Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 44

سورة يوسف

قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍ ۚ وَ مَا نَحۡنُ بِتَاۡوِیۡلِ الۡاَحۡلَامِ بِعٰلِمِیۡنَ ﴿۴۴﴾

They said, "[It is but] a mixture of false dreams, and we are not learned in the interpretation of dreams."

انہوں نے جواب دیا یہ تو اڑتے اڑاتے پریشان خواب ہیں اور ایسے شوریدہ پریشان خوابوں کی تعبیر جاننے والے ہم نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلَمٍ ... They said: "Mixed up false dreams, (which you saw), ... وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الاَحْلَمِ بِعَالِمِينَ and we are not skilled in the interpretation of dreams. They said, had your dream been a vision rather than a mixed up false dream, we would not have known its interpretation.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یہ خواب اس بادشاہ کو آیا، عزیز مصر جس کا وزیر تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس خواب کے ذریعے سے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی عمل میں لانی تھی۔ چناچہ بادشاہ کے درباریوں، کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب پریشان کی تعبیر بتلانے سے عجز کا اظہار کردیا، بعض کہتے ہیں کہ نجومیوں کے اس قول کا مطلب مطلقا علم تعبیر کی نفی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ علم تعبیر سے وہ بیخبر نہیں تھے نہ اس کی انہوں نے نفی کی، انہوں نے صرف خواب کی تعبیر بتلانے سے لا علمی کا اظہار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] تعبیر بتانے والوں کی معذرت :۔ اس خواب نے بادشاہ کو سخت حیران اور متوحش بنادیا۔ اس نے اپنے ملک کے دانشمندوں، نجومیوں، خوابوں کی تعبیر بتانے والوں اور درباریوں کو اکٹھا کرکے کہا کہ میں نے ایسا اور ایسا خواب دیکھا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص مجھے اس خواب کی تعبیر بتاسکتا ہے ؟ مگر اس خواب کی تعبیر بتانے سے سب نے عاجزی کا اظہار کیا اور کہہ دیا کہ یہ خواب ایسا ہے ہی نہیں جس کی تعبیر بتائی جاسکے۔ یہ تو پراگندہ اور پریشان سے خیالات ہیں اور ایسے خیالات کی کچھ تعبیر نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۔۔ : ” اَضْغَاثُ “ ” ضِغْثٌ“ کی جمع ہے، آپ گھاس کا ایک مٹھا اکھاڑیں، اس میں ملا جلا جو کچھ ہاتھ میں آئے اسے ” ضِغْثٌ“ کہتے ہیں، یعنی یہ خوابوں کی ملی جلی پریشان باتیں ہیں، کوئی مرتب یا واضح خواب نہیں اور ایسے خوابوں کی تعبیر ہم نہیں جانتے۔ علم تعبیر میں مہارت کے دعوؤں کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے خواب ہی کو پریشان خیالوں کا مجموعہ قرار دے دیا، جیسا کہ کہاوت ہے ” ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary After that, say the verses cited above, Allah Ta` ala created through the workings of what is unseen (Al-Ghayb), a particular way out for the release of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . This made the king of Egypt see a dream which caused him great anxiety. He assembled the known dream interpreters and soothsayers of his state and asked them to interpret his dream. None of them could understand the dream. The answer they all gave was: أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ : & (It seems to be) a mishmash of dreams, and we do not know the interpretation of dreams.& The word: أَضْغَاثُ (adghath) is the plural form of: ضِغث (dighth) which literally refers to a bundle of chaff or husk separated from grain while threshing and is a collection of different kinds of waste material. The sense of their saying was that this dream was somewhat muddled, confused and an admix¬ture of many thoughts and things, and they did not know how to inter¬pret such dreams. Had it been a regular dream, they would have had interpreted it.

