Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 67

سورة يوسف

وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ ؕ وَ مَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ ﴿۶۷﴾

And he said, "O my sons, do not enter from one gate but enter from different gates; and I cannot avail you against [the decree of] Allah at all. The decision is only for Allah ; upon Him I have relied, and upon Him let those who would rely [indeed] rely."

اور ( یعقوب علیہ السلام ) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا ۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ya`qub orders His Children to enter Egypt from Different Gates Allah tells: وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ... And he said: "O my sons! Do not enter by one gate, but enter by different gates, Allah says that Yaqub, peace be upon him, ordered his children, when he sent Binyamin with them to Egypt, to enter from different gates rather than all of them entering from one gate. Ibn Abbas, Muhammad bin Ka`b, Mujahid, Ad-Dahhak Qatadah, As-Suddi and several others said that; he feared the evil eye for them, because they were handsome and looked beautiful and graceful. He feared that people might direct the evil eye at them, because the evil eye truly harms, by Allah's decree, and brings down the mighty warrior-rider from his horse. He next said, ... وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ ... and I cannot avail you against Allah at all. this precaution will not resist Allah's decision and appointed decree. Verily, whatever Allah wills, cannot be resisted or stopped, ... إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

چونکہ اللہ کے نبی نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے ، خوبصورت ، تنو مند ، طاقتور ، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لئے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا ۔ نظر کا لگ جانا حق ہے ۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے ۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پہیری نہیں کر سکتی ۔ اللہ کی قضا کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا ۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے ۔ حکم اسی کا چلتا ہے ۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضا کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے ۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہئے ۔ چنانچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے ۔ اس طرح وہ اللہ کی قضا کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں ۔ وہ ذی علم تھے ، الہامی علم ان کے پاس تھا ۔ ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 جب بنیامین سمیت، گیارہ بھائی مصر جانے لگے، تو یہ ہدایت دی، کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے، جو قد و قامت اور شکل و صورت میں بھی ممتاز ہوں، جب اکٹھے ایک ہی جگہ یا ایک ساتھ کہیں سے گزریں گے تو عموماً انھیں لوگ تعجب یا حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چناچہ انھیں نظر بد سے بچانے کے لئے بطور تدبیر یہ حکم دیا ' نظر لگ جانا حق ہے ' جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً ' اَ لْعَیْنُ حَق ' نظر کا لگ جانا حق ہے '۔ صحیح بخاری صحیح مسلم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی امت کو بتالئے ہیں مثلا فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بارک اللہ کہو۔ مؤطا امام مالک جس کی نظر لگے اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا یہ پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو حوالہ مذکورہ اسی طرح ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ پڑھنا قرآن سے ثابت ہے سورة کہف قل اغوذ برب الفلق اور قل اغوذ برب الناس نظر کے لیے بطور دم پڑھنا چاہیے جامع ترمذی 67۔ 2 یعنی یہ تاکید بطور ظاہری اسباب، احتیاط اور تدبیر کے ہے جسے اختیار کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے، تاہم اس سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر و قضا میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہوگا وہی، جو اس کی قضا کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] پھر جب ان گیارہ بھائیوں کی روانگی کا وقت آیا تو کئی طرح کے اندیشے سیدنا یعقوب کے دل میں پیدا ہونے لگے پہلے ان کے بیٹے اجنبی مسافروں کی حیثیت سے اور بےبسی کے عالم میں مصر داخل ہوئے تھے۔ اب یہ ایک لحاظ سے شاہی دعوت کی بنا پر شان و شوکت سے روانہ ہو رہے تھے۔ گیارہ بھائی تھے۔ سب کے سب جوان اور خوبصورت، پھر پہلی بار بھی ان سے مصر میں عام لوگوں جیسا سلوک نہ ہوا تھا بلکہ ان کی بہت عزت و تکریم کی گئی تھی جسے اہل مصر خوب جانتے تھے۔ لہذا روانگی کے وقت سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کو سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ کہیں انھیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ لہذا احتیاطی تدبیر کے طور پر انھیں یہ ہدایت کی کہ وہ مصر کے کسی ایک ہی دروازہ سے داخل نہ ہوں۔ بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ بعض لوگ نظر لگنے کو محض ایک وہم خیال کرتے ہیں۔ درج ذیل حدیث کی رو سے ان کا خیال باطل ہے : ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا نظر لگنا برحق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کرتی تو نظر کرتی && (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرضیٰ والرقی۔۔ ) اس تدبیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہماری تدابیر بھی اس صورت میں کام آسکتی ہیں جبکہ اللہ کو منظور ہو، اور اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ لہذا حقیقت یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنا تدابیر اختیار کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا ۔۔ : نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی وضاحت ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صحرا کے پروردہ تنومند گیارہ نوجوان ایک ہی دروازے سے اکٹھے گزریں گے تو ان کی پڑتال زیادہ ہوگی۔ انھیں رہزنوں کا گروہ بھی سمجھا جاسکتا ہے، اگر شک یا حسد کی بنا پر گرفتار ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) تک ایک بھی نہیں پہنچ سکے گا، پھر گرفتار شدگان کی رہائی کی جدوجہد اجنبی وطن میں کون کرے گا، غرض کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ مگر اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو اپنے صحت مند، قوی، جوان اور خوب صورت بیٹوں کے اکٹھے داخل ہونے پر نظر بد لگنے کا خطرہ تھا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ ٹوک (نظر بد) سے بچنے کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا، ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچاؤ کرنا درست ہے۔ “ (موضح) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْہُ الْعَیْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوْا ) [ مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقي : ٢١٨٨ ]” نظر لگنا ثابت شدہ بات ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے نکل سکتی تو نظر اس سے آگے نکل جاتی اور جب تم سے غسل کے لیے کہا جائے تو غسل کرو۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کا پہنچنا ثابت ہے۔ دراصل نظر لگانے والے کی آنکھ سے کوئی ایسی تاثیر رکھنے والی شعاع نکلتی ہے جو نشانہ بننے والے کو نقصان پہنچاتی ہے، جیسا کہ اب لیزر (شعاع) سے پتھر بھی توڑ دیا جاتا ہے۔ یہ حسد کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور اپنے پیاروں کو بھی لگ جاتی ہے، کسی کی آنکھ میں یہ تاثیر زیادہ ہوتی ہے کسی میں کم۔ بچوں پر یہ زیادہ اثر اندازہوتی ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ کوئی چیز اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے، مثلاً : (تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ ) یا اپنی زبان میں کہہ دے ” یا اللہ ! اس میں برکت فرما۔ “ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ کوئی اپنے خوب صورت باغ وغیرہ میں داخل ہو تو یہ کہے : ( مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) [ الکھف : ٣٩ ] اس آیت سے یہی الفاظ اپنی ہر پیاری چیز پر پڑھنے کی ترغیب بھی ملتی ہے، اس سے وہ چیز نظربد سے محفوظ رہے گی۔ اگر نظر لگ جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسے دور کرنے کے دو طریقے ثابت ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اگر معلوم ہوجائے کہ کس کی نظر لگی ہے تو اس سے غسل کروا کر وہ پانی نظر کے مریض پر ڈالا جائے، جیسا کہ اوپر صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا، یا کم از کم اس کا چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں کہنیاں، دونوں گھٹنے، پیروں کی انگلیاں اور تہ بند کے اندر کا حصہ کسی برتن میں دھو کر وہ پانی مریض پر ڈالا جائے (تو وہ تندرست ہوجائے گا) ۔ [ الموطأ، العین، باب الوضوء من العین : ٢ ] دوسرا طریقہ توحید پر مبنی دم ہے۔ عوف بن مالک راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا بَأْسَ بالرُّقٰی مَا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ شِرْکَ ) [ مسلم، السلام، باب لا بأس بالرقٰي۔۔ : ٢٢٠٠ ] ” دموں میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ وہ شرک نہ ہوں۔ “ مشرک صوفیوں اور گدی نشینوں کے بجائے خود ہی مسنون دم کرلیا کریں، یہاں چند مسنون دم ضرورت اور فائدے کے لیے نقل کیے جاتے ہیں : 1 عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسن و حسین (رض) کو پناہ دلواتے (دم کرتے) اور فرماتے : ” تم دونوں کا باپ ( ابراہیم (علیہ السلام ) اسماعیل اور اسحاق ( علیہ السلام) کو ان کلمات کے ساتھ پناہ دلواتا (دم کرتا) تھا : (أَعُوْذُ بِکَلِمَات اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٣٧١ ] ” میں پناہ طلب کرتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر اس آنکھ سے جو نظر لگانے والی ہے۔ “ ابوداؤد (٤٧٣٧) اور ترمذی (٢٠٦٠) میں شروع کے لفظ یہ ہیں : ( أُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَات اللّٰہِ التَّامَّۃِ ) یعنی میں تم دونوں کو دم کرتا ہوں۔ اگر ایک کو دم کرے تو ” أُعِیْذُکَ “ کہہ لے۔ 2 ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، کہا : ” اے محمد ! آپ بیمار ہوگئے ہیں ؟ “ کہا : ” ہاں ! “ تو انھوں نے کہا : ( بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَيْءٍ یُؤْذِیْکَ ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ ، اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ ) [ مسلم، باب الطب والمرض والرقٰی : ٢١٨٦ ] ” میں اللہ ہی کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو تجھے تکلیف دے رہی ہے اور ہر حسد کرنے والے نفس یا آنکھ کے شر سے، اللہ تجھے شفا دے۔ اللہ ہی کے نام سے میں تجھے دم کرتا ہوں۔ “ مسند احمد (٥؍٣٢٣، ح : ٢٢٨٢٦) میں عبادہ بن صامت (رض) سے ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخار تھا، پچھلے پہر جبریل (علیہ السلام) نے دم کیا، شام کو آپ بہترین حالت میں ہوگئے۔ 3 آسمان سے اترنے والی تمام کتابوں میں سے سورة فاتحہ سب سے عظیم سورت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، ایک قبیلے کے سردار کو (جنھوں نے صحابہ کرام (رض) کے قافلے کی مہمان نوازی سے انکار کردیا تھا) سانپ نے ڈس لیا۔ ابوسعید خدری (رض) نے سورة فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا، وہ بالکل ٹھیک ہوگیا تو صحابہ نے ان سے طے کی ہوئی تیس بکریاں وصول کیں۔ [ بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ علی أحیاء العرب۔۔ : ٢٢٧٦] ابوداؤد میں ہے کہ خارجہ بن صلت کے چچا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر مسلمان ہوگئے، واپسی پر ان کا گزر ایک قوم پر ہوا، جہاں ایک پاگل لوہے کی زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا تھا، انھوں نے ان سے دم کی درخواست کی تو انھوں نے صرف سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ صبح و شام تین دن سورة فاتحہ پڑھ کر جمع شدہ تھوک اس پر پھینکتے رہے تو وہ تندرست ہوگیا اور ایسا گویا اسے رسیوں سے کھول دیا گیا ہو، تو انھوں نے ان کو سو بکریاں دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلْ فَلَعَمْرِيْ مَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ )[أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقی : ٣٩٠١ ] ” کھالو، میری عمر کی قسم ! لوگ تو باطل دم کے ساتھ کھاتے ہیں، تم نے حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔ “ اس لیے ہر بیماری، نظر ہو یا کوئی اور سورة فاتحہ جیسا عظیم دم موجود ہونے کی صورت میں اگر کوئی مشرکوں بدعتیوں کے پاس جائے تو اس پر افسوس ہے۔ 4 سورة فلق اور سورة ناس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقبہ بن عامر (رض) سے فرمایا : ( یَا عُقْبَۃُ ! تَعَوَّذْ بِھِمَا فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بِمِثْلِھِمَا ) [ أبوداوٗد، الوتر، باب فی المعوذتین : ١٤٦٣ ] ” اے عقبہ ! ان دونوں کے ساتھ پناہ پکڑ، کیونکہ کسی پناہ پکڑنے والے نے ان جیسی سورتوں کے ساتھ پناہ نہیں پکڑی۔ “ کتب احادیث میں اور بھی دم موجود ہیں جو حصن المسلم اور ادعیہ و اذکار کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ ۔۔ : اور میں اللہ کی طرف سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا، بلکہ اس نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو کر رہے گا، مگر چونکہ آدمی کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے، اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے، کیونکہ اسباب بھی تب ہی کام آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہے۔ سو تدبیر کرنا بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگنے کا نام ہے۔ ” الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا “ تدبیر ہے اور ” میں اللہ سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا “ تقدیر پر ایمان ہے، جس کا نتیجہ اسی پر توکل ہے۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۔۔ : یہاں حکم سے مراد کونی اور قدری حکم ہے جس پر یہ کائنات چل رہی ہے، اس میں بندے کا کچھ اختیار نہیں۔ ” عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ “ یعنی میری طرح تم پر اور سب لوگوں پر بھی لازم ہے کہ صرف اسی پر بھروسا کریں، اپنی تدبیر پر غرور نہ کریں، اگرچہ شرعی حکم بھی اللہ ہی کا ماننا لازم ہے مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے امتحان کے لیے بندے کو کچھ اختیار دیا ہے جس پر باز پرس ہوگی۔ پہلی دفعہ یعقوب (علیہ السلام) نے انھیں مختلف دروازوں سے داخل ہونے کا حکم نہیں دیا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت قحط کی وجہ سے تمام بھائیوں کی صحت اچھی نہیں ہوگی، اب وہ بہترین صحت کے ساتھ تھے اور مزید یہ کہ وہ چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جا رہے تھے جو یوسف (علیہ السلام) کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کو سب سے زیادہ پیارے اور یوسف (علیہ السلام) کی ماں کے بطن سے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the present verses, the second visit of the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، this time accompanied by their younger brother, has been mentioned. On that occasion, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) had told them to keep in mind that they were eleven of them going there, so they should not enter Egypt collectively from one single gate of the city of their desti¬nation. Instead of that, once they have reached the outer wall of the city, they should disperse and enter there from different gates. The reason for this advice was his apprehension that all of them were young and, masha&Allah, healthy, tall, handsome and impressive. He was concerned about them lest people find out that they were sons of the same father, and brothers to each other. May be they are affected by someone&s evil eye which may bring them some harm. Or, their coming in all together may make some people envy them, or may even cause some pain to them. Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) did not give them this advice the first time they went to Egypt. He did so on the occasion of their second trip. The re¬ason for this, perhaps, is that they had entered Egypt on their first visit as common travellers and in a broken down condition. No one knew them, nor was there any danger that someone would take any special no¬tice of their general condition. But, it so happened that, during their very first trip, the master of Egypt gave them an unusual welcome which introduced them to state functionaries and city people. Now there did exist the danger that someone may cast an evil eye on them, or that some people start envying them for being an imposing group of visitors. Apart from it, the fact that the younger son, Benyamin, was with them this time, became the cause of the father&s added attention. The Effect of the Evil Eye is True This tells us that human beings affected by the evil eye, or its caus¬ing pain or loss to another human being, animal etc., is true. It cannot be dismissed as ignorance, superstition or fancy. Therefore, Sayyidna Ya` qub was concerned about it. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has also confirmed its truth. It appears in a Hadith: ` The evil eye makes a human being enter the grave, and a camel enter a petty pot.& Therefore, things from which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has sought refuge, and from which he has directed his Ummah to seek refuge, include: مِن کُلِّ عین لامّۃ that is, ` I seek refuge from the evil eye.& (Qurtubi) Well-known is the event related to Sayyidna Sahl ibn Hunayf (رض) ، one of the noble Companions. It is said that there was an occasion when he took off his shirt to get ready to go for a bath. ` Amir ibn Rabi` ah hap¬pened to cast a glance at the bright tint and healthy look of his body. The spontaneous remark he made was: ` Until this day, I have never seen a body as handsome as this!& No sooner did these words escape his mouth, an instant high temperature seized Sayyidna Sahl ibn Hunayf. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was informed about it, the treatment he suggested was that ` Amir ibn Rabi&ah should make Wudu&, collect the water from Wudu& in some utensil, and let this water be poured on the body of Sahl ibn Hunayf. When it was done as ordered, the temperature dropped down immediately. He became fully fit, and left on the expedition he was going with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who, follow¬ing this event, also gave a gentle warning to ` Amir ibn Rabi` ah by telling him: علام یقتل احدکم اخاہ، الَّا برّکت، انَّ العین حق ` Why would someone kill his brother? (When you saw his body) you could have made Wudu& for barakah. It is true that the evil eye leaves its effect.& This Hadith also tells us that, should someone notice something unusual about the person or property of somebody else, let him make Wudu& for him that Allah Ta’ ala blesses him with barakah in it. According to some narrations, one should say:. مَاشَاءَ اللہُ لا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ (Masha&Allahu laquw¬wata ilia billah : Whatever Allah will - there is no power but with Him). This removes the effect of the evil eye. This also tells us that, should someone become affected by a person&s evil eye, the pouring of water used by that person in washing his face, hands and feet (in Wudu) will help eliminate the effect of the evil eye. Al-Qurtubi has said that there is a consensus of all ` Ulama& of the Muslim Ummah among Ahl al-Sunnah wa al-Jama` ah on the truth of the evil eye as affecting and causing harm. Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، on the one hand, because of the apprehension of the evil eye, or envy, advised his sons that they should not enter all to¬gether from one single gate of the city. On the other hand, he considered it necessary to speak out about the reality behind it - the heedlessness towards which in such matters would usually cause many from among the masses to fall easy victims to superstition or baseless scruples. The real fact is that the effect of the evil eye over one&s person or property is a kind of mesmerism (or an induced state as in hypnosis, though not neces¬sarily in sleep or pre-set clinical conditions). This would be more like a harmful medicine or food which makes one sick; or, excessive heat or cold which make some diseases show up. The effective measures demon¬strated by the evil eye or mesmerism are one of the customary causes which would, through the power of the eye or mind, make its effects man¬ifest. The truth is that they themselves have no real effectiveness of their own. Instead, all universal causes operate under the perfect power, will and intention of Allah Ta’ ala. No favourable measures taken against what has been Divinely destined can prove beneficial, nor can the harmfulness of some harmful measure become effective. Therefore, it was said: وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ And I cannot help you in any way against (the will of) Allah. Sovereignty belongs to none but Allah. In Him I place my trust, and in Him should trust those who trust - 67. It means: I know that the necessary precautions I have ordered you to take so as to help you remain protected against the evil eye cannot avert the will and intention of Allah Ta` ala. What works here is but the command of Allah. However, one has been asked to do what is physically possible. Therefore, I have given this advice. But, I place my trust, not on these physical arrangements, but in Allah alone. And it is imperative for everyone that he or she should trust in and rely on Him alone - never placing one&s trust in physical and material means. The reality which Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) was talking about became all too visible in this trip as well. By chance it so happened that all meas¬ures taken to bring Benyamin back home safely just failed and he was detained in Egypt. As a consequence of which, Sayyidna Yaqub (علیہ السلام) received another severe shock. That the measure taken by him failed, as categorically mentioned in the next verse, had a purpose behind it. It means that this measure failed in terms of the essential objective, that is, the safe return of Benyamin back home - though, the measure taken to keep them protected against the evil eye or envy did succeed, because no such incident showed up during this trip. But, the unforeseen inci-dent Divine destiny had in store for them was a factor not noticed by Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) nor could he do anything to counter it. However, despite this visible failure, it was the barakah (blessing) of his tawakkul (trust) that this second shock turned out to be an antidote for the first one, and resulted in the happy reunion with both his sons, Yusuf and Benyamin, safely and honourably.

