Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 1

سورة الرعد

الٓـمّٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ ؕ وَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱﴾

Alif, Lam, Meem, Ra. These are the verses of the Book; and what has been revealed to you from your Lord is the truth, but most of the people do not believe.

ال م ر ۔ یہ قرآن کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is Allah's Kalam (Speech) Allah said: المر ... Alif Lam-Mim Ra We talked before, in the beginning of Surah Al-Baqarah about the meaning of the letters that appear in the beginnings of some Surahs in the Qur'an. We stated that every Surah that starts with separate letters, affirms that the Qur'an is miraculous and is an evidence that it is a revelation from Allah, and that there is no doubt or denying in this fact. This is why Allah said next, ... تِلْكَ ايَاتُ الْكِتَابِ ... These are the verses of the Book, the Qur'an, which Allah described afterwards, ... وَالَّذِيَ أُنزِلَ إِلَيْكَ ... and that which has been revealed unto you, (O Muhammad), ... مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ ... from your Lord is the truth, Allah said next, ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يُوْمِنُونَ but most men believe not. just as He said in another Ayah, وَمَأ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِينَ And most of mankind will not believe even if you desire it eagerly. (12:103) Allah declares that even after this clear, plain and unequivocal explanation (the Qur'an), most men will still not believe, due to their rebellion, stubbornness and hypocrisy.

سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں ۔ اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموما یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نیہں ۔ چنانچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں ۔ بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔ پہر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے ۔ الحق خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی الذی انزل الیک لیکن ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ قول لائے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اس سے پہلے گزرا ہے کہ گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں ۔ یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد ، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یہ عین حق وہی باتیں ہیں جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں اصول دین رہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کی فرمانروائی میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور یہ کہ قیامت آکے رہے گی۔ یہ نظام درہم برہم ہوگا۔ دوسرا عالم بنایا جائے گا۔ جس میں تمام اچھے اور برے انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا اور یہ اللہ کی نازل کردہ آیات ہیں اور آپ کی نبوت برحق ہے اور یہی وہ باتیں ہیں جن پر مشرکین مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے۔ اس تمہید کے بعد اب آگے اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے سے متعلق دلائل پیش کیے جارہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الۗمّۗرٰ : یہ حروف مقطعات ہیں، ان کی تفصیل سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ شعراوی (رض) نے یہاں ایک فائدہ ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید سارا وصل پر مبنی ہے، یعنی ہر لفظ دوسرے سے ملا ہوا ہے، سوائے اس مقام کے جہاں وقف کرنا ہو، جیسا کہ آیت کا آخر وغیرہ، مثلاً اسی سورت کو لے لیں : (تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ ) اس میں ہر لفظ پر اعراب پڑھیں گے، مگر حروف مقطعات ” الۗمّۗرٰ “ کو ملا کر نہیں پڑھیں گے، بلکہ چاروں حرفوں کو الگ الگ پڑھیں گے، کیونکہ جبریل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے ہی پڑھایا، پھر آپ نے ایسے ہی پڑھا اور ہم تک تواتر سے ایسے ہی پہنچا۔ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ : کوئی لفظ جب مطلق بولا جائے تو اس سے کامل فرد مراد ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں : ” فُلاَنٌ الرَّجُلُ “ یعنی فلاں شخص مرد ہے، مطلب واقعی سچ مچ کامل مرد ہے، بخیل، بزدل، جھوٹا یا لولا لنگڑا نہیں۔ اسی طرح دین و عقائد میں ” اَلْکِتَابُ “ سے مراد کامل کتاب قرآن مجید لیا جاتا ہے۔ نحو میں سیبویہ کی کتاب کو ” اَلْکِتَابُ “ اور شہروں میں سے ” مَدِیْنَۃُ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ کو ” اَلْمَدِیْنَۃُ “ کہا جاتا ہے۔ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ : یعنی آپ کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا وہی عین حق ہے، مگر اکثر لوگ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ اس میں انسانوں کی اکثریت کی رائے کے پرستاروں کے لیے سبق ہے اور ان لوگوں کی تعریف بھی ہے جو ایمان سے بہرہ ور ہیں، وہ قلیل بھی ہوسکتے ہیں کثیر بھی، مگر اکثریت انھی کی ہے جو ایمان کی سعادت سے محروم ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This Surah is Makki and it has a total of forty three verses. Mentioned in this Surah too there are subjects such as the truth and veracity of the Holy Qur&an, Tauhid (Oneness of Allah), Risalah (Prophethood) and answers to doubts raised about them. The first group of letters: المر (Alif, Lam, Meem, Ra) are isolated Let¬ters (Al-Huruf al-Muqattaat) the meaning of which are known to Allah Ta’ ala alone. The Ummah has not been informed of its meaning. It is not appropriate for the Muslim Ummah at large to indulge in investigations about them. The first verse says that the Holy Qur&an is Divine Word, and that it is true. The word, الْكِتَابِ (Al-Kitab: The Book) means the Qur’ an, and it is possible that the expression which follows it, that is, الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ (And what has been sent down to you from your Lord) might as well mean the Qur’ an itself. But, the connective (the waw of ` atf translated as &And& ) obviously requires that الْكِتَابِ (Al-kitab: The Book) and الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ (what has been sent down to you) should be two separate things. In that case, Al-Kitab or The Book would signify the Qur&an and (what has been sent down to you) would mean the revelation (Wahy), other than that of the Qur’ an, which has been sent down to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - because, it goes without saying, that the revelation sent to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not restricted to the Qur&an alone. The Qur&an itself says وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ (53:3) It means: Whatever the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) says, he does not say on his own, out of some desire of his; instead, it is a message revealed to him from Allah Ta&ala. It proves that the orders given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، other than those appearing in the Qur’ an, are also no other but those sent from Allah. The only differ¬ence between the two is that the Qur’ an is recited (matluww) while the later is not (ghayr matluww). The rationale for this difference is that the meanings and the words of the Qur’ an are both from Allah Ta’ ala, while, in the case of the rules of conduct (Ahkam) given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Hadith - in addition to those in the Qur&an - their meanings too are, no doubt, revealed from Allah Ta’ ala, but their words are not revealed from Him. Therefore, they cannot be recited in Salah. Thus, the verse comes to mean that the Quran and its injunctions sent down to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are all true and in them there is no room for doubt. But, most people, due to their lack of concern and deliber¬ation, do not come around to believe in them. That Allah Ta` ala exists and that He is One has been emphasized in the second verse. The proof stands obvious. Look at what has been creat¬ed and ponder over the matchless mastery with which everything was created. One can come to only one conclusion that their maker has abso-lute power over everything and that He controls all creations and uni¬verses as the master.