معارف ومسائل آیات مذکورہ میں یہ بیان ہے کہ پھر حق تعالیٰ نے یوسف کی رہائی کے لئے پردہ غیب سے ایک صورت یہ پیدا فرمائی کہ بادشاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ پریشان ہوا اپنی مملکت کی تعبیر دینے والے اہل علم اور کاہنوں کو جمع کر کے تعبیر خواب دریافت کی وہ خواب کسی کی سمجھ میں نہ آیا سب نے یہ جواب دے دیا کہ اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ اضغاث، ضغث کی جمع ہے جو ایسی گٹھڑی کو کہا جاتا ہے جس میں مختلف قسم کے خس و خاشاک گھاس پھونس جمع ہوں معنی یہ تھے کہ یہ خواب کچھ ملی جلی ہے جس میں خیالات وغیرہ شامل ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے کوئی صحیح خواب ہوتا تو تعبیر بیان کردیتے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ۝ ٠ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ۝ ٤٤ ضغث الضِّغْثُ : قبضةُ ريحانٍ ، أو حشیشٍ أو قُضْبَانٍ ، وجمعه : أَضْغَاثٌ. قال تعالی: وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثاً [ ص/ 44] ، وبه شبّه الأحلام المختلطة التي لا يتبيّن حقائقها، قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 44] : حزم أخلاط من الأحلام . ( ض غ ث) الضغث ۔ ریحان ۔ خشک گھاس یا شاخیں جو انسان کی مٹھی میں آجائیں اس کی جمع اضغاث آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثاً [ ص/ 44] اپنے ہاتھ میں مٹھی پھر گھاس لو ۔ اسی سے ایسے خواب کو جو ملتبس سا ہو اور اس کا مطلب واضح نہ ہو ، اضغاث احلام کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 44] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ یعنی پریشان اور بےمعنی خوابوں کے پلندے ہیں ۔ حلم ( خواب) ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] ، ( ح ل م ) الحلم حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ تأويل من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران/ 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر : وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف/ 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء/ 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة . والأَوْلُ : السیاسة التي تراعي مآلها، يقال : أُلْنَا وإِيلَ علینا التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ { وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ } ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ (35) ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے { هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ } ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا } ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔ الاول ( ن) کے معنی ہیں مآل اور نتیجہ پر نظر رکھتے ہوئے سیاست اور انتظام کرنا ۔ اسی سے کہا جاتا ہے قد النا وبل علینا ۔ ہم نے حکومت کی اور ہم پر حکومت کی گئی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) ان لوگوں کا گروہ کہنے لگا یہ تو ویسے ہی باطل اور منتشر خیالات ہیں اور پھر ہم خوابوں کی تعبیر کا علم بھی نہیں رکھتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ ) بادشاہ کے خواب کو سن کر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کوئی معنوی خواب نہیں ایسے ہی بےمعنی اور منتشر قسم کے خیالات ہیں جن کی ہم کوئی تعبیر نہیں کرسکتے۔ فرائڈ کا بھی یہی خیال ہے کہ خواب میں انسان اپنے شہوانی خیالات اور دوسری دبی ہوئی نفسانی خواہشات کی تسکین کرنا چاہتا ہے ‘ مگر اسلامی نکتہ نظر سے خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم ” رویائے صادقہ “ کی ہے یعنی سچے خواب ‘ یہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور ایسے خوابوں کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ یہ نبوت کے اجزاء میں سے ہیں۔ دوسری قسم کے خواب وہ ہیں جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان میں بعض اوقات شیاطینِ جن اپنی طرف سے خیالات انسانوں کے ذہنوں میں الہام بھی کرتے ہیں۔ تیسری قسم کے خواب وہ ہیں جن کا ذکر فرائڈ نے کیا ہے۔ یعنی انسان کے اپنے ہی خیالات منتشر انداز میں مختلف وجوہات کی بنا پر سوتے وقت انسان کے ذہن میں آتے ہیں اور ان میں کوئی معنی یا ربط ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: بادشاہ نے جو خواب دیکھا تھا وہ اس کی تعبیر جاننا چاہتا تھا، مگر دربار کے لوگوں نے پہلے تو یہ کہا کہ یہ کوئی بامعنی خواب معلوم نہیں ہوتا، پریشان قسم کے خیالات بعض اوقات ایسے خوابوں کا روپ دھارلیتے ہیں، پھر یہ بھی کہا کہ اگر یہ واقعی کوئی بامعنی خواب ہے تب بھی ہم اس کی تعبیر بتانے سے قاصر ہیں ؛ کیونکہ ہم اس علم سے واقف نہیں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٤۔ ٤٩۔ اوپر کی آیت میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ بادشاہ مصر نے ایک خواب دیکھا تھا کہ سات گائیں موٹی موٹی ہیں جن کو سات گائیں دبلی دبلی کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہری ہیں جن کو سوکھی بالیں کھا گئیں جس کی تعبیر اپنے اہل دربار اور کاہنوں سے اس نے دریافت کی تھی ان لوگوں نے بادشاہ کے سوال کا یہ جواب دیا کہ یہ خواب آپ کا محض خیال ہے جس کی تعبیر ہمارے علم و قیاس سے باہر ہے ہم کچھ نہیں بتلا سکتے غرض انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اس خواب کی تعبیر ہی نہیں ہے بلکہ یہ کہا کہ { وما نحن بتاویل الاحلام بعلمین } جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس قدر علم نہیں ہے کہ اس کی تعبیر بیان کریں اور مطلب اس گفتگو سے ان کا یہ تھا کہ بادشاہ کا خیال پلٹ دیں کہ وہ اس خواب کی تعبیر کے درپے نہ ہو مگر اس وقت ساقی نے جو قید سے چھوٹ کر آیا تھا۔ یوسف (علیہ السلام) کی بات یاد کی اب تک وہ بھولا ہوا بیٹھا تھا شیطان نے اس کو بھلا دیا تھا اب اتنے عرصہ کے بعد جب بادشاہ کے خواب کی تعبیر کا تذکرہ آیا تو اس نے کہا کہ مجھے بھیج دو لوگوں نے اس سے کہا کہ جا کہاں جانا چاہتا ہے یہ جیل خانہ گیا اور وہاں آکر یوسف (علیہ السلام) کو صدیق کہہ کر پکارا کہ یوسف (علیہ السلام) کی راست بازی اس پر اچھی طرح ظاہر ہوچکی تھی قید میں بھی کبھی ان کو جھوٹ بولتے نہیں سنا تھا اور اس کے خواب کی تعبیر بھی جو کچھ بتلائی تھی وہ بالکل صحیح صحیح نکلی۔ اس میں کچھ فرق نہ ہوا اور یہ دوسرے شخص کے خواب کی تعبیر پوچھنے آیا تھا اس لئے اس نے کہا کہ مجھے اس باب میں فتویٰ دیں کہ سات گائیں موٹی موٹی کو سات گائیں دبلی دبلی کھاتی ہیں اور سات بالیں ہرے ہرے اور دوسرے خشک ان ہرے بالوں کو کھاتی ہیں اگر آپ اس کی تعبیر بتلا دیں گے تو میں واپس جا کر لوگوں میں اس کی تعبیر کو بیان کردوں گا جس سے آپ کا فضل و علم ظاہر ہوگا اور لوگوں پر آپ کی قدرو منزلت روشن ہوگی۔ یوسف (علیہ السلام) نے اس ساقی سے اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا کہ تجھے اتنی مدت کے بعد میں یاد آیا اور اتنے عرصہ تک تو بالکل بیخبر رہا کیوں کہ ان کو قید خانہ سے نکلنے کی فکر تھی۔ اس خیال سے جلدی اس خواب کی تعبیر بتلا دی فرمایا کہ سات گائیں موٹی موٹی سے مطلب یہ ہے کہ سات برس میں جو کچھ کھیتی کرو اور غلہ پیدا ہو اس میں سے بقدر ضرورت اپنے اور جانوروں کے کھانے کے لئے لو اور باقی اناج کو بدستور بال میں رکھ چھوڑو اگر بال سے جدا کرو گے تو گھن لگ جانے کا اندیشہ ہے پھر تم اور تمہارے جانور بھوک کے مارے مرجائیں گے کیوں کہ پھر سات برس تک لگاتار قحط پڑے گا پھر اس وقت تمہارا کل اندوختہ تمہارے کام آئے گا اور جو کچھ تم نے جمع کر رکھا ہوگا وہ کھالو گے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ بیچ کے لئے جو غلہ رکھ چھوڑتے ہیں وہ تو رہے گا باقی سب کھا کر بیٹھ رہو گے۔ غرض کہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی بتلاتے گئے پھر فرمایا کہ اس سات سال کی قحط سالی کے بعد ایک سال ایسا مینہ برسے گا کہ ساری زمین تر ہوجائے گی اور سارے شہر سیراب ہوجائیں گے اور اچھا اناج و میوہ پیدا ہوجائے گا اور لوگ اپنی عادت کے موافق انگور تل وغیرہ اچھی طرح نچوڑیں گے، اور بعض مفسروں نے یہ بھی کہا ہے کہ لوگوں کے جانور خوراک و چارہ پاکر ایسے توانا ہوں گے کہ دودھ زیادہ دیں گے یعصرون میں دودھ کا دوہنا بھی داخل ہے اس واسطے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے یعصرون کے معنے یحلیون بیان کئے ہیں مطلب یہ ٹھہرا کہ اس سال لوگ گزشتہ کال کی سختیوں سے نجات پائیں گے اور ہر شخص مرفہ الحال ہوجائے گا۔ سات سال کے قحط کے بعد یہ آٹھویں سال کا حال بادشاہ کے خواب کی تعبیر سے الگ ہے مصر کے لوگوں کی تسکین کے طور پر یہ آٹھویں سال کا ذکر بھی یوسف (علیہ السلام) نے فرما دیا۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک شخص نے خو اب دیکھا کہ اس کا سر کسی نے کاٹ ڈالا جب اس خواب کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو آیا تو آپ نے فرمایا کہ سوتے میں شیطان آدمی کو ایسی باتوں سے ڈرایا کرتا ہے۔ ایسے خواب کا کسی سے ذکر نہیں کرنا چاہیے ١ ؎ یہ حدیث (اضغات احلام) کی گویا تفسیر ہے۔ لیکن اصلی خواب اور اس طرح کے اڑتے ہوئے خواب میں فرق پیدا کرنے کے لئے بڑی سمجھ درکار ہے۔ ورنہ ایسی غلطی پڑجاتی ہے جس طرح بادشاہ مصر کے اہل دربار نے بادشاہ کے اصلی خواب کو اڑتے ہوئے خوابوں میں ایک خواب بتلایا جس طرح آدمیوں کی جماعت کو امت کہتے ہیں اسی طرح دنوں کے مجموعہ کو بھی امت کہتے ہیں اس لئے بعد امت کا ترجمہ شاہ صاحب نے مدت کے بعد فرمایا ہے۔ داب کے معنے عادت کے ہیں مطلب یہ ہے کہ پہلے سات برس عادت کے موافق اچھی طرح کھیتی کرنی چاہیے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٢٤٣ ج ٢ کتاب الرؤیا

