Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 9

سورة يوسف

اقۡتُلُوۡا یُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡہُ اَرۡضًا یَّخۡلُ لَکُمۡ وَجۡہُ اَبِیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ قَوۡمًا صٰلِحِیۡنَ ﴿۹﴾

Kill Joseph or cast him out to [another] land; the countenance of your father will [then] be only for you, and you will be after that a righteous people."

یوسف کو تو مار ہی ڈالو یا اسے کسی ( نامعلوم ) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہو جائے ۔ اس کے بعد تم نیک ہو جانا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اقْتُلُواْ يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ ... Kill Yusuf or cast him out to some (other) land, so that the favor of your father may be given to you alone, They said, `Remove Yusuf, who competes with you for your father's love, from in front of your father's face so that his favor is yours alone. Either kill Yusuf or banish him to a distant land so that you are rid of his trouble and you alone enjoy the love of your father.' ... وَتَكُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ and after that you will be righteous folk. thus intending repentance before committing the sin,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اس سے مراد تائب ہوجانا ہے یعنی کنوئیں میں ڈال کر یا قتل کر کے اللہ سے اس گناہ کے لئے توبہ کرلیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] صالحین کے دو مفہوم :۔ باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ترکیب انہوں نے یہ سوچی کہ کسی طرح یوسف کو غائب ہی کردیا جائے یا تو اسے مار ہی ڈالا جائے۔ یا پھر کسی دور دراز مقام میں اسے پہنچا دیا جائے تاکہ وہاں سے وہ واپس نہ آسکے۔ اس طرح ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ اب چونکہ وہ ایک جلیل القدر نبی کی اولاد بھی تھے۔ اس لیے ایسے فعل کے ارتکاب پر ان کا ضمیر انھیں ملامت بھی کر رہا تھا۔ اس کا حل یہ سوچا گیا کہ پہلے اپنی خواہش نفس تو پوری کرلیں۔ بعد میں تو بہ کرکے نیک بن جائیں گے۔ یہی وہ شیطانی چالیں تھیں جن کے متعلق یعقوب کو پہلے سے ہی اندیشہ تھا۔ (وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ ۔ ) 12 ۔ یوسف :9) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم لوگ یوسف کو ٹھکانے لگا دو گے تو اس کے بعد از خود ہی تم لوگ اپنے باپ کو اچھے لگنے لگو گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا : دیکھیے حسد انسان کو کہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ آدمی صغیرہ گناہ کو کبیرہ اور کبیرہ کو صغیرہ سمجھنے لگتا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) کا باپ کی نظر میں زیادہ محبوب ہونا بھائیوں کی نظر میں اتنا بڑا جرم بن گیا کہ اس کی وجہ سے قتل ناحق جو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، ان کی نگاہ میں معمولی بن گیا۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے میں بھی حسد نے ایک بےگناہ کا قتل قاتل کی نگاہ میں جائز بلکہ خوش نما بنادیا۔ دوسری تجویز بھی کم خطرناک نہ تھی۔ ” طَرْحٌ“ کا معنی ہے دور پھینک دینا۔ ” اَرْضًا “ نکرہ ہے، یعنی اسے کسی نامعلوم زمین میں پھینک دو ، تاکہ وہیں مرجائے۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے متعلق فرمایا : (وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ) [ الحشر : ٣ ] ” اور اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ان (بنو نضیر) پر جلاوطن ہونا لکھ دیا تھا تو وہ یقیناً انھیں دنیا میں سزا دیتا۔ “ معلوم ہوا کہ جلاوطنی اور وہ بھی نامعلوم سرزمین میں، کم عذاب نہیں ہے۔ يَّخْلُ لَكُمْ ۔۔ :” يَّخْلُ “ اصل میں ” یَخْلُوْ “ تھا۔ ” اقْــتُلُوْا “ (امر) کے جواب میں مجزوم ہونے کی وجہ سے اس کی واؤ اور ” تَکُوْنُوْنَ “ کا نون گرگئے، یعنی یوسف کے قتل یا غائب کردینے سے تمہارے والد صاحب کی توجہ صرف تمہارے لیے رہ جائے گی۔ ” وَجْہ “ کا معنی چہرہ ہے اور چہرے کے ساتھ ہی توجہ ہوتی ہے۔ والد کی محبت میں شریک غالب کا کانٹا نکلنے کی دیر ہے، وہ تمہارے ہی ہوجائیں گے۔ حسد نے انھیں ایسا اندھا کیا کہ یہ بھی نہ سوچا کہ اس بوڑھی جان پر کیا گزرے گی، انھیں یوسف (علیہ السلام) کی عداوت میں نہ باپ پر گزرنے والی حالت کا کوئی خیال آیا نہ یوسف پر رحم آیا۔ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : اتنے بڑے جرم پر ملامت کرنے والے ضمیر کو انھوں نے یہ تسلی دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی کہ یوسف کا قصہ تمام کرکے تم نیک لوگ بن جانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی سنگ دلی کے باوجود انھیں اپنے مجرم ہونے کا احساس تھا۔ یہ شیطان کا بندے کو گناہ میں مبتلا کرنے کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے کہ گناہ کرلو، بعد میں توبہ کرلینا، لیکن شیطان کے اس وار سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیا خبر کہ اس کے بعد توبہ کا موقع ہی نہ ملے، پہلے ہی موت آجائے، جس کا وقت کسی کو بتایا ہی نہیں گیا، تاکہ ہر شخص موت کے کسی بھی وقت آجانے کے خیال سے گناہ سے باز رہے، فرمایا : (وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) [ آل عمران : ١٠٢ ] ” اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ “ پھر اس کی بھی کیا خبر کہ وقت ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے اس کی طرف سے توبہ کی توفیق ہی نہ ملے۔ فرمایا : (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ) [ الأنفال : ٢٤ ] ” اور جان لو کہ بیشک اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔ “ ایک معنی ” وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ “ کا یہ بھی کیا گیا ہے کہ یوسف کے بعد تم درست معاملے والے لوگ بن جانا، یعنی والد کو راضی کرلینا اور آپس میں شیر و شکر ہوجانا۔ یہ معنی ہو تو بھی وہ دھوکے ہی میں مبتلا تھے۔ اپنے لخت جگر کو غائب کرنے والوں سے ظاہری صلح ہو بھی جائے تو ہر وقت غم سے بھرا ہوا دل پہلی حالت میں کیسے آسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse (9) describes how the brothers exchanged opinions among themselves. Some suggested that Yusuf be killed. Others opted for throwing him into a desolate pit so that the thorn in their side could be removed and they could thus become the sole recipients of their father&s attention. As for the sin they would be earning for themselves by killing or throwing him in a pit that was something which could be taken care of later when they could repent for what they did and thus become righteous. This is the meaning of the sentence: وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِين (and after that you may become a righteous people) according to some reports. And the verse could also be taken to mean that things will come out right for them after the killing of Yusuf because that focus of the father&s attention on Yusuf (علیہ السلام) will not be there anymore, or that they would, once they have apologized to their father after the killing of Yusuf, become normal as they were. This proves that these brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) were not prophets because, in this case, they had committed many major sins, such as, the intention to kill someone innocent, disobedience to their father and causing pain to him, contravention of pledge, conspiracy, and things like that. Such sins, according to the Muslim consensus, cannot be committed by the noble prophets, may peace be upon them all, even before they are ordained to be one.

