Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 14

سورة الرعد

لَہٗ دَعۡوَۃُ الۡحَقِّ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَسۡتَجِیۡبُوۡنَ لَہُمۡ بِشَیۡءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیۡہِ اِلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُغَ فَاہُ وَ مَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ ؕ وَ مَا دُعَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۱۴﴾

To Him [alone] is the supplication of truth. And those they call upon besides Him do not respond to them with a thing, except as one who stretches his hands toward water [from afar, calling it] to reach his mouth, but it will not reach it [thus]. And the supplication of the disbelievers is not but in error [i.e. futility].

اسی کو پکارنا حق ہے ، جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان ( کی پکار ) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Parable for the Weakness of the False Gods of the Polytheists Ali bin Abi Talib said that Allah's statement, لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ... For Him is the Word of Truth. is in reference to Tawhid, according to Ibn Jarir At-Tabari. Ibn Abbas, Qatadah, and Malik who narrated it from Muhammad bin Al-Munkadir, said that, لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ (For Him is the W... ord of Truth), means, "La ilaha illallah." Allah said next, ... وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ... And those whom they invoke besides Him..., meaning, the example of those who worship others besides Allah, ... لااَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلاَّ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاء لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ... answer them no more than one who stretches forth his hand for water to reach his mouth, but it reaches him not; كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاء لِيَبْلُغَ فَاهُ (like one who stretches forth his hand for water to reach his mouth), Ali bin Abi Talib commented, "Like he who stretches his hand on the edge of a deep well to reach the water, even though his hands do not reach it; so how can the water reach his mouth!" Mujahid said about, كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ (like one who stretches forth his hand), "Calling the water with his words and pointing at it, but it will never come to him this way." The meaning of this Ayah is that he who stretches his hand to water from far away, to either collect some or draw some from far away, will not benefit from the water which will not reach his mouth, where water should be consumed. Likewise, those idolators who call another deity besides Allah, will never benefit from these deities in this life or the Hereafter, hence Allah's statement, ... وَمَا دُعَاء الْكَافِرِينَ إِلاَّ فِي ضَلَلٍ and the invocation of the disbelievers is nothing but misguidance.   Show more

دعوت حق حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے لئے دعوت حق ہے ، اس سے مراد توحید ہے ۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد لا الہ الا اللہ ہے ۔ پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خود بخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا ... ۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں ، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے ۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کر لے تو وہ رہنے کا نہیں ۔ پس باسط قابض کے معنی میں ہے ۔ عربی شعر میں بھی قابض ماء آیا ہے پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے ، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا ۔ ان کی پکار بےسود ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔ 14۔ 2 ... یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتا ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ 14۔ 3 اور بےفائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] من دون اللہ کو پکارنے کی مثال :۔ اس لیے کہ وہ پکار سنتا ہے پھر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ رہے مشرکین جو دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی دیکھ کر ہاتھ پھیلائے ہوئے اسے پکارے کہ آؤ ذرا آکر میری پیاس بجھاؤ۔ ظاہر ہے کہ پانی نہ تو کس... ی کی پکار سن سکتا ہے نہ ہی پیاسے کے پاس آنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہذا پیاسے کی ایسی پکار ایک لغو اور بےکار فعل ہوتا ہے۔ اسی طرح معبودان باطل کو ہزار بار بھی پکارا جائے تو وہ کچھ سن ہی نہیں سکتے، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو ایسے بےبس اور مجبور محض ہیں کہ وہ دعا کو قبول کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے۔ اب وہ خود ہی سوچ لیں کہ انھیں پکارنے کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ : یہاں موصوف اپنی صفت کی طرف مضاف ہے، یعنی سچا اور برحق پکارنا صرف اسی کو پکارنا ہے، دوسرے کسی کو بھی پکارنا باطل ہے۔ کیونکہ دور و نزدیک سے ہر ایک کی پکار سنتا بھی وہی ہے، ہر ایک کے احوال سے واقف بھی وہی ہے اور ہر ایک کی حاجت پوری کرنے کی قدرت بھی صرف وہی رکھتا ہے، کسی اور میں...  ان صفات میں سے کوئی صفت بھی نہیں۔ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۔۔ : ” يَدْعُوْنَ “ کی ضمیر مشرکین کے لیے ہے، یعنی اللہ کے سوا کسی کو بھی پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، اب پانی نہ اس کی بات سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے اور نہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ خود بخود اس کے منہ تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ان خود ساختہ خداؤں کی بےبضاعتی اور بےبسی بڑی تفصیل سے بیان فرمائی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٩١ تا ١٩٨) ، سبا (٢٢) ، فاطر (١٣، ١٤) ، احقاف (٥) اور حج (٧٣) قارئین سے درخواست ہے کہ وہ یہ مقامات نکال کر ترجمہ ضرور پڑھیں، ان شاء اللہ توحید کی ٹھنڈک دل میں محسوس کریں گے۔ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ : یعنی کافروں کا غیر اللہ کو پکارنا سراسر بےسود ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” کافر جن کو پکارتے ہیں بعض محض خیال ہیں، بعض جن اور بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں، لیکن وہ اپنے خواص کی مالک نہیں، پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل۔ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں، یہ اس کی مثال فرمائی۔ “ (موضح) اس کی مختصر سی تفصیل سمجھ لیں کہ فرشتے ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، سنتے بھی ہیں، طاقت بھی رکھتے ہیں مگر وہ اللہ کے اذن کے بغیر کچھ بھی نہ کرسکتے ہیں اور نہ کرتے ہیں۔ تو انھیں پکارنا ایسے ہی ہے جیسے پانی کو اشارے سے یا زبان سے کہا جائے کہ وہ منہ میں آجائے، حالانکہ اس میں یہ قدرت ہی نہیں اور بالفرض ہو بھی تو وہ یہ اختیار نہیں رکھتا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ 14؀ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه ... لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) سچا پکارنا یعنی دین حق شہادۃ ان الاالہ الا اللہ “۔ اور یہی سچا پکارنا ہے اسی کے لیے خاص ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی پکار پر انکو اس سے زیادہ نفع نہیں پہنچا سکتے، جتنا کہ پانی اس شخص کو نفع پہنچاتا کہ وہ شخص دور دراز سے اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہو... ئے ہوتا کہ پانی اس کے منہ میں اڑ کر پہنچ جائے اور اس حالت میں پانی کبھی بھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا سو جیسا کہ پانی کبھی بھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح بتوں کی پوجا بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی اور کافروں کی یہ عبادت محض باطل ہے جس سے یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ ) یعنی اللہ ہی ایک ہستی ہے جس کو پکارنا جس سے دعا کرنا برحق ہے کیونکہ ایک وہی ہے جو تمہاری پکار کو سنتا ہے تمہاری حاجت کو جانتا ہے تمہاری حاجت روائی کرنے پر قادر ہے اس لیے اس کو پکارنا حق بھی ہے اور سود مند بھی۔ اسے چھوڑ کر کسی اور کو پکارو گے چاہے وہ کوئی فرشتہ ہو ول... ی ہو یا نبی کوئی تمہاری پکار اور فریاد کو نہیں سنے گا اور جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے تمہاری ہر ایسی پکار اکارت جائے گی۔ اس فقرے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ” اسی کی دعوت حق ہے “۔ یعنی جس چیز کی دعوت وہ دے رہا ہے جس راستے کی طرف وہ بلا رہا ہے وہی حق ہے۔ (وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ ) وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔ (اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ ) جیسے اپنے ہاتھ پھیلا کر پانی کو اپنے منہ کی طرف بلانا ایک کار عبث ہے ‘ اسی طرح کسی غیر اللہ کو پکارنا اس کے سامنے گڑ گڑانا اور اس سے داد رسی کی امید رکھنا بھی کار عبث ہے۔ (وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ) یہ لوگ جو اللہ کے علاوہ کسی کو پکارتے ہیں ان کی یہ پکار لاحاصل ہے ایک تیر بےہدف اور صدا بہ صحرا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

“For Him is the supplication of truth,” for Allah alone has the power and the authority to give help and remove difficulties.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :23 پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مدد کے لیے پکارنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں ، اس لیے صرف اسی سے دعائیں مانگنا برحق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ اللہ پاک اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو خدا کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہیں فرمایا کہ خدا ہی کو ہر ایک کام میں پکارنا اور اسی سے ہر ایک مشکل میں مدد کا چاہنا حق ہے اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر اور کسی کو پکارتے ہیں اور مدد چاہتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ کو پانی کی طرف...  بڑھا کر کہے کہ اے پانی تو میرے منہ میں آجا حالانکہ ایسی حالت میں نہ آسکے منہ تک پانی آسکتا ہے نہ اس کا مطلب حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مشرکین جو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہیں ان کو کوئی فائدہ دنیا یا آخرت میں نہ ہوگا اسی واسطے فرمایا کہ کافروں کی جو یہ خدا کے سوا اوروں سے کرتے ہیں بالکل ضائع جاتی ہے اور بالکل گمراہی ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے دعوۃ الحق کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد لا الہ الا اللہ کہنا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک کو سب گناہوں سے بڑا گناہ فرمایا ہے۔ ١ ؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ بہ نسبت اور گناہوں کے شرک میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شیطان کی پیروی زیادہ ہے۔ کیوں کہ اور گناہوں میں شیطان اپنی پوجا نہیں کراتا شرک میں بتوں کے نام سے وہ اپنی پوجا کراتا ہے اور پوجا کرنے والوں کو اس نے یہ دھوکہ دے رکھا ہے کہ اس پوجا سے وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کی دین و دنیا میں مدد کریں گے جن نیک لوگوں کی مورتوں کی یہ بت پرست پوجا کرتے ہیں حدیث اور آیت کے ملانے سے آیت کی یہ تفسیر قرار پائی کہ جس طرح کوئی پیاسا آدمی پانی سے دور کھڑا ہو کر اس دھوکے میں رہے کہ خود بخود پانی اس کے منہ میں آجاوے گا انجام اس دھوکے کا یہی ہوگا کہ پانی خود بخود اس کے منہ تک نہ آوے گا اور وہ پیاسا کا پیاسا ہی رہے گا یہی حال ان بت پرستوں کے دھوکے کا ہے کس لئے کہ انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چزیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں پھر ان مورتوں یا مورتوں کی اصل صورتوں کو یہ اختیار کہاں سے مل گیا کہ وہ بغیر مرضی الٰہی ان چیزوں میں اپنا کچھ اختیار چلا ویں گے اور ان چیزوں کے دینے میں کسی کی کچھ مدد کریں گے مکہ کے قحط کے وقت کیا یہ بت پرست اس بات کی آزمائش نہیں کرچکے کہ ان کے بتوں سے کچھ نہیں ہوسکا آخر اللہ کے رسول کی دعا سے مینہ برسا۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٤، ٢٠٦  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:14) لہ میں ہُ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کے لئے ہے۔ دعوۃ الحق۔ دعوۃ۔ دعا۔ پکار۔ پکارنا۔ دعا یدعوا کا مصدر ہے۔ الحق ۔ سچ۔ صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ : الحق کا کلمہ یا تو سچ جو باطل کی نقیض ہے کے معنی میں ہوگا۔ یا اللہ تعالیٰ کا اسم ہوگا تو پھر یہ دعوۃ کی صفت ہوگی۔ لیکن مرکب توصیفی کی جگہ مرکب اضافی...  ذکر ہوا ہے۔ اور لغت عرب میں موصوف کو صفت کی طرف مضاف کردیا جاتا ہے جیسے کلمۃ الحق یا مسجد الجامع۔ یا مکۃ المکرمۃ۔ دعوۃ الحق۔ یعنی وہ دعا جو سچی اور درست ہے اور جو قبول ہوتی ہے وہ وہی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کی پاک ذات سے کی جاوے۔ اور اگر الحق۔ اسماء الٰہی میں سے ہے تو اس وقت معنی ہوگا۔ دعوۃ المدعو الحق الذی یسمع فیجیب۔ (علامہ ابو حیان نے بحر محیط میں پہلی ترکیب کو صحیح قرار دیا ہے اور وہی واضح بھی ہے) ۔ لا یستجیبون۔ وہ جواب نہیں دیں گے۔ وہ قبول نہیں کریں گے۔ وہ جواب نہیں دے سکتے مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ ضمیر کا مرجع ہے والذین یدعون من دونہ۔ وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں۔ باسط کفیہ۔ باسط۔ پھیلانے والا۔ کھولنے والا۔ دراز کرنے والا۔ بسط سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ بسط الشیئ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو پھیلانا اور توسیع کرنا۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی مقصود ہوتا ہے۔ چناچہ بسط الثوب۔ اس نے کپڑا پھیلایا اور اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے۔ کبھی یہ مقابلہ قبض کے آتا ہے۔ جیسے واللہ یقبض ویبسط (2:245) اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور وہی اسے کشادہ کرتا ہے۔ جب اس کا ہاتھوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کے مختلف مفہوم ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی چیز پر ہاتھ ڈالنے یعنی پکڑنے اور گرفت کرنے کے معنی میں جیسے ولو تری اذ الظلمون فی غمرات الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم۔ (6:93) کاش تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی بےہوشی میں ہوں گے اور فرشتے (ان کی جان نکالنے کے لئے یا عذاب کے لئے ) اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے۔ کبھی دست درازی یعنی حملہ کرنے اور مارنے کے معنی ہوتے ہیں۔ جیسے لئن بسطت الی یدک لتقتلنی ما انا بباسط یدی الیک لاقتلک۔ (5:28) تو اگر قتل کرنے کے لئے مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھ پر مارنے کو ہاتھ نہیں اٹھائوں گا۔ اور کبھی ہاتھوں کے کھلنے سے مراد عطأو بخشش ہوتی ہے جیسے بل یداہ مبسوطتان (5:64) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ (بخشش کیلئے) کشادہ ہیں۔ آیۃ ہذا میں ہاتھ پھیلانے سے مراد مانگنا اور طلب کرنا ہے۔ کباسط کفیہ الی الماء لیبلغ فاہ۔ پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والے کی طرح کہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جاوے۔ فاہ ۔ فا مضاف ہُ ضمیر مضاف الیہ۔ اس کے منہ کو۔ اس کے منہ تک۔ بالغہ۔ بالغ پہنچنے والا۔ ہٖ ضمیر واحد مذکر غائب منہ کے لئے ہے۔ ضلال۔ گمراہی۔ بھٹکنا۔ راہ سے دور جا پڑنا۔ کھو جانا۔ یہاں بمعنی عبث۔ بےاثر۔ بھٹکنے والی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی اپنی حاجتیں اور مرادیں پوری کرانے کے لئے اسی کو پکارنا برحق ہے۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی سنتا اور اسے پورا کرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ 7 ۔ جس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر جن کو پکارتے ہیں۔ بعض خیال ہیں اور بعض جن ہیں اور بعض چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں لیکن اپنے خواص کے مالک ... نہیں پھر کیا حاسل ان کا پکارنا ؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں یہ اس کی مثال فرمائی۔ (موضح) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ اس کو قبول کرنے کی قدرت ہے۔ 2۔ پس جس طرح پانی ان کی درخواست قبول کرنے سے عاجز ہے اس طرح ان کے معبود عاجز ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کافر اور مشرک کو توحید کے ٹھوس دلائل دینے کے بعد اسے دعوت دی گئی ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کو پکارے۔ لہٰذا ذات حق اور اس کی بات پر ایمان لاؤ۔ مشرک کا غیر اللہ کو پکارنا اس قدر بےفائدہ اور بےحیثیت ہے جس طرح کوئی شخص نہریا کنویں کے کنارے کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر آواز پر...  