Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 58

سورة يوسف

وَ جَآءَ اِخۡوَۃُ یُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَعَرَفَہُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ﴿۵۸﴾

And the brothers of Joseph came [seeking food], and they entered upon him; and he recognized them, but he was to them unknown.

یوسف کے بھائی آئے اور یوسف کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Brothers travel to Egypt Allah tells: وَجَاء إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ And Yusuf's brethren came and they entered unto him, and he recognized them, but they recognized him not. As-Suddi, Muhammad bin Ishaq and several others said that the reason why Yusuf's brothers went to Egypt, is that after Yusuf became minister of Egypt and the seven years of abundance passed, then came the seven years of drought that struck all areas of Egypt. The drought also reached the area of Kana`an (Canaan), where Prophet Yaqub, peace be upon him, and his children resided. Prophet Yusuf efficiently guarded the people's harvest and collected it, and what he collected became a great fortune for the people. This also permitted Yusuf to give gifts to the people who sought his aid from various areas who came to buy food and provisions for their families. Yusuf would not give a family man more than whatever a camel could carry, as annual provisions for them. Yusuf himself did not fill his stomach from this food, nor did the king and his aids eat except one meal a day. By doing so, the people could sustain themselves with what they had for the remainder of the seven years. Indeed, Yusuf was a mercy from Allah sent to the people of Egypt. Yusuf's brothers were among those who came to Egypt to buy food supplies, by the order of their father. They knew that the Aziz of Egypt was selling food to people who need it for a low price, so they took some merchandise from their land with them to exchange it for food. They were ten, because Yaqub peace be upon him kept his son and Yusuf's brother Binyamin with him. Binyamin was the dearest of his sons to him after Yusuf. When Prophet Yusuf's brothers entered on him in his court and the center of his authority, he knew them the minute he saw them. However, they did not recognize him because they got rid of him when he was still young, and sold him to a caravan of travelers while unaware of their destination. They could not have imagined that Yusuf would end up being a minister, and this is why they did not recognize him, while he did recognize them. As-Suddi said that; Yusuf started talking to his brothers and asked them, "What brought you to my land?" They said, "O, Aziz, we came to buy provisions." He asked them, "You might be spies." They said, "Allah forbids." He asked them, "Where are you from?" They said, "From the area of Kana`an, and our father is Allah's Prophet Yaqub." He asked them, "Does he have other children besides you?" They said, "Yes, we were twelve brothers. Our youngest died in the desert, and he used to be the dearest to his father. His full brother is alive and his father kept him, so that his closeness compensates him for losing our youngest brother (who died)." Yusuf ordered that his brothers be honored and allowed to remain,

کہتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزیر مصر بن کر سات سال تک غلے اور اناج کو بہترین طور پر جمع کیا ۔ اس کے بعد جب عام قحط سالی شروع ہوئی اور لوگ ایک ایک دانے کو ترسنے لگے تو آپ نے محتاجوں کو دینا شروع کیا ، یہ قحط علاقہ مصر سے نکل کر کنعان وغیرہ شہروں میں بھی پھیل گیا تھا ۔ آپ ہر بیرونی شخص کو اونٹ بھر کر غلہ عطا فرمایا کرتے تھے ۔ اور خود آپ کا لشکر بلکہ خود بادشاہ بھی دن بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ دوپہر کے وقت ایک آدھ نوالہ کھا لیتے تھے اور اہل مصر کو پیٹ بھر کر کھلاتے تھے پس اس زمانے میں یہ بات ایک رحمت رب تھی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے پہلے سال مال کے بدلے غلہ بیچا ۔ دوسرے سال سامان اسباب کے بدلے ، تیسرے سال بھی اور چوتھے سال بھی ۔ پھر خود لوگوں کی جان اور ان کی اولاد کے بدلے ۔ پس خود لوگ ان کے بچے اور ان کی کل ملیکت اور مال کے آپ مالک بن گئے ۔ لیکن اس کے بعد آپ نے سب کو آزاد کر دیا اور ان کے مال بھی ان کے حوالے کر دئے ۔ یہ روایت بنو اسرائیل کی ہے جسے ہم سچ جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ ان آنے والوں میں برادران یوسف بھی تھے ۔ جو باپ کے حکم سے آئے تھے ۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ عزیز مصر مال متاع کے بدلے غلہ دیتے ہیں تو آپ نے اپنے دس بیٹوں کو یہاں بھیجا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین کو جو آپ کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کے نزدیک بہت ہی پیارے تھے اپنے پاس روک لیا ۔ جب یہ قافلہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے تو بہ یک نگاہ سب کو پہچان لیا لیکن انمیں سے ایک بھی آپ کو نہ پہچان سکا ۔ اس لئے کہ آپ ان سے بچپن میں ہی جدا ہو گئے تھے ۔ بھائیوں نے آپ کو سوداگروں کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا انہیں کیا خبر تھی کہ پھر کیا ہوا ۔ اور یہ تو ذہن میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچہ جسے بحیثیت غلام بیچا تھا ۔ آج وہی عزیز مصر بن کر بیٹھا ہے ۔ ادھر حضرت یوسف علیہ السلام نے طرز گفتگو بھی ایسا اختیار کیا کہ انہیں وہم بھی نہ ہو ۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ میرے ملک میں کیسے آ گئے ؟ انہوں نے کہا یہ سن کر کہ آپ غلہ عطا فرماتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا مجھے تو شک ہوتا ہے کہ کہیں تم جاسوس نہ ہو ؟ انہوں نے کہا معاذ اللہ ہم جاسوس نہیں ۔ فرمایا تم رہنے والے کہاں کے ہو ؟ کہا کنعان کے اور ہمارے والد صاحب کا نام یعقوب نبی اللہ ہے ۔ آپ نے پوچھا تمہارے سوا ان کے اور لڑکے بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم بارہ بہائی تھے ۔ ہم میں جو سب سے چھوٹا تھا اور ہمارے باپ کی آنکھوں کا تارا تھا وہ تو ہلاک ہو گیا ۔ اسی کا ایک بھائی اور ہے ۔ اسے باپ نے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا بلکہ اپنے پاس ہی روک لیا ہے کہ اس سے ذرا آپ کو اطمینان اور تسلی رہے ۔ ان باتوں کے بعد آپ نے حکم دیا کہ انہیں سرکاری مہمان سمجھا جائے اور ہر طرح حاظر مدارات کی جائے اور اچھی جگہ ٹھیرایا جائے ۔ اب جب انہیں غلہ دیا جانے لگا اور ان تھلیے بھر دئے گئے اور جتنے جانور ان کے ساتھ تھے وہ جتنا غلہ اٹھا سکتے تھے بھر دیا تو فرمایا دیکھو اپنی صداقت کے اظہار کے لئے اپنے اس بھائی کو جسے تم اس مرتبہ اپنے ساتھ نہ لائے اب اگر آؤ تو لیتے آنا دیکھو میں نے تم سے اچھا سلوک کیا ہے اور تمہاری بڑی خاطر تواضع کی ہے اس طرح رغبت دلا کر پھر دھمکا بھی دیا کہ اگر دوبارہ کے آنے میں اسے ساتھ نہ لائے تو میں تمہیں ایک دانہ اناج کا نہ دوں گا بلکہ تمہیں اپنے نزدیک بھی نہ آنے دوں گا ۔ انہوں نے وعدے کئے کہ ہم انہیں کہہ سن کر لالچ دکھا کر ہر طرح پوری کوشش کریں گے کہ اپنے اس بھائی کو بھی لائیں تاکہ بادشاہ کے سامنے ہم جھوٹے نہ پڑیں ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ تو کہتے ہیں کہ آپ نے تو ان سے رہن رکھ لیا کہ جب لاؤ گے تو یہ پاؤ گے ۔ لیکن یہ بات کچھ جی کو لگتی نہیں اس لئے کہ آپ نے تو انہیں واپسی کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تمنا ظاہر کی ۔ جب بھائی کوچ کی تیاریاں کرنے لگے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے چالاک چاکروں سے اشارہ کیا کہ جو اسباب یہ لائے تھے اور جس کے عوض انہوں نے ہم سے غلہ لیا ہے وہ انہیں واپس کر دو لیکن اس خوبصورتی سے کہ انہیں معلوم تک نہ ہو ۔ ان کے کجاوں اور بوروں میں ان کی تمام چیزیں رکھ دو ۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو خیال ہوا ہو کہ اب گھر میں کیا ہوگا جسے لے کر یہ غلہ لینے کے لئے آئیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے باپ اور بھائی سے اناج کا کچھ معاوضہ لینا مناسب نہ سمجھا ہو اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ آپ نے یہ خیال فرمایا ہو کہ جب یہ اپنا اسباب کھولیں گے اور یہ چیزیں اس میں پائیں گے تو ضروری ہے کہ ہماری یہ چیزیں ہمیں واپس دینے کو آئیں تو اس بہانے ہی بھائی سے ملاقات ہو جائے گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یہ اس وقت کا وقع ہے جب خوش حالی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط سالی شروع ہوگئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتیٰ کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جا پہنچے جہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی رہائش پذیر تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حسن تدبیر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لئے جو انتظامات کئے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس غلہ لینے کے لئے آرہے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی یہ شہرت کنعان تک بھی جا پہنچی کہ مصر کا بادشاہ اس طرح غلہ فروخت کر رہا ہے۔ چناچہ باپ کے حکم پر یہ بردران یوسف (علیہ السلام) بھی گھر کی پونجی لے کر غلے کے حصول کے لئے دربار شاہی میں پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) تشریف فرما تھے، جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] عام قحط اور مصر میں غلہ کی تقسیم کا نظام :۔ برادران یوسف آپ کے پاس اس وقت آئے جب آپ کو بادشاہ بنے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ پہلے سات سال انتہائی خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور میں آپ نے کافی غلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس کے بعد جب قحط سالی کا دور شروع ہوا تو یہ قحط سالی صرف ملک مصر میں ہی نہ تھی بلکہ آس پاس کے ممالک میں بھی پھیل چکی تھی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ مصر میں تو غلہ سستا تھا جبکہ آس پاس کے علاقہ میں بہت مہنگے نرخوں پر فروخت ہو رہا تھا اور غلہ کے حصول کے لیے آس پاس کے علاقوں کے باشندے مصر کا رخ کرتے تھے۔ مصر میں غلہ کی فراہمی اور اس کی نک اس کا تمام تر انتظام سیدنا یوسف نے خود سنبھال رکھا تھا اور اس انتظام کو موجودہ دور کے راشن سسٹم سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ بیرونی علاقوں سے حصول غلہ کے لیے آنے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ درخواست پیش کریں کہ انھیں اپنے گھر کے کتنے افراد کے لیے غلہ درکار ہے۔ ان کے پورے پورے نام اور پتے لکھے جائیں اور ان کو رجسٹر میں درج کیا جائے اور درخواست کی منظوری کے لیے درخواست حکام بالا کے پاس پیش کی جائے۔ درخواست کی تحقیق کے بعد فی کس ایک بار شتر غلہ کی منظوری دے دی جاتی تھی۔ اسی سلسلہ میں برادران یوسف بھی مصر آئے تھے۔ انہوں نے بھی حسب ضابطہ درخواست دی۔ یہ درخواست بالآخر سیدنا یوسف تک پہنچی۔ آپ نے درخواست کی منظوری دے دی مگر ساتھ ہی ان درخواست دہندگان کو اپنے پاس طلب کرلیا۔ اب برادران یوسف سیدنا یوسف کے سامنے کھڑے تھے۔ آپ انھیں خوب پہچانتے تھے۔ لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ جس بادشاہ کے حضور کھڑے غلہ کی درخواست پیش کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بات پوری ہوئی جو اس نے برادران یوسف کے یوسف کو کنویں میں ڈالتے وقت یوسف کے دل میں ڈالی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ اِخْوَةُ يُوْسُفَ : یہاں اللہ تعالیٰ نے خوش حالی کے سالوں کا، ان میں یوسف (علیہ السلام) کے حسن انتظام کا اور اس سے متعلق سب باتوں کا ذکر چھوڑ دیا، کیونکہ اصل مقصود یہ تھا کہ انبیاء کو اپنوں کے ہاتھوں کیا کچھ اٹھانا پڑتا ہے اور آخر کار کس طرح ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور حسن انجام کا اہتمام ہوتا ہے۔ درمیان میں گزرنے والے عرصے کا اندازہ خود بخود ہو رہا ہے، اس لیے اب خوش حالی کے سالوں کے ختم ہونے کے بعد قحط کے دوران بھائیوں کی آمد کی بات شروع فرمائی، جس سے بات خودبخود سمجھ میں آرہی ہے کہ قحط کی وسعت مصر سے نکل کر اردگرد کے ممالک فلسطین و شام وغیرہ تک پہنچ گئی تھی اور مصر کے سوا کہیں سے غلہ نہیں ملتا تھا، اس لیے یہ بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر آئے تھے۔ فَدَخَلُوْا عَلَيْهِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کتنی احتیاط سے غلہ تقسیم کر رہے تھے کہ وہ غلہ لینے کے لیے آنے والوں سے خود ملتے اور قیمت وصول کرنے کے باوجود ایک اونٹ فی کس سے زیادہ غلہ نہیں جانے دیتے تھے۔ چھوٹے بھائی کو چھوڑ کر سب کے آنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ دس اونٹوں کا غلہ مل جائے گا اور شاید یہ بھی ہو کہ راستے میں دشمن سے محفوظ رہ سکیں۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ : ” فَعَرَفَهُمْ “ جملہ فعلیہ ہے جس میں تجدد و حدوث ہوتا ہے، یعنی یوسف (علیہ السلام) نے اپنی یادداشت اور ذکاوت سے دیکھتے ہی انھیں پہچان لیا اور دوسرا جملہ اسمیہ ہے جس میں دوام ہوتا ہے کہ بھائی واپسی تک ان سے ناواقف رہے، کیونکہ بہت مدت گزر گئی تھی، چھوٹی عمر میں ان سے الگ ہوئے تھے۔ دوسرے یہ چیز تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں ڈال گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verses was how Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was blessed by Allah Ta ala with full control over the country of Egypt. Described in the verses cited above is the coming of the brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) to procure food grains. As a corollary, it was also mentioned that the brothers who came to Egypt were ten in number. The younger brother, the real brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was not with them on this trip. The details of the story in between were not given by the Qur&an since they can be understood contextually. The details described by Ibn Kathir with reference to Tafsir author¬ities, Suddiyy, Muhammad ibn Ishaq and others, even if borrowed from historical and Israelite reports, may be acceptable in a certain measure since indicators in this direction are available in the sequential arrange¬ment of the Qur’ an itself. The authorities cited above have said that following the ministerial authority of Egypt having come into the hands of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، the first seven years were, true to the interpretation of the dream, years of great prosperity and well-being for the entire country. Crops were abundant and matching were the efforts to produce and conserve. After that, the second part of this very dream unfolded itself. Came the famine which continued for full seven years. Since, at that time, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) knew in advance that this famine will continue for seven years without any break, therefore, he made arrangements to have the stock of grains present in the country stored very carefully during the initial year of the famine and saw to it that it remained preserved and protected fully and satisfactorily. As for the local people of Egypt, food grain sufficient for their need was stored with them well ahead of the time. When famine spread and people living in areas around Egypt started coming there, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) set up a working system of selling grains to them according to which he would not give to one person more than one camel-load of grain. Its quantity, according to al-Qurtubi, was one Wasaq, that is, sixty Sa` which, according to our weight, comes to approximately 1, 953 grams. Such was his concern for this responsibility that he himself used to oversee the sale of foodgrains. As said earlier, this famine was not limit¬ed to Egypt only. It was spread out to areas far away. The land of Can&aan, a part of Palestine - the homeland of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) with one of its cities still surviving by the name Khalil, known for the resting places of blessed prophets Ibrahim, Ishaq, Yaqub and Yusuf (علیہم السلام) - even this could not escape the ravages of the famine. Naturally, the family of Sayyidna Ya&qab (علیہ السلام) became anxious. That was a time when news had gone around that Egypt was the place where food grains could be procured on payment. Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) had also come to know that the king of Egypt was a man of mercy and would let those who needed it have it. So, he asked his sons too to go and get some grains from Egypt. And as they had also come to know that one person is not given more than a camel-load of grains, it was decided to send all sons on the trip. But, the youngest brother, Benyamin, the real brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) with whom Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) had become very attached since the disappearance of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was held back by the father for his comfort and care. Traveling from Can&aan, the ten brothers reached Egypt. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) appeared in his royal robe as the master of the land before his brothers who had sold him as a seven year old child to the people of the caravan - an event over which, at that time, according to Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas, forty years had passed. (Qurtubi, Mazhari) It is obvious that the passage of such a long time would cause great changes in the looks of a person. It could have never occurred to them that a child once sold as a slave could become the king or minister of some country. Therefore, the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did not recognize him. But, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did. Therefore, this is what the expression: فَعَرَ‌فَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُ‌ونَ (He recognized them, while they were not to recognize him - 58) appearing in the opening verse means - for in the Arabic language, the real meaning of the word: اِنکَار (inkar) is ` to take as stranger.& Therefore, the word: مُنکِرُون (munkirun) in the text comes to mean ` unable to recognize.& About the recognizing of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، Ibn Kathir has said, on the authority of Suddiyy: When these ten brothers reached the court, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) interrogated them as is done with suspicious people so that they would state the truth clearly. First of all, he asked them: You are not residents of Egypt. You speak Hebrew. How did you get here? They said: There is a great famine in our country. We have heard about you, therefore, we are here to get some grain. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) asked again: How do we know that you are telling the truth, and that you are not an enemy spy? Then, all brothers said: God forbid, we can never do that. We are the sons of the Prophet of Allah Ya` qub (علیہ السلام) who lives in Canaan.