تیسری آیت میں یہ بیان ہے کہ ان بھائیوں میں مشورہ ہوا بعض نے یہ رائے دی کہ یوسف (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو، بعض نے کہا کہ کسی غیرآباد کنویں کی گہرائی میں ڈال دو تاکہ یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے اور تمہارے باپ کی پوری توجہ تمہارے ہی طرف ہوجائے رہا یہ گناہ جو اس کے قتل یا کنویں میں ڈالنے سے ہوگا سو بعد میں توبہ کر کے تم نیک ہو سکتے ہو آیت کے جملہ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ کے یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یوسف کے قتل کے بعد تمہارے حالات درست ہوجائیں گے کیونکہ باپ کی توجہ کا یہ مرکز ختم ہوجائے گا یا یہ کہ قتل کے بعد باپ سے عذر معذرت کر کے تم پھر ویسے ہوجاؤ گے، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ یوسف (علیہ السلام) کے یہ بھائی انبیاء نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اس واقعہ میں بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ایک بےگناہ کے قتل کا ارادہ باپ کی نافرمانی اور ایذاء رسانی، معاہدہ کی خلاف ورزی، پھر جھوٹی سازش وغیرہ، انبیاء (علیہم السلام) سے قبل نبوت بھی جمہور کے عقیدہ کے مطابق ایسے گناہ سرزد نہیں ہو سکتے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْہُ اَبِيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ۝ ٩ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] طرح الطَّرْحُ : إلقاء الشیء وإبعاده، والطُّرُوحُ : المکان البعید، ورأيته من طَرْحٍ أي : بُعْدٍ ، والطِّرْحُ : المَطْرُوحُ لقلّة الاعتداد به . قال تعالی: اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً [يوسف/ 9] . ( ط ر ح ) الطرح کے معنی کسی چیز کو پھینکنے اور دور کردینے کے ہیں اور دوردراز مقام کو الطروح کہاجاتا ہے ۔ محاورہ ہے ؛رائتہ من طرح میں نے اسے دور سے دیکھا ۔ الطرح پھینکی ہوئی چیز جس کی کسی کو ضرورت نہ ہو قرآن میں ہے : اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً [يوسف/ 9] تو یوسف (علیہ السلام) کو یا تو جان سے مارڈالو یا کسی دور دراز ملک میں پھینک آؤ ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجر ات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے اقتلوا یوسف او طرحوہ ارضا ً یخل لکم وجہ ابیکم چلو یوسف کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے تا آخر آیت ۔ برادران یوسف نے آپ میں یہ فیصلہ کرلیا کہ یا تو یوسف کو قتل کر دیاجائے یا باپ سے انہیں دور کردیا جائے ۔ جس چیز کی بنیاد پر انہوں نے اس فعل کو جائز قرار دے کر اس کے ارتکاب کی جرأت کرلی تھی اسے قرآن کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ وتکونوا من بعدۃ قوما ً صلحین یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا ۔ اس فعل کے ارتکاب کے بعد انہوں نے توبہ کرلینے کی توقع رکھی تھی ، اس کی مثال یہ قول باری ہے بل یرید الانسان لیفجر ا مامہ۔ اصل یہ ہے کہ انسان تو یہی چاہتا ہے کہ آئندہ بھی فسق و فجور ہی کرتا ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ انسان اس توقع پر گناہ کا عزم کرلیتا ہے کہ وہ اس کا ارتکاب کے بعد توبہ کرلے گا ۔ وہ اپنے دل میں کہتا ہے ۔ میں یہ گناہ کرلینے کے بعد توبہ کرلوں گا ۔ آیت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قاتل کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ برادران یوسف نے یہ کہا تھا کہ یوسف کو قتل کرنے کے بعد ہم نیک بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات نقل کردی لیکن اس پر تنقید نہیں کی، نہ ہی تردید کی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یوسف کو قتل کر دو یا کسی دور دراز علاقے میں چھوڑ آؤ، اس صورت میں تمہارے باپ کا رخ صرف تمہاری طرف ہوجائے گا اور تم یوسف کے قتل کے بعد ان کے قل کے گناہ سے توبہ کرلینا یا یہ کہ پھر تمہارے باپ کے ساتھ تمہارے سب معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ ) یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ چناچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہوگی۔ (وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ ) اس فقرے میں ان کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آرہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو ؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے ! لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آجاتا ہے جیسا کہ ہم نے سورة المائدۃ آیت ٣٠ میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا : (فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ) ” پس قابیل کے نفس نے اسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔ “ اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو ‘ پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کردیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10. This sentence depicts the true psychology of those people who give themselves up to the lusts of their hearts, and, at the same time, do not want to break away completely from faith and religion. This is how a person of this type behaves. Whenever he is tempted to do a certain evil thing, he makes up his mind to do it first and puts off the demands of his faith for the time being. And if his conscience pricks him, he tries to soothe it, saying: Have a little patience. Let me first do this evil thing, which is an obstacle in my way. Then I will repent and become as good as thou desirest to see me. As the brothers of Prophet Joseph belonged to this type, they soothed their pricking consciences, saying: After doing away with Joseph, who is the chief obstacle in our way, we will again become righteous.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :10 یہ فقرہ ان لوگوں کے نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خواہشات نفس کے حوالے کر دینے کے ساتھ ایمان اور نیکی سے بھی کچھ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی نفس ان سے کسی برے کام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ایمان کے تقاضوں کو ملتوی کر کے پہلے نفس کا تقاضا پورا کرنے پر تل جاتے ہیں اور جب ضمیر اندر سے چٹکیاں لیتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا صبر کر ، یہ ناگزیر گناہ ، جس سے ہمارا کام اٹکا ہوا ہے ، کہ گزرنے دے ، پھر ان شاءاللہ ہم توبہ کر کے ویسے ہی نیک بن جائیں گے جیسا تو ہمیں دیکھنا چاہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یہ ترجمہ اس آیت کی ایک تفسیر کے مطابق ہے گویا اُن کا خیال یہ تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک گناہ ہوگا، اور ہر گناہ کی معافی توبہ سے ہو سکتی ہے، چنانچہ توبہ مانگ کر پھر ساری عمر نیکی کرتے رہنا۔ حالانکہ کسی بندے پر اگر ظلم کیا جائے تو اُس کی معافی صرف توبہ سے نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ مظلوم معاف نہ کرے۔ اس جملے کی ایک اور تفسیر بھی ممکن ہے، اور وہ یہ کہ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم بعد میں نیک بن جائیں گے، بلکہ ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’یہ سب کرنے کے بعد تمہارے سارے کام درست ہوجائیں گے‘‘ یعنی والد کی طرف سے کسی امتیازی سلوک کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ قرآنِ کریم کے الفاظ میں اس معنیٰ کی بھی گنجائش موجود ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مسنگ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:9) اطرحوہ۔ اس کو پھینک دو ۔ اس کو دور کہیں پھینک آو۔ طرح یطرح (فتح) طرح جس کے معنی پھینک دینے اور دور ڈال دینے کے ہیں۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ یحل لکم۔ خلا یخلو خلاء وخلو (باب نصر) خالی ہونا۔ خالی رہ جانا۔ خلا الانائ۔ برتن خالی ہوگیا۔ خلا الرجل۔ آدمی تنہا رہ گیا۔ یخل لکم وجہ ابیکم تمہارے لئے خالی ہوجائے گا تاکہ تمہارے باپ کی توجہ (صرف) تمہاری طرف ہوجائے ۔ وتکونوا من بعدہ قوما صلحین۔ اس کے بعد تمہارے سب کام بن جائیں گے۔ یا اس کا معنی یہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد تم بھلے آدمی بن جانا۔ (یعنی توبہ کرکے نیک بن جانا) اکثر مفسرین نے اسی پہلو کو اختیار کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی اپنے باپ کی نظر میں پسندیدہ ہوجائو گے یا بعد میں توبہ کرکے نیک بن جانا۔ بعض نے خیال کیا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے یہ بھائی بھی بعد میں نبی ہوگئے تھے جیسا کہ آیت قولوا امنا باللہ میں والا سباط کے کلمہ سے شبہ وہتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ” الاسباط “ سے بنی اسرائیل کے بارہ سبط (قبیلے) مراد ہیں اور ان قبیلوں سے جو نبی ہوئے ہیں وہ مراد ہیں۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی صلبی اولاد مراد نہیں ہے ہاں یہ صحیح ہے کہ ان بھائیوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔ (ابن کثیر۔ روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کیونکہ وہ دونوں صورتوں میں باپ سے جدا ہوجائیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بردران یوسف کا اپنے باپ اور بھائی کے بارے میں منفی خیالات کے تحت خفیہ اجلاس کرنا اور ایک گھناؤنے فعل پر متفق ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس بیٹے اپنے بھائی کے خلاف سازش کرنے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور یہ سوچ و بچار کرنے لگے کہ یوسف سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔ جن میں ٩ (نو) بھائی اس بات پر متفق ہوئے کہ یوسف کو جان سے مار ڈالنا چاہیے یا کہیں دور پھینک دینا چاہیے۔ اس کے بعد باپ کی توجہ خود بخود تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اس جرم کے بعد ہم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرکے پھر نیکو کار بن جائیں گے۔ (یاد رہے کہ بعد میں توبہ کرنے کی نیت سے گناہ کرنے سے گناہ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی فکر سے محفوظ فرمائے۔ ) برادران یوسف نے اسی سوچ کے تحت یہ سازش تیار کی تھی۔ دسویں بھائی جس کا نام یہودہ بیان کیا گیا ہے جو سب سے بڑا تھا۔ اس نے برادران کو قتل یوسف سے منع کیا اور انہیں سمجھایا کہ ہمارا مقصد تو اپنے باپ کی توجہ چاہنا ہے۔ اس لیے ہمیں قتل جیسا سنگین جرم نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ یوسف سے ضرور چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو یوسف کو کسی گمنام کنویں میں پھینک دو اسے کوئی راہ گذر قافلہ اٹھا کے لے جائے گا۔ اس بات پر متفق ہونے کے بعد وہ سب کے سب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ اسی طرح کی سوچ و بچار اور سازش اہل مکہ نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کی تھی۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی توجہ روز بروز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہو رہی ہے۔ اور ہر روز کسی نہ کسی خاندان سے کوئی نہ کوئی شخص حلقۂ اسلام میں داخل ہو رہا ہے۔ تو انہوں نے ایک خفیہ مشاورت میں طے کیا تھا۔ (وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالِیُثْبِتُوْکَ أَوْ یَقْتُلُوْکَ أَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللَّہُ وَاللَّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ )[ الانفال : ٣٠] ” اے رسول وہ وقت یاد کیجیے جب کافر آپ کے خلاف سازش کرتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اسے قید کردیا جائے یا قتل کردینا چاہیے یا اسے ہمیشہ کے لیے اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ وہ اس طرح کی سازشیں کر رہے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک تدبیر کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ کیا۔ ٢۔ بعض لوگ جرم اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ بعد میں توبہ کرلیں گے جو پرلے درجے کا گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار مکرو فریب کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے : ١۔ کفار نے مکرو فریب کیا اور اللہ نے تدبیر کی، اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ٥٤) ٢۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (الانفال : ٣٠) ٣۔ ان کے مکر کا انجام دیکھیں ہم نے مکر کرنے والوں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل : ٥١) ٤۔ عنقریب جرائم اور مکر و فریب کرنے والوں کو اللہ کے ہاں سے ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (الانعام : ١٢٤) ٥۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کے مکر کے مقابلہ میں تدبیر کی اور انہیں اس کا شعور بھی نہیں تھا۔ (النمل : ٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا : " چلو یوسف کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو " دونوں باتیں قباحت اور جرم کے اعتبار سے ایک ہیں ، کیونکہ کسی بچے کو ایک ایسی زمین پھینکنا جو دور دراز ہو ، گویا اسے قتل کرنے کے برابر ہے کیونکہ ایسے حالات میں اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ اور کیوں ایسا کرو ؟ يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ : " تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے " اب یوسف تمہاری راہ کی رکاوٹ نہ رہیں گے۔ یعنی ان کا دل یوسف کی محبت سے خالی ہوجائے گا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ یوسف موجود ہی نہیں ہے۔ حضرت یعقوب اس سے محبت نہ کریں گے۔ اور ان سے محبت شروع ہوجائے گی۔ اور یہ کس قدر عظیم جرم ہے ؟ تو اس کا علاج یہ ہے کہ یہ اس سے توبہ کرلیں گے ، صالح ہوجائیں گے اور توبہ و صلاح سے ماضی کے جرائم معاف ہوجائیں گے۔ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : " یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا " یوں شیطان کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا کردے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر غصے میں آجاتے ہیں ہیں وہ بعض کو بعض پر حملہ آور ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور غصے کی حالت میں انسان کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا۔ اور انسان واقعات اور امور کا اچھی طرح جائزہ نہیں لے سکتا۔ چناچہ جب برادران یوسف کے دلوں میں کینہ کی آگ بھڑک اٹھی تو عین اس وقت شیطان پردے سے سامنے آیا اور کہا کہ اسے قتل کردو ، اس کے بعد توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، حالانکہ توبہ ایسی نہیں ہوتی۔ توبہ اس صورت میں ہوتی ہے کہ انسان سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اس پر پشیمان ہوجائے۔ یہ توبہ نہیں کہ پہلے توبہ کرنے کے ارادے سے غلطی کرے۔ منصوبے کے تحت جرم کرے۔ درحقیقت یہ توبہ سے غلط فائدہ اٹھانا ہے اور توبہ کو ارتکاب جرائم کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اور یہ انداز انسان کو شیطان سکھاتا ہے رحمن نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا مشورہ کہ اسے قتل کر دو یا کسی دور جگہ لے جا کر ڈال دو ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کا جو واقعہ ہے اس میں سوال کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے آزمائش کے طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا واقعہ معلوم کیا تھا قرآن کریم میں واقعہ بیان کردیا گیا جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا دیا لہٰذا سوال کرنے والوں کیلئے لائی ہوئی بات کے دلائل قائم ہوگئے کہ واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں ممکن ہے کہ بعض یہود نے بطور امتحان سوال کیا ہو اور بعض نے آپ سے تلاوت کرتے ہوئے سنا ہو پھر دوسروں