Commentary Mentioned in the verses appearing above is the remaining part of the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and his brothers. It tells us that Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) asked his sons to go and search Yusuf (علیہ السلام) and his brother. So they travelled to Egypt for a third time - because they knew that Benyamin was there and they had to try to get him released first. As for Sayy¬... idna Yusuf (علیہ السلام) ، though his presence in Egypt was not known to them but, when the time comes for something to happen, human plans too start falling in place, unconsciously and without an intentional effort. This is confirmed by a Hadith which says: When Allah Ta’ ala intends to do something, He makes its causes get together automatically. Therefore, to search Yusuf (علیہ السلام) too, the very travel to Egypt was appropriate, though taken up unconsciously. Then, they needed food grains, after all. And yet another factor was that they hoped to see the ` Aziz of Misr on the pretext of their request for food grains, when they could put forward their plea for the release of Benyamin. The first verse (88) begins with the words: فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا (And when they came to him, they said...). It means: When the brothers of Yusuf (علیہ السلام) reached Egypt as ordered by their father and met the ` Aziz of Misr, they talked to him in a flattering tone. Presenting their need and helpless¬ness, they told the ` Aziz that they and their family were suffering because of the famine, so much so that they did not have even adequate funds to purchase food grains. Compelled by circumstance, they had brought a capital which was not good enough for that purpose. Thus, their request was that, given his generosity, he should accept whatever they had and give them the full measure of grains as is usually given against things of good value. Not being their right in any way, they pleaded that the grains should be given to them as if given in charity because ` Allah rewards the charitable.& What was this ` capital of very little worth&? The Qur&an and Hadith have not clarified it. The sayings of the commentators differ. Some say that they were bad dirhams which were not acceptable in the open market. Others say that this comprised of household articles. This expres¬sion - ` capital of very little worth& - is a translation of the meaning of the word: مُّزْجَاةٍ (&muzjatin& ) which really means something which does not move on its own, but has to be moved by someone else forcefully. When Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) heard these submissive words from his brothers and saw their broken-down condition, he was naturally coming to a point where he would have no option but to disclose the truth as it was. And the drift of events was showing that the restriction placed by Allah Ta` ala on Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) that he would not disclose the truth of the matter about himself was not going to be there anymore for the time had come close when it would be taken back. Based on a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، it has been reported in Tafsir al-Qurtubi and Mazhari that Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) had, on this occasion, sent a letter in writing and had addressed it to the ` Aziz of Misr. The letter said: |"From Ya` qub Safi Allah Ibn Ishaq Dhabih Allah Ibn Ibrahim Khalil Allah to the ` Aziz of Misr. After offering praise to Allah: Our entire family is known for hardships and trials. My grandfather, Ibrahim Khalil Allah was tested through the fire of Nimrud. Then, my father, Ishaq was put to a hard test. Then, I was tested through a son of mine whom I held very dear - to the limit that I lost my eyesight when separated from him. After that, there was his younger brother, a source of comfort for me in my grief, whom you arrested on a charge of theft. And let me tell you that we are the progeny of prophets. Never have we committed a theft, nor has there ever been a thief among our children. And peace on you!