Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 6

سورة يوسف

وَ کَذٰلِکَ یَجۡتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ وَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اٰلِ یَعۡقُوۡبَ کَمَاۤ اَتَمَّہَا عَلٰۤی اَبَوَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ٪﴿۶﴾  11

And thus will your Lord choose you and teach you the interpretation of narratives and complete His favor upon you and upon the family of Jacob, as He completed it upon your fathers before, Abraham and Isaac. Indeed, your Lord is Knowing and Wise."

اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیدہ کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی ( یا خوابوں کی تعبیر ) بھی سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی جیسے کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دادا اور پردادا یعنی ابراہیم و اسحاق کو بھی بھرپور اپنی نعمت دی ، یقیناً تیرا رب بہت بڑے علم والا اور زبردست حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Interpretation of Yusuf's Vision Allah says that Yaqub said to his son Yusuf, `Just as Allah chose you to see the eleven stars, the sun and the moon prostrate before you in a vision, وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ ... Thus will your Lord choose you, designate and assign you to be a Prophet from Him, ... وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الاَحَادِيثِ ... and teach you the interpretation of Ahadith.' Mujahid and several other scholars said that; this part of the Ayah is in reference to the interpreting of dreams. He said next, ... وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ ... and perfect His favor on you, `by His Message and revelation to you.' ... وَعَلَى الِ يَعْقُوبَ ... and on the offspring of Yaqub, This is why Yaqub said afterwards, ... كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ ... as He perfected it aforetime on your fathers, Ibrahim..., Allah's intimate friend, ... وَإِسْحَقَ ... and Ishaq, Ibrahim's son, ... إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ Verily, your Lord is All-Knowing, All-Wise. Allah knows best whom to chose for His Messages.

بشارت اور نصیحت حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے لخت جگر حضرت یوسف علیہ السلام کو انہیں ملنے والے مرتبوں کی خبر دیتے ہیں کہ جس طرح خواب میں اس نے تمہیں یہ فضیلت دکھائی اسی طرح وہ تمہیں نبوت کا بلند مرتبہ عطا فرمائے گا ۔ اور تمہیں خواب کی تعبیر سکھا دے گا ۔ اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دے گا یعنی نبوت ۔ جیسے کہ اس سے پہلے وہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو بھی عطا فرما چکا ہے جو تمہارے دادا اور پردادا تھے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے کہ نبوت کے لائق کون ہے؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی جس طرح تجھے تیرے رب نے نہایت عظمت والا خواب دکھانے کے لئے چن لیا، اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدگی بھی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ یہاں خواب کی تعبیر مراد ہے۔ 6۔ 2 اس سے مراد نبوت ہے جو یوسف (علیہ السلام) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے مصر میں یوسف (علیہ السلام) نوازے گئے۔ 6۔ 3 اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، ان کی اولاد وغیرہ ہیں، جو بعد میں انعامات الٰہی کے مستحق بنے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] سیدنا یوسف کے خواب کے واضح نتائج :۔ اس خواب سے سیدنا یعقوب نے خود جو نتائج نکالے اور سیدنا یوسف کو بتائے وہ یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا یوسف (علیہ السلام) سے اپنے دین کی خدمت کا کام لے گا اور انھیں تاویل الاحادیث سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ ہر بات کے موقع و محل کو سمجھنا معاملات کے نتائج کو فوراً پرکھ لینا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مضامین کی تہ تک پہنچ جانا وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ انھیں اس نعمت نبوت سے فیض یاب فرمائے گا جو ان کے دو باپوں سیدنا اسحاق اور سیدنا ابراہیم کو عطا کرچکا ہے۔ اس مقام پر سیدنا یعقوب نے از راہ تواضع اور انکساری اپنا نام لینا مناسب نہ سمجھا ورنہ آپ خود بھی جلیل القدر نبی تھے اور آپ کی اولاد میں ہی آئندہ سلسلہ نبوت جاری رہا۔ ماسوائے نبی آخرالزمان کے جو سیدنا اسماعیل کی اولاد سے تھے۔ اسی حقیقت پر درج ذیل حدیث سے روشنی پڑتی ہے : سیدنا یوسف سب سے مکرم :۔ سیدنا ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا &&: یارسول اللہ سب سے زیادہ مکرم کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : && جو سب سے زیادہ متقی ہے && انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے && پھر آپ نے فرمایا : یوسف اللہ کے نبی، اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے، اللہ کے نبی کے پڑپوتے، سب سے زیادہ مکرم ہیں۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ ۔۔ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ : ” یَجْتَبِیْ “ ” جَبَی یَجْبِیْ “ (ض) کے باب افتعال ” اِجْتِبَاءٌ“ کا فعل مضارع ہے، جس کا معنی جمع کرنا، کسی خوبی کی بنا پر چن لینا ہے۔ راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کے ” اِجْتِبَاءٌ“ (چن لینے) سے مراد اسے اپنے ایسے فیض کے ساتھ خاص کرلینا ہے جس سے اس کو اپنی کسی کوشش کے بغیر مختلف قسم کی نعمتیں حاصل ہوجائیں، یہ چیز انبیاء کو حاصل ہوتی ہے یا انھیں جو ان کے قریب ہوں، مثلاً صدیقین، شہداء۔ (مفردات) بیشک اعلیٰ درجے کا اجتباء انبیاء، صدیقین اور شہداء کو حاصل ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے چننے کے بھی کئی درجے ہیں، جیسا کہ آپ اپنے متعلق سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس طرح چنا کہ پتھر یا نباتات یا جانوروں کے بجائے انسان بنایا، پھر کافر نہیں بلکہ مسلمان بنایا، پھر کبیرہ گناہوں سے بچایا، پھر مشرک کلمہ گو کے بجائے موحد اور بدعتی کے بجائے متبع سنت بنایا، اگر علم کتاب کی نعمت بھی حاصل ہے تو آپ ان لوگوں میں جا ملے جن کے متعلق فرمایا : (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا) [ فاطر : ٣٢ ] ” پھر اس کتاب کے وارث ہم نے وہ لوگ بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔ “ اگر دعوت الی اللہ کی توفیق مل گئی تو مزید فیض مل گیا۔ غرض اصطفاء اور اجتباء کے کئی درجے ہیں اور جتنا حصہ مل جائے اس پر اللہ کا بیحد شکر ادا کرنا چاہیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ) [ الأعراف : ٤٣ ] ”(جنتی کہیں گے) اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔ “ یا اللہ ! تو اپنے فضل سے ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو جنت میں داخل ہو کر ان الفاظ میں تیرا شکر ادا کریں گے۔ (آمین) اس آیت میں ” وَکَذٰلِکَ “ (اور اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ خواب دکھلایا، اور کسی کو اس طرح کا خواب نہیں دکھایا، اسی طرح تیرا رب تجھے چنے گا اور تجھے۔۔ چننے سے مراد اعلیٰ درجے کا چننا ہے، جیسا کہ اوپر امام راغب سے نقل ہوا، یعنی نبوت و صدیقیت سے نوازے گا اور گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اعلیٰ مقام پر پہنچا کر تمہیں اپنے عہد کے سب بندوں پر فوقیت بخشے گا۔ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ : ” الْاَحَادِيْثِ “ ” حَدِیْثٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی بات ہے۔ ” تَاْوِيْلِ “ کا معنی بات کا صحیح مطلب سمجھنا اور اس کی تہ تک پہنچنا ہے، کیونکہ ” تَاْوِيْلِ “ ” أَوْلٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی لوٹنا ہے اور تاویل کا معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقصد کی طرف لوٹانا ہے، یعنی جو اس سے مراد ہے۔ یہاں ” تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ “ سے مراد بات سمجھنے کی تیز بصیرت اور کمال فہم کے ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی ہے ۔ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ ۔۔ : تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا جیسے اس سے پہلے تمہارے (دو باپوں) دادا اور پردادا پر پوری کی، یعنی تمہیں نبوت و رسالت اور حکومت عطا فرمائے گا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ”(اَبَوَیْکَ یعنی تیرے دونوں باپوں پر) ابراہیم اور اسحاق (علیہ السلام) کا نام لیا، اپنا نہ لیا عاجزی سے۔ “ (موضح) آل یعقوب پر نعمت تمام کرنے کا مطلب وہ تمام نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل پر ہوئیں اور جن کا ذکر تفصیل سے قرآن مجید میں موجود ہے۔ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : کہ اس کے بندوں میں سے کون سرفرازی کے لائق ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Expertise in the Interpretation of Dreams is Bestowed by Allah on whom He wills In the sixth verse, Allah Ta ا ala has promised some blessings for Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) : (1) كَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَ‌بُّكَ (And in the like manner your Lord will choose you ...) that is, H-e will choose him for His blessings and fa¬vours, something which manifested itself when wealth, recognition and power came into his hands in the country of Egypt. (2) وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ - (and teach you the interpretation of events ...). The word: الْأَحَادِيثِ : &al-ahadith& here means the dreams of people. It means that Allah Ta’ ala will teach him how to interpret dreams. This also tells us that interpret¬ing dreams is a standing area of expertise which is bestowed by Allah Ta` ala on a chosen few - everyone is not fit to have it. Ruling: It appears in Tafsir al-Qurtubi that ` Abdullah ibn Shaddad ibn al-Had said that the interpretation of this dream of Sayyidna ~Yusuf actualized after forty years. This tells us that an instant actualization of an interpretation is not necessary either. (3) As for the third promise: وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ (and will perfect His bounty upon you), it refers to the bestowal of Nubuwwah (prophethood) upon him. And this is what has been alluded to in the later sentences: كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْحَاقَ (as He has perfected it, earlier, upon your father, Ibrahim and Ishaq). That which has been said here also indicates that the skill of interpreting dreams as given to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was also taught to Sayyidna Ibrahim and Ishaq (علیہما السلام) ، peace be on them both. At the end of the verse, it was said: إِنَّ رَ‌بَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (Surely, your Lord is All-Wise, All-Knowing). So He is. For Him, teaching an art to someone is not difficult, nor does He, as His wisdom would have it, teach this art to just anyone. Instead of that, He elects someone, in His wisdom, and lets him have this expertise.

چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ یوسف (علیہ السلام) سے چند انعامات عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اول كَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے انعامات و احسانات کے لئے آپ کا انتخاب فرما لیں گے جس کا ظہور ملک مصر میں حکومت اور عزت و دولت ملنے سے ہوا دوسرے وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ اس میں احادیث سے مراد لوگوں کے خواب ہیں معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تعبیر خواب کا علم سکھا دیں گے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعبیر خواب ایک مستقل فن ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرما دیتے ہیں ہر شخص اس کا اہل نہیں۔ مسئلہ : تفسیر قرطبی میں ہے کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کے اس خواب کی تعبیر چالیس سال بعد ظاہر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ تعبیر کا فوراً ظاہر ہونا کوئی ضروری نہیں تیسرا وعدہ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ یعنی اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی نعمت پوری فرمادیں گے اس میں عطاء نبوت کی طرف اشارہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ بعد کے جملوں میں ہے كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ یعنی جس طرح ہم اپنی نعمت نبوت تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق (علیہم السلام) پر آپ سے پہلے پوری کرچکے ہیں اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ تعبیر خواب کا فن جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کو دیا گیا اسی طرح ابراہیم واسحاق (علیہم السلام) کو بھی سکھایا گیا تھا ، آخر میں فرمای آ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ یعنی تمہارا پروردگار بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے نہ اس کے لئے کسی کو کوئی فن سکھانا مشکل ہے اور نہ ازرؤے حکمت وہ یہ فن ہر شخص کو سکھاتا ہے بلکہ اپنی حکمت کے ماتحت انتخاب کر کے کسی کو یہ ہنر دیدیتا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَـمَآ اَتَمَّــہَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ۝ ٠ۭ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ٦ۧ اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ آل الآل : مقلوب من الأهل ، ويصغّر علی أهيل إلا أنّه خصّ بالإضافة إلى الأعلام الناطقین دون النکرات، ودون الأزمنة والأمكنة، يقال : آل فلان، ولا يقال : آل رجل ولا آل زمان کذا، أو موضع کذا، ولا يقال : آل الخیاط بل يضاف إلى الأشرف الأفضل، يقال : آل اللہ وآل السلطان . والأهل يضاف إلى الكل، يقال : أهل اللہ وأهل الخیاط، كما يقال : أهل زمن کذا وبلد کذا . وقیل : هو في الأصل اسم الشخص، ويصغّر أُوَيْلًا، ويستعمل فيمن يختص بالإنسان اختصاصا ذاتیا إمّا بقرابة قریبة، أو بموالاة، قال اللہ عزّ وجل : وَآلَ إِبْراهِيمَ وَآلَ عِمْرانَ [ آل عمران/ 33] ، وقال : أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ [ غافر/ 46] . قيل : وآل النبي عليه الصلاة والسلام أقاربه، وقیل : المختصون به من حيث العلم، وذلک أنّ أهل الدین ضربان : - ضرب متخصص بالعلم المتقن والعمل المحکم فيقال لهم : آل النبي وأمته . - وضرب يختصون بالعلم علی سبیل التقلید، يقال لهم : أمة محمد عليه الصلاة والسلام، ولا يقال لهم آله، فكلّ آل للنبيّ أمته ولیس کل أمة له آله . وقیل لجعفر الصادق رضي اللہ عنه : الناس يقولون : المسلمون کلهم آل النبي صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : کذبوا وصدقوا، فقیل له : ما معنی ذلك ؟ فقال : کذبوا في أنّ الأمّة کا فتهم آله، وصدقوا في أنهم إذا قاموا بشرائط شریعته آله . وقوله تعالی: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ [ غافر/ 28] أي : من المختصین به وبشریعته، وجعله منهم من حيث النسب أو المسکن، لا من حيث تقدیر القوم أنه علی شریعتهم . ( ا و ل ) الآل ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل اصل میں اہل ہے کیونکہ اسکی تصغیر اھیل آتی ہے مگر اس کی اضافت ناطقین انسان میں سے ہمیشہ علم کی طرف ہوتی ہے کسی اسم نکرہ یا زمانہ یا مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں ہے اس لئے آل فلاں ( علم ) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل رجل ، آل زمان کذا وآل مکان کذا بولنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کیطرف مضاف ہوگا اس لئے آل الخیاط بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ آل اللہ یا آل السلطان کہا جائیگا ۔ مگر اھل کا لفظ مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی طرف مضاف ہوکر آجاتا ہے ۔ چناچہ جس طرح اہل زمن کذا وبلد کذا بولا جاتا ہے اسی طرح اہل اللہ واہل الخیاط بھی کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ، ، آل ، ، دراصل بمعنی شخص ہے اس کی تصغیر اویل آتی ہے اور یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوگا جس کو دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو مگر قریبی رشتہ داری یا تعلق والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ } ( سورة آل عمران 33) خاندان ابراہیم اور خاندان عمران ۔ { أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ } ( سورة غافر 46) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو ۔ آل النبی ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل النبی سے آنحضرت کے رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم ومعرفت کے اعتبار سے آنحضرت کے ساتھ خصوصی تعلق حاصل ہو ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو علم وعمل کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں ان کو آل النبی اور امتہ بھی کہہ سکتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سراسر تقلیدی ہوتا ہے ان کو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کہہ سکتے اس سے معلوم ہوا کہ امت اور آل میں عموم وخصوص کی نسبت ہے یعنی ہر آل نبی اسکی امت میں داخل ہے مگر ہر امتی آل نبی نہیں ہوسکتا۔ امام جعفر صادق سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل نبی میں داخل سمجھتے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط تو اس لئے کہ تمام امت آل نبی میں داخل نہیں ہے اور صحیح اسلئے کہ وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہوجائیں تو انہیں آل النبی کہا جاسکتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ } ( سورة غافر 28) اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص ۔ ۔۔۔ کہئے ۔ میں اس مرد مومن کے آل فرعون سے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ( بظاہر ) تو اس کے خصوص اہل کاروں اور فرعون شریعت کے ماننے والوں سے تھا اور مسکن علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

تاویل الاحادیث کیا ہے قول باری ہے ویعلمک من تاویل الاحادیث اور تجھے باتوں کو تہہ کو پہنچنا سکھائے گا۔ تاویل سے مراد وہ مفہوم ہے جس کی طرف ایک معنی پلٹتا اور اس کی طرف راجع ہوتا ہو ۔ ایک چیز کی تاویل اس کے مرجع کو کہتے ہیں ۔ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ تاویل احادیث سے مراد خوابوں کی تعبیر ہے۔ ایک قول کے مطابق تاویل احادیث اللہ کی آیات ، اس کی توحید کے دلائل اور ان کے سوا دین کے دوسرے امور میں ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں نبوت کے لیے منتخب کرے گا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دے گا اور نبوت واسلام دے کر تم پر اور تمہارے ذریعے یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان پر انعام کامل کرے گا اور اسی نعمت پر تمہارا انتقال ہوگا۔ جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے دادا، پردادا یعنی ابراہیم (علیہ السلام) واسحاق (علیہ السلام) کو نبوت واسلام کی نعمت سے نوازا، واقعی تمہارا پروردگار ان نعمتوں کو جاننے والا اور اس کی تکمیل میں حکمت والا ہے یا یہ کہ وہ تمہارے خواب کو جاننے والا اور جو پریشانی تمہیں لاحق ہوگی اس میں حکمتوں والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ ) حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ میرے بیٹوں میں سے یوسف کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا ہے۔ (وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ) یہاں پر تاویل حدیث کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک خوابوں کی تعبیر اور دوسرے معاملہ فہمی اور دور بینی باتوں کی کنہ (تہ) تک پہنچ جانا ‘ حقیقت تک رسائی ہوجانا۔ (وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ ) یہاں حضرت یعقوب نے کسر نفسی کے سبب حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق کے ساتھ اپنا نام نہیں لیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. That is, “Bless him with Prophethood.” 6. The Arabic words of the text do not mean merely “the interpretation of dreams”, as has been generally understood. They are comprehensive and imply also this: Allah will bless you with the full understanding of the problems of life and their solutions and will give you the insight to reach at the reality of every matter. 7. Here it should be noted that the response of Prophet Jacob to the dream of Prophet Joseph (peace be upon them), according to the Bible and the Talmud, was quite different from this: “And he told it to his father, and to his brethren: and his father rebuked him, and said unto him, What is this dream that thou hast dreamed? Shall I and thy mother and thy brethren indeed come to bow down ourselves to thee to the earth?” (Gen. 37: 10). Even a little thinking will help one to arrive at the conclusion that his reaction as narrated in the Quran is worthy of the high character of Prophet Jacob and not the one found in the Bible and the Talmud. For Prophet Joseph had not expressed any personal ambition of his but merely narrated his dream. If the dream was a true one, and it is obvious that Prophet Jacob interpreted it, believing it to be true, there was no reason why he should rebuke his own son, for it meant that it was the will of God and no his own ambition that he should one day rise to a high rank. Can then one expect from any reasonable person, not to mention a Prophet, that he would take it ill and rebuke the one who dreamed such a dream? And can there ever be such a noble father who would say bitter and stinging things to his own son for the sin of telling him a true dream, prophesying his future greatness?