خلاصہ تفسیر : الۗمّۗرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آپ سن رہے ہیں) آیتیں ہیں ایک بڑی کتاب (یعنی قرآن) کی اور جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے یہ بالکل سچ ہے اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ سب ایمان لاتے) لیکن بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے (ربط، اوپر حقیقت قرآن کا مضمون تھا آگے توحید کا مضمون ہے جو کہ اعظم مقاصد قرآن سے ہے) اللہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے آسمانوں کو بدون ستون کے اونچا کھڑا کردیا چناچہ تم ان (آسمانوں) کو (اسی طرح) دیکھ رہے ہو پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے) اور آفتاب و ماہتاب کو کام میں لگا دیا (ان دونوں میں سے) ہر ایک (اپنے مدار پر) ایک وقت معین میں چلتا رہتا ہے (چنانچہ سورج اپنے مدار کو سال بھر میں قطع کرلیتا ہے اور چاند مہینہ بھر میں) وہی (اللہ) ہر کام کی ( جو کچھ عالم میں واقع ہوتا ہے) تدبیر کرتا ہے (اور) دلائل (تکوینیہ و تشریعیہ) کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے پاس جانے کا (یعنی قیامت کا) یقین کرلو (اس کے امکان کا تو اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ ایسی عظیم چیزوں کی تخلیق پر قادر ہے تو مردوں کو زندہ کرنے پر کیوں نہیں قادر ہوگا اور اس کے وقوع کا یقین اس طرح کہ مخبر صادق نے ایک امر ممکن کے وقوع کی خبر دی لامحالہ وہ سچی اور صحیح ہے) اور وہ ایسا ہے کہ اس نے زمین کو پھیلا دیا اور اس (زمین) میں پہاڑ اور نہریں پیدا کیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پیدا کئے (مثلا کھٹے اور میٹھے یاچھوٹے اور بڑے کوئی کسی رنگ کا اور کوئی کسی رنگ کا اور) شب (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو چھپا دیتا ہے (یعنی شب کی تاریکی سے دن کی روشنی پوشیدہ اور زائل ہوجاتی ہے) ان امور (مذکورہ) میں سوچنے والوں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحیدپر) دلائل (موجود) ہیں (جس کی تقریر پارہ دوم کے رکوع چہارم کے شروع میں گذری ہے) اور (اسی طرح اور بھی دلائل ہیں توحید کے چنانچہ) زمین میں پاس پاس (اور پھر) مختلف قطعے ہیں (جن کا باوجود متصل ہونے کے مختلف الاثر ہونا عجیب بات ہے) اور انگوروں کے باغ ہیں اور (مختلف) کھیتیاں ہیں اور کھجور (کے درخت) ہیں جن میں بعضے تو ایسے ہیں کہ ایک تنہ اوپر جا کردو تنے ہوجاتے ہیں اور بعضوں میں دو تنے نہیں ہوتے (بلکہ جڑ سے شاخوں تک ایک ہی چلا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور (باوجود اس کے پھر بھی) ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں ان امور (مذکورہ) میں (بھی) سمجھداروں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحید کے) دلائل (موجود) ہیں معارف و مسائل : یہ سورة مکی ہے اور اس کی کل آیتیں تینتالیس ہیں اس سورة میں بھی قرآن مجید کا کلام حق ہونا اور توحید و رسالت کا بیان اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں الۗمّۗرٰ یہ حروف مقطعہ ہیں جن کے معنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں امت کو اس کے معنی نہیں بتلائے گئے عام امت کو اس کی تحقیق میں پڑنا بھی مناسب نہیں۔ حدیث رسول بھی قرآن کی طرح وحی الہی ہے : پہلی آیت میں قرآن کریم کے کلام الہی اور حق ہونے کا بیان ہے کتاب سے مراد قرآن ہے اور ۭ وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ سے بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن ہی مراد ہو لیکن واؤ حرف عطف بظاہر یہ چاہتا ہے کہ کتاب اور اَلَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ دوچیزیں الگ الگ ہوں اس صورت میں کتاب سے مراد قرآن اور اَلَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ سے مراد وہ وحی ہوگی جو علاوہ قرآن کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آئی ہے کیونکہ اس میں تو کوئی کلام نہیں ہوسکتا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آنے والی وحی صرف قرآن میں منحصر نہیں خود قرآن کریم میں وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی اپنی غرض سے نہیں کہتے بلکہ ایک وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بھیجی جاتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو قرآن کے علاوہ دوسرے احکام دیتے ہیں وہ بھی منزل من اللہ ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس کی تلاوت نہیں ہوتی اور اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور قرآن کے علاوہ حدیث میں جو احکام آپ دیتے ہیں ان کے بھی معانی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتے ہیں مگر الفاظ منزل من اللہ نہیں ہوتے اسی لئے نماز میں ان کی تلاوت نہیں کی جاسکتی۔ معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ یہ قرآن اور جو کچھ احکام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کئے جاتے ہیں وہ سب حق ہیں جن میں کسی شک وشبہ کی گنچائش نہیں لیکن اکثر لوگ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے اس پر ایمان نہیں لاتے۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے دلائل مذکور ہیں کہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات کو ذرا غور سے دیکھو تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ ان کی بنانے والی کوئی ایسی ہستی ہے جو قادر مطلق ہے اور تمام مخلوقات و کائنات اس کے قبضہ میں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الۗمّۗرٰ ۣتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ ۭ وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۝ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) یعنی جو کچھ تم کرتے اور کہتے ہو اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کو خوب جانتا اور دیکھتا ہے، یا یہ کہ یہ ایک قسم ہے۔ یہ سورت (رعد) قرآن کریم کی آیات ہیں اور قرآن کریم جو حکم دیتا ہے یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے بالکل سچ ہے لیکن اکثر اہل مکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. This is the introduction to this Surah, in which its aim and object has been enunciated in a few words. Allah has addressed the Prophet (peace be upon him) to this effect: O Prophet, most of your people are rejecting the teachings of the Quran for one reason or the other, but the fact is that what We are sending down to you is the truth whether people believe it or not. After this brief introduction, the discourse deals with the main subject of the Surah which consists of three basic things. First, the entire universe belongs to Allah alone, and none besides Him has any right to service and worship. Second, there is another life after this life in which you shall have to render an account of all your actions. Third, I am a Messenger of Allah: whatever I am presenting before you is not from myself but from Allah. As the people were rejecting these three things, these have been reiterated over and over again in various forms to remove doubts and objections from the minds of the disbelievers.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورہ کی تمہید ہے جس میں مقصود کلام کو چند لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ روئے سخن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں ، مگر واقعہ یہ ہے کہ اسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں ۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہوجاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں ان کا رویہ کس قدر غلط ہے ۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی ۔ ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی ۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہاہوں ۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے ، اِنہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طرقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ سورۃ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا ان حروف مقطعات کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ المر۔ حروف مقطعات میں سے ہے جو متشابہات میں داخل ہیں۔ متشابہات کی تفسیر کے باب میں سلف کا طریقہ سورت بقر اور سورت آل عمران میں گزر چکا ہے جو سورت حروف مقطعات سے شروع کی جاتی ہے اس میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہوتا ہے۔ اس لئے المر کے بعد اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ اس سورت کی آیتیں المر اس کے سوا جو تمام قرآن کی آیتیں تم پر اتاری گئی ہیں وہ حق ہیں لیکن بہت لوگ اس کو نہیں مانتے اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اور معجزوں کے علاوہ مجھ کو قرآن شریف ہی کا ایک ایسا معجزہ دیا گیا ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن میری امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے زیادہ ہوگی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ ١ ؎ ( ١ ؎ صحیح بخاری ص ٧٤٤ ج ٢ باب کیف نزل الوحی و مشکوٰۃ ص ٥١١ باب فضائل سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ) صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ علم الٰہی میں دوزخی قرار پاچکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں۔ ٢ ؎ (٢ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٢۔ ) صحیح بخاری اور مسلم کے حوالے سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے۔ ٣ ؎ (٣ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٣) ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کی نصیحت کی تاثیر تو ایسی ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن امت محمدیہ کے نیک لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے زیادہ ہوگی۔ لیکن علم الٰہی میں جو لوگ دوزخی قرار پاکر لوح محفوظ میں دوزخی لکھے جا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت اسی طرح رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اس لئے ایسے لوگ اپنی تمام عمر دوزخیوں کے سے کاموں میں گزارتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:1) تلک۔ کا اشارہ۔ سورة ہذا کی آیات کی طرف ہے۔ ای تلک الایات۔ اٰیات الکتب۔ یہ آیتیں الکتاب کی آیات ہیں۔ اور الکتاب سے مراد سورة ہذا بھی ہوسکتی ہے اور القرآن بھی۔ مؤخر الذکر کی صورت میں معنی ہوں گے ایات ہذہ السورۃ ایات القران الذی ہو الکتاب اس سورة کی آیات الکتاب (القرآن) کی ہیں۔ الذی اسم موصول انزل الیک من ربک صلہ۔ اور تمام کا تمام قرآن جو تیرے رب کی جانب سے تجھ پر نازل کیا گیا الحق بالکل سچ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی نظر و تامل نہ کرنے کی وجہ سے اس کی حقانیت پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ بطور وصف فرمایا ہے نہ کہ بطور خبر۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الرعد : رکوع نمبر ١ : اسرارومعارف : (آیت) ” الم ، تلک ایت الکتب۔ ١ تا ٧ ۔ یہ سورة مبارکہ بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے اور سورة یوسف کے آخر کا مضمون یعنی توحید باری کا ثبوت اور نبوت کی حقانیت ہی کے دلائل کا تسلسل ہے کہ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ مضامین ایک بےمثال کتاب میں ہیں جو اللہ کا ذاتی کلام ہے اور جو بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا انسانی بس میں نہیں اور جو کچھ اس میں فرمایا گیا ہے ، انسان کبھی اسے غلط ثابت نہیں کرسکتا اگرچہ اس میں دنیاوی امور کے بارے افزائش کے مسائل اور صورتیں سیاسیات ، اخلاقیات اور معاشیات تک بیان کی گئی ہیں واقعات عالم کے بارے پیشگویاں جو پوری اتری ہیں تو اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو الہیات اور آخرت کے بارے اس کے ارشادات کو نہ ماننے کوئی وجہ نہیں یہ تو خود اللہ کا ذاتی کلام ہے ۔ (حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی منزل من اللہ ہوتی ہے) آپ جو کچھ بھی دین کے بارے یا ذات صفات باری کے متعلق یا آخرت اور عذاب وثواب کی بات ارشاد فرماتے ہیں وہ بھی آپ اپنی رائے سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے چیلنج نہیں کرسکتا ، نہ ان میں کبھی کوئی بات غلط ثابت کرسکتا ہے تو اس سے ثابت ہے کہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے اور اس پر ایمان ایسا ہی ضروری ہے جیسا قرآن حکیم پر فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اس لیے اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور حدیث میں معانی اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں مگر الفاظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لہذا اس کی تلاوت نماز وغیرہ میں نہیں کی جاتی لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات بھی منزل من اللہ ہونے کے باعث حق ہیں لیکن لوگوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کے باوجود اکثریت انکار کئے بیٹھی ہے اور دولت ایمان سے محروم ہے ۔ اگر اللہ نبی ارسال نہ فرماتا اور کتاب بھی نازل نہ ہوتی تو بھی اس قدر دلائل نظام عالم میں موجود تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر ایمان لانا انسان کا فریضہ ثابت ہوتا ہے ، اے انسان ذرا دیکھ اس کی قدرت کاملہ کو کہ جس آسمان کو تو دیکھتا ہے اسے اللہ جل جلالہ نے بغیر کسی ستون ، دیوار یا مدد کے تمام سیاروں کے گرد قائم فرما دیا ہے ۔ (فلاسفہ کے اقوال آسمان کے بارے) فلاسفہ کا خیال ہے کہ یہ نیلگوں نظر آنے والا آسمان نہیں بلکہ فضا میں جہاں انسانی نگاہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہاں اسے نیلگوں سی روشنی نظر آتی ہے مگر اس بات سے فلاسفہ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ شاید اس روشنی میں آسمان کی جھلک بھی موجود ہو اور اس کا رنگ بھی ایسا ہی نظر آتا ہو ، یہاں ارشاد ہے یہ آسمان ہے جیسے تم دیکھتے ہو اور پھر اس نے عرش کو تخت سلطنت اور نظام عالم کے چلانے کا مرکز قرار دے دیا یہ خیال کہ اللہ عرش پر تشریف فرما ہے درست نہیں اس کی ذات حدود سے بالاتر ہے اور اگر عرش پر بیٹھنا مانا جائے تو ایک حد تو مقرر ہوگئی جو ناجائز ہے ہاں اپنی شان کے مطابق وہاں جلوہ فگن ہے کہ تمام نظام عالم کو چلانے کا مرکز عرش کو قرار دے دیا ہے پھر اسی نے سورج چاند یعنی نظام شمسی کو ایک فریضہ ادا کرنے پر پابند کردیا کہ اربوں ، کھربوں سالوں سے ایک خاص رفتار پر ایک خاص راستے پر ایک مقررہ انداز سے چل کر خدمت انجام دے رہے ہیں اور پورا نظام عالم ان سے اثر پذیر ہے ، اگر ان کی رفتار یا روشنی اور قوت کی مقدار میں عدم توازن آجائے ، انسانی زندگی اور نسل تک متاثر ہو مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ (تقدیر اور تدبیر) وہی ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے انسان اگرچہ اسباب کو اختیار کرنے کا مکلف ہے اور ناجائز ذرائع کے مقابل جائز اور حلال ذرائع اختیار کرنا ہی اسے زیب دیتا ہے مگر یہ اسباب وذرائع موثر بالذات نہیں ہوتے بلکہ ان میں اثر پیدا کرنا اور ان سے نتیجہ برآمد کرنا یہ اللہ جل جلالہ کا کام ہے اور ہی نظام عالم کے تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے اور بیشمار دلائل نظام عالم میں بھی اس نے نہایت تفصیل کے ساتھ سمو دیئے ہیں کہ ان سب سے سبق حاصل کرکے انسان یہ یقین کرسکے کہ اسے اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے کہ جب نظام عالم کے ہر کام کا ایک انجام ہے تو حیات انسانی کا باقی یقینا نیک انجام ہوگا اس کی قدرت کاملہ کو دیکھو کے زمین کو بچھا دیا اگرچہ کرہ ہے مگر ہر جگہ سے ہر طرف سے بچھونا بنی ہوئی ہے