Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 46

سورة يوسف

یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ اَفۡتِنَا فِیۡ سَبۡعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعِ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ۙ لَّعَلِّیۡۤ اَرۡجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۶﴾

[He said], "Joseph, O man of truth, explain to us about seven fat cows eaten by seven [that were] lean, and seven green spikes [of grain] and others [that were] dry - that I may return to the people; perhaps they will know [about you]."

اے یوسف! اے بہت بڑے سچے یوسف! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالکل سبز خوشے ہیں اور سات ہی دوسرے بھی بالکل خشک ہیں ، تاکہ میں واپس جا کر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان لیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا ... O Yusuf, the man of truth! Explain to us... and mentioned the king's dream to him. ... فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ...seven fat cows whom seven lean ones were devouring, and seven green ears of corn, and (seven) others dry, that I may return to the people, and that they may know." Yusuf's Interpretation of the King's Dream This is when Yusuf, peace be upon him, told the interpretation of the dream, without criticizing the man for forgetting his request that he had made to him. Neither did he make a precondition that he be released before explaining the meaning. Rather,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] یہ جواب جب اس ساقی نے سنا جو قید سے رہا ہوا تھا تو اسے فوراً سیدنا یوسف (علیہ السلام) ، ان کا خوابوں کی تعبیر بتانا اس تعبیر کا حرف بحرف سچا ثابت ہونا۔ نیز سیدنا یوسف کا آخری پیغام یاد آگیا۔ اب مدت مدید کے بعد اس نے ساری باتوں کا ذکر بادشاہ سے کیا، اور یہ بھی بتادیا کہ ایک نہایت پاکباز اور شریف النفس انسان بڑی مدت سے بےگناہ قید میں پڑا ہے۔ اب اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کے پاس قید خانہ میں جاتا ہوں اور اس خواب کی تعبیر اس سے پوچھ کر آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ [٤٦] ساقی کا سیدنا یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھنا :۔ بادشاہ پہلے ہی متوحش تھا اور اسے تعبیر بتانے والوں کے جواب سے قطعاً اطمینان حاصل نہ ہوا تھا۔ اس کا دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ کوئی خطرناک آفت نازل ہونے والی ہے۔ چناچہ اس نے فوراً ساقی کو قید خانہ جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے قید خانہ پہنچ کر ایسے الفاظ سے سیدنا یوسف کو مخاطب کیا جن سے قید میں ہمراہی کے زمانہ کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بلند کردار اور علم و اخلاق کے جو نقوش اس ساقی کے ذہن پر اس دوران ثبت ہوئے تھے۔ وہ ابھی تک اسے بھولے نہیں تھے اور وہ یہ تھے && اے میرے راست باز ساتھی۔ اس خطاب کے بعد اس نے سیدنا یوسف کو بادشاہ کا خواب حرف بحرف سنایا۔ تعبیر بتانے والوں کا جواب بھی بتایا۔ پھر اس کے بعد خواب کی تعبیر پوچھی اور اس کی غرض یہ بتائی کہ ایک تو بادشاہ کو تعبیر بتانے والوں کو اور عام لوگوں کو اس خواب کی تعبیر کا علم ہوجائے۔ دوسرے ان سب کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک صاحب علم و اخلاق اور لائق ترین شخص مدتوں سے بےگناہ قید میں پڑا ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ ۔۔ : ” يُوْسُفُ “ سے پہلے حرف ندا ” یَا “ وغیرہ محذوف ہے، جس کی وجہ سے یہ مبنی علی الضم ہے۔ ” الصِّدِّيْقُ “ ” صَدَقَ “ کے اسم فاعل میں مبالغہ ہے جو ہر حال میں اپنے قول، فعل اور حال کا سچا ہو، جس کی عادت ہی ہر حال میں سچ ہو، اس کا قول سچ ہو اور اس کا فعل اور حال بھی اس کے مطابق ہو۔ صدیقیت کے کئی درجے ہیں، مومن بھی صدیق ہے بمقابلہ کافر (دیکھیے حدید : ١٩) اور ابوبکر بھی صدیق ہیں اور امت میں اس درجے کا کوئی صدیق نہیں۔ ابراہیم اور ادریس ( علیہ السلام) کے بارے میں سورة مریم (٤١، ٥٦) میں ” صِدِّیْقاً نَّبِیَّا “ آتا ہے، یوسف (علیہ السلام) بھی صدیق ہیں۔ ساقی کو ان کا صدیق ہونا تعبیر سے پہلے بھی مشاہدے سے ثابت ہوچکا تھا، اسی لیے انھوں نے کہا : ( اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) [ یوسف : ٣٦ ] پھر تعبیر کے بعد عین اسی طرح واقع ہونے سے ان کے صدیق ہونے کی مزید تصدیق ہوگئی۔ یہاں ساقی کا رویہ دیکھیں کہ اس کی طرف سے بھول جانے کی معذرت کا کوئی ذکر نہیں اور یوسف (علیہ السلام) کے سینے کی وسعت دیکھیں، پوچھا ہی نہیں کہ تمہیں اتنی دیر یوسف صدیق یاد نہ آیا، اب کیا لینے آئے ہو۔ غرض کے بندوں اور محسنین کا یہی فرق ہے ۔ ساقی نے خواب دیکھنے والے کا ذکر نہیں کیا، البتہ خواب عین انھی الفاظ میں بیان کیا جو بادشاہ کے تھے، کیونکہ ایک لفظ کے فرق سے بھی مطلب کچھ اور بن جاتا ہے۔ قرآن میں دونوں جگہ خشک گائیوں کے موٹی گایوں کو کھانے کا ذکر تو ہے مگر خشک خوشوں کے سبز خوشوں پر لپٹنے کا ذکر مفسرین نے کہاں سے لیا ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ساقی نے درخواست کی کہ آپ ہمیں اس خواب کے بارے میں فتویٰ دیں (تعبیر بتائیں) لوگ منتظر ہیں، تاکہ میں جا کر انھیں بتاؤں اور وہ بھی جان لیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This begins with the address: يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ (Yusuf, 0 the truthful one ... ) in verse 46. It means that this person reached the prison and de-scribed his intent in a manner that he first confessed to the truthfulness of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in word and deed, and then requested him to give an interpretation of a dream. The dream he related was: The king has seen that seven fat cows are being eaten by seven lean ones; and he has seen that there are seven years of grain which are green and seven others which are dry. After having related the dream, this person said: لَّعَلِّي أَرْ‌جِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ (so that I may go back to the people, that they may know). It means: If you tell me the interpretation, it is possible that, when I go back to the people and report the interpretation to them, it is likely that, in this way, they get to know your excellence and expertise. According to Tafsir Mazhari, the format of events present in the world of autonomous images is what one sees in dreams. In that world, these images have particular meanings. The edifice of the art of interpreting dreams solely depends on knowing what a particular autono¬mous image in that world means. Allah Ta` ala had blessed Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) with perfection in this art. As soon as he heard the dream re¬lated, he knew that seven fat cows and seven green ears denote seven years during which crops will grow well as usual - because animal-driv¬en ploughing to level land and grow grain has a distinct role in it. Simi-larly, seven lean cows and seven dry ears of grain mean that, after the first seven years, there will be seven years of severe famine. As for the seven lean cows eating the seven fat ones, it means that the grain stored during the first seven years will all be eaten up during those years of famine - remaining there will be some grain needed for sowing.

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ یعنی اس شخص نے جیل خانہ پہنچ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے واقعہ کا اظہار اس طرح شروع کیا کہ پہلے یوسف (علیہ السلام) کے صدیق یعنی قول و فعل میں سچا ہونے کا اقرار کیا پھر درخواست کی کہ مجھے ایک خواب کی تعبیر بتلائیے خواب یہ ہے کہ بادشاہ نے یہ دیکھا ہے کہ سات بیل فربہ تندرست ہیں جن کو دوسرے سات بیل کھا رہے ہیں اور یہ کھانے والے لاغر و کمزور ہیں نیز یہ دیکھا کہ سات خوشے گندم کے سرسبز ہرے بھرے ہیں اور سات خشک ہیں اس شخص نے خواب بیان کرنے کے بعد کہا لَّعَلِّيْٓ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُوْنَ یعنی آپ بتلا دیں گے تو ممکن ہے کہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کو تعبیر بتلاؤں اور ممکن ہے کہ وہ اس طرح آپ کے فضل و کمال سے واقف ہوجائیں تفسیر مظہری میں ہے کہ واقعات کی جو صورتیں عالم مثال میں ہوتی ہیں وہی انسان کو خواب میں نظر آتی ہیں اس عالم میں ان صورتوں کے خاص معنی ہوتے ہیں فن تعبیر خواب کا سارا مدار اس کے جاننے پر ہے کہ فلاں صورت مثالی سے اس عالم میں کیا مراد ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ فن مکمل عطا فرمایا تھا آپ نے خواب سنکر سمجھ لیا کہ سات