰں سکتا۔ اللہ کے سوا کوئی اور شخص اگر اللہ کے اس حق میں کوئی دعویداری کرے گا وت اس کا مقدمہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوگا ، چاہے اللہ کے سوا حاکمتی کا دعوی کرنے والا کوئی فرد واحد ہو ، یا کوئی طبقہ ہو یا کوئی جماعت ، یا کوئی امت یا سب کے سب لوگ ہوں یا کوئی عالمی ادارہ ہو۔ اور جو شخص اللہ کے بالمقابل اپنی حاکمتی (Soverenity) کا مدعی ہوگا وہ گویا کفر کا ارتکاب کرے گا اور یہ اس کی جانب سے واضح کفر ہوگا۔ اور یہ آیت اس پر نص صریح ہے۔ اب کوئی شخص کس طرح اللہ کے بالمقابل دعوائے الوہیت کرسکتا ہے ؟ کسی بھی صورت میں اگر کوئی دعوی کرے گا تو مدعی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا چاہے وہ فرعون کی طرح دعوی کرے اور کہے (انا ربکم الاعلی) یا وہ کہے (ما علمت لکم من الہ غیری) یا وہ اسلامی شریعت کو نظام حکمرانی سے خارج کردے یا وہ یہ فیصلہ کردے کہ حکمرانی اور قانون سازی کا مرجع اللہ کے سوا کوئی اور ہوگا۔ اگرچہ وہ فرد ہو یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو۔ اسلامی نظام میں امت مسلم ہی حاکم کا انتخاب کرتی ہے اور کسی شخص کو حاکمیت کا اختیار دیتی ہے اور وہ یہ اختیارات استعمال کرتا ہے لیکن وہ اپنے اختیارات شرعی حدود کے اندر استعمال کرسکتا ہے۔ اسلامی نظام میں کوئی شخص یا کوئی ادارہ مصدر قانون سازی اور مصدر حاکمیت نہیں ہوتا ، حاکمیت اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہوگا۔ بیشمار مسلم مفکرین حق حاکمیت کے استعمال اور مصدر حاکمیت کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان حق حاکمیت کے مالک نہیں ہیں۔ حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے تو ان کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ اللہ نے جو نظام قانون اور دستور متعین فرما دیا ہے ، انسان صرف اس کے نافذ کرنے والے ہیں۔ لیکن جو دستور اور قانون اللہ نے نہیں بنایا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اور اس کی قانونی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس بات کی دلیل بھی بیان کر رہے ہیں : اس دلیل کو ہم تب ہی سمجھ سکتے ہیں جب ہم لفظ عبادت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اسی طرح جس طرح عرب اسے سمجھتے تھے۔ عبد کا مفہوم عربی میں ہے (دان و خضع و ذل) یعنی تابع ہوا ، تابع فرمان ہوا اور کسی کے سامنے جھکا اور ذلیل ہوا۔ آغاز اسلام میں عبادت کا مفہوم بھی مراسم عبودیت اور پرستش نہ تھا۔ اس لیے کہ جب سب سے پہلے یہ آیات نازل ہوئیں تو اس وقت مراسم عبودیت فرض ہی نہ تھے۔ یہ (نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ اور جہاد) بعد میں فرض ہوئے۔ ابتداء میں عبادت کا لفظ اپنے لغوی مفہوم میں استعمال ہوا تھا جو بعد میں اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا۔ ابتدا میں اس لفظ کا مفہوم یہ تھا کہ صرف اللہ کی اطاعت کی جائے ، صرف اللہ کے سامنے جھکا جائے ، صرف اللہ کے احکام مانے جائیں ، ان احکام کا تعلق عبادات کے مراسم سے ہو ، یا اخلاقی امور سے ، ان تمام شعبوں پر لفظ عبادت کا اطلاق ہوتا تھا۔ اس کے مفہوم میں اطاعت اور بندگی شامل تھی جس کے بارے میں اللہ کا حکم تھا کہ اس کے سوا کسی کی اطاعت اور بندگی نہ کی جائے۔ جب ہم عبادت کے اس مفہوم کو معلوم کرلیں تو پھر ہماری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے کہا حکم اللہ کا ہے ، اس لیے عبادت اور بندگی اور اطاعت بھی صرف اسی کی ہے۔ اگر حکم کسی اور کا ہو تو پھر صرف اللہ کی بندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اور حکم اللہ کا ہے ، ایک عام اصول ہے اس سے مراد تکوینی حکم بھی ہے کہ اس کائنات کے بارے میں وہی متصرف فی الامور ہے اور اس سے مراد شرعی اور قانونی حاکمیت بھی ہے کہ شرعی اور تکوینی امور بھی اللہ ہی کے ہوں گے۔ میں اس بات کو دوبارہ دہراتا ہوں کہ جو شخص حاکمیت کے حق میں اللہ کے برخلاف دعویداری کرتا ہے وہ دین اسلام سے خارج ہے۔ اور اس کے بارے میں اسلام کا حکم واضح اور لازمی ہے اور یہ در اصل بدترین شرک اور کفر بواح (صریح کفر) ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کے بالمقابل حاکمیت کا دعوی کرتا ہے اور دوسرے لوگ اس کا اقرار کرتے ہیں اور دل سے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنے دل میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے وہ لوگ بھی کفر بواح کے مرتکب ہیں اور وہ دین اسلام سے خارج ہیں۔ حضرت یوسف فرماتے ہیں کہ چونکہ اللہ ہی حاکم مطلق ہے اس لیے ہی اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور یہ درست اور صحیح دین ہے۔ ذلک الدین القیم " یہی دین قیم ہے " یعنی اس کے سوا دین قیم کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ درست دین وہی ہے جس میں حاکمتی صرف اللہ کی ہو۔ اور اللہ کی حاکمیت کا اظہار اس طرح ہو کہ لوگ صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت کریں چونکہ لوگ حقیقت کو نہیں جانتے ، اس لیے لازم نہیں آتا کہ اپنی جہالت کی وجہ سے وہ دین قیم پر متصور ہوں۔ اس لیے کہ جو دین اسلام کو جانتا ہی نہیں اس کی زندگی میں دین کا وجود متحقق کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اگر لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ حقیقت دین ہی سے بیخبر ہیں تو عقلا حقیقتاً اور بطور واقعہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دین پر ہیں۔ جہالت کوئی عذر نہیں ہے جو ان کو صفت اسلام سے متصف کردے کیونکہ جہالت تو سرے سے صفت دین ہی کی نفی کردیتی ہے کیو کہ کوئی شخص اس وقت تک اسلام کا اعتقاد نہیں رکھ سکتا جب تک وہ اسلام کو جانے نہیں۔ یہ بات نہایت ہی منطقی اور بدیہی ہے۔ حضرت یوسف نے ان واضح اور فیصلہ کن اور مختصر کلمات کے ذریعے شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے اور دین اسلام کے حقیقی نشانات مقرر کردئیے ہیں۔ اور اسلامی نظریہ حیات کے تمام بنیادی عناصر یہاں بیان کردئیے ہیں اور ایک دو فقروں میں جاہلیت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے۔ دنیا میں طاغوتی نظام قائم ہی تب ہوتا ہے جب وہ اللہ سے حق حاکمیت چھین لے اور لوگوں سے اللہ کے بجائے اپنی اطاعت کرائے۔ یعنی لوگ اللہ کی شریعت اور قانون کے بجائے اس کی شریعت کے مطیع فرمان ہوں اور وہ طاغوتی سوچ ، طاغوتی قانون اور طاغوتی احکام اور اطاعت رائج کردیں۔ اس کے سوا طاغوت قائم ہی نہیں ہوتا۔ طاغوتی نظام قائم ہی تب ہوتا ہے جب دین اسلام دنیا سے غائب ہوجائے۔ جب لوگوں کے دل و دماغ میں یہ عقیدہ راسخ ہو کہ اللہ کے سوائی اور حاکم اور مطاع نہیں ہے اور تمام معاملات زندگی میں انسانوں نے صرف اللہ کی اطاعت کرنا ہے تو اس سوقت طاغوتی نظام قائم ہی نہیں ہوتا۔ یہاں حضرت یوسف اپنا حقیقی درس اور تعلیم ختم فرما دیتے ہیں اور اس تقریر کو الٰہوں کے ابتداء میں قیدیوں کی مراد اور مطلب سے مربوط کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہی تاکہ قیدیوں کے سوال کا جواب بھی دے دیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

40 ۔ تم لوگ تو خدا کو چند ایسے بےاصل اور بےحقیقت ناموں کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادائوں نے گھڑ لیا ہے اور آپ ہی ٹھرا لیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معبود ہونے پر کوئی دلیل اور کوئی سند نہیں اتاری سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی فرماں روائی نہیں اور اس کے سوا نہ کسی کو حکم دینے کا اختیار ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت نہ کرو یہی صحیح اور سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ یعنی وہ ٹھا کر کہ جن کے نام تم نے رکھ چھوڑے ہیں وہ تو بیکار محض ہیں ایسی حالت میں سوائے ناموں کے اور کیا رکھا ہے اور حکومت ہے اللہ تعالیٰ کی اور اسی کا حکم چلتا ہے تو اس کے حکم کی کوئی سند دکھلائو اس کا حکم تو ان ٹھاکروں کی پوجا کے خلاف ہے اس کا حکم تو یہ ہے کہ سوائے اس کے کسی کی بندگی نہ ہو یہی ایک صاف اور سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ خدائے تعالیٰ کی توحید کو نہیں جانتے۔