Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 89

سورة يوسف

قَالَ ہَلۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا فَعَلۡتُمۡ بِیُوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ اِذۡ اَنۡتُمۡ جٰہِلُوۡنَ ﴿۸۹﴾

He said, "Do you know what you did with Joseph and his brother when you were ignorant?"

یوسف نے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf reveals His True Identity to His Brothers and forgives Them Allah says, when Yusuf's brothers told him about the afflictions and hardship, and shortages in food they suffered from in the aftermath of the drought that struck them, and he remembered his father's grief for losing his two children, he felt compassion, pity and mercy for his father and brothers. He felt this way, especi... ally since he was enjoying kingship, authority and power, so he cried and revealed his true identity to them when he asked them, قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ He said: "Do you know what you did with Yusuf and his brother, when you were ignorant! meaning, `when you separated between Yusuf and his brother,' ... إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ when you were ignorant! He said, `What made you do this is your ignorance of the tremendous sin you were about to commit.' It appears, and Allah knows best, that Yusuf revealed his identity to his brothers only then by Allah's command, just as he hid his identity from them in the first two meetings, by Allah's command. When the affliction became harder, Allah sent His relief from that affliction, just as He said He does, فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً Verily, along with every hardship is relief. Verily, along with every hardship is relief. (94:5-6) This is when they said to Yusuf,   Show more

جب بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اس عاجزی اور بےبسی کی حالت میں پہنچے اپنے تمام دکھ رونے لگے اپنے والد کی اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا نہ رہا گیا ۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف کے ساتھ ک... یا کیا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لئے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے ۔ قرآن فرماتا ہے آیت ( ثم ان ربک للذین عملو السوء بجھالتہ ) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا ۔ اب کی مرتبہ حکم ہو گیا ۔ آپ نے معاملہ صاف کر دیا ۔ جب تکلیف بڑھ گئی سختی زیادہ ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی ۔ جیسے ارشاد ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی ہے یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔ اب بھائی چونک پڑے کچھ اس وجہ سے کہ تاج اتار نے کے بعد پیشانی کی نشانی دیکھ لی اور کچھ اس قسم کے سوالات کچھ حالات کچھ اگلے واقعات سب سامنے آ گئے تاہم اپنا شک دور کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ ہاں میں خود یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و کرم کیا بچھڑنے کے بعد ملا دیا تفرقہ کے بعد اجتماع کر دیا تقوی اور صبر رائگاں نہیں جاتے ۔ نیک کاری بےپھل لائے نہیں رہتی ۔ اب تو بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی فضیلت اور بزرگی کا اقرار کر لیا کہ واقعی صورت سیرت دونوں اعتبار سے آپ ہم پر فوقیت رکھتے ہیں ۔ ملک و مال کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے ۔ اسی طرح بعض کے نزدیک نبوت کے اعتبار سے بھی کیونکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ بھائی نبی نہ تھے ۔ اس اقرار کے بعد اپنی خطا کاری کا بھی اقرار کیا ۔ اسی وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا میں آج کے دن کے بعد سے تمہیں تمہاری یہ خطا یاد بھی نہ دلاؤں گا میں تمہیں کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرنا نہیں چاہتا نہ تم پر الزام رکھتا ہوں نہ تم پر اظہار خفگی کرتا ہوں بلکہ میری دعاہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے وہ ارحم الراحمین ہے ۔ بھائیوں نے عذر پیش کیا آپنے قبول فرما لیا اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے اور تم نے جو کیا ہے اسے بخش دے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 جب انہوں نے نہایت عاجزی کے انداز میں صدقہ و خیرات یا بھائی کی رہائی کی اپیل کی تو ساتھ ہی باپ کے بڑھاپے، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا بھی ذکر کیا، جس سے یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا، آنکھیں نمناک ہوگئیں اور انکشاف حال پر مجبور ہوگئے۔ تاہم بھائیوں کی زیادتیوں کا ذکر کر کے ساتھ ہی اخلاق ... کریمانہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ یہ کام تم نے ایسی حالت میں کیا جب تم جاہل اور نادان تھے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] سیدنا یوسف کا اپنا آپ جتلا دینا :۔ اپنے بھائیوں اور گھر والوں کی یہ داستان غم ان الفاظ میں سن کر سیدنا یوسف (علیہ السلام) اب زیادہ دیر حالات پر پردہ ڈالے رکھنا برداشت نہ کرسکے۔ دل بھر آیا اور ان کی اسی التجا کے جواب میں ان سے یہ پوچھا : && کچھ وہ واقعہ بھی یاد ہے جو سلوک تم نے اپنے بھا... ئی یوسف سے کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اپنے اس چھوٹے بھائی بن یمین سے کرتے رہے ہو ؟ && اس سوال میں سیدنا یوسف نے پیرایہ بھی ایسا اختیار کیا جس سے انھیں مزید ندامت نہ ہو یعنی جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ ناسمجھی یا بےوقوفی کی بنا پر کرتے رہے ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ : بھائیوں کی بےبسی و درماندگی دیکھ کر اور صدقے کے سوال پر یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا اور معاملے کو مزید طول دینے کی تاب نہ رہی اور وہ وقت آگیا جس کے متعلق کنویں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی تھی کہ یہ لوگ جو کچھ اب کر رہے ہیں ای... ک وقت ضرور آئے گا جب تم انھیں اس کی خبر دو گے اور یہ سوچتے بھی نہ ہوں گے۔ چناچہ کچھ ناراضگی کا اظہار اور زیادہ تر ان کی غلطی کا عذر خود ہی کرتے ہوئے فرمایا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا، جب تم نادان تھے ؟ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ : یعنی جو کچھ تم نے کیا اس کی وجہ تمہاری نادانی اور بےوقوفی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) بھائیوں کو ان کی حرکت یاد دلاتے ہوئے کہہ سکتے تھے : ” وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ “ کہ جب تم ظلم کر رہے تھے، مگر اس خیال سے کہ وہ شرمندہ نہ ہوں خود ہی ان کے لیے معذرت کا پہلو نکال دیا۔ یہ انتہائی مروت کا مقام ہے جس کی توقع ایک نبی ہی سے ہوسکتی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ 89؀ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال...  الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔ قَالُوْٓا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ ۭ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَهٰذَآ اَخِيْ ۡ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا ۭ اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) یہ سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) ان سے فرمانے لگے وہ بھی تمہیں یاد ہے جو کچھ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا جب کہ تمہاری جہالت اور شباب کا زمانہ تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ ) آپ کا اپنے بھائیوں سے یہ سوال کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حرف بہ حرف ایفا تھا جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ان الفاظ میں ہوا تھا : (وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّءَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَ... شْعُرُوْنَ ) ۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ سب بھائی مل کر آپ کو باؤلی میں پھینکنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان الفاظ میں آپ کے دل پر الہام کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنے بھائیوں کو یہ بات ضرور جتلائیں گے اور یہ ایسے وقت اور ایسی صورت حال میں ہوگا جب یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٩۔ ٩٢۔ جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے سامنے اپنے سختی کا حال بیان کیا تو ان کا دل امنڈ آیا باپ کا خیال آیا کہ میرے فراق میں خدا جانے ان کی کیا حالت ہوگی اور پھر بنیامین ان سے جدا ہوگیا اس سے اور بھی ان کو صدمہ پہنچا ہوگا اور قحط سالی کی بلا جدا ہے غرض کہ ان باتوں کو یاد ک... ر کے یوسف (علیہ السلام) رونے لگے اور بھائیوں سے فرمایا کہ تم نے جو کچھ سلوک یوسف (علیہ السلام) اور اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ کیا وہ تمہیں خوب معلوم ہے کہ کس طرح مکرو فریب سے ان کو باپ سے جدا کیا اور حقیقت میں تمہاری نادانی نے تمہیں اس بات پر آمادہ کیا تھا جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ بات سنی تو تاڑ گئے کہ یہی یوسف (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے سر سے تاج اتارا اور اپنی پیشانی انہیں دکھلائی، ان کی پیشانی پر ایک تل تھا اس کو دیکھ کر انہوں نے پہچان لیا ١ ؎ کہ یہ یوسف (علیہ السلام) ہیں اور کہنے لگے کہ کیا سچ مچ تم ہی یوسف (علیہ السلام) ہو فرمایا کہ بیشک میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا چھوٹا بھائی بنیامین ہے خدا نے بڑا فضل اور ہم پر بہت ہی احسان کیا کہ بعد مدت دراز کے ہمیں ایک جگہ کیا جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور مصیبت کے وقت صبر کرتا ہے۔ اس کا اجر اللہ پاک ضائع نہیں کرتا ہے میرے اوپر کیسی کیسی مصیبت پڑی کنوئیں میں ڈالا گیا قافلہ والوں نے بیچ ڈالا پھر قید کی مصیبت برسوں سہی مگر زبان سے کچھ شکوہ نہیں کیا ہر حالت میں صبر ہی کرتا رہا اللہ پاک نے رحم کھا کر اپنا فضل ہم پر کیا اور مصر کی سلطنت ہمارے قبضہ میں دے دی جب بھائیوں نے دیکھا کہ اللہ اکبر ہم جسے عزیز مصر سمجھے ہوئے تھے وہ تو ہمارا بھائی نکلا جس کو ہم نے حسد کی راہ سے باپ سے جدا کیا تھا مگر اس کی تقدیر کہ یہ اس مرتبہ اور عزت کو پہنچ گیا دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس وقت ہم اس کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو اپنا بدلہ آسانی سے لے لے۔ اس لئے خدا کی قسم کھا کر ان لوگوں نے کہا کہ اللہ پاک نے تجھے ہر ایک بات میں ہم سے برتر رکھا اور تجھے ہم پر اختیار دیا ہے اور اس سے پہلے جو کچھ برائی ہم نے تیرے ساتھ کی ہے اس کا ہم اقرار کرتے ہیں کہ واقعی ہماری خطا تھی اور تو محض بےقصور تھا غرض کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان کی معذرت سن کر ان سے کہا کہ بھائی جو کچھ ہوا جانے دو اس کا خیال کب تک کیا کرو گے آج کے بعد پھر کوئی الزام تم پر نہ لگایا جائے گا۔ اور جو کچھ ہم سے خطا بھی واقع ہوئی ہے اللہ پاک وہ معاف کرے گا کیوں کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ سوتیلے بھائیوں کی بدسلوکی کے ذکر میں یوسف (علیہ السلام) نے مافعلتم بیوسف واخیہ کہہ کر بنیامین کو بھی اس ذکر میں جو شریک کیا اس کا سبب اوپر گزرا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بیچ ڈالنے کے بعد یہ سوتیلے بھائی بنیامین سے بھی توقیری سے پیش آتے تھے۔ تفسیر سدی میں اذ انتم جاھلون کا یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے اذ انتم جاھلون کہہ کر انہیں یہ جتلایا کہ یہ بد سلوکی کے وقت نہ تمہیں اس بد سلوکی کے وبال کا خیال تھا نہ یہ معلوم تھا کہ وہ بدسلوکی میرے حق میں آخر اللہ کی ایک رحمت ہوجاوے گی۔ سورت الحجرات میں آوے گا کہ پرہیز گاری اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عزت کی چیز ہے اور اس مضمون کی صحیح بخاری نسائی اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی روایتیں بھی ٢ ؎ ہیں اسی طرح صبر کے اجر کے باب میں بہت سی صحیح حدیثیں ٣ ؎ ہیں حاصل یہ ہے کہ سورت الحجرات کی آیت { ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم } اور یہ سب حدیثیں { انہ من یتق و یصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین } کی گویا تفسیر ہیں۔ احسان کے معنے خالص دل سے نیک کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے بچنے کے ہیں۔ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) کی ایک حدیث ٤ ؎ اس معنے کی تفصیل میں گزر چکی ہے۔ یغفر اللہ لکم کہہ کر یوسف (علیہ السلام) نے اپنے سوتیلے بھائیوں کے حق میں مغفرت کی دعا کی ہے اور پھر ان کو یہ جتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اس کی ذات سے مغفرت کی توقع رکھنی چاہیے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ سب شفاعتوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بہت سے گنہگاروں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں ڈالے گا اور یہ فرما دے گا کہ میں ارحم الراحمین ہوں ٥ ؎ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ارحم الراحمین ہونے کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر معالم التنزیل ص ٤٧٣ ج ٤۔ ٢ ؎ تفسری ابن کثیر ص ٢١٧۔ ٢١٨ ج ٤ تفسیر سورة الحجرات۔ ٣ ؎ التریب ص ٢٦٣ ج ٢ الترغیب فی الصبر۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ص الاکتاب الایمان۔ ٥ ؎ صحیح بخاری ص ١٢ ج ٢ باب وجوہ یومئذ ناضرۃ الخ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 89) اذ انتم جاھلون۔ جب تم نادان تھے۔ جب تم لا علمی کی وجہ سے اپنے فعل کی قباحت کے ادراک سے قاصر تھے۔ یہاں جہالت بمعنی لا علمی آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ دونوں میں جدائی ڈالی اور دونوں سے بیر رکھا۔ استفہام زجرو توبیخ کے لئے ہے۔ (شوکانی) ۔ 11 ۔ یعنی جو کچھ تم نے کیا اس کی وجہ تمہاری نادانی و بیوقوفی تھی۔ گویا حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بھائیوں کو ان کی حرکت تو یاد دلائی مگر اس خیال سے کہ وہ شرمندہ نہ ہوں خود ہی ان کے لئے معذرت کا پہلو نکال دیا...  یہ انتہائی مروت کا مقام ہے جس کی توقع ایک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی ہوسکتی ہے۔ (ازروح) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف کی بےبسی اور انتہا درجے کی عاجزی دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انتہا درجہ عاجز ہو کر ان کے سامنے فریاد کرتے ہیں۔ یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی عملی تعبیر کی ابتدا ہوتی ہے جو انہوں...  نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یقیناً حضرت یوسف (علیہ السلام) ابھی سوچ ہی رہے ہوں گے کہ میں نے بچپن میں خواب میں گیارہ ستاروں کو اپنے سامنے جھکتے ہوئے دیکھا تھا ہوسکتا ہے کہ اس کی تعبیر یہی ہو تب اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے یہ اجازت عنایت فرمائی کہ اے یوسف ! اب وقت آگیا ہے کہ تم ان سے یہ سوال کرو اور پھر انہیں اپنا تعارف کرواؤ۔ چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ان سے استفسار کرتے ہیں۔ کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جب تم جاہل تھے ؟ انہوں نے اس کے جواب میں یہ عرض کی کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر عظیم احسان فرمایا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرے اور صبر کرتا رہے یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال، اعلیٰ اخلاق، اپنے ساتھ مروّت اور میزبانی کا انداز، حکومت چلانے کا طریقہ، رعایا پروری اور ملک مصر کے ملحقہ علاقوں کے ساتھ بےلوث تعاون دیکھ چکے تھے۔ یقیناً احسان شناس لوگوں کی طرح اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ مصر کا بادشاہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔ یقیناً یہ کسی عظیم خاندان کا فرزند اور منفرد انسان ہے۔ تیسری دفعہ ملاقات کی وجہ سے انہیں یہ بھی ادراک ہو چلا ہوگا کہ بادشاہ ہمارے ساتھ اس طرح ملتا ہے جس طرح خونی رشتہ رکھنے والا ملا کرتا ہے۔ قرائن اور جمال و کمال نے انہیں یوسف (علیہ السلام) کو پہچاننے کے بالکل قریب کردیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوال پر چونک اٹھے کیونکہ اب پہچاننے میں کوئی حجاب باقی نہ رہا۔ جس بنا پر وہ عرض کرتے ہیں کہ کیا آپ یوسف ہیں ؟ لیکن سوالیہ انداز میں عرض کرتے ہیں جس کی وجہ بادشاہ کا دبدبہ، احترام اور اپنی غلطیوں کا احساس ہوسکتا ہے۔ چناچہ جھجکتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ یوسف ہیں ؟ سیدنا یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں ہاں میں ہی یوسف ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بنیامین کو بلا کر فرمایا یہ میرا بھائی ہے۔ یقیناً اس عروج و کمال میں ہمارا کوئی کمال اور دخل نہیں یہ محض اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص پر ضرور کرم فرماتا ہے جو اللہ سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں سے بچنے کی کوشش کرے اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے پریشانیوں پر صبر کرے۔ یقیناً ایسے صاحب کردار لوگوں کا اللہ تعالیٰ کبھی اجر ضائع نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے انہیں کسی قسم کا طعنہ اور جھڑک دینے کی بجائے صرف یہ فرمایا کہ کیا تمہیں یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنا سلوک یاد ہے ؟ جب تم جاہل تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ لفظ بول کر ایک طرح ان کی شرمندگی کم کرنے کوشش کی کہ جو کچھ ہوا یہ جہالت کی وجہ سے ہوا جس میں یہ نقطہ سمجھایا کہ بھائیوں کے ساتھ زیادتی کرنا جہالت کا کام ہے جس سے بچنا چاہیے۔ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو ان کی جہالت یاد کروائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے اور صبر کرنے والوں کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا : ١۔ بیشک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف : ٩٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ (آل عمران : ١٩٥) ٣۔ صبر کرو اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٤۔ ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ عطا کریں گے۔ (البقرۃ : ٥٨) ٥۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ : ١٩٥) ٧۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ : ١٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٩ اب ان کے کانوں میں ایک ایسی آواز پڑی جو انہیں مانوس نظر آئی۔ انہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چہرے کے خدو خال اب ایسے نظر آئے کہ وہ دیکھا ہوا چہرہ ہے۔ اس سے قبل وہ اپنے آپ کو بظاہر عزیز مصر کے سامنے پاتے تھے اور یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ یہ شخص یوسف (علیہ السلام) بھی ہو سکتا ہے کیونک... ہ وہ شاہی دربار کے رعب کے نیچے تھے لیکن اب دور ہی سے انہیں نظر آگیا کہ یہ تو بھائی کا چہرہ ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

وہ لوگ اپنی معروض پیش کر ہی رہے تھے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے سوال فرمالیا (ھَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰھِلُوْنَ ) (کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا جبکہ تم جاہل تھے) بھائیوں نے تو غلہ طلب کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ا... ن سے یہ فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ بعض حضرات نے ان دونوں باتوں میں ربط بتاتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ قحط سالی کی وجہ سے ہمارے اور ہمارے گھر والوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے یہ تو بہت بڑی تکلیف نہیں کسی نہ کسی طرح زندگی گزار ہی رہے ہو پھر یہ تکلیف ابھی قریب زمانہ ہی سے شروع ہوئی ہے لیکن تم نے برسہا برس سے جو اپنے والد کو یوسف سے جدا کر کے تکلیف پہنچائی ہے ‘ اور بنیامین کے ساتھ جو یوسف کے بعد بدسلوکی کرتے رہے ہو بتاؤ تمہارے والد کے لئے اور سارے گھر والوں کے لیے کونسی تکلیف زیادہ ہے۔ یہ عارضی غلے کی کمی زیادہ تکلیف دہ ہے یا وہ تمہاری سابقہ حرکتیں زیادہ تکلیف دہ ہیں ؟ اپنے اس سوال کو انہوں نے استفہام تقریری کی صورت میں ان پر ڈال دیا اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ یہ بات سن کر انہیں بڑا اچنبھا ہوا کہ عزیز مصر کو یوسف کا قصہ کہاں سے اور کیسے معلوم ہوا ؟ اور مزید یہ کہ اسے اس کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہیں اس کا ذرا احتمال نہ تھا کہ یہ سوال کرنے والا شخص یوسف ہوسکتا ہے اور یوسف ایسے بڑے مرتبہ پر پہنچ سکتا ہے لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوال کا جو انداز تھا اس سے انہوں نے بھانپ لیا کہ ہو نہ ہو یہ سوال کرنے والا شخص یوسف ہی ہے ‘ لہٰذا وہ کہنے لگے (اَءِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفَ ) (کیا واقعی تم یوسف ہو) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا (اَنَا یُوْسُفُ وَھٰذَا اَخِیْ ) (میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے) (قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا) (بلاشبہ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا) گویا اشارۃً یوں فرما دیا کہ تم نے تو ظلم و زیادتی میں کسر نہ چھوڑی لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا جو تکلیفیں پہنچی تھی ان کا ذکر نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ‘ مومن کی یہی شان ہے کہ تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے اور مصیبت کے ٹل جانے کے بعد بھی جو نعمتیں ملتی رہتی ہیں ان پر نظر رکھتا ہے اور برابر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے پھر یہ شکر نعمتوں کے اور زیادہ بڑھنے کا ذریعہ بن جاتا ہے جیسا کہ سورة ابراہیم میں فرمایا (لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ ) (البتہ اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں ضرور ضرور اور زیادہ دوں گا) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76:۔ اب کی بار جب بھائیوں نے اپنے اہل و عیال کی تکلیف اور فاقہ کا ذکر کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) بےاختیار ہوگئے اور راز فاش کردیا اور بھائیوں سے کہا کیا تمہیں معلوم ہے جو سلوک تم یوسف اور اس کے بھائی بنیامین سے کیا کرتے تھے جب تم نادان تھے۔ ولما قالوا مَسَّنَا وَ اَھْلَنَا الضُّرُّ و تضرعوا الیہ...  و طلبوا منہ ان یتصدق علیھم ارفضت عیناہ ولم یتمالک ان عفرھم نفسہ (مدارک ج 2 ص 181) ۔ ” قَالُوْا ءَاِنَّکَ الخ “ بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ ایک راز تھا جسے ان کے اور یوسف (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اس لیے وہ سمجھ گئے یہ یوسف ہی ہے اور بول اٹھے کیا تم یوسف ہی ہو ؟۔ ” قَالَ اَنَا یُوْسُفُ الخ “ انہوں نے فرمایا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا کہ طویل جدائی کے بعد ہمیں دوبارہ ملا دیا حقیقت یہ ہے کہ جو شخص راہ تقویٰ اختیار کرے اور مصائب پر صبر کرے اللہ تعالیٰ ایسے نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں سے کہا کچھ تم کو وہ سلوک اور وہ برتائو بھی یاد ہے اور تم کو معلوم ہے جو تم نے یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ اس زمانہ میں کیا تھا جب تم جہالت میں مبتلا تھے۔ یعنی اس بات کو سن کر گھبرائے کہ عزیز مصر کو اس سے کیا بحث ! اور یہاں یوسف (علیہ السلام) کا ... تذکرہ کیسا پھر سنبھل کر غور کیا ، شاید پہچانے ہوں کہ ہم نے مصری قافلہ کے ہاتھ اسکو فروخت کیا تھا کہیں یہ یوسف (علیہ السلام) ہی نہ ہو اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی اذا نتم جاہلوں کہہ کر سوال جرم کو نرم کردیا۔  Show more