Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 80

سورة يوسف

فَلَمَّا اسۡتَیۡئَسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا ؕ قَالَ کَبِیۡرُہُمۡ اَلَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اَبَاکُمۡ قَدۡ اَخَذَ عَلَیۡکُمۡ مَّوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ وَ مِنۡ قَبۡلُ مَا فَرَّطۡتُّمۡ فِیۡ یُوۡسُفَ ۚ فَلَنۡ اَبۡرَحَ الۡاَرۡضَ حَتّٰی یَاۡذَنَ لِیۡۤ اَبِیۡۤ اَوۡ یَحۡکُمَ اللّٰہُ لِیۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۸۰﴾

So when they had despaired of him, they secluded themselves in private consultation. The eldest of them said, "Do you not know that your father has taken upon you an oath by Allah and [that] before you failed in [your duty to] Joseph? So I will never leave [this] land until my father permits me or Allah decides for me, and He is the best of judges.

جب یہ اس سے مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو ۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ تعالٰی میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے ، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Brothers consult Each Other in Confidence; the Advice Their Eldest Brother gave Them Allah tells: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُواْ مِنْهُ خَلَصُواْ نَجِيًّا ... So, when they despaired of him, they consulted in private. Allah narrates to us that Yusuf's brothers were desperate because they could not secure the release of their brother Binyamin, even though they had given a promise and sworn to their father to bring him back. They were unable to fulfill their promise to their father, so, خَلَصُو (in private), away from people's eyes, نَجِيًّا (they consulted), among themselves, ... قَالَ كَبِيرُ ... The eldest among them said, and his name, as we mentioned, was Rubil, or Yahudha. He was the one among them who recommended throwing Yusuf into a well, rather than killing him. So Rubil said to them, ... هُمْ أَلَمْ تَعْلَمُواْ أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللّهِ ... Know you not that your father did take an oath from you in Allah's Name, that you will return Binyamin to him. However, you were not able to fulfill this promise. ... وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ... and before this you did fail in your duty with Yusuf. ... فَلَنْ أَبْرَحَ الاَرْضَ ... Therefore I will not leave this land, I will not leave Egypt, ... حَتَّىَ يَأْذَنَ لِي أَبِي ... until my father permits me, allows me to go back to him while he is pleased with me, ... أَوْ يَحْكُمَ اللّهُ لِي ... or Allah decides my case, by using the sword, or, they says; by allowing me to secure the release of my brother, ... وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ and He is the Best of the judges. He next ordered them to narrate to their father what happened so that they could present their excuse about that happened to Binyamin and as claim their innocence before him.

جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہو گئے ، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے ۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے ۔ الزام ثابت ہو چکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹہوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں ، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کرلیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہو چکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں ۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے ۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا جاہا تھا انہوں نے روکا تھا ۔ اب یہ اپنے اور بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم ابا جی کے پاس جاؤ ۔ انہیں حقیقت حال سے مطلع کرو ۔ ان سے کہو کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ چوری کرلیں گے اور چوری کا مال ان کے پاس موجود ہے ہم سے تو مسئلے کی صورت پوچھی گئی ہم نے بیان کر دی ۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ ہو تو اہل مصر سے دریافت فرما لیجئے جس قافلے کے ساتھ ہم آئے ہیں اس سے پوچھ لیجئے ۔ کہ ہم نے صداقت ، امانت ، حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ اور ہم جو کچھ عرض کر رہے ہیں ، وہ بالکل راستی پر مبنی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے ؟ 80۔ 2 اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] بڑے بھائی کا واپس جانے سے انکار :۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے ایسا احسان کرنے سے صاف جواب دے دیا تو سب بھائی تنہائی میں جاکر موجودہ پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر انہوں نے پہلے یوسف کے معاملہ میں زیادتی نہ کی ہوتی تو اب صورت حال اس قدر سنگین نہ ہوتی۔ ان حالات میں بڑے بھائی نے سابقہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ البتہ تم لوگ جاکر باپ کو اس صورت حال سے مطلع کردو۔ میں یہیں رہوں گا اور پھر کوشش کروں گا کہ بن یمین کو ان لوگوں سے لاسکوں یا پھر مجھے موت آجائے، یا اگر میرا باپ مجھے اپنے پاس آنے کا حکم دے۔ تب ہی میں اپنے باپ کو منہ دکھا سکتا ہوں۔ اب جو بات اللہ کو منظور ہوگی وہی میرے لیے قابل قبول ہوگی اور وہی میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے گا۔ بہرحال میں تمہارے ساتھ گھر جانے کو تیار نہیں اور اس پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا : ” اسْتَيْـــَٔـسُوْا “ یہاں ” یَءِسُوْا “ (ناامید ہوگئے) کے معنی ہی میں ہے۔ باب استفعال مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بالکل ناامید ہوگئے، جیسا کہ ” عَجِبَ “ اور ” اِسْتَعْجَبَ “ ، ” سَخِرَ “ اور ” اِسْتَسْخَرَ “ میں سین اور تاء محض مبالغہ کے لیے ہیں، معنی ایک ہی ہے۔ اس سے پہلے (آیت ٣٢) ” اِسْتَعْصَمَ “ میں بھی یہی نکتہ ہے۔ ” خلصوا نجیا “ یعنی کوئی اور ان میں موجود نہ تھا، اکیلے ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ ” نجیا “ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے، مشورہ، سرگوشی کرنے والے وغیرہ، یہ وزن واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے اسی طرح آتا ہے، اس لیے ” نجیا “ کے ساتھ واحد ہی آیا ہے۔ قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ ۔۔ : ان کے بڑے نے کہا (مراد عمر میں بڑا ہے یا جو علم و فہم میں ان کا بڑا اور امیر تھا) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ والد نے تم سے قسموں کے ساتھ پختہ عہد لیا تھا کہ بھائی کو اپنے ساتھ ضرور واپس لانا اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں جو کوتاہی تم نے کی، اب میں والد کے سامنے کیسے جاؤں گا، اپنے متعلق تو میں نے طے کرلیا ہے کہ میں اس سرزمین سے ہرگز جدا نہیں ہوں گا جب تک میرے والد مجھے واپسی کی اجازت نہ دیں، یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرے کہ بھائی کی رہائی کی کوئی صورت نکل آئے یا میری موت آجائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 80, it was said: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا (So when they lost hope in him, they went aside for consultation). After that, the primary statement of the oldest brother which begins with the words: قَالَ كَبِيرُ‌هُمْ (The oldest of them said) is continued till the end of verse 80. The statement was: |"Do you not know that your father had taken pledge from you in the name of Allah, while you had defaulted earlier in the case of Yusuf (علیہ السلام) . So, I shall never leave this land unless my father permits me (to return) or Allah decides about me. And He is the best of all judges.|" This is the statement of the oldest brother. Some commentators iden¬tify him as being Yahuda (Judah) - and he was, though not the oldest in age, but was certainly the eldest in knowledge and merit. Other commen¬tators say that he is Ruebel (Rueben) who is the oldest in age and he was the one who had suggested that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) should not be killed. Still others have said that this oldest brother was Sham un who was known to be the eldest in power and rank.

