Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 18

سورة الرعد

لِلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمُ الۡحُسۡنٰی ؕ ؔوَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہٗ لَوۡ اَنَّ لَہُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لَافۡتَدَوۡا بِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الۡحِسَابِ ۬ ۙ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ ﴿٪۱۸﴾  8 النصف

For those who have responded to their Lord is the best [reward], but those who did not respond to Him - if they had all that is in the earth entirely and the like of it with it, they would [attempt to] ransom themselves thereby. Those will have the worst account, and their refuge is Hell, and wretched is the resting place.

جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کی حکم کی برداری نہ کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں ۔ یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Reward of the Blessed and Wretched Ones Allah mentions the final destination of the blessed ones and the wretched ones, لِلَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِرَبِّهِمُ ... For those who answered their Lord's call, obeyed Allah and followed His Messenger (Muhammad, peace be upon him) by obeying his commands and believing in the narrations he brought about the past and the future, theirs will be, ... الْحُسْنَى ... Al-Husna, which is the good reward. Allah said that Dhul-Qarnayn declared, قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَاباً نُّكْراً وَأَمَّا مَنْ امَنَ وَعَمِلَ صَـلِحاً فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْراً As for him who does wrong, we shall punish him, and then he will be brought back unto his Lord, Who will punish him with a terrible torment (Hell). But as for him who believes and works righteousness, he shall have the best reward (Al-Husna), and we shall speak unto him mild words by our command. (18: 87-88) Allah said in another Ayah, لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ For those who have done good is the best (Al-Husna) and even more. (10: 26) Allah said next, ... وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُ ... But those who answered not His call, disobeyed Allah, ... لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الاَرْضِ جَمِيعًا ... if they had all that is in the earth together, (meaning, in the Hereafter). ... وَمِثْلَهُ مَعَهُ لاَفْتَدَوْاْ بِهِ ... with its like, they would offer it in order to save themselves. This Ayah says: Had the earth's fill of gold and its like with it, they would try to ransom themselves from Allah's torment at that time. However, this will not be accepted from them. Verily, Allah the Exalted will not accept any type of exchange from, ... أُوْلَـيِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ ... For them there will be the terrible reckoning. in the Hereafter, when they will be reckoned for the Naqir and the Qitmir, the big and the small. Verily, he who is reckoned in detail on that Day will receive punishment, hence Allah's statement next, ... وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمِهَادُ Their dwelling place will be Hell; and worst indeed is that place for rest.

ذوالقرنین نیکوں بدوں کا انجام بیان ہو رہا ہے ۔ اللہ رسول کو ماننے والے ، احکام کے پابند ، خبروں پر یقین رکھنے والے تو نیک بدلہ پائیں گے ۔ ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ظلم کرنے والے کو ہم بھی سزا دیں گے اور اللہ کے ہاں بھی سخت عذاب دیا جائے گا اور ایماندار اور نیک اعمال لوگ بہترین بدلہ پائیں گے اور ہم بھی ان سے نرمی کی باتیں کریں گے ۔ اور آیت میں فرمان ربی ہے نیکوں کے لئے نیک بدلہ ہے اور زیادتی بھی ۔ پھر فرماتا ہے جو لوگ اللہ کی باتیں نہیں مانتے یہ قیامت کے دن ایسے عذابوں کو دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس ساری زمین بھر کر سونا ہو تو وہ اپنے فدیے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں بلکہ اس جتنا اور بھی ۔ مگر قیامت کے روز نہ فدیہ ہوگا ، نہ بدلہ ، نہ عوض ، نہ معاوضہ ۔ ان سے سخت باز پرس ہو گی ایک ایک چھلکے اور ایک ایک دانے کا حساب لیا جائے گا حساب میں پورے نہ اتریں کم تو عذاب ہو گا ۔ جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا جو بدترین جگہ ہو گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔ 18۔ 2 کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہوگا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) آئینہ دار ہوگا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] دنیا کی زندگی میں ان کے لیے بھلائی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی طرف سے ایسی ہدایات اور احکام مل جاتے ہیں جن میں اس شخص کے دینی یا دنیوی مصالح مضمر ہوتے ہیں۔ دوسری بھلائی یہ ہوتی ہے کہ اسے قلبی اطمینان اور حقیقی خوشی میسر آجاتی ہے اور آخرت میں جو اس سے بہتر سلوک ہوگا وہ تو ان چیزوں سے بھی زیادہ یقینی اور پائیدار ہوگا۔ [٢٧] آسان حساب کیسے لیا جائے گا اور سخت کیسے ؟ جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ مختلف حیلوں سے ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ دنیا میں ہی ختم ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر ان کے نیک اعمال سے چھوٹے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں اور اس مضمون پر بیشمار آیات و احادیث شاہد ہیں۔ پھر جب وہ آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں دئیے جائیں گے اور تمام اچھے اور برے اعمال سے آگاہ کیا جائے گا، لیکن ان سے کوئی سختی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کی کچھ چھان بین ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : && قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا && میں نے کہا : && یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، اس سے جلد ہی آسان سا حساب لیا جائے گا && (٨٤: ٨) آپ نے فرمایا : && یہ محض پیشی ہوگی۔ انھیں ان کے اعمال بتا دئیے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہوگئی، سمجھ لو کہ وہ مارا گیا && (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب العلم، باب من سمع شیأا فلم یفھمہ) اور جن لوگوں نے حق کو ٹھکرا دیا۔ ان کا پوری سختی سے حساب لیا جائے گا اور برے حساب سے یہی مراد ہے۔ اس کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ کی تحقیق اور باز پرس ہوگی۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آقا کو اگر اپنے ملازم کے متعلق یہ اعتماد ہو کہ وہ اس کا وفادار اور دیانتدار ہے تو مالک اس کی چھوٹی موٹی لغزشوں اور غلطیوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ لیکن اگر آقا کو ملازم کی وفاداری کا ہی اعتماد نہ ہو تو وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر اس سے مزید باز پرس کرے گا یہی حال منکرین حق کا ہوگا اور انھیں اپنی نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب پانے والے دوزخی سے پوچھیں گے : && اگر تیرے پاس ساری دنیا کا مال موجود ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دینا پسند کرے گا ؟ && وہ جواب دے گا && ہاں &&۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا &&: جب تو انسانی شکل میں تھا، اس وقت تو میں نے تم سے اس سے آسان بات کا مطالبہ کیا تھا۔ (یعنی توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا && (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ، باب طلب الکافر الفدائملء الارض ذھبا۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا : ” الْحُسْنٰى“ ” اَلْاَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، بمعنی سب سے اچھی، جیسے ” حَسَنٌ“ اور ” اَحْسَنُ “ ہے، اسی طرح ” حَسَنَۃٌ“ اور ” حُسْنٰی “ ہے، اس کا موصوف محذوف ہے، یعنی ” اَلْجَزَاءُ الْحُسْنٰی “ کہ رب کی بات قبول کرنے والوں کے لیے سب سے اچھی جزا، یعنی جنت ہے۔ ” وَالَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا “ مبتدا ہے اور ” لَوْ اَنَّ لَهُمْ “ پورا جملہ شرطیہ اس کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حق سے عناد رکھتے ہیں قیامت کے دن ان جو پر مصیبت آئے گی وہ اس سے رہائی کے لیے اس قدر مال و دولت کی بھی پروا نہیں کریں گے اور فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ : یہ اس کے مقابلے میں ہے جو فرمایا تھا کہ اپنے رب کی بات قبول کرنے والوں کے لیے بھلائی (بہترین بدلہ) ہے، یعنی یہ دعوت قبول نہ کرنے والوں کا بہت برا حساب ہوگا، انھیں کسی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی اور ان کے ایک ایک گناہ پر بری طرح محاسبہ ہوگا۔ یہی مناقشہ فی الحساب ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حُوْسِبَ عُذِّبَ ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَقُلْتُ أَوَ لَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی : (فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً ) [ الإنشقاق : ٨ ] قَالَتْ ، فَقَالَ إِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ ، وَلَکِنْ مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ یَھْلِکْ ) [ بخاري، العلم، باب من سمع شیءًا فراجع ۔۔ : ١٠٣ ] ” جس کا حساب کیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس پر میں نے عرض کیا : ” اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : (فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً ) یعنی جسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا (مطلب یہ ہے کہ یہاں حساب کے باوجود عذاب نہیں ہوگا تو اس کا مطلب کیا ہے) ؟ “ فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ صرف پیش کیا جانا ہے اور لیکن جس سے مناقشہ ہوا (یعنی ایک ایک چیز کی پڑتال ہوئی) وہ ہلاک ہوجائے گا۔ “ وَبِئْسَ الْمِهَادُ : مہد اور مہاد اصل میں بچے کے لیے تیار کردہ جگہ کو کہتے ہیں، گود ہو یا بچھونا، اسی طرح ہر اچھی طرح آرام کے لیے بنائی ہوئی جگہ کو مہاد کہتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ بچے کو آرام کے لیے آگ پر لٹا دیا جائے تو اس کا کیا حال ہوگا ؟ اسی طرح اللہ کی دعوت قبول نہ کرنے والے کی آرام گاہ جہنم ہوگی۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْھَا ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر جن لوگوں نے اپنے رب کا کہنا مان لیا (اور توحید اور اطاعت کو اختیار کرلیا) ان کے واسطے اچھا بدلہ (یعنی جنت مقرر) ہے اور جن لوگوں نے اس کا کہنا نہ مانا (اور کفر و معصیت پر قائم رہے) ان کے پاس (قیامت کے دن) اگر تمام دنیا بھر کی چیزیں (موجود) ہوں اور (بلکہ) اس کے ساتھ اسی کے برابر اور بھی (مال و دولت) ہو تو سب اپنی رہائی کے لئے دے ڈالیں ان لوگوں کا سخت حساب ہوگا ( جس کو دوسری آیت میں حساب عسیر فرمایا ہے) اور ان کا ٹھکانا (ہمیشہ کے لئے) دوزخ ہے اور وہ بری قرار گاہ ہے جو شخص یہ یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے وہ سب حق ہے کیا ایسا شخص اس کی طرح ہوسکتا ہے جو کہ (اس علم سے محض) اندھا ہے (یعنی کافر ومؤ من برابر نہیں) پس نصیحت تو سمجھدار ہی لوگ قبول کرتے ہیں (اور) یہ (سمجھدار) لوگ ایسے ہیں کہ اللہ سے جو کچھ انہوں نے عہد کیا ہے اس کو پورا کرتے ہیں اور (اس) عہد کو توڑتے نہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اللہ نے جن علاقوں کے قائم رکھنے کا حکم کیا ہے ان کو قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب کا اندیشہ رکھتے ہیں (جو کفار کے ساتھ خاص ہوگا اس لئے کفر سے بچتے ہیں) اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے رب کی رضا مندی کے جو یہاں رہ کر (دین حق پر) مضبوط رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو روزی دی ہے اس میں سے چپکے بھی اور ظاہر کر کے بھی (جیسا موقع ہوتا ہے) خرچ کرتے ہیں اور (لوگوں کی) بدسلوکی (جو ان کے ساتھ کی جاوے) حسن سلوک سے ٹال دیتے ہیں (یعنی کوئی ان کے ساتھ بدسلوکی کرے تو کچھ خیال نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں) اس جہان میں (یعنی آخرت میں) نیک انجام ان لوگوں کے واسطے ہے یعنی ہمیشہ رہنے کی جنتیں جن میں وہ لوگ بھی داخل ہوں گے اور ان کے ماں باپ اور بیبیوں اور اولاد میں جو (جنت کے) لائق (یعنی مؤ من) ہوں گے (گو ان موصوفین کے درجہ کے نہ ہوں) وہ بھی (جنت میں انکی برکت سے انہی کے درجوں میں) داخل ہوں گے اور فرشتے ان کے پاس ہر (سمت کے) دروازہ سے آتے ہوں گے (اور یہ کہتے ہوں گے) کہ تم (ہر آفت اور خطرہ سے) صحیح سلامت رہو گے بدولت اس کے کہ تم (دین حق پر) مضبوط رہے تھے سو اس جہان میں تمہارا انجام بہت اچھا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى ڼ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ ۭاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ ڏ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ 18۝ۧ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ فدی الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال : وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] ( ف د ی ) الفدٰی والفداء کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) یعنی جو دنیا میں توحید کے قائل ہوگئے ان کو آخرت میں جنت ملے گی اور جو توحید خداوندی کے قائل نہیں ہوئے تو ان کے پاس اگر تمام دنیا کی دولت ہو بلکہ اس کے ساتھ اسی کے برابر اور بھی ہو یہ سب کا سب اپنی جانوں کی رہائی کے لیے دے ڈالیں تب بھی ان لوگوں پر سخت عذاب ہوگا اور ان کے لوٹنے کی جگہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانا اور لوٹنے کا برا مقام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ ڏ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ) یعنی ان کے حساب کا جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ان کے حق میں بہت برا ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33. This shows that the disbelievers would be in such a sad plight that they would not hesitate to give their all for their redemption. 34. “Those will have the worst reckoning”: they shall have to bear the full consequences of their evil deeds. No sin, no shortcoming, in short, nothing will be forgiven and no evil shall go unpunished. We learn from the Quran that the rebels of Allah shall have to render a reckoning, whereas there shall be a light reckoning from those who have been faithful and obedient to their Lord. In consideration of their loyal services, their cases will be dealt with leniently, and taking their general goodness into account many of their shortcomings will be forgiven. This is further amplified by a tradition of the Prophet (peace be upon him). Aishah relates: I said, O Messenger of Allah, the most dreadful verse of the Quran is this: “Whoso shall commit an evil, he shall be punished for it. (Surah An- Nisa, Ayat 123).” The Prophet answered: O Aishah, don’t you know how Allah clears the accounts of His faithful and obedient servant. Whatever harm or trouble he receives in this world, even so much as the pricking of a thorn, is taken by Allah as atonement for one or the other of his sins. As regards to the Hereafter, everyone who shall be called upon to render an account of any sin, shall be punished for it. At this Aishah asked: Then what is meant by light reckoning in this verse: Whoso shall be given his “Book of Deeds” in his right hand, he will render a light reckoning? (Surah Al- Inshiqaq, Ayats 7-8). The Prophet (peace be upon him) answered: This means merely the presentation of his whole conduct, that is, all his deeds, good and bad, shall be presented before Allah but he shall not be called upon to clear the account of all his deeds; for the one who shall be called upon to clear the whole of his account, shall be totally ruined. The same thing is happening even in this world. A master deals very leniently with his faithful and obedient servant and connives at his minor faults and even forgives his major faults in consideration of his meritorious services. On the other hand, if a servant is proved to be treacherous and dishonest, no consideration is given even to his services, and he is punished both for his minor and for major faults.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :33 یعنی اس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :34 بری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے ، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اس طرح کا محاسبہ اپنے ان بندوں سے کرے گا جو اس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کے مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے حساب یسیر یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا ، ان کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور ان کے مجموعی طرز عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر ان کی بہت سی کوتاہیوں سے صرف نظر کر لیا جائے گا ۔ اس کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ابوداؤد میں مروی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے نزدیک کتاب اللہ کی سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ من یعمل سوء یجز بہ ، جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے ، حتی کہ اگر کوئی کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے ، تو اللہ اسے اس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے؟ آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہوگا وہ سزا پاکر رہے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا پھر اللہ تعالی کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ فاما من اوتی کتابہ بیمیینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ، حضور نے جواب دیا ، اس سے مراد ہے پیشی یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اللہ تعالی کے سامنے ضرور پیش ہوں گی ، مگر جس سے باز پرس ہوئی وہ تو بس سمجھ لو کہ مارا گیا ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے وفادار ملازم کی چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات کے پیش نظر معاف کر دیتا ہے ۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری وخیانت ثابت ہوجائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آجاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے فرمانبردار اور رسول کے تابعدار ہیں ان کے واسطے اچھے اچھے انعام ہیں حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں الحسنیٰ سے مراد جنت ہے یعنی ان لوگوں کے لئے جنت ہے اور جن لوگوں نے خدا کو نہیں مانا رسول کی پیروی نہیں کی اگر یہ لوگ ساری دنیا کے برابر دولت تاوان میں دیں یا اس سے بھی دو گنا دیں جب بھی قبول نہ ہوگا اور عذاب سے نہ چھوٹیں گے بلکہ ہر ہر گناہ پر ان سے سوال ہوگا اور کوئی مشرک بخشا نہیں جائے گا۔ اوپر کی آیت میں دو مثالیں جو بیان فرمائی تھیں یہ آیت ان مثالوں کا نتیجہ ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن بڑے بڑے مالدار نافرمانوں کو جب دوزخ میں ڈالا جاوے گا تو دوزخ کے پہلے ہی چھونکے کے بعد فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کے جس مال و متاع نے تم کو عقبیٰ سے غافل رکھا آج وہ تم کو مالداری کا عیش و آرام کچھ یاد ہے اس پر یہ لوگ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اس عذاب کے آگے ہم کو وہ عیش و آرام کچھ یاد نہیں۔ ١ ؎ اس حدیث اور آیت کے ملانے سے اوپر کی مثالوں کا اور اس آیت کا یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اصل پانی اور سونے چاندی کی سی پائدار قرآن کی نصیحت کے پابند تنگ دست لوگوں کا انجام کیا ہوا اور جن مالدار نافرمان لوگوں کا مدار زندگی دنیا کا عیش و آرام اور جھاگ کی سی ناپائدار اور بڑوں کی رسموں کے مقابلہ میں قرآن کی نصیحت کو جھٹلانا رات دن ان کا کام تھا ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوا۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفتہ النار واھلہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:18) استجابوا۔ ماضی جمع مذکر غائب استجابۃ (استفعال) انہوں نے قبول کیا۔ انہوں نے مانا۔ ای اجابوا الی ما دعا اللہ الیہ۔ جس امر کی طرف خدا نے انہیں بلایا انہوں نے قبول کیا۔ الحسنی۔ حسن سے افعل التفضیل کا صیغہ واحد مؤنث بروزن فعلی ۔ اچھی ۔ عمدہ۔ بھلائی۔ نیکی ۔ نیک (بدلہ) یعنی جنت۔ الحسنی استجابوا کے مصدر کی صفت بھی ہوسکتا ہے۔ ای استجابوا الا ستجابۃ الحسنی۔ یعنی انہوں نے بطریق احسن (دعوت حق) قبول کرلی۔ اور الحسنی مبتدا بھی ہوسکتا ہے جبکہ للذین استجابوا اس کی خبر ہے اس صورت میں معنی ہوں گے۔ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا کہنا مان لیا ان کے لئے نیک بدلہ (یعنی جنت) ہے۔ لا فتدوا بہ۔ لام تاکید کے لئے ہے افتدوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ افتداء (افتعال) انہوں نے اپنے چھڑانے کا فدیہ دیا۔ لافتدوا بہ وہ اسے بطور فدیہ دے ڈالیں۔ اصل میں والذین لم یستجیبوا لہ۔ اولئک لہم سوء الحساب ہے۔ لو ان لہم ما فی الارض جمیعاو مثلہ معہ لافتدوا بہ جملہ معترضہ ہے۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا کہنا نہیں مانا ان لوگوں کا سخت حساب ہوگا۔ خواہ ان کے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور اتنی ہی اور بھی ہو اور وہ یہ سب دولت اپنے بچائو کے لئے خرچ کر ڈالیں (یہ ان کے کسی کام نہ آئے گی) ۔ المھاد۔ اسم ۔ بچھونا۔ مراد ٹھکانہ۔ قرارگاہ۔ گہوارہ۔ بستر۔ ہموارزمین ۔ بئس المھاد۔ بری ہے۔ قرارگاہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ ای المثوبہ الحسنی مبتد، موخر،۔۔ مجرور خبر مقدم۔ 8 ۔ الموصول مبتدا اوالجملہ الشرطیہ خبرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حق سے عناد رکھتے ہیں قیامت کے دن جو ان پر مصیبت آئے گی وہ اس سے رہائی کے لئے اس قدر مال و دولت کی بھی پروانہ کریں گے اور فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ (از روح) ۔ 9 ۔ یہ ” الحسنی “ کے مقابلہ میں ہے۔ ای والذین لم یستجیبو الہ لھم سوء الحساب۔ یعنی ان کو کسی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی اور ان کے ایک ایک گناہ پر بری طرح محاسبہ ہوگا۔ یہی مناقشہ فی الحساب ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ من نوقش الحساب عذب۔ کہ جن کے حساب میں چھان بین کی جائے گی ان کو ضرور عذاب ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جنت۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق واضح کرنے، دلائل اور مثال کے ذریعے سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حق بات کو قبول کریں۔ جن لوگوں نے اپنے رب کی رضا کی خاطر اس کے حکم کو مانتے ہوئے سچائی کو قبول کیا اور اس پر عمل پیرا ہوگئے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتری ہے۔ جنہوں نے اپنے رب کے حکم کو تسلیم نہ کیا ان کے لیے دنیا میں نقصان اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔ جس سے چھٹکارا پانے کے لیے زمین اور اس کی ہر چیز بلکہ اتنا کچھ اور بھی فدیہ کے طور پر دیں تو انہیں چھٹکارا حاصل نہ ہوگا۔ ان کا حساب و کتاب برا ہوگا اور انہیں جہنم میں جھونکا جائے گا جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ قرآن مجید کئی مقامات پر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ دنیا کے مال واسباب دنیا میں ہی رہ جائیں گے مرنے کے بعد انسان نے خالی ہاتھ اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں نیکی وبدی کے سوا انسان کے پاس اور کچھ نہ ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود قرآن مجید نے یہاں اور آل عمران : ٩١ میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے فرمایا کہ مجرم فدیہ میں زمین سے بھرا ہوا سونا بھی دے تو اس کا چھٹکارا نہیں ہو پائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ کفر و شرک اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کا مرتکب شخص کسی صورت بھی عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) یَقُولُ کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَاءَ ہُ رَجُلاَنِ أَحَدُہُمَا یَشْکُو الْعَیْلَۃَ وَالآخَرُ یَشْکُو قَطْعَ السَّبِیلِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَّا قَطْعُ السَّبِیلِ فَإِنَّہُ لاَ یَأْتِی عَلَیْکَ إِلاَّ قَلِیلٌ حَتَّی تَخْرُجَ الْعِیرُ إِلٰی مَکَّۃَ بِغَیْرِخَفِیرٍ وَأَمَّا الْعَیْلَۃُ فَإِنَّ السَّاعَۃَ لاَ تَقُومُ حَتَّی یَطُوفَ أَحَدُکُمْ بِصَدَقَتِہِ لاَ یَجِدُ مَنْ یَقْبَلُہَا مِنْہُ ، ثُمَّ لَیَقِفَنَّ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ حِجَابٌ وَلاَ تُرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَہُ ، ثُمَّ لَیَقُولَنَّ لَہُ أَلَمْ أُوتِکَ مَالاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی ثُمَّ لَیَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَیْکَ رَسُولاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِینِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ ، ثُمَّ یَنْظُرُ عَنْ شِمَالِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ ، فَلْیَتَّقِیَنَّ أَحَدُکُمُ النَّا رَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ ) [ رواہ البخاری : باب صدقۃ قبل الرد ] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا کہ آپ کی خدمت میں دو آدمی آئے ایک نے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور دوسرے نے راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کی اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آئے گا جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ رہافقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ایک شخص اپنا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن اسے کوئی لینے والا نہ ہوگا، پھر اللہ کے سامنے ایک آدمی اس طرح کھڑا ہوگا اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ کوئی ترجمان، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں۔ اللہ فرمائے گا کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں، پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھے گا تو اسے آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا سو جہنم سے بچ جاؤ خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے سے ہی بچا جائے اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو منہ سے اچھی بات کہو۔ “ (لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَا وَہُمْ فِی مَا اشْتَہَتْ أَنْفُسُہُمْ خَالِدُوْن)[ الانبیاء : ١٠٢] ” وہ جہنم کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور جنت میں وہ اپنی پسند کی نعمتوں میں رہیں گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے فرما نبرداروں کے لیے اچھا بدلہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان سب کچھ دے کر بھی عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن مجرم سے کسی قسم کا فدیہ اور سفارش قبول نہیں کی جائے گی۔ ١۔ مجرم دنیا بھر کی چیزیں اور ان کی مثل بطور فدیہ دے کر بھی عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ (الرعد : ١٨) ٢۔ کسی سے قیامت کے دن کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ (البقرۃ : ٤٨) ٣۔ کسی کی دوستی کسی کے کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٤۔ کفار سے عذاب کے بدلے زمین بھرکا سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٩١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٨ یہاں دعوت حق کو قبول کرنے والوں کے مقابلے ہیں وہ لوگ ہیں جو قبول نہیں کرتے اور حسنہ کے مقابلے میں سوء الحساب ہے۔ اور جنت کے مقابلے میں بئس المھاد ہے۔ اور یہ تقابلی انداز کلام اس پورہ سورة میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں اہل ایمان کے ثواب اور اہل کفر کی بد حالی کا تذکرہ فرمایا (لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمُ الْحُسْنٰی) (جو لوگ اللہ کی دعوت حق قبول کر کے اللہ پر ایمان لائے اور اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کیا ان کے لیے اچھا ثواب ہے یعنی جنت ہے) اور جن لوگوں نے اللہ کی دعوت کو قبول نہ کیا اس کی فرماں برداری نہ کی وہ لوگ سخت مصیبت میں ہوں گے ‘ اول تو ان سے بری طرح یعنی سخت حساب لیا جائے گا اور پھر انہیں دوزخ میں بھیج دیا جائے گا ‘ جو بہت برا ٹھکانہ ہے جب حساب اور عذاب کی مصیبت میں گرفتار ہوں گے تو اپنی جان کا بدلہ دینے کے لیے رضا مند ہوں گے وہاں کوئی مال پاس نہ ہوگا لیکن اگر بالفرض پوری زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب ان کے پاس ہو اور اسی قدر اور بھی ہو تو اس سب کو دے کر جان چھڑانے پر راضی ہوں گے ‘ پارہ سوم کی آخری آیت اور پارہ ششم کے نصف پر آیت کریمہ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ ) کی تفسیر دوبارہ ملاحظہ کرلی جائے۔ (انوار البیان جلد اول دوم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ بشارت اخروی ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ایمان قبول کرلیا اور توحید و رسالت کو مان لیا اجاب الی ما دعاہ اللہ من التوحید والنبوات (قرطبی) وَالَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا الخ نہ ماننے والوں کے لیے تخویف اخروی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18 ۔ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کے احکام کو قبول کرلیا اور جنہوں نے اپنے رب کا کہنا مان لیا ان کے واسطے بھلا اور اچھا بدلا ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم سے سرتابی کی اور حضرت حق کا کہنا نہ مانا ان کا یہ حال ہوگا کہ اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا ہی اور بھی اس کے ساتھ ہو تو یہ سب مال و دولت اپنے فدیہ میں دے ڈالیں اور اپنے کو عذاب سے بچائیں یہی لوگ ہیں جن کا قیامت میں حساب سخت ہوگا اور ان سے برا حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے دوزخ ہے اور وہ دوزخ بہت بری قرار گاہ ہے۔ یعنی جو لوگ کفر و معصیت پر قائم رہے ان کی حالت یہ ہوگی کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں اگر وہ سب ان کے پاس ہوں اور ان کی مثل اور بھی ہوں تو وہ اپنی رہائی کے لئے قیامت میں یہ سب دنیا بھر کی دگنی چیزیں دے دیں ان لوگوں سے سخت اور برا حساب لیا جائے گا البتہ جو لوگ حکم مانیں گے ان کے لئے اچھی چیز اور اچھا بدلہ ہوگا یعنی ان کو دائمی جنت ملے گی ۔