Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
شَكَا |
يَشْكُو |
اُشْكُ |
شَاكٍ |
مَشْكُوّ |
شَكْوى/شِكَايَة |
اَلشَّکْوُ وَالشِکَایَۃُ وَالشَّکَاۃُ وَالشَّکْویٰ کے معنی اظہارغم کے ہیں اور شکَوتُ وَاَشْکَیتُ دونوں ایک ہی معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ) (۱۲:۸۶) کہ میں تو اپنے غم اور اندوہ کا اظہار (خدا سے کرتا ہوں) ۔ (وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ) (۵۸:۱) اور خدا سے شکایت (رنج و ملال) کرتی ہے۔ اَشْکَاہُ: (افعال) کے معنیٰ کسی کو صاحب شکوہ کردینے کے آتے ہیں جیسے اَمْرَضَہٗ (اس کو صاحب مرض کردیا) اور کسی کی شکایت کا ازالہ کرنے کے لئے بھی یہ فعل استعمال ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے۔ (1) (۱۰۰) شَکَوْنَا اِلٰی رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ حَرَّ الرَّمْضَائِ فِیْ جِبَاھِنَا وَاَکْفِنَا فَلَمْ یُشْکِنَا: کہ ہم نے آنحضرت کے پاس اپنی پیشانیوں اور ہاتھوں میں گری کی شدت کی شکایت کی لیکن آپ ﷺ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہ کیا۔ اصل میں شَکْو کے معنیٰ شَکْوۃ یعنی چھوٹے مشکیزہ کو کھولنے اور اس کے اندر کی چیز کو ظاہر کرنے کے ہیں لہٰذا یہ دراصل بِثَثْتُ لَہٗ مَافِیْ وِعَائِیْ اور نَفَصْتُ مَا فِیْ جِرَابِیْ کی طرح استعارہ ہے جس کے معنیٰ دل کی بات کو ظاہر کردینے کے ہیں۔ اَلْمِشْکٰوۃُ: طاق جو آرپار نہ ہو قرآن پاک میں ہے: (کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ) (۲۴:۳۵) گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہو تو مِشکوۃٌ سے مراد مومن کا دل اور مصباح سے نورالٰہی مراد ہے۔
Surah:12Verse:86 |
میں شکایت کرتاہوں
I complain
|