آواز دے کہ اے پانی میری پیاس بجھادے لیکن وہ پانی کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ایسا شخص پانی کے کنارے کھڑا ہو کر تڑپ تڑپ کر مرسکتا ہے مگر پانی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی صورت حال مشرک کی ہوتی ہے اس کی اپنے معبودوں کے سامنے آہ و پکار گمراہی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مشرک بظاہر اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے اس لیے یہاں لفظ کافر استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے پارہ میں دین اسلام کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی گئی جس میں اندھیرے بجلی اور گرج چمک بھی ہوا کرتی ہے۔ اس حالت میں لوگ موت کے ڈر کی وجہ سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اسلام کے بارے میں منافق کا یہی رویہ ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٩) یہاں عقیدۂ توحید کی مثال پانی کے ساتھ دی گئی ہے جس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں جس طرح پانی کے بغیر انسان کی زندگی محال ہے اسی طرح عقیدۂ توحید کے بغیر انسان روحانی طور پر مردہ ہوتا ہے۔ پانی کے بغیر کوئی چیز نشوونما نہیں پاسکتی عقیدۂ توحید کے بغیر انسان کا کوئی عمل شرف قبولیت نہیں پاسکتا۔ جس طرح پانی کے کنارے کھڑا ہوا انسان کوشش کے بغیر پانی نہیں پی سکتا اسی طرح عقیدہ توحید سمجھنے کے لیے توجہ اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح پانی پینے سے پیاسے کی روح تازہ ہوجاتی ہے اسی طرح توحید کے دلائل سے مومن کی روح میں نشاط پیدا ہوتی ہے۔ اس مثال سے یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ان کی پکار سوائے پکار کے کچھ نہیں۔ کیونکہ نہ فوت شدگان سنتے ہیں، نہ پتھر اور لکڑی کے بت سن سکتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ایک اور مثال کے ذریعے یوں بیان کیا گیا ہے : اے لوگو تمہاری سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر بھی ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی ان سے کوئی چیز اٹھالے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ لہٰذا مدد کے طالب اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے یہ سب کے سب کمزور ہیں درحقیقت ایسے لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں پہچانی جس طرح پہچاننی چاہیے تھی یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر چیز پر غالب ہے۔ (الحج : ٧٣ تا ٧٤) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًااَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ ، تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَنَا مِنْہُ بَرِیْءٌ ھُوَ لِلَّذِیْ عَمِلَہٗ )[ رواہ مسلم، باب من اشرک فی عملہ غیراللّٰہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے میں شریکوں کے شرک سے پاک ہوں۔ جو شخص بھی کوئی شرکیہ عمل کرتا ہے، میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اس کو اور اس کے شرک کو مسترد کردیتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں اس سے بری ہوں اور اس نے جو عمل جس کے لیے کیا وہ اسی کے لیے ہے۔ “ مسائل ١۔ پکارنے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ پانی پانی کہنے سے پانی منہ میں نہیں آسکتا۔ ٣۔ فوت شدگان اور بت کسی کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ ٤۔ کافروں کا پکارنا بےکار ہی جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک کی عبادت اور پکار کی کوئی حیثیت نہیں : ١۔ کافروں کی پکار بےاثر ہے۔ (الرعد : ١٤) ٢۔ کافروں کی پکار بےکار ہی جائے گی۔ (المومن : ٥٠) ٣۔ معبودان باطل اپنے چاہنے والوں کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (مریم : ٨٢) ٤۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اگر سن لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ (فاطر : ١٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غیر اللہ سے مانگنے والوں کی مثال ‘ سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں وہ آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے سب کو اسی نے پیدا فرمایا ہے وہ واحد ہے قہار ہے ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس سے دعا کرنا ہی سچی پکار ہے اور صحیح پکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کی پکار سنتا ہے اور دعائیں ... قبول فرماتا ہے وہ سمیع الدعاء ہے قادر مطلق ہے قاضی الحاجات ہے ‘ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مشرک ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ خود عاجز محض ہیں کسی کی پکار پر کوئی بھی مدد نہیں کرسکتے ان لوگوں کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہتھیلیاں پھیلائے ہوئے ہو اور پانی کو بلا