Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 54

سورة يوسف

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡہُ لِنَفۡسِیۡ ۚ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ ﴿۵۴﴾

And the king said, "Bring him to me; I will appoint him exclusively for myself." And when he spoke to him, he said, "Indeed, you are today established [in position] and trusted."

بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کرلوں پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Rank with the King of Egypt Allah states that when he became aware of Yusuf's innocence and his innocence of what he was accused of, وَقَالَ الْمَلِكُ ايْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ... And the king said: "Bring him to me that I may attach him to my person." `that I may make him among my close aids and associates,' ... فَلَمَّا كَلَّمَهُ ... Then, when he spoke to him, when the king spoke to Yusuf and further recognized his virtues, great ability, brilliance, good conduct and perfect mannerism, ... قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مِكِينٌ أَمِينٌ he said: "Verily, this day, you are with us high in rank and fully trusted." The king said to Yusuf, `You have assumed an exalted status with us and are indeed fully trusted.' Yusuf, peace be upon him said,

جب بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کھل گئی تو خوش ہو کر کہا کہ انہیں میرے پاس بلا لاؤ کہ میں انہیں اپنے خاص مشیروں میں کر لوں ۔ چانچہ آپ تشریف لائے ۔ جب وہ آپ سے ملا ، آپ کی صورت دیکھی ۔ آپ کی باتیں سنیں ، آپ کے اخلاق دیکھے تو دل سے گرویدہ ہو گیا اور بےساختہ اس کی زبان سے نکل گیا کہ آج سے آپ ہمارے ہاں معزز اور معتبر ہیں ۔ اس وقت آپ نے ایک خدمت اپنے لئے پسند فرمائی اور اس کی اہلیت ظاہر کی ۔ انسان کو یہ جائز بھی ہے کہ جب وہ انجان لوگوں میں ہو تو اپنی قابلیت بوقت ضرورت بیان کر دے ۔ اس خواب کی بنا پر جس کی تعبیر آپ نے دی تھی ۔ آپ نے یہی آرزو کی کہ زمین کی پیداوار غلہ وغیرہ جو جمع کیا جاتا ہے اس پر مجھے مقرر کیا جائے تاکہ میں محافظت کروں نیز اپنے علم کے مطابق عمل کر سکوں تاکہ رعایا کو قحط سالی کی مصیبت کے وقت قدرے عافیت مل سکے ۔ بادشاہ کے دل پر تو آپ کی امانت داری ، سچائی ، سلیقہ مندی اور کامل علم کا سکہ بیٹھ چکا تھا اسی وقت اس نے اس درخواست کو منظور کر لیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 جب بادشاہ ریان بن ولید یوسف (علیہ السلام) کے علم و فضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی بھی واضح ہوگئی، تو اسے حکم دیا کہ انھیں میرے سامنے پیش کرو، میں انھیں اپنے لئے منتخب کرنا یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں۔ 54۔ 2 مَکِیْنُ مرتبہ والا، آمِین رموز مملکت کا راز دان۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] شاہ مصر کی یوسف (علیہ السلام) کو پیش کش :۔ بادشاہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت سے بہت متاثر ہوچکا تھا۔ آپ کی قید سے پہلے آپ کی پاکیزہ سیرت کا چرچا اس نے بھی سنا تھا۔ اس کے ساقی نے آپ کی بہت تعریف کی تھی۔ خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں وہ آپ کے علم و فضل اور تدبر سے بہت مرعوب ہوا تھا اور اب موجودہ قضیہ میں آپ کی مکمل بریت نے اس کے دل میں آپ کی قدر و منزلت اور بھی بڑھا دی تھی۔ لہذا اس نے اپنے قاصد کو حکم دیا کہ وہ یوسف کو بلا لائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ میں اسے اپنا مدار المہام بنانا چاہتا ہوں۔ پھر جب آپ بادشاہ کے پاس تشریف لے آئے اور آپس میں گفتگو ہوئی تو آخر میں بادشاہ نے آپ سے کہا کہ آج سے ہی آپ ہمارے ہاں صاحب اقتدار ہیں اور ہمیں آپ کی دیانت و امانت پر پورا پورا اعتماد ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ : یہاں سے یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے، جب غلامی و قید ختم ہوئی اور آزادی اور حکومت و سلطنت عطا ہوئی۔ ” اَسْتَخْلِصْهُ “ یہاں بادشاہ ” اُخْلِصْہُ “ بھی کہہ سکتا تھا، جیسا کہ ( اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ ) [ یوسف : ٢٤ ] میں باب افعال استعمال ہوا ہے۔ ” اَسْتَخْلِصْهُ “ میں سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہیں کہ ” میں اس کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے خاص کرلوں۔ “ بادشاہ نے جب یوسف (علیہ السلام) سے اپنے خواب کی صحیح تعبیر سنی، پھر بلانے کے باوجود کئی سال بےگناہ قید رہ کر بھی اپنی بےگناہی ثابت ہونے سے پہلے قید خانے سے نکلنے سے انکار دیکھا، پھر تمام متعلقہ خواتین حتیٰ کہ عزیز کی بیوی سے ان کی پاک دامنی اور بےگناہی کی تصدیق سنی تو ان کی شخصیت کا اتنا مشتاق ہوا کہ اس نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے اپنے لیے خاص کرلوں گا۔ پھر جب یوسف (علیہ السلام) نے بنفس نفیس اس سے گفتگو کی تو بادشاہ نے ان کے علم کی وسعت، اخلاق کی خوبی اور دوسرے اوصاف حسنہ کا عین الیقین ہونے کے بعد کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں مکین و امین، یعنی صاحب اقتدار اور امانت دار ہو۔ ” مَكِيْنٌ“ اس ” مَکَانَۃٌ“ (مرتبے) والے کو کہتے ہیں جو صرف ایک یا چند ایک کے سوا کسی کو حاصل نہ ہو۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال دیکھیے، جب وحی کے سلسلے میں جبریل (علیہ السلام) کا ذکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ۙاِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 19 ۝ ۙذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ 20 ۝ ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ ) [ التکویر : ١٩ تا ٢١ ] ” بیشک یہ یقیناً ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔ بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے۔ “ اور آپ جانتے ہیں کہ فرشتوں میں جبریل (علیہ السلام) کو کیا مرتبہ حاصل ہے کہ بنی آدم کے تمام انبیاء و رسل کی طر فاللہ کی جانب سے انھیں رسول چنا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا، فرمایا : (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) [ النجم : ١٨ ] ” بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “ ان سے بڑھ کر اللہ کا قرب رکھنے والا کوئی فرشتہ ہمیں معلوم نہیں۔ ” اَمِيْنٌ“ یعنی اپنی ذات، مملکت کے معاملات و اسرار اور سب لوگوں کے جان و مال اور ان کے درمیان عدل و انصاف میں تم ہمارے ہاں مکمل قابل اعتماد ہو، تمہاری امانت پر ہمیں پورا بھروسا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the next verse (54) which begins with the words: وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ (Bring him to me ...), it has been said, when the king of Egypt investigat¬ed about the event, as requested by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، Zulaikha and all other women concerned with it confessed to the truth. The king, then, ordered that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) be brought to him so that he can ap¬point him as his personal adviser. According to the royal order, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was brought with full honours from the prison to the royal court. When he got an idea of his full potential by talking to him, the king said: ` Today you are with us firmly accommodated and trusted.& Imam al-Baghawi reports: When the emissary of the king arrived again at the prison to convey the invitation of the king to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، he prayed for all inmates of the prison, took a ritual bath and donned a new dress. When he arrived at the royal court, the du a& he made was: حَسبِی رَبَّی مِن دُنیَایَ و حَسبِی رَبِّی مِن خَلقِہِ عَزّ جَارُہ وجَلَّ ثَنَأٰیٌہ ۔ وَلَا اِلٰہَ غَیرُہ For me sufficient is my Lord against my world and, for me, suf¬ficient is my Lord against the whole creation. Mighty is he who comes under His protection; and most sublime is His praise; and there is no deity worthy of worship other than Him. When he reached inside the court, he turned to Allah again, prayed again in the same spirit and greeted the court in Arabic saying: اَلسلامُ عَلَیکُم وَ رَحمَۃ اللہِ (Peace on you and the mercy of Allah). For the king, the prayer he made was in Hebrew. The king, though he knew many lan¬guages, was not aware of Arabic and Hebrew. It was Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) who told him that the Salam was in Arabic and the Du a&, in Hebrew. It also appears in a narration that the king talked to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in many different languages and Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) replied to him in the language spoken by him, adding Arabic and Hebrew as two additional languages which the king did not know. This episode greatly increased respect for Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in the heart of the king. After that, the king wished to hear him give the interpretation of his dream directly before him. In response, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) first described before him particular details of his dream which he himself had not told anyone about, and then told him the interpretation as he had wished. The king was astonished. Though, it was not so much about the interpretation given. What made him really wonder was how could he find out all those details. After that, the king sought his counsel on what should he do next. The advice given by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was: During the first seven years of expected heavy rains, you should have arrangements made so that cultivation and crops yield their highest. This could be done by giving incentives to people to make sure that their maximum land areas come under cultivation and crops turn out plentiful and let them keep storing one fifth of their total produce with them. Thus, the people of Egypt would have stored with them enough for the seven years of famine and you would not have to worry on their account. Keep whatever supply of grains comes to the government through fixed taxes or state lands stored for those coming from outside the country - because, this famine will be wide-spread. People living in adjoining countries would need your help. At that time, you may come to the help of many a deprived people around you by giving it to them. Even if you were to put an ordinary price on it, you can be sure of collecting in the government treasury the amount of wealth that had never been there. The king was immensely pleased with this advice, but did wonder how would such a stupendous plan be managed, and who would do that.

(آیت) وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ الخ یعنی بادشاہ مصر نے جب یوسف (علیہ السلام) کے فرمانے کے مطابق عورتوں سے واقعہ کی تحقیق فرمائی اور زلیخا اور دوسری سب عورتوں نے حقیقت واقعہ کا اقرار کرلیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں ان کو اپنا مشیر خاص بنا لوں حکم کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کو اعزاز کے ساتھ جیل خانہ سے دربار میں لایا گیا اور باہمی گفتگو سے یوسف (علیہ السلام) کی صلاحیتوں کا پورا اندازہ ہوگیا تو بادشاہ نے کہا کہ آپ آج ہمارے نزدیک بڑے معزز اور معتمد ہیں امام بغوی (رح) نے نقل کیا ہے کہ جب بادشاہ کا قاصد جیل میں یوسف (علیہ السلام) کے پاس دوبارہ پہنچا اور بادشاہ کی دعوت پہنچائی تو یوسف (علیہ السلام) نے سب جیل والوں کے لئے دعا کی اور غسل کر کے نئے کپڑے پہنے جب دربار شاہی پر پہنچنے تو یہ دعاء کی حسبی ربی من دنیای وحسبی ربی من خلقہ عز جارہ وجل ثناہ ولآ الٰہ غیرہ۔ یعنی میری دنیا کے لئے میرا رب مجھے کافی ہے اور ساری مخلوق کے بدلے میرا رب میرے لئے کافی ہے جو اس کی پناہ میں آ گیا وہ بالکل محفوظ ہے اور اس کی بڑی تعریف ہے اور اسکے سوا کوئی معبود نہیں جب دربار میں پہنچنے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اسی طرح دعاء کی اور عربی زبان میں سلام کیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور بادشاہ کیلئے دعاء عبرانی زبان میں کی بادشاہ اگرچہ بہت سی زبانیں جانتا تھا مگر عربی زبانوں سے واقف نہ تھا یوسف (علیہ السلام) نے بتلایا کہ سلام تو عربی زبان میں کیا گیا ہے اور دعا عبرانی زبان میں اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) سے مختلف زبانوں میں باتیں کی یوسف (علیہ السلام) نے اس کو اسی زبان میں جواب دیا اور عربی اور عبرانی کی دو زبانیں مزید سنائیں جن سے بادشاہ واقف نہ تھا اس واقعہ نے بادشاہ کے دل میں یوسف (علیہ السلام) کی غیر معمولی وقعت قائم کر دی پھر شاہ مصر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں آپ سے اپنے خواب کی تعبیر بلاواسطہ سن لوں یوسف (علیہ السلام) نے پہلے اس کے خواب کی ایسی تفصیلات بتلائیں جو اب تک بادشاہ نے بھی کسی سے ذکر نہیں کی تھیں پھر تعبیر بتلائی شاہ مصر نے کہا کہ مجھے تعبیر سے زیادہ اس پر حیرت ہے کہ یہ تفصیلات آپ کو کیسے معلوم ہوئیں اس کے بعد بادشاہ مصر نے مشورہ طلب کیا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے تو یوسف (علیہ السلام) نے مشورہ دیا کہ پہلے سات سال جن میں خوب بارشیں ہونے والی ہیں ان میں آپ زیادہ سے زیادہ کاشت کرا کر غلہ اگانے کا انتظام کریں اور سب لوگوں کو ہدایت کریں کہ اپنی اپنی زمینوں میں زیادہ سے زیادہ کاشت کریں اور جتنا غلہ حاصل ہوا اس میں سے پانچواں حصہ اپنے پاس ذخیرہ کرتے رہیں اس طرح اہل مصر کے پاس قحط کے سات سال کے لئے بھی ذخیرہ جمع ہوجائے گا اور آپ ان کی طرف سے بےفکر ہوں گے حکومت کو جس قدر غلہ سرکاری محاصل سے یا سرکاری زمینوں سے حاصل ہو اس کو باہر کے لوگوں کے لئے جمع رکھیں کیونکہ یہ قحط دور دراز تک پھیلے گا باہر کے لوگ اس وقت آپ کے محتاج ہوں گے اس وقت آپ غلہ دے کر خلق خدا کی امداد کریں اور معمولی قیمت بھی رکھیں گے تو سرکاری خزانہ میں اتنا مال جمع ہوجائے گا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا شاہ مصر اس مشورہ سے بیحد مسرور و مطمئن ہوا مگر کہنے لگا کہ اس عظیم منصوبہ کا انتظام کیسے ہو اور کون کرے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِيْ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا كَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ۝ ٥٤ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ کلام الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ مكين وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير/ 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ( مکین ) اس آيت میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير/ 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ امین : امانت دار۔ معتبر۔ امن والا۔ امانۃ باب کرم مصدر سے ۔ بمعنی امانت دار ہونا۔ ا میں ہونا۔ اور امن باب سمع مصدر بمعنی امن میں ہونا۔ مطمئن ہونا۔ محفوظ ہونا سے اسم فاعل کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مفعول کا بھی کیونکہ فعیل کا وزن دونوں میں مشترک ہے یہ رسول کی پانچویں صفت ہے اور وہ وہاں کا امین ہے۔ پر اعتماد ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے وقال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفی فلماکلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین۔ بادشاہ نے کہا : ” انہیں میرے پاس لائو تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کرلوں “ جب یوسف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا :” اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسہ ہے “ چونکہ یہ بادشاہ عقل اور سمجھ رکھتا تھا اس لیے وہ حضرت یوسف علیہ کے حسن و جمال اور پر وقار شخصیت سے اس طرح متاثر نہیں ہوا جس طرح عورتیں اپنی کم عقلی اور ناسمجھی کی بنا پر ان سے متاثر ہوگئی تھیں ، نیز ان عورتوں نے صرف آپ کے ظاہری حسن و جمال کو دیکھا تھا آپ کی عقل مندی اور سمجھ داری کی خوبیوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ اس کے برعکس بادشاہ نے اس ظاہری کیفیت کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی ، لیکن اسے ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملا تو وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے باطنی کمالات سے ان کے بیان اور علم کی روشنی میں پوری طرح آگاہ ہوگیا اور کہنے لگا انک الیوم لدینا مکین علیم حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جوابا ً جو کچھ اس سے کہا قرآن نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ملک کے خزانے میرے سپرد کیجئے میں حفاظت کرنیوالا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ۔ آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے فضل و کمال کا ایسے شخص کے سامنے تذکرہ کرے جسے اس کا علم نہ ہو تو اسے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے اس کا یہ اقدام قول باری فلا تزکو انفسکم تم اپنی خود ستائی نہ کرو خود ستائی کی ممانعت کے ذیل میں نہیں آتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) یہ باتیں سن کر بادشاہ نے کہا کہ انکو (حضرت یوسف (علیہ السلام) کو) میرے پاس لاؤ میں ان کو عزیز سے لے کر خاص اپنے کام کے لیے رکھوں گا، چناچہ لوگ ان کو بادشاہ کے پاس لائے اور بادشاہ کے سامنے پھر انہوں نے خواب کی تعبیر بیان کی، بادشاہ نے ان سے کہا تم میرے نزدیک آج سے بڑے معزز ومعتبر اور صاحب امانت ہو (بادشاہ کو انتظام قحط کی فکر ہوئی )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ) آج سے آپ کا شمار ہمارے خاص مقربین میں ہوگا اور اس لحاظ سے مملکت کے اندر آپ کا ایک خاص مقام ہوگا۔ آپ کی امانت و دیانت پر ہمیں پورا پورا بھروسا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. It implied this: we have such a high opinion of you that we can safely entrust you with the highest office of responsibility in the country." 47a. As this verse has given rise to some important questions, let us consider these one by one. The first question is: Was it an application made by Prophet Joseph to the king for some post? In the light of the preceding explanatory notes, it would have become obvious that it was neither an application nor a request made by an ambitious person who had been on the lookout for an opportune moment for its submission, and no sooner did the king express his approval of him than he presented his request before him. As a matter of fact, this was a sort of proposal, giving his assent to the great desire of the king and the courtiers that he should be appointed as governor over the land. For, according to the Talmud, the Hebrew has proved himself wise and skillful, and “...surely there can be none more discrete than myself to whom God has made known all these things.” The king, his courtiers, his princes, officers, and men of rank, had by that time, come to know and recognize his true worth and had had experience of his moral superiority during the last decade of the vicissitudes of his life. He had proved that there was none equal to him in honesty, righteousness, forbearance, self discipline, generosity, intelligence and understanding. They knew and believed that he was the only one who knew how to guard and utilize the resources of the land and could be safely entrusted with them. Therefore, as soon as he showed his willingness, they heartily put these in his trust. This is also confirmed by the Bible that the king had formed a very high opinion of Prophet Joseph. He said to his servants: Can we find such a one as this is, a man in whom the spirit of God is? Above all, he said to Prophet Joseph: There is none so discreet and wise as thou art. (Gen. 41: 38-39). Accordingly, therefore, the king, of his own accord, set him over his house and land. (Gen. 41: 41). Let us now take up the second question: What was the nature of the powers that were entrusted to Prophet Joseph? This is important because those who are not well versed in the Quran have been misled by the words in this verse and by his subsequent work of the distribution of grain. They wrongly conclude from these that this post was like the present day posts of a “Treasury Officer” or a “Famine Commissioner” or a “Finance Minister” etc. etc. In fact, it was none of these, for, according to the Quran and the Bible and the Talmud, Prophet Joseph had been invested with the full powers and privileges of a ruler. That is why he sat on the throne (Ayat 100) and they used the title of malik, king, for him. (Ayat 72). He himself was grateful to Allah for bestowing the kingdom on him. (Ayat 101). Above all, Allah Himself testifies to this fact: Thus We gave power to Joseph in the land, so he had every right to take possession of any piece of it, if he so desired. (Ayat 56). As regards the Bible, it says: And Pharaoh said unto Joseph: Thou shalt be over my house, and according unto thy word shall all my people be ruled: See, I have set thee over all the land of Egypt.... and without thee shall no man lift up his hand or foot in all the land of Egypt, and called Joseph’s name Zaphnath-paaneah (savior of the world). (Gen. 41: 40-45). And according to the Talmud, when his brothers returned with their father, Prophet Jacob, from Egypt, they said about Prophet Joseph: The king of Egypt is mighty potentate, over his people he is supreme; upon his word they go out and upon his word they come in; his word governs, and the voice of his master, Pharaoh, is not required. Another pertinent question is: What was the object for which Prophet Joseph made a proposal for powers in the land? Did he offer his services for the enforcement of the laws of a non-Muslim state? Or did he intend to establish the cultural, moral and political systems of Islam by taking the powers of government in his own hands? As for its answer let us quote the comments on this (verse 55) by Allamah Zamakhshari in his Kashshaf. He says, "When Prophet Joseph proposed: Please place all the resources of the country under my trust, he meant to get an opportunity for enforcing the commandments of Allah and for establishing truth and justice, and to gain that power which is essential for fulfilling the mission for which the Messengers are sent. He did not make this demand for the love of kingdom or for worldly desires and ambitions. He did this because he knew well that there was none else who could perform that work. In fact, the above question leads to a very important and basic issues. These are: Was Joseph a Prophet of Allah or not? If he was, does the Quran put forward such a conception of a Prophet that he himself should (as they allege Prophet Joseph did) offer his services to a system of unbelief to carry on its work on un-Godly principles? Nay, it leads to a more delicate and important question: Was he a righteous person or not? And, if he was, could it ever be expected that he would (according to their interpretation,) practically accept the theory that Sovereignty belongs to the king and not to Allah, whereas in the prison he preached, "Sovereignty belongs to none but Allah (Ayat 40)? For if, as they interpret, he submitted an application for service to the king, it meant that he did so against his own principles which he inculcated while in prison: “Which is better: various gods or the One Omnipotent Allah?” As the king of Egypt was one of the gods they had set up, so to offer services to carry on the work of the un-Islamic system under the existing un-Islamic law would have been tantamount to acknowledging the king as his Lord. Are they prepared to place Prophet Joseph in that position? It is an irony that such Muslims as interpret this verse in this way, lower the character of Prophet Joseph. They have evinced the same mentality that the Jews had developed during the period of their degeneration. When they became morally and mentally depraved, they deliberately began to represent their Prophets and saints as people of low character like themselves in order to justify their own degraded characters and to make room for excuses for going still lower. Likewise, when the Muslims came under the sway of non-Muslim governments, they wanted to serve under them, but the teachings of Islam and the patterns of their worthy forefathers stood in their way and they felt ashamed of this. So, in order to pacify their consciences, they sought refuge in this verse and by its misinterpretation thought that that great Prophet had made an application for a post to serve under a non-Muslim under un-Islamic laws. Whereas the Prophet’s own life taught the lesson that even a single Muslim could all by himself bring about the Islamic revolution in a whole country by his pure Islamic character, his faith, intelligence and wisdom and that a true believer is able to conquer, by the proper use of his moral character, a whole country without any army, ammunition or material provisions.