Commentary This Surah is Makki and it has a total of forty three verses. Mentioned in this Surah too there are subjects such as the truth and veracity of the Holy Qur&an, Tauhid (Oneness of Allah), Risalah (Prophethood) and answers to doubts raised about them. The first group of letters: المر (Alif, Lam, Meem, Ra) are isolated Let¬ters (Al-Huruf al-Muqattaat) the meaning of which are known to Allah Ta’ ala alone. The Ummah has not been informed of its meaning. It is not appropriate for the Muslim Ummah at large to indulge in investigations about them. The first verse says that the Holy Qur&an is Divine Word, and that it is true. The word, الْكِتَابِ (Al-Kitab: The Book) means the Qur’ an, and it is possible that the expression which follows it, that is, الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ (And what has been sent down to you from your Lord) might as well mean the Qur’ an itself. But, the connective (the waw of ` atf translated as &And& ) obviously requires that الْكِتَابِ (Al-kitab: The Book) and الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ (what has been sent down to you) should be two separate things. In that case, Al-Kitab or The Book would signify the Qur&an and (what has been sent down to you) would mean the revelation (Wahy), other than that of the Qur’ an, which has been sent down to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - because, it goes without saying, that the revelation sent to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not restricted to the Qur&an alone. The Qur&an itself says وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ (53:3) It means: Whatever the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) says, he does not say on his own, out of some desire of his; instead, it is a message revealed to him from Allah Ta&ala. It proves that the orders given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، other than those appearing in the Qur’ an, are also no other but those sent from Allah. The only differ¬ence between the two is that the Qur’ an is recited (matluww) while the later is not (ghayr matluww). The rationale for this difference is that the meanings and the words of the Qur’ an are both from Allah Ta’ ala, while, in the case of the rules of conduct (Ahkam) given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Hadith - in addition to those in the Qur&an - their meanings too are, no doubt, revealed from Allah Ta’ ala, but their words are not revealed from Him. Therefore, they cannot be recited in Salah. Thus, the verse comes to mean that the Quran and its injunctions sent down to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are all true and in them there is no room for doubt. But, most people, due to their lack of concern and deliber¬ation, do not come around to believe in them. That Allah Ta` ala exists and that He is One has been emphasized in the second verse. The proof stands obvious. Look at what has been creat¬ed and ponder over the matchless mastery with which everything was created. One can come to only one conclusion that their maker has abso-lute power over everything and that He controls all creations and uni¬verses as the master.
خلاصہ تفسیر : الۗمّۗرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آپ سن رہے ہیں) آیتیں ہیں ایک بڑی کتاب (یعنی قرآن) کی اور جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے یہ بالکل سچ ہے اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ سب ایمان لاتے) لیکن بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے (ربط، اوپر حقیقت قرآن کا مضمون تھا آگے توحید کا مضمون ہے جو کہ اعظم مقاصد قرآن سے ہے) اللہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے آسمانوں کو بدون ستون کے اونچا کھڑا کردیا چناچہ تم ان (آسمانوں) کو (اسی طرح) دیکھ رہے ہو پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے) اور آفتاب و ماہتاب کو کام میں لگا دیا (ان دونوں میں سے) ہر ایک (اپنے مدار پر) ایک وقت