خلاصہ تفسیر : (غرض یوسف (علیہ السلام) نے با اختیار ہو کر غلہ کاشت کرانا اور جمع کرانا شروع کیا اور سات برس کے بعد قحط شروع ہوا یہاں تک کہ دور دور سے یہ خبر سن کر مصر میں سلطنت کی طرف سے غلہ فروخت ہوتا ہے ذوق در ذوق لوگ آنا شروع ہوئے) اور (کنعان میں بھی قحط ہوا) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (بھی بجز بنیامین کے غلہ لینے مصر میں) آئے پھر یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہونچے سو یوسف (علیہ السلام) نے (تو) ان کو پہچان لیا اور انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا (کیونکہ ان میں تغیر کم ہوا تھا نیز یوسف (علیہ السلام) کو ان کے آنے کا خیال اور قوی احتمال بھی تھا پھر نو وارد سے پوچھ بھی لیتے ہیں کہ آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور شناسا لوگوں کو تھوڑے پتہ سے اکثر پہچان بھی لیتے ہیں بخلاف یوسف (علیہ السلام) کے کہ ان میں (چونکہ مفارقت کے وقت بہت کم عمر تھے) تغیر بھی زیادہ ہوگیا تھا اور ان کو یوسف (علیہ السلام) کے ہونے کا احتمال بھی نہ تھا پھر حکام سے کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا کہ آپ کون ہیں ؟ یوسف (علیہ السلام) کو معمول تھا کہ ہر شخص کے ہاتھ غلہ بقدر حاجت فروخت کرتے تھے چناچہ ان کو بھی جب فی آدمی ایک ایک اونٹ غلہ قیمت دے کر ملنے لگا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک علاّتی بھائی اور ہے اس کو باپ نے اس وجہ سے کہ ان کا ایک بیٹاگم ہوگیا تھا اپنی تسلی کے لئے رکھ لیا ہے اس کے حصہ کا بھی ایک اونٹ غلہ زیادہ دے دیا جائے یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ قانون کے خلاف ہے اگر اس کا حصہ لینا ہے تو وہ خود آ کرلے جائے غرض ان کے حصہ کا غلہ ان کو دلوا دیا) اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (غلہ کا) تیار کردیا تو (چلتے وقت) فرما دیا کہ (اگر یہ غلہ خرچ کر کے اب کے آنے کا ارادہ کرو تو) اپنے علاتی بھائی کو بھی (ساتھ) لانا (تاکہ اس کا حصہ بھی دیا جاسکے) تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں سب سے زیادہ مہمان نوازی کرتا ہوں (پس اگر تمہارا وہ بھائی آئے گا اس کو بھی پورا حصہ دوں گا اور اس کی خوب خاطر داشت کروں گا جیسا تم نے اپنے ساتھ دیکھا غرض آنے میں تونفع ہی نفع ہے) اور اگر تم (دوبارہ آئے اور) اس کو میرے پاس نہ لائے تو (میں سمجھوں گا کہ تم مجھ کو دھوکہ دے کر غلہ زیادہ لینا چاہتے تھے تو اس کی سزا میں) نہ میرے پاس تمہارے نام کا غلہ ہوگا، اور نہ تم میرے پاس آنا (پس اس کے نہ لانے میں یہ نقصان ہوگا کہ تمہارے حصہ کا غلہ بھی سوخت ہو جاوئے گا) وہ بولے (دیکھئے) ہم (اپنی حد امکان تک تو) اس کے باپ سے اس کو مانگیں گے اور ہم اس کام کو (یعنی کوشش اور درخواست) ضرور کریں گے (آگے باپ کے اختیار میں ہے) اور جب وہاں سے بالکل چلنے لگے تو) یوسف (علیہ السلام) نے اپنے نوکروں سے کہہ دیا کہ ان کی جمع پونجی (جس کے عوض انہوں نے غلہ مول لیا ہے) ان (ہی) کے اسباب میں (چھپاکر) رکھ دو تاکہ جب اپنے گھر جائیں تو اس کو (جب وہ اسباب میں سے نکلنے) پہچانیں شاید (یہ احسان وکرم دیکھ کر) پھر دوبارہ آئیں (چونکہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کا دوبارہ آنا اور ان کے بھائی کا لانا منظور تھا اس لئے کسی طرح سے اسکی تدبیر کی اول وعدہ اگر اس کو لاؤ گے تو اس کا بھی حصہ ملے گا دوسرے وعید سنا دی کہ اگر نہ لاؤ گے تو اپنا حصہ بھی نہ پاؤ گے تیسرے دام جو کہ نقد کے علاوہ کوئی اور چیز تھی واپس کردی دوخیال سے ایک یہ کہ اس سے احسان و کرم پر استدلال کر کے پھر آئیں گے دوسرے اس لئے کہ شاید ان کے پاس اور دام نہ ہوں اور اس لئے پھر نہ آسکیں اور جب یہ دام ہوں گے انہی کو لے کر پھر آسکتے ہیں) معارف و مسائل : پچھلی آیتوں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملک مصر کا کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوجانے کا بیان تھا مذکور الصدر آیات میں برادران یوسف (علیہ السلام) کا غلہ لینے کے لئے مصر آنا بیان ہوا ہے اور ضمنا آ گیا کہ دس بھائی مصر آئے تھے یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی چھوٹے بھائی ساتھ نہ تھے، درمیانی قصہ کی تفصیل قرآن نے اس لئے نہیں دی کہ پچھلے واقعات سے وہ خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے، ابن کثیر (رح) نے ائمہ تفسیر میں سے سدی اور محمد ابن اسحاق وغیرہ کے حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ اگر تاریخی اور اسرائیلی روایات سے بھی لی گئی ہو تو اس لئے کچھ قابل قبول ہے کہ نسق قرآنی میں خود اس کی طرف اشارے موجود ہیں ، ان حضرات نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کو ملک مصر کی وزارت حاصل ہونے کے بعد ابتدائی سات سال تعبیر خواب کے مطابق پورے ملک کیلئے بڑی خوش حالی اور رفاہیت کے آئے پیداوار خوب ہوئی اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے اور جمع کرنے کی کوشش کی اس کے بعد اسی خواب کا دوسرا جزء سامنے آیا کہ قحط شدید پڑا جو سات سال تک جاری رہا اس وقت یوسف (علیہ السلام) چونکہ پہلے سے باخبر تھے کہ یہ قحط سات سال تک مسلسل رہے گا اس لئے قحط کے ابتدائی سال میں ملک کے موجودہ ذخیرہ کو بڑی احتیاط سے جمع کرلیا اور پوری حفاظت سے رکھا، مصر کے باشندوں کے پاس بقدر ان کی ضرورت کے پہلے سے جمع کرا دیا گیا اب قحط عام ہوا اور اطراف واکناف سے لوگ سمٹ کر مصر آنے لگے تو یوسف (علیہ السلام) نے ایک خاص انداز سے غلہ فروخت کرنا شروع کیا کہ ایک شخص کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ نہ دیتے تھے جس کی مقدار قرطبی نے ایک وسق یعنی ساٹھ صاع لکھی ہے جو ہمارے وزن کے اعتبار سے دو سو دس سیر یعنی پانچ من سے کچھ زیادہ ہوتی ہے، اور اس کام کا اتنا اہتمام کیا کہ غلہ کی فروخت خود اپنی نگرانی میں کراتے تھے یہ قحط صرف ملک مصر میں نہ تھا بلکہ دور دور کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا ارض کنعان جو فلسطین کا ایک حصہ ہے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا وطن ہے اور آج بھی اس کا شہر بنام خلیل ایک پر رونق شہر کی صورت میں موجود ہے یہیں حضرت ابراہیم واسحاق اور یعقوب و یوسف (علیہم السلام) کے مزارات معروف ہیں یہ خطہ بھی اس قحط کی زد سے نہ بچا اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان میں بےچینی پیدا ہوئی ساتھ ہی ساتھ مصر کی یہ شہرت عام ہوگئی تھی کہ وہاں غلہ قیمتاً مل جاتا ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک بھی یہ خبر پہنچی کہ مصر کا بادشاہ کوئی صالح رحم دل آدمی ہے وہ سب خلق خدا کو غلہ دیتا ہے تو اپنے صاحبزادوں سے کہا تم بھی جاؤ مصر سے غلہ لے کر آؤ ، اور چونکہ یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ آدمی کو ایک اونٹ کے بار سے زیادہ غلہ نہیں دیا جاتا اس لئے سب ہی صاحبزادوں کو بھیجنے کی تجویز ہوئی مگر سب سے چھوٹے بھائی بنیامین جو یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور یوسف (علیہ السلام) کی گم شدگی کے بعد سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت و شفقت ان کے ساتھ زیادہ متعلق ہوگئی تھی ان کو اپنے پاس اپنی تسلی اور خبرگیری کے لئے روگ لیا، دس بھائی کنعان سے سفر کر کے مصر پہنچنے یوسف (علیہ السلام) شاہی لباس میں شاہانہ تخت وتاج کے مالک ہونے کی حیثیت میں سامنے آئے اور بھائیوں نے ان کو بچپن کی سات سالہ عمر میں قافلہ والوں کے ہاتھ بیچا تھا جس کو اس وقت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کے مطابق چالیس سال ہوچکے تھے (قرطبی، مظہری) ظاہر ہے کہ اتنے عرصہ میں انسان کا حلیہ بھی کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے اور ان کا یہ وہم و خیال بھی نہ ہوسکتا تھا کہ جس بچہ کو غلام بنا کر بیچا گیا تھا وہ کسی ملک کا وزیر یا بادشاہ ہوسکتا ہے اس لئے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچانا مگر یوسف (علیہ السلام) نے پہچان لیا آیت مذکورہ میں فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ کے یہی معنی ہیں عربی زبان میں انکار کے اصلی معنی اجنبی سمجھنے ہی کے آتے ہیں اس لئے مُنْكِرُوْنَ کے معنی ناواقف اور انجان کے ہوگئے، یوسف (علیہ السلام) کے پہچان لینے کے متعلق ابن کثیر نے بحوالہ سدی یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب یہ دس بھائی دربار میں پہنچنے تو یوسف (علیہ السلام) نے مزید اطمینان کے لئے ان سے ایسے سوالات کئے جیسے مشتبہ لوگوں سے کئے جاتے ہیں تاکہ وہ پوری حقیقت واضح کر کے بیان کردیں اول تو ان سے پوچھا کہ آپ لوگ مصر کے رہنے والے نہیں آپ کی زبان بھی عبرانی ہے آپ یہاں کیسے پہنچنے انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے ملک میں قحط عظیم ہے اور ہم نے آپ کی تعریف سنی اس لئے غلہ حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے پھر کہ ہمیں یہ کیسے اطمینان ہو کہ تم سچ کہہ رہے ہو اور تم کسی دشمن کے جاسوس نہیں ہو، تو ان سب بھائیوں نے عرض کیا کہ معاذاللہ ہم سے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہم تو اللہ کے رسول یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں جو کنعان میں رہتے ہیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ اِخْوَۃُ يُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَيْہِ فَعَرَفَہُمْ وَہُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۝ ٥٨ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ مُنْكَرُ والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دس بھائی مصر پہنچے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انکو پہچان لیا اور انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ ) ان حالات میں یہ امکان ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عزیز مصر جس کے دربار میں ان کی پیشی ہورہی ہے وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. The events of several years after his coming into power have been left out for the sake of brevity, and the story has been resumed from the time when the brothers of Prophet Joseph came to Egypt, and paved the way for the eventual settlement of the Israelites in Egypt. It will, however, be worthwhile to have a glimpse of those events. During the first seven years of his reign, there was abundance of food as he had predicted while interpreting the dream of the king. Accordingly he adopted all the measures he had put before the king concerning the years of plenty. Then the seven years of scarcity began and famine reigned not only over Egypt but all over the adjoining countries. Accordingly, Syria, Palestine, Trans Jordan and the Northern part of Arabia began to suffer from the scarcity of food, but there was plenty of it in Egypt in spite of famine because of the wise steps Prophet Joseph had taken as a safeguard. That was why his brothers, like other neighboring people, were forced by circumstances to go to Egypt and present themselves before him. It appears that Prophet Joseph had so arranged things that no foreigner was allowed to buy food without a special permit from him. Therefore when the brothers reached Egypt, they might have had to present themselves before him for obtaining the special permit for buying the fixed quantity allowed under the famine regulations. 51. It is no wonder that his brothers could not recognize Prophet Joseph, for, when they cast him into the well, he was merely a lad of seventeen and at the time of their meeting, he was a grown up man of thirty eight years or so. Naturally, he must have changed in form during this long period. Besides, they could never have imagined that the brother whom they had cast into the well had become the ruler of Egypt.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :50 یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے ۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کرلیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے ۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آگئے تھے ۔ شام ، فلسطین ، شرق اردن ، شمالی عرب ، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا ۔ ان حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دانشمندانہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی فراط تھی ۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجوع کریں ۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے ۔ غالبا حضرت یوسف علیہ السلام نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہوگی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہوگا ۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف علیہ السلام نے غیر ملک سے آکر غلہ حاصل کرنا چاہا ہوگا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی اور اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہوگی ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :51 برادران یوسف علیہ السلام کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے ۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے ۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی ۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے ۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تعبیر دی تھی، سات سال بعد پورے مصر میں سخت قحط پڑا، اور آس پاس کے علاقے بھی اسکی لپیٹ میں آگئے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے مصر کے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ خوشحالی کے سات سالوں میں مسلسل غلے کا ذخیرہ کیا جائے تاکہ جب قحط کے سال آئیں تو یہ ذخیرہ لوگوں کے کام آئے، اس موقع پر آپ نہ صرف اپنے علاقے کے لوگوں کو سستے داموں غلہ فروخت کرسکیں گے بلکہ اردگرد کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی بھی مدد کرسکیں گے، چنانچہ اس قحط کے نتیجے میں دور دور تک غلے کی بڑی قلت ہوگئی، حضرت یعقوب (علیہ السلام) (یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد) اس پورے عرصے میں فلسطین کے علاقے کنعان ہی میں تھے جب کنعان میں بھی قحط پڑا تو انہیں اور ان کے صاحبزادوں کو پتہ چلا کہ مصر کے بادشاہ نے قحط زدہ لوگوں کے لئے راشن مقرر کر رکھا ہے اور وہاں سے مناسب قیمت پر غلہ مل سکتا ہے، اس خبر کو سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دس باپ شریک بھائی جنہوں نے ان کو بچپن میں کنویں میں ڈالا تھا راشن لینے کیلئے مصر آئے، البتہ ان کے سگے بھائی بنیامین کو اپنے والد کے پاس چھوڑ آئے، یہاں راشن کی تقسیم کا سارا انتظام حضرت یوسف (علیہ السلام) خود کررہے تھے ؛ تاکہ سب لوگوں کو انصاف کے ساتھ راشن مل سکے، چنانچہ ان کے بھائیوں کو ان کے سامنے آنا پڑا۔ 38: حضرت یوسف (علیہ السلام) توان کو اس لئے پہچان گئے کہ ان کی صورتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو توقع بھی تھی کہ وہ راشن لینے کے لئے آئیں گے، لیکن وہ بھائی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس لئے نہیں پہچان سکے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سات سال کی عمر میں دیکھا تھا اور اب وہ بہت بڑے ہوچکے تھے، اس لئے صورت میں بڑی تبدیلی آچکی تھی، اس کے علاوہ ان کہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مصر کے محلات میں ہوسکتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨۔ ٦٢۔ جب یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر کی جگہ بادشاہ کے وزیر ہوگئے اور سارا انتظام ملکی و مالی ان کے قبضہ و تصرف میں آگیا تو سات سال ارزانی میں انہوں نے بہت اہتمام کیا اور غلوں کو نہایت احتیاط سے جمع کیا یہاں تک کہ ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا اور جب ارزانی کا زمانہ گزر گیا اور قحط شروع ہونے لگا تو دور دور کے لوگ غلہ خریدنے کو مصر میں آنے جانے لگے۔ یوسف (علیہ السلام) کسی شخص کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے اور آپ معہ بادشاہ اور لشکر کے دن میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تاکہ یہ سات سال قحط کے بآسانی گزر جائیں جب یہ خبر رفتہ رفتہ ملک شام پہنچی کہ مصر میں غلہ فروخت ہوتا ہے تو یوسف کے دسوں سوتیلے بھائی باپ کے حکم سے مصر کی طرف چلے اور کچھ مال نقدی اپنے ساتھ لیتے آئے کہ قیمت میں غلہ کے دیں گے جب یہ لوگ مصر میں پہنچے تو لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکلنے کے بعد مصر کے قافلہ کے لوگوں کے ہاتھ فروخت کیا تھا تو وہ بہت خورد سال تھے اور اب تیس سے زائد عمر تجاوز کرگئی تھی علاوہ اس کے ہیئت بدلی ہوئی تھی عزیز مصر کی جگہ زرق برق ہو کر تاج وزارت سر پر رکھے ہوئے تھے اور خود ان کے بھائیوں کو یہ گمان تھا کہ خبر نہیں یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے یا مرگیا اور حکم قضا و قدر سے بالکل لا علم تھے یہ کیا جانتے تھے کہ ہمارا بھائی کچھ ایسا نصیبہ کا زبردست ہے کہ فرمانروا بن جائے گا۔ یہ وجوہات درمیان میں حائل تھیں جس کے سبب سے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو یوسف کے شناخت کرنے میں دشواری ہوئی یوسف نے ان لوگوں کو اچھی طرح اتروایا اور اچھی جگہ ان کو رہنے کو دی اور ان کی مہمانی کا اچھا سامان کیا جب ان سے باتیں ہوئیں تو یہ لوگ زبان عبرانی میں گفتگو کرنے لگے۔ یوسف (علیہ السلام) نے ان سے دریافت کیا کہ تم کون ہو کہاں کے رہنے والے ہو تمہارا حسب ونسب کیا ہے یہ پوچھنا ان کا جان بوجھ کر تھا کیوں کہ یوسف (علیہ السلام) ان کو اول ہی نظر میں پہچان چکے تھے بہر حال انہوں نے جواب دیا کہ ہم ملک شام کے رہنے والے ہیں ہمارے ہاں بھی قحط پڑا ہے غلہ خریدنے کو یہاں آئے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے کہا شاید تم جاسوس ہو خبر لگانے کو آئے ہو انہوں نے کہا کہ معاذ اللہ ہم رسول آدمی ایک باپ کے بیٹے ہیں ہمارا باپ ایک نہایت ہی بزرگ، ایک صاحب کرامات، خدا کا رسول ہے۔ ان کا نام یعقوب (علیہ السلام) ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا تم کتنے بھائی ہو کہا کہ ہم بارہ بھائی تھے۔ ایک بھائی تھا وہ جنگل میں ایک روز گیا وہاں خبر نہیں کس طرح ہلاک ہوگیا بھیڑیا کھا گیا کیا ہوا کچھ پتہ نہیں۔ یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا یہاں اب کتنے آئے ہو کہا کہ دس بھائی فرمایا کہ گیارہواں کہاں ہے جواب دیا کہ وہ باپ کے پاس ہے وہ سب سے چھوٹا ہے جو ہمارا بھائی گم ہوگیا باپ اسے بہت چاہتے تھے اب اس کی جگہ سب سے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں اور اپنی نظروں سے اسے علیحدہ نہیں کرتے۔ یوسف (علیہ السلام) نے انہیں غلہ بھروا دیا اور کہا اب جو آنا تو اپنے بھائی کو بھی اپنے ساتھ لیتے آنا تاکہ تمہارا سچ معلوم ہوجاوے۔ دیکھو میں نے تمہاری بہت خاطر کی ہے اور اچھی طرح مہمان رکھا ہے اور غلہ بھی بھرپور دیا ہے اگر اب اپنے اس بھائی کو نہ لاؤ گے تو تمہیں غلہ نہ دیں گے اور نہ اپنے پاس جگہ دیں گے ان لوگوں نے کہا کہ نہیں ہم ضرور اس کو اپنے ساتھ لائیں گے اور اگرچہ باپ اس کو اپنے پاس سے علیحدہ نہیں کرتے مگر ہم انہیں سمجھا بوجھا کر جس طرح ممکن ہوگا اسے اپنے ساتھ لیتے آئیں گے جب یوسف (علیہ السلام) نے پختہ وعدہ ان سے لے لیا کہ وہ ضرور ان کے چھوٹے بھائی کو جس کا نام بنیامین ہے لائیں گے تو ان لوگوں کو رخصت کیا جب وہ جانے لگے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خدمت گاروں سے کہہ دیا کہ انہوں نے غلہ کی جو قیمت دی ہے وہ چھپا کر ان کے بوجھوں میں ڈال دو اور ان کی گٹھڑیوں کو باندھ دو یہ ترکیب اس واسطے کہ شاید باپ کے پاس اور کوئی نقدی مال وغیرہ نہ ہو جس سے دوبارہ غلہ خریدنے کا انہیں موقع نہ ملے یا اس واسطے کہ بادشاہ بھائی سے کھانے پینے کی چیز کی قیمت کیا لیں یا اس واسطے کہ جب گھر جائیں گے اور وہاں اپنی گٹھڑیوں میں اپنا روپیہ جوں کا توں پائیں گے تو پھر دوبارہ ضرور آئیں گے تاکہ قیمت ادا کریں یا حرص پیدا ہوگی کہ مفت غلہ ملا ہے پھر چل کرلے آئیں اور بعض مفسروں نے یہاں یہ بھی بیان کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان لوگوں میں سے ایک کو رکھ لیا تھا کہ تم جاسوس ہو جب تمہارا چھوٹا بھائی آکر گواہی دے گا کہ تم اپنے قول میں سچے ہو تو تمہارے بھائی کو چھوڑ دوں گا مگر یہ قول ضعیف ہے کیوں کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان پر خوب احسان کیا تھا۔ مہمانی کی غلہ پورا پورا بھر دیا قیمت ان کی گٹھڑیوں میں بندھوادی تھی ان کے واپس آنے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا تدبیر ہوسکتی ہے جو کسی گروی رکھتے سورت بقرہ کی آیت { یا ایھا الذین امنو لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذی } [٢: ٦٤] میں اور معتبر سند کی مستدرک حاکم کی انس بن مالک اور عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیوں میں احسان کر کے جتلانے کی جو ممانعت ہے ١ ؎ اس میں اور یوسف (علیہ السلام) کے قول { وانا خیر المنزلین } میں کچھ مخالفت نہیں ہے کیوں کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ بات فقط اپنے بھائی بنیامین کے بلانے کی تاکید کے طور پر کہی تھی کہ جس طرح میں نے تم لوگوں کی خاطر داری کی تمہارا وہ بھائی یہاں تمہارے ساتھ آوے گا تو میں اس کی بھی خاطر داری کروں گا اس بات سے احسان کا جتلانا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نیت میں نہیں تھا۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣١٨ ج ١

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:58) مکرون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ انکار مصدر ۔ نہ پہچاننے والے۔ ناواقف ۔ نہ ماننے والے۔ انکار کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ کیونکہ بہت مدت گزر گئی تھی چھوٹی عمر میں ان سے الگ ہوگئے تھے اور اب جو ان ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ چیز تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں ڈال گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا۔ (کذافی الروح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٥٨ تا ٦٨ اسرار و معارف مصر کیا ہر جگہ بڑی فصلیں ہوئیں اور غلے اور پھلوں کی فروانی نے لوگوں کو امیر کردیا یوسف (علیہ السلام) نے بہت اہتمام فرمایا کہ ضرورت سے زائد غلہ لوگوں سے خرید کر جمع فرماتے گئے اور ابتدائی سات برسوں میں سرکاری گودام بھر گئے ۔ پھر قحط سالی شروع ہوئی تو غلہ کا دانہ نہ ملتا تھا تب آپ نے فروخت کرنے کا اہتمام فرمایا ۔ اشیاے ضرورت پر کنڑول نہ صرف جائز بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور فروخت پر بھی کنڑول رکھا کہ ایک آدمی کو اس کے خاندان کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ جو مقرر تھا دیا جاتا تھا تا کہ لوگ خرید کر مہنگے داموں بیچنا شروع نہ کردیں جسے آج کی زبان میں بلیک مار کٹینگ کہا جاتا ہے تو ثابت ہوا کہ اشیائے ضرورت برکنڑول کرکے انھیں ہر آدمی تک مناسب داموں پہنچانا اور لوگوں کو لالچی تاجروں کی لوٹ کھسوٹ سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور وقت ضرورت اس کا اہتمام کرنے کا حق رکھتی ہے چناچہ دور دور شہرہ ہونے لگا ارض فلسطین جہاں کنعان تھا جو آج بھی اسرائیل میں خلیل کے نام سے آباد شہر ہے حضرت یوسف حضرت یعقوب حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہم السلام) آج بھی وہیں آرام فرما ہیں تک بھی خبر پہنچی جو خود قحط کی لپیٹ میں تھا تو یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بھی عزم سفر کیا حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بنیامین کو اپنی توجہ کامرکز بنالیا تھا چناچہ انھیں اپنے پاس روک کر دوسروں کو مصرجانے کی اجازت بخشی اور کچھ جمع پونچی اور گھر کے زیورات وغیرہ ان کے ہمراہ کردیئے کہ سنتے ہیں مصرکا حکمران بہت نیک انسان ہے اور قحط سالی میں لوگوں کو غلہ دینے کا اہتمام کررکھا ہے لہٰذا تم بھی جاؤ ۔ کشف درست ہوتا ہے مگر وقت کی تعین نہیں ہوسکتی چنانچہ جو بات حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں تبائی گئی تھی اس کی تکمیل کا وقت آپہنچا اگرچہ درمیان میں ایک طویل عرصہ بیت چکا تھا۔ ایسے اہل اللہ کو بھی بعض حالات منکشف ہوجاتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ فورا واقع بھی ہوں کہ وقت کی تعین بہت شکل ہوتی ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے فورا پہچان لیا ۔ مگر وہ نہ جان سکے کہ یہ کون ہیں کہ انھوں نے کم سن یوسف کو بیچا تھا اور یہاں پچاس برس کے قریب عمرکا ایک کڑیل انسان جلوہ افروز تھا ۔ پھر انھوں نے تو غلام بناکر بیچا اور یہاں ایک بہت بڑے سلطان کے روبرو حاضر تھے جہاں آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی کوئی ہمت ہی نہ کرسکتا تھا۔ لہٰذا وہ تو دربار شاہی میں دست بستہ کھڑے تھے۔ مگر یوسف (علیہ السلام) پہچان چکے تھے کہ یہ میرے وہی بھائی ہیں ۔ انھیں ٹھہرانے کا حکم دیا۔ ان سے احوال پوچھے کہ تم لوگ ملک مصر کے تو نہیں ؟ انھوں نے بتایا ہم ارض فلسطین سے آپ کا شہرہ سن کر آئے ہیں ہمارے والدبزرگ اللہ کے نبی اور بہت نیک انسان ہیں انھوں نے آپ کی نیکی کی تعریف سن کر بھیجا ہے اور اس بہانے والد کا حال بھی سماعت فرمایا ان کی بہت تکریم فرمائی شاہی مہمان بنا کر رکھے اور جب ان کا سامان تیار ہوا اور انھیں غلہ دیا گیا تو انھوں نے کہا ہمارا ایک بھائی اور بھی ہے جسے والد گرامی نے اپنے پاس روک لیا ہے کہ ایک بھائی تو جنگل میں کھوگیا تھا باپ نے رورو کر آنکھیں اندھی کرلی ہیں اب وہ ان کی خبرگیری کرتا ہے ۔ آپ ہمیں اس کا حصہ بھی دے دیں آپ نے فرمایا کہ یہ تو خلاف قانون ہے۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ یوسف (علیہ السلام) نے بھائی سے ملاقات کی خفیہ تدبیر کی جو اللہ کے حکم سے تھی اور اس کا تذکرہ پھر آئے گا ہاں ! اگر دوبارہ آؤتو اسے بھی ہمراہ لاؤ اور تم نے ہمارا حسن سلوک تو دیکھا ہے ہم تمہیں اس کا حصہ بھی دیں گے اور ہاں ! یہ بھی یادرکھو کہ اگر تم دوبارہ آؤ اور بھائی کونہ لاسکو تو پھر یہاں مت آنا کہ پھر تمہیں غلہ نہیں دیا جائے گا ۔ غالبایہ گمان کرتے ہوئے کہ تم لوگ غلط بیانی کرتے ہو اور کہیں یہاں سے لے کر بجائے ضرورت پوری کرنے کے بیچتے نہ پھرو ۔ وہ کہنے لگے اگر ایسی بات ہے تو ہم اپنے باپ سے پوری پوری کوشش کرکے اسے ساتھ لائیں گے کہ آپ کو ہم پر بدگمانی نہ رہے اور ہم دوبارہ غلہ بھی حاصل کرسکیں ۔ یہ تدبیر اور دھمکی انھوں نے اللہ کریم کی اجازت سے دی اور ساتھ خفیہ تدبیر بھی کردی کہ اپنے خدام کو حکم دیا ان کی پونچی واپس سامان اور غلے میں ہی چھپادو تا کہ گھر جا کردیکھیں تو یہ ان کی واپسی کا سبب بن جائے اس میں دو وجہیں ہیں کہ خاندان نبوت یہ کرم و احسان دیکھ کر کم ازکم اظہار تشکر کرنا توضروری سمجھیں گے اور واپس آئیں گے دوسرے جب یہ گھر کے زیورات لے کرنکلے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس نقدی نہ تھی اور اب شاید دوبارہ آنے کے لئے مزید زیورات بھی نہ ہوں تو مجبورا آہی نہ سکیں ۔ لیکن اس سب کے باوجود جب تک اللہ کی طرف سے اجازت نہ ملی لاکھ بےقراری کے باوجود والدگرامی کو جرتک نہ بھیجی نہ ہی انھیں کشفا پتہ چل سکا حالانکہ نبی کا مکاشفہ اس کی عظمت شان کے مطابق ہوتا ہے مگر اللہ قادر ہے جو بتانا چاہے وہ منکشف فرمادے اور جو نہ بتانا چاہے اس کے ظاہری اسباب بھی روک دے ۔ جب واپس پہنچے تو شاہ مصر کی اس کے عدل و انصاف اور جود وکرم کی بہت تعریف کی اس کے حسن سلوک کے ساتھ حسن انتظام کو بھی سراہا اور ساتھ عرض کرنے لگے کہ اے والد محترم ! اس سب بات کے باوجود ہمارا کام بگڑرہا ہے اور وہ یہ کہ ہم نے بنیامین کا تذکرہ کرکے ایک بوجھ غلے کا مزید طلب کیا تو سلطان مصرنے کہا کہ ایسا تو ممکن نہیں ایک آدمی کو ایک اونٹ کا بوجھ ہی ملتا ہے لیکن اگر تم سچے ہو تو بھائی کو ساتھ لے کر آناتو دس جگہ گیارہ حاصل کرنے کا حق تو تمہارا ہوگا مگر ہم تم کو ایک بوجھ غلہ زائد دے کر موجودہ سفر کا بدلہ بھی دے دیں گے اور اگر بھائی کونہ لائے تو پھر مت آنا کہ تم جھوٹے شمار کئے جاؤگے ۔ تو اس طرح تو ہمارا غلہ ہی روک دیا گیا ۔ آپ ازراہ کرم بھائی کو ضرور ہمارے ساتھ کریجئے کہ ہم غلہ بھی زیادہ حاصل کرسکیں اور بھائی کی حفاظت کا ذمہ بھی ہمارا ہے ۔ انھوں نے فرمایا کیا خوب ! ابھی تمہیں اپنی حفاظت پہ ناز ہے جبکہ اس کے بھائی یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں تمہاری حفاظت اور ذمہ داری کا امتحان ہوچکا پھر تم پر یا تمہاری بات پر کیا بھروسہ ۔ ہاں ! اللہ کریم ہی بہترین حفاظت کرنے والے ہیں اور وہ سب مہربا نوں سے بڑھ کر مہربان ہیں کہ اب اس ضعف پیری میں پھر سے صدمہ نہ دیکھنا پڑے تو اسی کے کرم پہ امید کی جاسکتی ہے ۔ باتوں باتوں میں سامان بھی اتارتے اور کھولتے جاتے تھے کہ ایک بوری سے سارا سرمایہ بھی نکل آیا تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اباجان ! دیکھو شاہ مصرکتنا کریم ہے کہ اس نے ہمارا سرمایہ بھی لوٹا دیا اور ہم پر کوئی احسان جتائے بغیر ہمارے غلہ میں رکھوادیا ایسے مہربان کے پاس لوٹ کر ہی نہ جانا تو معقول بات نہیں اور جو حسن سلوک انھوں نے کیا ہے اس سے زیادہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا نہ اس سے زیادہ کی کوئی بھی شخص امید کرسکتا ہے کہ قحط سالی میں غلہ بھیدے اور پونجی بھی لوٹا دے تو آپ بنیامین کو ضرور ہمارے ساتھ بھیجیں کہ ہمیں خاندان کے لئے غلہ کی ضرورت بھی ہے اور اس کے بغیر ہم جا نہیں سکتے ، لہٰذا ہم بھائی کی حفاظت کا حق ادا کریں گے اور اس کی بودولت غلہ بھی زائدحاصل کرسکیں گے۔ والدین کو اولاد کی اور شیخ کو مرید کی تربیت کرنا چاہیئے بھگانہ دیا جائے آپ نے فرمایا ! اچھا بھیج دیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ اللہ کے نام پر میرے ساتھ عہد کرو کہ تم اسے لے کر واپس آؤگے۔ ہاں ! کوئی ایسی صورت کہ تم سب گھرجاؤیا تمہاری استطاعت سے باہر ہو تو الگ بات ہے ۔ مگر جہاں تک تمہارا بس چلے گا کوتاہی نہ کروگے۔ انھوں نے اللہ کے نام پر عہد کیا تو فرمایا کہ ہمارے اس معاہدے پر اللہ ہی گواہ ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا بھی ہے کرنے والا بھی ۔ یہاں ثابت ہے کہ غلطی یا گناہ پر اولاد کو چھوڑ نہ دیاجائے ۔ ایسے ہی شیخ طالب کو بھگانہ دے بلکہ صبر وضبط کے ساتھ ان کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ ورنہ قطع تعلق سے اصلاح نہیں ہوتی ، انسان کے بالکل ہی برائی کی طرف چلے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ ہاں ! خطاکا احساس دلانا اور اس کے دوبارہ نہ کرنے کی تلقین مناسب طریقے سے کرنا ضروری ہے اور سب اہتمام کرکے بھروسہ اللہ کریم ہی پہ رکھنا چاہیئے۔ حسن تدبیر ضروری ہے مگر نتائج کی امید اللہ پاک سے رکھے حضرت یعقوب (علیہ السلام) جب ان سب کو رخصت فرمانے گے اور بنیامین کو بھی ساتھ کردیا تو ایک تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا کہ دیکھو ، تم گیارہ بھائی ہو خوبصورت قدآور اور صحتمند جوان ہو اور بادشاہ تمہاری عزت بھی کرتا ہے تو اب کے تم سب شہر کے ایک دروازے سے داخل نہ ہونا کہ کسی کی نظربد کا شکار نہ ہوجاؤ ۔ نظربدکا اثر علماء اہل سنت کے نزدیک نظر کا اثر برحق ہے ۔ حدیث شریف سے ثابت ہے اور قرآن میں بھی اپنے مقام پر آئے گا انشاء اللہ زیرآیہ یرون لقونک بابصارھم ۔ یہاں صرف اتنا لکھناکافی ہے کہ یہ انسان کے تخیل کا اثر ہوتا ہے جو غذا کی طرح بالکل ایک سبب اور باعث ہے جیسے موسم کا اثر یا دواکا اثر یاغذا کا اثر بیمار کرسکتا ہے دلیسا ہی انسان کے خیال کا بھی اثر ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ نظربد ایک انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کردیتی ہے اوکماقال وعلیہ السلام ۔ دوسرے بادشاہ کے ہاں عزت شہر میں حاسد بھی پیدا کرسکتی ہے اور یوں تم سب کا اکٹھا داخل ہونا تو سب کو تمہاری طرف متوجہ کردے گا لہٰذا متفرق دروازوں سے شہر میں داخل ہونا اور یہ بات تو واضح ہے کہ ہوگا تو وہی جو اللہ کو منظور ہوگا اس لئے کہ اسی واحد ذات کا حکم ہر شے میں ہر آن جاری ہے اور وہی اسباب میں اثر بھی پیدافرماتا ہے ، لہٰذا میرا بھروسہ بھی اسی پر ہے اور سب بھروسہ کرنے والے بھروسہ تو صرف اسی پہ ہی کرتے ہیں ۔ ہاں اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کا حکم بھی اسی ذات کی طرف سے ہے اور یہ بھی اسی کی اطاعت ہے ۔ چنانچہ وہ سب مصر پہنچے اور اسی طرح متفرق ہو کر مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہوئے لیکن یہ تدبیر انھیں آنے والی پریشانی سے بچاتو نہ سکی ہاں ! حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ حسرت نہ رہی کہ کاش کوئی تدبیر ہی کرلی ہوتی کہ یہ شرعی قاعدہ ہے کہ اپنے بچاؤ کے جائز اسباب اختیار کئے جائیں ۔ علم لدنی اور وہ تو نبی تھے جن کا علم وہی اور لدنی ہوتا ہے ۔ انبیاء (علیہم السلام) کا علم اکتسابی نہیں ہوتا کہ اس میں غلطی کا امکان ہر وقت رہتا ہے مگر علم لدنی غلطی کا امکان ہی نہیں ہوتا صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ نبی کو سمجھنے میں بھی غلطی نہیں لگ سکتی اور ولی سمجھنے میں غلطی کرسکتا ہے نیز نبی کو براہ راست نصیب ہوتا ہے اور ولی کو اس کی اتباع سے لہٰذا سمجھنے میں بھی اسی ذات کا محتاج ہوتا ہے ۔ یعنی نبی کے ارشاد کی حدود کے اندر ہوتودرست ان سے ٹکرائے تو غلطی لگی ہوگی ۔ لہٰذا ان کی دور بین نگاہ یہ دیکھ رہی تھی کہ ابھی مزید مشقت بڑھ رہی ہے اور بنیامین بھی بچھڑرہا ہے لہٰذا انھوں نے ظاہری تدبیر تو اختیار کی مگر فرمایا اس کا فائدہ دینا تو اللہ کا کام ہے اور ہوگا وہی جو اس کو منظور ہوگا مگر لوگ اس بات کی عظمت و حقیقت سے ناآشنا ہیں ۔ اگر اس علم کی عظمت کو جانتے تو اس کے حصول کے لئے عمریں صرف کردیتے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 58 تا 61 (جآء آیا ) (اخوۃ بھائی) ( دخلوا وہ داخل ہوئے ) (عرف اس نے پہچان لیا) ( منکرون نہ پہچاننے والے) (جھز اس نے تیار کی، تیار کردیا) ( جھاز سامان) ( اوفی میں پورا دیتا ہوں) ( سنراود ہم درخواست کریں گے) ( لفعلون البتہ ضرور کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 58 تا 61 کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت یوسف کا واقعہ اور وہ سب معلوم کیا تھا جس کی بنا پر حضرت یعقوب، حضرت یوسف اور ان کے اہل خاندان فلسطین سے مصر پہنچ کر وہاں آباد ہوگئے تھے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت یوسف کا واقعہ اور ان اسباب کا ذکر فرمایا ہے کہ جب یہ خاندان جو بنی اسرائیل کہلاتا تھا ہجرت کر کے مصر پہنچا۔ ان آیات میں صرف اس واقعہ کو ہی بیان نہیں کیا گیا بلکہ نصیحت کے لاتعداد پہلوؤں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو فکر کی راہوں کو کھول دیتا ہے۔ جب حضرت یوسف پوری مملکت مصر کے بادشاہ بنا دیئے گئے تو حضرت یوسف نے شان پیغمبری اور عدل و انصاف کی ایسی بےمثال حکومت قائم کی جس سیپ ورے علاقے میں خوش حالی اور ترقی شروع ہوگئی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت یوسف نے حکم جاری فرما دیا کہ جب تک ملک بھر میں شدید ترین قحط ہے گھر میں ایک وقت کا کھانے پکایا جائے۔ چناچہ نہایت سادگی سے ایک وقت میں ایک سالن پکایا جاتا تھا۔ عوام تو وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے حکمران کو دیکھتے ہیں چناچہ مملکت کا ہر شخص بھوک پریشانی اور بد حالی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ جب پہلے سات سال خوش حالی کے تھے اس میں قحط سالی کے سات سالوں کی فکر کر کے بچت کی گئی اور بیشمار غلہ کا ذخیرہ کرلیا گیا۔ جب قحط کا زمانہ شروع ہوا ہوا تو پوری معلوم دنیا کو قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر شخص پریشان ہوگیا لیکن مصر کی سلطنت میں معمولی سی پریشانیوں کیساتھ خوش حالی برقرار رہی۔ قحط کے زمانہ میں مصر کی خوش حالی کی اطلاع جب آس پاس کے ملکوں میں پھیل گئی اور بادشاہ کی نرم دلی اور حسن اخلاق کے چرچے ہونے لگے تو حضرت یوسف کے بھائی بھی فلسطین سے مصر آگ ئیا ور بادشاہ سے درخواست کی کہ ہمیں بھی غلہ دیا جائے تاکہ اس شدید قحط سے بچا سکے۔ حضرت یوسف نے نہ صرف ان میں سے ہر ایک کو اونٹ بھر غلہ دیا بلکہ ان کی خوب خاطر مدارت کی گئی۔ جیسے ہی یہ بھائی حضرت یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا لیکن ان کے بھائیوں نے حضرت یوسف کو نہیں پہچانا کیونکہ ان کے تو ذہن اور خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ ننھے منے یوسف جن کو ایک اندھے کنوئیں میں پھینکا گیا تھا وہ چند برسوں میں اس ملک کے بادشاہ بن گئے ہوں گے۔ پھر یہ کہ بچپن اور جوانی کی عمر میں چہروں میں بھی فرق آجاتا ہے شاید اس لئے بھی وہ حضر یوسف کو نہ پہچان سکے ہوں غرضیکہ حضرت یوسف نے شان پیغمبری کا مطاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کی خبر گیری کی بلکہ نہایت فیاضی، سخاوت اور حسن اخلاق کا مظاہرہ فرماتے ہوئے ان کے اونٹوں پر غلہ لدوادیا گیا۔ شاید ان کے بھائیوں کی زبان سے نکل گیا ہو کہ ہمارے والد اور ایک بھائی بھی ہیں جو اس وقت نہ آسکے لہٰذا ان کے حصے کا غلہ بھی دیدیا جائے۔ اس پر حضرت یوسف نے فرمایا کہ جب تم دوبارہ غلہ لینے آؤ تو اپنے بھائی کو ضرور ساتھ لانا۔ تاکہ اس کی تصدیق ہوجائے کہ واقعی تمہارا کوئی اور بھائی ھبی ہے۔ والد تو چونکہ ضعیف اور کمزور ہیں لیکن بھائی تو آسکتا ہے اس کو ضرور لے کر آنا۔ اگر تم اس بھائی کو نہیں لائے تو پھر تم بھی مت آنا کیونکہ جھوٹ بولنے والے مجھے پسند نہیں ہیں یہ بات ان بھائیوں کیلئے بڑے امتحان کی تھی کہ اگر وہ اپنے بھائی بن یا مین کو نہیں لائے تو آئندہ غلہ لینے کا سلسلہ بند ہوجائے گا اور اگر والد صاحب سے بن یا مین کے لئے اجازت لیتے ہیں تو وہ حضرت یوسف کا زخم کھائے ہوئے ہیں ان بھائیوں پر اعتماد نہیں کریں گے۔ اس لئے ان بھائیوں نے صرف اتنا کہا کہ ہم یہ ضرور کریں گے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب ہمارے والد اس کی اجازت دیں گے۔ اگر انہوں نے نہ دی تو پھر ہم کچھ نہ کرسکیں گے۔ اس کی بقیہ تفصیل آنے والی آیات میں بیان کی جائے گی۔ اس موقع پر بعض مفسرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر حضرت یوسف چاہتے تو اپنے حال کی اطلاع اپنے والد کو کرا سکتے تھے۔ کسی کے ذریعہ کہلا سکتے تھے پھر کیا وجہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے والد، والدہ اور گھر والوں کو اطلاع نہیں دی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے موجودہ دور میں ہمیں اطلاعات کے بہت سے ذرائع حاصل ہیں اس زمانہ میں نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ اگر تمام روایات پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ کو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ آپ اس مسئلہ پر غور فرماتے وجہ اس کی یہ ہے جب آپ سات سال کے تھے اس وقت بھائیوں نے ان کو ایک غلام کی حیثیت سے مدین کے قافلے والوں کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔ مصر میں عزیز مصر کے گھر رہے ۔ بھری جوانی میں آپ کو نو سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔ رہا ہوئے تو قحط کے حالات نے آپ کو دن رات مصروف کردیا اور آپ نے انتھک محنت سے ان حالات کو سنبھالا۔ بادشاہ بننے کے بعد اس کی شدید ترین ذمہ داریاں آپ کے سر آپڑیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس عرصہ میں آپ کو اطلاع کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ نہیں آیا۔ دوسرے یہ کہ حضرت یوسف محض ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی بھی ہیں اور انبیاء کرام کے تمام معاملات کو اللہ جس طرح حل فرمانا چاہتے ہیں فرماتے ہیں۔ ممکن ہے اس طرح کی اطلاع اللہ کی مصلحت کے خلاف ہو اور اللہ نے حضرت یوسف کو اس طرف متوجہ ہی نہ ہونے دیا ہو۔ بہرحال اس معاملہ کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قحط سالی کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا مجبور ہو کر مصر جانا۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ بادشاہ کے خواب کے مطابق خوشحالی کے سات سال گزرنے کے بعد مصر میں قحط سالی شروع ہوچکی تھی۔ اور اس قحط کے اثرات شام، فلسطین اور کنعان تک پھیل چکے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالتے ہی بہترین منصوبہ بندی کی۔ جس کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کا رخ کر رہے تھے۔ اسی بنا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی غلہ لینے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لیکن وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان تیار کر وا دیا تو فرمایا۔ آئندہ غلہ لینے کیلیے آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی کو ضرور ساتھ لانا۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میں پورا پورا تولنے کے ساتھ مہمان کی بہترین تکریم کرنے والا ہوں۔ اگر تم اپنے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو میرے پاس نہ آنا اور نہ ہی تمہیں غلہ دیا جائے گا۔ بھائیوں کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچاننے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ جب انھوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینکا تھا تو اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر نو یا دس سال سے زیادہ نہ تھی۔ اسی لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے رخصت کرتے وقت فرمایا تھا کہ اس کا خیال رکھنا کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھاجائے۔ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر بقول بعض مفسرین کے ١٧ یا ٢٠ سال کی تھی تو اس عمر میں آدمی اتنا بچہ نہیں ہوتا کہ کسی درخت وغیرہ پر یا کسی اور طرح اپنی حفاظت نہ کرسکتا ہو۔ کنویں میں پھینکنے کے بعد اب تک تقریباً تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔ جن کا اس طرح اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر یوسف (علیہ السلام) کی عمر کنویں کے وقت دس سال کی تھی تو وہ عزیز مصر کے ہاں کم ازکم بیس سال ٹھہرے ہوں گے۔ پھر وہ نو، دس سال جیل میں بھی رہے گویا کہ اب وہ چالیس کے لگ بھگ تھے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ ) ” اور جب وہ ( یوسف (علیہ السلام) اپنی بھرپور جوانی کو پہنچے۔ “ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے بھائیوں سے جدا ہوئے کم و بیش چالیس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چالیس سال کے بعد دس، بارہ سال کے بچے کے نقش ونگار اور قدوقامت میں غیر معمولی فرق واقع ہوجاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بھائی سوچتے ہوں گے کہ اگر یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے تو وہ کسی کی نوکری چاکری کر رہا ہوگا۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جس یوسف کو ہم نے دنیا کی ٹھوکریں کھانے کے لیے کنویں میں پھینکا تھا۔ وہ کنویں کی گہرائیوں سے نکل کر مصر کے اقتدار کی بلندیوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ مقتدر شخصیت ہمارا ہی سوتیلا بھائی ہے جس کو وہ پہچان نہ سکے۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے انھیں پہچان لیا اور ان کو بھائیوں جیسی تکریم دیتے ہوئے بہترین مہمان نوازی کی۔ یہاں قرآن مجید کے الفاظ سے یہ مفہوم بھی آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں سے ایک سے زیادہ بار ملاقات کرچکے تھے۔ اور باتوں باتوں میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات ان سے دریافت کرلیے تھے۔ جس وجہ سے فرما رہے ہیں کہ جب آئندہ غلہ لینے کے لیے آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی کو ساتھ لانا ورنہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ الْکَعْبِیِّ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جَآءِزَتُہٗ یَوْمٌ وَّلَیْلَۃٌ وَّالضِّیَافَۃُ ثَلٰثَۃُ اَیّاَمٍ فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ وَّلَا یَحِلُّ لَہٗٓاَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہٗ حتَیّٰ یُحَرِّجَہٗ ) [ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہٖٓ إِیَّاہُ بِنَفْسِہٖ ] ” حضرت ابو شریح کعبی (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن ایک رات خوب اہتمام کرے مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں بلاوجہ مقیم رہے کہ اسے تنگی میں مبتلا کر دے۔ “ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انہیں نہ پہچان سکے۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) ناپ تول میں کمی نہیں ہونے دیتے تھے۔ ٤۔ یوسف (علیہ السلام) بہت ہی مہمان نواز تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٥٨ تا ٦٢ خشک سالی اور قحط نے سر زمین کنعان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ چناچہ برادران یوسف بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ عازم مصر ہوئے تھے کیونکہ مصر نے اپنے غلے کے ذخائر دوسرے ممالک کے لئے کھول دئیے تھے۔ یہ ذخائر اس نے شادابی کے زمانے میں جمع کر رکھے تھے ۔ ہمارے سامنے اب منظر یہ ہے کہ یہ لوگ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مہمان ہیں ، ایسے حالات میں کہ اپنے فرمان کو نہیں جانتے جبکہ وہ انہیں خوب جانتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اندر کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) تبدیل ہوگئے ہیں ، پھر ان کے خیال میں یہ بات آہی نہیں سکتی کہ یوسف (علیہ السلام) یہ مقام حاصل کرسکیں گے ، ایک عبرانی لڑکا جسے انہوں نے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہے وہ یہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ اور اس پر تقریباً بیس سال بھی گزر گئے ہیں۔ پھر وہ ہے بھی عزیز مصر کی صورت میں خصم و خشم اور نوکر شاکر اور منصب عالیہ کا رعب داب کس طرح ان کے تخیل کو اس طرف رخ کرنے دیتا ہے ؟ ادھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنا تعارف نہیں کرایا۔ وہ مناسبت سمجھتے ہیں کہ انہیں ذرا مزید سبق پڑھایا جائے۔ وجاء اخوۃ یوسف۔۔۔۔۔۔ منکرون ۔ (١٢ : ٥٨) “ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے ۔ اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے ”۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برادران یوسف کا غلہ لینے کے لیے مصر آنا اور سامان دے کر آپ کا یہ فرمایا کہ آئندہ اپنے علاّتی بھائی کو بھی لانا اور ان کی پونجی ان کے کجاو وں میں رکھوا دینا سر سبزی و شادابی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط آگیا یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا آس پاس کے علاقوں میں بھی تھا۔ ملک شام بھی مصر کے ساتھ ملتا ہے یہاں بھی قحط تھا اور غلے کی ضرورت تھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد اور بھائی سر زمین فلسطین میں رہتے تھے جو شام کا ایک حصہ ہے ان لوگوں کو بھی علم ہوا کہ مصر میں غلہ ملتا ہے اور حکومت کی طرف سے دیا جا رہا ہے لیکن حکومت کا یہ دینا مفت میں نہیں ہے غلہ حاصل کرنے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی مصر کے لئے روانہ ہوگئے ساتھ ہی مال بھی لیا تاکہ اس کے ذریعہ غلہ حاصل کرسکیں وہ زمانہ اونٹوں پر سوار ہو کر سفر کرنے کا تھا یہ لوگ سفر کر کے مصر کی خدمت میں پہنچ گئے جہاں وہ اندر کے کمرہ میں تشریف رکھتے تھے محکموں کے جو افسر اعلیٰ ہوتے ہیں وہ خود تو اشیاء واجناس اپنے ہاتھ سے تقسیم نہیں کرتے ان کے کارندے ہی تقسیم کرتے ہیں لیکن منظوری افسر اعلیٰ سے ہی لی جاتی ہے کہ کس کو مال دیا جائے اور کس قدر دیا جائے اس لیے ان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس جانا پڑا ‘ جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے پہچان لیا کہ یہ تو میرے بھائی ہیں یہ دس بھائی تھے جو پہلی والدہ سے تھے (حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حقیقی بھائی بنیامین نامی ان کے ساتھ نہیں تھا) بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا انہیں اس کا گمان بھی نہ تھا کہ جسے ہم نے کنعان کے جنگل میں مصر کے قافلے کے کسی شخص کے ہاتھ بیچ دیا تھا وہ آج اتنے بڑے عہدہ پر ہوگا ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کسی تدبیر سے ان سے یہ کہلوا لیا کہ ہمارا ایک بھائی اور ہے جسے ہم اپنے والد کے پاس چھوڑ آئے ہیں اور بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فی آدمی ایک ایک اونٹ غلہ بھر کر ان سب کو دے دیا تو انہوں نے کہا ہمارا ایک علاتی (باپ شریک) بھائی ہے اس کو ہمارے والد نے اس وجہ سے پاس رکھ لیا ہے اور ہمارے ساتھ نہیں بھیجا کہ ان کا ایک بیٹا گم ہوگیا تھا اس سے ان کی دلبستگی ہوتی ہے اور تسلی ہوتی ہے اس لئے اس کا حصہ بھی دیدیا جائے یعنی ایک اونٹ کا غلہ زیادہ مل جائے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا یہ تو ہمارے قانون کے خلاف ہے جو شخص حاضر ہوتا ہے ہم اسی کو دیتے ہیں۔ برادران یوسف جب غلہ حاصل کر کے اپنے وطن کو واپس ہونے لگے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب آنا ہو تو اپنے علاتی بھائی کو بھی لے آنا دیکھو میں پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں سب سے زیادہ مہمان نوازی بھی کرتا ہوں تمہارا وہ بھائی آئے گا تو انشاء اللہ اس کو بھی پورا حصہ دوں گا اور ساتھ یہ فرما دیا کہ اگر تم اسے نہ لائے تو میرے پاس تمہارے نام کا کوئی غلہ نہیں اور تم میرے پاس بھی نہ پھٹکنا ‘ قحط کا زمانہ تو تھا ہی فی اونٹ جو غلہ ملا تھا اس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ کتنے دن کام دے سکتا ہے دوبارہ آنے کی بہر حال ضرورت پڑے گی اس لیے انہوں نے کہا کہ ہم اس کے والد سے عرض معروض کریں گے اور انہیں راضی کریں گے کہ اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ بھیج دیں اور یہ کام ہمیں ضرور کرنا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے کارندوں سے فرمایا کہ یہ لوگ جو پونجی لے کر آئے ہیں جس کے ذریعے غلہ خریدا ہے ان کی اطلاع کے بغیر ان کے کجاو وں میں رکھ دیں امید ہے کہ جب یہ لوگ اپنے گھر والوں کے پاس واپس پہنچیں گے اور سامان کھولیں گے تو یہ انہیں نظر آجائے گی اور اسے پہچان لیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہم غلے کی قیمت میں دے کر آئے ہیں جب اس پونجی کو دیکھیں گے تو امید ہے کہ پھر آئیں گے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ تدبیر اس لیے کی کہ وہ کسی طرح پھر واپس آئیں اور اپنے بھائی کو بھی لے کر آئیں اول تو ان سے آنے کا وعدہ لیا کہ جس بھائی کو چھوڑ آئے ہو اسے آئندہ سفر میں لے کر آنا اور دوسرے یہ وعید بھی سنا دی کہ اگر تم اس بھائی کو نہ لائے تو تم میں سے کسی کو اپنا حصہ بھی نہ ملے گا تیسرے یہ کیا جو پونجی انہوں نے غلہ کی قیمت کے طور پر پیش کی تھی وہ انہیں کے سامان میں رکھوا دی۔ علماء تفسیر نے فرمایا کہ یہ انہوں نے اس لیے کیا کہ انہیں اس کا یقین نہ تھا کہ ان کے پاس اس پونجی کے علاوہ مزید مال بھی ہوگا ممکن ہے مزید مال نہ ہو اگر یہ مال واپس چلا جائے گا تو اسی کو لے کر دوبارہ واپس آسکیں گے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب انہیں یہ خیال ہوگا کہ جس شخص نے ہمیں غلہ دیا اور پونجی بھی واپس کردی وہ کریم النفس ہے محسن ہے ایسے شخص کے پاس تو پھرجانا چاہئے ‘ اور بعض حضرات نے ایک نکتہ اور نکالا ہے اور وہ یہ کہ جب حضرت والد صاحب کو یہ معلوم ہوگا کہ ہماری پونجی واپس آگئی ہے جو مصری خزانے میں داخل ہونی چاہئے تھی اور اغلب ہے کہ بھول کر آگئی ہو لہٰذا حق بہ حق دار رسید کے تقاضے کے مطابق وہیں پہچانی چاہئے جہاں سے واپس آئی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو یہ کہاں برداشت ہوسکتا تھا کہ کسی کا حق ان کی طرف رہ جائے ‘ لہٰذا وہ اپنے بیٹوں کو دوبارہ ضرور بھیجیں گے اور اس طرح سے اپنے حقیقی بھائی بنیامین سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بادشاہ کو یوسف (علیہ السلام) نے خود ہی مشورہ دیا تھا کہ قحط کے زمانے میں غلہ قیمتاً دیا جائے گا اور اس میں کوئی استثناء نہیں تھا تو پھر انہوں نے اپنے بھائیوں کی پونجی کیسے واپس کردی ؟ اس کے بارے میں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اتنی پونجی انہوں نے اپنے پاس سے شاہی خزانے میں جمع فرما دی ‘ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ انہیں چونکہ اس بات کا یقین تھا کہ والد ماجد (علیہ السلام) اس پونجی کو ضرور واپس بھجوا دیں گے اس لیے ایک اعتبار سے ادھار دینا ہوا بالکل ہی بخش دینا نہ ہوا ‘ بہر حال جو بھی صورت ہو انبیاء کرام (علیہ السلام) پاک تھے ‘ معصوم تھے ‘ خیانت سے دور تھے انہوں نے جو بھی کیا ٹھیک کیا ہم تک ہر بات کا پہنچنا ضروری نہیں۔ یہ لوگ غلہ لے کر اپنے وطن پہنچ گئے اور اپنے والد سے کہا کہ ابا جی اس مرتبہ تو غلہ لے آئے ہیں لیکن جو شخص غلہ دینے کا مختار ہے اس نے ہمیں غلہ دینے کی پابندی لگا دی ہے اور بندش کردی ہے ہاں صرف ایک صورت میں غلہ دینے کا وعدہ کیا ہے کہ ہمارا یہ بھائی بھی ہمارے ساتھ جائے لہٰذا آپ ہمارے اس بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لاسکیں اس کے حصے کا تو غلہ ملے ہی گا ہمارے حصہ پر جو پابندی لگا دی گئی ہے وہ بھی دور ہوجائے گی یہ بات ضرور ہے کہ آپ کو ہماری طرف سے اس کے بارے میں کوئی اندیشہ ہوسکتا ہے لیکن آپ بھروسہ رکھیں ہم اس کی حفاظت کریں گے ‘ ان کے والد نے فرمایا کیا میں اس کے بارے میں تم پر ایسا ہی بھروسہ کروں جیسا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تم پر بھروسہ کیا تھا ؟ میں تم پر بھروسہ نہیں کروں گا ‘ اب تو بس یہ ہی کہتا ہوں کہ اللہ سب سے بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے تمہارے اوپر میں بھروسہ نہیں کرتا اب جاؤ تو اسے لے جانا میں اسے اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ قال صاحب الروح استفھام انکاری الاکما امنتکم ای الا ائتمانا مثل ائتمانی ایاکم علی اخیہ یوسف من قبل وقد قلتم ایضا فی حقہ ماقلتم ثم فعلتم بہ ما فعلتم فلا اثق بکم ولا بحفظکم وانما افوض امری الی اللہ ص ١١ ج ١٣ قلت و باعتبار ان لفظۃ ھل جاءت للاستفھام الانکاری الذی یدل علی النفی جیئ بحرف الاستثناء ای لا امنکم علیہ الاکما امنتکم علی اخیہ من قبل وذلک لم ینفعنی فکذلک لا ینفعنی الان وقد ترجمنا الایۃ بالحاصل فافھم۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ یہ دسواں حال ہے۔ اس سے پہلے اندماج ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) خزائن الارض کے وزیر مقرر ہوگئے اور سات سال تک زمین کی پیداوار کا ذخیرہ کرتے رہے۔ سات سال کے بعد قحط پڑگیا اور دور دور سے لوگ غلہ لینے کے لیے مصر آنے لگے۔ اسی سلسلہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی مصر میں ان کے پاس آئے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کو پہچان لیا مگر وہ ان کو نہ پہچان سکے۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوسف اس قدر بلند وبالا مرتبہ پر پہنچ جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی غلہ لینے کی غرض سے یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے پھر وہ یوسف (علیہ السلام) کے شہر میں داخل ہوگئے اور یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان کو پہچان لیا اور وہ یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچان سکے ۔ حضر ت یوسف (علیہ السلام) میں کافی تبدیلی ہوگئی تھی اس لئے وہ نہ پہچانے ہوں گے یا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے نقاب ڈال رکھی ہوگی یا شاہی پردے میں بات کی ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب حضرت یوسف ل ملک مصر پر مختار ہوئے تو خواب کے موافق سات برس خوب غلہ پیدا ہوا اور ملک کا اناج بھرتے گئے۔ پھرسات برس کے قحط میں ایک بھائو میانہ باندھ کر بکوایا اپنے ملک والوں کو اور پردیسیوں کو برابر مگر پردیسی کو ایک اونٹ سے زیادہ نہ دیتے اس میں خلق بچی قحط سے اور خزانہ بادشاہ کا بھر گیا ہر طرف خبر تھی کہ مصر میں اناج سستا ہے ان کے بھائی آئے خریدنے کو۔ 12 ۔ غرض جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کو غلہ دینا منظور کرلیا اور فی کس غلہ کے ایک ایک اونٹ کا حکم ہوگیا تو بھائیوں نے کہا ہمارا ایک علاقائی بھائی اور بھی ہے اس کے لئے ایک اونٹ کے غلہ کا حکم دیجئے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا یہ بات بےقاعدہ ہے وہ ہوتا تو اس کو بھی دے دیا جاتا اس کو کیوں نہیں لائے انہوں نے کہا اس کا ایک بھائی عرصہ ہوا کہیں جنگل میں ہلاک ہوگیا تھا اس دن سے اس کے چھوٹے بھائی بن یامین کو ہمارے باپ اپنے سے جدا نہیں کرتے ، اس لئے ہم اس کو نہیں لاسکے۔