|" When Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) read this letter, he trembled and broke into tears and decided to let his secret out. To start with, he first asked his brothers if they remembered what they had done with Yusuf and his brother at a time when they were ignorant, unable to distinguish between good and bad, and quite neglectful of acting with foresight. When his brothers heard his question, they were dumbfounded. What has the ` Aziz of Misr got to do with the story of Yusuf (علیہ السلام) ? Then, they recollected the dream seen by young Yusuf (علیہ السلام) the interpretation of which was that he would achieve some high rank and they would have to bow down before him. Could it be that this ` Aziz of Misr is none else but Yusuf (علیہ السلام) himself? Then, as they exerted and deliberated a little more, they recognized him by some signs. Still, to confirm it further, they asked him: Show more
خلاصہ تفسیر : پھر (حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حکم کے موافق کہ انہوں نے فرمایا تھا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ مصر کو چلے کیونکہ بنیامین کو مصر ہی میں چھوڑا تھا یہ خیال ہواہو گا کہ جس کا نشان معلوم ہے پہلے اس کے لانے کی تدبیر کرنا چاہئے کہ بادشاہ سے مانگیں پھر یوسف (علیہ السلام) کے نشا... ن کو ڈھونڈیں گے غرض مصر پہنچ کر) جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس (جس کو عزیز سمجھ رہے تھے) پہنچے (اور غلہ کی بھی حاجت تھی پس یہ خیال ہوا کہ غلہ کے بہانے سے عزیز کے پاس چلیں اور اس کی خرید کے ضمن میں خوشامد کی باتیں کریں جب اس کی طبیعت میں نرمی دیکھیں اور مزاج خوش پائیں تو بنیامین کی درخواست کریں اس لئے اول غلہ لینے کے متعلق گفتگو شروع کی اور) کہنے لگے اے عزیز ! ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو (قحط کی وجہ سے) بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے اور (چونکہ ہم کو ناداری نے گھیر رکھا ہے اس لئے خرید غلہ کے واسطے کھرے دام بھی میسر نہیں ہوئے) ہم کچھ یہ نکمی چیز لائے ہیں سو آپ (اس کے نکمے ہونے سے قطع نظر کر کے) پورا غلہ دیدیجئے (اور اس نکمے ہونے سے غلہ کی مقدار میں کمی نہ کیجئے) اور (ہمارا کچھ استحقاق نہیں) ہم کو خیرات (سمجھ کر) دیدیجئے بیشک اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو (خواہ حقیقۃ خیرات دیں خواہ سہولت و رعایت کریں کہ وہ بھی مثل خیرات کے ہیں) جزائے خیر) دیتا ہے (اگر مومن ہے تو آخرت میں بھی ورنہ دنیا ہی میں) یوسف (علیہ السلام) نے (جو ان کے یہ مسکنت آمیز الفاظ سنے تو رہا نہ گیا اور بےاختیار چاہا کہ اب ان سے کھل جاؤں اور عجب نہیں کہ نور قلب سے معلوم ہوگیا ہو کہ اب کی باران کی تجسس بھی مقصود ہے اور یہ بھی منکشف ہوگیا ہو کہ اب زمانہ مفارقت کا ختم ہوچکا پس تمہید تعارف کے طور پر) فرمایا (کہو) وہ بھی تم کو یاد ہے جو کچھ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ (برتاؤ) کیا تھا جب کہ تمہاری جہالت کا زمانہ تھا (اور برے بھلے کی سوچ نہ تھی یہ سن کر پہلے تو چکرائے کہ عزیز مصر کو یوسف (علیہ السلام) کے قصہ سے کیا واسطہ ادھر اس شروع زمانہ کے خواب سے غالب احتمال تھا ہی کہ شاید یوسف (علیہ السلام) کسی بڑے رتبہ کو پہنچیں کہ ہم سب کو ان کے سامنے گردن جھکانا پڑے اس لئے اس کلام سے شبہ ہوا اور غور کیا تو کچھ کچھ پہچانا اور مزید تحقیق کیلئے کہنے لگے کیا سچ مچ تم ہی یوسف ہوا انہوں نے فرمایا (ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا (حقیقی) بھائی ہے (یہ اس لئے بڑھا دیا کہ اپنے یوسف (علیہ السلام) ہونے کی اور تاکید ہوجاوے یا انکے تجسس کی کامیابی کی بشارت ہے کی جن کو تم ڈھونڈنے نکلے ہو ہم دونوں ایک جگہ جمع ہیں) ہم پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا (کہ ہم دونوں کو اول توفیق صبر وتقویٰ کی عطا فرمائی پھر اس کی برکت سے ہماری تکلیف کو راحت سے اور افتراق کو اجتماع سے اور قلت مال وجاہ کو کثرت مال وجاہ سے مبدل فرما دیا) واقعی جو شخص گناہوں سے بچتا ہے اور (مصائب پر) صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا وہ (تمام گذشتہ قصہ کو یاد کر کے نادم ہوئے اور معذرت کے طور پر) کہنے لگے کہ بخدا کچھ شک نہیں تم کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت عطا فرمائی ( اور تم اسی لائق تھے) اور (ہم نے جو کچھ کیا) بیشک ہم (اس میں) خطا وار