بیل فربہ اور سات خوشے ہرے بھرے سے مراد سات سال ہیں جن میں پیداوار حسب دستور خوب ہوگی کیونکہ بیل کو زمین کے ہموار کرنے اور غلہ اگھانے میں خاص دخل ہے اسی طرح سات بیل لاغر کمزور اور سات خشک خوشوں سے مراد یہ ہے کہ پہلے سال کے بعد سات سال سخت قحط کے آئیں گے اور کمزور سات بیلوں فربہ بیلوں کے کھا لینے سے یہ مراد ہے کہ پچھلے سات سال میں جو ذخیرہ غلہ وغیرہ کا جمع ہوگا وہ سب ان قحط کے سالوں میں خرچ ہوجائے گا صرف بیج کے لئے کچھ غلہ بچے گا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُوْسُفُ اَيُّہَا الصِّدِّيْقُ اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۝ ٠ۙ لَّعَلِّيْٓ اَرْجِـــعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٤٦ صِّدِّيقُ : من کثر منه الصّدق، وقیل : بل يقال لمن لا يكذب قطّ ، وقیل : بل لمن لا يتأتّى منه الکذب لتعوّده الصّدق، وقیل : بل لمن صدق بقوله واعتقاده وحقّق صدقه بفعله، قال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم/ 41] ، وقال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم/ 56] ، وقال : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة/ 75] ، وقال : فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء/ 69] ، فَالصِّدِّيقُونَ هم قوم دُوَيْنَ الأنبیاء في الفضیلة علی ما بيّنت في «الذّريعة إلى مکارم الشّريعة» صدیق وہ ہے جو قول و اعتقاد میں سچا ہو اور پھر اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کر دکھائے ۔ قرآن میں ہے ؛وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم/ 41] اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے ۔ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة/ 75] اور ان کی والدہ ( مریم ) خدا کی ولی تھی ۔ اور آیت ؛مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء/ 69] یعنی انبیاء اور صدیق اور شہداء میں صدیقین سے وہ لوگ مراد ہیں جو فضیلت میں انبیاء سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الی پکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔ فَتْوَى والفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] ، أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل/ 32] . اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] تو ان سے پوچھو ۔۔۔ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل/ 32] . میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ سبع أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] ( س ب ع ) السبع اصل میں |" سبع |" سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ سمن السِّمَنُ : ضدّ الهزال، يقال : سَمِينٌ وسِمَانٌ ، قال : أَفْتِنا فِي سَبْعِ بَقَراتٍ سِمانٍ [يوسف/ 46] ، وأَسْمَنْتُهُ وسَمَّنْتُهُ : جعلته سمینا، قال : ( س م ن ) السمن کے معنی موٹا پہ کے ہیں اور یہ ھزال کی ضد ہے اور سمین ( صیغہ صفت کے معنی ہیں فریہ ج سمان قرآن میں ہے : ۔ أَفْتِنا فِي سَبْعِ بَقَراتٍ سِمانٍ [يوسف/ 46] ہمیں ( اس خواب گی تعبیر) بتایئے کہ سات موٹی گایوں کو۔ عجف قال تعالی: سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف/ 43] ، جمعُ أَعْجَفَ ، وعَجْفَاءَ ، أي : الدّقيق من الهُزال، ( ع ج ف ) عجف ( صفت ) کے معنی انتہائی لاغر اور دبلا کے ہیں اس کی مؤنث عجفاء ہے اور جمع عجاف قرآن میں ہے : ۔ سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف/ 43] سات دبلی سُّنْبُلَةُ والسُّنْبُلَةُ جمعها سَنَابِلُ ، وهي ما علی الزّرع، قال : سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف/ 46] ، وأَسْبَلَ الزّرعُ : صار ذا سنبلة، نحو : أحصد وأجنی، والْمُسْبِلُ اسم القدح الخامس السنبلۃ : بال ۔ اس کی جمع سنابل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة/ 261] سات بالیں ہر بال میں ۔ سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف/ 46] سات سبز بالیں ۔ اسبل الزرع کھیتی میں بالیں پڑگئیں ( ماخذہ کے ساتھ متصف ہونا کے معنی پائے جاتے ہیں ) جیسے احصد الزرع واجنی النخل کا محاورہ ہے : ۔ المسبل جوئے کے تیروں میں سے پانچواں تیر ۔ يبس يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه/ 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین . ( ی ب س ) یبس ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه/ 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) چناچہ وزراء سلطنت نے اس کو جیل خانہ جانے کی اجازت دی، چناچہ وہ کہنے لگا اے یوسف اس خواب کی تعبیر دیجیے کہ سات موٹی گائیں نہر سے نکلیں اور اس کو سات کمزور گائیں کھاگئیں اور اس کے علاوہ سات ہری بالوں کو سات خشک بالیں کھاگئیں تاکہ میں بادشاہ کے پاس جاؤں اور ان لوگوں کو بھی بادشاہ کے خواب کی تعبیر معلوم ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. The Arabic word Siddiq is used for the one who is an embodiment of truth and righteousness. Thus it shows that the butler had been so deeply impressed with the pure character of Prophet Joseph that even years had failed to blot it from his heart. For its meaning please refer to (E.N. 99 of Surah An-Nisa). 40. That is, they might understand your true worth and realize their own error in keeping you in prison without any just cause. And in a way I may get the opportunity of fulfilling the promise I made with you during my imprisonment.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :39 متن میں لفظ ”صدیق “ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں سچائی اور راستبازی کے انتہائی مرتبے کہ لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قید خانے کے زمانہ قیام میں اس شخص نےیوسف علیہ السلام کی سیرت پاک سے کیسا گہرا اثر لیا تھا اور یہ اثر ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی کتنا راسخ تھا ۔ صدیق کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، جلد اول سورہ نساء ، حاشیہ نمبر ۹۹ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :40 یعنی آپ کی قدر و منزلت جان لیں اور ان کو احساس ہو کہ کس پایہ کے آدمی کو انہوں نے کہاں بند کر رکھا ہے ، اور اس طرح مجھے اپنے اس وعدے کے ایفاء کا موقع مل جائے جو میں نے آپ سے قید کے زمانہ میں کیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: حقیقت جان لینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خواب کی صحیح تعبیر سمجھ لیں۔ اور یہ بھی کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں حقیقت حال سے واقف ہوجائیں کہ ایک ایسا نیک اور راست باز انسان بے گناہ قید میں پڑا ہوا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:46) افتنا۔ ہمیں بتا۔ امر واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر جمع متکلم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی وہ جان لیں اور پھر اپنے علم کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کریں یا یہ کہ انہیں تیری قدر معلوم ہو اور احساس ہو کہ کتنے بڑے ذی علم اور لائق آدمی کو انہوں نے جیل میں ڈال رکھا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ رہائی پانے والے قیدی کا جیل میں آنا اور یوسف (علیہ السلام) کو آواز دینا۔ بادشاہ کا غلام جو حضرت یوسف کا قید میں ساتھی تھا بھاگم بھاگ یوسف (علیہ السلام) کی بیرک کے دروازے پر پہنچ کر آواز دیتا ہے کہ اے سچ بولنے والے یوسف ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں پتلی دبلی سات گائیں کھائے جا رہی ہیں اور سات سبزو شاداب بالیاں ہیں اور سات بالیاں سوکھی ہوئی ہیں۔ ازراہ کرم مجھے ان کی حقیقت بتلا تاکہ میں واپس جا کر لوگوں کو بتلاؤں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے فرمایا ” کہ پہلے تم سات سال کھیتی باڑی کرو گے۔ ان سات سالوں میں تمہاری فصلیں خوب اناج دیں گی۔ مگر تمہیں یہ کرنا ہوگا کہ جو تمہارے کھانے سے بچ جائے اس اناج کو ڈالیوں میں ہی رہنے دو ۔ اس کے بعد سات سال قحط سالی کے ہوں گے اور تم محفوظ کیا ہوا غلہ استعمال کرو گے۔ سوائے اس کے کہ جو اس میں سے بچ جائے۔ اس کے بعد اگلا سال نہایت ہی سبزو شاداب اور خوشحالی کا ہوگا اور تم لوگ خوب پھلوں کا رس نچوڑوگے۔ “ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے لوگ پھلوں کا جوس بھی پیا کرتے تھے۔ سابقہ قیدی یعنی سرکاری اہلکار کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں آنا اور ان سے بادشاہ کے خواب کے بارے میں تعبیر پوچھنا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بلا تامل اسے نہ صرف خواب کی تعبیر بتلانا بلکہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ ماضی کے کسی واقعہ کو ذہن میں رکھے بغیر بادشاہ کی ذہنی الجھن اور قوم کی مشکل کا حل پیش کرنا بےمثال اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ ورنہ سب سے پہلے رہا ہونے والے سرکاری اہلکار کو کہتے کہ تم کیسے آدمی ہو کہ میں نے اپنی مظلومیت کے بارے میں تجھے بادشاہ کے لیے ایک پیغام دیا تھا مگر تو نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ بھی فرما سکتے تھے کہ پہلے جو مجھ پر زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا مداوا کرو۔ پھر میں تمہیں خواب کی تعبیر اور اس کا حل بتلاؤں گا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) شکایت کا ایک حرف بھی زبان پر نہیں لائے۔ فی الفور اسے خواب کی تعبیر اور مستقبل میں قوم کو درپیش آنے والی مصیبت کا حل بتلایا۔ اس موقع پر یہ بات بھی کھل جاتی ہے کہ رہا ہونے والا سرکاری ملازم پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قول کے سچے اور کردار کے پکے ہیں۔ اس لیے اس نے آپ ( علیہ السلام) کو ” الصدیق “ کہہ کر پکارا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق کا مقام انبیاء کے بعد بیان کیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نہ صرف الصدیق تھے بلکہ اللہ کے جلیل القدر نبی اور انبیاء کی اولاد تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پڑدادا حضرت ابراہیم کا لقب بھی صدیق ہے۔ ” اس کتاب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے بلاشبہ وہ صدیقنبی تھا۔ “ (مریم : ٤١) ” اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجیے بلاشبہ وہ صدیق نبی تھے۔ “ (مریم : ٥٦) ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لاتے ہیں وہ الصدیق ہیں۔ “ (الحدید : ١٩) خوشحالی کی قدر کرنی چاہیے : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ([ رواہ الحاکم ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے آپ نے فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ “ مسائل ١۔ خاندانی لوگ اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی خیر خواہی کا خیال رکھتے ہیں۔ ٢۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط سے بچنے کی تدبیر بتائی۔ ٣۔ خاندانی لوگ اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن صدیقین اور صادقون کا تذکرہ : ١۔ اے سچے یوسف ! ہمیں تعبیر بتلا۔ (یوسف : ٤٦) ٢۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی وہی سچے ہیں۔ (الحشر : ٨) ٣۔ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلا دے گا۔ (الاحزاب : ٢٤) ٤۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء : ٦٩) ٥۔ قیامت کے دن سچوں کو ان کی سچائی کا صلہ ملے گا۔ (المائدۃ : ١١٩) ٦۔ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے مال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جدوجہد (جہاد) کرتے رہتے ہیں۔ (الحجرات : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں یہ شخص یوسف کے لیے صدیق کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ یعنی بکثرت سچائی بولنے والے یہ لفظ اس لیے استعمال کرتا ہے کہ اس دیکھ لیا کہ حضرت اعلی درجے کے صدیق ہیں۔ اور پھر بادشاہ کا خواب نقل کردیتا ہے۔ افتنا۔ ۔۔۔ یہ شخص خواب کے الفاظ پورے کے پورے نقل کرتا ہے کیونکہ خواب کی تعبیر چاہتا ہے۔ لہذا پورا خواب بتانا ضروری ہے۔ چناچہ وہ خواب لفظ بلفظ نقل کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ اس سے پہلے اندماج ہے یعنی پھر انہوں نے ساقی کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور اس نے جا کر شاہ مصر کا خواب ان کے سامنے بیان کیا فی الکلام حذف ای فارسلوہ فاتاہ فقال یا یوسف الخ (روح ج 12 ص 254) ۔ ” اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ “ اے بہت ہی سچ بولنے والے۔ ساقی قید خانے میں چند دن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر نیز اپنے خواب کے معاملہ میں ان کی سچائی کا تجربہ کرچکا تھا اس لیے ان کو لقب صدیق سے خطاب کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46 ۔ غرض وہ جیل خانے گیا اور اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا اے یوسف (علیہ السلام) اے سچے تو ہم کو اس خواب کی تعبیر بتا کہ سات گائیں موٹی جن کو دوسری سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالوں کو دوسری خشک بالیں ان ہری بالوں کو لپیٹ کر خشک بنا رہی ہیں تا کہ میں آپ کا جوا ب لیکر ان لوگوں کے پاس واپس لوٹ کر جائوں تا کہ وہ خواب کی تعبیر اور آپ کی خداداد قابلیت سے واقف ہوجائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تا کہ تیری قدر معلوم ہو۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ یہ ساقی جیل خانے گیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خواب سنادیا آگے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر اور ان کے صحیح مشورے کا ذکر ہے۔