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا یعنی جب برادران یوسف بنیامین کی رہائی سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کے لئے کسی علیحٰدہ جگہ میں جمع ہوگئے، قَالَ كَبِيْرُهُمْ الخ ان کے بڑے بھائی نے کہا کہ تمہیں یہ معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے بنیامین کے واپس لانے کا پختہ عہد لیا تھا اور یہ کہ تم اس سے پہلے بھی یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ایک کوتاہی اور غلطی کرچکے ہو اس لئے میں تو اب مصر کی زمین کو اس وقت تک نہ چھوڑونگا جب تک میرے والد خود ہی مجھے یہاں سے واپس آنے کا حکم نہ دیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی مجھے یہاں سے نکلنے کا حکم ہو اور اللہ تعالیٰ ہی بہترین حکم کرنے والے ہیں، یہ بڑے بھائی جن کا کلام بیان ہوا ہے بعض نے فرمایا کہ یہودا ہیں اور یہ اگرچہ عمر میں سب سے بڑے نہیں مگر علم و فضل میں بڑے تھے اور بعض مفسرین نے کہا کہ روبیل ہیں جو عمر میں سب سے بڑے ہیں اور یوسف (علیہ السلام) کے قتل نہ کرنے کا مشورہ انہوں نے دیا تھا اور بعض نے کہا کہ یہ بڑے بھائی شمعون ہیں جو جاہ ورتبہ کے اعتبار سے سب بھائیوں میں بڑے سمجھے جاتے تھے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا ۭ قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِيْ يُوْسُفَ ۚ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓ اَوْ يَحْكُمَ اللّٰهُ لِيْ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ يأس اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] ، ( ی ء س ) یأس ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ نجو والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ( ن ج و ) النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ فرط فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] . ( ف ر ط ) فرط یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔ بَرِحَ وما بَرِحَ : ثبت في البراح، ومنه قوله عزّ وجلّ : لا أَبْرَحُ [ الكهف/ 60] ، وخصّ بالإثبات، کقولهم : لا أزال، لأنّ برح وزال اقتضیا معنی النفي، و «لا» للنفي، والنفیان يحصل من اجتماعهما إثبات، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه/ 91] ( ب ر ح) البرح ابرح ہے یہ لا ازال کی طرح معنی مثبت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کیونکہ برح اور زال میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، لا ، ، بھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور نفی پر نفی آنے سے اثبات حاصل ہوجاتا ہے ایس بناء پر فرمایا : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه/ 91] أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعی ارادہ اور حکم ہے حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) چناچہ ان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے امید ہی نہ رہی تو اس جگہ سے ہٹ کر سب باہم مشورہ کرنے لگے چناچہ جو ان سب میں سب سے زیادہ عقل مند تھا اور جس کا نام یہودا تھا کہنے لگا بھائیو تم جانتے نہیں کہ تمہارے والد نے بنیامین کے واپس لانے کے بارے میں تم سے پختہ عہد لیا تھا اور بنیامین سے قبل یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں تم اپنے باپ کے عہد و میثاق کی کس قدر کوتاہی کرچکے ہو سو میں تو سرزمین مصر سے ٹلتا نہیں یہاں تک کہ میرا باپ مجھ کو حاضری کی اجازت نہ دے یا جب تک میرا باپ ان سے مجھے قتال کی اجازت نہ دے یا اللہ تعالیٰ میرے بھائی کی واپسی کا سبب نہ پیدا کر دے اور اللہ اس مشکل کو خوب آسان کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ ) ان کے سب سے بڑے بھائی کا نام یہودا تھا یہ وہی تھے جنہوں نے مشورہ دے کر حضرت یوسف کی جان بچائی تھی کہ اگر تم اس کی جان کے درپے ہوگئے ہو تو اسے قتل مت کرو بلکہ کسی دور دراز علاقے میں پھینک آؤ۔ (فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓ) تم لوگ جا کر والد صاحب کو سارا واقعہ بتاؤ پھر اگر وہ مطمئن ہو کر مجھے اجازت دے دیں تو تب میں واپس جاؤں گا ورنہ میں ادھر ہی رہوں گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٠۔ ٨٢۔ جب یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائی بنیامین کی رہائی سے ناامید ہوگئے تو صلاح و مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے عزیز مصر تو کسی طرح ہماری التجا قبول نہیں کرتا۔ بڑا بھائی جس کا نام روبیل تھا اس نے یہ کہا کہ تم سب جانتے ہو کہ چلتے وقت تمہارے باپ نے بنیامین کے واپس لانے کے لئے خدا کو درمیان میں دے کر قول قرار لیا تھا اور اس سے پہلے تم سے ایک قصور اور سرزد ہوچکا ہے کہ تم یوسف (علیہ السلام) کو باپ سے جدا کرچکے ہو۔ ایسی حالت میں میری تو غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اب باپ کو منہ دکھاؤں میں تو اب یہاں سے ہلنے کا نہیں جب تک باپ کی اجازت نہیں آئے گی میں یہیں رہوں گا یا لڑ بھڑ کر عزیز مصر سے اپنے بھائی کو واپس لیں گے قتل ہوں گے یا قتل کریں گے اور بغیر بنیامین کے باپ کے پاس نہیں جائیں گے خدا { احکم الحاکمین } ہے اسی کے ہاتھ میں ہمارا فیصلہ ہے جو تقدیر اس نے نافذ کی ہوگی وہ ہوگی تم اگر مصر جاتے ہو تو باپ کے پاس واپس چلے جاؤ اور یہ ساری حقیقت ان سے جا کر بیان کرو کہ ہم نے ہرچند اس بات کا قول قرار کیا تھا کہ بنیامین کی حفاظت کریں گے مگر ہمیں غیب کی خبر نہیں تھی کہ یہاں چوری کی علت میں تمہارا بیٹا پکڑا جاوے گا اور ہم نے موافق اپنے دین کے چور کی سزا بھی بتلا دی اب عزیز مصر بنیامین کو نہیں آنے دیتا اس نے اس جرم میں اسے روک رکھا ہے ہم مجبور ہیں کیا کریں اور آپ کو ہمارے کلام میں کچھ شک و شبہ ہو تو جس گاؤں میں آکر اترے ہیں یہاں کے لوگوں سے دریافت کیجئے اور جس قافلہ کے ساتھ ہم مصر میں داخل ہوئے ہیں ان سے ساری حقیقت معلوم کرلیجئے کہ ہم کہاں تک سچے ہیں { وما کنا للغیب حافظین } کی تفسیر بعض مفسروں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ ہم رات کے وقت سوتے تھے اس وقت اس نے چوری کی ہم کو ذرا بھی اس کی خبر نہیں ہوئی اس کا فعل ہم پر پوشیدہ رہا اس واسطے ہم یہ بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ واقعی اس نے چوری کی یا وہ پیمانہ اس کی خرجی میں کسی نے رکھ دیا تھا مگر وہ پیمانہ اسی کی خرجی میں سے نکلا اس لئے وہ پکڑا گیا قریہ سے مراد وہی ترید ہے جہاں یہ لوگ جا کر مصر میں مقیم ہوئے تھے اور جہاں غلہ کی بھرتی کی جاتی تھی اور اہل قافلہ کنعان کے باشندوں میں سے چند شخص تھے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ہمسایہ میں رہتے تھے وہ بھی مصر غلہ لینے آئے تھے اور بنیامین کا سارا قصہ سن گئے تھے۔ اس لئے ان سے اپنی تصدیق کے لئے روبیل نے کہا غرض جب یوسف (علیہ السلام) کے نو سوتیلے بھائیوں نے کنعان میں واپس آکر اپنے پدر عالی قدر سے اس حال کا ذکر کیا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے یہ بات کہی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ معتبر سند سے بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر مدعی کو دعوے کے ثابت کرنے کے لئے گواہی پیش کرنی چاہیے ١ ؎ صحاح میں اور بہت سی حدیثیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعیوں سے گواہی لے کر مقدمات کے فیصلے کئے ہیں ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں دخل ہے کس لئے کہ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ شرع محمدی میں مدعی سے گواہ لینے کا مسئلہ ملت ابراہیمی کے موافق ہے کیوں کہ ملت ابراہیمی میں اس مسئلہ کے ہونے کے سبب سے روبیل نے اپنے دعوی کے ثابت کرنے کی غرض سے مصر اور کنعانی لوگوں کی گواہی کا ذکر اپنے اس قول میں کیا جس کا تذکرہ ان آیتوں میں ہے۔ ١ ؎ التلخیص الجیر ص ٧۔ ٤ کتاب الشہادات۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 ۔ یعنی اس کی بہتری منت سماجت کی کہ بنیاین کو چھوڑ کو ہم میں سے کسی کو گرفتار کریں مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ 12 ۔ یعنی مشورہ کرنے لگے۔ 13 ۔ یعنی دوسرے بھائیوں کو اس نے رخصت کردیا خود اس توقع پر رہ گیا کہ شاید عزیز مصر کا دل پسج جائے۔ (از موضح) ۔ 14 ۔ کہ بنیامین کو اپنے ساتھ ضرور واپس لانا۔ (وحیدی) ۔ 15 ۔ خواہ میری موت کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو یا بنیامین کی رہائی کی کوئی صورت نکل آئے۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٨٠ تا ٩٣ اسرار و معارف بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بنیامین کو ساتھ لے جاسکیں مگر جب کوئی چارہ کار گرنہ ہوا تو پھر مشورہ کرنے لگے کہ اب یہاں رک بھی نہ سکتے تھے گھر میں کھانے تک کا کوئی سامان نہ تھا اور رکنے کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا لہٰذا اب واپس چلنا چاہیئے۔ مگر سب سے بڑے نے کہا کہ تمہیں وہ قول وقرار یاد نہیں جو والدگرزمی سے کرکے آئے تھے اور وہ بات بھی بھول گئے کہ یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ہم سے کس قدرزیادتی ہوچکی ہے اور اس کی جدائی میں باپ کس حال کو پہنچا ہے لہٰذا میں نے تو نہ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے کم ازکم ہم میں سے کوئی تو ایک یہاں ہی رہ جائے پھر اگر والد ماجداجازت دیں تو واپس چلاجاؤں گا یا اللہ کریم بنیامین ہی کی گلو خلاصی کی کوئی صورت بنادے کہ امور تو اس کے دست قدرت میں ہوتے ہیں اور وہ خودہی فیصلے فرماتا ہے کہ سب کے فیصلے محض دکھاوے کے ہوتے ہیں جب پردے میں دراصل اس کے فیصلوں کا نفاذ ہوتا رہتا ہے اکثر مفسرین کے نزدیک یہ بڑا بھائی یہود اتھا جس نے یوسف (علیہ السلام) کے قتل کی بھی مخالفت کی تھی ۔ ان سب میں سے یہ صائب الرائے تھا۔ چنانچہ بھائیوں کو بھی سمجھایا کہ جاکر عرض کرو کہ اباجان ! ہم نے اپنا عہد نباہنے میں کوتاہی نہیں کی مگر ہم اسی کے مکلف تھے جو بات سامنے اور ظاہر تھی اب ہم سے بھی چھپ کر آپ کے صاحبزادہ نے چوری کی اور سامنے ذ(رح) لیل ہوئے۔ یہاں سے غلہ مل جاتا تھا آئندہ اس کی بھی امید نہیں اور آپ بھی شاید ہماری بات پہ یقین نہ کریں لیکن یہ حق ہے کہ ہم ظاہر کے تو پابند تھے مگر جو افتاد غائبا نہ پڑی وہ نہ تو ہمارے خیال میں تھی اور نہ اس کے مقابل ہم ڈھال بن سکتے تھے۔ معاہدہ کی حیثیت اور شہادت یہاں فقہاء نے فرمایا ہے کہ معاہدہ ظاہری حالات پر ہی محمول ہوتا ہے اگر کوئی ایسی بات جو غیر اختیاری ہو یا انسان اس سے بیخبر ہو درمیان آجائے تو ایسے امور پر لاگو نہیں ہوتا ۔ نیز شہادت کے لئے علم ہونا کافی ہے صرف یہ کہ شاہد ذریعہ علم بیان کردے یعنی اگر اس نے خود واقعہ نہیں دیکھا تو جس سے سنا ہے اس کے بارے بیان کردے تو ایسی شہادت درست ہے ۔ تو یہ بھی عرض کرنا کہ آپ تحقیق کرنا چاہیں تو ہم جس قافلے کے ساتھ سفر کر رہے تھے ان لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں اور یا پھر مصرتشریف لاکر حقیقت حال کو خود جان سکتے ہیں ہم تو پوری دیا نتدار ی سے عرض کر رہے ہیں کہ یہ سب حقیقت ہے ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے واقعہ سن کر وہی الفاظ دہرائے کہ تمہارے نفسوں نے یہ بات گھڑی ہے بھلا بنیامین اور چوری کرے گا کیا میں یہ بات نہیں سمجھ سکتا لیکن صبر ہی بہترین راستہ ہے جو میں نے پہلے سے اختیار کررکھا ہے اور یہ بھی یادرکھو ! ہر کام کی حدتی ہے لہٰذا میرے دکھ بھی انتہا کو چھو رہے ہیں ۔ اب انشاء اللہ یہ بھی اپنے اختتام کو پہنچیں گے اور نہ صرف بنیامین بلکہ یوسف (علیہ السلام) سمیت میرے تمام بچے مجھ سے آن ملیں گے کہ پہلے یوسف (علیہ السلام) کے خواب سے والدین اور بھائیوں کی ملاقات اور سب کا یکجا ہونا تو معلوم تھا مگر اس کے باوجود فرمایا کہ اصل علم تو اللہ ہی کے پاس ہے وہی خوب جانتا ہے اور وہ بہت بڑاحکیم ہے یہ سب اس کی اپنی حکمت کا تقاضا ہے۔ کمالات پر اللہ کا مزید شکر کرنا چاہیئے لہٰذا یہاں یہ بات ظاہر ہے کہ انسان کو جس قدر بھی کمالات نصیب ہوں انھیں اللہ کی عطاسمجھ کر اس کا مزید شکر کرے اور شکر کرنے کا بہترین انداز یہ بھی ہے کہ ان کمالات ہی کی نسبت اللہ کی طرف کرے اور اپنے کو عاجز بندہ ہی شمارکرے۔ چناچہ ان کی طرف سے رخ پھیرا اور ایک آہ سرد کھینچ کر فرمایا وائے یوسف تجھے کہاں پاؤں اور ایک طویل عرصہ روتے روتے آپ کی آنکھیں سفید ہوچکی تھیں اور بنیائی رہی تھی۔ صرف غم یوسف (علیہ السلام) نے یہ حال کردیا تھا اور اب بنیامین بھی گیا تو آپ نے کلام تک کرنا چھوڑ دیا اور سارادکھ اندرہی اندرانھیں کھائے جارہا تھا۔ محبت اور انبیاء کرام (علیہم السلام) یہاں بعض حضرات نے سوال لکھا ہے کہ نبی اور اللہ کے سوا کسی بھی دوسرے سے اس قدر محبت کہ رورو کر اندھا ہوجائے حالا ن کہ انبیاء (علیہم السلام) تو صرف اللہ سے محبت کرتے ہیں اور یہ بات حق ہے کہ انبیاء اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں ۔ مفسرین نے مختلف جوابات بھی نقل فرمائے ہیں مگر آسان سی بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان اور بہترین انسان ہوتے ہیں اور انسانی صفات ان میں کامل طور پر جلوہ گرہوتی ہیں اور محبت ایک بہترین صفت ہے ۔ یوں توہرذی روح میں اس کا اثر نظر آتا ہے مگر انسان کے دل میں یہ جذبہ اپنی کامل صورت میں جلوہ گرہوتا ہے باوجود ایں ہمہ انسان کی محبت دنیا سے الگ ہے اور انسان کی محبت انسان سے الگ پھر دیکھا یہ جاتا ہے کہ کیا کوئی انسان دنیا کے لئے انسانی رشتوں اور محبتوں کو ٹھکراتا ہے یا انسان کی محبت کو بچاکر دنیا باوجود محبوب ہونے کے قربان کرتا ہے ۔ اب اگر اسے دنیا سے محبت ہی نہ ہو تو یہ کمال نہیں کہلائے گا ۔ ایسے ہی اللہ کی محبت بالکل الگ شے ہے اور انسان کی محبت الگ انسان انسان کی جنس ہے کبھی اس سے خون کا اور نسب کا رشتہ ہوتا ہے اور کبھی دوستی کا ۔ مگر اللہ سے انسان کو کیا نسبت ایک بےمثل وبے مثال کے سامنے ایک ادنی سی مخلوق کی کیا حیثیت ؟ مگر اللہ نے انسان کو وہ شعور بخشا ہے کہ وہ اس کے جمال پرفریفۃ ہوجاتا ہے اب مرحلہ آتا ہے کہ وہ کسی انسان سے کس قدر محبت کرتا ہے اور اسے کہاں تک قربان کرسکتا ہے اب دیکھو کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا عشق یوسف مجبوریوں کی کن حدوں کو چھورہا ہے اور اسے اللہ کی رضاپہ قربان کس انداز سے کرتے ہیں کہ فرماتے ہیں یوسف ! تیری یاد نے جگر کباب کردیا مگر کس سے کہوں اللہ سے حیا آتی ہے اب سوائے اس کے میراکون ہے ۔ وہ سب کچھ کر بھی سکتا ہے میرے حال دل سے خوب واقف بھی ہے پھر یہ نصف صدی کی جدائی ۔ لیکن یہ بھی اس کی حکمت کا تقاضا ہے ۔ کچھ بھی ہو اسے خفاتو نہیں کرسکتا اور یہی اس سارے قصے کا حسن بھی ہے اور یہی انسان کا حسن اسلام بھی کہ ارشاد ہے والذین امنوا اشدحب اللہ ۔ کہ مومن اللہ کو سب سے بڑھ کر چاہتا ہے ۔ گودوسرے بھی محبوب ہوں مگر اس راہ میں قربان کئے جاسکتے ہیں ۔ ان کا حال دیکھ کر لڑکے کہنے لگے کہ زمانہ دوں کو بھلا کر زخم مندمل کردیتا ہے مگر آپ کا معاملہ الگ ہے آپ نے یوسف کی یادنہ چھوڑی اور اب تو دکھ آپ کو گھلاکرماررہا ہے اگر یہی حال رہا تو آپ سلامت نہ رہیں گے مگر یوسف کی یاددل سے نہ جائے گی ۔ تو فرمایا کہ تم کیا جانو میں تو اپنا حال دل کہتا ہوں تو بھی اللہ کے حضور اور اظہار غم کرتا ہوں تو بھی اسی ذات کے روبرو ۔ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس نے مجھے علوم کے خزانے بخشے ہیں ۔ اگر تم نہیں جان سکتے مگر مجھے تو علم ہے کہ یوسف لاکھ بچھڑے ضرورملے گا اور تم لاکھ باتیں بناؤ ، اللہ اسے عظمت شان حکومت وسلطنت اور نبوت عطافرمائے گا ۔ اب اس سب کے باوجود وہ میری نگاہوں سے کیوں اوجھل ہے ؟ یہ میرے رب کی مرضی ! تم ان اسرار کو نہ پاسکو گے ۔ ہاں ! ایک کام کرو جاؤیوسف اور بنیامین کو تلاش کرو ۔ بھلا کوئی اللہ کی رحمت سے بھی کبھی مایوس ہوتا ہے ہرگز نہیں ! تم جاکر تو دیکھو جس سلطان کے حسن اخلاق اور حسن سلوک کے اتنے چرچے ہیں کہیں یوسف گم گشتہ ہی نہ ہو اللہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا توشیوئہ کفار ہے ۔ مجھے میرے رب کے سپرد کرو اور اپنے حال پہ رہنے دو مگر تم ضرورمصرکا رخ کرو۔ مگر حال یہ تھا کہ اب تو کوئی چیز غلہ خرید نے کے لئے بھی پاس نہ تھی اور غلہ بھی ضروری تھا کہ خاندان کہاں سے کھاتا چناچہ گھر کے برتن اور استعمال کی اشیاء اونٹوں پر بار کیں اور روانہ ہوئے ۔ مزحبۃ ایسی چیز جو بازار میں بطور سکہ چلنے والی نہ ہو مگر چلائی جائے جیسے برتن وغیرہ ۔ چناچہ مصر میں پہنچے تو دربار میں حاضر ہوئے کہ بنیامین تو وہیں تھا پھر غلہ بھی خرید نا مقصود تھا تو دست بستہ عرض گزار ہوئے کہ سلطان ! ہم اور ہمارا خاندان بہت سخت مصیبت میں مبتلا ہے اور ہمارے پاس غلہ خرید نے کے لئے سرمایہ بھی نہیں یہ بےکارسا کاٹھ کباڑ اٹھالائے ہیں جو گھر میں روز مرہ کے استعمال کا تھا لیکن تیرے کرم کے امید وار ہیں ہمیں غلہ عطافرما اور ہم پر عنایات فرما کہ اس کا ٹھ کباڑ کے بدلے غلہ عطاکر اور مہربانی فرما ، ہمارے بھائی کو آزاد فرمادے کہ ہمارے والد کی توروتے توروتے بنیائی جاتی رہی اور یہ اس کے لئے کسی حدتک ایک آسرا تھا یہ بھی یہاں رہ گیا تو اب تو اس کی حالت نہ ہم بیان کرسکتے ہیں اور نہ تو سن کر تاب لاسکے گا وہ نبی اور نبی کا بیٹا اللہ کے نبی کا پوتا بہت ہی زیادہ دکھی ہے تو ہم پر کرم فرما کہ اللہ تجھ پر کرم فرمائے وہ بھلائی کرنے والوں کو بہت زیادہ اجرعطافرماتا ہے ۔ اب وقت آچکا تھا کہ اس راز سے پردہ اٹھتا اور ہجریوسف وصال یوسف میں تبدیل ہو کر یعقوب (علیہ السلام) کو شاد کام کرتا چناچہ آپ نے یہ سب ماجر اسن کر فرمایا آج تمہیں باپ کا دردیاد آیا مجھ سے بیان کرتے ہو مگر بھول گئے کہ باپ کو یہ درددیا کس نے تھا اور تم نے اس کے محبوب یوسف کا کیا حال کیا تھا ؟ آج امید کرم لئے کھڑے ہو۔ چند سکوں کے عوض بیچ کھانے والو ! تمہاری جہالت اور نادانی نے والدبزرگوار یوسف اور اس کے بھائی کو کتنے دکھ دیئے کچھ اندازہ ہے ؟ انھوں نے جب یہ سب سنا توحیران ہوگئے بھلاسلطان مصر کو ان باتوں سے کیا کام ۔ آنکھ اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگے تم یوسف ہو ؟ غالبا خواب کا قصہ بھی یاد آیا ہوگا ، اور چہرہ مبارک کے آثار نے بھی رہنمائی کی ہوگی ۔ نیز یہ راز بھی ان کے علاوہ یوسف (علیہ السلام) ہی کے پاس تھا یا اللہ جانتا تھا تو فورا پکاراٹھے کیا تم ہی یوسف ہو ؟ انھوں نے فرمایا بیشک میں یوسف ہوں اور یہ بینامین میراحقیقی بھائی ہے دیکھو اللہ نے ہم پر کس قدر احسان فرمایا ہے کہ ہر تخریب نہیں ہوتی کبھی کسی اعلیٰ تعمیر کا پیش خیمہ بھی ہوتی ہے ۔ ہم پر جو مصیبت آئی وہ صورۃ مصیبت بھی اپنے اثر اور نتیجے کے اعتبار سے نری رحمت اور اللہ کا احسان تھا جو تمہارے روبرو ہے اور یادرکھو جسے تقوی اور صبر نصیب ہوجائے اللہ اس کو بہت انعام واکرام سے نوازا کرتا ہے اور اسے بہترین بدلہ عطافرماتا ہے۔ اب تو سوائے اقبال جرم کے کوئی راستہ نہ تھا چناچہ کہنے لگے اللہ قسم ! تم پر اللہ نے بےحدکرم فرمایا اور ہم پر بہت ہی بلند مرتبہ بخشا ہم تو آپ کی خاک کو بھی نہ پہنچ سکے بلکہ الٹے گناہگار ٹھہرے ۔ ہم آپ کے مجرم آپ کے روبروحاضر ہیں اور ہماری آنکھوں میں ندامت کے آنسوہی ہمارا سرمایہ ہیں ۔ فرمایا جاؤ ! تمہیں کچھ نہیں کہاجائے گا۔ آج تم سے کوئی بازپرس نہ ہوگی کہ کرم کا یہ پہلو بھی دیکھو ۔ میں نہ صرف خود معاف کرتا ہوں بلکہ اللہ کریم سے تمہاری معافی کے لئے درخواست گزارہوں جو بہت بڑارحم کرنے والا ہے۔ تبرکات کی برکت میرایہ کرتہ لے کرجاؤ ، والد گرامی کو خوشخبری بھی د و اور یہ انکی آنکھوں پہ ڈال دو کہ وہ روشن ہوجائیں اور یہ ان کے تبرک برکت تھی جو ان کا معجزہ تھا اور واقعی جب یعقوب (علیہ السلام) نے چہرے پہ ملاتو بنیا ہوگئے ۔ لہٰذا تبرکات کا تجزیہ میڈیکل سائنس سے ممکن نہیں کہ ان کی برکات انسانی عقل کی رسائی سے بہت بلند ہوتی ہیں ۔ نیز سارے خاندان کو یہاں مصر منتقل کرلو جہاں رب جلیل نے ہمیں حکومت وسلطنت بخشی ہے اب تمہیں ان ویرانوں میں رہنے کی ضرورت نہیں یہ ملک تم سب کا خادم ثابت ہوگا اور جدائی کے بعد وصل کا عہد آیا ہے اور مل کر رہنے کی گھڑی ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 80 تا 82 استیئسوا وہ مایوس ہوگئے خلصوا وہ الگ جا بیٹھے نجی خفیہ بات کرنے والا کبیر بڑا الم تعلموا کیا تمہیں معلوم نہیں موثق پختہ، پکا فرطتم تم نے زیادتی کی ہے لنابرح میں ہرگز نہ چھوڑوں گا، نہیں ٹلوں گا حتی یاذن جب تک اجازت دیتا ہے یحکم وہ فیصلہ کرتا ہے ارجعوا لوٹ جاؤ ابنک تیرا بیٹا اسئل پوچھ لے العیر قافلہ اقبلنا ہم سامنے آئے تشریح آیت نمبر 80 تا 82 جب برادران یوسف اپنی تدبیر اور کوشش میں ناکام ہوگئے اور انہوں نے اچھی طرح اندازہ کرلیا کہ بادشاہ بن یا مین کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا اور اس نے بن یا مین کو اپنا باقاعدہ غلام بنا لیا ہے تب برادران یوسف اس تصور سے بےچین ہوگئے کہ ہم نے اپنے والد سے قسمیں کھائی تھیں پکے وعدے کئے تھے کہ جس طرح یوسف کے ساتھ ہوا تھا اب وہ معاملہ نہیں ہوگا۔ اور ہم اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی اپنے بھائی بن یا مین کی حفاظت کریں گے۔ اب ہم اپنے والد کو کیا جواب دیں گے اور کیا منہ لے کر اپنے ملک واپس جائیں گے۔ کوئی نتیجہ نکالنے کے لئے سب سوتیلے بھائی آپس میں مشورہ کرنے کے لئے ایک طرف ہٹ گئے اور مشورہ شروع کردیا۔ کسی نے کہا کہ ہمیں اپنے وطن لوٹ جانا چاہئے جو ہوگا۔ دیکھا جائے گا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ وطن لوٹ کر والد صاحب کو ساری بات کھول کھول کر بتا دیا جائے اور ان کو بتا دیا جائے کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی مگر ہمارا بس نہ چل سکا۔ غرضیکہ ہر ایک نے اپنا اپنا مشورہ پیش کردیا۔ یہ سب بھائی اس بات سے سخت شرمندہ تھے کہ یوسف کے بعد بن یا مین کا واقعہ پیش آگیا ۔ اب ہمارا منہ نہیں ہے کہ ہم اپنے والد سے آنکھیں بھی ملا سکیں۔ سب سے بڑے بائی نے مشورہ دیا کہ تم سب واپس لوٹ جاؤ اور والد کو سچ سچ بتا دو کہ تمہارے بیٹے نے چوری کی ہے اور بادشاہ نے اس کو اپنے پاس غلام بنا کر روک لیا ہے اور یہ بھی کہہ دینا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں جھوٹ کا کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ بہت سے وہ لوگ جو ہمارے ساتھ تھے وہ اس بات کے گواہ ہیں ان سے پوچھ لیا جائے کہ ہم بالکل سچ سچ کہہ رہے ہیں۔ مشورہ کرنے کے بعد وہ اپنے ملک لوٹ گئے اور ساری صورتحال اپنے والد کو بتا دیا۔ حضرت یعقوب نے جب یہ سنا تو اپنا دل پکڑ کر رہ گئے اور آپ نے فرمایا کہ میں صبر جمیل ہی کرسکتا ہوں اور اللہ پر چھوڑتا ہوں جو کچھ انہوں نے مجھ سے بیان کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف جب بنیامین کو رہا کروانے میں نا کام ہوئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ نامعلوم برادران یوسف نے بنیامین کو رہا کروانے کے لیے کس قدر منت سماجت اور ترلے کیے ہوں گے۔ مگر بادشاہ نے ان کی کوئی بات تسلیم نہ کی۔ جب بادشاہ سے پوری طرح مایوس ہوگئے تو انہوں نے علیحدہ ہو کر آپس میں مشورہ کیا کر اب کیا کرنا چاہیے۔ بالآخر ان کا بڑا بھائی جس کا نام مؤرخین یہودہ بتلاتے ہیں کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم سب سے والد صاحب نے قسمیں اٹھوا کر وعدہ لیا ہے کہ تم ہر صورت بنیامین کو اپنے ساتھ واپس لاؤ گے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم اس سے پہلے یوسف کے ساتھ زیادتی کرچکے ہو۔ مجھے اس طرح واپس جاتے ہوئے حیا آتی ہے میں اپنے دکھی اور بوڑھے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لہٰذا تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ۔ لیکن میں یہاں سے کبھی نہیں جاؤں گا۔ یہاں تک کہ والد گرامی مجھے پیغام بھیجیں یا اللہ تعالیٰ میرے لیے کوئی فیصلہ کر دے۔ وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ فیصلہ سے مراد بنیامین کی رہائی یا پھر مصر میں رہنا ہے۔ لہٰذا تم اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ اور جاکر عرض کرنا ابا جان ! آپ کے بیٹے نے چوری کا ارتکاب کیا اور ہم نے وہی گواہی دی جو کچھ ہمارے سامنے پیش آیا اور ہم غیب میں بنیامین کی حفاظت کرنے والے نہ تھے۔ بعض اہل لغت نے غیب سے مراد رات لی ہے کہ دن کے وقت تو ہم اکھٹے تھے لیکن جب بنیامین رات کے وقت ہم سے علیحدہ ہوا تو ہم نہیں جانتے کہ رات کے وقت اس نے چوری کرلی ہو اگر آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آرہا تو بستی کے اس قافلے والوں سے پوچھئے جن کے ساتھ ہم واپس آئے ہیں۔ یقین فرمائیں کہ ہم بالکل سچے ہیں۔ مسائل ١۔ ہر صورت وعدہ کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے : ١۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٨٠) ٢۔ سن لو ! اللہ کا ہی حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٣۔ بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود : ٤٥) ٤۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو کہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١١٠ تشریح آیات ٨٠ ۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ ١٠١ برادران یوسف اب برادر خورد کے چھڑانے سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے دربار سے ذرا ہٹ کر وہ ایک مجلس مشاورت منعقد کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب منظر ہے ۔ سیاق کلام میں سب کے اقوال و تجاویز کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ البتہ اس مشاورت کا آخری قول اور فیصلہ کن تجویز یہاں دے دی گئی۔ آیت نمبر ٨٠ تا ٨٢ برادران یوسف (علیہ السلام) میں سے بڑے بھائی سب سے پہلے ان کو یاد دلاتے ہیں کہ والد نے تم سے پختہ عہد لیا ہے اور یہ کہ اس سے پہلے تم یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بھی زیادتی کرچکے ہو ، اور وہ اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔ پھر ہو فیصلہ کن تجویز دیتے ہیں کہ وہ مصر کو اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک ان کے والد اجازت نہیں دیتے یا اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہیں فرماتے ، اللہ کے فیصلے کے وہ بہرحال پابند ہیں۔ وہ کیا کریں ؟ تو ان سے انہوں نے کہا کہ تم جاؤ اور باپ سے صاف صاف کہو کہ آپ کے بیٹے نے چوری کا ارتکاب کیا ہے۔ پکڑا گیا ، یہ ہے ان کا علم اور مشاہدہ۔ اگر وہ بری الذمہ اور بےگناہ ہے اور اصل حقیقت کچھ اور ہے تو اس سے وہ بیخبر ہیں۔ ان کو بالکل یہ توقع نہ تھی کہ ان کو ایسا حادثہ پیش آئے گا۔ یہ تو ہے اس معاملے کا ظاہری پہلو ، اگر اصل بات کوئی اور ہو تو وہ امر غیبی ہوگی اور ہم اس کو نہیں جانتے۔ نہ جاننے کے مکلف ہیں اور یہ بات ان کی نسبت غیب ہی تھی اور کوئی شخص غیبی واقعات کا دفاع نہیں کرسکتا۔ اور یہ کہ اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں آتا تو آپ ، شہر کے دوسرے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں اور پھر مصر سے ہم جس قافلے کے ساتھ آئے ہیں ، اس سے بھی پوچھ سکتے ہیں کیونکہ وہ اکیلے تو نہ تھے ، آج کل مصر کو قافلے پر قافلہ جارہا ہے اور وہاں سے لوگ غلہ لے کر آتے ہیں۔ مصر کے گرد تمام علاقے قحط کی لپیٹ میں ہیں ، سخت خشک سالی ہے۔ ٭٭٭ اب وہ کس حال میں واپس آئے ، سفر کس طرح بےہوا ، یہاں ان تفصیلات کو حذف کردیا گیا ہے۔ یہ لوگ اب غم زدہ باپ کے سامنے کھڑے ہیں۔ انہوں نے ماجرا سنا دیا۔ غم زدہ باپ کا صرف ایک مختصر جواب سیاق کلام میں نقل کردیا جاتا ہے۔ نہایت ہی اندوہناک الفاظ میں ۔ لیکن ان کے کلام میں اب بھی امید کی ایک کرن باقی ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ خدا دونوں بچے ان کو واپس کر دے گا۔ بلکہ تینوں کو واپس کر دے گا۔ کیونکہ تیسرا بھی مصر میں دھرنا مار کر بیٹھ گیا ہے۔ اس بوڑھے باپ کے شکستہ دل میں اب بھی ایک عجیب امید ہے۔ یہ ہے پیغمبرانہ بصیرت !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برادران یوسف کا ایک جگہ جمع ہو کر مشورہ کرنا اور بڑے بھائی کا یوں کہنا کہ میں تو یہاں سے نہیں جاتا تم لوگ جاؤ اور والد کو چوری والی بات بتادو جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف سے ناامید ہوگئے کہ وہ کسی طرح سے بنیامین کو واپس کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہ جو پیشکش کی تھی کہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں اس کو بھی انہوں نے نہیں مانا بلکہ اسے ظلم قرار دے دیا تو وہاں سے ہٹ کر اب مشورہ کرنے لگے کہ کیا کریں ‘ ان میں جو بڑا بھائی تھا جس کا نام کسی نے یہود اور کسی نے شمعون اور کسی نے روبیل بتایا ہے اس نے باقی بھائیوں سے خطاب کر کے کہا کہ آپ لوگوں کہ معلوم ہے کہ جب اپنے والد سے رخصت ہو رہے تھے تو مضبوط قسم لی تھی اور فرمایا تھا کہ اسے تم ضرور ساتھ لے کر آؤ گے (لَتَاْتُنَّنِیْ بِہٖ ) اب یہاں یہ صورت حال پیش آگئی کہ بنیامین کو عزیز مصر نے روک لیا اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں قصور کرچکے ہو ‘ اب والد صاحب کے پاس کس منہ سے جائیں پہلے ہی ان کو یوسف کی جدائی سے بہت زیادہ رنج تھا اور اب یک نہ شددو شد بنیامین کی جدائی کا مسئلہ سامنے آگیا لہٰذا میں تو اب یہاں سے ٹلنے کا نہیں اگر والد صاحب کو پوری صورت حال معلوم ہوجائے اور وہ مجھے آنے کی اجازت دے دیں یا اللہ پاک کی طرف سے کوئی