خلاصہ تفسیر : اور (چلتے وقت) یعقوب (علیہ السلام نے (ان سے) فرمایا کہ اے میرے بیٹو ! (جب مصر میں پہنچو تو) سب کے سب ایک ہی دروازہ سے مت جانا بلکہ علیحٰدہ علیحٰدہ دروازوں سے جانا اور (یہ محض ایک تدبیر ظاہری ہے بعض مکروہات مثل نظر بد سے بچنے کی باقی) خدا کے حکم کو تم پر سے میں ٹال نہیں سکتا حکم تو بس اللہ تعالیٰ کا (چلتا) ہے (باوجود اس تدبیر ظاہری کے دل سے) اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی پر بھروسہ رکھنے والوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے (یعنی تم بھی اسی پر بھروسہ رکھنا تدبیر پر نظر مت کرنا، غرض سب رخصت ہو کر چلے) اور جب (مصر پہنچ کر) جس طرح ان کے باپ نے کہا تھا (اسی طرح شہر کے) اندر داخل ہوئے تو باپ کا ارمان پورا ہوگیا (باقی) ان کے باپ کو ان سے (یہ تدبیر بتلا کر) خدا کا حکم ٹالنا مقصود نہ تھا (تاکہ ان پر کسی قسم کا اعتراض یا اس تدبیر کے نافع ہونے سے ان پر شبہ لازم آئے چناچہ خود انہوں نے ہی فرما دیا تھا وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ الخ) لیکن یعقوب (علیہ السلام) کے جی میں (درجہ تدبیر میں) ایک ارمان (آیا) تھا جس کو انہوں نے ظاہر کردیا اور وہ بلاشبہ بڑے عالم تھے بایں وجہ کہ ہم نے ان کو علم دیا تھا (وہ علم کے خلاف تدبیر کو اعتقادا مؤ ثر حقیقی کب سمجھ سکتے تھے صرف ان کے اس قول کی وجہ وہی عملا ایک تدبیر کا ارتکاب تھا جو کہ مشروع و محمود ہے) لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے (بلکہ جہل سے تدبیر حقیقی اعتقاد کرلیتے ہیں) اور جب یہ لوگ (یعنی برادران یوسف) یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے (اور بنیامین کو پیش کر کے کہا کہ ہم آپ کے حکم کے موافق ان کو لائے ہیں) انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملا لیا (اور تنہائی میں ان سے) کہا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں سو یہ لوگ جو کچھ (بدسلوکی) کرتے رہے ہیں اس کا رنج مت کرنا (کیونکہ اب تو اللہ نے ہم کو ملا دیا اب سب غم بھلا دینا چاہئے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بدسلوکی تو ظاہر اور مشہور ہے رہا بنیامین کے ساتھ، سو یا تو ان کو بھی کچھ تکلیف دی ہو ورنہ یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کیا ان کے حق میں کچھ کم تکلیف تھی پھر دونوں بھائیوں نے مشورہ کیا کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ بنیامین یوسف (علیہ السلام) کے پاس رہیں کیونکہ ویسے رہنے میں تو اور بھائیوں کا بوجہ عہدو سوگند کے اصرار ہوگا ناحق جھگڑا ہوگا اور پھر اگر وجہ بھی ظاہر ہوگئی تو راز کھلا اور اگر مخفی رہی تو یعقوب (علیہ السلام) کا رنج بڑھے گا کہ بلاسبب کیوں گئے یا کیوں رہے یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تدبیر تو ہے مگر ذرا تمہاری بدنامی ہے بنیامین نے کہا کچھ پرواہ نہیں غرض ان میں یہ امر قرار پا گیا اور ادھر سب کو غلہ دے کر ان کی رخصت کا سامان درست کیا گیا) معارف و مسائل : آیات مذکورہ میں برادران کا یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر دوسری مرتبہ سفر مصر کا ذکر ہے اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو شہر مصر میں داخل ہونے کے لئے ایک خاص وصیت یہ فرمائی کہ اب تم گیارہ بھائی وہاں جا رہے ہو تو شہر کے ایک ہی دروازہ سے سب داخل نہ ہونا بلکہ شہر پناہ کے پاس پہنچ کر متفرق ہوجانا اور شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہونا سبب اس وصیت کا یہ اندیشہ تھا کہ یہ سب نوجوان اور ماشاء اللہ صحت مند قدآور صاحب جمال وصاحب وجاہت ہیں ایسا نہ ہو کہ جب لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ یہ سب ایک ہی باپ کی اولاد اور بھائی بھائی ہیں تو کسی بدنظر کی نظر لگ جائے جس سے ان کو کوئی تکلیف پہنچنے یا اجتماعی طور سے داخل ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ حسد کرنے لگیں اور تکلیف پہنچائیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ وصیت پہلی مرتبہ نہیں کی اس دوسرے سفر کی موقع پر فرمائی اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پہلی مرتبہ تو یہ لوگ مصر میں مسافرانہ اور شکستہ حالت میں داخل ہوئے تھے نہ کوئی ان کو پہچانتا تھا نہ کسی سے ان کے حال پر زیادہ توجہ دینے کا خطرہ تھا مگر پہلے ہی سفر میں ملک مصر نے ان کو غیر معمولی اکرام کیا جس سے عام ارکان دولت اور شہر کے لوگوں میں تعارف ہوگیا تو اب یہ خطرہ قوی ہوگیا کہ کسی کی نظر لگ جائے یا سب کو ایک باشوکت جماعت سمجھ کر کچھ لوگ حسد کرنے لگیں نیز اس مرتبہ بنیامین چھوٹے بیٹے کا ساتھ ہونا بھی والد کے لئے اور زیادہ توجہ دینے کا سبب ہوا نظر بد کا اثر حق ہے : اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی نظرلگ جانا اور اس سے کسی دوسرے انسان یا جانور وغیرہ کو تکلیف ہوجانا یا نقصان پہنچ جانا حق ہے محض جاہلانہ وہم و خیال نہیں اسی لئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اس کی فکر ہوئی، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کی تصدیق فرمائی ہے ایک حدیث میں ہے کہ نظر بد ایک انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کردیتی ہے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن چیزوں سے پناہ مانگی اور امت کو پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے (ان میں من کل عین لامۃ) بھی مذکور ہے یعنی میں پناہ مانگتا ہوں نظر بد سے (قرطبی) صحابہ کرام (رض) میں سہل بن حنیف کا واقعہ معروف ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر غسل کرنے کے لئے کپڑے اتارے تو ان کے سفید رنگ تندرست بدن پر عامر بن ربیعہ کی نظر پڑگئی اور ان کی زبان سے نکلا کہ میں نے تو آج تک اتنا حسین بدن کسی کا نہیں دیکھا یہ کہنا تھا کہ فوراً سہل بن حنیف کو سخت بخار چڑھ گیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ علاج تجویز کیا کہ عامربن ربیعہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں اور وضو کا پانی کسی برتن میں جمع کریں یہ پانی سہل بن حنیف کے بدن پر ڈالا جائے ایسا ہی کیا گیا تو فوراً بخار اتر گیا اور وہ بالکل تندرست ہو کر جس مہم پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے اس پر روانہ ہوگئے اس واقعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عامر بن ربیعہ کو یہ تنبیہ بھی فرمائی (علام یقتل احدکم اخاہ الا برکت ان العین حقٌ) کوئی شخص اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ جب ان کا بدن تمہیں خوب نظر آیا تو برکت کی دعاء کرلیتے نظر کا اثر ہوجانا حق ہے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو کسی دوسرے کی جان ومال میں کوئی اچھی بات تعجب انگیز نظر آئے تو اس کو چاہئے کہ اس کے واسطے یہ دعاء کرے کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرماویں بعض روایات میں ہے کہ ماشاء اللہ لَاقُوَ ۃ الاَّ باللہ کہے اس سے نظر بد کا اثر جاتا رہتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی نظر بد کسی کو لگ جائے تو نظر لگانے والے ہاتھ پاؤں اور چہرہ کا غسالہ اس کے بدن پر ڈالنا نظر بد کے اثر کو زائل کردیتا ہے، قرطبی نے فرمایا کہ تمام علماء امت اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ نظر بد لگ جانا اور اس سے نقصان پہنچ جانا حق ہے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک طرف تو نظر بد یا حسد کے اندیشہ سے اولاد کو یہ وصیت فرمائی کہ سب مل کر ایک دروازہ سے شہر میں داخل نہ ہوں دوسری طرف ایک حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھا جس سے غفلت کی بناء پر ایسے معاملات میں بہت سے عوام جاہلانہ خیالات واوہام کے شکار ہوجاتے ہیں وہ یہ کہ نظر بد کی تاثیر کسی انسان کے جان ومال میں ایک قسم کا مسمریزم ہے اور وہ ایسا ہی ہے جیسے مضر دوا یا غذا انسان کو بیمار کردیتی ہے، گرمی، سردی کی شدت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں اسی طرح نظر بد یا مسمریزم کے تصرفات بھی انہی اسباب عادیہ میں سے ہیں کہ نظر یا خیال کی قوت سے اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ان میں خود کوئی تاثیر حقیقی نہیں ہوتی بلکہ سب اسباب عالم حق جل شانہ کی قدرت کاملہ اور مشیت و ارادہ کے تابع ہیں تقدیر خداوندی کے مقابلہ میں نہ کوئی مفید تدبیر مفید ہو سکتی ہے نہ مضر تدبیر کی مضرت اثر انداز ہو سکتی ہے اس لئے ارشاد فرمایا، وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۚ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ یعنی نظر بد سے بچنے کی جو تدبیر میں نے بتلائی ہے میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کو نہیں ٹال سکتی حکم تو صرف اللہ ہی کا چلتا ہے البتہ انسان کو ظاہری تدبیر کرنے کا حکم ہے اس لئے یہ وصیت کی گئی مگر میرا بھروسہ اس تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ ہی پر اعتماد ہے اور ہر شخص کو یہی لازم ہے کہ اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرے ظاہری اور مادی تدبیروں پر بھروسہ نہ کرے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جس حقیقت کا اظہار فرمایا اتفاقا ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ اس سفر میں بنیامین کو حفاظت کے ساتھ واپس لانے کی ساری تدبیریں مکمل کرلینے کے باوجود سب چیزیں ناکام ہوگئیں اور بنیامین کو مصر میں روک لیا گیا جس کے نتیجہ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ایک دوسرا شدید صدمہ پہنچا ان کی تدبیر کا ناکام ہونا جو اگلی آیت میں منصوص ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اصل مقصد کے لحاظ سے تدبیر ناکام ہوگئی اگرچہ نظر بد یا حسد وغیرہ کامیاب ہوئی کیونکہ اس سفر میں ایسا واقعہ پیش نہیں آیا مگر بتقدیر الہی جو حادثہ پیش آنے والا تھا اس طرف یعقوب (علیہ السلام) کی نظر نہ گئی اور نہ اس کے لئے کوئی تدبیر کرسکے مگر اس ظاہری ناکامی کے باوجود ان کے توکل کی برکت سے یہ دوسرا صدمہ پہلے صدمہ کا بھی علاج ثابت ہوا اور بڑی عافیت و عزت کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں سے ملاقات انجام کار نصیب ہوئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ۝ ٠ۭ وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝ ٠ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ۝ ٠ۚ وَعَلَيْہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝ ٦٧ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب ایک ہی دروازہ سے مت داخل ہونا، بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا تمہارے بارے میں قدرت کے فیصلے کو تو تم سے نہیں ٹال سکتا حکم تو بہرحال اسی کا چلتا ہے، اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنے اور تمہارے معاملہ کو اسی کے سپرد کرتا ہوں اور اسی پر سب کو بھروسہ کرنا چاہیے یا کہ مومنین پر یہی واجب و ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ان پر نظر بد کا خوف ہوا کیوں کہ یہ سب بھائی خوبصورت شخصیت والے اور خوبصورت چہروں والے تھے اسی وجہ سے اس چیز کا ان کے متعلق خدشہ ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ) حسد اور نظر بد وغیرہ کے اثرات سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ تمام بھائی اکٹھے ایک دروازے سے شہر میں داخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں۔ (وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ) میں اللہ کے کسی فیصلے کو تم لوگوں سے نہیں ٹال سکتا۔ اگر اللہ کی مشیت میں تم لوگوں کو کوئی گزند پہنچنا منظور ہے تو میں اس کو روک نہیں سکتا۔ یہ صرف انسانی کوشش کی حد تک احتیاطی تدابیر ہیں جو ہم اختیار کرسکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. Prophet Jacob’s great concern over this journey of his sons was due to the fact that his youngest son, Benjamin, was to accompany them. He was anxious about his safety because he had already had a bad experience of his son Joseph. Naturally his heart must have been full of such misgivings that it might be his last meeting with his other beloved son. Though he had full trust in Allah and was patiently resigned to His will, but, as a human being, advised his sons to take certain precautionary measures. In order to understand the significance of this precautionary measure of entering the capital by different gates, we should have a glimpse of the political conditions of that period. As the Israelites lived on the Eastern frontier of Egypt as independent clans, they were looked at with suspicion like all frontier people. Therefore Prophet Jacob feared that if they entered the city in a group, they might be taken for a gang of suspects, especially during that time of famine. Thus there was an apprehension of some severe action being taken against them as if they had come there for organized robbery. That was why he gave them this allowance that if under such adverse circumstances there was any trouble, he would not accuse them of breach of the pledge for the safety of Benjamin.

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف کے بعد ان کے بھائی کو بھیجچتے وقت یعقوب کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہوگی گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبر و تسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا ، مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی ، طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں ، اسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے ۔ یہ احتیاطی مشورہ کہ مصر کے دار السلطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں ، ان سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے جو وقت پائے جاتے تھے ، یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے ، اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے ۔ حضرت یعقوب کو اندیشہ ہوا ہوگا کہ اس قحط کے زمانہ میں اگر یہ لوگ ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انہیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں ، پچھلی آیت میں حضڑت یعقوب کا یہ ارشاد کہ الا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشورہ سیاسی اسباب کی بناء پر تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: یہ تاکید حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خیال سے فرمائی کہ یہ گیارہ کے گیارہ بھائی جو سب ماشا اللہ قد آور اور حسین و جمیل تھے جب ایک ساتھ شہر میں داخل ہوں گے، تو کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 43۔ نظرِ بد سے بچنے کی تدبیر بتانے کے ساتھ ساتھ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ حقیقت بھی واضح فرما دی کہ اِنسان کی کسی تدبیر میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے تو اِنسان کی تدبیر میں اثر پیدا فرما دیتا ہے، اور چاہتا ہے تو وہ بے اثر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی سی تدبیر تو ضرور کرے، لیکن بھروسہ اُس تدبیر کے بجائے اﷲ تعالیٰ ہی پر رکھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٧۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے فرمایا کہ برادران یوسف (علیہ السلام) نے جب سفر کی تیاری کی اور بنیامین کو لے کر مصر کی طرف چلے تو ان کے والد بزرگوار حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو نصیحت کی کہ تم سب کے سب ایک دروازہ سے نہ داخل ہونا الگ الگ دروازہ سے شہر میں جانا کہ مصر کے چار دروازے تھے سدی کہتے ہیں ابواب متفرقہ سے یہی چاروں دروازہ مراد ہیں بہرحال یعقوب (علیہ السلام) نے اس لئے یہ ہدایت کی کہ پہلی مرتبہ جو یہ لوگ گئے تھے تو کوئی ان سے واقف نہ تھا اور اب وہاں کے لوگ انہیں جان گئے ہیں اور یہ سب کے سب ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں اور جوان جوان حسن میں بھی بےمثال ہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کی نظر بد انہیں لگ جائے کیوں کہ ابوہریرہ (رض) کی صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { العین حق } ١ ؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ نظر بد حق ہے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں بعضے صحابہ کو نظربد لگ چکی ہے ٢ ؎ کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی خواہش یہ تھی کہ بنیامین یوسف (علیہ السلام) سے تنہا ملیں اس لئے چلتے وقت ان کو یہ ہدایت کردی کہ تم الگ الگ دروازہ سے شہر میں جانا مگر قول اول صحیح حدیث کے موافق ہے۔ ابو علی جبائی اور معتزلی فرقہ کے اور بعضے لوگوں نے کہا کہ ٹوک کے لگ جانے کا وجود دنیا میں نہیں ہے لیکن یہ انکار ان لوگوں کا غلط ہے کیوں کہ مسند امام احمد، ترمذی، ابوداؤد و ابن ماجہ وغیرہ کی روایتوں میں ٣ ؎ ٹوک کے لگ جانے کا تفصیل سے ذکر آیا ہے بلکہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی صحیح مسلم کی روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہاں تک فرمایا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی ایسی چیز ہوتی کہ تضاد و قدر پر غالب آسکتی تو ٹوک ایسی تیز چیز ہے کہ یہ تضاد و قدر پر غالب آسکتی تھی۔ ٤ ؎ صحیح مسلم اور موطا وغیرہ کی چند صحیح روایتوں میں ٹوک اور نظر کے اتارنے کی ترکیب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے کہ نظر لگانے والے کے منہ اور ہاتھ پاؤں کا دھو ون نظر لگ جانے والے شخص کے سر پر چھڑکنے سے نظر اتر جاتی ہے پوری تفصیل اس دھو ون کے لینے کی نووی شرح ٥ ؎ مسلم میں ہے غرض جن لوگوں نے ٹوک لگ جانے کا انکار کیا ہے انہوں نے ان صحیح حدیثوں کا گویا انکار کیا ہے اگرچہ مفسروں نے اور بھی قول اپنی تفسیروں میں لکھے ہیں مگر صحیح قول یہی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ٹوک لگ جانے کے اندیشہ سے اپنے لڑکوں کو مصر کے ایک دروازہ سے جانے کو منع کیا تھا کہ سب ایک باپ کی اولاد اور ہم صورت ہیں کہیں ان کو ٹوک نہ لگ جاوے اور دنیا کی یہ تدبیر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بتلا کر پھر اصل بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی تعریف فرمائی اب بھی جو شخص دنیا کے اسباب کو برتے اور تقدیر پر شاکر رہ کر اصل بھروسہ اللہ پر رکھے تو ایسے شخص کا کام شریعت کے موافق شمار کیا جاوے گا ہاں جو شخص دنیا کے اسباب پر اللہ کو بالکل بھول جاوے وہ بلاشک برا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی صحیحین کی حدیث میں بلا حساب و کتاب ستر ہزار ایسے شخصوں کے جنت میں داخل ہونے کا جو ذکر ہے ٦ ؎ کہ وہ لوگ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں بیماری میں علاج تک نہیں کرتے یہ خاص لوگوں کا کام ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٨٥٤ ج ٢ باب العین حق۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص۔ ٣٩ کتاب الطب والبرقی۔ ٣ ؎ جامع ترمذی ص ٢٧ ج ٢ باب ماجانء ان العین حق الخ۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٣٨ ج ٢ باب الطب والرقی۔ ٥ ؎ صحیح مسلم مع شرح نووی ص ٢٢٠ ج ٢ ٦ ؎ صحیح مسلم ص ١١٧ ج ١ باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الخیۃ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی تصریح ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ البتہ حضرات ابن عباس (رض) نے یہ حکم اس لئے دیا کہ انہیں نظر بد نہ لگ جائے حضرت شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں، یہ ٹوک (نظر بد) سے بچائو کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا۔ ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچائو کرنا درست ہے۔ (اھ) صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ المین حق۔ یعنی نظر بد کا لگ جانا ایک حقیقت ہے۔ عہد نبوی میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کو پہنچنا ثابت ہے۔ ایک حدیث میں نظر بد کی شدت تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : لوکان شئی سابق القدر لسبقتۃ۔ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرسکتی تو نظر بدسبقت لے جاتی۔ (شوکانی۔ روح) ۔ 8 ۔ بلکہ اس نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے۔ اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے کیونکہ اسباب کی تاثیر بھی اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف ہے۔ پس تدبیر اصل اللہ تعالیٰ سے اسی کی طرف فرار کو دوسرا نام ہے۔ (کذافی الروح) ۔ 9 ۔ یعنی میری طرح تم بھی اسی پر بھروسا کرو اور اپنی تدبیر پر غرور نہ کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 67 تا 68 لاتدخلوا تم داخل مت ہو باب واحد ایک دروازہ متفرقۃ الگ الگ، جدا جدا ما اغنی میں نہیں بچا سکوں گا الحکم فیصلہ المتوکلون بھروسہ کرنے والے امر اس نے حکم دیا حاجۃ ضرورت، ایک منصوبہ قضی اس نے فیصلہ کیا ، ظاہر کیا علمنا ہم نے سکھایا تشریح آیت نمبر 67 تا 68 گزشتہ آیات میں اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے کہ برادران یوسف نے اپنے والد حضرت یعقوب کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اگر وہ کہیں کسی قدرتی آفت کا شکار نہ ہوگئے تو وہ اپنی پوری قوت و طاقت سے اپنے بھائی بن یا مین کی حفاظت کریں گے۔ حضرت یعقوب نے اللہ پر بھروسہ کر کے اس بات کی اجازت دیدی کہ وہ بن یا مین کو اپنے ساتھ لے کر جائیں لیکن اس بات کی تاکید اور نصیحت بھی کردی کہ سب بھائی ایک ساتھ ایک دروازے سے داخل نہ ہوں بلکہ داخلہ کے وقت مختلف دروازے استعمال کئے جائیں تاکہ ان جوان اور صحت مندوں پر نظر نہ بیٹھے جائے۔ ممکن ہے یہ نصیحت اس بنا پر کی ہوتا کہ وہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ کیونکہ دنیا بھر سے لوگ ایک ہی مقصد کے لئے آ رہے ہوں تو مفادات کے ٹکراؤ کیوجہ سے ان کے خلاف کوئی سازش بھی ہو سکتی ھتی او بادشاہ تک نہ پہنچ پاتے۔ چناچہ سارے بھائیوں نے والد کی نصیحت پر پوری طرح عمل کیا اور الگ الگ دروازوں سے مصر میں داخل ہوگئے۔ حضرت یعقوب نے احتیاط اور ظاہری تدبیر کے طور پر یہ نصیحت کی تھی ورنہ اللہ کے حکم کے آگے کس کی چلتی ہے۔ ہر انسان کو اپنی ظاہری تدبیر کے ساتھ مکمل بھروسہ اور اعتماد اللہ ہی کی ذات پر کرنا چاہئے۔ بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ حضرت یعقوب نے یہ تاکید اس لئے کی تھی کہ یہ سب بھائی انتہائی خوبصورت، جوان اور صحت مند تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر کسی کی نظر بیٹھے جائے۔ دلیل کے طور پر انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ نظر بد ایسی چیز ہے جس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی پناہ مانگی ہے۔ ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی حضرت ابو سہل بن حنیف جو بہت خوبصورت تھے ایک مرتبہ غسل فرما رہے تھے، عامر بن ربیعہ کی نظر جب ان کے جسم پر پڑی تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ میں نے تو اتنا حسین و خوبصورت بدن آج تک نہیں دیکھا۔ ابو سہل جب گھر پہنچے تو ان کو بخار آگیا۔ بخار اتنی شدت اختیار کر گیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع کی گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور دیکھ کر سمجھ گئے کہ ان پر نظر بد بیٹھ گئی ہے۔ آپ نے پوچھا کہ ان کو کسی نے دیکھ کر تعریف تو نہیں کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا گیا کہ عامر بن ربیعہ نے ان کے بدن کی تعریف کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عامر بن ربیعہ کو بلا کر فرمایا کہ وہ اپنے وضو کا پانی کسی برتن میں جمع کر کے اس کو ابوسہل کے بدن پر ڈالیں۔ ایسا ہی کیا گیا اور وہ کچھ دیر بعد صحت مند ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے۔ تم نے ایسا کیوں نہ کہ جب ان کا بدن تمہیں بہت اچھا لگا تو تم اس کے لئے برکت کی دعا کرتے۔ یعنی ” ماشاء اللہ ولاقوۃ الا باللہ “ کہتے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ نظر بد کا الگ جانا حق ہے اور یہ ایک سچائی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ نظر بد ایسی چیز ہے کہ اگر آدمی کو لگ جائے تو اس کو قبر میں اور اونٹ کو لگ جائے تو اس کو ہاڈی میں پنچا دیتی ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ آدمی جب بھی کسی ایسی چیز کو دیکھے جو اس کو پسند آجائے تو کہے ” ماشاء اللہ ولاقوۃ الا باللہ “ اس سے انشاء اللہ نظر بد کا اثر نہیں ہوگا۔ ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ محض ایک تدبیر ظاہری ہے بعض مکروہات مثل نظر بدوغیرہ سے بچنے کی۔ 2۔ یعنی تم بھی اسی پر بھروسہ رکھنا تدبیر پر نظر مت کرنا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٧ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا (ان الحکم الا للہ ) اس پر گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اس بات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے تقدیری اور جبری احکام اس کائنات میں اس طرح رواں اور دواں ہیں کہ ان کے اندر کوئی انغکاک ممکن نہیں ہے۔ کوئی تخلف نہیں ہے۔ ان احکام سے کوئی مغر نہیں ہے۔ اور امنت باللہ میں والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ کا یہی مطلب ہے۔ اللہ کے تکوینی اور تقدیری احکام اس دنیا میں لوگوں پر نافذ ہوتے ہیں اور ان کا اجراء خود لوگوں کی مرضی اور ارادے پر موقوف نہیں ہے۔ ان جبری اور تقدیری احکام الہیہ کے ساتھ ساتھ ایسے الٰہی احکام بھی ہوتے ہیں جو انسانوں کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں۔ اور یہ شرعی احکام ہیں جو قرآن اور سنت میں امرو نہی صادر نہیں کرسکتا۔ ان احکام کا حکم بھی تقدیری اور تکوینی احکام کی طرح ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرعی احکام میں لوگ مختار ہیں ، ان کو نافذ کریں یا نہ کریں ، اور اسی پر دنیا اور آخرت میں ان کی زندگی کے اعمال پر نتائج اور احکام مرتب ہوتے ہیں اور ہوں گے۔ اور سزا اور جزاء کا فیصلہ ہوگا۔ لیکن لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک وہ اللہ کے شرعی احکام کو بھی اپنی پوری زندگیوں میں نافذ نہ کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بیٹوں کو وصیت فرمانا کہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور یہ کہنا کہ میں نے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی دوبارہ مصر کے لئے روانہ ہونے کے لیے تیار ہوگئے اپنے سوتیلے بھائی کو بھی ساتھ لے لیا چلنے لگے تو ان کے والد نے کہا کہ اے بیٹو ! تم سب ایک دروازہ سے داخل مت ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا ‘ مفسرین نے فرمایا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ وصیت اس لئے فرمائی کہ یہ لوگ خوبصورت تھے ان کو نظر لگ جانے کا خطرہ تھا نیز ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے بحیثیت ایک جماعت کے کسی جگہ پہنچیں تو اس میں حسد کا بھی اندیشہ تھا اس لیے انہوں نے متفرق دروازوں سے داخل ہونے کی نصیحت اور وصیت فرمائی نظر کا لگ جانا حق ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے بد نظری سے بچنے کے لیے کوئی جائز تدبیر اختیار کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی وصیت تو فرما دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا (وَمَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ ) (اور میں اللہ کے حکم کو تم سے ذرا بھی ٹال نہیں سکتا) مطلب یہ تھا کہ یہ جو مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی فرمائش کی ہے یہ ایک محض ظاہری تدبیر ہے ‘ ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا وہ اگر کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو اسے کوئی رد نہیں کرسکتا۔ (اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ) (حکم تو بس اللہ ہی کا ہے) (عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ) نظر بد سے محفوظ رہنے کی ظاہری تدبیر تو میں نے بتادی جو سبب ظاہری کے طور پر ہے لیکن میرا بھروسہ اس تدبیر پر نہیں بلکہ میرا بھروسہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ میں تقدیر الٰہی کو نہیں روک سکتا جو کچھ ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ ” اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّہِ “ قضا وقدر اللہ کے اختیار میں ہے۔ میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اور سب کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ میں نے تو محض ایک حیلے کے طور پر یہ کہا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

67 ۔ اس عہد کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) بن یامین کے بھیجنے پر آمادہ ہوگئے اور جب دوبارہ قافلہ تیار ہوا تو باپ نے فرمایا اے میرے بیٹو تم سب کے سب شہر کے ایک دروازے سے مصر میں داخل نہ ہونا بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہونا میں قضائے الٰہی اور خدا کے حکم میں سے کسی چیز کو تم پر سے دفع نہیں کرسکتا اور ٹال نہیں کرسکتا حکم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اس کے سوا اور کسی کا حکم نہیں چلتا اسی پر میں بھروسہ رکھتا ہوں اور سب توکل کرنے والوں کو اسی کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ یعنی نظر بد اور حسد وغیرہ سے بچنے کے لئے یہ تدبیر بتائی کہ اگر سب لڑکے ایک دروازے سے جائیں گے تو لوگوں کی نظریں اٹھیں گی مبادا کسی کی ٹوک لگ جائے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ یہ ایک ظاہری تدبیر ہے۔ قضاء و قدر کا مقابلہ نہیں ہوسکتا ، کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ ٹوک کا بچائو بتایا پھر بھروسہ اللہ ہی پر کیا ، ٹوک لگنی غلً نہیں اور اس کا بچائو کرنا روا ہے۔ 12