Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 99

سورة يوسف

فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَبَوَیۡہِ وَ قَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ﴿ؕ۹۹﴾

And when they entered upon Joseph, he took his parents to himself and said, "Enter Egypt, Allah willing, safe [and secure]."

جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن و امان کے ساتھ مصر میں آؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf welcomes His Parents; His Dream comes True Allah tells: فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ اوَى إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ ... Then, when they came in before Yusuf, he took his parents to himself, Yusuf had asked his brothers to bring all of their family, and they all departed their area and left Kana`an to Egypt. When Yusuf received news of their approach to Egypt, he went out to receive them. The king ordered the princes and notable people to go out in the receiving party with Yusuf to meet Allah's Prophet Yaqub, peace be upon him. It is said that the king also went out with them to meet Yaqub. Yusuf said to his family, after they entered unto him and he took them to himself, ... وَقَالَ ادْخُلُواْ مِصْرَ إِن شَاء اللّهُ امِنِينَ and said: "Enter Egypt, if Allah wills, in security." He said to them, `enter Egypt', meaning, `reside in Egypt', and added, `if Allah wills, in security', in reference to the hardship and famine that they suffered. اوَى إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ (and he took his parents to himself), As-Suddi and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that; his parents were his father and maternal aunt, as his mother had died long ago. Muhammad bin Ishaq and Ibn Jarir At-Tabari said, "His father and mother were both alive." Ibn Jarir added, "There is no evidence that his mother had died before then. Rather, the apparent words of the Qur'an testify that she was alive." This opinion has the apparent and suitable meaning that this story testifies to. Allah said next,

بھائیوں پر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے فرمایا تھا کہ ابا جی کو اور گھر کے سب لوگوں کو یہیں لے آؤ ۔ بھائیوں نے یہی کیا ، اس بزرگ قافلے نے کنعان سے کوچ کیا جب مصر کے قریب پہنچے تو نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے چلے اور حکم شاہی سے شہر کے تمام امیر امرا اور ارکان دولت بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے شہر سے باہر آیا تھا ۔ اس کے بعد جو جگہ دینے وغیرہ کا ذکر ہے اس کی بابت بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی آپ نے ان سے فرمایا تم مصر میں چلو ، انشاء اللہ پر امن اور بےخطر رہو گے اب شہر میں داخلے کے بعد آپ نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں اونچے تخت پر بٹھایا ۔ لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں سدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بالکل ٹھیک ہے جب پہلے ہی ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں اپنے پاس کر لیا اور جب شہر کا دروازہ آیا تو فرمایا اب اطمینان کے ساتھ یہاں چلئے ۔ لیکن اس میں بھی ایک بات رہ گئی ہے ۔ ایوا اصل میں منزل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں جیسے اوؤ الیہ احاہ میں ہے ۔ اور حدیث میں بھی ہے من اوی محدثا پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کا مطلب یہ بیان نہ کریں کہ ان کے آ جانے کے بعد انہیں جگہ دینے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو یعنی یہاں قحط وغیرہ کی مصیبتوں سے محفوظ ہو کر با آرام رہو سہو ، مشہور ہے کہ اور جو قحط سالی کے سال باقی تھے ، وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی تشریف آوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دور کر دئے ۔ جیسے کہ اہل مکہ کی قحط سالی سے تنگ آکر ابو سفیان نے آپ سے شکایت کی اور بہت روئے پیٹے اور سفارش چاہی ۔ عبد الرحمن کہتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا تو پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ۔ اس وقت آپ کے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی خالہ صاحبہ آئی تھیں ۔ لیکن امام ابن جریر اور امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ آپ کی والدہ خود ہی زندہ موجود تھیں ، ان کی موت پر کوئی صحیح دلیل نہیں اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اس بات کو چاہتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ زندہ موجود تھیں ، یہی بات ٹھیک بھی ہے ۔ آپ نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا ۔ اس وقت ماں باپ بھی اور گیارہ بھائی کل کے کل آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ۔ آپ نے فرمایا ابا جی لیجئے میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہو گئی یہ ہیں گیارہ ستارے اور یہ ہیں سورج چاند جو میرے سامنے سجدے میں ہیں ۔ ان کی شرع میں یہ جائز تھی کہ بڑوں کو سلام کے ساتھ سجدہ کرتے تھے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یہ بات جائز ہی رہی لیکن اس ملت محمدیہ میں اللہ تبارک وتعالی نے کسی اور کے لئے سوائے اپنی ذات پاک کے سجدے کو مطلقا حرام کر دیا ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے اپنے لئے ہی مخصوص کر لیا ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے قول کا ماحصل مضمون یہی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام گئے ، وہاں انہوں نے دیکہا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدے کرتے ہیں یہ جب لوٹے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، آب نے پوچھا ، معاذ یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ آپ نے فرمایا اگر میں کسی کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے ۔ بہ سبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس پر ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا سلمان مجھے سجدہ نہ کرو ۔ سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبہی نہ مرے گا ۔ الغرض چونکہ اس شریعت میں جائز تھا اس لئے انہوں نے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا لیجئے ابا جی میرے خواب کا ظہور ہو گیا ۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا ۔ اس کا انجام ظاہر ہو گیا ۔ چنانچہ اور آیت میں قیامت کے دن کے لئے بھی یہی لفظ بولا گیا ہے آیت ( یوم یاتی تاویلہ ) پس یہ بھی اللہ کا مجھ پر ایک احسان عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا اور جو میں نے سوتے سوتے دیکھا تھا ، الحمد للہ مجھے جاکنے میں بھی اس نے دکھا دیا ۔ اور احسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نجات دی اور تم سب کو صحرا سے یہاں لا کر مجھ سے ملا دیا ۔ آپ چونکہ جانوروں کے پالنے والے تھے ، اس لئے عموما بادیہ میں ہی قیام رہتا تھا ، فلسطین بھی شام کے جنگلوں میں ہے اکثر اوقات پڑاؤ رہا کرتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ یہ اولاج میں حسمی کے نیچے رہا کرتے تھے اور مویشی پالتے تھے ، اونٹ بکریاں وغیرہ ساتھ رہتی تھیں ۔ بھر فرماتے ہیں اس کے بعد کہ شیطان نے ہم میں پھوٹ ڈلوا دی تھی ، اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ، اس کے ویسے ہی اسباب مہیا کر دیتا ہے اور اسے آسان اور سہل کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اپنے افعال اقوال قضا و قدر مختار و مراد میں وہ باحکمت ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ خواب کے دیکھنے اور اس کی تاویل کے ظاہر ہونے میں چالیس سال کا وقفہ تھا ۔ عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں خواب کی تعبیر کے واقع ہونے میں اس سے زیادہ زمانہ لگتا بھی نہیں یہ آخری مدت ہے ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ باپ بیٹے اسی برس کے بعد ملے تم خیال تو کرو کہ زمین پر حضرت یعقوب علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا کوئی محبوب بندہ نہ تھا ۔ پھر بھی اتنی مدت انہیں فراق یوسف میں گزری ، ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے اور دل میں غم کی موجیں اٹھتیں اور روایت میں ہے کہ یہ مدت تراسی سال کی تھی ۔ فرماتے ہیں جب حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے اس وقت آپ کی عمر سترہ سال کی تھی ۔ اسی برس تک آپ باپ کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ پھر ملاقات کے بعد تیئس برس زندہ رہے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں انتقال کیا ۔ بقول قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ترپن برس کے بعد باپ بیٹا ملے ۔ ایک قول ہے کہ اٹھارہ سال ایک دوسرے سے دور رہے اور ایک قول ہے کہ چالیس سال کی جدائی رہی اور پھر مصر میں باپ سے ملنے کے بعد سترہ سال زندہ رہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل جب مصر پہنچے ہیں ان کی تعداد صرف تریسٹھ کی تھی اور جب یہاں سے نکلے ہیں اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کی تھی ۔ مسروق کہتے ہیں آنے کے وقت یہ مع مرد و عورت تین سو نوے تھے ، عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ جب یہ لوگ آئے کل چھیاسی تھے یعنی مرد عورت بوڑھے بچے سب ملا کر اور جب نکلے ہیں اس وقت ان کی گنتی چھ لاکھ سے اوپر اوپر تھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 یعنی عزت و احترام کے ساتھ انھیں اپنے پاس جگہ دی اور ان کا خوب اکرام کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] خاندان یعقوب کا مصر پہنچنا :۔ جب سیدنا یوسف (علیہ السلام) کا سارا خاندان کنعان سے روانہ ہو کر مصر پہنچا تو سیدنا یوسف بڑے بڑے اعیان سلطنت اور فوجی افسران کو ساتھ لے کر اپنے باپ اور اہل خانہ کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ انھیں دارالسلطنت میں لائے اور یہ دن جشن کا دن تھا، عورتیں، مرد، بچے سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس وقت سیدنا یوسف نے اپنے والدین سے کہا کہ یہاں مصر میں اقامت فرمایئے اور پوری دلجمعی سے رہئے، انشاء اللہ قحط وغیرہ کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ ۔۔ : یعنی یعقوب (علیہ السلام) کنعان سے سارے اہل خانہ سمیت روانہ ہو کر مصر پہنچے۔ آیت کے الفاظ ” مصر میں داخل ہوجاؤ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے شہر سے باہر نکل کر عمائدین حکومت اور عوام سے مل کر اپنے والدین اور افراد خانہ کا شان و شوکت سے استقبال کیا، والدین کو خصوصاً دوسرے خیموں سے جو استقبال کے لیے لگائے گئے تھے، الگ اپنے خیمے میں رکھا اور فرمایا، اب آپ لوگ مصر میں داخل ہوجائیں۔ آپ ان شاء اللہ یہاں نہایت امن سے رہیں گے۔ قحط، غربت، دشمن، غرض کسی چیز کی فکر مت کریں۔ بعض نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ الفاظ مصر میں داخل ہونے کے بعد کہے۔ ” اَبَوَیْهِ “ سے مراد ماں باپ ہیں، کئی مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا چھوٹے بھائی کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا، یہ ماں یوسف (علیہ السلام) کی خالہ تھیں جن سے یعقوب (علیہ السلام) نے بعد میں نکاح کیا تھا۔ دلیل اس کی اسرائیلی روایات کے سوا کچھ نہیں، جن کی صحت کا یقین نہیں۔ البتہ بعض نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ زندہ تھیں اور وہی یعقوب (علیہ السلام) کے ساتھ مصر پہنچی تھیں۔ (معالم) ابن جریر (رض) نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر (رض) نے اس کی تائید کی ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن مجید کے الفاظ کا ظاہر معنی یہی ہے۔ یہاں ان مفسرین کی بات پر افسوس ہوتا ہے جو قرآن مجید کی صراحت کے بعد آزر کو باپ کے بجائے چچا اور یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کو ان کی خالہ بتانے پر اصرار کرتے ہیں۔ صرف ان کتابوں میں پڑھ کر جن کی بات کو سچا سمجھنے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرما دیا ہے، اگرچہ جھوٹا کہنے سے بھی منع کیا ہے، مگر ایسی ناقابل یقین بات کے ساتھ قرآن کی بات کو توڑنے مروڑنے کی کیا ضرورت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

About what has been said in the next verse: فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ (Later, when they came to Yusuf ... - 88), it appears in some narrations that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had sent with his brothers this time a large supply of clothes and other articles of need all loaded on some two hundred camels, so that the whole family could make good preparations in anticipation of their visit to Egypt. Thus, all set for the trip, when Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) and his entire family set out for Egypt, their number, according to one narration, was seventy two and, according to the other, it was comprised of ninety three men and women. On the other side, when came the time for their arrival in Egypt, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and the people of Egypt came out of the city to re¬ceive them. With them came four thousand soldiers to present a guard of honour. When these guests reached Egypt and entered the home of Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) he lodged his parents with him. Here, the text refers to ` parents.& - though, the mother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had died during his childhood, but after her death, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) had married Layya, the sister of his late wife. She was, in her capacity as the maternal aunt of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، almost like his own mother, and also as the married wife of his father, was deserv-ing of being called as nothing but his mother.* *. This interpretation is according to the riwayah where it has been said that the mother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had died at the time of Benyamin&s birth. It is on this basis that the present text of the respected author, may the mercy of Allah be upon him, appears to be contradictory to the relevant text on page 38 of Volume V where the name of Sayyidna Yusuf s mother (علیہا السلام) has been given as Rabil. But, in reality, there is no authentic riway.ah in this connection. Isra&ili riwayat do exist, but they too are contradictory. The author of Ruh al-Ma` ni has himself said that the Jewish chroniclers do not subscribe to the view that the mother of Sayyidna Yusuf (علیہا السلام) had died at the time of Benyamin&s birth. If this riwayah is given credence, no doubt remains. Then, in this situation, by the words: وَرَ‌فَعَ أَبَوَيْهِ (And he raised his parents up on the throne - 100), the reference would be to the real mother of Sayy¬idna Yusuf ill . Ibn Jarir and Ibn Kathir have opted for this as the weightier view. So, commenting on this, Ibn Kathir has said: قال ابن جریر ولم یقم دلیل علی موت امہ (ای ام یوسف علیہ السلام) وظایر القرآن یدل علی حیا تھا - Muhammad Taqi Usmani. At the end of verse 99, the statement: وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ‌ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ (he said, &Enter Egypt, God willing, in peace& ) means that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) asked all his family members to enter Egypt by the will of Allah and without any fear or restriction, the sense being that they were free from usual restrictions placed on travellers who enter another country.

