Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 87

سورة يوسف

یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡئَسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡئَسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸۷﴾

O my sons, go and find out about Joseph and his brother and despair not of relief from Allah . Indeed, no one despairs of relief from Allah except the disbelieving people."

میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف ( علیہ السلام ) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ۔ یقیناً رب کی رحمت سے نا امید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yaqub orders His Children to inquire about Yusuf and His Brother Allah tells what Yaqub said to his children: يَا بَنِيَّ اذْهَبُواْ فَتَحَسَّسُواْ مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلاَ تَيْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ "O my sons! Go you and inquire about Yusuf and his brother, and never give up hope of Allah's mercy. Certainly no one despairs of Allah's mercy, except the people who disbelieve." Allah states that Yaqub, peace be upon him, ordered his children to go back and inquire about the news of Yusuf and his brother Binyamin, in a good manner, not as spies. He encouraged them, delivered to them the good news and ordered them not to despair of Allah's mercy. He ordered them to never give up hope in Allah, nor to ever discontinue trusting in Him for what they seek to accomplish. He said to them that only the disbelieving people despair of Allah's mercy. Yusuf's Brothers stand before Him Allah said next,

حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم ادھر ادھر جاؤ اور حضرت یوسف اور بنیامین کی تلاش کرو ۔ عربی میں تحسس کا لفظ بھلائی کی جستجو کے لئے بولا جاتا ہے اور برائی کی ٹٹول کے لئے تجسس کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ ساتھ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہیے اس کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے ۔ تم تلاش بند نہ کرو ، اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش جاری رکھو ۔ چنانچہ یہ لوگ چلے ، پھر مصر پہنچے ، حضرت یوسف کے دربار میں حاضر ہوئے ، وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے ، ہمارے پاس کچھ نہیں رہا ، جس سے غلہ خریدتے اب ردی ، واہی ، ناقص ، بیکار ، کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں وہی دیجئے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں ۔ ہمارے بوجھ بھر دیجئے ، ہماری خورجیاں پر کر دیجئے ، ابن مسعود کی قرأت میں ( فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ 88؀ ) 12- یوسف:88 ) کے بدلے فاوقرر کا بنا ہے یعنی ہمارے اونٹ غلے سے لاد دیجئے ۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے ہمارے بھائی کو رہائی دیجئے ، یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئے ۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر استدلال کیا کہ نہیں ہوا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا اللہ مجھ پر صدقہ کر ۔ فرمایا ہاں اس لئے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 چناچہ اس یقین سے سرشار ہو کر انہوں نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم دیا۔ 87۔ 2 جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ ) 15 ۔ الحجر :56) ' گمراہ لوگ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں ' اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو سخت حالات میں بھی صبر و رضا کا اور اللہ کی رحمت واسعہ کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اسی یقین کی بنا پر آپ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جاؤ یوسف اور اس کے بھائی دونوں کے لیے کوشش کرو کہ وہ ہمیں مل جائیں اور تیسرے بیٹے کا جو مصر میں رہ گیا تھا آپ نے اس لیے نام نہ لیا کہ وہ خود اسی غرض سے وہاں اٹکا ہوا تھا کہ بن یمین کے حالات پر نگہداشت رکھے اور جب بھی کوئی رہائی کی صورت ممکن ہو اسے بروئے کار لائے اور انھیں تاکید کی کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا ۔۔ : ” بَنِیْنَ “ ” اِبْنٌ“ کی جمع ہے، یاء کی طرف مضاف ہوا تو نون گرگیا، یاء کو یائے متکلم میں ادغام کرکے آخر میں نصب دے دی۔ ” تَحَسَّسَ “ کا معنی ہے کسی چیز کو باریکی، حکمت اور صبر کے ساتھ بذریعۂ حواس تلاش کرنا۔ (الوسیط) ” من روح اللہ “ ” رَوْحٌ“ کا اصل معنی سانس لینا ہے، کہا جاتا ہے ” أَرَاحَ الإِْنْسَانُ “ ” انسان نے سانس لیا۔ “ (مفردات) مراد اللہ کی طرف سے کشادگی و رحمت ہے، گلا گھٹ جانے اور سانس بند ہونے کے بعد سانس آنے میں جو راحت ولذت ہے وہ اللہ کی رحمت کا ایک نمونہ ہے، یعنی جاؤ اور اس بھائی کے ساتھ مل کر جو وہاں رہ گیا ہے، یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کی پوری کوشش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ : جو اس کی قدرت کا صحیح علم نہیں رکھتے، اس کے برعکس مومن کو خواہ کیسے ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن حالات پیش آئیں وہ کبھی اپنے مالک کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی صفت ہے، مومن کی نہیں۔ یہ نہیں کہ مایوس ہوجانے والا کافر اور مرتد ہوجاتا ہے، بلکہ جس طرح جھوٹ منافق کی ایک صفت ہے، مومن کی نہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) [ النحل : ١٠٥ ] ” جھوٹ تو وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے۔ “ مگر جھوٹ سے انسان کا کفر اس کفر سے کم تر ہے جو اسے ایمان سے خارج کرکے مرتد بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی ایک صفت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 87 begins with the order given by Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) : بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ (0 my sons, go and search for Yusuf and his brother ...). It was after the passage of such a long time that Sayyidna Ya’ qub (علیہ السلام) asked his sons to ` go and search for Yusuf and his brother& - and not to lose hope in finding them. Before this, he had never given an order of this nature. All these things were subservient to the Divine destiny. Meeting them earlier than that was not so destined. Therefore, no such action was taken either. And now, the time to meet had arrived. Therefore, Allah Ta’ ala put in his heart the way-out appropriate to it. And the direction in which the search was to be made was turned to-wards nowhere but Egypt itself - which was known and definite in the case of Benyamin. But, there was no obvious reason, given the outward conditions, to look for Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in Egypt. But, when Allah Ta’ ala intends to do something, He arranges to put together appropriate causes for its execution. Therefore, this time, he instructed his sons to go to Egypt once again for the purpose of this search. Some commentators have said that Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، by noticing that the ` Aziz of Misr had treated them unusually the first time when he had returned their capital by putting it within their baggage, had got the idea that this ` Aziz seems to be someone very noble and generous, perhaps he may be Yusuf (علیہ السلام) himself. Points of Guidance Patience in Pain is Obligatory on Every Muslim Imam Al-Qurtubi has said: The event relating to Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) proves that it is Wajib on every Muslim when faced with distress or pain in the case of his person, children, family or property that he or she should seek redress from it by resorting to patience (sabr) at its best and by becoming resigned to and content with the decree of Allah Ta’ ala - and follow the example of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) and other blessed prophets. The Merit of Swallowing Anger and Pain Imam Hasan Al-Basri (رح) has said: Out of what one swallows, two are the best in the sight of Allah Ta’ ala: (1) To do Sabr on pain or dis¬tress, and (2) to swallow anger. Complaining of pain before everyone In another Hadith from Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: مِن بَثَّ لَم یَصبِر ، that is, one who goes about narrating his distress before everyone has not observed Sabr. The Reward for Sabr Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said: Allah Ta’ ala conferred upon Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) the reward of Shuhada (martyrs in the way of Allah) for this Sabr. And, in this Ummah too, whoever observes Sabr while in distress shall receive a similar reward. The Reason why Sayyidna Ya` qub I was put to Trial Imam Al-Qurtubi has given a reason for this severe trial and test of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) as it appears in some narrations. It is said that one day Sayyidna Yaqub (علیہ السلام) was doing his Tahajjud prayers and Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) was sleeping before him. All of a sudden a sound of snor¬ing by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) caused his attention to be diverted to him. This happened twice, and thrice. Then, Allah Ta’ ala said to His angels: Look, this is My friend, and My favoured servant, see how he, in the mid¬dle of his address and approach to Me, turns his attention to someone other than Me. By My Honour and Power, I shall take these two eyes of his out, the eyes with which he has turned his attention to someone other than Me, and the one to whom he has turned his attention, I shall separate from him for a long time. How About Looking at Someone During Salah? Therefore, in a Hadith of Al-Bukhari narrated by Sayyidah ` A&ishah (رض) ، it appears that she asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ` How is it to look elsewhere during Salah?& In reply, he said: ` Through it, the shaitan snatches the Salah of a servant of Allah away from him.& May Allah sublhanahu wa Ta’ ala keep us protected.

يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ یعنی اے میرے بیٹو جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوتا، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اتنے عرصہ کے بعد صاحبزادوں کو یہ حکم دیا کہ جاؤ یوسف اور ان کے بھائی کو تلاش کرو اور ان کے ملنے سے مایوس نہ ہو اس سے پہلے کبھی اس طرح کا حکم نہ دیا یہ سب چیزیں تقدیر الہی کے تابع تھیں اس سے پہلے ملنا مقدر نہ تھا اس لئے ایسا کوئی کام بھی نہیں کیا گیا اور اب ملاقات کا وقت آ چکا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب تدبیر دل میں ڈالی، اور دونوں کی تلاش کا رخ مصر ہی کی طرف قرار دیا جو بنیامین کے حق میں تو معلوم اور متعین تھا مگر یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں تلاش کرنے کی ظاہر حال کے اعتبار سے کوئی وجہ نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے مناسب اسباب جمع فرما دیتے ہیں اس لئے اس مرتبہ تلاش وتفتیش کے لئے پھر صاحبزادوں کو مصر جانے کی ہدایت فرمائی، بعض حضرات نے فرمایا کہ یعقوب (علیہ السلام) کو پہلی مرتبہ عزیز مصر کے اس معاملہ سے کہ انکی پونجی بھی ان کے سامان میں واپس کردی اس طرف خیال ہوگیا تھا کہ یہ عزیز کوئی بہت ہی شریف و کریم ہے شاید یوسف (علیہ السلام) ہی ہوں، احکام و مسائل : امام قرطبی (رح) نے فرمایا کہ واقعہ یعقوب (علیہ السلام) سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جب اس کو کوئی مصیبت اور تکلیف اپنی جان یا اولاد یا مال کے بارے میں پیش آئے تو اس کا علاج صبر جمیل اور اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی ہونے سے کرے اور یعقوب (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی اقتداء کرے، حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان جس قدر گھونٹ پیتا ہے ان سب میں دو گھونٹ زیادہ محبوب ہیں ایک مصیبت پر صبر اور دوسرے غصہ کو پی جانا، اور حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے من بَثَّ لم یصبر یعنی جو شخص اپنی مصیبت سب کے سامنے بیان کرتا پھرے اس نے صبر نہیں کیا، اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اس صبر پر شہیدوں کا ثواب عطا فرمایا اور اس امت میں بھی جو شخص مصیبت پر صبر کرے گا اس کو ایسا ہی اجر ملے گا، امام قرطبی نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے اس شدید ابتلاء و امتحان کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے جو بعض روایات میں آئی ہے کہ ایک روز حضرت یعقوب (علیہ السلام) نماز تہجد پڑھ رہے تھے اور یوسف (علیہ السلام) ان کے سامنے سو رہے تھے اچانک یوسف (علیہ السلام) سے خراٹے کی آواز نکلی تو ان کی توجہ یوسف (علیہ السلام) کی طرف چلی گئی پھر دوسری اور تیسری مرتبہ ایسا ہی ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا دیکھو یہ میرا دوست اور مقبول بندہ مجھ سے خطاب اور عرض معروض کرنے کے درمیان میرے غیر کی طرف توجہ کرتا ہے قسم ہے میری عزت و جلال کی میں ان کی یہ دونوں آنکھیں نکال لوں گا جن سے میرے غیر کی طرف توجہ کی ہے اور جس کی طرف توجہ کی ہے اس کو ان سے مدت دراز کے لئے جدا کر دوں گا، اسی لئے بخاری کی حدیث میں بروایت عائشہ (رض) وارد ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ نماز میں کسی دوسری طرف دیکھنا کیسا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کے ذریعہ شیطان بندہ کی نماز کو اچک لیتا ہے والعیاذ باللہ سبحانہ وتعالیٰ ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ 87؀ حسس فحقیقته : أدركته بحاستي، وأحست مثله، لکن حذفت إحدی السینین تخفیفا نحو : ظلت، وقوله تعالی: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران/ 52] ( ح س س ) احسستہ کے اصل معنی بھی کسی چیز کو محسوس کرنے کے ہیں اور احسنت بھی احسست ہی ہے مگر اس میں ایک سین کو تحقیقا حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ ظلت ( میں ایک لام مخذوف ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران/ 52] جب عیسٰی ( (علیہ السلام) ) نے ان کی طرف سے نافرمانی ( اور نیت قتل ) دیکھی ۔ يأس اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] ، ( ی ء س ) یأس ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔ رَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . روح وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) اسی لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرے بیٹو ! جاؤ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین کو تلاش کرو اور ان کی خبر لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں، جو کافر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ ) صاحب ایمان لوگ کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو یقین تھا کہ یوسف علیہ السلام بھی کہیں نہ کہیں زندہ ہیں، اور بنیامین گرفتار ہیں، اس لئے انہوں نے کچھ عرصے بعد پورے وثوق کے ساتھ حکم دیا کہ جا کر ان دونوں کو تلاش کرو۔ اتنے میں جو غلہ اب تک آیا تھا، وہ ختم ہوچکا تھا، اور قحط کی حالت جاری تھی۔ اس لئے ان بھائیوں نے یہ سوچا کہ پھر مصر جائیں، کیونکہ بنیامین تو وہاں یقینی طور پر موجود ہیں، پہلے ان کی واپسی کی کوشش کرنی چاہئے، پھر یوسف علیہ السلام کا بھی کچھ سراغ لگانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے مصر جا کر پہلے تو یوسف علیہ السلام سے غلے کی بات کی تاکہ ان کا دِل کچھ نرم پڑے تو بنیامین کی واپسی کی بھی درخواست کریں۔ اگلی آیتوں میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی گفتگو بیان فرمائی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٧۔ ٨٨۔ اوپر کے قصہ کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ ادھر ادھر چل پھر کر یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی بنیامین کا پتہ لگاؤ خدا کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ دونوں تمہیں مل جائیں خدا پر بھروسہ کر کے کمر ہمت چست باندھ اور اس کی جستجو میں نکلو اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو کیوں کہ خداوند عالم کی رحمت سے نا مید ہونا ان لوگوں کا کام ہے جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور ہر ایک کام میں اسے قادر مطلق نہیں تصور کرتے اس لئے میں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہی نیک گمان رکھتا ہوں جو میں نے بیان کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے باپ کا حکم پاکر گھر سے چل کھڑے ہوئے اور سیدھے پھر مصر میں داخل ہوئے اور عزیز مصر سے یہ آکر کہا کہ اے عزیز مصر ہم پر اور ہمارے اہل و عیال پر بہت ہی سختی ہے اس قحط کے زمانہ میں نہایت تکلیف سے اوقات بسر ہوتی ہے غرض ان کی اس کلام سے یہ تھی کہ جب ان باتوں سے عزیز مصر کا دل نرم ہوجائے تو پھر بھائی کے واپس کرنے کو ان سے کہیں گے پھر انہوں نے یوسف (علیہ السلام) سے یہ بات کہی کہ اس مرتبہ جو کچھ ہمارے گھر میں ناقص مال تھا وہ سب لے کر آئے ہیں آپ اس غلہ کی قیمت میں لے کر ہمیں غلہ بھر دیں اور پورا تول تول دیں ہماری قیمت دینے نہ دینے کا کچھ خیال نہ کریں ہمارا حال کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے آپ گویا صدقہ ہی تصور فرما کر ناقص درہموں کے بدلہ غلہ دے دیں اللہ پاک صدقہ کرنے والوں کو بہت بڑا اجر دیتا ہے جب بھائیوں نے اس طرح کی گفتگو کی تو یوسف (علیہ السلام) سے گھر کی تکلیف سن کر نہ رہا گیا اور انہوں نے اپنے آپ کو اس طرح سے ظاہر کردیا جس کا ذکر آگے آتا ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے نیک گمان رکھنے کی حدیثیں جو اوپر گزریں وہی حدیثیں ان آیتوں کی بھی تفسیر ہیں جن تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ اسی نیک گمان کی بنا پر یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین کے ڈھونڈنے کی تاکید کی اب آگے کی آیتوں سے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اس نیک گمان کو سچا کیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 87 ) فتحسسوا من ۔ امرجمع مذکر۔ تم تلاش کرو۔ تم پتہ لگائو۔ تحس (تفعل) تحسس منہ۔ خبر دریافت کرنا۔ تحسس الخبر۔ خبر معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ الحاسۃ اس قوت کو کہتے ہیں کہ جس سے عوارض حسیّہ کا ادراک ہوتا ہے اس کی جمع حواس ہے جس کا اطلاق مشاعر خمسہ (سمع۔ بصر۔ شم۔ ذوق۔ لمس ) پر ہوتا ہے۔ لا تایئسوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تم ناامید نہ ہو۔ یاس سے (باب سمع) یئس ییئس یاسا۔ اسم فاعل یائس ۔ (نیز ملاحظہ ہو 12:80) روح اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ روح۔ فیض، رحمت۔ راحت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ جو اس کی رحمت اور قدرت کا صحیح علم نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس مومن کی خواہ کیسے ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن حالات پیش آئیں وہ کبھی اپنے مالک کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ ” یاس من رحمتہ اللہ “ کافر کی صفت ہے ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ مایوس ہونے والا کافر ہوجاتا ہے۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو لگ بھگ ٤٠ سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ ان کی جدائی میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہر وقت خاموش اور غمگین رہتے تھے۔ اس غم نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ان کی عمر سے پہلے ہی بوڑھا کردیا تھا۔ طویل مدت گزرنے کے باوجود ان کا غم پہلے دن کی طرح تازہ تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو صدمے پر صدمہ پہنچتا ہے۔ پہلے یوسف (علیہ السلام) آنکھوں سے اوجھل ہوئے پھر بنیامین اور یہودہ بھی مصر میں رہ گئے۔ اس کے باوجود حضرت یعقوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب بیٹوں نے انہیں یہ بات کہی کہ آپ یوسف کو یاد کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ آپ ہلاک ہوجائیں۔ اس پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میرے بیٹو ! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تم جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو خواب کی تعبیر پر یقین تھا کہ ایک وقت ضرور آئے گا کہ یوسف اور اس کے بھائی سے ملاقات ہوگی۔ کیونکہ وہ پہلے بھی فرما چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ ضرور سب کو جمع کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے : ١۔ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف : ٨٧) ٢۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٣۔ اللہ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ (الحجر : ٥٦) ٤۔ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کرنے والے اللہ کی رحمت سے مایوس ہیں۔ (العنکبوت : ٢٣) ٥۔ مومن اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٨) ٦۔ ابراہیم نے کہا میں اپنے پروردگار کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اس کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا۔ (مریم : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٧ یہ ہے اس دل کی آواز جو اللہ تک پہنچا ہوا ہے ! !۔ “ میرے بچو جا کر یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ”۔ اپنے پورے حواس کو استعمال کرو ، نہایت رقت سے ، گہری نظروں سے اور مستقل مزاجی سے تلاش کرو۔ اللہ کے فضل وکرم سے کسی بھی وقت مایوسی کا اظہار نہ کرو۔ یہاں اللہ کے کرم کے لئے (روح) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اللہ کی رحمت پر گہرائی سے دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ مشکلات کے بعد اب آسانیوں کا دور آنے والا ہے۔ کیونکہ جان کن مشکلات کی بعد اب اللہ کی رحمت کی شبنم سے روح کو تراوت ملنے والی ہے۔ ولا تایئسو۔۔۔۔۔۔۔ الکفرون (١٢ : ٨٧) “ اللہ کی رحمت سے تو صرف کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ” ۔ رہے وہ مومن جن کے دل اللہ تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جن کی روح پر معرفت الٰہی کی شنبم گرتی ہے ، جن کے اوپر رحمت الٰہی کی روح پرور خوشگوار ہوا کے جھونکے چلتے ہیں ، وہ کبھی بھی اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہیں ہوتے اگرچہ مشکلات ناقابل برداشت ہوجائیں اور ان کا کلیجہ منہ کو آجائے۔ مومن ہمیشہ ایمان کی چھاؤں میں ہوتا ہے ، وہ تعلق باللہ کی وجہ سے اللہ سے مربوط ہوتا ہے۔ اپنے مولا پر اسے بھروسہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھروسہ انتہائی کرب و الم میں بھی زندہ رہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74:۔ اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں سے فرمایا جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے نامید نہ ہونا کیونکہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا کافروں کا شیوہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 ۔ اے میرے بیٹو ! تم پھر ایک بار واپس جائو اور مصر پہنچ کر یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کا پتہ لگائو اور ان کی جستجو کرو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو کیونکہ خدا کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے ناامید ہوجانا کافروں کا شیوہ ہے اس لئے جائو غلہ بھی لائو اور بھائیوں کو بھی تلاش کرو۔