Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 90

سورة يوسف

قَالُوۡۤا ءَاِنَّکَ لَاَنۡتَ یُوۡسُفُ ؕ قَالَ اَنَا یُوۡسُفُ وَ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۫ قَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۰﴾

They said, "Are you indeed Joseph?" He said "I am Joseph, and this is my brother. Allah has certainly favored us. Indeed, he who fears Allah and is patient, then indeed, Allah does not allow to be lost the reward of those who do good."

انہوں نے کہا کیا ( واقعی ) تو ہی یوسف ( علیہ السلام ) ہے جواب دیا کہ ہاں میں یوسف ( علیہ السلام ) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر فضل و کرم کیا بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالٰی کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ أَإِنَّكَ لاَاَنتَ يُوسُفُ ... Are you indeed Yusuf! in amazement, because they had been meeting him for more than two years while unaware of who he really was. Yet, he knew who they were and hid this news from them. Therefore, they asked in astonishment, ... أَإِنَّكَ لاَإَنتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَاْ يُوسُفُ وَهَـذَا أَخِي ... Are you indeed Yusuf! He said: "I am Yusuf, and this is my brother..." Yusuf said next, ... قَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَيْنَا ... `Allah has indeed been gracious to us. by gathering us together after being separated all this time,' ... إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيِصْبِرْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 بھائیوں نے جب عزیز مصر کی زبان سے اس یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ سنا، جسے انہوں نے بچپن میں کنعان کے ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا تھا، تو وہ حیران بھی ہوئے اور غور سے دیکھنے پر مجبور بھی کہ کہیں ہم سے ہم کلام بادشاہ، یوسف (علیہ السلام) ہی تو نہیں ؟ ورنہ یوسف (علیہ السلام) کے قصے کا اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے ؟ چناچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تو یوسف (علیہ السلام) ہی تو نہیں ؟ 90۔ 2 سوال کے جواب میں اقرار و اعتراف کے ساتھ، اللہ کا احسان کا ذکر اور صبر وتقویٰ کے نتائج حسنہ بھی بیان کر کے بتلا دیا کہ تم نے مجھے ہلاک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ کنوئیں سے نجات عطا فرمائی، بلکہ مصر کی فرمانروائی بھی عطا فرما دی اور یہ نتیجہ ہے اس صبر اور تقویٰ کا جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] بھائیوں کا چونک اٹھنا اور اظہار ندامت :۔ شاہ مصر کے اس سوال پر وہ ایک دم چونک اٹھے کہ اسے ان باتوں کی کیسے خبر ہوگئی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ شاہ مصر یوسف ہی ہو ؟ پھر اپنی اس حیرت واستعجاب کو دور کرنے کے لیے شاہ مصر سے سوال کیا &&: کیا آپ یوسف ہی تو نہیں ؟ && شاہ مصر نے جواب دیا : && ہاں میں یوسف ہی ہوں اور جسے میں نے پچھلی مرتبہ روک لیا تھا وہ میرا چھوٹا بھائی بن یمین ہے، جو اب میرے پاس ہے۔ دیکھ لو اللہ نے ہم پر کیسی رحمت فرمائی اور ہم دونوں بھائیوں کو طویل جدائی کے بعد ملا دیا۔ اور ذلت کو عزت سے، تکلیف کو راحت سے، اور تنگی کو آرام و سکون سے بدل دیا۔ جس بھائی کو تم نے کنویں میں ڈال دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آج اسے پورے ملک مصر کی حکومت عطا فرما دی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں اور اس سے ڈرنے والوں کو ایسے ہی اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ : بھائیوں کو یہ سن کر دھچکا لگا کہ برسوں پرانی بات جو ہمارے سوا کوئی نہیں جانتا، اس اجنبی سرزمین میں جاننے والا یہ کون نکل آیا ؟ پھر ان کے نقوش پر غور کرتے ہوئے فوراً نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ تو ہمارا وہی ستم رسیدہ بھائی یوسف ہے، پھر حیرت، تعجب اور دہشت کے ملے جملے جذبات کے ساتھ اس بات کا سوال کیا جسے تاکید کے تین طریقوں سے یقینی بھی قرار دیا ” کیا یقیناً واقعی تو ہی یوسف ہے۔ “ ” اِنَّ “ ، لام تاکید اور ” اِنَّکَ “ کے بعد پھر ” أَنْتَ “ کے ساتھ تاکید، اتنے یقین کے باوجود سوال ہے جس میں کچھ شک بھی ہوتا ہے۔ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَهٰذَآ اَخِيْ : فرمایا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ ان دو لفظوں میں یوسف (علیہ السلام) نے وہ ساری داستان دو لفظوں میں دہرا دی جو ان بھائیوں کے ہاتھوں ان پر گزری تھی، جو پوری طرح بیان میں آ بھی نہیں سکتی تھی اور یوسف (علیہ السلام) کے عفو و درگزر کے مطابق نہ اس کا موقع تھا۔ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا : کہ مصیبت سے نجات دے کر دونوں کو ملا دیا اور اس بلند مرتبہ مقام پر پہنچا دیا جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ : یعنی حرام کام اور نافرمانی سے بچتا رہے اور اللہ کے احکام کی پابندی اور پیش آنے والی مصیبتوں اور اللہ کی تقدیر پر صبر کرے۔ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبرائے نہیں تو آخر بلا (تکلیف) سے زیادہ عطا ہے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ (Are you really the Yusuf?). Then, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said: ` Yes, I am Yusuf and this is my brother, Benyamin.& He supple¬mented his statement by adding the name of his brother so that they become certain about him. In addition to that, he also wanted them to become sure right then about the total success of their mission, that is, the two they had started to search for were there before them, both at the same time and place. Then, he said: قَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ‌ الْمُحْسِنِين ، that is, ` Allah has been very kind to us [ that he first gave both of us two qualities, those of patience (Sabr) and the fear of Allah (Taqwa), qualities which are a key to success and a security shield against every hardship. Then He changed hardship into comfort, separa¬tion into union, and our paucity of wealth and recognition into its total abundance. ` Surely, whoever fears Allah [ and abstains from sins ] and ob¬serves patience [ while in distress ], then Allah does not waste the reward of the good-doers [ like these ].&

ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ کیا سچ مچ تم ہی یوسف ہو ؟ تو یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ بنیامین میرا حقیقی بھائی ہے بھائی کا ذکر اس لئے بڑھا دیا کہ ان کو اچھی طرح یقین آجائے نیز اس لئے بھی کہ ان پر اس وقت اپنے مقصد کی مکمل کامیابی واضح ہوجائے کہ جن دو کی تلاش میں تم نکلے تھے وہ دونوں بیک جا تمہیں مل گئے پھر فرمایا (آیت) قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا ۭ اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان و کرم فرمایا کہ اول ہم دونوں کو صبر وتقویٰ کی دو صفتیں عطا فرمائیں جو کلید کامیابی اور ہر مصیبت سے امان ہیں پھر ہماری تکلیف کو راحت سے، افتراق کو اجتماع سے مال وجاہ کی قلت کو ان سب کی کثرت سے تبدیل فرما دیا بیشک جو شخص گناہوں سے بچتا اور مصائب پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے ہیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ 90؀ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقیت الشئی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں ضيع ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 195] ( ض ی ع ) ضاع ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٠) سوچ کر کہنے لگے کیا تم ہی یوسف ہو ؟ فرمایا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ بنیامین میرا سگا بھائی ہے، اللہ تعالیٰ نے صبر کی دولت دے کر ہم پر بڑا احسان کیا ہے اور واقعی جو خوشحالی میں گناہوں سے بچتا ہے اور تنگی میں صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ تقوی اور صبر کرنے والوں کے ثواب ضائع نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