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیہ بعض روایات میں ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اس مرتبہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دو سو اونٹوں پر لدا ہوا بہت سا سامان کپڑوں اور دوسری ضروریات کا بھیجا تھا تاکہ پورا خاندان مصر آنے کے لئے عمدہ تیاری کرسکے اس کے مطابق یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد اور تمام متعلقین مصر کے لئے تیار ہو کر نکلے تو ایک روایت میں ان کی تعداد بہتر اور دوسری میں ترانوے ٩٣ نفوس مرد و عورت پر مشتمل تھی دوسری طرف جب مصر پہنچنے کا وقت قریب آیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ملک مصر کے لوگ استقبال کے لئے شہر سے باہر تشریف لائے اور چار ہزار سپاہی ان کے ساتھ سلامی دینے کے لئے نکلے جب یہ حضرات مصر میں یوسف (علیہ السلام) کے مکان میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے والدین کو اپنے پاس ٹھہرایا، یہاں ذکر والدین کا ہے حالانکہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا انتقال بچپن میں ہوچکا تھا مگر ان کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے مرحومہ کی بہن لیّا سے نکاح کرلیا تھا جو یوسف (علیہ السلام) کی خالہ ہونے کی حیثیت سے بھی مثل والدہ کے تھیں اور والد کے نکاح میں ہونے کی حیثیت سے بھی والدہ ہی کہلانے کی مستحق تھیں۔ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ یوسف (علیہ السلام) نے سب خاندان کے لوگوں سے کہا کہ آپ سب باذن خداوندی مصر میں بےخوف و خطر بغیر کسی پابندی کے داخل ہوجائیں مطلب یہ تھا کہ دوسرے ملک میں داخل ہونے والے مسافروں پر جو پابندیاں عادۃ ہوا کرتی ہیں آپ ان سب پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ 99؀ۭ أوى) ملانا) المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ، وقال تعالی: آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف/ 69] آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف/ 69] أي : ضمّه إلى نفسه . ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اور آیت کریمہ :۔ { آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ } ( سورة يوسف 69) کے معنی یہ ہیں کہ ہوسف نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) چناچہ جب یہ سب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے باپ اور اپنی خالہ کو کیوں کہ ان کی والدہ پہلے ہی انتقال کرگئی تھیں اپنے پاس جگہ دی اور فرمایا کہ سب مصر چلیے اور وہاں انشاء اللہ دشمن اور تکلیف سے امن میں رہیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ ) کنعان سے چل کر بنی اسرائیل کا یہ پورا خاندان جب حضرت یوسف کے پاس مصر پہنچا تو آپ نے خصوصی اعزاز کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے والدین کو اپنے پاس امتیازی نشستیں پیش کیں۔ (وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ ) اب آپ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر اللہ نے چاہا تو یہاں آپ کے لیے امن وچین اور سکون و راحت ہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68. It is worthwhile to take notice of the total number of Prophet Jacob’s family members that migrated to Egypt with him, for it is closely connected with the problem that is raised concerning the total number of the Israelites who emigrated from there some five hundred years after this. According to the Bible, the total number of the family members was 70, including Prophet Joseph and his two sons, and excluding those daughters-in-law who did not belong to the family of Prophet Jacob. But according to the census figures given in Numbers, their number was about two million when they were counted in the wilderness of Sinai in the second year, after they come out of the land of Egypt. The problem is this: how is it possible that these three score and ten souls of his house had multiplied into two million souls during five hundred years or so? It is obvious that no family can multiply to such a large number in five hundred years merely by the generative process. Thus the only other way in which their number could have been increased was proselytism. And there are sound reasons to believe that this must have been so. The Israelites were the descendants of Prophets. They had migrated to Egypt because of the power Prophet Joseph enjoyed there. And we have seen that he made full use of every opportunity he got for carrying out the work of the mission of Prophethood. Therefore it may reasonably be expected that the Israelites would have done their very best to convert the Egyptians to their faith of Islam during the five centuries of their power in Egypt. As a result of this the Egyptian converts to Islam would not only have changed their religion but also their culture so as to make them look quite different from the other Egyptians and look like the Israelites. Naturally the non Muslim Egyptians would have declared them to be foreigners just as the Hindus treat the Indian Muslims of today. By and by they themselves would have accepted this position and become members of the Israelite nationality. Afterwards, when the Egyptian nationalists began to persecute the alien Israelites, the Muslim Egyptians were also made a target of their tyranny. So when the Israelites migrated from Egypt, they, too, left their country along with them and began to be counted among them. The above mentioned explanation is confirmed by the Bible also. For instance, it says “that when they left Egypt, the children of Israel journeyed from Remases to Suceoth....and a mixed multitude went up also with them....” (Exodus 12: 37-38) and “the mix multitude that was among them fell a lusting”. (Numbers 11: 4). Then by and by these non-Israelite converts to Islam began to be called the stranger. “One ordinance shall be both for you of the congregation, and also for the stranger that sojourneth with you, an ordinance forever in your generations: as ye are, so shall the stranger be before the Lord. One law and the one manner shall be for you, and for the stranger that sojourneth with you.” (Numbers 15: 15-16). “And I charged your judges at that time, saying: Hear the causes between your brethren, and judge righteously between every man and his brother, and the stranger that is with him.” (Deut. 1: 16). Now it is not an easy thing to find out the exact term which was applied in the original Scriptures to the Egyptian converts to Islam, and which was afterwards changed into the stranger by the translators.