تھے (للہ معاف کردو) یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں تم پر آج (میری طرف سے) کوئی الزام نہیں (بےفکر رہو میرا دل صاف ہوگیا) اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے (تائب کا قصور معاف کر ہی دیتا ہے اسی دعاء سے یہ بھی مفہوم ہوگیا کہ میں نے بھی میں معاف کردیا) معارف و مسائل : آیات مذکورہ میں یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کا باقی قصہ مذکور ہے کہ ان کے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ حکم دیا کہ جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو تو انہوں نے تیسری مرتبہ مصر کا سفر کیا کیونکہ بنیامین کا تو وہاں ہونا معلوم تھا پہلی کوشش اس کی خلاصی کے لئے کرنا تھی اور یوسف (علیہ السلام) کا وجود اگرچہ مصر میں معلوم نہ تھا مگر جب کسی کام کا وقت آجاتا ہے تو انسان کی تدبیریں غیر شعوری طور پر بھی درست ہوتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس کے اسباب خود بخود جمع کردیتے ہیں اس لئے تلاش یوسف کے لئے بھی غیر شعوری طور پر مصر ہی کا سفر مناسب تھا اور غلہ کی ضرورت بھی تھی اور یہ بات بھی تھی کہ غلہ طلب کرنے کے بہانے سے عزیز مصر سے ملاقات ہوگی اور ان سے اپنے بھائی بنیامین کی خلاصی کے متعلق عرض معروض کرسکیں گے، فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا یعنی جب برادران یوسف والد کے حکم کے مطابق مصر سے ملاقات ہوگی اور عزیز مصر سے ملے تو خوشامد کی گفتگو شروع کی اپنی محتاجی اور بیکسی کا اظہار کیا کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو قحط کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچ رہی ہے یہاں تک کہ اب ہمارے پاس غلہ خریدنے کے لئے بھی کوئی مناسب قیمت موجود نہیں ہم مجبور ہو کر کچھ نکمی چیزیں غلہ خریدنے کے لئے لے آئے ہیں آپ اپنے کریمانہ اخلاق سے انہی نکمی چیزوں کو قبول کرلیں اور ان کے بدلے میں غلہ پورا اتنا ہی دیدیں جتنا اچھی قیمتی چیزوں کے بالمقابل دیا جاتا ہے یہ ظاہر ہے کہ ہمارا کوئی استحقاق نہیں آپ ہم کو خیرات سمجھ کر دیدیجئے بیشک اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے، یہ نکمی چیزیں کیا تھیں ؟ قرآن و حدیث میں انکی کوئی تصریح نہیں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں بعض نے کہا کہ کھوٹے دراہم تھے جو بازار میں نہ چل سکتے تھے بعض نے کہا کہ کچھ گھریلو سامان تھا یہ لفظ مزاجۃ کا ترجمہ ہے اس کے اصل معنی ایسی چیز کے ہیں جو خود نہ چلے بلکہ اس کو زبردستی چلایا جائے، یوسف (علیہ السلام) نے جب بھائیوں کے یہ مسکنت آمیز الفاظ سنے اور شکستہ حالت دیکھی تو طبعی طور پر اب حقیقت حال ظاہر کردینے پر مجبور ہو رہے تھے اور واقعات کی رفتار کا انداز یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) پر جو اظہارحال کی پابندی منجانب اللہ تھی اب اس کے خاتمہ کا وقت بھی آ چکا تھا اور تفسیر قرطبی ومظہری میں بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ اس موقع پر یعقوب (علیہ السلام) نے عزیز مصر کے نام ایک خط لکھ کردیا تھا جس کا مضمون یہ تھا، من جانب یعقوب صفی اللہ، ابن اسحاق ذبیح اللہ ابن ابراہیم خلیل اللہ، بخدمت عزیز مصر، اما بعد، ہمارا پورا خاندان بلاؤں اور آزمائشوں میں معروف ہے میرے دادا ابراہیم خلیل اللہ کا نمرود کی آگ سے امتحان لیا گیا پھر میرے ایک لڑکے کے ذریعے میرا امتحان لیا گیا جو مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا یہاں تک کہ اس کی مفارقت میں میری بینائی جاتی رہی اس کے بعد اس کا ایک چھوٹا بھائی مجھ غم زدہ کی تسلی کا سامان تھا جس کو آپ نے چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا اور میں بتلاتا ہوں کی ہم اولاد انبیاء ہیں نہ ہم نے کبھی چوری کی ہے نہ ہماری اولاد میں کوئی چور پیدا ہوا والسلام یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ خط پڑھا تو کانپ گئے اور بےاختیار رونے لگے اور اپنے راز کو ظاہر کردیا اور تعارف کی تمہید کے طور پر بھائیوں سے یہ سوال کیا کہ تم کو کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا تھا جبکہ تمہاری جہالت کا زمانہ تھا کہ بھلے برے کی سوچ اور انجام بینی کی فکر سے غافل تھے برادران یوسف نے جب یہ سوال سنا تو چکرا گئے کہ عزیز مصر کو یوسف کے قصہ سے کیا واسطہ پھر ادھر بھی دھیان گیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے جو بچپن میں خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر یہی تھی کہ ان کو کوئی بلند مرتبہ حاصل ہوگا کہ ہم سب کو اس کے سامنے جھکنا پڑے گا کہیں یہ عزیز مصر خود یوسف ہی نہ ہوں پھر جب اور غور و تأمل کیا تو کچھ علامات سے پہچان لیا اور مزید تحقیق کیلئے ان سے کہا Show more