پھر اس پر بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کردیے جو زمین کے توازن قائم رکھنے کی خدمت کے ساتھ اپنی اپنی چوٹیوں پر برف کی صورت میں پانی کا شفاف سمندر لیے کھڑے ہیں اور یوں ان سے دریا ندیاں اور چشمے پھوٹتے ہیں جو زمین سے طرح طرح کی روئیدگی اور بہترین پھلوں کے پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں اور اس نے ہر ہر پھل میں رنگارنگی پیدا کردی ایک ہی شاخ پر لگنے والا پھل کھٹا بھی ہے اور میٹھا بھی نیز پھلوں کی اس قدر اقسام پیدا فرما دیں کہ شمار ناممکن انسانی بس میں نہیں کہ صرف گن ہی لے اور ان میں نرومادہ پیدا فرما دیے کہ نر کے اجزاء مادہ پودے تھا پہنچیں تو پھل دیتا اور ایسا قادر ہے کہ دن کے اجالوں پر رات کی سیاہ چادر ڈال دیتا ہے دن کے باعث الگ نعمتیں تقسیم ہوتی ہیں اور شب کا آنا دوسری طرح کے انعامات بٹنے کا باعث بنتا ہے ان سب امور میں ایسے لوگوں کے لیے جنہوں غور وفکر نصیب ہو بیشمار نشانیاں ہیں ایک ہی قطعہ زمین پر مختلف اور متصل ٹکروں میں الگ الگ قسم کے پھل پھول بہار دے رہے ہیں زمین ایک ہے پانی ایک جیسا دیا جاتا ہے مگر ہر تنکے کے ہاتھ میں الگ قسم کا پھول ہے رنگ الگ بو جدا ذائقہ علیحدہ اور تاثیر اپنی رکھتا ہے یہی حال پھلوں اور اجناس کا ہے کہ ایک ایک کھیت میں ایک ہی پانی سے کس قدر مختلف النواع کھیتاں پیدا فرماتا ہے اور ایک ایک باغ میں کس قدر مختلف النواع پھل کہیں انگوروں کی بہار ہے تو دوسری جگہ کھجور جیسے تناور درخت کھڑے ہیں اور ہر ہر پھل ہر ہر غلے کی تاثیر جدا رکھ دی ہے اگر عقل سلامت ہو تو اللہ جل جلالہ کی عظمت اور قدرت کاملہ کے یہ بہترین گواہ اور اس کی تخلیق کے شاہکار ہیں ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کفار یہ کہنا کہ بھلا جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے ابدان گل سڑ کر مٹی بن جائیں گے تو پھر دوبارہ ہم نئے سرے سے کیسے بنائے جاسکیں گے سب سے عجیب تر یہ ہے کہ ہر آن کائنات میں کس قدر چیزیں فنا ہوتی ہیں اور پھر دوبارہ نئی بن رہی ہیں اس کا شمار ناممکن خود انسانی وجود کی تخلیق میں جو مادہ غذا کے طور پر جسم بنانے کا کام آتا ہے اس کے ذرات دنیا میں دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ کہ ان سب کو یکجا کرکے ایک بدن کی تعمیر پر صرف اسی کی قدرت کاملہ سے ممکن ہے تو مرکر تو بدن کے اجزا اس قدر منتشر بھی نہیں ہو سکتے بھلا جس خالق نے پہلے بنایا اس کے لیے دوبارہ بنانا کیسے دشوار ہو سکتا ہے اور اس بات سے انکار کتنا عجیب ہے ، دراصل یہ اپنے بنانے والے اور اپنے پالنے والے پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور ان کا یہی کفر ان کے گلے کا طوق بنا ہوا ہے ایسے ہی لوگ دوزخ میں رہیں گے اور کفر ایسی مصیبت ہے کہ کافر کو ہمیشہ دوزخ میں رہنا پڑے گا ۔ ذرا ان کی دانشمندی دیکھیں کہ آپ سے ہدایت حاصل کرنے اور استفادہ کرنے سے پہلے عذاب طلب کرتے ہیں کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول برحق ہیں تو جس عذاب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈراتے ہیں وہ ہم پر واقع ہوجائے پھر مانیں گے ، بھلا یہ دانشمندی ہے کہ جب عذاب واقع ہوگا تو تمہیں ماننے کی فرصت ہوگی ؟ اور اس کے نمونے پہلے بہت گزر چکے جن میں تباہ شدہ قوموں کے کھنڈر ابھی تک گواہی دینے کے لیے موجود ہیں کہ نبی سے جھگڑا کرنے پر عذاب آتا ہے اور تباہی ہوجاتی ہے پھر اصلاح کا موقع نہیں ملتا ، اور آپ کا رب کتنا کریم ہے کہ لوگ گناہ اور ظلم کرتے رہتے ہیں اور مسلسل معاف فرماتا اور درگذر کرتا ہی رہتا ہے گناہ اور ظلم پر بھی فوری پکڑ نہیں کرتا لیکن ایک حد سے اگر کوئی اس تک جا پہنچے تو پھر اس کے عذاب بھی بڑے سخت اور اس کی گرفت تباہ کن ہوتی ہے ۔ بیشمار معجزات اور معجزانہ کلام اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالی اوصاف سب کچھ انہیں قائل کرنے کو کافی نہیں کہ کہتے ہیں بھلا وہ خاص معجزہ جو ہم مانگتے ہیں وہ ان پر کیوں نہیں نازل ہوتا ، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اللہ جل جلالہ کی طرف ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کا قادر مطلق ہونا منواتے ہیں آپ تو اپنی ذات کے بارے یہ دعوی ہی نہیں رکھتے کہ میں جو چاہوں کروں تو پھر یہ مطالبہ آپ سے کیسے درست ہو سکتا ہے آپ جس بات کا دعوی کرتے ہیں اور جو حق ہے وہ یہ ہے کہ آپ اعمال کے ان نتائج سے جو موت کے بعد پیش آئیں گے جب اصلاح کا وقت نہ ہوگا آج آگاہ فرماتے ہیں جب اصلاح کا وقت ہے ۔ (معجزہ اور کرامات) معجزہ تو اللہ جل جلالہ کا فعل ہے اور جب وہ چاہتا ہے اپنی نبی کے ہاتھ پہ ظاہر فرماتا ہے نیز یہی معجزہ جب نبی کا کامل اتباع کرنے والے ولی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے تو کرامت کہلاتا ہے یہ اللہ جل جلالہ کا فعل ہوتا ہے اور نبی کی صداقت کی دلیل بنتا ہے اور ہر ہر قوم میں اللہ جل جلالہ نے ہادی پیدا فرمائے کبھی نبی ورسول اور کبھی ان کے متبعین سے ان کا پیغام پہنچانے کا کام لیا یعنی ہر قوم میں ہدایت کے سامان کے طور پر ایسے افراد ضرور پیدا فرمائے ، جو حق کی طرف بلانے والے تھے نبی یا ان کے ماننے والے تو گویا ہر ہر آبادی میں نبی کا پیدا ہونا ضروری نہیں ، ہاں ہر دور میں اور ہر جگہ کسی نہ کسی طور دعوت الی اللہ کے پہنچانے کا اہتمام ہوتا رہا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4: انزل اتارا گیا الحق سچ رفع بلند کیا عمد ستون، سہارا استوی وہ برابر ہوا سخر اس نے مسخر کردیا، تابع کردیا اجل مسمی متعین مدت، مقرر مدت لقاء ملاقات مد اس نے پھیلا دیا رواسی بوجھ زوجین جوڑے ، دو دو یغشی چھا جاتا ہے قطع خطے، قطعات متجورت پاس پاس اعناب (عنب) انگور زرع کھیتی نخیل کھجور صنوان ایک جڑ والی یسقی سینچا جاتا ہے بماء واحد ایک پانی سے نفضل ہم بڑھا دیتے ہیں الاکل پیداوار پھل تشریح آیت نمبر 1 تا 4 اس سورت کے دوسرے رکوع کی ایک آیت میں لفظ رعد آیا ہے اسی مناسبت سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے اس سورت کا نام ” الرعد “ رکھا ہے۔ رعد کے معنی بادلوں کی گرج کے آتے ہیں۔ یہ سورت مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس کتاب (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے وہ ایک سچائی اور ہدایت و رہنمائی کی روشنی ہے جو ہر طرح کے شک اور شبہ سے بالاتر ہے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات وصفات، وحدانیتا ور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے ذکر کے ساتھ عظمت قرآن حکیم، دنیا و آخرت میں نیکی، جنت و جہنم اور ملائکہ پر ایمان لانے کو نجات کا ذریعہ فرمایا ہے اس سورت کی ابتداء ” آلمر “ سے کی گئی ہے جن کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سورتوں کی ابتداء میں یہ حروف آئے ہیں جن کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بتا دیا گیا ہے کہ ان حروف کے معنی کا علم اللہ رب العالمین کو ہے۔ ممکن ہے کہ ان حروف کے معانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیئے گئے ہوں۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی سوال نہیں کیا اور نہ آپ نے اس کی وضاحت فرمائی اس لئے ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے ؟ اس سورت کی ابتداء ” تلک ایت الکتب “ سے کی گئی ہے یعنی قرآن حکیم وہ کتاب ہدایت ہے جو ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہے جس کو اس اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے جو ایک صاف اور واضح حقیقت ہے جس میں کہیں بھی فلسفیانہ انداز بیان یا منطقی ایچ پیچ نہیں ہے۔ خالق کائنات نے اس قرآن کریم کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے ساری دنیا تک پہنچایا ہے تاکہ وہ ہدای کی روشنی حاصل کرسکیں۔ اس قرآن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود سے نہیں گھڑ لیا ہے بلکہ اس کو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اس کائنات کی تخلیق و پیدائش ہے۔ اس نے چاند، سورج، ستارے، فضائیں ہوائیں پیدا کئے جن کے پیدا کرنے میں کوئی اس اللہ کا شریک نہیں ہے۔ جس طر کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ کارخانہ عالم خود بخود نہیں چل رہا ہے بلکہ اس کو چلانے والی ذات اللہ کی ذات ہے وہی اس کا خلاق ومالک ہے اس نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس قرآن حکیم کو نازل کیا ہے۔ فرمایا کہ اس نے آسمانوں کو اس طرح بنایا ہے کہ اس میں نہ ستون ہیں نہ وہ کسی کے سہارے کھڑے ہیں صرف اسی کی قدرت کا مل سے قائم ہیں۔ اسی نے زمین اور اس کے ذرے ذرے کو پیدا کیا وہی اس کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ جس طرح آسمان، زمین بغیر کسی ہسارے کے قائم ہیں۔ اسی طر وہ اللہ اس نظام کائنات کے چلانے میں کسی سہارے کا محتاج نہیں ہے بلکہ ساری مخلوق ہر آن اسی کی محتاج ہے۔ اس نے اس پوری کائنات کو چھ دن میں مکمل کیا اور پھر وہ تھک کر آرام کرنے نہیں لگ گیا جیسا کہ یہود کا خیال ہے بلکہ وہ آسمان پر ” مستوی “ ہوگیا۔ ” استوی علی العرش “ کا مطلب ہے کہ اس کی سلطنت اور نظم و انتظام ایسا ہے کہ اس کا کوئی حصہ یا گوشہ نہ تو اس کے اقتدار و قوت سے باہر ہے نہ وہ اس کے انتظام کے چلانے میں کسی دوسرے کا محتاج ہے۔ دنیا کے ان بادشاہوں کی طرح نہیں ہے جو صرف اقتدار اور کرسی پر ہوتے ہیں اور سلطنت کے ہزاروں پہلوان سے پوشیدہ ہوتے ہیں بلکہ اس کے اقتدار قوت کا تو یہ عالم ہے کہ کسی درخت کا ایک پتہ بھی زمین پر گرتا ہے تو اس کو معلوم ہے بلکہ اسی کے حکم سے پتہ زمین پر گرتا ہے۔ پھر کائنات کی ہر چیز میں ایسا تو ازن اور مقدار متعین ہے جس میں ہر چیز اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ یہ تو ازن اور اعتدال خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جس طرح ہر چیز میں تو ازن و اعتدال ہے آخر کار وہ ایک معین مدت کے بعد ختم ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ ہر انسان کو بھی ایک مدت کے بعد موت کی نیند سونا ہے اور پھر قیامت میں دوبارہ اٹھ کر میدان حشر میں اپنے تمام اعمال کا حساب کتاب پیش کرنا ہے۔ اس دن اللہ و رسول کے فرمان برداروں اور نیکو کاروں کو ان کے نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان کو جنت کی ابدی اور راحت بھری زندگی عطا کردی جائے گی لیکن جو لوگ جانتے بوجھتے سچائیوں سے منہ موڑ کر چلنے والے ہیں۔ شرک و کفر اور اللہ کی نافرمانی اور گناہوں میں مبتلا رہے ہیں ان کو جہنم میں ہمیشہ کے لئے بھیج دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نظام قدرت کو تفصیل سے ارشاد فرمایا کہ زمین کی ہر چیز کو اس نے انتہائی خوبصورت سے سجایا ہے۔ لہلہاتے ہوئے کھیت، سرسبز و شاداب وادیاں، تنا ور درخت طرح طرح کے پھل پھول اور سبزیاں وغیرہ انسانوں کے لئے پیدا کیں تکاہ وہ اپنی دنیاوی زندگی میں ان کو کام میں لائیں اوف ائدے حاصل کریں۔ اس نے پہاڑوں کو پیدا کیا تاکہ زمین اپنی جگہ جمی رہے اور زمین ایک طرف کو نہ ڈھلک جائے۔ رات اور دن کو پیدا کیا۔ نظام اس طرح بنایا کہ رات کو راحت و آرام کیلئے اور دن کو طلب معاش یعنی روزی حاصل کرنے کے لئے بنایا۔ اس نے ہر چیز کے نر اور مادہ کے جوڑے بنائے اور ان میں ایک ایسا خوبصورت رابطہ اور تعلق پدیا کیا کہ انسان ان پر جتنا بھی غور و فکر کرتا جائے گا وہ حیرت و تعجب میں ڈوبتا چلا جائے گا۔ یہ اسی کی قدرت ہے کہ زمین ایک ہے، پانی، ہوا فضا میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن پھولوں کے رنگ، درختوں کی پھبن، پھلوں کے مزے مختلف ہیں، کوئی میٹھا ہے، کوئی کڑوا ہے، کوئی کسیلا ہے، کوئی سخت، کوئی نرم، کوئی سفید اور کوئی سایہ۔ اسی رط انسان ایک ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے ایک ہی گھرانہ ہے ایک ہی ماحول ہے لیکن ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ اس طرح ہر انسان کس قدر مختلف صفات رکھتا ہے کوئی مومن ہے کوئی کافر کوئی فرماں بردار ہے کوئی نافرمان کوئی عقلمند ہے کوئی بیوقوف ، کوئی نیک ہے اور کوئی بدکردار، یہ سب اللہ کا نظام ہے، گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن۔ اسی طرح اگر غور کیا جائے تو ہر چیز کے اثرات بھی مختلف ہیں مثلاً قرآن کریم ایک ہے لیکن اس کے اثرات کتنے مختلف ہیں۔ نیک فطری انسان اس سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور بد فطرت انسان اس کی بھلائیوں سے محروم رہتے ہیں۔ غرضیکہ کائنات میں اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ دنیا خود بخود نہیں چل رہی ہے بلکہ اس کا چلانے والا کوئی ہے اور قرآن کریم اسی حقیقت کو بتانا چاہتا ہے کہ اس پورے نظام کائنات کو چلانے ولا ایک اللہ ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی نے اس کتاب قرآن مجید کو نازل کیا ہے اس کو پڑھ کر جسکا دل چاہے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی بن جائے اور جس کا جی چاہے وہ قرآن کی ہدایت سے دور رہ کر ابوجہل، ابولہب، عتبہ اور ولید بن جائے۔ اللہ نے ہدایت اور گمراہی کے راستے کھلے رکھے ہیں لیکن ہر شخص اپنے انجام کو پیش نظر رکھے کیونکہ اللہ نے ہمیشہ دنیا و آخرت میں ان ہی لوگوں کو سرخرو کیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو مان کر چلنے والے ہیں۔ دنیا بھی ان کی ہے اور آخرت کی ابدی راحتیں بھی ان ہی کا مقدر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا تعارف۔ نبوت سے پہلے لوگوں کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہ صرف مکمل اعتماد تھا کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں بلکہ ان کا یہ بھی اعتقاد تھا کہ آپ سب سے بڑھ کر دیانتدار ہیں۔ اسی لیے وہ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ لیکن جونہی آپ پر قرآن مجید نازل ہوا، اس میں ان کے شرک کی نفی کی گئی تو وہ لوگ یکدم کہنے لگے کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ اس پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی۔ یہ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کے ذمہ لگاتا ہے۔ جس سے ان کا منشا یہ تھا کہ قرآن کا انکار کرنے سے یہ شخص خود بخود ناکام ہوجائے گا۔ ان کی اس سازش کو ناکام کرنے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ بار بار قرآن مجید کا تعارف کرواتا ہے کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے۔ اس کی کسی بات میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہے۔ جس کا اعتراف ہر دور کے منصف مزاج کافر بھی کیا کرتے ہیں جس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس کا اعتراف : ” بیشک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق و معارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2008 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ “ ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب “ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف، ان الفاظ کیا ہے : ” پیغمبر نبی امی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔ “ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔ “ (شہادۃ الاقوام، ص ١٣) مسائل ١۔ قرآن مجید چھوٹی چھوٹی آیات اور حقائق پر مبنی کتاب ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے حق ہونے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس پر ایمان نہیں لاتی۔ تفسیر بالقرآن حق کیا ہے ؟ ١۔ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا وہ حق ہے۔ (الرعد : ١) ٢۔ تیرے رب کی طرف سے حق پہنچ گیا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں جائیں۔ (البقرۃ : ١٤٧) ٣۔ اللہ نے قرآن مجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ (البقرۃ : ١٧٦) ٤۔ یہ اللہ کی آیات ہیں ہم ان کو آپ پر حق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں اور یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔ (البقرۃ : ٢٥٢) ٥۔ یقیناً جو اس کتاب میں قصے بیان کیے گئے ہیں وہ برحق ہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٦۔ حکم صرف اللہ کا ہے وہی حق بیان کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٥٧) ٧۔ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور حق کو جانتے بوجھتے مت چھپاؤ۔ (البقرۃ : ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١١٢ تشریح آیات ١۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ ١٨ سورة کا آغاز اسلامی نظریہ حیات کے ایک بنیادی مسئلہ سے کیا جاتا ہے۔ یہ کہ یہ کتاب من جانب اللہ نازل ہوئی ہے۔ یہ جن حقائق پر مشتمل ہے ، وہ حق اور سچے ہیں۔ یہ بات اسلامی نظریہ حیات کے اساسیات میں سے ہے۔ باقی تمام نظریات و عقائد اسی نکتے پر تعمیر ہوتے ہیں۔ عقیدۂ توحید ، عقیدۂ بعث بعد الموت ، زندگی میں عمل صالح کی افادیت اور تمام اخلاقی تعلیمات اس بات پر موقوف ہیں کہ یہ سب احکام من جانب اللہ ہیں اور یہ قرآن کی شکل میں جبرائیل (علیہ السلام) خدا کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق ہیں۔ یہ ہے وہ بنیاد جس پر پورا دین تعمیر ہوا ہے۔ آیت نمبر ١ المر تلک ۔۔۔۔۔ الحق (١٣ : ١) ” یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں “۔ یعنی یہ آیات اس بات کی شاہد ہیں کہ یہ وحی منجانب اللہ ہے۔ کیونکہ یہ آیات انہی حروف تہجی سے مرکب ہیں۔ اور جب آج تک ان حروف سے ایسی کتاب کوئی نہیں بنا سکا تو ثابت ہوا کہ یہ وحی الٰہی ہیں۔ والذی انزل الیک من ربک الحق (١٣ : ١) ” اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے “۔ یہی حق ہے ، یہ ایسا خالص حق ہے جس میں باطل کی کوئی ملاوٹ نہیں ہے اور جس میں کوئی شک اور تردد نہیں ہے ۔ یہ حروف تہجی بھی اس پر دلیل ہیں کہ یہ حق ہے کیونکہ یہ اس کتاب کے من جانب اللہ ہونے پر دلیل ناطق ہیں۔ کیونکہ اللہ کی جانب سے جو آتا ہے وہ حق ہی ہوتا ہے اور اس میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ ولکن اکثر الناس لا یومنون (١٣ : ١) ” مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ وہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے کہ یہ قرآن مجید من جانب اللہ ہے۔ اور نہ ان نتائج کو مانتے ہیں جو اس ایمان کے بعد سامنے آتے ہیں مثلاً عقیدۂ توحید ، صرف اللہ کی مکمل اطاعت ، عقیدہ بعث بعد الموت اور عقیدۂ توحید کے ساتھ عمل صالح۔ اور پوری زندگی کی اصلاح۔ یہ ہے اس سورة کا کلمہ آغاز اور اس کے اندر پوری سورة کے مضامین کو نچوڑ کر بند کردیا گیا ہے۔ ان تمام موضوعات کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جو اس میں موجود ہیں۔ چناچہ تفصیلات کا آغاز مناظر قدرت الٰہیہ کے بیان سے کیا جاتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ، اس کی حرکت اور اس کے اثرات و آثار کس قدر گہری حکمت پر مبنی ہیں اور بذات خود یہ کائنات کس قدر عجیب چیز ہے ۔ جب یہ کائنات عجیب ہے ، اس کی مخلوق عجیب ہے اور اس کی حکمتیں ناقابل فہم ہیں تو انسان کی ہدایت کے لئے وحی و کتاب لابدی ہیں اور یہ کہ اس فانی دنیا کے بعد دائمی زندگی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نیز اس کائنات کی اس پیچیدہ قدرت و حکمت کا تقاضا۔ منطقی تقاضا بھی یہ ہے کہ موت کے بعد تمام مخلوقات زندہ کر کے اٹھائی جائے۔ تمام لوگ اس کے سامنے حاضر ہوں جس نے ان کو پیدا کیا اور جس نے ان کے لئے اس کائنات کو مسخر کیا اور اس کی نعمتوں سے نوازا تا کہ وہ پوری زندگی کا جواب دیں۔ حساب و کتاب ہو ، جزاء وسزا اور عمل آزمائش مکمل ہو۔ مناظر قدرت کی عکاسی اور تصویر کشی یوں شروع ہوتی ہے کہ سب سے پہلے بڑے بڑے قدرتی مناظر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ ایک ٹچ آسمانوں کو دیا جاتا ہے اور ایک ٹچ طویل و عریض زمین کو دیا جاتا ہے اور پھر اس زمین پر بکھری ہوئی حیات اور سا کے عجائبات سامنے آتے ہیں۔ اس کے بعد نہایت ہی تعجب سے کہا جاتا ہے کہ آخر ان لوگوں کے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ یہ لوگ دراصل ان قدرتی شواہد کے بعد آیات و معجزات کا مقابلہ کر کے دراصل عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2: حروف مقطعاتمتشابہات میں سے ہیں ان کی اصل مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ” تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبَ الخ “ تمہید مع ترغیب۔ ” تلک “ سے اشارہ اس سورت کی طرف ہے اور اَلْکِتَاب سے قرآن مجید مراد ہے۔ ” وَالَّذِیْ الخ “ موصول مع صلہ مبتدا اور ” اَلْحَقُّ “ اس کی خبر ہے خبر کی تعریف مفید حصر ای ھو الحق (معالم) ۔ یہ سورت قرآن حکیم کی آیتیں ہیں اور وہ اس کتاب حکیم ہی کا ایک حصہ ہے اور جو قرآن ہم نے آپ پر نازل کیا ہے وہ حق ہے اور اس میں بیان کردہ عقائد و احکام اس قدر محکم، واضح اور ظاہر ہیں کہ ان میں شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ھو الھق الذی لا شک فیہ (خازن ج 4 ص 2) ۔ مگر اس کے باوجود ضدی اور معاند لوگ نہیں مانتے ای مع ھذا البیان والجلاء والوضوح لا یومن اکثرھم لما فیھم من الشقاق والعناد والنفاق (ابن کثیر ج 2 ص 498) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 ۔ الم قف یہ آیتیں کتاب یعنی قرآن کریم کی آیتیں ہیں اور آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ کی جانب نازل کیا گیا ہے وہ سچ اور برحق ہے لیکن بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے۔