Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 97

سورة يوسف

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیۡنَ ﴿۹۷﴾

They said, "O our father, ask for us forgiveness of our sins; indeed, we have been sinners."

انہوں نے کہا ابا جی! آپ ہمارے لئے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰٓاَبَانَا اسْـتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ ۔۔ : یہ کہنے والے بیٹے بھی تھے اور پوتے بھی، انھوں نے صاف لفظوں میں اپنے دانستہ اور عمداً خطا وار ہونے کا اقرار کرکے درخواست کی کہ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کریں، کیونکہ آپ معاف کر بھی دیں اگر اس نے نہ بخشا تو ہمارا کہاں ٹھکانا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Now, when the truth of the matter became clear, the brothers of Yusuf asked for the forgiveness of their father in a spiritually endearing style by saying: قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ‌ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ : &Our father, pray to Allah to forgive us our sins. Surely, we have been wrong - 97.& Thus, it is obvious that a person who prays to Allah Ta` ala for the forgiveness of their sins would do that himself too.

(آیت) قَالُوْا يٰٓاَبَانَا اسْـتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا كُنَّا خٰطِـــِٕـيْنَ اب جبکہ حقیقت حال واضح ہو کر سامنے آگئی تو برادران یوسف نے والد سے اپنی خطاؤں کی معافی اس شان سے مانگی کہ والد سے درخواست کی کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعاء کریں اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ان کی خطا معاف کرنے کی دعا کرے گا وہ خود بھی انکی خطا معاف کر دے گا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰٓاَبَانَا اسْـتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا كُنَّا خٰطِـــِٕـيْنَ 97؀ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ خطأ الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب : أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله، وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] . والثاني : أن يريد ما يحسن فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء/ 92] . والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان، لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا لتولّد ذلک الفعل منه ( خ ط ء ) الخطاء والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔ یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔ اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔ الخطیتۃ یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة/ 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری (یا ابانا استغفر لنا ذنوبنا) میں انہوں نے اپنے والد سے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگنے کی درخواست کی ہے حالانکہ ان کی توبہ قبول ہوچکی تھی۔ اس درخواست کا جواز اس بنا پر ہے کہ مظلوم پر ڈھائے گئے ظلم کی معافی اس کی طرف سے ظالم کو معاف کردینے کے ساتھ معلق ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ رب سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اس ظلم پر اس کا مواخذہ نہ کرے۔ یہاں اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے یہ درخواست کی ہو کہ وہ اپنی دعا کے ذریعے انہیں ان لوگوں کے درجے پر پہنچا دیں جنہوں نے کبھی کسی قسم کا جرم نہ کیا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:97) استغفرلنا۔ استغفر۔ امرواحد مذکر حاضر۔ تو بخشش مانگ۔ تو مغفرت مانگ۔ تو معافی مانگ۔ لنا ہمارے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مطلب یہ کہ آپ بھی معاف کردیجیے کیونکہ عادتا کسی کے لیے استغفار وہی کرتا ہے جو خود بھی مواخذہ کرنا نہیں چاہتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : برادران یوسف کا گھر واپس جانا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے معافی کا خواستگار ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں باپ انتہائی خوش وخرم ‘ ہشاش بشاش ہے اور ان کی بینائی بھی صحیح ہوچکی ہے۔ والد گرامی کو سلام عرض کرنے کے بعد سب مل کر اپنے گناہ کا اعتراف کرکے درخواست کرتے ہیں کہ اباجان ! ہم نے یوسف (علیہ السلام) پر بہت زیادتی کی جس سے آپ کو طویل عرصہ تک دکھ اٹھانا پڑا۔ ہم اس پر سچے دل کے ساتھ آپ سے معافی مانگتے ہیں۔ آپ ہمارے عظیم باپ ہیں اور ہم اپنے کیے پر انتہائی شرمندہ ہیں۔ ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں معاف کردیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ایک مشفق باپ ہونے کے ساتھ اللہ کے نبی اور انبیاء ( علیہ السلام) کی اولاد تھے۔ انہوں نے کوئی بات کرنے کے بجائے فی الفور فرمایا کہ نہ صرف تمہیں معاف کرتا ہوں بلکہ عنقریب میں اپنے رب سے تمہارے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے ہر گناہ معاف کرنے والا ہے۔ اہل تفسیر نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے حوالے سے لکھا ہے۔ عنقریب معافی مانگنے سے تہجد کا وقت مراد تھا۔ کیونکہ دعا کی قبولیت کے اوقات میں یہ سب سے زیادہ اللہ کے ہاں قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے عنقریب دعا کروں گا۔ اس واقعہ میں اولاد کے لیے حکم ہے کہ اگر اس سے ماں باپ کی شان میں گستاخی ہوجائے تو اولاد کا فرض ہے کہ وہ جلد از جلد ماں باپ سے معافی مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔ کیونکہ والدین کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے والدین کے لیے یہ سبق ہے کہ بیشک اولاد کتنی ہی نافرمان کیوں نہ ہو وہ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَال الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِہِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُّہٗ لَزَادَنِیْ )[ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ الصَّلاَۃِ لِوَقْتِہَا ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کو کون ساعمل زیا دہ پسند ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں فرض نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ بہترسلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کی ان کے بعد کون ساعمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اگر میں اس موقعہ پر مزید سوال کرتا تو آپ اس کا بھی جواب عنایت فرماتے۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنِّیْٓ أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِیْمًا فَہَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَال لاقَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ خَالَۃٍقَالَ نَعَمْ قَالَ فَبِرَّہَا)[ باب مَا جَآءَ فِی بِرِّ الْخَالَۃِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ کیا میرے لیے توبہ ہے آپ نے فرمایا کیا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تیری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا اس کی خدمت کرو۔ “ مسائل ١۔ والدین سے دعا کروانی چاہیے۔ ٢۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ ٣۔ والدین کو بچوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ ٤۔ ماں باپ کو اولاد کی غلطی معاف کردینی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے : ١۔ میں اللہ سے مغفرت طلب کروں گا بیشک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٩٨) ٢۔ بیشک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ (الانعام : ١٤٥) ٣۔ اللہ جسے چاہے معاف کر دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٩) ٤۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا یقیناً وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ : ٩٩) ٥۔ اللہ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ : ١٩٩) ٦۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں سکتے اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ( النحل : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81:۔ اب بیٹوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے اللہ سے معافی مانگیں کیونکہ ہم سے بہت بڑا گناہ سر زد ہوا ہوم نے بلا وجہ آپ کو گم و الم میں اتنا طویل عرصہ مبتلا رکھا۔ ” قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ “۔ فرمایا عنقریب تمہارے لیے استغفار کروں گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے وقت سحر تک تاخیر مراد ہے کیونکہ وہو قت قبولیت دعاء کے لیے خاص اثر رکھتا ہے۔ (قرطبی وغیرہ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 ۔ بیٹوں نے کہا اے ہمارے باپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے ہمارے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کر دیجئے بیشک ہم ہی قصوروار تھے ۔ یعنی آپ کو جو تکلیف ہم نے پہنچائی ہے۔ اس کو آپ معاف کر دیجئے اور حقوق اللہ کی معافی کے لئے دعا کردیجئے۔