Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 26

سورة الرعد

اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾  9

Allah extends provision for whom He wills and restricts [it]. And they rejoice in the worldly life, while the worldly life is not, compared to the Hereafter, except [brief] enjoyment.

اللہ تعالٰی جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے یہ تو دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت ( حقیر ) پونجی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Increase and Decrease in Provision is in Allah's Hand Allah says: اللّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاء وَيَقَدِرُ وَفَرِحُواْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... Allah increases the provision for whom He wills, and straitens (it for whom He wills), Allah states that He alone increases the provisions for whom He wills and decreases it for whom He wills, according to His wisdo... m and perfect justice. So, when the disbelievers rejoice with the life of the present world that was given to them, they do not know that they are being tested and tried. Allah said in other Ayat, أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that in wealth and children with which We enlarge them. We hasten unto them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55-56) Allah belittled the life of the present world in comparison to what He has prepared for His believing servants in the Hereafter, ... وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الاخِرَةِ إِلاَّ مَتَاعٌ whereas the life of this world compared to the Hereafter is but a brief passing enjoyment. Allah said in other Ayat, قُلْ مَتَـعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالاٌّخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِيلً Say: "Short is the enjoyment of this world. The Hereafter is (far) better for him who has Taqwa, and you shall not be dealt with unjustly even equal to the amount of a Fatila. (4:77) and, بَلْ تُوْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَالاٌّخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى Nay, you prefer the life of this world, although the Hereafter is better and more lasting. (87:16-17) Imam Ahmad recorded that Al-Mustawrid, from Bani Fihr, said that the Messenger of Allah said, مَا الدُّنْيَا فِي الاْاخِرَةِ إِلاَّ كَمَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إصْبَعَهُ هَذِهِ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرْجِع The life of the present world, compared to the Hereafter, is just like when one of you inserts his finger in the sea, so let him contemplate how much of it will it carry. and he pointed with the index finger. Imam Muslim also collected this Hadith in his Sahih. In another Hadith, the Prophet passed by a dead sheep, whose ears were small, and said, وَاللهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ هَذَا عَلَى أَهْلِهِ حِينَ أَلْقَوه By Allah! The life of this present world is as insignificant to Allah as this sheep was to its owners when they threw it away.   Show more