معین میں چلتا رہتا ہے (چنانچہ سورج اپنے مدار کو سال بھر میں قطع کرلیتا ہے اور چاند مہینہ بھر میں) وہی (اللہ) ہر کام کی ( جو کچھ عالم میں واقع ہوتا ہے) تدبیر کرتا ہے (اور) دلائل (تکوینیہ و تشریعیہ) کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے پاس جانے کا (یعنی قیامت کا) یقین کرلو (اس کے امکان کا تو اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ ایسی عظیم چیزوں کی تخلیق پر قادر ہے تو مردوں کو زندہ کرنے پر کیوں نہیں قادر ہوگا اور اس کے وقوع کا یقین اس طرح کہ مخبر صادق نے ایک امر ممکن کے وقوع کی خبر دی لامحالہ وہ سچی اور صحیح ہے) اور وہ ایسا ہے کہ اس نے زمین کو پھیلا دیا اور اس (زمین) میں پہاڑ اور نہریں پیدا کیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پیدا کئے (مثلا کھٹے اور میٹھے یاچھوٹے اور بڑے کوئی کسی رنگ کا اور کوئی کسی رنگ کا اور) شب (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو چھپا دیتا ہے (یعنی شب کی تاریکی سے دن کی روشنی پوشیدہ اور زائل ہوجاتی ہے) ان امور (مذکورہ) میں سوچنے والوں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحیدپر) دلائل (موجود) ہیں (جس کی تقریر پارہ دوم کے رکوع چہارم کے شروع میں گذری ہے) اور (اسی طرح اور بھی دلائل ہیں توحید کے چنانچہ) زمین میں پاس پاس (اور پھر) مختلف قطعے ہیں (جن کا باوجود متصل ہونے کے مختلف الاثر ہونا عجیب بات ہے) اور انگوروں کے باغ ہیں اور (مختلف) کھیتیاں ہیں اور کھجور (کے درخت) ہیں جن میں بعضے تو ایسے ہیں کہ ایک تنہ اوپر جا کردو تنے ہوجاتے ہیں اور بعضوں میں دو تنے نہیں ہوتے (بلکہ جڑ سے شاخوں تک ایک ہی چلا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور (باوجود اس کے پھر بھی) ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں ان امور (مذکورہ) میں (بھی) سمجھداروں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحید کے) دلائل (موجود) ہیں معارف و مسائل : یہ سورة مکی ہے اور اس کی کل آیتیں تینتالیس ہیں اس سورة میں بھی قرآن مجید کا کلام حق ہونا اور توحید و رسالت کا بیان اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں الۗمّۗرٰ یہ حروف مقطعہ ہیں جن کے معنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں امت کو اس کے معنی نہیں بتلائے گئے عام امت کو اس کی تحقیق میں پڑنا بھی مناسب نہیں۔ حدیث رسول بھی قرآن کی طرح وحی الہی ہے : پہلی آیت میں قرآن کریم کے کلام الہی اور حق ہونے کا بیان ہے کتاب سے مراد قرآن ہے اور ۭ وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ سے بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن ہی مراد ہو لیکن واؤ حرف عطف بظاہر یہ چاہتا ہے کہ کتاب اور اَلَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ دوچیزیں الگ الگ ہوں اس صورت میں کتاب سے مراد قرآن اور اَلَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ سے مراد وہ وحی ہوگی جو علاوہ قرآن کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آئی ہے کیونکہ اس میں تو کوئی کلام نہیں ہوسکتا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آنے والی وحی صرف قرآن میں منحصر نہیں خود قرآن کریم میں وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی اپنی غرض سے نہیں کہتے بلکہ ایک وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بھیجی جاتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو قرآن کے علاوہ دوسرے احکام دیتے ہیں وہ بھی منزل من اللہ ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس کی تلاوت نہیں ہوتی اور اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور قرآن کے علاوہ حدیث میں جو احکام آپ دیتے ہیں ان کے بھی معانی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتے ہیں مگر الفاظ منزل من اللہ نہیں ہوتے اسی لئے نماز میں ان کی تلاوت نہیں کی جاسکتی۔ معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ یہ قرآن اور جو کچھ احکام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کئے جاتے ہیں وہ سب حق ہیں جن میں کسی شک وشبہ کی گنچائش نہیں لیکن اکثر لوگ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے اس پر ایمان نہیں لاتے۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے دلائل مذکور ہیں کہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات کو ذرا غور سے دیکھو تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ ان کی بنانے والی کوئی ایسی ہستی ہے جو قادر مطلق ہے اور تمام مخلوقات و کائنات اس کے قبضہ میں ہیں۔