Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 85

سورة يوسف

قَالُوۡا تَاللّٰہِ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ ﴿۸۵﴾

They said, "By Allah , you will not cease remembering Joseph until you become fatally ill or become of those who perish."

بیٹوں نے کہا واللہ! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد ہی میں لگے رہیں گے یہاں تک کہ گھل جائیں یا ختم ہی ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ تَالله تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ ... They said: "By Allah! You will never cease remembering Yusuf, `you will keep remembering Yusuf, ... حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا ... until you become weak with old age, until your strength leaves you,' ... أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ or until you be of the dead. They said, `if you continue like this, we fear for you that you might die of grief,'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 حَرَض اس جسمانی عارضے یا ضعف عقل کو کہتے ہیں جو بڑھاپے، عشق یا پے درپے صدمات کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتا ہے، یوسف (علیہ السلام) کے ذکر سے بھائیوں کی آتش حسد پھر بھڑک اٹھی اور اپنے باپ کو یہ کہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا ۔۔ : تاء قسم کے لیے ہوتی ہے، لفظ ” اللہ “ پر آتی ہے اور عموماً ایسے موقع پر قسم کے لیے آتی ہے جس میں کوئی تعجب ہو۔ ” فَتِئَ یَفْتَؤُ “ ہٹ جانا، بھول جانا۔ اس سے پہلے عموماً ” مَا “ آتا ہے اور معنی ہمیشہ رہنا، نہ بھولنا ہوتا ہے، یہاں بھی اصل ” مَا تَفْتَؤُ “ تھا ” مَا “ کو معلوم ہونے کی وجہ سے حذف کردیا ہے، یعنی تو ہمیشہ یوسف کو یاد کرتا رہے گا، اسے نہیں بھولے گا، اسے یاد کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ بیٹوں اور پوتوں کو، باپ کی حالت زار دیکھ کر رحم آتا تھا، جب ان کا غم اس حد تک پہنچ گیا تو انھوں نے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ! آپ یوسف کو اسی طرح ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے حتیٰ کہ گھل گھل کر مرنے کے قریب ہوجائیں گے، یا ہلاک ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ گویا وہ انھیں صبر کی تلقین اور اس قدر غم پر ملامت کر رہے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When the sons of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) saw the extreme suffering and patience of their father, they said: قَالُوا تَاللَّـهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ‌ يُوسُفَ (By God, you will not stop remembering Yusuf ...), meaning thereby that every shock ends, after all, and so does every sorrow. The passage of days in life makes one forget them. But, he continues to be where he was, even after the passage of such a long time with his sorrow being as fresh as when it came.

قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤ ُ ا تَذْكُرُ يُوْسُفَ یعنی صاحبزادے والد کے اس شدید غم واندوہ اور اس پر صبر جمیل کو دیکھ کر کہنے لگے کہ بخدا آپ تو یوسف (علیہ السلام) کو ہمیشہ یاد ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ بیمار پڑجائیں اور ہلاک ہونے والوں میں داخل ہوجائیں (آخر ہر صدمہ اور غم کی کوئی انتہا ہوتی ہے مرور ایام سے انسان اس کو بھول جاتا ہے مگر آپ اتنا طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی اسی روز اول میں ہیں اور آپ کا غم اسی طرح تازہ ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْهٰلِكِيْنَ 85؀ فتیء يقال : ما فَتِئْتُ أفعل کذا، وما فَتَأْتُ کقولک : ما زلت . قال تعالی: تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوسُفَ [يوسف/ 85] . ( ف ت ء ) مافتات ومافتئت افعل کذا ( بمعنی مازلت ) میں اس کا م کو برابر کرتارہا ۔ قرآن میں ہے ؛تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوسُفَ [يوسف/ 85] آپ یوسف کو اسی طرح یا د کرتے ہی رھوگے حرض الحَرَض : ما لا يعتدّ به ولا خير فيه، ولذلک يقال لما أشرف علی الهلاك : حَرِضَ ، قال عزّ وجلّ : حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف/ 85] ، ( ح ر ض ) الحرض اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہوجائے اس لئے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہوجائے اس کے متعلق حرض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف/ 85] یا تو قریب بہ ہلاکت ہوجاؤ گے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) اور ان کی اولاد کہنے لگی خدا کے لئے آپ ہمیشہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کی یاد میں لگے رہو گے یہاں تک کہ گھل گھل کر ہلاک ہوجاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 85) تاللہ۔ خدا کی قسم ۔ بخدا۔ تفتؤ۔ اصل میں لا تفتؤ تھا۔ افعال ناقصہ میں سے ہے چونکہ آیت میں تاللہ تفتؤ ہے اس لئے حرفِ نفی حذف ہوگیا۔ کیونکہ قسم کے ساتھ جب علامت اثبات نہیں ہوتی تو وہ نفی پر محمول ہوتی ہے۔ لا تفتؤ ای لا تزال۔ تو ہمیشہ رہتا ہے تو ہمیشہ رہے گا۔ تاللہ تفتؤ تذکر یوسف بخدا آپ تو یوسف (علیہ السلام) ہی کی یاد میں لگے رہیں گے۔ حرضا۔ مضمحل ۔ بےکار۔ بیمار۔ جو چیز نکمی اور بےکار ہوجائے اور درخور اعتناء نہ رہے دراصل یہ مصدر ہے۔ حرض یحرض (سمع) حرضا۔ باب نصر۔ ضرب سے بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مصدر حرض وحروض۔ بری بیماری میں مبتلا ہو کر لاغر و ناتواں ہونا۔ الھالکین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر (ضرب۔ سمع۔ فتح) ہلاک ہونے والے۔ مرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعقوب (علیہ السلام) کا حب مخلوق میں اس قدر رونا موجب وسوسہ نہ ہو کیونکہ محبت امر اضطراری ہے اور گریہ بھی دلیل رقت قلب وترحم ہے اور خاص کر جب کہ محبت کا سبب کوئی امر دینی ہو اور کسی کو شبہ نہ ہو کہ جب یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا تھا فصبر جمیل تو پھر شکایت کیوں زبان پر لائے اس کا جواب خود قرآن میں ہے کہ اشکو ابثی وحزنی الی اللہ۔ یعنی شکایت الی الخلق منافی ہے صبر جمیل کے نہ کہ شکایت الی الخالق کہ عین دعاء والتجائے مطلوب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٥ یہ نہایت ہی مکروہ اور بغض و حسد سے زہر آلود بات ہے ، خدا کی قسم آپ اپنے آپ کو یوسف (علیہ السلام) کی یاد میں ہلاک کر رہے ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ آپ پگھل کر رہ گئے ہیں۔ آخر اس غم واندوہ اور ماتم کا اب کیا فائدہ ؟ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔ یوسف (علیہ السلام) تو اب گیا وہ لوٹ کر آنے والا نہیں ہے۔ لیکن والدان کی اس بات رد فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بس چھوڑ دو مجھے۔ میرا غم اور میرا شکوہ اللہ ہی سے ہے۔ میرا میرے رب کے ساتھ تعلق ہے اور میں اللہ کی جانب سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ ” حَرَضًا “ قریب الموت یا جسمانی اور دماغی لحاظ سے بیکار۔ بیٹوں نے کہا آپ اب بھی یوسف کو نہیں بھلاتے وہ خدا جانے کب کا مٹ مٹا چکا ہے آپ ہمیشہ یوسف کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ کی تمام قوتیں جواب دے چکیں یا آپ ہلاک ہوجائیں مگر یوسف کو اب نہیں دیکھ پائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 ۔ بیٹے کہنے لگے خدا کی قسم تو تو ہمیشہ یوسف (علیہ السلام) ہی کا تذکرہ کرتا رہے گا یہاں تک کہ تو گھل گھل کر قریب المرگ ہوجائے یا جان دے کر مرنے والوں میں شامل ہوجائے۔ بیٹوں نے یعقوب (علیہ السلام) کی حالت دیکھ کر یہ کہا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس بیٹے کے جانے سے پھر یوسف (علیہ السلام) کا غم تازہ ہوا ۔