Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 65

سورة يوسف

وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ ﴿۶۵﴾

And when they opened their baggage, they found their merchandise returned to them. They said, "O our father, what [more] could we desire? This is our merchandise returned to us. And we will obtain supplies for our family and protect our brother and obtain an increase of a camel's load; that is an easy measurement."

جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو اپنا سرمایہ موجود پایا جو ان کی جانب لوٹا دیا گیا تھا کہنے لگے اے ہمارے باپ ہمیں اور کیا چاہیے دیکھئے تو ہمارا سرمایہ بھی ہمیں واپس لوٹا دیا گیا ہے ، ہم اپنے خاندان کو رسد لا دیں گے اور اپنے بھائی کی نگرانی رکھیں گے اور ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ زیادہ لائیں گے یہ ناپ تو بہت آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They find Their Money returned to Their Bags Allah says وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ... And when they opened their bags, they found their money had been returned to them. Allah says, when Yusuf's brothers opened their bags, they found their merchandise inside them, for Yusuf had ordered his servants to return it to their bags. When they found their merchandise in their bags, ... قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ... They said: "O our father! What (more) can we desire...", what more can we ask for, ... هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ... This, our money has been returned to us; Qatadah commented (that they said), "What more can we ask for, our merchandise was returned to us and the Aziz has given us the sufficient load we wanted." They said next, ... وَنَمِيرُ أَهْلَنَا ... so we shall get (more) food for our family, `if you send our brother with us the next time we go to buy food for our family,' ... وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ... and we shall guard our brother and add one more measure of a camel's load. since Yusuf, peace be upon him, gave each man a camel's load of corn. ... ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ This quantity is easy (for the king to give). They said these words to make their case more appealing, saying that taking their brother with them is worth this gain,

یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بھائیوں کی واپسی کے وقت اللہ کے نبی نے ان کا مال ومتاع ان کے اسباب کے ساتھ پوشیدہ طور پر واپس کر دیا تھا ۔ یہاں گھر پہنچ کر جب انہوں نے کجاوے کھولے اور اسباب علیحدہ علیحدہ کیا تو اپنی چیزیں جوں کی توں واپس شدہ پائیں تو اپنے والد سے کہنے لگے لیجئے اب آپ کو اور کیا چاہئے ۔ اصل تک تو عزیز مصر نے ہمیں واپس کر دی ہے اور بدلے کا غلہ پورا پورا دے دیا ہے ۔ اب تو آپ بھائی صاحب کو ضرور ہمارے ساتھ کر دیجئے تو ہم خاندان کے لئے غلہ بھی لائیں گے اور بھائی کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ اور بھی مل جائے گا کیونکہ عزیز مصر ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ ہی دیتے ہیں ۔ اور آپ کو انہیں ہمارے ساتھ کرنے میں تامل کیوں ہے ؟ ہم اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت پوری طرح کریں گے ۔ یہ ناپ بہت ہی آسان ہے یہ تھا اللہ کا کلام کا تتممہ اور کلام کو اچھا کرنا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام ان تمام باتوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جب تک تم حلفیہ اقرار نہ کرو کہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ مجھ تک واپس پہنچاؤ گے میں اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کا نہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ نہ کرے تم سب ہی گھر جاؤ اور چھوٹ نہ سکو ۔ چنانچہ بیٹوں نے اللہ کو بیچ میں رکھ کر مضبوط عہدو پیمان کیا ۔ اب حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ فرما کر کہ ہماری اس گفتگو کا اللہ وکیل ہے ۔ اپنے پیارے بچے کو ان کے ساتھ کر دیا ۔ اس لئے کہ قحط کے مارے غلے کی ضرورت تھی اور بغیر بھیجے چارہ نہ تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 یعنی بادشاہ کے اس حسن سلوک کے بعد، کہ اس نے ہماری خاطر تواضع بھی خوب کی اور ہماری پونجی بھی واپس کردی، اور ہمیں کیا چاہیئے۔ 65۔ 2 کیونکہ فی کس ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا تھا، غلہ دیا جاتا تھا، بنیامین کی وجہ سے ایک اونٹ کے بوجھ بھر غلہ مذید ملتا۔ 65۔ 3 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ کے لئے ایک بار شتر غلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، آسان ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذٰ لِکَ کا اشارہ اس غلے کی طرف ہے جو ساتھ لائے تھے۔ اور یسیر بمعنی قلیل ہے یعنی جو غلہ ہم ساتھ لائے ہیں قلیل ہے بنیامین کے ساتھ جانے سے ہمیں کچھ غلہ اور مل جائے گا تو اچھی ہی بات ہے ہماری ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہو سکے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] پھر جب غلہ کی بوریاں کھولنے اور ان سے غلہ نکالنے کے دوران انھیں وہ نقدی بھی واپس مل گئی جو انہوں نے بطور قیمت غلہ ادا کی تھی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ شاہ مصر کے احسانات انھیں یاد آنے لگے اور بن یمین کو ساتھ لے جانے کے دوبارہ تقاضا کے لیے ایک نئی وجہ بھی پیدا ہوگئی۔ پہلے تقاضا کے وقت انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ غلہ کی رقم کب تک میسر آئے گی اور کب ہمیں دوبارہ مصر جانا ہوگا۔ اس لیے بن یمین کے ساتھ لے جانے کا مطالبہ بھی کچھ ایسا پرزور نہ تھا۔ شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ وقت آنے پر باپ مان ہی جائے گا یا اسے منا لیں گے، مگر اب جبکہ غلہ کے لیے قیمت بھی میسر آگئی تو دوبارہ بن یمین کی حفاظت کے عہد و پیمان کرنے اور والد کو اسے ہمراہ لے جانے پر مجبور کرنے اور اس کے فوائد بتلانے لگے۔ [٦٣] یعنی بن یمین کا حصہ بھی ملے گا اور اب جبکہ ساری سہولتیں میسر ہیں تو پھر کیوں نہ غلہ لانے کی کوشش کی جائے، اور بعض لوگوں نے اس آیت میں (یَسِیْرٌ) کے معنی آسان کے بجائے قلیل لیے ہیں۔ یعنی جو غلہ ہم لاچکے ہیں وہ ہمارے گھرانے کے لیے تھوڑا ہے۔ کب تک چلے گا۔ لہذا ہمیں دوبارہ غلہ لانے کے موقعہ کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ ۔۔ : جب انھوں نے اپنا سامان کھولا اور دیکھا کہ جو کچھ وہ بطور قیمت لے کر گئے تھے پورا ہی انھیں واپس دے دیا گیا ہے، تو انھیں اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ بھیجنے کے لیے مزید اصرار کرنے اور اطمینان دلانے کا موقع مل گیا۔ چناچہ انھوں نے کہا، ابا جان ! ہمیں اور کیا چاہیے، ہمارا مال ہمیں واپس مل گیا، اب قیمت موجود ہے، چھوٹا بھائی ساتھ جائے تو ہم سارے اہل خانہ کے لیے غلہ لے آئیں گے، ایک اونٹ زائد بھی مل جائے گا، ورنہ گیارہ کہاں ایک بھی نہیں ملے گا، ایسی صورت میں ہم بھائی کو کیوں نقصان پہنچائیں گے۔ ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ: اس کے دو معنی کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ دس اونٹ غلہ جو ہم لائے ہیں کب تک چلے گا، یہ تو بہت تھوڑا ہے، اس لیے ہمیں ہر صورت دوبارہ جانا پڑے گا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اس طرح ہمارے لیے ایک اونٹ بھر غلہ مزید لانا بالکل آسان ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At this stage, verse 65 opens with the words: وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُ‌دَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَـٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُ‌دَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ‌ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ‌ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ‌ And when they opened their baggage, they found their capital given back to them. They said, |"Our father, what else do we want? Here is our capital given back to us, and we shall bring food to our family, protect our brother and add the measure of one camel more. That is an easy measure.|" It will be noticed that, prior to this verse, the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) were talking about what had happened to them on their jour¬ney, before they had opened their baggage. After that, when they opened the baggage and saw that their entire capital with which they had paid for the food grains was present inside the baggage, they realized that this was not done by mistake, in fact, their capital had been returned to them. Therefore, they said: رُ‌دَّتْ إِلَيْنَا (given back to us). Then, to their father they said: مَا نَبْغِي (what else do we want?) that is, ` the grains are here and what we paid for it has also been returned to us. Now we should definitely go back there in peace with our brother because the way we have been treated shows that the ` Aziz of Misr is kind to us. We should have no apprehensions. It is the time that we go and bring food-grains for the family and take care of our brother too. That we shall get an additional load of grains in the name of our brother will help - because, whatever we have brought in the present trip is much less than our needs and is likely to be consumed soon. One sense of the sentence: مَا نَبْغِي (ma nabghi) spoken by the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is practically the same as given immediately above, that is, ` what else do we want?& And if, in this sentence, the letter: مَا (ma : not) is taken in the sense of negation, it could also mean that the sons of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) told their father: Now that we have the price of the grain with us, we do not want anything from you. You just send our brother with us.