ایسا فیصلہ ہوجائے جس سے ہماری مشکل حل ہوجائے (مثلاً ہمارا بھائی واپس مل جائے) تب ہی میں یہاں سے جاسکتا ہوں اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ بڑے بھائی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بھائیوں سے یوں بھی کہا کہ تم لوگ اپنے والد کے پاس چلے جاؤ اور ان کی خدمت میں عرض کر دو کہ آپ کے بیٹے نے چوری کرلی اور چوری کی وجہ سے انہیں وہیں روک لیا گیا اور ہماری یہ گواہی ہمارے علم کے مطابق ہے (ہم نے خود دیکھا کہ اس کے سامان سے پیمانہ برآمد ہوا) (وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ ) ہم جو قسم کھا کر اس کی حفاظت کا وعدہ کر کے گئے تھے وہ ہماری قدرت اور اختیار تک محدود تھا ہمیں کیا معلوم تھا کہ چوری کا واقعہ پیش آجائے گا اور ایسی صورتحال بن جائے گی کہ ہم آپ کے بیٹے کو واپس لانے سے عاجز ہوجائیں گے گویا کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کو یہ تلقین کی کہ ہم جو بنیامین کو اپنے ہمراہ نہ لاسکے یہ اسی استثناء والی صورت میں داخل ہے جو والد صاحب سے (اِلَّا اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ ) کہہ کر خود ہی بیان کردی تھی۔ مفسرین نے ان کے کلام کا یہ مطلب بتایا کہ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ بنیامین کے سامان سے پیمانہ نکلا اس نے اسے خود رکھ لیا تھا یا مقامی لوگوں میں سے کسی نے رکھ دیا تھا اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بڑے بھائی نے مزید کہا کہ اپنی بات والد صاحب کو باور کرانے کے لیے یہ بھی کہنا کہ ہمارے بیان پر آپ اعتماد نہ کریں تو مصر کی جس بستی میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کے لوگوں سے دریافت کرلیجئے اور اس سے بھی آسان تر بات یہ ہے کہ یہاں سے غلہ لینے کے لیے صرف ہم ہی لوگ نہیں گئے تھے ہماری بستی کے رہنے والوں میں سے اور لوگ بھی گئے تھے ہم جس قافلہ کے ساتھ مصر سے واپس آئے ہیں ان سے دریافت کرلیجئے وہ تو یہیں اسی بستی میں موجود ہیں (وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ) آپ مانیں یا نہ مانیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سچے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ یہ بارہواں حال ہے۔ جب وہ بنیامین کی واپسی سے ناامید ہوگئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کیا۔” قَالَ کَبِیْرُھُمْ الخ “ بڑے بھائی یہودا نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم اپنے باپ کو اللہ کا عہد دے کر آئے ہو اور اس سے پہلے تم یوسف کے بارے میں بھی غلطی کرچکے ہو اس لیے میں تو یہاں سے نہیں ہلوں گا یہاں تک کہ باپ مجھے اجازت دے یا اللہ تعالیٰ مجھے بذریعہ الہام واپس جانے کا حکم فرما دے یا اللہ تعالیٰ میرے واپس جانے کی کوئی اور باعزت راہ نکال دے۔ یعنی عزیز مصر بنیامین مجھے واپس دے دے اور میں اسے لے کر واپس چلا جاؤ۔ ” اِرْجِعُوْا اِلیٰ اَبِیْکُمْ الخ “ تم سب واپس جاؤ اور والد گرامی کی خدمت میں عرض کرنا کہ بنیامین چوری کے جرم میں پکڑ لیا گیا۔ جو کچھ ہم نے آنکھوں سے دیکھا ہے وہی بیان کر رہے ہیں۔ اصل حقیقت کا ہمیں کوئی علم نہیں اور نہ ہم غیب ہی جانتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80 ۔ پھر جب یہ لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا صاف جواب سن کر ان سے مایوس ہوگئے تو علیحدہ بیٹھ کر آپس میں مشورہ اور سر گوشی کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا بھائی تھا وہ کہنے لگا کیا تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے خدا کی قسم کہلوا کر پختہ عہد کرلیا ہے اور اس سے پیشتر بھی تم یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں سخت کوتاہی اور تقصیر کرچکے ہو لہٰذا میں تو اس ملک سے ہرگز نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ میرا باپ مجھ کو حاضر ہونے کی اجازت دے یا میرے لئے اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ کر دے اور قضیہ چکا دے اور اس مشکل کو سلجھادے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ یعنی جو عمر میں یا عقل و دانش میں بڑا تھا اس نے کہا اب باپ کے سامنے کس منہ سے جائیں اول تو یوسف (علیہ السلام) ہی کے معاملہ میں ہمارا دامن داغدار ہے پھر بن یامین کو باپ نے پختہ قول وقرار اور قسمیں دینے کے بعد ہمارے ساتھ بھیجا تھا اس کا یہ ہوا لہٰذا میں تو یہاں سے سرکوں گا نہیں جب تک میرے والد صاحب مجھ کو آنی کی اجازت نہ دیں گے یا اس درمیان میں اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ ہوجائے میں مر جائوں یا بن یامین کو چھڑا لوں اس سے پہلے میری حمیت جانا گوارا نہیں کرتی یہ بھائی وہی یہودا ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اور بھائیوں کو رخصت کیا بڑا بھائی رہ گیا اس توقع پر کہ شاید مہربان ہو کر خلاص کردیں ۔ 12 ۔