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :47 یہ بادشاہ کی طرف سے گویا ایک کھلا اشارہ تھا کہ آپ کو ہر ذمہ داری کا منصب سونپا جاسکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے جو باتیں کیں، ان کی تفصیل بعض روایات میں اس طرح آئی ہے کہ اس نے پہلے تو خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف (علیہ السلام) سے سننے کی خواہش ظاہر کی، اس موقع پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کے خواب کی کچھ ایسی تفصیلات اس سے بیان کیں جو بادشاہ نے اب تک کسی اور کو نہیں بتائی تھیں، اس پر وہ نہایت حیرت زدہ ہوا، پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط کے سالوں کا انتظام کرنے کے لئے بھی بڑی مفید تجویزیں پیش کیں، جو اسے بہت پسند آئیں اور اسے آپ کی نیکی کا اطمینان ہوگیا، اس موقع پر اس نے آپ سے کہا کہ آپ پر چونکہ ہمیں پورا بھروسہ ہوچکا ہے، اس لئے آپ کا شمار حکومت کے معتمد افراد میں ہوگا، نیز جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط کے اثرات سے بچنے کی تدبیر بتائی تو بادشاہ نے پوچھا کہ اس کا انتظام کون کرے گا اس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے پیشکش کی کہ میں یہ ذمہ داری لینے کو تیار ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ ٥٥۔ ریان بن ولید بادشاہ مصر پر جب یہ بات اچھی طرح ظاہر ہوگئی کہ یوسف (علیہ السلام) اس تہمت سے بالکل پاک وصاف ہیں اور علاوہ اس کے خواب کی تعبیر سن کر یوسف (علیہ السلام) کے علم و فضل سے بھی وہ اچھی طرح آگاہ ہوچکا تھا۔ اس لئے اس نے دربار میں کہا کہ قاصد جا کر انہیں میرے پاس لے آئے ہیں۔ انہیں اپنا خاص مصاحب بناؤں گا حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بادشاہ کے قاصد نے یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ تم یہ کپڑے قید خانہ کے اتار دو اور یہ اچھے اچھے کپڑے جو اپنے ساتھ تمہارے واسطے لے کر آیا ہوں پہن لو اور شاہی دربار میں چلو وہاں تمہاری طلب ہو رہی ہے اس وقت قید خانہ والوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دعا دی آپ نے بھی انہیں دعا دی حضرت یوسف (علیہ السلام) اس وقت تیس برس کے تھے یوسف (علیہ السلام) جب بادشاہ کے پاس آئے اور بادشاہ نے آپ کو نوعمر دیکھا اور ان کا حسن بےنظیر پایا تو بادشاہ نے کہا کہ اس نے میرے خواب کی تعبیر جان لی اور ان ساحر اور کاہنوں نے جو بڑے تجربہ کار جہاں دیدہ اپنے اپنے علم میں ماہر ہیں میرے خواب کی تعبیر نہ بتلا سکے۔ پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سب سے بالادست اور آگے بٹھلایا اور خلعت عطا کیا اور ایک سواری آراستہ زین و لگام سے آپ کو عنایت کی اور شہر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ یوسف (علیہ السلام) اب سے بادشاہ کا خلیفہ ہوگیا اور جب بادشاہ اور یوسف (علیہ السلام) کی گفتگو ہوئی تو بادشاہ نے کہا کہ آج سے تم میرے پاس ایک خاص مصاحب صاحب قدرو منزلت مقرر کئے گئے اور تمہاری امانت و دیانت مجھ پر اچھی طرح ظاہر ہوگئی۔ اس لئے تم امین بھی بنائے گئے۔ یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کے حضور میں اپنی تقرری کا حال سن کر فرمایا کہ آپ مجھے تمام زمین مصر کی پیداوار کا خزانچی بنادیجئے اور اس سب کا اختیار میرے ہاتھ میں دیجئے میں اس کی پوری پوری حفاظت کروں گا۔ کیوں کہ مجھے ان سب امور کا علم حاصل ہے علم حساب بھی معلوم ہے یہ بھی خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ کس طرح مال و اسباب فراہم کرنا چاہیے اور کہاں کہاں اس کو اٹھانا چاہیے لوگوں کی بولیاں بھی سمجھتا ہوں ہر شہر کے لغت کا بھی علم مجھے حاصل ہے۔ آگے کی آیت { کذلک مکنا لیوسف فی الارض } سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ امارت کی خواہش اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلق کے فائدے کے لئے کی تھی اس لئے صحیح بخاری و مسلم کی عبد الرحمن بن سمرہ (رض) کی روایت میں امارت کی خواہش کی جو ممانعت ہے۔ اس میں اور یوسف (علیہ السلام) کی اس خواہش میں کچھ مخالفت نہیں ہے حدیث میں اس امارت کی ممانعت ہے جو طلب دنیا کے لئے ہو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی امارت طلب دنیا کے لئے نہیں تھی۔ ١ ؎ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٥٢٠ ج ٢ دیکھئے

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:54) استخلصہ لنفسی۔ میں اس کو خالص کرلوں اپنی ذات کے لئے۔ یعنی میں اس کو ذاتی مشیر بنا لوں۔ استخلص استخلاص (استفعال) سے مضاری واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ کلمہ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ہضمیر مفعول اس کا مرجع یوسف (علیہ السلام) ہے۔ اس (عزیز مصر) نے اس (حضرت یوسف) سے کلام کیا۔ گفتگو کی۔ مکین۔ صاحب ِ منزلت۔ معزز۔ محترم۔ مرتبہ والا۔ کون مصدر مکینصفت مشبہ ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یا حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بادشاہ سے گفتگو کی۔ (روح) ۔ 4 ۔ اب سے عزیز کا علاقہ موقوف کیا اپنی صحبت میں رکھا (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 54 تا 57 (کلم کلام کیا، بات کی) ( لدینا ہمارے پاس ) (مکین معزز، باعزت ) (امین معتبر، ایماندار، امانت دار) ( اجعلنی مجھے بنا دے ) (خزائن خزانے ) (حفیظ حفاظت کرنے والا، محافظ ) (علیم بہت جاننے والا) ( مکنا ہم نے ٹھکانا دیا، جما دیا ) (یتنبوء وہ ٹھکانا بتاتا ہے، با اختیار بناتا ہے) ( نصیب ہم پہنچاتے ہیں) ( لانضیع ہم ضائع نہیں کرتے) ( اجر اجر خیر زیادہ) تشریح آیت نمبر 54 تا 57 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کی زندگی کے اس پہلو کو نمایاں فرمایا ہے جہاں سے ان کی دنیاوی زندگی کا عروج شروع ہوتا ہے۔ یہ اس واقعہ کا اہم ترین پہلو بھی ہے مگر اس بات کو بھی ذہن میں رکھ لیجیے کہ محض ایک خواب کی تعبیر بیان کردینے اور زمین کے خزانوں (پیداوار) کی ذمہ داری قبول کرنے سے زندگی کا عروج شروع نہیں ہوا بلکہ اس واقعے کے پورے پس منظر کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو اس میں انسانی کردار کی وہ بلندیاں سامنے آتی ہیں جہاں ایک انسانی سچائی اور حق کے لئے ہر طرح کے مصائب اور پریشانیاں برداشت کر کے دلوں کو فتح کرلیتا ہے اور ہر شخص اس انسان کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ حضرت یوسف نے اپنی پاک دامنی کے لئے برسوں قید میں رہنا پسند کیا لیکن اس راستے پر چلنے سے صاف انکار کردیا جہاں ان کے دامن عصمت پر ایک دھبہ بھی لگ جانے کا اندیشہ تھا۔ حضرت یوسف کے اس واقعہ پر شروع سے نظر ڈالی جائے تو کردار کی یہ بلندی اور عروج کے دور کی ساری باتیں بہت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ 1) حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ان کو ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا۔ پھر بعد میں مدین کے ایک قافلے والوں کے ہاتھ چند درھموں کے بدلے میں فروخت کردیا تھا اور وہ اس بات سے مطمئن تھے کہ ان کی اور ان کے والد کی محبت میں اب کوئی آڑے نہ آسکے گا۔ 2) جب مصر کے بازار میں ایک غلام کی حیثیت سے ان کو فروخت کیا گیا تو ان کے ظاہری چہرے اور شخصیت کی یہ عظمت ہے کہ عام غلاموں کی طرح ان کی قیمت نہیں لگائی گئی جو اس بازار میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں فروخت کئے جاتے تھے بلکہ خریدنے والوں کے مقابلے کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی لگا رہے تھے۔ بالاخر حضرت یوسف کے وزن کے برابر سونا اور مشک کے بدلے ملک کے وزیر اعظم اور فوجوں کے سپہ سالار عزیز مصر نے خرید کر ان کو اپنے گھر میں بیٹوں کی طرح رکھا۔ اس واقعہ نے آپ کی شہرت کو پورے ملک میں پہنچا دیا اور یقینا گھر گھر میں اس کا چرچا اور شہرت پہنچ گئی ہوگی۔ 3) جب حضرت یوسف نے جوانی میں قدم رکھا اور ان کا حسن و جمال پوری نکھر کر سامنے آگیا تو عزیز مصر کی بیوی اپنے دل پر قابو نہ رکھ کسی اور ایک دن اس نے اپنے کسی خصوصی کمرے میں بلا کر دروازے بند کر لئے اور ان کو اپنی خواہش نفس کی طرف بلایا۔ حضرت یوسف کی اللہ نے مدد فرمائی اور وہ اس کی نیت اور ارادے کو بھانپ کر دروازے کی طرف دوڑے اللہ نے ہر دروازے کو اور ہر راستے کو ان کے لئے کھول دیا۔ زلیخا آپ کے پیچھے دوڑی۔ باہر کے دروازے پر عزیز مصر نے اس کیفیت کو دیکھا۔ زلیخا نے حضرت یوسف پر الٹا الزام لگا دیا کہ اے عزیز مصر ! اس غلام نے تیری بیوی کی آبرو پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ جیسا کہ گزشتہ آیات میں اس کی تفصیل آ چکی ہے کہ جب عزیز مصر کے سامنے ساری حقیقت کھل گئی تو وہ اس چال کو سمجھ گیا اور اس نے زلیخا سے کہا کہ مجھے عورتوں کے اس مکروہ فریب کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ عزیز مصر نے حضرت یوسف سے اپنی عزت کی خاطر یہ کہا کہ اے یوسف تم اس واقعہ کو نظر انداز کر دو میں ساری بات سمجھ گیا ہوں تم اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ لیکن یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو شاہی محل سے نکل کر مصر کے ہر گھر میں پہنچ گیا اور اس کی اچھی خاصی شہرت ہوگئی۔ 4) جب یہ واقعہ ملک میں ہر جگہ مشہور ہوگیا تو مصر کی عورتوں نے یہ طعنے دینے شروع کردیئے کہ عزیز مصر کی بیوی کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے غلام پر جان دے رہی ہے۔ زلیخا نے یہ سنا تو مصر کی تمام بیگمات کو اپنے گھر بلا کر زبردست دعوت کا انتظام و اہتمام کیا۔ اس زمانہ کی تہذیب کے مطابق فرش بچھا کر تکئے لگا دیئے۔ گئے سب کے سامنے ایسے پھل رکھ دیئے گئے جو چاقو سے کاٹ کر کھائے جاتے ہیں۔ سب نے پھل ہاتھ میں لے کر کھانے کے لئے کاٹنے شروع کئے ادھر حضرت یوسف کو اچانک سامنے لایا گیا۔ حضرت یوسف کے حسن و جمال کو دیکھ کر یہ بیگمات مصر اس قدر کھو گئیں کہ ان کے ہاتھ چاقوؤں سے زخمی ہوگئے، خون رسنے لگا اور ان کو پتہ ہی نہ چلا اور وہ کہہ اٹھیں کہ یہ انسان نہیں کوئی بہت ہی معزز فرشتہ ہیں۔ الیخا کی یہی خواہش تھی کہ مصر کی ہر عورت اس بات کو اچھی طرح جان لے کہ اگر وہ ان پر فدا وہ گئی ہے تو اس کے دل کا کوئی قصور نہیں ہے۔ 5) حضرت یوسف ، زلیخا اور بیگمات مصر کی خواہش بھری نظروں کو اچھی طرح محسوس کر رہے تھے۔ ایک دن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر عرض کردیا۔ الٰہی ! یہ عورتیں مجھے جس طرف لے جانا چاہتی ہیں اس سے مجھے بچا لے۔ اگر اس کے بدلے مجھے قید کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں تو وہ مجھے زیادہ پسند ہیں۔ 6) جب زلیخا کی دعوت میں آئی ہوئی بیگمات مصر بھی حضرت یوسف کے حسن و جمال کے سامنے بےبس سی ہوگئیں اور وہ دل و جان سے قربان ہوگئیں اور ان کے حسن و جمال اور زلیخا کی محبت کے چرچے گھر گھر ہونے لگے تو عزیز مصر نے بدنامی سے بچنے کے لئے حضرت یوسف کو جیل بھیج دیا۔ 7) جیل خانے میں حضرت یوسف نے تمام قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اور ہر ایک کی خبر گریی کی تو اس قید خانے کے منتظم اعلیٰ نے قید خانے کے سارے انتظامات ان کے حوالے کردیئے۔ حضرت یوسف کے حسن انتظام اور کردار کی بلندی کی شہرت بھی آہستہ آہستہ پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ 8) ایک دن دو قیدی لائے گئے جن میں سے ایک بادشاہ کا باورچی تھا دوسرا ساقی تھا جو بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر تھا۔ دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ہے۔ تحقیقات جاری تھیں اور اس عرصے میں ان کو قید کردیا گیا تھا تاکہ پوری تحقیق کرلی جائے اور کوئی فیصلہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف نے ان دونوں کے ساتھ بھی حسن سلوک فرمایا۔ یہ دونوں قیدی نے خواب دیکھے۔ حضرت یوسف نے ان کو جو تعبیر دی وہ اسی طرح پوری ہو کر رہی کہ ایک کو پھانسی کی سزا ہوگئی اور دوسرے کو جو بادشاہ کا ساقی تھا اس کو بےگناہ قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ وہ شخص جو بادشاہ کا ساقی تھا اور رہا کردیا گیا تھا حضرت یوسف نے اس سے کہا کہ بادشاہ کو یاد دلا دینا یعنی یہ کہ ایک شخص جو بےگناہ ہے اور عرصہ سے قید خانے میں پڑا ہوا ہے اس کا خیال کیا جائے۔ جب وہ ساقی رہا ہو کہ اپنی نوکری پر بحال ہوگیا تو وہ اس بات کو بھول گیا کہ وہ بادشاہ سے حضرت یوسف کا ذکر کرے تاکہ وہ بھی رہا ہوجائیں۔ 9) ایک رات بادشاہ مصر نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں ان کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیں ہیں جن پر سات سوکھی بالیں لپٹی ہوئی ہیں۔ صبح کو اٹھ کر اس نے اپنے دربار کے تمام کاہنوں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ کسی نے کچھ بتایا کسی نے کچھ اور بعض نے تو اس کو محض تصوراتی اور خیالی خواب بتا کر اس کی تعبیر سے عذر کردیا۔ اس موقع پر بادشاہ کے اس ساقی نے جس کو حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر بتائی تھی اس کو خیال آیا کہ اس خواب کی تعبیر حضرت یوسف ہی بتا سکتے ہیں اس نے بادشاہ سے کہا کہ اگر مجھے قید خانے میں جانے کی اجازت دی تو میں ایسے شخص سے واقف ہوں جس کو اللہ نے خوابوں کی تعبیر کا خاص علم عطا فرمایا ہے۔ وہ شخص قید خانے میں حضرت یوسف کے پاس پہنچا اور اس نے اس خواب کی تعبیر پوچھی حضرت یوسف نے فرمایا کہ اس خواب کی اہمیت یہ ہے کہ است سال تک خوب پیداوار ہوگی پھر خشک سالی کے سات سال ہیں۔ اس کے بعد اس خشک سالی سے بچنے کی ایک تدبیر ارشاد فرمائی۔ حالانکہ اس تدبیر سے اس خواب کا تعلق نہیں تھا لیکن حضرت یوسف نے حسن تدبیر بتا کر اپنی ذہانت کا مظاہرہ فرمایا۔ خواب کی اس تعبیر سے بادشاہ کو نہ صرف اطمینان ہوا بلکہ حضرت یوسف کے علم و فضل کا پوری طرح اندازہ ہوگیا۔ بادشاہ نے خواہش کا اظہار کیا کہ میں ایسی شخصیت سے ملنا چاہتا ہوں تاکہ ایسے باصلاحیت انسان کو اپنے سے قریب کر کے ملک کے لئے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ 10) بادشاہ مصر نے ایک قاصد بھیجا جس نے بادشاہ کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر حضرت یوسف نے یہ کہہ کر رہا ہونے سے صاف انکار کردیا کہ جب تک یہ بات صاف نہیں ہوجاتی کہ مجھے اتنے عرصے کیوں قید میں رکھا گیا۔ پہلے ان تمام عورتوں کو بلا کر اس سے پوچھا جائے جنہوں نے حضرت یوسف کو دیکھ کر اپنی انگلیاں زخمی کرلی تھیں بادشاہ نے زلیخا اور مصر کی ان تمام بیگمات کو طلب کر کے ان سے اصل واقعہ بیان کرنے کا حکم دیا۔ زلیخا اور تمام بیگمات مصر نے اس بات کا اعتراف واقرار کیا کہ حضرت یوسف قطعاً بےگنا ہیں۔ ہم نے ان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی مگر ان کا دامن عصمت بالکل پاک ہے۔ اس واقعہ نے بادشاہ کے دل میں حضرت یوسف کے اعلیٰ کردار ، تقویٰ و پرہیزگاری کی عظمت کو اور بھی اجاگر کردیا اور وہ ان سے ملنے کے لئے بےچین ہوگیا۔ جب حضرت یوسف بادشاہ کے پاس پہنچے تو اس نے یہ محسوس کیا کہ اللہ نے ان کو جتنا ظاہری حسن عطا فرمایا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کو کردار کی بلندی عطا فرمائی ہے۔ اس خواب کے حوالے سے بادشاہ نے یہ پوچھا کہ اگر یہ قحط نازل ہوتا ہے تو اس سے بچنے کی تدبیر کیا ہے یقینا اس موقع پر بادشاہ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہوگا۔ کہ اگر اس کی ذمہ داری ان پر ڈال دی جائے تو یقینا دو قحط سے بچنے کی بہتر تدبیر کرس کتے ہیں۔ اس کے پوچھنے پر حضرت یوسف کے لئے دنیاوی عروج تک پہنچنے کے تمام انتظامات فرما دیئے۔ حضرت یوسف نے ایسے اعلیٰ انتظامات کئے کہ بادشاہ اور پوری مملکت کا ہر فرد آپ کے حسن انتظام ذہانت اور امانت کا قائل ہوگیا۔ روایات میں آتا ہے کہ ان کے اس اعلیٰ کردار اور حسن انتظام کو دیکھ کر بادشاہ گوشہ نشین ہوگیا اور حضرت یوسف پوری مملکت کے بادشاہ بن گئے جب حضرت یوسف مصر پہنچے تھے اس وقت ان کی عمر سات سال کی تھی اور جب وہ مصر کے سربراہ بنے ہیں اس وقت ان کی عمر مبارک تیس سال تھی۔ گویا اللہ نے تئیس سال میں ایک ایسے نوجوان کو جو کبھی نہایت غربت کے عالم میں مصر کے بازار میں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کیا گیا تھا۔ تئیس سال میں اپنے کردار کی ان بلندیوں پر پہنچا دیا تھا جہاں ہر شخص ان کے اخلاق و کردار کا غلام بن چکا تھا۔ جیسا کہ سورة یوسف کی تفسیر کی ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت یوسف کے حالات زندگی میں بہت مشابہت ہے تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ حضرت یوسف کو بھی تمام مرحلوں سے گذرنے میں تئیس سال لگے اور قرآن کریم کی تعلیمات کی تکمیل میں بھی تئیس سال لگے۔ ان آیات میں کفار مکہ کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو دنیاوی عروج کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ آج مکہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو باظہر بےسرو سامان ہیں اسی طرح ان کو بھی تئیس سال میں دنیاوی عروج و سربلندی حاصل ہوجائے گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت یوسف کی حکومت ان کی زندگی تک محدود تھی لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کردار اور سیرت کی بلندی کا سلسلہ قیامت تک جار ری ہے گا اور آپ قیامت میں اپنی امت ہی کے نہیں بلکہ ساری امتوں کی گواہی دے کر ان کے بھی کام آئیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لئے سرور کونین ہیں کہ اس دنیا اور آخرت میں آپ کی رحمت ہی کام آئے گی۔ وما ارسلنک الارحمۃ للعالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ارشاد کے بعد بادشاہ وقت کی پیش کش۔ قرآن مجید کے مقدس انداز اور الفاظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مصر کے بادشاہ کی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ جس میں اس نے آپ سے درخواست کی کہ میں آپ کو اپنے کاموں کے لیے مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔ آج کے بعد آپ ہمارے نزدیک نہایت ہی قابل اعتماد اور مقرب ہوں گے۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ مجھے ملک کے وسائل کی ذمہ داری سونپیں۔ یقیناً میں ان کے مصرف کو جانتا ہوں اور معاملات کی حفاظت کروں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعویٰ اس لیے کیا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ناصرف انھیں خوابوں کی تعبیر کا علم دیا تھا بلکہ دیگر معاملات کو سمجھنے اور ان کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی۔ بائبل کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے بادشاہ نے اپنے وزراء اور ملک کے زعماء سے پہلے ہی یہ طے کر رکھا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کو کلی اختیار دیے جائیں۔ جس کے لیے اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی کہ میں اپنے لیے آپ کو مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔ جس کا یہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ میری ذاتی طور پر درخواست ہے کہ ملک کو مستقبل کے بحران سے نکلالنے کے لیے آپ عملی طور پر بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ اس سے بادشاہ کی اپنی قوم کے ساتھ خیر خواہی اور حب الوطنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس پیش کش کے ردّ عمل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ مجھے آپ ملک کے خزانوں کا اختیار دیں جسے انتظامی زبان میں وزیر خزانہ کہا جاسکتا ہے۔ میں اللہ کے فضل سے جانتا ہوں کہ معاشی بحران میں ملک کو کس طرح سنبھالادیا جاسکتا ہے۔ یہاں بہت سارے مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) وزیر خزانہ کے بجائے ملک کے تمام امور کے ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ بادشاہ نے صرف نام کے طور پر بادشاہی رکھی تھی۔ گویا کہ موجودہ پارلیمانی نظام کی طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ثبوت کے طور پر وہ اسی سورت کی آیت ٦٩، ٧٦ اور ٥٦ سے استدلال کرتے ہیں۔ جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے کلی اختیارات کے مالک دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بالکل عیاں ہے کہ بادشاہ مصر نے اس موقعہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملک کے کلی اختیارات نہیں دیے تھے۔ ورنہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ کی پیش کش کے جواب میں یہ کہنے کی ضرورت نہ پیش آتی کہ آپ مجھے ملک کے وسائل کی تقسیم کار کا اختیار دیں جو آج کل کی انتظامی تقسیم کے مطابق وزارت خزانہ کا منصب بنتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تیسری مرتبہ اپنے والدین کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو اس وقت وہ مصر کے بادشاہ بن چکے تھے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ بادشاہ کے فوت ہونے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے بادشاہ بنے تھے اور یہی بات قرآن مجید کے سیاق وسباق کے تناظر میں حقیقت کے زیادہ قریب لگتی ہے۔ جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے، کہ یوسف (علیہ السلام) نے منصب کا خود مطالبہ کیا تھا قرآن مجید کے الفاظ سے بظاہر یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اگر پچھلی بات کو ساتھ ملا کر اس بات کا مفہوم سمجھا جائے تو بات بالکل واضح ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے از خود مطالبہ نہیں کیا بلکہ منصب کی پیش کش کے جواب میں انہوں نے ملک و قوم کی خیر خواہی اور خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ مجھے ہر صورت اعیان حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ملک و قوم کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ مجھے وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا جائے تاکہ مستقبل کے معاشی بحران سے ملک و قوم کو نکالنے کے لیے میں خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکوں۔ جہاں تک منصب کا مطالبہ کرنے کا معاملہ ہے ہماری شریعت میں ایسا مطالبہ ناجائز ہے۔ ممکن ہے کہ پہلی شریعتوں میں اس طرح کا مطالبہ کرنا جائز ہو۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ وَلِیَ الْقَضَآءَ أَوْ جُعِلَ قَاضِیًا بَیْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَیْرِ سِکِّیْنٍ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الأحکام باب مَا جَآءَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الْقَاضِی ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس کو فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا یا اسے لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کیا گیا یقیناً وہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔ “ (عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ ابْنِ سَمُرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَّسْءَلَۃٍ وَّکِلْتَ اِلَیْہَاوَاِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْءَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلَیْہَا) [ متفق علیہ ] ” حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، امارت کی خواہش نہ کرنا ! کیونکہ اگر تیری خواہش پر امارت مل گئی تو تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر بلا خواہش امارت تفویض کی گئی تو تیری معاونت کی جائے گی۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرِیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّکُمْ سَتَحْرِصُوْنَ عَلَی الْاِمَارَۃِ وَسَتَکُوْنُ نَدَامَۃً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَۃُ وَبِءْسَتِ الْفَاطِمَۃُ )[ رواہ البخاری : باب باب مَا یُکْرَہُ مِنَ الْحِرْصِ عَلَی الإِمَارَۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ عنقریب تم امارت کی خواہش کرو گے ‘ حالانکہ قیامت کے دن امارت باعث ندامت ہوگی۔ اقتدار بھلا لگتا ہے ‘ اقتدار سے محرومی دل خراش ہوتی ہے۔ جیسے دودھ پلانے والی بھلی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری لگتی ہے۔ “ قیامت کے دن منصب دار لوگوں کی حالت : (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَ لَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَآ اَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَّاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَّاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَّنَدَامَۃٌ اِلَّامَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّہَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا) [ رواہ مسلم : باب کَرَاہَۃِ الإِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا ‘ کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں دیتے ؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارتے ہوئے فرمایا ‘ اے ابوذر ! یقیناً تو کمزور آدمی ہے۔ اور یہ عہدہ امانت ہے جو بلا شبہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا ‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا۔ اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔ “ مسائل ١۔ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنا مشیر بنانے کی پیشکش کی۔ ٢۔ جیل سے نکلنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) پہلے سے زیادہ معتبر اور معزز ہوگئے۔ ٣۔ معاشیات کے ماہر شخص کو وزیر خزانہ بنا نا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم (١٢ : ٥٥) یوسف (علیہ السلام) نے کہا “ ملک کے خزانے میرے پیرو کیجئے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ”۔ آئندہ کی مہم کا خلاصہ یہ ہے کہ سات سال سرسبزی کے ہیں اور ان میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پیداوار کے ایک ۔۔۔۔۔ بچایا جائے ، امور مملکت کو اچھے طریقے سے چلایا جائے ، مملکت کے تمام شعبوں کو درست کیا جائے اور خوشحالی کے دور میں ایسی پلاننگ کی جائے کہ بدحالی اور خشک سالی میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایسی ہی صلاحیتوں کا ذکر کیا اور جو ایسے حالات کے لئے ضروری تھیں یعنی حفیظ وعلیم۔ اور مصر اور تمام علاقائی ، ممالک کے لئے یہ انتظام مفید تھا۔ اس لئے کہا انی حفیظ علیم (١٢ : ٥٥) حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ مطالبہ اس لئے نہ تھا کہ وہ وزارت خزانہ لے کر اپنے لئے کچھ مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ایک صاحب رائے دانشور تھے اور انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس ڈیوٹی کے لئے ان سے زیادہ اور کوئی موزوں شخص نہیں ہے۔ آنے والا دور ایک عبرانی دور ہوگا کیونکہ پوری مصری قوم اور پڑوسی اقوام کے لئے غلے اور دوسری رصد کے انتظام کا عظیم مسئلہ در پیش ہوگا۔ سات اچھے سالوں میں کفایت شعاری اور سات مشکل سالوں میں سپلائی کو بحال رکھنے کا عظیم انتظام درپیش تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی ذات کے لئے کچھ طلب نہ فرماتے تھے بلکہ یہ تو وہ عظیم ذمہ داری تھی جس سے ہر ایک بھاگ رہا تھا ، کوئی شخص بھی خوشی سے غنیمت سمجھ کر اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ ایک تو یہ کہ شاہی نظام میں گردن زدنی کا بھی خطرہ تھا ، دوسرے یہ کہ عوام الناس کو بھوک اور افلاس کی حالت میں کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب عوام بھوکے ہوں تو وہ مجنون کی طرح اہلکاروں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ یہ تمام امکانات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پیش نظر تھے۔ یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا اور مطالبہ کیا کہ “ مجھے زمین کے خزانوں پر نگراں کر دیجئے ، میں حفیظ وعلیم ہوں ”۔ کیا ان کی طرف سے یہ منصب کا مطالبہ نہیں ہے جو اسلامی نظام میں سخت معیوب ہوتا ہے ۔ جبکہ یہ تو کسی منصب پر مقرر کرنے کا صریح مطالبہ ہے ، اور حدیث میں آتا ہے (خدا کی قسم ہم اس معاملے کو اس شخص کے حوالے نہیں کرتے جو اس کا مطالبہ کرے ) (متفق علیہ ) ۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہاں خود بتایا ہے کہ وہ حفیظ اور علیم ہیں۔ یہ ایک گونہ اعلان تزکیہ نفس ہے اور خود قرآن میں آتا ہے۔ فلا تزکوا انفسکم “ اپنی پاکی داماں کی حمایت مت کرو ”۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ انتظامی اصول حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تو نافذ ہوئے لیکن ضروری نہیں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں بھی یہ ممنوع ہوں۔ کیونکہ تمام پیغمبروں کا اصول دین پر تو اتفاق رہا ہے لیکن انتظامی امور اور شرعی قوانین ہر ایک کے ہاں جدا تھے۔ لیکن ہم یہ سر سری جواب نہیں دیتے کیونکہ اس مسئلے کو ذرا گہرائی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے نتائج نہایت گہرے اور دور رس ہیں۔ اس کے کچھ اور پہلو اور اعتبارات ہیں ، اسے ان پہلوؤں سے وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے تا کہ ہم احکام فقیہہ کے استنباط میں اس وسیع نقطہ نظر سے مسائل کا استنباط کرسکیں اور فقہی احکام کو بھی تحریکی اندازدے سکیں۔ کیونکہ فقہی احکام ، ان کے استنباط کا طریق کار اور اصول فقہ بھی مسلمانوں کے دور جمود اور زوال میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کو بھی تحریکی Daynamic انداز دینا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فقہ محض خلاء میں وجود میں نہیں آئی نہ اسے محض خلاء میں سمجھا یا نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ فقہ اسلامی کا ارتقاء ایک ارتقاء پذیر اسلامی معاشرے کے اندر ہوا ہے۔ اس معاشرے کو اپنے ارتقائی دور میں اسلامی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ یہ فقہ اسلامی نہ تھی جس نے کسی اسلامی معاشرے کو جنم دیا ہو ، بلکہ ایک اسلامی معاشرہ کے اندر اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اسلامی فقہ ارتقاء پذیر ہوئی۔ یہ دو عظیم حقائق ہیں اور اسلامی تاریخ ان پر گواہ ہے۔ اسلامی معاشرے اور تخلیق فقہ کے باہم تعلق کو جب تک نہ سمجھیں گے اس وقت تک ہم اسلامی فقہ کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور نہ اسلامی فقہ کی تحریکی اور ارتقائی حیثیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو آج ان نصوص کو پڑھتے اور فقہ کے مدون احکام کو لیتے ہیں اور ان کے پیش نظریہ حقیقت نہیں ہوتی کہ پہلی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تھا اور پھر فقہ وجود میں آئی اور وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ نصوص کن حالات میں نازل ہوئیں اور اسلامی فقہی مسائل کس طرح مرتب ہوئے ، خصوصاً وہ ماحول ، وہ معاشرہ اور وہ مزاج جن میں یہ نصوص نازل ہوئیں ان کو بھی پیش نظر نہیں رکھتے تو اس قسم کے لوگ اس قانون کو محض خلاء میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ کوئی قانونی نظام کسی خلاء میں نافذ نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ معاشرے میں نافذ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل فقہاء نہیں ہیں نہ یہ لوگ ماہرین قانون اسلامی ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت اسلامی نظام کے مزاج ہی کو نہیں سمجھے نہ اس دین کی حقیقت کو سمجھے ہیں۔ تحریکی فقہ دراصل اس فقہ سے مختلف ہے جو کتابوں کے اوراق میں ہے ، اگرچہ فقہ تحریکی بھی ان اصول اور نصوص پر مبنی ہوتا ہے جن پر فقہ اوراق مبنی ہے۔ تحریکی فقہ ان حالات پر بھی نظر رکھتی ہے جن میں نصوص قرآن و سنت کا نزول ہوا۔ ایک عملی فقیہ کو نظر آتا ہے کہ شان نزول اور حالات نزول دونوں کو اصل نصوص سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کسی نص کو ہم ان حالات سے علیحدہ کر کے اس پر غور کریں گے جن میں وہ نازل ہوئی تھی تو ہمارا استنباط اور اجتہاد غلط ہوجائے گا۔ اور اس طرح جو فقہ مرتب ہوگی وہ درست نہ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی فقہی حکم خداوندی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی جگہ مستقلاً خلاء میں آیا ہو اور جس میں اس وقت کے ماحول اور معاشرے کے اثرات نہ ہوں جن میں وہ پہلی مرتبہ وارد ہوا۔ کوئی فقہی حکم اور اجتہاد چونکہ خلاء میں نہیں ہوا اس لئے وہ خلاء میں نہیں رہ سکتا۔ یہ اصول جو اوپر ہم نے بیان کیا اس کی مثال وہ احکام ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو اپنی پاکی داماں کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے یا کسی شخص کو اپنے آپ کو کسی منصب کے لئے پیش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ احکام اس آیت فلا تزکوا انفسکم “ اپنے نفسوں کی پاکی کا دعویٰ نہ کرو ” اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سے ماخوذ ہیں۔ انا واللہ لا تولی ھذا العمل حدا اسالہ “ ہم خدا کی قسم یہ منصب اس شخص کو نہیں دیتے جو اسے مانگتا ہے ”۔ یہ احکام اس معاشرے میں آئے تھے جو ایک اسلامی معاشرہ تھا اور اس اسلامی معاشرے میں ان احکام کو عملاً نافذ بھی کردیا گیا تھا ۔ یہ احکام تھے ہی ایسے معاشرے کے لئے ، تا کہ قائم اسلامی معاشرے کی ضرورت کو پورا کریں ، اس وقت کا قائم اسلامی معاشرہ اپنا ایک تاریخی پس منظر اور اپنا ایک مخصوص عضویاتی ترکیب کا حامل تھا ، اس معاشرے کی اپنی مخصوص اور ذاتی صورت حال تھی۔ یہ دونوں احکام ایسے احکام تھے جنہوں نے ایک مکمل قائم شدہ اسلامی معاشرے کے اندر نافذ ہونا تھا ، انہیں حالات میں وہ نازل ہوئے ۔ یہ خلاء میں نازل نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا ان دونوں احکام کو ہم ایک قائم شدہ اسلامی معاشرے میں نافذ کرسکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جس کی ترکیب ، جس کی اٹھان اور جس کی عضویاتی تحریک اسلامی ہو۔ جب بھی ایسا معاشرہ قائم ہوگا اس میں ایسے احکام اور ان کے مطابق نظام قائم ہوجائے گا۔ اگر کہیں اسلامی معاشرے کا نام و نشان ہی نہ ہو تو ان میں یہ احکام نافذ نہیں ہو سکتے ، محض خلاء میں۔ یہی معاملہ تمام اسلامی احکام کا ہے لیکن ہم اسلام کے دوسرے احکام کے بارے میں یہاں تفصیلات دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں لوگ خود اپنے منہ میاں مٹھو کیوں نہیں بنیں گے اور خود اپنے آپ کو امیدوار کیوں نہ بنائیں گے اور وہ اپنے پسندیدہ افراد کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیوں نہ کرسکیں گے کہ ان کو مجلس شوریٰ گورنر یا کسی اور منصب کے لئے منتخب کیا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اسلامی معاشرہ قائم ہوگا تو لوگوں کو اپنی صلاحیت اور افضلیت کے اظہار کے لئے کسی پروپیگنڈے کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔ نیز اسلامی معاشرے میں منصب ایک قسم کی ذمہ داری ہے اور کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو خواہ مخواہ کوئی ذمہ داری اپنے سر لینے کے لئے جدو جہد کرے گا الا یہ کہ اللہ کی رضا مندی کے حصول ، خدمت خلق کے ذریعہ حصول ثواب یا معاشرے کے اندر فرائض کی ادائیگی کے لئے اس منصب کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی اس طرح کہ کوئی یہ منصب اور ذمہ داری کسی پر ڈال دے۔ جو لوگ خود مطالبہ کرتے ہیں اور مناصب کے پیچھے دوڑتے ہیں یہ ہلکے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظر ان مناصب سے کچھ اور اغراض حاصل کرنی ہوتی ہیں لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو یہ مناصب ہرگز پیش نہ کئے جائیں۔ لیکن یہ حقیقت صرف اس وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب اسلامی معاشرے کے قیام اور اس کے مزاج کو سمجھا جائے اور اس کی تشکیل کی نوعیت ذہن میں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حرکت اور تحریک کسی بھی اسلامی معاشرے کی جان ہے۔ اسلامی معاشرہ دراصل تحریک اسلامی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے ، کس طرح ؟ (1) ۔ مثلاً اللہ کی جانب سے ایک پیغام اور عقیدہ نازل ہوتا ہے ۔ ایک رسول اس کی تبلیغ کرتا ہے۔ زمانہ نبوت میں تو رسول بذات خود تبلیغ کرتا تھا ، جبکہ زمانہ نبوت کے بعد اب رسول کی جگہ کوئی داعی اسی عقیدے کی طرف سے دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت کو کچھ لوگ قبول کرتے ہیں جبکہ دعوت کے ابتدائی ایام میں نظام حکومت جاہلی ہوتا ہے اور یہ جاہلی نظام حکومت اور یہ جاہلی معاشرہ اس تحریک پر ظلم کرتا ہے اور تشدد اور فتنے اور آزمائش کے دور میں کچھ لوگ تحریک کا ساتھ چھوڑ کر مرتد ہوجاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مقابلہ کر کے شہید ہوجاتے ہیں اور بعض انتظار کرتے ہیں اور کام جاری رکھتے ہیں۔ جو لوگ مشکلات برداشت کر کے کام جاری رکھتے ہیں ، اللہ ان کو فتح نصیب کرتا ہے ، یہ لوگ پھر دست قدرت کا آلہ ہوتے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ تمکن فی الارض اور غلبہ اور اقتدار عطا کرتا ہے کیونکہ یہ اس کا مستقل وعدہ ہے ۔ اس طرح یہ لوگ زمین پر حکومت الہیہ قائم کرتے ہیں اور اس میں اللہ کے احکام نافذ کرتے ہیں ۔ یہ اقتدار اور تمکن فی الارج ان لوگوں کی ذات کے لئے نہیں ہوتا بلکہ یہ نصرت اور غلبہ اللہ کے دین کے لئے ہوتا ہے اور زمین پر اللہ کا نظام ربوبیت قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ دین کا یہ ہر اول دستہ دین کو لے کر پھر کسی ارضی حدود پر ٹھہرتا نہیں ، نہ کسی قوم اور نسل کی حدود کے اندر اپنے آپ کو محدود کرتا ہے۔ نہ کسی رنگ اور نسل تک محدود ہوتا ہے نہ کسی زبان اور شکل تک محدود ہوتا ہے ، یہ تو بہت ہی کچے اور ناپائیدار عناصر اور محدود دائرے ہیں ، بلکہ یہ ہر اول دستہ اس پیغام کو لے کر اطراف عالم میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور پورے کرۂ ارض سے تمام انسانوں کو انسانی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ تمام طاغوتی قوتوں سے ٹکراتا ہے اور پورے کرۂ ارض پر اللہ کی بندگی کا نظام قائم کرتا ہے۔ اس تحریکی عمل کے دوران اس دین کو لے کر تحریک برپا کرنے والے کسی ایک علاقے میں حکومت برپا کر کے رک نہیں جاتے۔ نہ کسی جغرافیائی یا نسلی یا قومی حدود پر وہ رکتے ہیں۔ یہ تحریک لوگوں کی قدریں بدل دیتی ہے۔ معاشرے کے اندر لوگوں کے مرتبہ و مقام کا از سر نو تعین ہوتا ہے۔ تمام اقدار ایمانی پیمانے کے اوپر استوار ہوتی ہے۔ لوگوں کا معاشرے میں تعارف ان جدید اقدار پر ہوتا ہے اور ہر فرد کی قیمت از سر نو متعین ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں افراد کی قدرو قیمت اس پر ہوتی ہے کہ انہوں نے اقامت دین کے لئے کس قدر جدو جہد کی ، کس قدر آزمائشیں ان پر آئیں ، تقویٰ ، خدا خوفی ، اخلاق اور صلاحیت کے اعتبار سے وہ کیسے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہوتی ہیں جو واقعات کی صورت میں متعین ہوتی ہیں اور اسلامی تحریک ان کا اظہار کرتی ہے اور تمام اسلامی معاشرہ اور اسلامی تحریک ایسے افراد سے واقف ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسے افراد کو اس بات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی تعریف خود کریں یا کسی منصب اور ذمہ داری کا مطالبہ کریں ، ایک تو ان کو اس بات کی ضرورت ہی پیش نہیں ا آتی۔ دوسرے یہ کہ ان کا تزکیہ اور تربیت اس قدر ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ ایسے نہیں کرتے۔ بعض اوقات ، بعض لوگ اس طرح سوچتے ہیں کہ یہ پہلے اسلامی معاشرے کی خصوصیت تھی کیونکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرن اول کے ان لوگوں کی بہترین انداز میں تربیت فرمالی گئی تھی لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ کوئی ایسا معاشرہ بھی اس وقت وجود میں نہیں آسکتا جب تک اس کے لے اس قسم کی تحریک برپا نہ کی جائے اور صحابہ کرام کی طرح ان کی تربیت کر کے اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے جدو جہد نہ کی جائے۔ جب بھی ہم کوئی ایسا معاشرہ قائم کریں گے ہمیں ایسی ہی راہوں سے گزرنا ہوگا ۔ ایک تحریک برپا ہوگی ، وہ لوگوں کو از سر نو دین اسلام کے اپنانے کی دعوت دے گی اور اس طرح لوگوں کو جاہلیت سے نکالنے کی سعی کی جائے گی۔ پھر اہل جاہلیت اسی طرح ان کارکنوں پر تشدد کریں گے۔ کچھ لوگ تحریک سے بھاگ نکلیں گے اور ارتداد کی راہ اختیار کریں گے لیکن بعض لوگ اپنی راہ پر جم جائیں گے۔ ان کے لئے دعوت اور تحریک کو چھوڑنا ایسا ہی ہوگا جس طرح کسی کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ پھر اس کشمکش کا فیصلہ ہوگا ، اللہ تحریک کو فتح دے گا اور کسی ایک جگہ اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اس مرکز سے اسلامی انقلاب کا پھیلاؤ شروع ہوگا۔ اس وقت مجاہدین اور متحرکین بالکل سامنے آچکے ہوں گے۔ اس وقت ایمانی اقدار اور اوصاف واضح ہوچکے ہوں گے اور کسی کو ضرورت نہ ہوگی کہ وہ کوئی درخواست کسی منصب کے لئے پیش کرے کیونکہ ایسے لوگ تو معاشرے کے خدوخال ہوں گے اور وہ خود ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کو کوئی ذمہ داری سپرد کرے گا۔ بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس ابتدائی مرحلے کے بعد پھر ایسا ہوگا لیکن جب اسلامی معاشرہ مستقلا قائم ہوگیا تو پھر کیا صورت ہوگی۔ یہ سوال وہی لوگ کرتے ہیں جو اس دین کی حقیقت کو نہیں جانتے ۔ یہ دین ہمیشہ ایک تحریک کی شکل میں رہتا ہے۔ یہ کسی وقت بھی ٹھہرتا نہیں۔ اس کی تحریک اس مقصد کے لئے ہوتی ہے کہ تمام انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے رہا کر کے اللہ کی بندگی اور غلامی میں داخل کیا جائے۔ یہ آزادی اور قربت تمام کرۂ ارض کے مکینوں کو حاصل ہو اور لوگ طاغوت کی بندگی کے بجائے اللہ کی بندگی کریں اور تحریک مسلسل جاری رہے۔ رنگ ، نسل اور جغرافیہ کی حدود و قبول کے بغیر۔ جب یہ تحریک مسلسل جاری رہے گی تو اس میں ثابت قد ، مخلص ، قربانی دینے والے لوگ ممتاز ہو کر خود بخود اوپر آتے جائیں گے۔ چونکہ یہ تحریک جاری رہے گی اس لئے یہ معاشرہ کبھی بھی رک کر منجمد اور بدمزہ نہ ہوگا الا یہ کہ یہ معاشرہ اسلامی راہ سے منحرف ہوجائے ۔ غرض اپنی صفات کے بارے میں خاموش رہنے اور تزکیہ نفس اور عدم امیدواری کا حکم اپنی جگہ قائم رہے گا جس طرح کہ آغاز میں ایک دائرے میں یہ حکم آیا۔ ایسے ہی دائرے میں ہی اپنی جگہ قائم رہے گا اور کام کرتا رہے گا۔ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب سوسائٹی میں وسعت ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور شخصیتوں سے متعارف ہی نہیں ہوتے تو پھر با صلاحیت لوگوں کو مجبوراً اپنی صلاحیت کے بارے میں اشتہار دینا پڑے گا اور یہ بتانا پڑے گا کہ ان کا یہ اخلاق وکردار ہے اور وہ اس طرح کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ یہ سوال بھی ایک وہم پر مبنی ہے اور یہ موجودہ جاہلیتوں کی عملی صورت حالات پر مبنی ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے کی یہ صورت حال نہیں ہوتی۔ اسلامی معاشرہ میں اہل محلہ ایک دوسرے سے متعارف اور باہم متغافل ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تربیت ، اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کے رخ اور اس کے التزامات کا لازمی تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کے لوگ ایک دوسرے سے بہت ہی اچھی طرح متعارف ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی ان صلاحیتوں کی جان پہچان ایمانی اقدار میں کرتے ہیں اس لئے یہ بات کوئی مشکل بات نہ ہوگی کہ اسلامی معاشرہ میں اچھے لوگوں کو مجلس شوریٰ یا انفرادی اور اجتماعی سروسز کے لئے منتخب نہ کرسکے۔ رہے بڑے عہدے مثلاً گورنر اور حاکم تو امام خود ان کے لئے آدمی تلاش کرسکتا ہے۔ جو اہل حل و عقد میں سے ہوتے ہیں۔ امام کے اہل شوریٰ بھی اس میں امداد کرسکتے ہیں اور اچھے افراد کو تلاش کرنے میں امیر اور امام کی مدد کرسکتے ہیں۔ پھر جس طرح ہم نے کہا اسلام تو ایک تحریک ہے اور جہاد تو یوم القیامت تک جاری رہے گا۔ لہٰذا تحریک اور جہاد کے ہوتے ہوئے کوئی صاحب صلاحیت کس طرح پوشیدہ رہ سکتا ہے ؟ جو لوگ آج اسلامی نظام حیات اور اس کی مفصل تنظیم کے بارے میں سوچتے ہیں یا اس موضوع پر لکھتے ہیں وہ ایک حماقت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلامی نظام حیات کے مدون فقہی اصولوں کو ایک خلاء میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ، پھر وہ اس جاہلی معاشرے میں ان احکام کا نفاذ چاہتے ہیں جو عملاً قائم اور غالب ہے ۔ اس جاہلی معاشرے کی اپنی ایک مخصوص عضویاتی ترکیب ہے اور یہ عملاً قائم جاہلی معاشرہ اسلامی نقطہ نظر سے اور اسلام کے فقہی احکام کے نقطہ نظر سے ایک خلاء ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اس کے اندر اسلامی شریعت نافذ ہو کیونکہ موجودہ جاہلی معاشرے کی عضویاتی ترکیب سو فیصد اسلامی معاشرے کی عضویاتی ترکیب کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ اسلامی معاشرے کی عضویاتی تشکیل ان شخصیات ، ان گروہوں اور ان لوگوں سے ہوتی ہے جنہوں نے اسلامی نظام کے لئے تحریک چلائی ، جاہلیت کے خلاف جدو جہد کی اور عالم اسلام کو عملی صورت میں نافذ کیا اور انہوں نے جاہلیت کے خلاف عملی جدو جہد کی تا کہ لوگوں کو جاہلیت سے نکال کر اسلام میں داخل کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جاہلیت کے تمام دباؤ برداشت کئے ، جاہلیت کی جانب سے ہر قسم کے تشدد اور ایذا رسانی کو انگیز کیا اور تحریک اسلامی کے ساتھ جاہلیت کی ہمہ گیر جنگ میں وہ اسلام کے ثابت قدم سپاہی رہے اور آغاز سے انتہاء تک وہ اس جدو جہد میں شریک رہے۔ رہا موجودہ جاہلی معاشرہ ، تو وہ ایک ٹھہرا ہوا معاشرہ ہے اور ایسی اقدار پر قائم ہے جن کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ اس معاشرے کا ایمانی اصولوں کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے اسلامی شریعت کے زاویہ سے یہ معاشرہ اسلام کے لئے ایک خلاء ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس خلاء میں اسلامی نظام جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ اس قسم کے محقق اور لکھنے والے جب اسلامی احکامات کو عملی شکل دینے لگتے ہیں تو وہ قدم قدم پر پریشانی اور حیرانی سے دو چار ہوتے ہیں ۔ ان کو پہلی پریشانی یہ لاحق ہوجاتی ہے کہ اہل حل وعقد یا مجلس شوریٰ کو کس طرح چنا جائے۔ یعنی ایسا طریقہ کس طرح وضع کیا جائے کہ لوگ خود اپنے آپ کو امیدوار بھی نہ بنائیں اور خود اپنے منہ میاں مٹھو بھی نہ بنیں اور اچھے لوگ اوپر بھی آجائیں۔ ایسے لوگوں کو اس معاملے میں مشکل یہ درپیش ہوتی ہے کہ موجودہ معاشرے جن میں ہم زندہ رہتے ہیں ، لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہی نہیں ہیں۔ نیز موجودہ دور میں ایسے لوگ بھی ناپید ہیں جو صلاحیت ، پاکدامنی اور امانت و دیانت کے ۔۔۔۔ پر پورے اترتے ہوں۔ اسی طرح امام اور خلیفہ کے انتخاب کے طریقے میں بھی یہ لوگ سخت پریشان ہیں۔ آیا خلیفہ کا انتخاب عوام الناس کریں گے یا اہل حل و عقد کریں گے۔ اگر اہل حل و عقد خود امیدوار نہ ہوں گے اور نہ اپنا تزکیہ کریں گے اور ان کا انتخاب امام کرے گا تو پھر وہ کس طرح امام کا انتخاب کریں گے۔ کیا اس کا اہل حل و عقد پر اثر نہ پڑے گا۔ پھر اگر یہ لوگ امام کو نامزد کریں گے تو کیا یہ لوگ امام کے مقابلے میں برتر نہ ہوں گے ، حالانکہ امام برتر امام ہوتا ہے اور امام اگر اہل حل و عقد کو منتخب کرتا ہے یا نامزد کرتا ہے تو یہ لوگ اس کے پسندیدہ نہ ہوں گے اور ان کے انتخاب میں یہ بات سر فہرست نہ ہوگی کہ وہ اس کے وفادار ہوں۔۔۔۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے بیشمار سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے اور ان محققین کی سطحی سوچ کی وجہ سے وہ اس کا کوئی جواب نہیں پا رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے محققین اسی نکتے سے غلط راہ میں پڑگئے ہیں۔ ان لوگوں کی غلط روی اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے موجودہ معاشروں کو اسلامی معاشرہ سمجھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے اصول و فروع موجودہ جاہلی معاشروں پر نافذ ہوں گے۔ موجودہ معاشروں اور سو سائٹیوں کی عضویاتی تشکیل اور ان کی اخلاقی اقدار کے ہوتے ہوئے ان میں اسلام نافذ ہوجائے گا۔ ایں خیال است ومحال است و جنوں۔ ان لوگوں کی حماقت اور پریشانی اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ یہ لوگ موجود جاہلی معاشرے کو بھی ایک اسلامی معاشرہ سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اسلامی احکام اور قواعد اس معاشرے میں منطبق ہوں گے اور اس معاشرے کی عضویاتی ترکیب اور اخلاقی احکام اور قواعد اس معاشرے میں منطبق ہوں گے اور اس معاشرے کی عضویاتی ترکیب اور اخلاقی حالت جوں کی توں رہے گی۔ ان لوگوں کی حیرانی و پریشانی کا یہ نقطہ آغاز ہے اور جب یہ لوگ سوچ اور تحقیق شروع کرتے ہیں تو ہم خلاء میں ہوتے ہیں اور اس خلاء میں یہ لوگ اس قدر دور چلے جاتے ہیں اور ان کا مدار اس قدر وسیع ہوجاتا ہے کہ پھر ان سے اپنی راہ ہی گم ہوجاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جاہلی معاشرہ جس میں ہم رہ رہے ، کوئی اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ شریعت نافذ ہو سکتی ہے اور نہ اس میں فقہی دستور نافذ ہو سکتا ہے اور یہ اسی وجہ سے نافذ نہیں ہو سکتے کہ اسلامی شریعت اور اسلامی دستور کبھی بھی خلا میں نافذ نہیں ہوتے کیونکہ اسلامی نظام ایک عملی نظام ہے اور یہ کسی اسلامی معاشرے ہی میں نافذ ہو سکتا ہے ، خلا میں نافذ نہیں ہو سکتا۔ اسلامی معاشرے کی عضویاتی تشکیل ہی دراصل موجودہ جاہلی معاشرے کی نظریاتی تشکیل سے مختلف ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کے افراد اور گروہ وہ نہیں ہوتے جو موجودہ معاشرے کے ہیں۔ اس کے افراد بالکل مختلف اور اس کے گروہ بالکل دوسرے ہوتے ہیں۔ اس کے افراد اور گروہوں کی اخلاقی قدریں تحریک کے دوران وجود میں آتی ہیں اور وہ بہت ہی مختلف اور عملی ہوتی ہیں۔ یہ ایک جدید اور نیا معاشرہ ہوتا ہے۔ یہ دائماً حرکت میں رہتا ہے۔ ترقی پذیر ہوتا ہے اور اس کے انسان ، پورے کرۂ ارض کے مقابلے میں آزاد انسان ہوتے ہیں۔ وہ اس کرۂ ارض پر کسی کے غلام نہیں ہوتے اور اس معاشرے سے طاغوتی قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ یہ مسئلہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل مثلاً اپنے آپ کو کسی منصب کا اہل بتانا ، منصب طلب کرنا ، امام کا انتخاب ، اہل شوریٰ کا انتخاب اور اس جیسے دوسرے مسائل کے بارے میں لوگ عموماً خلا میں سوچتے ہیں۔ یہ مسائل اور جاہلی معاشروں میں ان کا نفاذ ، یہ سوچ ہی متضاد ہے۔ خصوصاً جبکہ یہ جاہلی معاشرہ اپنی عضویاتی ترکیب میں اسلامی معاشرے سے کلیۃً متضاد ہو۔ اس کی اقدار ، اخلاقی پیمانے ، تصورات اور سوچیں سب کی سب اسلامی معاشرے سے الٹ ہوں۔ موجودہ دور کے بینک اور ان کی تمام سرگرمیاں ، انشورنس اور اس کے قواعد و ضوابط ، ضبط تولید کے مسائل اور اس قسم کے دوسرے عقدے جن کو یہ محققین کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے بارے میں صحیح حل موجودہ سوسائٹی میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ان موضوعات پر آغاز بحث ہی سے محقق پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی سعی یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے قواعد وقوانین کو موجودہ جاہلی اور گندے معاشرے میں نافذ اور جاری کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور یہ معاشرہ سو فیصد اسلامی احکام سے متضا د ہے۔ اس لئے ایسے محققین کو ان میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ یہ لوگ اسلامی قوانین کو نافذ کر کے یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ جاہلی معاشرے اسلامی بن جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت ہی مضحکہ خیز سوچ ہے۔ حقیقت یہ ہے اسلامی معاشرے کو فقہ اسلامی نے وجود نہیں بخشا بلکہ اسلامی معاشرے کی تحریکی جدو جہد اور تحریک اسلامی اور جاہلیت کے درمیان طویل کشمکش کے نتیجے میں اسلامی معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد اور ایک اسلامی معاشرے کی عملی ضروریات سامنے آنے کے بعد اسلامی فقہ اس کے احکام اور اس کے اصول وجود میں آئے۔ لہٰذا دور جدید میں بھی فقہ اسلامی کا وجود اس طرح آسکتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے ذریعے اسلامی سوسائٹی وجود میں لائی جائے۔ اس کے برعکس ممکن ہی نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ فقہ اسلامی اور اسلامی شریعت کا نفاذ خلاء میں ممکن نہیں ہے ، نہ خلاء میں کوئی بھی قانون قائم رہ سکتا ہے۔ اسلامی شریعت دماغوں اور کتابوں میں قائم نہیں ہو سکتی ، یہ تو ایک عملی زندگی کا عملی ضابطہ ہے اور ضابطہ بھی ہر عملی زندگی کا نہیں بلکہ ایک اسلامی زندگی کا ضابطہ ہے۔ ایک اسلامی سوسائٹی کی فضا ہی میں اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قانون نافذ ہو سکتا ہے۔ جس وقت اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا اور وہ بھی ایک تحریکی شکل میں وجود میں آئے گا تو اس وقت اسے بینکوں اور تجارتی اداروں کی ضرورت درپیش ہوگی یا نہ ہوگی ، یہ سوال اس وقت پیدا ہوگا۔ اب جبکہ اسلامی معاشرہ سرے سے وجود میں بھی نہیں ہے ، وقت سے پہلے ہم اس معاشرے کی ضروریات کو کس طرح معلوم کرسکتے ہیں۔ نہ اس وقت کے معاشرے کی شکل یا اس کے حجم کے بارے میں کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ وقت سے قبل ہم کسی معاشرے کے لئے قانون سازی کیسے کرسکتے ہیں۔ اس وقت اسلامی شریعت کے جو احکام مدون ہیں ، وہ ایک جاہلی اور کافرانہ معاشرے میں نافذ ہی نہیں ہوسکتے ، کیونکہ اسلامی شریعت موجودہ جاہلی اور کافرانہ سو سائٹیوں کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتی ، اسے ان جاہلی سوسائٹیوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔ اس قسم کے محققین جس مصیبت میں گرفتار ہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ جاہلی معاشروں کو اصل سمجھتے ہیں اور دین اسلام کو ان کے تابع سمجھتے ہوئے ، اسے ان کے مطابق بنانے کی سعی کرتے ہیں لیکن حقیقی صورت حالات اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام اصل ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم جدید سوسائٹی کو دین اسلام کے تابع بناتے چلے جائیں۔ یہ کام صرف ایک ہی ذریعے سے ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جاہلیت کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے تحریک برپا کی جائے۔ یہ تحریک اس کرۂ ارض پر اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لئے ہو۔ اللہ کی حاکمیت کا نظام ہوتا ہی وہ ہے جس میں لو اللہ کے سوا کسی کے تابع فرمان نہیں ہوتے۔ وہ کسی طاغوت کے تابع نہ ہوں اور ان کی زندگیوں میں صرف شریعت کی حکمرانی ہو۔ جب بھی کوئی یہ تحریک برپا کرے گا اسے فتنوں ، آزمائشوں اور تشدد کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ جب اس قسم کی تحریک پر تشدد ہوگا تو کچھ لوگ ان مشکلات کو برداشت کریں گے ، کچھ لوگ الٹے پاؤں پھرجائیں گے اور کچھ لوگ اللہ کے پیغام کی تصدیق کرتے ہوئے مقام شہادت پر فائز ہوں گے جبکہ کچھ لوگ یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اللہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان صحیح فیصلہ نہیں فرما دیتے۔ جب اللہ ان انقلابیوں اور ان کی اقوام کے درمیان فیصلہ کر دے گا تو ان کو تمکن فی الارض نصیب ہوگا اور اس وقت ہی اسلامی نظامی زندگی صحیح معنوں میں قائم ہوگا ۔ اس وقت تمام لوگ اسلام میں رنگے ہوں گے اور وہ اسلامی اقدار کو لے کر اس دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرچکے ہوں گے۔ اس وقت پھر اس سوسائٹی کی کچھ ضروریات اور تقاضے ہوں گے اور یہ ضروریات اور تقاضے دوسری جاہلی سو سائٹیوں سے بالکل مختلف ہوں گے۔ ان ضروریات اور تقاضوں کے پورے کرنے کے انداز بھی مختلف ہوں گے ۔ اس وقت اسلامی نظام زندگی کے احکام کا استنباط ایک قائم سوسائٹی کے لئے ہوگا ، ایک اسلام فقہ اور شریعت وجود میں آئے گی ۔ یہ شریعت خلاء میں نہ ہوگی بلکہ یہ شریعت ایک متعین اور موجود سوسائٹی میں نافذ ہوگی اور اس سو سائٹی کے مقاصد اور ضروریات بھی متعین ہوں گی۔ ہمیں کوئی بتائے کہ وہ سو سائٹی اس دنیا میں کہا ہے جس میں نظام زکوٰۃ نافذ ہو اور زکوٰۃ لی جاتی ہو اور اسے اپنے حقیقی مصارف پر خرچ کیا جاتا ہو اور جس کے ہر محلے میں باہم محبت ، رحمت اور نظام تکافل قائم ہو ، پھر پوری سوسائٹی میں تکافل (Social Security) کا نظام قائم ہو اور اس سوسائٹی کا مالی نظام اسراف ، تعیش ، خود نمائی اور زر اندوزی پر قائم نہ ہو۔ اس کا مالی نظام صحیح اسلامی خطوط پر قائم ہو ، پھر اگر ایسا کوئی نظام قائم ہوجائے اور ایسی سو سائٹی وجود میں آجائے تو ثابت کیا جائے کہ اس میں انشورنس کی ضرورت ہوگی اور انشورنس کے یہ ضابطے پھر اسلامی سوسائٹی کے حالات ، اس کی اقدار اور مالی تصورات کے مطابق ہوں گے۔ اگر اسلامی سوسائٹی کو کسی انشورنس کی ضرورت بھی پڑے تو ثابت کیا جائے کہ اسے بعینہ اسی طرح ہونا لازمی ہے جس طرح کہ موجودہ جاہلی معاشروں میں انشورنس کا نظام موجود ہے۔ جو موجودہ جاہلی سوسائٹی جاہلی تصورات اور اقدار پر مبنی ہے اور اسے جاہلی سوسائٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔ پھر یہ ثابت کیا جائے کہ ایک متحرک اسلامی معاشرہ تحدید نسل اور ضبط تولید کا محتاج ہوگا جس طرح موجودہ غیر اسلامی معاشرہ ہے۔ جب ہم موجودہ حالات میں ایک اسلامی سوسائٹی کی ضروریات کا تعین ہی نہیں کرسکتے ، نہ اس کی سوسائٹی کے حجم اور شکل کی کوئی متعین صورت ہمارے سامنے ہے ، اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ایک اسلامی سوسائٹی کی عضویاتی ترکیب ہی موجودہ جاہلی سوسائٹی سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ اس کی سوچ ، اس کی قدریں اور اس کے ۔۔۔۔ ہی مختلف ہوتے ہیں لہٰذا اس وقت جو لوگ ایک غیر موجودہ سوسائٹی کے لئے احکام مدون کرنے کی سعی کر رہے ہیں ان کی یہ سعی نا مشکور ہوگی ، اس لئے کہ جس طرح اسلامی سوسائٹی اس وقت ہوا میں ہے اسی طرح ان لوگوں کی یہ مساعی بھی ہوا میں ہیں اور لا حاصل ہیں۔ جیسا کہ ہم نے بار بار کہا ہے کہ اس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ یہ محققین موجودہ معاشروں کو اسلامی معاشرے سمجھتے ہیں اور وہ اسلامی فقہ کے اوراق سے احکام نکال کر ان معاشروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ معاشروں کے اجزاء ترکیبی کو وہ نہیں چھیڑتے اور ان معاشروں کی اقدار اور تصورات اور ۔۔۔ کو بھی جوں کا توں رہنے دیتے ہیں۔ پھر ان حضرات کے شعور اور لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ موجودہ جاہلی معاشرے اصل اور قائم حقیقت ہیں اور یہ دین اسلام کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی لا کر اپنے آپ کو ان کے مطابق کرلے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔۔۔ اس طرح دین اسلام کا فرض ہے کہ وہ جدید جاہلی سوسائٹی کے تقاضے پورے کرے۔ حالانکہ جدید جاہلی سو سائٹی کے تقاضے سراسر اسلام کے خلاف ہیں اور یہ تقاضے ایک مسلمان کو سرے سے اسلام سے خارج کرنا چاہتے ہیں ”۔ میرا خیال یہ ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب اسلام اہل اسلام کے دل و دماغ میں سر بلند ہوجائے۔ اب اہل اسلام یہ روش ترک کردیں کہ اسلام جاہلی سوسائٹی کے تقاضوں کو پورا کرتا پھرے۔ داعیان اسلام کو اب یہ اعلان کردینا چاہئے کہ لوگو ! تم اسلام کے مطیع فرمان بن جاؤ، اس کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کرو ، بلکہ یہ کہ لوگو ! سب سے پہلے تم دین اسلام میں داخل ہوجاؤ، اعلان کر دو کہ تم اب صرف اللہ کے بندے ہو ، اور کلمہ طیبہ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دو ، بایں معنی کہ اللہ کے سوا اس کرۂ ارض پر کوئی اور حاکم نہیں ہے۔ صرف وہی رب اور خالق ، مالک اور رازق ہے ۔ تمام لوگوں کی زندگی پر اسی کے احکام چلیں گے ۔ آئندہ کوئی انسان انسان کا غلام نہ ہوگا اور کوئی انسان کسی انسان کے لئے اب قانون نہیں بنائے گا۔ جب لو یہ اعلان کردیں گے تو اسلامی معاشرے کا پودا کونپل نکالے گا اور جب اس اعلان کی اساس پر کوئی سو سائٹی وجود میں آجائے گی تو اس میں پھر فقہ اسلامی کا اجراء ہوگا۔ اس وقت پھر فقہ اسلامی اس سوسائٹی کی تمام ضروریات کو پورا کرے گا اور عملاً اسلامی شریعت نافذ ہوگی۔ جب تک اسلامی انقلاب کے نتیجے میں اسلامی سوسائٹی قائم نہیں ہوجاتی اسلام کے دستوری اور انتظامی احکامات کے بارے میں دماغ سوزی کرنا محض اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ محض ہوا اور خلاء میں تخم ریزی کرنا ہے جبکہ کوئی قانون کبھی کسی خلاء میں نہیں اگتا جیسا کہ ہوا میں کوئی فصل نہیں اگتی۔ ٭٭٭ اسلامی فقہ کے فکری میدان میں کام کرنا نہایت ہی دلچسپ کام ہے ، کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور ابتلاء نہیں ہے۔ لیکن یہ اسلامی کام نہیں ہے یعنی اسلام کے لئے نہیں ہے ، نہ یہ اس دین کے مزاج کے مطابق ہے نہ یہ اسلامی منہاج کار ہے ، اور یہ طریقہ صرف ان لوگوں کا ہے جو خیر و عافیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے محض علمی اور فنی امور میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تحریک کے اس مرحلے میں اسلامی فقہ کے موضوعات پر دماغ سوزی کرنا عمر ضائع کرنا ہے۔ موجودہ سوسائٹی کے ہوتے ہوئے میں سمجھتا ہوں اس میں کوئی اجراء ضروری نہ ہوگا۔ دین اسلامی جاہلیت کے لئے خرکاری کا کام نہیں کرتا ، نہ وہ جاہلیت کا بندہ فرمان بننا قبول کرتا ہے ، جس کا مشن صرف یہ ہو کہ جاہلیت کی خواہشات کے لئے ہر وقت وجہ جو از فراہم کرتا پھرے ۔ جبکہ یہ جاہلی سوسائٹی دین سے متنفر ، دین سے دور اور دین پر فقدان ہو اور دین کی اطاعت نہ کرتے ہوئے یہ سو سائٹی دین سے اپنے اعمال کے لئے وجہ جواز مانگتی ہو۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ اس دین کی فقہ اور اس کے احکام نہ خلاء میں ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی خلاء میں رد بعمل آتے ہیں۔ اسلامی سوسائٹی ابتداءً اللہ کی حاکمیت کو قبول کرنے والی ہوتی ہے۔ یہی سوسائٹی دراصل فقہ کو وجود بخشتی ہے اور یہی سوسائٹی اس کو ترقی دیتی ہے ، یہ نہیں ہے کہ کوئی فقہی نظام سوسائٹی کو وجود بخشے۔ احیائے اسلام کے مراحل اور اس کا طریقہ کار آغاز ہی سے ایک ہی ہیں۔ جاہلیت سے کسی سوسائٹی کا اسلام کی طرف منقلب ہونا تو سہل امر نہیں ہوتا اور یہ اس طرح نہیں ہوتا کہ پہلے فقہی احکام کا کوئی سانچہ ڈھالا جائے اور اس کے مطابق انسان تیار ہوتے جائیں اور یہ سانحہ پہلے سے خلاء میں تیار کردیا گیا ہو اور جب اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی سوسائٹی تیار ہو تو اس میں اسے نافذ کردیا جائے۔ جاہلیت سے کسی سوسائٹی کا اسلام کی طرف منقلب ہونا کسی قانونی نظام کی وجہ سے نہیں ہوا کرتا ۔ اس لئے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید قانونی نظام مفصل طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے۔ بعض لوگ اس معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہوا کرتے ہیں اور بعض اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی وجود میں اس لئے نہیں آرہی ہے کہ کچھ طاغوتی قوتیں اس کی راہ روکے کھڑی ہیں۔ یہ طاغوتی قوتیں اللہ کی حاکمیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اس سے کسی بھی اسلامی ملک میں اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت پر مبنی نظام وجود میں نہیں آرہا ہے۔ ان طاغوتی قوتوں نے دراصل لوگوں کو اپنا بندہ اور غلام بنا لیا ہے اور اس طرح یہ قوتیں اور ان کے تحت تمام جمہور عوام شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقی شرک ہے اور اس شرک کا تعلق اللہ رب العالمین کے مخصوص اختیارات کے ساتھ ہے۔ اس نظریہ کی اساس پر جاہلیت زمین پر اپنا ایک مستقل نظام برپا کرتی ہے۔ یہ نظام بھی ان جاہلی تصورات کی اساس پر قائم کرتی ہے اور اس میں جاہلی تصورات کے ساتھ ساتھ مادی قوتوں پر بھی بھروسہ کرتی ہے۔ اس قائم نظام کا مقابلہ احکام فقہیہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ نہ احکام فقہیہ اس جاہلی نظام اور اس کے تصورات کے لئے برابر کی قوت ہوتے ہیں۔ اس جاہلیت کا مقابلہ صرف اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو از سر نو اسلام میں داخل ہونے کی طرف دعوت دی جائے ۔ اور پھر اسلامی تصورات کے ساتھ تمام قوتوں کو لے کر جاہلیت کا مقابلہ کیا جائے۔ اس میدان کے اندر اسلام اور جاہلیت کی کھلی کشمکش کے بعد جو نتیجہ بھی ہوگا وہ سامنے آجائے گا۔ کچھ لوگ صحیح طرح اسلام کے حال ہوں گے اور باقی قوم ان کے مخالفت ہوگی اور اس کشمکش کے نتیجے میں پھر تحریک اسلامی اور اس کی قوم کے درمیان اللہ اپنا فیصلہ لاتا ہے۔ جب تحریک اسلامی غالب آکر کر اسلامی سوسائٹی قائم کردیتی ہے تو پھر فقہی احکام کی تدوین کا وقت آتا ہے ۔ اس طرح جو قانون نظام برپا ہوتا ہے وہ نظام اپنی حقیقی فضا میں نہایت ہی قدرتی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک زندہ اسلامی معاشرے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اور اس نئی سوسائٹی کی حقیقی ضروریات کے لئے قانون سازی ہوتی ہے۔ اور اس میں قانون کا حجم اور اس کی شکل قدرتی ہوتی ہے۔ اب یہ سوسائٹی اور اس کی ضروریات ہمارے پیش نظر موجود نہیں ہیں اور انقلاب کے بعد وجود میں آنے والی سوسائٹی کے بارے میں ابھی تک ہم کوئی پیشین گوئی بھی نہیں کرسکتے۔ نہ ہی اس کی ضروریات کو ہم متعین کرسکتے ہیں۔ لہٰذا قبل از وقت اسلامی قانون کی تدوین و ترتیب کے کام میں ابھی سے مشغول ہونا یا اس کا مطالبہ کرنا ، دین اسلام کی سنجیدگی اور متانت کے منافی ہے۔ میرے اس نکتے کے بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قرآن اور سنت میں جو قائم منصوص احکام ہیں وہ اس وقت قانوناً نافذ نہیں ہیں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام اسلامی سوسائٹی کے لئے نازل ہوئے تھے اور ان کو ایک اسلامی معاشرے کے اندر ہی نافذ بھی ہونا ہے۔ یہ احکام اس وقت عملاً نافذ نہیں ہیں۔ یہ احکام عملاً تب ہی نافذ ہو سکتے ہیں جب کوئی اسلامی معاشرہ قائم ہو اور اسلامی معاشرے کا قیام ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس وقت جاہلی معاشرے میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے تا کہ اس میں اسلام کا قانونی نظام نافذ ہو سکے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو دین کو لے کر ایک تحریک کی شکل میں اٹھیں اور ان طاغوتی قوتوں کو ۔۔۔۔ کریں جنہوں نے اس طاغوتی نظام کو قائم کر رکھا ہے اور لوگ اللہ وحدہ کی اطاعت کے بجائے مشرک ہو کر ان طاغوتی قوتوں کی اطاعت میں مبتلا ہیں۔ احیائے دین کے سلسلے میں اس نکتے کو جب لوگ پالیں گے کہ جب جاہلی نظام قائم ہو تو اس کے مقابلے میں اسلامی تحریک کا برپا کرنا ضروری ہے تو اس ادراک کے نتیجے ہی میں اسلامی انقلاب کا آغاز ہوجاتا ہے اور پھر لوگ احیائے اسلام کی تعمیری جدو جہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے اسلامی قانون کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نے لی ہے ، اسلامی نظامی قائم نہیں رہا ہے اور یہ کرۂ ارض حقیقی اسلام سے خالی ہوگیا ہے۔ اگرچہ اذان خانے باقی ہیں اور مساجد باقی ہیں ، دعائیں ہو رہی ہیں اور نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دو سو سال سے یہی صورت حال ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس دین کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہے اور یہ نماز اور یہ دعا ان کے اندر یہ تسکین پیدا کردیتی ہے کہ اسلام بخیر و عافیت ہے ، حالانکہ اس کرۂ ارض سے طاغوتی قوتیں اس کا وجود مٹانے کے درپے ہیں۔ میں کہتا ہوں ، اسلامی عبادات سے بھی قبل اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا تھا۔ مساجد سے بھی قبل اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا تھا۔ یہ معاشرہ اور یہ سوسائٹی اس وقت وجود میں آگئی تھی کہ جب ان سے کہا گیا تھا اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ “ اللہ ہی کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لئے کوئی الٰہ نہیں ہے “ ۔ یاد رہے کہ یہ لوگ جو ان بتوں کی بندگی کرتے تھے تو یہ ان کی نمازیں اور ان کے روزے تو نہ رکھتے تھے ، نماز اور روزہ تو اس آیت کے نزول کے وقت فرض ہی نہ تھے ۔ صرف اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ صرف اللہ کو اپنا حاکم تصور کرو ، اور اس وقت کوئی اسلامی قانون نظام بھی نہ تھا۔ اور جب لوگوں نے اللہ کو اس زمین پر اپنا حاکم تسلیم کرلیا تو پھر حاکم کی طرف سے شریعت آگئی ۔ یہ شریعت بھی اس طرح آئی کہ جب بھی اس اسلامی سوسائٹی کو کسی قانون کی حقیقی ضرورت درپیش ہوئی تو قانون نازل ہوگیا یا انہوں نے قرآن اور سنت کی روشنی میں خود اپنے لئے قانون کا استنباط کرلیا۔۔۔ یہی ہے واحد منہاج کار اور قیامت تک کے لئے یہی منہاج رہے گا۔ اسلامی انقلاب کا اس سے آسان طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ایک تقریر کرے ، اسلام کے احکام بیان کر دے اور اسلامی قانون کی تشریح کر دے۔ لوگ یکدم اسلام میں داخل ہوجائیں اور قصہ تمام شد۔ لیکن یہ طریقہ کار محض تمنا ہے۔ ایک اچھی خواہش ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عوام الناس طاغوتی قوتوں اور جاہلیت کو چھوڑ کر اسلامی نظام میں صرف اسی طریقہ کار کے مطابق ہی داخل ہوسکتے ہیں اور وہ طریقہ کار ایک دیرپا ، تدریجی اور دعوت اسلامی کا طریقہ کار ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک فرد دعوت اسلامی کا آغاز کرتا ہے ، ایک ہر اول دستہ اس کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے۔ یہ ہر اول دستہ موجود اور قائم نظام جاہلیت کو ۔۔۔ کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے اور اس نظام جاہلیت کے درمیان کشمکش برپا ہوجاتی ہے۔ ایک قوم بلکہ معاشرے کی پوری قوم کے ساتھ اسی قوم سے اٹھے ہوئے ان داعیوں کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ اللہ اس ہر اول دستے کو فتح دیتا ہے اور لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور یہ دین اسلام کیا ہے ؟ یہ اللہ کا وہ نظام ہے جس کے سوا اللہ کسی نظام کو برداشت نہیں کرتا۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “ اور جو شخص بھی اسلام کے سوا کسی نظام زندگی کی تابع داری کرے گا ، اس سے یہ تابع داری قبول نہ کی جائے گی ”۔ شاید یہ طویل بیان حضرت یوسف (علیہ السلام) کے موقف کو اچھی طرح واضح کر دے گا۔ یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کسی اسلامی سوسائٹی میں نہیں تھے جس میں کسی شخص کے لئے طلب عہدہ کا کوئی موقعہ نہ ہو ، اور اس میں کوئی شخص کوئی منصب نہ طلب کرسکتا ہو۔ دوسری جانب وہ دیکھ رہے تھے کہ اس غیر اسلامی نظام میں انہیں ایک ایسا منصب مل رہا ہے جس میں تمام اختیارات ان کے ہاتھ آرہے ہیں اور وہ اس حاکم طاع ہوں گے ، اس طرح انہیں موقعہ ملے گا کہ وہ اپنے عقائد پورے مصر میں پھیلا دیں۔ چناچہ عملاً ایسا ہی ہوا کہ ان کے دور اقتدار میں پورے مصر میں عقیدۂ توحید پھیل گیا۔ اس دور میں حضرت یوسف (علیہ السلام) مصری سوسائٹی پر اس طرح چھا گئے کہ اعیان مصر اور بادشاہ مصر دونوں پس منظر میں چلے گئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بادشاہ کا آپ کو دوبارہ طلب کرنا اور معاملہ کی صفائی کے بعد آپ کا بادشاہ کے پاس پہنچنا اور زمین کے خزانوں کا ذمہ دار بننا مصر کے بادشاہ نے اپنے خواب کی تعبیر سنتے ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس بلانے کی فرمائش کردی تھی اور اس مقصد کے لیے قاصد کو ان کے پاس جیل میں بھیج دیا تھا لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس وقت تک جیل سے نکلنا گوارہ نہ فرمایا جب تک عزیز کی بیوی کی لگائی ہوئی تہمت سے برأت نہ ہوجائے۔ اس لیے قاصد سے فرمایا کہ جاؤ اپنے آقا سے کہو کہ معاملہ کی تحقیق کرے اور عورتوں سے پوچھے کہ صحیح صورت حال کیا ہے ؟ بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت ظاہر کردی عزیز کی بیوی بھی اقراری ہوگئی کہ میرا قصور تھا یوسف کا قصور نہیں تھا۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس جیل میں رہنے کی کوئی وجہ نہ تھی لہٰذا بادشاہ نے دوبارہ قاصد بھیجا تو اس کے ساتھ تشریف لے آئے بادشاہ نے اول تو خواب کی تعبیر مل جانے کی وجہ سے اور پھر تعبیر میں معیشت کے انتظام کی طرف جو اشارہ فرمایا تھا اس کے جان لینے سے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس حوصلے سے کہ میں بات کی صفائی ہونے تک جیل سے نہیں جاؤں گا یہ سمجھ لیا کہ یہ شخص کوئی بڑا عالم بھی ہے تعبیر خواب میں ماہر بھی ہے اور متقی اور صالح بھی ہے اور ہمت اور حوصلے والا بھی ہے لہٰذا اسے اپنے پاس بلانا چاہئے اور اپنے مشوروں اور انتظامی امور میں ان کو خاص درجہ دینا چاہئے ‘ اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ میں اسے خالص اپنے ہی لئے مقرر کرلوں گا۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) تشریف لائے اور بادشاہ مصر سے ملاقات ہوئی تو آپس میں گفتگو ہونے لگی اس گفتگو سے بادشاہ کے دل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی اور زیادہ قیمت ووقعت بڑھ گئی اسے جو اپنے خواب کی تعبیر پہنچی تھی اس میں یہ بتایا تھا کہ اول کے سات سال سر سبزی اور شادابی کے ہوں گے اور اس کے بعد والے سات سال ایسے ہوں گے جن میں قحط پڑے گا اس کے لیے بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے مشورہ کیا آپ نے فرمایا اول کے سات سالوں میں خوب زیادہ کاشت کرانے اور غلہ اگانے کی طرف توجہ دی جائے اور جو پیداوار ہو اس میں سے بقدر ضرورت ہی کھائیں پئیں اور جو باقی بچے اسے محفوظ رکھیں اور پہلے بتا چکے تھے کہ غلے کو بالوں سے نہ نکالیں اسے انہیں میں رہنے دیں اور اسی طرح اسی کو ذخیرہ بنایا جائے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ یہ قحط صرف تمہارے ہی ملک میں نہیں آس پاس کے دیگر ملکوں میں بھی ہوگا وہاں کے حاجت مند غلہ لینے کے لیے آپ کے پاس آئیں گے ذخیرہ شدہ غلہ سے ان کی مدد بھی کریں اور تھوڑی بہت قیمت بھی ان سے وصول کریں اس طرح سے سرکاری خزانہ میں بھی مال جمع ہوجائے گا اور لوگوں کی مدد بھی ہوجائے گی ‘ شاہ مصر اس مشورہ سے بہت خوش اور مطمئن ہوا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی سوال کیا کہ اس منصوبہ پر کیسے عمل ہوگا اور کون اس کے مطابق عمل کرسکے گا ؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فرمایا (اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآءِنِ الْاَرْضِ ) کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے (اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ) بلاشبہ میں حفاظت کرنے والا ہوں جاننے والا ہوں ‘ چونکہ مالیات کا انتظام کرنے میں ایسی بیدار مغزی کی ضرورت ہے جس سے مال کی حفاظت ہو سکے چور بھی نہ لے سکیں اور نیچے کے لوگ بھی بیجا نہ اڑا سکیں اور بےوقت ‘ بےمحل اور بےضرورت بھی خرچ نہ کیا جائے اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ فرمایا کہ میں حفاظت کرنے والا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں علیم ہوں یعنی حفاظت کے طریقے بھی جانتا ہوں خرچ کرنے کے مواقع سے بھی باخبر ہوں حساب کتاب سے بھی واقف ہوں (وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ) اور اسی طرح ہم نے یوسف کو زمین میں (یعنی سرزمین مصر میں) با اختیار بنا دیا (یَتَبَوَّأُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآءُ ) (وہ اس میں جہاں چاہے اپنا رہنا سہنا کرے) (نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ ) (ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیں) اللہ تعالیٰ کی رحمت جسے شامل حال ہوجائے وہ کیسی ہی مصیبت ہو مصیبت میں سے نکل کر اچھے رتبہ پر پہنچ جاتا ہے جب اللہ کی طرف سے کسی کے بلند کرنے کا فیصلہ ہو تو کوئی چیز اسے آڑے نہیں آسکتی اور مانع نہیں بن سکتی۔ (وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور ہم اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے) محسنین کو دنیا میں بھی نواز دیتے ہیں اور آخرت میں بھی (وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خِیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ) اور البتہ آخرت کا ثواب ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے ‘ اس میں یہ بتادیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ محسنین کو جو کچھ انعام عطا فرما دے بلاشبہ وہ اپنی جگہ انعام ہے لیکن آخرت کا ثواب اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے لیے بہتر ہے ‘ اسی کا طالب رہنا چاہئے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) منتظم مالیات اور منتظم معاشیات تو بنا دئیے گئے تھے جیسا کہ قرآن مجید کے سیاق سے معلوم ہوا مفسرین نے لکھا ہے کہ دیگر امور سلطنت بھی بادشاہ نے ان کے سپرد کر دئیے تھے اور خود گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ یہاں مفسرین کرام نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اصولی بات یہ ہے کہ خود سے عہدہ کا طالب نہ ہونا چاہئے اور جو شخص عہدہ کا طالب ہوا سے عہدہ نہ دیا جائے احادیث شریفہ میں اس کی تصریح وارد ہوئی حضرت عبد الرحمن بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ امیر بننے کا سوال نہ کرنا کیونکہ اگر تیرے سوال کرنے پر امارت تیرے سپرد کردی گئی تو تو اس کے سپرد کردیا جائے گا (یعنی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تو جانے اور وہ جانے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیری مدد نہ ہوگی) اور اگر تجھے بغیر سوال کے امارت دے دی گئی تو اس پر تیری مدد کی جائے گی۔ (رواہ البخاری) اور ایک حدیث میں ہے (جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) ہیں) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا انا واللہ لا نولی علی ھذا العمل احدا سالہ ولا احدا حرص علیہ۔ اللہ کی قسم ہم اپنے کام پر ایسے شخص کو نہیں لگاتے جو اس کا سوال کرے یا اس کی حرص کرے (رواہ البخاری) ۔ جب مسئلہ اس طرح سے ہے تو حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے لیے عہدہ کا مطالبہ کیوں فرمایا ؟ حضرات علماء کرام نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عامۃ الناس کی خیر خواہی کے لیے عہدہ کا سوال کیا انہیں معلوم تھا کہ سات سال تک ایک زبردست قحط آنے والا ہے۔ جب عام قحط پڑتا ہے تو لوگوں کی بری حالت ہوتی ہے ایک دوسرے پر رحم نہیں کھاتے اپنے بچوں تک کو بیچ کر کھا جاتے ہیں ‘ بادشاہ کافر ہے اس کا عملہ بھی کافر ہے قحط کا سامنا ہے ‘ اس میں بڑے انتظام کی ضرورت ہے کافروں سے امید نہیں جو غریبوں پر رحم کھائیں اور کوئی ایسا شخص سامنے نہیں جو معیشت کا انتظام سنبھال سکے لہٰذا انہوں نے اس خدمت کے لیے اپنی ذات کو پیش کردیا یہ تو ٹھیک ہے کہ عام حالات میں خود سے عہدہ طلب نہ کیا جائے اور جو عہدہ طلب کرے اسے نہ دیا جائے لیکن جہاں کہیں ایسی صورت پیش آجائے کہ مبتلیٰ بہ محسوس کرے کہ میرے علاوہ فرائض کو پورا کرنے والا کوئی نہیں ہے اور اللہ کے دئیے ہوئے علم کے ذریعہ میں اس کام کو انجام دیتا رہوں گا تو ایسے شخص کے لیے نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ عہدہ کی ذمہ داری خود سنبھال لے اور آگے بڑھ کرلے لے ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے علم دیا تھا اور انتظام کے لیے جس ہوشمندی کی ضرورت ہے وہ بدرجہ اتم موجود تھی اور ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی تھے جس سے انہیں ہر وقت اللہ کی مدد کی امید تھی اور عہدہ پر فائز ہو کر توحید کی اشاعت اور تبلیغ حق کا راستہ کھلنے کا بھی بہت اچھا موقع تھا اس لئے انہوں نے نہ صرف یہ کہ عہدہ قبول فرما لیا بلکہ خود سے اس کا بار اٹھانے کی پیش کش کردی اور بادشاہ کو مطمئن کرنے کے لیے (اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ) بھی فرما دیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اپنا علم وفضل کسی صورت سے ظاہر کیا جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں حظ نفس نہ ہو اور تزکیہ نفس مقصود ہو۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کافر کی طرف سے عہدہ قبول کرنا اور کافر کی حکومت کا جزو بننا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کیسے گوارہ فرمایا جبکہ کافر حکومت کا کارکن بننے میں قوانین کفر یہ کو برداشت کرنا بلکہ ان کو نافذ کرنا پڑتا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ذمہ مالیات کا انتظام لیا تھا اور انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ اپنی صوابدید کے مطابق انتظام کریں اور غلہ تقسیم کریں اپنے متعلقہ عہدے میں مختار ہونے کی صورت میں قانون کفریہ اور مظالم سلطانیہ کے نافذ کرنے کے لیے مجبور نہ ہو اپنا مفوضہ کام انجام دیتا رہے ایسی صورت میں کافروں کی طرف سے عہدہ قبول کرنے میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں۔ (قال صاحب الروح ج ١٣۔ ص ٥) وفیہ دلیل علی جواز مدح الانسان نفسہ بالحق اذا جھل امرہ وجواز طلب الولایۃ اذا کان الطالب ممن یقدر علی اقامۃ العدل واجراء الاحکام الشریعہ وان کان من ید الجائر والکافر و ربما یجب علیہ الطلب اذا توقف علی ولایتہ اقامۃ واجب مثلا وکان متعینا لذلک ‘ وقال النسفی فی المدارک ج ٢ ص ٢٢٧ وانما قال ذلک لیتوصل الی امضاء احکام اللہ و اقامۃ الحق وبسط العدل والتمکن مما لاجلہ بعث الانبیاء الی العباد ولعلمہ ان احدا غیرہ لا یقول مقامہ فی ذلک فطلبہ ابتغاء وجہ اللہ لا لحب الملک والدنیا۔ قالوا وفیہ دلیل علی انہ یجوزان یتولی الانسان عمالۃ من ید سلطان جائر وقد کان السلف یولون القضاء من جھۃ الظلمۃ۔ وقیل کان الملک یصدر عن رایہ ولا یعترض علیہ فی کل مارای وکان فی حکم التابع لہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ جب بادشاہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی اور عصمت واضح ہوگئی تو اب اس نے حکم دیا کہ انہیں فورًا میرے پاس لاؤ میں انہیں اپنا خاص مشیر بنا لوں اور اپنی مملکت کے اہم امور اس کے سپرد کردوں۔ ای اجعلہ خالصا لنفسی، افوض الیہ امر مملکتی (قرطبی ج 9 ص 212) ۔ 49:۔ جب دونوں مل کر بیٹھے اور کھل کر گفتگو ہوئی تو شاہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ایسی خوبیاں ظاہر ہوئیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں تو اس نے اعلان کیا کہ آج سے ہمارے یہاں آپ کو بہت بلند مرتبہ عطا کیا جاتا ہے اور حکومت کے تمام معاملات میں آپ معتمد علیہ اور امین ہیں۔ ذومکانۃ و منزلۃ امین مؤتمن علی کل شیء (مدارک ج 2 ص 174) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 ۔ اور بادشاہ نے خواب کی تعبیر سننے اور مقدمہ کے حالات معلوم کرنے کے بعد حکم دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لائو میں خالص اس کو اپنے کام میں رکھوں گا اور میں اس کو اپنے کام میں مخصوص کرلوں گا ۔ پھر جب بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے باتیں کیں تو اور بھی زیادہ ان کی قابلیت کا معترف ہوگیا اور اس نے یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ تم آج سے ہمارے نزدیک بڑے معزز اور معتبر اور صاحب منزلت اور صاحب اعتبار ہو ۔ یعنی بادشاہ ان کی باتیں سن کر پہلے ہی ان سے خوش اعتقاد ہوگیا تھا اب گفتگو کے بعد تو اس کی رائے اور بھی پختہ ہوگئی اور اس نے آپ کو اپناخاص مقرب اور مشیر بنا لیا اور عزیز کے تعلق کو ختم کردیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اب سے عزیز کا علاقہ موقوف کیا اپنی صحبت میں رکھا۔ 12 ۔