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:44) اضغاث احلام۔ خیال خواب۔ پریشان خواب۔ اضغات ضغت کی جمع ہے۔ ریحان ۔ خشک گھاس یا شاخیں جو انسان کی مٹھی میں آجائے۔ قرآن میں ہے :۔ خذ بیدک ضغثا (38:44) اپنے ہاتھ میں مٹھی بھر گھاس لو۔ احلام حلم کی جمع ہے جس کے معنی خواب دیکھنے کے ہیں۔ چونکہ گھاس یا شاخوں کے گٹھے میں گھاس یا لکڑیاں ملی جلی ہوتی ہیں اس لئے خواب ہائے پریشان کو اضغات احلام کہتے ہیں (خیالی خوابوں کا مٹھا۔ مضاف مضاف الیہ) ۔ احلام۔ حلم کی بھی جمع ہے حلم بمعنی بردباری۔ عقل۔ الاحلام۔ المنامات الباطلہ خواب ہائے پریشان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ دو جواب اس لیے دیے کہ اول جواب سے بادشاہ کے قلب سے پریشانی اور وسواس دور کرنا ہے اور دوسرے جواب سے اپناعذر ظاہر کرنا ہے خلاصہ یہ کہ اول تو ایسی خواب قابل تعبیر نہیں دوسرے ہم اس فن سے واقف نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

44 ۔ درباریوں نے کہا یہ تو یوں ہی پریشان خیالات ہیں اور ہم ایسے خواب ہائے پریشان کو تعبیر نہیں جانتے ۔ یعنی اول تو یہ خواب ہی نہیں ہے محض بخارات فاسدہ کی وجہ سے مختلف تخیلات ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر سے واقف نہیں