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :5 یعنی نبوت عطا کرے گا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :6 ”تَاوِیلُ الاَحَا دِیثِ“ کا مطلب محض تعبیر خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :7 بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے ۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا ، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے ۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تلمود کا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب بیان کیا تھا ، کوئی اپنی تمنا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچا تھا ، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی ، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف علیہ السلام کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیر الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہوا ۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر برا مانے اور خواب دیکھنے والے کو الٹی ڈانٹ پلائے؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائے الٹا جل بھن جائے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس خواب کے ذریعے یہ بشارت دی ہے کہ سب تمہارے فرماں بردار بنیں گے، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہیں نبوت سے سرفراز کرکے تمہیں بہت سے مزید نعمتوں سے نوازے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مسنگ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:6) کذلک۔ اول کاف حرف تشبیہ ذ اسم اشارہ ل علامت اشارہ بعید۔ آخری کاف حرف خطاب (واحد مذکر) ایسے ہی۔ اسی کی طرح ۔ ای مثل ذلک الاجتبائ۔ یجتبیک۔ مضارع واحد مذکر غائب اجتباء افتعال سے مصدر ۔ جبی مادہ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تجھ کو منتخب کر رہا ہے۔ چن رہا ہے۔ مجتبی برگزیدہ۔ چنا ہوا۔ منتخب شدہ ۔ الاحادیث۔ کہانیاں ۔ باتیں۔ حدیث کی جمع۔ ہر وہ کلام جو انسان تک پہنچ سکے۔ خواہ بذریعہ سماعت۔ خواہ بذریعہ وحی۔ عالم خواب میں ہو یا بیداری کی حالت میں ۔ اس کو حدیث کہتے ہیں۔ تاویل۔ اس کا مادہ اول ہے بروزن تفعیل مصدر ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کا اصل کی طرف رجوع ہونا۔ اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موٹل (جائے بازگشت) کہتے ہیں۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانے کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے۔ چناچہ غایت علمی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے وما یعلم تاویلہ الا اللہ (603) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور غایت عمل کے متعلق ہے ہل ینظرون الا تاویلہ یوم یاتی تاویلہ (7:52) اب وہ صرف اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے (یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وہ عملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی) ۔ تاویل۔ اصلی غایت۔ اصلی مراد۔ اصل حقیقت ۔ ٹھیک ٹھیک مقصود۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ خواب دکھایا اور اس طرح کا خواب کسی دوسرے کو نہیں دکھایا اسی طرح۔ 8 ۔ شاہ صاحب کا ترجمہ ہے ”: نوازے گا تجھ کو “۔ پھر اللہ کا بندے کو نوازنا یہ ہے کہا سے اپنے فضل و رحمت کے لئے خاص کرے کہ بغیر کسی کوشش کے اس پر طرح طرح کے فتوحات ہوں یہ درجہ انبیا کو حاصل ہوتا ہے صدیقین، شہدا اور صالحین کو۔ (روح) ۔ 9 ۔ ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسحاق ( علیہ السلام) کا نام لیا اپنا نہ لیا عاجزی سے۔ (موضح) ۔ یہ دونوں ” ابویک “ سے عطف بیان ہیں۔ (روح) ۔ 10 ۔ کہ اس کے بندوں میں کون سرفرازی کے لائق ہے۔ (کذافی الروح) ۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” نوازش اللہ کی سجدے سے سمجھے اور ” تاویل الاحادیث “ (کل بٹھائی باتوں کی) ۔ یعنی اس میں داخل ہے خوابوں کی تعبیر ان کے ذہن کی رسائی سے اور لیاقت سے کہ ایسا موزوں خواب دیکھا چھوٹی عمر میں۔ (از موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ بشارتیں جو یعقوب (علیہ السلام) نے دیں یا تو اس خواب سے سمجھے یا وحی سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کھلے الفاظ میں خواب کی تعبیر کرنے کی بجائے اشارات کی زبان میں تعبیر کرتے ہیں۔ خواب کی تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ میرے بیٹے اللہ تعالیٰ تجھے اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمائے گا اور تجھے خوابوں کی تعبیر، معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کی دانشمندی کی نعمت سے بدرجۂ اتم سرفراز کرئے گا جو انعام و اکرام رب کریم نے میرے خاندان یعنی تیرے دادا اور پڑ دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کو عنایت فرمائے تھے۔ یقیناً رب تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور اس کے فرمان اور کام میں بےحد و حساب حکمتیں مضمر ہوا کرتی ہیں۔ بیٹے کا خواب سننے کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اشاروں کی زبان میں اس کی تعبیر بتلائی کہ اے یوسف ! اللہ تعالیٰ تجھے وقت کا نبی بنانے اور دنیا و آخرت کی عزت و عظمت عطاء کرنے کے ساتھ خصوصی طور پر ” تاویل الاحادیث “ کے علم سے مالا مال کرے گا۔ اہل علم ” تاویل الاحادیث “ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر نہیں بلکہ معاملہ فہمی اور امور مملکت سے آگاہ کرنا بھی ہے جس کے بغیر کوئی حکمران صحیح طریقے سے نظام حکومت نہیں چلا سکتا۔ چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) خواب کی صحیح تعبیر بتلانے کی وجہ سے جیل کی کال کوٹھری سے رہا ہوئے اور ان کے علم بصیرت سے متاثر ہو کر مصر کے حکمران نے انہیں مصر کی وزارت خزانہ کا اس وقت قلم دان سونپا جب مصر شدید قحط سالی اور معاشی بحران کا شکار ہونے والا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خداداد فہم و فراست کی بنیاد پر آنے والے معاشی بحران پر کامیابی کے ساتھ قابوپایا کہ جس سے مصر کے عوام اور ان کے حکمران عش عش کر اٹھے۔ اس کی تفصیل آپ انشاء اللہ اسی سورة کی ٤١ تا ٤٩ آیات کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے خاندان کی عزت و عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی ذات کی بجائے اپنے بزرگوں کا ذکر کیا ہے۔ جس سے مراد عاجزی کا اظہار اور پورے خاندان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور اس کے انعام و اکرام کا اعتراف ہے۔ عظیم ترین خاندان : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَرِیمُ بْنُ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِ یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ (وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَعَلٓی آلِ یَعْقُوبَ کَمَآ أَتَمَّہَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ )] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عزت مند یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ جسے چاہتا ہے خوابوں کی تعبیر اور علم وفہم عطا فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنی نعمتوں سے نوازا۔ تفسیر بالقرآن حضرت یوسف (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احسانات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو نبوت اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا۔ (یوسف : ٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف پر وحی کی کہ ایک دن ضرور تو اپنے بھائیوں کو ان کی حرکت سے آگاہ کرے گا۔ (یوسف : ١٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو زمین میں اقتدار بخشا اور اسے خوابوں کی تعبیر سکھلائی۔ (یوسف : ٢١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو حکومت اور علم عطا فرمایا۔ (یوسف : ٢٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کی دعا قبول فرمائی اور اسے عورتوں کے فریب سے نجات عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو مصر میں با اختیار بنا دیا۔ (یوسف : ٥٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم پر احسانات فرمائے۔ (یوسف : ٩٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے قید خانہ سے نکال کر حضرت یوسف کو حکمران بنایا۔ (یوسف : ١٠٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت یعقوب کی سوچ اس اہم خواب کے بارے میں یہ بتا رہی ہے کہ حضرت یوسف اللہ کے ہاں برگزیدہ بن گئے ہیں اور ان پر اسی طرح کا فضل و کرم ہوچکا ہے کہ جس طرح ان کے باپ اور دادا پر ہوچکا ہے یعنی حضرت اسحاق اور ابراہیم پر ، عربی میں باپ اور دادا دونوں کے لیے " اب " کا لفظ بولا جاتا ہے۔ البتہ آیت کا یہ حصہ ویعلمک من تاویل الاحادیث " تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا " تاویل کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بات کے انجام کا علم ہوجائے۔ احادیث سے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ اللہ حضرت یوسف کو نبی کا منصب عطا کرے گا ، اسے سچا شعور دے گا ، دور رس بصیرت دے گا جس کی وجہ سے وہ ہر بات کے انجام اور نتائج کو پہلے سے معلوم کرلیں گے اور یہ صلاحیت الہی صلاحیت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ ان لوگوں کو دیتا ہے جن کو تیز فہم اور ادراک عطا ہوتا ہے۔ دوسرا مفہوم احادیث سے خوابیں بھی ہوسکتی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر کے سلسلے میں دور رس بصیرت دے گا۔ یہ دونوں مفہوم احادیث کے ہوسکتے ہیں اور دوسرا مفہوم تو عملاً قصے میں موجود ہے۔ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ: " تمہارا رب علیم و حکیم ہے " وہی علم اور حکمت کا سر چشمہ ہے جسے وہ چیزیں چاہے دے سکتا ہے۔ خوابوں اور احلام کی حقیقت کیا ہے۔ مناسب ہے کہ یہاں ان پر ایک نوٹ دے دیا جائے کیونکہ اس قصے کی اہم کڑیاں خوابوں پر مشتمل ہیں۔ ایک مسلمان کو یہ عقیدہ لازماً رکھنا پڑتا ہے کہ بعض خوابیں ایسی ہوتی ہیں جو مستقبل قریب یا بعید کے بارے میں صریح پیشین گوئی کرتی ہیں ، کیونکہ اس سورت میں حضرت یوسف کے خواب ، حضرت یوسف کے دو ساتھیوں کے خواب اور شاہ مصر کے خواب اور ان کا ذکر صراحت سے اس بات کو لازم کرتے ہیں کہ خوابوں کے اندر پیشین گوئی آجاتی ہے۔ پھر ہم میں سے ہر شخص اپنی شخصی زندگی میں اس قسم کی خوابیں اور بشارتیں دیکھتا ہے اور وہ سچی ثابت ہوتی ہیں۔ اس قدر سچی کہ انسان خواب کی حقیقت کا انکار نہیں کرتا۔ کیونکہ عملاً ہر شخص اس حقیقت کو موجود پاتا ہے۔ خواب پر یقین کرنے کے لیے یہ سورت اور قرآن کی تصریحات ہی کافی ہیں لیکن جس دوسری بات کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ بھی ایک عملی اور تجربی حقیقت ہے اور اس کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر خواب کی حقیقت کیا ہے۔ نفسیاتی تجربہ کرنے والوں نے کہا ہے کہ خوابیں در اصل انسان کے خفیہ اور خوابیدہ خواہشات کا عکس ہوتی ہیں۔ بےیہ بھی خوابوں کا ایک پہلو ہے ، لیکن یہ تمام خوابوں کی تعبیر نہیں ہے۔ فرائیڈ اپنی مکمل بےدینی اور اپنی مکمل ہٹ دھرمی کے باوجود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بعض خوابیں یقینا پیشین گوئی کا درجہ رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مبشرات کی نوعیت کیا ہوتی ہے ؟ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواب کی حقیقت کو ہم سمجھ سکیں یا نہیں لیکن اس بات میں شک نہیں ہے کہ بعض خوابیں نہایت ہی سچی ہوتی ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی عجیب و غریب مخلوق ہے اور اللہ نے اس کے وجود کے اندر جو قوانین اور حکمت ودیعت کی ہے ہم اس کے بعض پہلوؤں کو جان سکیں۔ ایسی سچی خوابوں کی حقیقت کو ہم اس انداز سے تعبیر کرتے ہیں کہ ماضی اور مستقبل کے حوادث اور واقعات کو ہم اس لیے نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارے اور ان کے درمیان زمان و مکان کا پردہ حائل ہوتا ہے یا ایک چیز حاضر بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہے۔ ماضی اور مستقبل کو تو زمانے کا فیکٹر ہماری نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ جیسا کہ حاضر بعید کو مکان کا فیکٹر ہمارے علم سے دور رکھتا ہے۔ بعض اوقات انسان کے اندر ایسے حواس جاگ اٹھتے ہیں یا قوی ہوجاتے ہیں۔ جو زمانے کے پردوں کو پھاڑ کر آگے دیکھ لیتے ہیں ، لیکن ان کی صورت مبہم ہوتی ہے۔ یہ مکمل علم نہیں ہوتا لیکن استشقاف ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ جاگتے ہوئے بھی حاصل ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ احساس سوتے میں ہوتا ہے لیکن ہمیں نہ اس کی حقیقت کا علم ہے اور نہ زمان کی حقیقت کا۔ اس طرح مکان جو مادے سے عبارت ہے یہ بھی ہمیں اچھی طرح معلوم نہیں ہے۔ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا " تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے " بہرحال حضرت یوسف نے خواب دیکھا اور اس کی تعبیر آرہی ہے۔ جہاں تک میر تعلق ہے میں یہ کہوں گا کہ میں ہر چیز کی تکذیب کرسکتا ہوں لیکن میں ایک ایسے واقعہ کی تکذیب نہیں کرسکتا جو خود مجھے پیش آیا۔ میں نے خوب میں دیکھا کہ میری ایک بھانجی کی آنکھوں میں خون ہے اور اسے نظر نہیں آ رہا ہے۔ میں نے گھر خط لکھا اور اس میں اس کی آنکھوں کے بارے میں پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے لکھا کہ اسے ایک ایسی تکلیف ہے کہ باہر سے نظر نہیں آرہی۔ بظاہر اس کی آنکھیں درست نظر آتی ہیں لیکن اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اور یہ کہ اس کا علاج ہو رہا ہے۔ میر خواب سچی تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو اول تو یہ نصیحت کی کہ تو اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان مت کرنا اور پھر فرمایا کہ میں سمجھ رہا ہوں اور یقین کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں منتخب فرما لے گا اور تمہیں تعبیر خواب کا علم بھی عطا فرمائے گا اور تم پر اپنا انعام پورا فرمائے گا جس میں نبوت کا عطا فرمانا بھی ہے ‘ اللہ تعالیٰ تم پر اور آل یعقوب پر اپنا انعام کامل فرمائے گا۔ جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے پردادا ابراہیم (علیہ السلام) پر اور تمہارے دادا اسحاق (علیہ السلام) پر انعام کامل فرمایا ہے۔ (اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (بےشک تیرا رب علم والا ہے حکم والا ہے) اس کے فیصلیعلم اور حکمت کے موافق ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ کاف بیان کمال کے لیے ہے۔ ” وَ یُعَلِّمُکَ “ اور ” وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ “ الخ ” یَجْتَبِیْکَ “ کی تفسیر ہے۔ ” مِنْ تَاوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ “ میں من بعضیہ ہے۔ تاویل الاحادیث سے امام مجاہد اور سدی کے نزدیک خوابوں کی تعبیر مراد ہے، حسن بصری کے نزدیک معاملات کے انجام اور امام زجاج کے نزدیک کتب سماویہ اور انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی احادیث کے معانی کا بیان مراد ہے (خازن، مدارک، روح) ۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں یہ نبوت کی طرف اشارہ ہے اور اس سے کتب سابقہ اور دلائل توحید کا بیان مراد ہے۔ ای احادیث الامم والکتب و دلائل التوحید ھفو اشارۃ الی النبوۃ (قرطبی ج 9 ص 129) اور تمام نعمت سے دینی اور دنیوی نعمتوں کا عطا کرنا مقصود ہے۔ بان وصل لھم نعمۃ الدنیا بنعمۃ الاخری ای جعلھم انبیاء فی الدنیا وملوکا و نقلھم عنھا الی الدرجات العلی فی الجنۃ (مدارک ج 2 ص 162) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 اور جس طرح تجھ کو اللہ تعالیٰ نے اس خواب سے نوازا ہے اور تجھ کو یہ عزت حاصل ہوگی کہ سب تیرے مطیع اور منقاد ہوں گے اسی طرح تیرا رب تجھ کو برگزیدہ کرے گا اور تجھ کو نبوت کے لئے منتخب فرمائے گا اور تجھ کو باتوں کی صحیح کل بٹھانی اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمائے گا اور خوابوں کی تعبیر دینا سکھائیگا اور اللہ تعالیٰ اسی طرح تجھ پر اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان پر کامل انعام فرمائے گا اور اپنی نعمتوں کو پورا کرے گا جس طرح اب سے پہلے تیرے پردادا اور داد ا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرچکا ہے یقینا تیرا پروردگار بڑے علم اور بڑی حکمت کا مالک ہے یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) خواب کو سن کر یہ سمجھے کہ یہ لڑکا ہونہار ہوگا اور نبی ہوگا اور اندیشہ کیا کہ علاقی بھائی اس کو ایذا پہونچائیں گے خواب ظاہر ہے وہ بھی سمجھ لیں گے اگرچہ وہ علاقی بھائی کوئی نبی یا ولی نہ تھے لیکن خاندان نبوت سے تعلق رکھتے تھے اس لئے تعبیر کو سمجھ جائیں گے اور اگرچہ وہ یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی تعبیرو کو روک نہ سکیں گے لیکن مختلف طریقوں سے اذیت پہونچائینگے علم حکمت کا اللہ تعالیٰ مالک ہے یعنی کوئی عطا اس کی مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں ہوتی دیتا ہے وہ بھی حکمت سے اور نہیں دیتا وہ بھی مصلحت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ نوازش اللہ کی سجدے سے سمجھے اور کل بٹھانی باتوں کی یعنی اس میں دخل ہے خواب کی تعبیر ان کے ذہن کی رسائی سے اور لیاقت سے کہ ایسا خواب موزوں دیکھا چھوٹی عمر میں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کا نام لیا اپنا نہ لیا عاجزی سے 12 خلاصہ ! یہ کہ خواب سے یا تو تمام باتیں سمجھے یا ہوسکتا ہے کہ وحی سے یوسف (علیہ السلام) کے مستقبل کا علم ہوا ہو۔ کما اتمھا میں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسحق (علیہ السلام) کا نام لیا اپنا ذکر نہ کیا یہ محض تواضع کی غرض سے تھا اور انبیاء (علیہم السلام) کی عادت میں تواضع اور عاجزی داخل ہے اور ان کا ایک نمایاں وصف ہے۔