(آیت) وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ اِلَيْهِمْ ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِيْ ۭهٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَيْنَا ۚ وَنَمِيْرُ اَهْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيْرٍ ۭ ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ یعنی اب تک تو برادران یوسف (علیہ السلام) کی یہ ابتدائی گفتگو حالات سفر بیان کرنے کے دوران میں ہو رہی تھی ابھی سامان کھولا نہ تھا اس کے بعد جب سامان کھولا اور دیکھا کہ ان کی وہ پونجی جو غلہ کی قیمت میں ادا کر کے آئے تھے وہ بھی سامان کے اندر جو موجود ہے تو اس وقت انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ کام سہواً نہیں ہوا بلکہ قصدا ہماری پونجی ہمیں واپس کردی گئی ہے اسی لئے رُدَّتْ اِلَيْنَا کہا یعنی یہ پونجی ہمیں واپس کردی گئی ہے اور پھر والد محترم سے عرض کیا یعنی ہمیں اور کیا چاہئے کہ غلہ بھی آ گیا اور اس کی قیمت بھی واپس مل گئی اب تو ہمیں ضرور دوبارہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر اطمینان سے جانا چاہئے کیونکہ اس معاملہ سے معلوم ہوا کہ عزیز مصر ہم پر بہت مہربان ہے اس لئے کوئی اندیشہ نہیں ہم اپنے خاندان کے لئے غلہ لائیں اور بھائی کو بھی حفاظت سے رکھیں اور بھائی کے حصہ کا غلہ مزید مل جائے کیونکہ ہم جو کچھ لائے ہیں یہ تو ہمارے اخراجات کے مقابلہ میں بہت تھوڑا ہے چند روز میں ختم ہوجائے گا، برادران یوسف (علیہ السلام) نے جو یہ جملہ مانبغی کہا اس کا ایک مفہوم وہی ہے جو ابھی بتلایا گیا کہ ہمیں اور اس سے زیادہ کیا چاہئے اور اس جملہ میں حرف ما کو نفی کے معنی میں لیا جائے تو یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ اولاد یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے والد سے عرض کیا کہ اب تو ہمارے پاس غلہ لانے کے لئے قیمت موجود ہے ہم آپ سے کچھ نہیں مانگتے آپ صرف بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَہُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ اِلَيْہِمْ۝ ٠ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِيْ۝ ٠ۭ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَيْنَا۝ ٠ۚ وَنَمِيْرُ اَہْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيْرٍ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ۝ ٦٥ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے بضع البِضَاعَة : قطعة وافرة من المال تقتنی للتجارة، يقال : أَبْضَعَ بِضَاعَة وابْتَضَعَهَا . قال تعالی: هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف/ 65] وقال تعالی: بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف/ 88] ( ب ض ع ) البضاعۃ ۔ مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کرلیا گیا ہو ابضع وبتضع بضاعۃ سرمایہ یاپونچی جمع کرنا ۔ الگ قرآن میں ہے ۔ هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف/ 65] یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے ۔ بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف/ 88] اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ مور المَوْر : الجَرَيان السَّريع . يقال : مَارَ يَمُورُ مَوْراً. قال تعالی: يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور/ 9] ومَارَ الدم علی وجهه، والمَوْرُ : التُّراب المتردِّد به الرّيح، وناقة تَمُورُ في سيرها، فهي مَوَّارَةٌ. ( م و ر ) المور ۔ کے معنی تیز رفتاری کے ہیں ۔ اور یہ مار یمور مورا سے ہے چناچہ قرآن میں ہے يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور/ 9] جس دن آسمان لرز نے لگے کپکپاکر ۔ مار الرم علیٰ وجھہ کے معنی چہرہ پر تیزی سے خون جاری ہونے کے ہیں اور مور غبار کو بھی کہتے ہیں جو ہوا میں ادہر ادھر اڑتا ہے اور ناقۃ تمور فی میرھا کے معنی ہیں اونٹنی کا تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑاتے ہوئے چلے جانا ۔ اور تیز رو اونٹنی کو موارۃ کہا جاتا ہے ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ ( بعیر) ، اسم جامد للجمل البازل يطلق للذکر والأنثی، جمعه بعران۔ بضمّ الباء۔ وأبعرة وجمع الجمع أباعر وأباعیر، والأوزان علی التوالي فعیل بفتح الفاء، وفعلان بضمّها، وأفعلة، وأفاعل، وأفاعیل يسر اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) (چنانچہ اس گفتگو کے بعد) جب انہوں نے اپنے سامان اور پالانوں کو کھولا تو اس میں ان کے اناج کی قیمت بھی ملی جو ان ہی کی واپس کردی گئی تھی تو کہنے لگے اباجان لیجیے ہم نے جو کچھ اس بادشاہ کی شفقت اور احسان وکرم آپ سے آکر بیان کیا ہے وہ جھوٹ نہیں اور یہ کہ قیمت کی واپسی کی تو ہم نے ان سے درخواست نہیں کی تھی اور ہم نے اناج کی جو قیمت ادا کی تھی وہ بھی ہمارے غلہ کے ساتھ ہمیں واپس کردی گئی ہے یہ اس بادشاہ یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہم پر مزید احسان وکرم ہے، یہ دیکھ کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا بلکہ اس شخص نے تمہیں اس طریقہ سے آزمایا ہے۔ یہ قیمت بھی ان کے پاس واپس لے جاؤ اور انہیں لوٹا دو (ان کے بیٹے کہنے لگے ایسے مہربان بادشاہ سے) اپنے گھروالوں کے لیے اور راشن لائیں گے اور وہاں آنے جانے میں اب تو بنیامین کی بھی خوب دیکھ بھال کریں گے اور بنیامین جب ہمارے ساتھ ہوں گے تو ایک اونٹ اناج کا اور لادیں گے یہ تو تھوڑا سا اناج ہے اور تو بنیامین ہی کی وجہ سے ملے گا اور یہ کام تو بہت ہی آسان ہے اور یہ تدبیر تو بہت ہی عمدہ ہے جس کی وجہ سے ہم ان سے اناج لے کر آئیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٥۔ ٦٦۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے فرمایا کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے گھر جا کر اپنا سامان کھولا تو غلہ کی وہ قیمت جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو انہوں نے مصر میں دی تھی اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خدمت گار سے کہہ دیا تھا کہ روپیہ ان کی گٹھڑیوں میں باندھ دو وہ روپیہ انہوں نے یہاں آکر دیکھا پھر تو انہیں جرأت ہوئی اور باپ سے کہا اب آپ کو بنیامین کے بھیجنے میں کیا عذر ہے۔ دیکھئے عزیز مصر کیسا نیک آدمی ہے کہ ہماری قیمت بھی واپس کردی اگر اب کے آپ بنیامین کو ساتھ کردیں گے تو اس کا حصہ ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ اور زیادہ لائیں گے کیوں کہ عزیز مصر فی آدمی ایک شتر کا بار دیتا ہے اور ہم ہر طرح بنیامین کے محافظ رہیں گے آپ دل میں کوئی اندیشہ نہ کیجئے مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) ایک دفعہ کے ڈرے ہوئے تھے۔ یوسف (علیہ السلام) کو یہ لوگ اسی اقرار سے لے گئے تھے اور ان کو کھو کر آئے اس لئے فرمایا کہ تم لوگ جب تک حلف نہ اٹھاؤ گے اور پکا وعدہ و اقرار کر کے مجھے اطمینان نہ دلاؤ گے کہ ہم بخیر و خونی بنیامین کو پھر واپس لائیں گے اس وقت تک میں ہرگز اس کو تمہارے ساتھ نہ کروں گا۔ ہاں یہ بات مجبوری کی ہے کہ تم سب کے سب بلائے ناگہانی میں گھر جاؤ یا کوئی ایسی افتاد پڑے کہ تم پھر کر آنے سے مجبور ہوجاؤ تو اس وقت نا چاری ہے مگر تم جب تک اس بات کا عہد نہ کرو گے کہ تم اپنے مقدور بھر بنیامین کے واپس لانے میں کچھ کمی نہ کرو گے اور اس کے واپس لانے میں کوئی حیلہ حوالہ نہیں کرو گے تو اس کو میں نہیں بھیجوں گا غرض کہ انہوں نے حلف اٹھایا اور پکا وعدہ کیا کہ ہم ہرگز کچھ حیلہ نہیں کریں گے اور ضرور بالضرور بنیامین کو اپنے ساتھ واپس لائیں گے جب یہ لوگ وعدہ و اقرار پکے طور پر کرچکے تو یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ اس عہد پر خدا ہی گواہ ہے کہ اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے وہ عہد کے توڑنے والے شخص پر عذاب کرتا ہے غرض کہ اس مرتبہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے بھی عہد و پیمان کرا کر اپنا اطمینان کرلیا اور پھر اس قول و اقرار کے بعد خدا پر بھروسہ کیا۔ بخلاف اس دفعہ کے جب یہ لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو لے جانے لگے تھے تو انہوں نے یہ کہا تھا کہ تم اپنے لہو و لعب میں رہو گے اور اس کو بھیڑیا کھا جائے گا وہاں خدا پر بھروسہ کرنا بھول گئے تھے اس لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) ان سے مدت تک جدا رہے اب جو انہوں نے خدا پر پورا بھروسہ کیا تو دونوں صاحبزادے آپ سے آملے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایماندار شخص کو صلہ رحمی کی پابندی ضرور ہے۔ رشتہ داروں سے سلوک کرنے کو صلہ رحمی کہتے ہیں جو علماء یہ کہتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے غلہ کی قیمت اس لئے صلہ رحمی کے طور پر واپس کردی کہ یہ روپیہ باپ بھائیوں کی اور ضرورتوں میں کام آوے اور غلہ مفت ان کے پاس پہنچ جاوے تو بہتر ہے اس حدیث میں ان علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم ہے اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صلہ رحمی کا مسئلہ جس طرح شرع محمدی میں ہے اسی طرح ملت ابراہیمی میں بھی تھا اور اسی کے موافق یوسف (علیہ السلام) نے عمل کیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 65) ما نبغی۔ نبغی۔ مضارع جمع متکلم ۔ بغی یبغی (ضرب) بغی سے۔ اس کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کرنا کے ہیں خواہ تجاوز کرسکے یا نہ کرسکے۔ گو لغت میں بغی کا لفظ محمود اور مذموم دونوں قسم کے تجاوز پر بولا جاتا ہے مگر قرآن میں اکثر جگہ مذموم کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ما نبغی میں ما نفی کے لئے بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے۔ ہم نے بادشاہ کی تعریف میں اور اس کے احسان و کرم نوازی میں حد سے تجاوز نہیں کیا تھا۔ اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اس نے ہماری نقدی بھی واپس کردی ہے۔ یا ما استفہامیہ ہے ای ای شیٔ نطلب وراء ھذا ۔ اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے کہ بادشاہ نے ہمیں غلہ بھی پورا دیا اور ہماری نقدی بھی واپس کردی۔ نمیر۔ ما ر یمیر میر (باب ضرب) سے مضارع جمع متکلم۔ المیر۔ مصدر خوراک ۔ کھانا۔ ما رعیالہ۔ عیال کے لئے خوراک لانا۔ المائراسم فاعل خوراک لانے والا۔ نمیر اھلنا ہم اپنے اہل خانہ کے لئے خوراک لائیں گے۔ نزداد کیل بعیر۔ ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیں گے۔ ذلک کیل یسیر یہ غلہ آسانی سے مل جاوے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یا اس طرح ایک اونٹ بھر زائد غلہ لانا آسان ہی معاملہ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولما فتحوا متاعھم۔۔۔۔۔۔۔۔ کیل یسیر ۔ (١٢ : ٦٥) “ پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کردیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے “ ابان جان ، اور ہمیں کیا چاہئے ، دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل عیال کے لئے رسد لے کر آئیں گے ، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بار شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے ، اتنے غلہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہوجائے گا ”۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ صرف خاندان کا بھلا چاہتے ہیں ، جب خاندان کے لئے ہم زاد راہ کی تلاش میں جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ بھائی کی حفاظت کریں گے۔ بھائی کی وجہ سے ایک بار شتر غلہ اور زیادہ مل جائے گا۔ جب بھائی ساتھ ہوگا تو اس کا حصہ رسدی لازماً ملے گا۔ ان کی اس بات سے کہ ہم ایک بار شتر غلہ زیادہ لائیں گے ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہر شخص کو ایک بار شتر غلہ دیتے تھے۔ کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہ تھی کہ وہ جس قدر غلہ چاہے لے جائے۔ کیونکہ خشک سالی کے دور میں کنڑول کرنے میں حکمت تھا تا کہ سب کو تھوڑا تھوڑا غلہ ملتا رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برادران یوسف کا اپنی پونجی کو سامان میں پا کر اپنے والد سے دوبارہ مصر جانے کی درخواست کرنا اور چھوٹے بھائی کی حفاظت کا وعدہ کرنا باپ بیٹوں کی باتیں ہو رہی تھیں کہ مصر میں غلہ لینے گئے تو وہاں سے غلہ تو لے آئے لیکن جو صاحب غلہ تقسیم کرتے ہیں انہوں نے آئندہ کے لیے یہ شرط لگا دی ہے کہ اپنے بھائی کو بھی لاؤ گے تو غلہ ملے گا ورنہ نہیں پھر جب سامان کی طرف متوجہ ہوئے سامان کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو پونجی وہاں غلہ کے عوض دی تھی وہ تو اپنے ہی سامان میں موجود ہے۔ پونجی کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ابا جان ہمیں اور کیا چاہئے ہم غلہ بھی لے آئے اور پونجی بھی واپس مل گئی ایسے کریم اور محسن آدمی کی طرف پھرجانا چاہئے لیکن شرط کے خلاف جانا بےفائدہ ہوگا لہٰذا بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ اس مرتبہ پھرجائیں اور غلہ لائیں اور جب بھائی کو ساتھ لے جانا ضروری ہے تو ہم بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک فرد زیادہ ہونے کی وجہ سے مزید ایک اونٹ کا بوجھ بھی لے آئیں گے کیونکہ بنیامین کے حصے کا بھی غلہ ملے گا جو غلہ اب لائے ہیں یہ تو تھوڑا سا ہے یہ جلد ہی ختم ہوجائے گا لا محالہ دوبارہ جانا ہی پڑے گا۔ ان کے والد نے کہا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن تمہارا بھروسہ کیا ہے تم اس کی حفاظت کا وعدہ تو کر رہے ہو لیکن میں اسے جبھی تمہارے حوالہ کروں گا جبکہ اللہ کا نام لے کر خوب مضبوط عہد کرو یعنی قسم کھاؤ کہ اسے ضرور لاؤ گے اس پر انہوں نے قسم کھالی لہٰذا یعقوب (علیہ السلام) بنیامین کو بھیجنے پر راضی ہوگئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتوں پر نگہبان ہے وہ ہماری ان باتوں پر گواہ ہے لیکن ساتھ ہی (اِلَّا اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ ) بھی کہہ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے تو بھائی کی خوب حفاظت کرنا اور حفاظت میں کمی نہ کرنا لیکن اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ تم سب گھیرے میں آجاؤ (تم سب ہی ہلاک ہوجاؤ یا اس کی حفاظت سے واقعتا عاجز ہوجاؤ تو اس پر میں کیا مواخذہ کرسکوں گا معذوری اور مجبوری پر تو مواخذہ نہیں ہوسکتا) اس میں یہ بات بتادی کہ مجبوری کی حالت مواخذہ سے مستثنیٰ ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے پہلے فرما دیا تھا کہ اب تم پر بھروسہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے یوسف کے بارے میں تم پر بھروسہ کیا تھا اس بھروسہ کا انجام تو یہ ہوا کہ یوسف سے جدائی ہوگئی لیکن اب یوسف کے بھائی کو لے جانے کی ضرورت پڑی تو تمہارے وعدہ کا بھروسہ نہیں کروں گا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی حفاظت میں دوں گا پھر جب سامان سے پونجی نکل آئی اور دوبارہ غلہ لانے کے لیے مصر جانا مشورہ سے طے ہو ہی گیا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اللہ کی مضبوط قسم کھاؤ کہ اس بھائی کی حفاظت کرو گے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ بھروسہ صرف اللہ ہی پر تھا اور اللہ تعالیٰ ہی سے حفاظت کی امید تھی لیکن اسباب ظاہرہ کے طور پر بھائیوں سے بھی حفاظت کی قسم لے لی۔ معلوم ہوا کہ اسباب ظاہرہ اختیار کرنا تو کل علی اللہ کے منافی نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ بھی واپس اس میں موجود ہے تو کہنے لگے ابا جان ! ہمیں اور کیا چاہئے ہمیں غلہ بھی مل گیا اور سرمایہ بھی واپس آگیا والمعنی ای شیء نطلب وراء ھذا و فی لنا الکیل و رد علینا الثمن (قرطبی ج 9 ص 214) ۔ ” وَنَمِیْرُ اَھْلَنَا وَ نَحْفَظُ الخ “ ہم دوبارہ جا کر اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے، بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ مزید غلہ لے کر آئیں گے یہ غلہ ہمیں آسانی سے مل جائے گا صرف چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جانے کی ضرورت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 ۔ اور اس گفتگو کے بعد جب انہوں نے اپنا اسباب کھولاتو انہوں اپنی پونجی جوں کی توں اس اسباب میں رکھی پائی جو ان کو واپس کردی گئی تھی پونجی کی واپسی کو دیکھ کر بولے اے ہمارے باپ ہم کو اور کیا چاہئے یہ ہمارے غلہ کے عوض میں جو پونجی دی گئی تھی وہ بھی تو ہم کو لوٹا دی گئی اب ہم جائیں گے تو اپنے گھر والوں کے لئے اور رسد لائیں گے اور اپنے بھائی کی خوب حفاظت رکھیں گے اور اس بھائی کیلئے ایک اونٹ کا مزید غلہ لائیں گے اور ایک اونٹ کی بھرتی زیادہ لیں گے یہ غلہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے غلہ کی قیمت واپس کردی تا کہ ان پر اچھا اثر پڑے اور پھر آئیں یا اس لئے کہ آتے وقت ان کے پاس کچھ نہ ہو تو یہی پونچی لے کر چلے آئیں یا اخلاق و مروت کے تقاضے سے قیمت لینی مناسب نہ سمجھی ہو ۔ غرض عزیز کی تعریف کر کے پھر کہا کہ بن یامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تا کہ اب کی دفعہ غلہ زیادہ لائیں اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