رہا ہو کہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں ہے ‘ جس طرح یہ پانی کی درخواست کرنے والا منہ میں پانی پہنچنے کی آرزو سے محروم رہے گا اور پانی خود اس کے منہ میں پہنچنے سے عاجز رہے گا اسی طرح مشرکین کے معبود ان باطلہ عاجز محض ہیں وہ پکارنے والے کی کچھ بھی فریاد رسی نہیں کرسکتے سورة اعراف میں فرمایا (وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَلَا اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ ) اور اللہ کے سوا تم جن لوگوں کو پکارتے ہو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کرسکتے ہیں (وَمَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ ) اور کافر لوگ جو اپنے معبودوں کو پکارتے ہیں یہ سب ضائع ہے۔ پھر فرمایا (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ) (الآیۃ) کہ جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں وہ سب اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں ان سجدہ کرنے والوں میں خوشی سے سجدہ کرنے والے بھی ہیں اور مجبوری سے بھی ‘ اور ان کے سائے بھی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور یہ سجدہ صبح وشام کے اوقات میں یعنی ہمیشہ ہر وقت ہوتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ یہ مذکورہ تین دلائل عقلیہ کا چمرہ ہے ظرف کی تقدیم مفید حصر ہے۔ ” دَعْوَۃُ الْحقّ “ سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی خالصپکار مراد ہے۔ ” قال علی (رض) دعوۃ الحق التوحید قال ابن عباس شہادۃ ان لا الہ الا اللہ “ (خازن و معالم ج 4 ص 11) ۔ یعنی دلائل بالا سے ثابت ہوگیا کہ سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ ... جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں تو پھر خوف ورجاء میں صرف اللہ ہی کو پکارو۔ ” قیل دعوۃ الحق دعاء ہ عند الخوف فانہ لا یدعی فیہ الا ایاہ کما قال ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّا اِیَّاہُ “ قال الماوردی وھو اشبہ بسیاق الایۃ (قرطبی ج 9 ص 300) ۔ 16:۔ یہاں ایک تمثیل سے سمجھایا کہ مشرکین جن معبودانِ باطلہ کو پکارتے ہیں ان کو پکارنا اور ان سے حاجت بر آری کی استدعاء کرنا بالکل بےسود اور رائیگاں ہے۔ غیر اللہ کو پکارنے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک پیاسا پانی کو ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنی طرف بلائے تاکہ خود بخود اس کے منہ میں پہنچ کر اس کی پیاس بجھائے بعینہ یہی حال مشرک کا ہے جس طرح پانی کو بلانا بےفائدہ ہے اسی طرح غیر اللہ کو حاجات و مشکلات میں پکارنا بےسود ہے۔ جس طرح پانی میں بلانے والے کی آواز کا شعور نہیں اور نہ اس کی ضرورت و حاجت کا اھس اس ہے اسی طرح معبودان باطلہ بھی اپنے پکارنے والوں کی پکار اور ان کی حاجات و مصائب سے بیخبر ہیں۔ ” وَ مَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ “ کافروں کا غیر اللہ کو پکارنا سراسر گمراہی ہے اور بالکلیہ بےسود اور رائیگاں ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 ۔ اسی کا پکارنا سچ ہے اور سچا پکارنا اسی کیلئے خاص ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کا اس سے زیادہ کوئی جواب نہیں دے سکتے اور اس سے زیادہ ان کی پکار کو قبول نہیں کرسکتے جیسے پانی کہ اس پانی کی طرف کوئی دونوں ہاتھ پھیلا کر یہ چاہے کہ وہ پانی اس کے منہ تک پہنچنے وا... لا نہیں اور کافروں کی پکار نہیں ہے مگر بےسود اور بیکار ۔ یعنی دعا اور عبادت کی دو قسمیں ہیں ایک حق اور دوسری باطل پس جو پکار اور عبادت حق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو پکارنا اور دوسروں کی عبادت کرنا باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کے قبول کرنے کی قدرت ہے اور دوسروں کو نہیں ان کو پکارنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی پانی کے آگے ہاتھ پھیلا کر یہ خواہش کرے کہ وہ پانی اس کے منہ میں آجائے۔ نہ پانی میں یہ صلاحیت ہے کہ منہ میں آجائے نہ پانی میں یہ صلاحیت ہے کہ منہ میں آجائے نہ غیر اللہ میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی کی دعا اور عبادت کو قبول کرسکیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافر جن کو پکارتے ہیں بعض خیال میں اور بعض جن ہیں اور بعض چیزیں ہیں کہ ان کے کچھ خواص ہیں لیکن اپنے خواص ہیں لیکن اپنے خواص کے مالک نہیں پھر کیا حاص ان کا پکارنا جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں یہ اس کی مثال فرمائی۔ 12  Show more