56: اب تک تو وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پہچانے نہیں تھے لیکن جب انہوں نے اپنا نام خود لیا۔ تو غور کرنے کے بعد ان لوگوں کو بھی یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ یہی یوسف (علیہ السلام) ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:90 ) ء انک۔ استفہام حیرت اور حیرانی کا ہے۔ کیا سچ مچ تو (یوسف ہے) ۔ لانت یوسف۔ لام ابتدائیہ ہے۔ انت مبتداء اور یوسف اس کی خبر ہے (جملہ خبریہ ہے) ۔ علینا میں ضمیر جمع متکلم حضرت یوسف (علیہ السلام) اور حضرت بنیامین دونوں کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور جملہ برادران کے لئے بھی یتق۔ اصل میں یتق۔ اتقائ۔ مصدر (باب افتعال) مضارع واحد مذکر غائب بوجہ شرط مجزوم ہے۔ جو ڈرے گا ۔ تقویٰ اختیار کریگا یتق (لیتق) امر واحد مذکر غائب بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ولیتق اللہ ربہ۔ اسے چاہیے کہ اپنے رب (اللہ) سے ڈرے۔ (2:283)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ جو مصیبت سے نجات دے کر دونوں کو ملا دیا اور اس بلند مرتبہ پر پہنچا دیا، جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوَ (روح) 2 ۔ یعنی گناہوں سے بچتا رہے اور لوگوں کو ایذا سانی پر صبر کرتا رہے۔ 3 ۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبراوے نہیں تو آخر بلا سے زیادہ عطا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ہم دونوں کو اول توفیق صبر وتقوی کی عطا فرمائی پھر اس کی برکت سے ہماری تکلیف کو راحت سے اور افتراق کو اجتماع سے اور قلت مال وجاہ سے مدل فرما دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٩٠ اب ان کو یقین ہوگیا اور کہا کہ تم ہی یوسف (علیہ السلام) ہو۔ اگرچہ یوسف (علیہ السلام) اب ایک معمر آدمی ہیں۔ اس کے بچپن کے خدو خال صاف صاف نظر آنے لگے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اچانک اپنے آپ کو ظاہر کیا اور اجمالاً وہ ان کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے جہالت میں اپنے بھائی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بس وہ صرف یہی بات کہتے ہیں اور اللہ کے ان احسانات کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان پر اور ان کے بھائی پر ہوئے۔ اور یہ احسانات اس لیے ہوئے کہ ہم نے تقویٰ اور صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور یہ سب کچھ اللہ کے نظام عدل کا نتیجہ ہے۔ وہ متقین و صابرین کو جزائے خیر دیتا ہے۔ لیکن اس اچانک انکشاف کا اثر ان بھائیوں پر کیا ہوا ؟ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ پوری گھناؤنی صورت حال مجسم ہوگئی جو وہ یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ کرتے رہے تھے۔ یہ بےحد شرمندہ ہیں۔ جس کے ساتھ انہوں نے برا کیا وہ بطور محسن کھڑا ہے ، جس کے ساتھ انہوں نے سنگدلی کی وہ نہایت ہی حلیم ہے اور جس کے ساتھ انہوں نے ظلم کیا وہ کریم اور محسن ہے۔ اب اس کے سوا وہ کہہ کیا سکتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا : (اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں فرماتا) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بطور قاعدہ کلیہ کے یہ بات بتادی کہ تقویٰ اور صبر کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے اور یہ دونوں چیزیں مصائب سے نجات دلانے والی ہیں ‘ یہ نہیں فرمایا کہ میں نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا اس لئے اس مرتبہ کو پہنچا کیونکہ اس میں ایک طرح سے اپنی تعریف تھی ‘ اور بھائیوں سے یوں نہیں کہا کہ تم متقی اور صابر نہیں ہو بلکہ قاعدہ بتا کر انہیں تنبیہ فرما دی کہ تمہیں متقی ہونا چاہئے تھا در حقیقت تقویٰ بہت بڑی چیز ہے آخرت میں تو اس کا نفع سامنے آ ہی جائے گا دنیا میں بھی مشکلات اور مصائب سے نکلنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ‘ سورة نحل میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ ) (بلاشبہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور جو لوگ اچھے کام کرنے والے ہیں) سورة طلاق میں فرمایا (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ) (اور جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوتا اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کو کافی ہے۔ ) نیز فرمایا۔ (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗ اَجْرًا) (جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دے گا اور اس کے لیے بڑا اجر مقرر فرما دے گا) ۔ صبر بھی بہت بڑی چیز ہے صابر آدمی کو وقتی طور پر تکلیف تو ہوتی ہے لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد پہنچ جاتی ہے سورة بقرہ میں فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) (اے ایمان والو مدد طلب کرو نماز اور صبر کے ساتھ بلاشبہ اللہ صابروں کے ساتھ ہے) سورة زمر میں فرمایا (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) (صبر کرنے والوں کو بلا حساب پورا پورا اجر دیا جائے گا) جسے صبر کی نعمت مل گئی اسے بہت بڑی نعمت مل گئی حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ومن یتصبر یصبرہ اللہ وما اعطی حد عطاء ھو خیرو اوسع من الصبر (رواہ البخاری ومسلم کما فی المشکوٰۃ ص ١٦٣) جو شخص صبر کرنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے صبر دے دیتا ہے اور کسی شخص کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کسی چیز کی بخشش نہیں کی گئی) بعض اہل معرفت کا قول ہے الصبر امر من الصبر واحلی من الثمر (صبرایلوے سے زیادہ کڑوا ہے اور پھلوں سے زیادہ میٹھا ہے) حضرت یوسف و یعقوب ( علیہ السلام) نے صبر کیا اس کا پھل پایا اہل ایمان کو صبر اختیار کرنا چاہئے صبر میں اجر بھی ہے اور وہ دفع مصائب اور حل مشکلات کا ذریعہ بھی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

90 ۔ وہ کہنے لگے کیا واقعی تو یوسف (علیہ السلام) ہے ۔ یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا ہاں ! میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ بن یامین میرا بھائی ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا یقینا جو شخص گناہ کے ارتکاب سے ڈرتا ہے اور مصائب پر صبر کا شکوہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں اور نیک کام کرنیوالوں کے اجر کو ضائع نہیں کیا کرتا ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے تقویٰ اور صبر کی بات سے پہلے اللہ تعالیٰ کے احسان کا اعتراف کیا تا کہ تکبر اور غرور کا شبہ نہ کیا جائے اور کسی بندے کو تقویٰ کی توفیق عطا فرمانا اور بلائوں پر صبر کی ہمیت دینا یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبرا وے نہیں تو آخر بلا سے زیادہ عطا ملے۔ 12