٦۸ ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ سب افراد خانہ جو اس موقع پر مصر گئے ٦۷ تھے ۔ اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی ان لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں ، اس وقت حضرت یعقوب کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ۱۷ سال زندہ رہے ۔ اس موقع پر ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف سمیت ان کی تعداد ٦۸ تھے ، اور جب تقریبا ۵ سو سال کے بعد وہ مصر سے نکلے تو وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے ، بائیبل کی روایت ہے کہ خروج کے بعد دوسرے سال بیابان سینا میں حضرت موسی نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابل جنگ مردوں کی تعداد ٦۰۳۵۵۰ تھی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عوعرت ، مرد ، بچے سب ملا کر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے ۔ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ٦۸ آدمیوں کی اتنی اولاد ہوسکتی ہے؟ مصر کی کل آبادی اگر اس زمانے میں ۲ کروڑ فرض کی جائے ( جو یقینا بہت مبالغہ آمیز اندازہ ہوگا ) تو اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف بنی اسرائیل وہاں ۱۰ فیصد تھے ، کیا ایک خاندان محض تناسل کے ذریعہ ستے اتنا بڑھ سکتا ہے ، اس سوال پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے ، ظاہر بات ہے کہ ۵ سو برس میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا ، لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے ، ان کے لیڈر حضرت یوسف جن کی بدولت مصر میں ان کے قدم جمے ، خود پیغمبر تھے ، ان کے بعد چار پانچ صدی تک ملک کا اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہا ۔ اس دوران میں یقینا انہوں نے مصر میں اسلام کی خوب تبلیغ کی ہوگی ، اہل مصر میں سے جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا تمدن اور پورا طریق زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے ہم رنگ ہوگیا ہوگا ۔ مصریوں نے ان سب کو اسی طرح اجنبی ٹھہرایا ہوگا جس طرح ہندوستان میں ہندوؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھہرایا ، ان کے اوپر اسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کردیا گیا ہوگا ، جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر محمڈن کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے ، اور وہ خود بھی دینی و تہذیبی روابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے وابستہ ہوکر رہ گئے ہوں گے ، یہی وجہ ہے کہ جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ یکساں لپیٹ لیے گئے ، اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ ہی نکلے اور ان سب کا شمار اسرائیلیوں ہی میں ہونے لگا ۔ ہمارے اس قیاس کی تائید بائیبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے ، مثال کے طور پر خروج میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہوا ہے ، بائیبل کا مصنف کہتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی ، ( ۱۲ ۔ ۳۸ ) اسی طرح گنتی میں وہ پھر کہتا ہے کہ جو ملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی ( ۱۱ ۔ ٤ ) پھر بتدریج ان غیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے اجنبی اور پردیسی کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں ، چنانچہ توراۃ میں حضرت موسی کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے : تمہارے لیے اور اس پردیسی کے لیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا ، خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو ، تمہارے لیے اور پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو ( گنتی ۱۵ ۔ ۱۵ ۔ ۱٦ ) جو شخص بے باک ہوکر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے ، وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا ( گنتی ۱۵ ۔ ۳ ) خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا ، تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا ( اتثناء ، ۱ ۔ ۱٦ ) اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے مترجموں نے پردیسی بنا کر رکھ دیا ۔ ٦۹ ۔ تلمود لکھا ہے جب حضرت یعقوب کی آمد کی خبر دار السلطنت میں پہنچی تو حضرت یوسف سلطنت کے بڑے بڑے امراء و اہل مناسب اور فوج فراء کو لیکر ان کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان کو شہر میں لائے ، وہ دن وہاں جشن کا دن تھا ، عورت ، مرد ، بچے سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے ، اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

61: حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والدین، بھائیوں اور دوسرے گھر والوں کے استقبال کے لئے شہر سے باہر تشریف لائے تھے، اور جب والدین سے ملاقات ہوئی توانہوں نے انکا خاص اکرام کرکے انہیں اپنے پاس بٹھایا اور ابتدائی باتوں کے بعد سارے آنے والوں سے کہا کہ اب سب لوگ شہر میں اطمینان کے ساتھ چل کر رہیں، اس معاملے میں روایات مختلف ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی والدہ اس وقت زندہ تھیں یا نہیں اگر زندہ تھیں تب تو والدین سے مراد حقیقی والدین ہیں اور اگر وفات پاچکی تھیں تو سوتیلی والدہ کو بھی چونکہ ماں ہی کی طرح سمجھاجاتا ہے اس لئے ان کو بھی والدین میں شامل کرلیا گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٩۔ ١٠٠۔ اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ملاقات کا حال بیان فرمایا کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ تم کنعان جا کر اپنے کنبہ اور گھر والوں کو یہاں لے آؤ یہ لوگ اپنے سارے رشتہ داروں کو جو مرد و عورت ملا کر ٦٣ آدمیوں کے قریب تھے کنعان سے لے کر چلے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خبر ملی کہ ہمارے والدین آرہے ہیں اور اب ہم بہت نزدیک آگئے ہیں تو آپ تخت پر بیٹھ کر ان کے استقبال کو روانہ ہوئے بادشاہ مصر نے اپنے دربار کے اور دوسرے معزز آدمیوں کو بھی ان کے ہمراہ کردیا۔ بعضے سلف یہ بھی کہتے ہیں کہ خود بادشاہ مصر بھی ان کے استقبال کو روانہ ہوا الغرض شہر سے نکل کر جب باپ کے پاس پہنچے تو ماں باپ کو اپنے تخت پر جگہ دی اور تخت پر بٹھا کر کہا کہ انشاء اللہ اب امن سے شہر مصر میں آپ داخل ہوں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فضل سے یہاں قط وغیرہ کی شکایت نہیں رہے گی کیوں کہ انہوں نے غلہ کا معقول بندوبست کر رکھا تھا کہ لوگ دور دراز سے غلہ لینے یہاں آتے تھے اکثر مفسروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ کی والدہ کی وفات ہوچکی تھی یہ جو آپ کے والد بزرگوار کے ساتھ تھیں ان کی خالہ تھیں پھر جب یوسف (علیہ السلام) نے عین شہر میں آکر باپ ماں کو تخت پر بٹھایا تو ان کے گیارہ بھائیوں نے براہ تعظیم ان کے آگے سجدہ کیا یہ سجدہ تعظیم کا کہلاتا تھا زمانہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک اپنے بزرگوار اور معزز آدمیوں کو سجدہ کرنا روا تھا حضرت آدم کو جو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا وہ بھی یہی سجدہ تھا مگر شریعت محمدیہ میں یہ سجدہ ناجائز ہے اور سوائے خدا کے اوروں کو سجدہ کرنا قطعی حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ معاذ (رض) ملک شام میں گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں جب معاذ وہاں سے واپس آئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے سجدہ کیا آپ نے فرمایا کہ اے معاذ یہ کیا بات ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ملک شام میں دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں میرے نزدیک آپ سے زیادہ کوئی شخص سجدہ کا مستحق نہیں ہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں سوا خدا کے اور کسی کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو کہتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے آگے سجدہ کرے کیوں کہ شوہر کا حق بیوی پر بہت زیادہ ہے یہ معاذ کا قصہ مسند بزار اور طبرانی میں تفصیل سے ہے اور اس کی سند معتبر ہے۔ ١ ؎ الغرض یہ سجدہ اس وقت جائز تھا اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے آگے سجدہ کیا اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد بزرگوار سے کہا کہ اے والد ماجد میں نے جو بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے آسمان سے زمین پر اترے اور ان کے ساتھ چاند سورج بھی تھے اور ان ستاروں نے میرے آگے سجدہ کیا یہ اسی خواب کی تعبیر ہے۔ اور یہی نتیجہ و انجام اس خواب کا تھا ہمارے پروردگار عالم نے اس خواب کو سچ کر دکھایا اور ہم اس کا لاکھ لاکھ شکر کرتے ہیں کہ ہمیں طرح طرح کی نعمت دی اور مجھے قید سے نکالا اور آپ کو گاؤں سے یہاں لایا پھر اس کے بعد شیطان کا ذکر کیا کہ اس نے ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈالا مگر ہزار ہزار اس کا شکر ہے کہ اس نے اس کا تصفیہ کردیا اور فرمایا کہ میرا رب لطیف ہے لطیف کے معنوں میں بعضے سلف کا قول ہے کہ لطیف وہ ہے کہ جو تجھ کو تیرے کام تک پہنچا دے ان ربی لطیف کے معنے ان ربی ذولطف وکرم۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے لطف و کرم سے میرے اوپر بڑے بڑے احسان کئے یوسف (علیہ السلام) نے اس تعبیر میں کنوئی کا ذکر نہیں کیا تاکہ کنوئیں کا نام سن کر ان کے سوتیلے بھائی شرمندہ نہ ہوں { ان ھو العلیم الحیکم } اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مصلحتوں اور ضرورتوں کو خوب جانتا ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ ١ ؎ مجمع الزوائد ص ٣١ ج ٤ باب حق الزوج علی المرأۃ و تفسیر ابن کثیر ص ٤٩١ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:99) اوی الیہ۔ ماضی ۔ واحد مذکر غائب ۔ اوی۔ اس نے اتارا۔ اس نے جگہ دی۔ ایواء (افعال) سے۔ اوی الیہ۔ اپنے پاس جگہ دی۔ ادخلوا۔ امر جمع مذکر حاضر۔ تم داخل ہوجائے (یہ خطاب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے سب سے کیا تھا والدین وبرادران سے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ یعنی کنعان سے روانہ ہو کر مصر پہنچے اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے ملے، کہتی ہیں کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے شہر سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ (ابن کثیر) ۔ موضح میں ہے کہ وہیں کہا : ادخلو امصر انشاء اللہ امنین۔ 14 ۔ یعنی اپنے خیمہ میں ماں سے مراد اکثر مفسرین (رح) حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی سوتیلی والدہ ( جو ان کی خالہ تھیں) لیتے ہیں کیونکہ ان کی والدہ کا بنیامین کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی والدہ زندہ تھیں اور وہی حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے ساتھ مصر پہنچی تھیں۔ (معالم) ۔ ابن جریر نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے اس کی تائید کی ہے۔ (ابن کثیر) ۔ 15 ۔ یعنی اب کوئی اندیشہ نہ کرو اور انشاء اللہ یہاں مصر میں نہایت امن سے رہو گے۔ بعض نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے یہ الفاظ مصر میں داخل ہونے کے بعد کہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 99 تا 100 اوی اس نے ٹھکانا دیا، بٹھایا ادخلوا داخل ہوجاؤ امنین امن و سکون میں رہنے والے رفع بلند کیا، اونچی جگہ کیا العرش تخت خروا وہ گر پڑے سجد سجدہ کرنا، جک جانا یابت اے میرے ابا جان تاویل تعبیر رویائی میرا خواب، السجن جیل خانہ، قید البدو دیہات، گاؤں نزغ گھس گیا۔ ڈال دیا ، لطیف باریکی سے دیکھنے والا آسان کرنے والا یشآء وہ چاہتا ہے۔ تشریح آیت نمبر 99 تا 100 اصل میں انسان کا اخلاق، برتاؤ اور معاملہ اس وقت زیادہ قیمتی بن جاتا ہے جب اس دنیا کی ساری طاقتیں اور عظمتیں حاصل ہوں اور پھر بھ یاس میں عاجزی و انکساری ہو اور اپنے سے کمزوروں پر ظلم کرنے اور زیادتیوں کا بدلہ لینے کے بجائے عفو و درگزر کا معاملہ کرنے والا ہوں اور اپنے ہر کمال اور دنیاوی عزت و برلندی کو اپنی طرف اور اپنے کمال کی طرف موڑنے کے بجائے اس کو اللہ کا فضل و کرم قرار دیتا ہو۔ یہی بات حضرت یوسف فرما رہے ہیں، انکو مصر کی بادشاہت اور پوری قوتیں حاصل ہیں لیکن اپنے بھائیوں سے جنہوں نے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی ان سے انتقام اور بدلہ لینے کے بجائے نہ صرف ان کو معاف کر رہے ہیں ۔ بلکہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عمل کو بھی شیطانی عمل قرار دے رہے ہیں جو ان کے ھبائیوں سے سر زد ہوا تا۔ حضرت یوسف نے اپنا پیرھن اپنے والد محترم کی خدمت میں ارسال کر کے درخواست کی کہ اس کو اپنی آنکھوں پر ڈالتے تو آپ کی بصارت واپس آجائے گی۔ اس کے بعد حضرت یوسف نے اپنے والد محترم اور اہل خاندان کو کنعان (فلسطین) سے مصر لانے کے لئے متعدد اونٹنیاں بھیجیں تاکہ سب افراد سہولت سے مصر پہنچ جائیں۔ روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت یوسف کے والدین اور اہل خاندان جن کی تعداد ستر کے لگ بھگ تھی مصر پہنچے تو حضرت یوسف نے پر جوش خیر مقدم کیا، والدین کو اپنے پاس پورے احترام کے ساتھ اپنے تخت پر ٹھا دیا۔ اس وقت سارے بھائی ان کے سامنے جھک گئے۔ حضرت یوسف نے فرمایا کہ میں نے جو خواب دیکھا تھا یہ اس کی تعبیر ہے جس کو پروردگار نے سچ کر دکھایا۔ اب اس موقع پر حضرت یوسف تین باتیں فرما رہے ہیں جو ان کے عظیم اخلاق کا مظہر ہیں ۔ (1) پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کا کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے جیل خانے سے نکال کر عزت و سربلندی کی جگہ بٹھا دیا۔ (2) دوسرے یہ کہ ایک گاؤں اور چھوٹے سے شہر سے مصر جیسے بڑے شہر میں پہنچا دیا۔ (3) تیسرے یہ کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالوا دیا تھا ورنہ ایسا نہ ہوتا۔ یعنی اس میں میرے بھائیوں کا قصور نہیں ہے بلکہ شیطان نے ہمارے درمیان اختلافات پیدا کردیئے تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے اللہ کے بندے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے اور اپنے عظیم اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جب فتح مکہ کے موقع پر پوری قوت و طاقت حاصل ہوگئی تو آپ نے سب کو معاف کردیا تھا اور کسی ایسی بات کا اعلان نہیں کیا جس سے مکہ کے لوگوں کی گردنیں جھک جاتیں۔ دین اسلام، شان پیغمبری اور ان کے اخلاق اور کفار و مشرکین کی زندگی کو سامنے رکھیں اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ عجیب حقیقت سامنے آئے گی کہ جب ساری طاقتیں، قوتیں اقتدار اور فوج اہل ایمان کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ اپنے سے کمزوروں پر بہت مہربان ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف کفار و مشرکین کے ہاتھ میں جب بھی اقتدار اور قوت ہوتی ہے تو وہ مظلوموں کے خلاف اس کو دریغ استعمال کرتے ہیں اور مظلوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کسر نہیں چھوڑتے۔ ہم تو تاریخ کے حوالے سے یہ بات دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام کی شان تو بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور ان کے اخلاف کی بلندی کا تو اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی جب طاقت و قوت آئی تو انہوں نے کبھی اپنی اقلیتوں اور کمزور مظلوموں پر ظلم و ستم نہیں کیا بلکہ ان پر مہربانیوں کی انتہا کردی۔ اس موقع پر ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے کہ کیا انسان انسان کو سجدہ کرسکتا ہے جب کہ سجدہ اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ تو عرض ہے کہ جو چیز حرام ہے وہ ہر شریعت میں حرام رہی ہے اس کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سجدہ سے مراد آداب شاہی کے ساتھ جھکنے کے لئے جاسکتے ہیں یہ وہ سجدہ نہیں جیسا سجدہ ہم اللہ کو کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ یوسف (علیہ السلام) کی درخواست پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بمعہ اہل و عیال ملک مصر کی طرف روانہ ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) منزل بہ منزل سفر کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر شہر کے قریب پہنچے۔ یاد رہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے بھی اس ملک کا نام مصر تھا۔ اس کے سب سے بڑے شہر کا نام بھی مصر ہے جو اس ملک کا قدیم سے دارالخلافہ ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) دن رات اس انتظار میں تھے کہ والد گرامی کس دن تشریف لاتے ہیں۔ جونہی انہیں معلوم ہوا کہ والد گرامی کا قافلہ مصر شہر کی حدود میں داخل ہونے والا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) اپنے عملہ سمیت استقبال کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھے۔ والد گرامی سے بغل گیر ہوتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس کی منظر کشی کرنے کے بجائے اسے فطری تصور کے حوالے کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی مدت کے بعد باپ بیٹے کی ملاقات زندگی کے ایسے موڑ پر ہو رہی ہے کہ بیٹا نہ صرف دنیا کی عظیم مملکت کا فرمانروا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تاج نبوت سے بھی نواز رکھا ہے۔ ایسے موقعہ پر جذباتی کیفیت سے وہی واقف ہوسکتے ہیں جن کو کسی نہ کسی انداز میں اولاد کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہو۔ مصافحہ، معانقہ اور محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) اپنے والد گرامی سے عرض کرتے ہیں میرے عظیم باپ آئیں شہر میں قدم رنجہ فرمائیں۔ آپ انشاء اللہ ہر جانب سے امن وامان، عزت واقبال، سکون اور اطمینان پائیں گے۔ گویا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خداداد صلاحیتوں سے مصر کو امن وامان اور خوشحالی کا گہوارا بنا دیا تھا۔ شاندار استقبال کے ساتھ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی والدہ ہیں مصر کے پایۂ تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ برادران یوسف (علیہ السلام) سامنے براجمان ہوتے ہیں۔ جو نہی حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے مسند اقتدار پر تشریف رکھتے ہیں تو ان کے والدین اور بھائی ان کے حضور سجدہ کرتے ہیں۔ جب سب نے یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے باپ سے عرض کرنے لگے۔ اے میرے عظیم باپ ! بچپن میں جو میں نے خواب دیکھا تھا یہ اس کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے حرف بہ حرف حقیقت بنا دیا ہے اور مجھ پر احسان کرکے مجھے جیل سے نکال کر اس منصب تک پہنچایا ہے۔ اسی رب نے آپ کو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا ہے۔ حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان دوری پیدا کرچکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب نہایت ہی لطیف انداز میں اپنی مشیت پوری کرنے والا ہے۔ کیونکہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اب تک اپنے والد کے بغیر خواب کسی کے سامنے بیان نہیں کیا تھا۔ تبھی تو فرما رہے ہیں کہ والد محترم یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن میں آپ کے سامنے بیان کیا تھا۔ پھر اپنے جیل جانے کا واقعہ بیان کیا۔ لیکن بھائیوں کے کنویں میں پھینکنے کے واقعہ کو بیان کرنے کی بجائے صرف اشارہ کیا ہے شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان نزاع ڈال چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی سازش کو ناکام فرما کر ہمیں ملایا اور ہمارے دلوں میں محبت پیدا فرما دی ہے۔ سجدہ سے مراد جھکنا بھی ہوسکتا ہے لیکن قرآن مجید نے سجدہ کے ساتھخَرُّوْا کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جس کا صاف معنی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین اور بھائیوں نے ان کے حضور سجدہ کیا تھا۔ یہ سجدۂ تعظیم تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ اسی شاہی پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین ان کی تعظیم کے لیے سجدہ کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ یاد رہے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ ہمارے دین میں بالکل حرام اور ناجائز ہے۔ تعظیمی سجدہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الأزھری کی نظر میں : ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے ” وضع الجبھۃ علی الأرض “ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔ “ [ ضیاء القرآن، جلد اول ‘ البقرہ : ٣٤] مسائل ١۔ والدین کی عزت و تو قیر کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر کام کرتے وقت انشاء اللہ کہنا چاہیے۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کے خواب سچے ہیں۔ ٤۔ شیطان کا کام فساد ڈالنا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے : ١۔ بیشک میرا اللہ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف : ١٠٠) ٢۔ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٣۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ (الدھر : ٣٠) ٤۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر : ٢٩) ٥۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہاں اس قصے ، کا خاتمہ بھی اس قصے کے دوسرے اچانک مناظر اور معجزانہ واقعات کی طرح اچانک ہوجاتا ہے۔ زمان و مکان کے فاصلوں کو لپیٹ لیا جاتا ہے اور آخری تبصرہ یوں آتا ہے اور اس میں بیشمار موڑ اور جذباتی مناظر ہیں۔ آیت نمبر ٩٩ تا ١٠٠ یہ کیا ہی خوب صورت منظر ہے ! ایک عرصہ گزر گیا ہے اور یوسف (علیہ السلام) لا پتہ ہیں۔ ان کے بارے میں مکمل مایوسی پائی جاتی ہے اور لوگ انہیں پوری طرح بھول چکے ہیں۔ رشتہ دار اس کے رنج سہ چکے ہیں ، یوسف (علیہ السلام) پر بھی اور پسماندگان پر بھی عرصہ بیت چکا ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا رنج و الم ، ناقابل کنٹرول پدری محبت کا جوش اور جان کن رنج اور حزن کا طویل عرصہ اور پھر اچانک حالات کا یہ پلٹا۔۔۔۔ یہ ایک ایسا اچانک منظر ہے کہ جس میں دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں ، خوشی کے آنسو بہہ نکلتے ہیں اور ہر طرف گہرے تاثرات ہیں ، خوشی کے بھی اور شرمندگی کے بھی۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو اس قصے کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، آغاز میں عالم غیب کی طرف غائبانہ اشارات تھے لیکن وہ سب اشارات اب عالم واقعہ ہیں اور ایسے حالات میں بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان پر ثنائے ربانی ہے۔ فلما دخلوا۔۔۔۔۔۔۔ امنین (١٢ : ٩٩) ” پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اپنے سب کنبے والوں سے کہا ” چلو ، اب شہر میں چلو ، اللہ نے چاہا تو زمین چین سے رہو گے “۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اب اپنا خواب یاد کرتے ہیں اور اس کی تاویل ان کے سامنے ہے کہ ان کے بھائی ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ درآنحالیکہ اس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا ہوا ہے۔ اب گیارہ ستارے اور الشمس و قمر ان کے سامنے ہیں اور سجدہ ریز ہیں۔ ورفع ابویہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ربی حقا (١٢ : ١٠٠) ” اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بےاختیار سجدے میں جھک گئے۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ” ابا جان ، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا “۔ اور رب کے احسانات کی تو حد نہیں ہے۔ وقد احسن بی ۔۔۔۔۔۔۔ اخوتی (١٢ : ١٠٠) ” اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا ، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا ، حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا “۔ اور پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کی خفیہ تدابیر کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حد ہی نہیں ہے۔ ان ربی لطیف لما یشاء (١٢ : ١٠٠) ” حقیقت یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے “۔ وہ نہایت ہی خفیہ طریقوں سے اپنی مشیت کے مقاصد پورے کرتا ہے۔ اس قدر خفیہ طریقے سے کہ لوگ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ انہ ھو العلیم الحکیم (١٢ : ١٠٠) ” بیشک وہ علیم و حکیم ہے “۔ اور یہ وہی انداز ہے جو خود حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اختیار کیا۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) ان کے ساتھ اپنا خواب بیان کر رہے تھے۔ ان ربک علیم حکیم ” بیشک تمہارا رب علیم و حکیم ہے “۔ اس طرح آغاز قصہ اور اختتام قصہ ایک ہی تبصرے کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور اختتام پذیر ہوتا ہے۔ آخری منظر کے اختتام سے قبل ، ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس ملاقات ، خوشی اور مسرت کے منتظر اور پھر تخت و تاج اور جاہ و منزلت اور امن و سکون اور عیش و آرام کی تقریب سے اچانک نکل آتے ہیں۔ آخر وہ پیغمبر خدا ہیں اور رب ذوالجلال کی تسبیح و تہلیل میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ایک شکر گزار بندے کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اور دست بدعا ہوتے ہیں کہ جاہ و منزلت کے اس اونچے مقام پر اللہ ان کو ایک صحیح مسلمان ہونے کی توفیق بخشیں اور صالحین میں ان کو اٹھا لیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پورے خاندان کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر پہنچنا ‘ ان کے والدین اور بھائیوں کا ان کو سجدہ کرنا ‘ اور خواب کی تعبیر پوری ہونا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تیسری بار جب اپنے بھائیوں کو مصر سے رخصت کیا تھا اور اپنا کرتہ دیا تھا کہ اسے میرے والدین کے چہرہ پر ڈال دینا اس وقت یہ بھی فرماتا تھا کہ تم اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آنا ‘ جب یہ لوگ واپس کنعان پہنچے اور اپنے والد ماجد کے چہرہ انور پر پیراہن یوسف کو ڈال دیا جس سے ان کی بینائی واپس آگئی اور پھر اپنے والد سے دعائے مغفرت کی درخواست کی اور انہوں نے دعا کردی تو اب مصر کی روانگی کا ارادہ کیا حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اہلیہ اور گیارہ بیٹے اور ان کی ازواج واولاد نے رخت سفر باندھا اور مصر کے لئے روانہ ہوگئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے پہنچنے کی خبر ملی تو شہر سے باہر آکر ایک خیمہ میں (جو پہلے سے لگایا ہوا تھا) ان کا استقبال کیا اور اپنے والدین کو اپنے نزدیک جگہ دی اور پھر شہر میں داخل ہونے کے لیے فرمایا کہ (اُدْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاء اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ ) کہ مصر میں اندر چلئے انشاء اللہ تعالیٰ امن وچین سے رہئے ‘ جب شہر میں اندر پہنچ گئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سب کے اکرام اور احترام سے ٹھہرانے کا انتظام فرمایا اور جس تخت شاہی پر خود جلوہ افروز ہوتے تھے اس پر اپنے والدین کو بٹھایا اور جس سے ان کی رفعت شان کو ظاہر کرنا مقصود تھا اس وقت والدین اور گیارہ بھائی سب یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدے میں گرگئے یہ سجدہ بطور تعظیم کے تھا جو سابقہ امتوں میں مشروع تھا۔ شریعت محمد یہ علی صاحبھا الصلاۃ والتحیہ میں غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنا حرام کردیا گیا ہے سجدہ عبادت ہو یا سجدہ تعظیمی ہماری شریعت میں غیر اللہ کے لیے حرام ہے ‘ اس کی کچھ تفصیل سورة بقرہ رکوع نمبر ٤ میں گزر چکی ہے جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ چاند سورج اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کئے ہوئے ہیں ان کے اس خواب کی تعبیر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اسی وقت سمجھ لی تھی کہ اگر یہ خواب یوسف کے بھائیوں نے سن لیا تو اندیشہ ہے کہ وہ گیارہ ستاروں کا مصداق اپنے ہی کو سمجھ لیں گے اس لئے کچھ ایسی تدبیر کریں گے کہ یوسف کی ہلاکت ہوجائے یا وہاں سے دور ہوجائے بھائیوں کے کان میں ان کے خواب کی بھنک پڑی تھی یا یونہی دشمنی پر اتر آئے تھے بہر حال وہ تو یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈال کر اور پھر چند درہم کے عوض فروخت کر کے اپنے خیال میں فارغ ہوچکے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ اب یوسف کو نہ گھر واپس آنا ہے نہ اسے کوئی برتری اور بلندی حاصل ہونی ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو آخر وہ دن آگیا کہ یہ لوگ ان کے سامنے شرمندہ بھی ہوئے اور ان کو تعظیمی سجدہ بھی کیا سجدہ کرنے والوں میں گیارہ ستارے تو بھائی ہوئے اور چاند اور سورج والدین ہوئے جب یہ منظر سامنے آیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین سے عرض کیا کہ اے ابا جان یہ میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہوگئی ‘ میں نے جو خواب دیکھا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی تعبیر سچی فرما دی قرآن مجید میں (وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ ) فرمایا ہے ‘ معنی حقیقی کے اعتبار سے عربی زبان میں ابوین ماں باپ کے لئے بولا جاتا ہے ان میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) تو حقیقی طور پر والد کا مصداق تھے لیکن ان کے ساتھ جس خاتون کو تخت شاہی پر بٹھایا اور سب سجدہ ریز ہوئے ان میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی والدہ تھیں یا بطور مجاز خالہ کو والدہ فرمایا ہے جن سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بعد میں نکاح فرما لیا تھا تفسیر کی کتابوں میں دونوں باتیں لکھی ہیں حضرت حسن اور مورخ ابن اسحاق سے صاحب روح المعانی نے نقل کیا ہے کہ اس وقت تک ان کی حقیقی والدہ زندہ تھیں اگر ایسا ہو تو مجاز کی طرف جانے اور والدہ سے خالہ مراد لینے کی ضرورت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ اس نے مجھے جیل سے نکالا چونکہ جیل سے نکلنے کے بعد ہی بلند مرتبہ پر پہنچے تھے اس لئے مصر میں جن نعمتوں سے سر فراز ہوئے ان میں ابتدائی نعمت کا تذکرہ فرما دیا اور چونکہ حصول اقتدار ہی سارے خاندان کو مصر بلانے کا ذریعہ بنا اس لئے ساتھ ہی دوسری نعمت کا تذکرہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو دیہاتیوں والی آبادی سے لے آیا اور یہاں میرے پاس لا کر بسا دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا۔ (مِنْ م بَعْدِ اَنْ نَّزَعَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ ) کہ یہ سب کچھ اس کے بعد ہوا جبکہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان بگاڑ کی صورت بنا دی تھی ‘ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کنویں سے نکالنے کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ جیل سے نکالے جانے کا تذکرہ فرمایا اور مزید یہ کیا کہ بھائیوں نے جو کچھ کیا تھا اسے شیطان کی طرف منسوب کردیا ان دونوں باتوں میں حکمت یہ تھی کہ بھائی مزید شرمندہ نہ ہوں۔ جب معاف کردیا اور ہر بات بھول بھلیاں کردی تو اب اس کا تذکرہ کر کے دل دکھانا مناسب نہ جانا کر یموں کی یہی شان ہوتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:۔ یہ پندرہواں حال ہے جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے تمام اہل و عیال کو لے کر مصر میں حضرت یوسف علیہ السالام کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے والدین یعنی والد اور خالہ کو بڑے اعزازو اکرام کے ساتھ اپنے محل میں اتارا۔ کیونکہ آپ کی حقیقی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ ” قَالَ ادْخُلُوْا الخ “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) والدین اور دیگر افراد خاندان کے استقبال کی خاطر شہر سے باہر تشریف لے آئے تھے۔ ” اٰمِنِیْنَ “۔ تکلیف و مصیبت کا جو دور آپ پر گذرا ہے اور بیٹوں کی جدائی اور قحط سالی کی وجہ سے جو تکلیفیں آپ نے اٹھائیں ان سے اب امن میں آچکے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

99 ۔ یہ سب لوگ کنعان سے مصر کے لئے روانہ ہوئے اور ادھر حضرت یوسف (علیہ السلام) مصر سے استقبال کے لئے نکلے اور شہر سے باہر استقبال کا انتظام کیا گیا پھر یہ سب جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اپنے پاس عزت و تعظیم کے ساتھ جگہ دی اور استقبال و ملاقات کے بعد کہا اب آپ سب شہر میں چلئے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہاں آپ ہر طرح امن وامان سے رہیں گے۔ یعنی دل جمعی اور خاطر جمعی کے ساتھ شہر میں چلئے ماں باپ کو جگہ دی ماں سے مراد ان کی خالہ ہیں جو سوتیلی ماں تھیں اور ہوسکتا ہے کہ حقیقی والدہ بھی زندہ ہوں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ الفاظ شہر میں داخل ہونے کے بعد کہے یعنی بےکھٹکے ہو کر یہاں رہیے۔ واللہ اعلم حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ باہر شہر سے استقبال کو نکلے ہاں یہ کہا ۔ 12