کو سنانے کے لیے لائے ہوں اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا قول نقل فرمایا کہ انہوں نے آپس میں یوں کہا کہ ہمارے والد کو یوسف اور اس کا حقیقی بھائی یعنی بنیامین زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہماری پوری جماعت ہے (اور اس جماعت کا ہمارے والد کو فائدہ بھی ہے کیونکہ ہم لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں یہ دونوں چھوٹے بچے خدمت کے قابل بھی نہیں ہیں) ہمارے ابا جان کا جو محبت کا رخ ان دونوں کی طرف ہے یہ صحیح نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والد اس بارے میں صریح غلطی پر ہیں ‘ والد کا رخ ہماری طرف اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ ہم یوسف کو ان کے سامنے سے ہٹا دیں اور اس کے دو طریقے ہیں یا تو اس کو قتل کردیں یا کہیں دور دراز جگہ پر پھینک دیں جہاں سے کوئی خیر خبر نہ پہنچے ‘ جب یوسف ان کے سامنے سے دور ہوجائے گا تو سارا رخ ہماری ہی طرف ہوگا اور ہمیں اپنے والد کی طرف سے بہت کچھ مل سکے گا جس کی وجہ سے ہم صلاح اور فلاح والے ہوجائیں گے (چونکہ یوسف اور بنیامین میں یوسف ہی زیادہ محبوب تھا اس لئے انہوں نے یہ سمجھا کہ دونوں میں سے ایک کو جدا کردینا ہماری کامیابی کا ذریعہ بن جائے گا) مشورہ ہو ہی رہا تھا کہ انہیں میں سے ایک بھائی نے کہا کہ اگر تمہیں ایسا کرنا ہی ہے تو یوسف کو قتل نہ کرو البتہ یوسف کو کسی اندھے کنویں میں ڈال دو قتل کے گناہ سے بچ جاؤ گے اور گزرنے والے تو گزرا ہی کرتے ہیں کنویں کے پاس سے کوئی قافلہ گزرے گا تو اس کی آواز سن لے گا یا پانی نکالنے کے لئے کنویں کے پاس پہنچ کر ڈول ڈالے گا تو اسے پتہ چل جائے گا کہ یہاں کوئی بچہ ہے لہٰذا وہ اسے نکال لے گا اور اٹھا کرلے جائے گا اس طرح بچہ باپ سے بھی دور ہوجائے گا اور اس کی جان بھی نہ جائے گی۔ مفسر ابن کثیر نے قتادہ اور محمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ یہ رائے سب سے بڑے بھائی نے دی تھی جس کا نام روبیل تھا اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدرنے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمانا تھی اور مصر میں با اقتدار بنانا تھا لہٰذا قتل تو کر ہی نہیں سکتے تھے بڑے بھائی کا مشورہ قبول کرلیا اور اندھیرے کنویں میں ڈال دیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ مفسر ابن کثیر نے محمد ابن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ ان لوگوں نے متعدد وجوہ سے بہت ہی بری بات کا فیصلہ کیا قطع رحمی ‘ والد کو تکلیف دینا ‘ معصوم چھوٹے بچے پر شفقت نہ کرنا ‘ بوڑھے باپ پر ترس نہ آنا ‘ یہ سب ایسے کام ہیں جو مجموعی حیثیت سے متعدد گناہوں پر مشتمل ہیں۔ (وَتَکُوْنُوْا مِنْ م بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ ) ایک مطلب تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا اور ایک مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو کچھ کرنا ہے کر گزرویہ ہے تو گناہ کا کام لیکن بعد میں توبہ کر کے نیک بن جانا ‘ اس مضمون کی طرف مفسر ابن کثیر نے ص ٤٧١ ج ٢ میں اشارہ فرمایا فاضمروا التوبۃ قبل الذنب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 تو اب یوسف (علیہ السلام) کو یا تو قتل کرڈالو یا اس کو کہیں اور کسی سرزمین پر پھینک آئو اس سے تمہارے باپ کی توجہ خالی تمہارے لئے رہ جائے گی اور تمہارے باپ کا رخ خالص تمہاری طرف ہوجائے گا اور اس واقعہ کے بعد تم نیک ہوجانا مشورے میں یہ باتیں پیش ہوئیں اور خیال یہ کیا گیا کہ اصل تو یوسف (علیہ السلام) ہے اگر یوسف (علیہ السلام) کو مارڈالو یا کسی دور دراز سرزمین پر پھینک آئو تو سب قصہ ختم ہوجائے گا۔ بن یامین سے بھی محبت اسی بنا پر ہے کہ وہ یوسف (علیہ السلام) سگا بھائی ہے جب یوسف (علیہ السلام) ہٹ جائے گا تو پھر باپ کا رخ فقط تمہاری طرف ہوگا اور ایک گناہ ضرور ہم سے ہوگا تو ہم اس کے بعد نیک بن جائیں گے یا اس کے بعد تمہارے سب کام درست ہوجائیں گے اور یہ روز کا خدشہ ہٹ جائے گا۔