مسئلہ رزق اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے ، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے ، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے ۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہو گیا ۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے ... لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں ۔ مومنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز ۔ لیکن عموما لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے ؟ جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے ( مسلم ) ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والے بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بیکار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انھیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق ک... سی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فروانی، اس بات کی دلیل ؛ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے۔ 26۔ 2 کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہوجائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔ 26۔ 3 حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے ؟ (صحیح بخاری) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحیح مسلم)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] مال ودولت کی فراوانی اللہ کی نظر رحمت کی دلیل نہیں :۔ دنیا دار لوگوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ وہ کسی شخص کی قدر و قیمت کو مال و دولت اور دنیوی جاہ و حشم کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو شخص جس قدر خوشحالی سے زندگی بسر کر رہا ہے اتنا ہی اس کا پروردگار اس پر مہرب... ان ہے اور کسی کی معیشت کا تنگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے ناراض ہے۔ اس آیت میں اسی نظریہ کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ رزق کی کمی بیشی کے لیے ایک دوسرا ہی قانون ہے جس میں دوسری قسم کی مصلحتیں ہیں دنیا میں رزق کی کمی بیشی کا انسان کی ہدایت اور فلاح و نجات سے کچھ تعلق نہیں بلکہ رزق کی زیادتی اکثر انسانوں کے لیے گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا دنیوی مال و متاع پر ریجھ نہ جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں اور ان دائمی اور پائیدار نعمتوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں جو اللہ کے فرمانبردار لوگوں کو اخروی زندگی میں عطا کی جائیں گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ ۔۔ : بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب یہ شبہ بن جاتا ہے کہ اللہ کے نافرمان دنیا میں خوش حال کیوں ہیں ؟ اس کا جواب دیا، یعنی دنیا میں رزق کی فراوانی یا تنگی کوئی معیار نہیں ہے، جس کے لحاظ سے کسی شخص کے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ یا غیر پسندیدہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے، بسا اوقا... ت وہ کافر کو خوب سامان عیش دیتا ہے اور مومن پر تنگ دستی وارد کرتا ہے، تاکہ دونوں کی آزمائش کی جائے، مومن اپنے صبر و شکر کی وجہ سے آخرت میں بلند درجات پاتا ہے اور کافر ناکام رہتا ہے، اس لیے آخرت میں اس کا ٹھکانا برا ہوتا ہے، لہٰذا گمراہ لوگوں کی بداعمالیوں کے باوجود ان کے عیش و عشرت سے کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ محض مہلت ہے جو کافر کو دنیا میں دی جاتی ہے۔ (روح المعانی) وَفَرِحُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۔۔ : ” مَتَاعٌ“ کی تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، یعنی معمولی، تھوڑا سا بےقدر و قیمت سامان، یعنی کفار دنیا کی زندگی کی آسائشوں پر پھول رہے ہیں، حالانکہ یہ آخرت کے مقابلے میں محض معمولی اور بےحقیقت تھوڑی دیر کا سامان ہے۔ مستورد بن شداد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَاللّٰہِ ! مَا الدُّنْیَا فِيْ الْآخِرَۃِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعَہُ ھٰذِہِ وَأَشَارَ یَحْیَی بالسَّبَّابَۃِ فِي الْیَمِّ ، فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ بِمَ تَرْجِعُ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا۔۔ : ٢٨٥٨ ] ” اللہ کی قسم ! دنیا آخرت کے مقابلے میں اس مثال کے سوا کچھ نہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی یہ انگلی۔ “ اور راوی یحییٰ نے شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا ” سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے کہ وہ کیا چیز لے کر واپس آتی ہے۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں : ( نَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی حَصِیْرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِيْ جَنْبِہِ ، فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً ، فَقَالَ مَا لِيْ وَ للدُّنْیَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا ) [ ترمذی، الزھد، باب حدیث ما الدنیا إلا کراکب استظل : ٢٣٧٧ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے، اٹھے تو چٹائی نے آپ کے پہلو پر اپنے نشان لگا دیے تھے۔ ہم نے عرض کی : ” یا رسول اللہ ! اگر ہم آپ کے لیے (بستر وغیرہ) بنادیں تو ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرا اور دنیا کا کیا تعلق ! میں تو دنیا میں محض اس سوار کی طرح ہوں جس نے ایک درخت کے سائے میں آرام کیا، پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیا۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ۭ وَفَرِحُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ 26؀ۧ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط ا... لأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے دنیا میں مال کی وسعت وفراخی کردیتا ہے اور یہ اس کی طرف تدبیر اور جس پر چاہتا ہے تنگی کردیتا ہے اور یہ اس کی جانب سے ایک قسم کی مہلت ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کی بھلائی اور درستگی وسعت وفراخی میں ہے اگر وہ اس فراخی کو غیر اللہ کی طرف پھیر دیں تو...  یہ ان کے لیے بدترین چیز ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے بہت سے بندوں کی درستگی تنگی ہی میں ہوسکتی ہے اگر وہ اس کو غیر اللہ کی طرف پھیر دیں تو یہ ان کے لیے بہت بدترین بات ہوجائے۔ اور یہ لوگ دنیاوی زندگی اور اس کے عیش و عشرت پر اترانے لگے اور دنیاوی زندگی میں جو بھی عیش و عشرت ہے یہ آخرت کی نعمتوں کے بقاء کے مقابلہ میں سوائے تھوڑی سی پونجی کے اور کچھ نہیں جیسا کہ گھر کا سازوسامان۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَفَرِحُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ) جو لوگ اخروی زندگی کے انعامات کے امیدوار نہیں ہیں ان کی جہد و کوشش کی جولان گاہ یہی دنیوی زندگی ہے۔ ان کی تمام تر صلاحیتیں اسی زندگی کی آسائشوں کے حصول میں صرف ہوتی ہیں اور وہ اس کی زیب وزینت پر فریفتہ...  اور اس میں پوری طرح مگن ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے اس طرز عمل پر بہت خوش اور مطمئن ہوتے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل و حقیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. This verse refutes the wrong criterion by which the disbelievers of Makkah (and all other disobedient people of the world) judged whether one was or was not a favorite of God. They judged a man’s worth by his wealth and worldly prosperity and not by his faith and righteous conduct. They thought that the one who was enjoying all the good things of life was a favorite of God, even if he had erro... neous beliefs and did wicked deeds. On the other hand, they considered the one who was poor and indigent to be under the wrath of God, even though he was righteous. That is why in their judgment the chiefs of the Quraish were far superior to the followers of the Prophet (peace be upon him). They would say, "You can see for yourselves that God is with the chiefs of the Quraish. In this verse, Allah has warned them that they are absolutely wrong in drawing such a conclusion from the worldly conditions of the people. Allah gives His provision to the people abundantly or sparingly for reasons different from those which they presumed and richness or poverty is no criterion by which to judge the worth of people. The real criterion of judging the worth of people is their beliefs and deeds. The one, who has righteous beliefs and does good deeds, shall be higher in rank than the one who has wrong beliefs and does evil deeds. Thus the real criterion is the quality of his deeds and not the possession or the lack of wealth.  Show more

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :42 اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفار مکہ بھی عقیدہ و عمل کے حسن و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر و قیمت کا حساب لگاتے تھے ۔ ان کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خوب سامان عیش مل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے ، خواہ ہو کیسا ہی گم... راہ و بدکار ہو ۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خواہ وہ کیسا ہی نیک ہو ۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو ، اللہ کس کے ساتھ ہے ۔ اس پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم ۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی و معنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے ۔ انسانوں کے درمیان فرق مراتب کی اصل بنیاد اور ان کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط ، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے برے اوصاف کا ۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: پیچھے یہ بتایا گیا تھا کہ جو لوگ دین حق کو جھٹلا رہے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس پر کسی کو شبہہ ہوسکتا تھا کہ دنیا میں تو ان لوگوں کو خوب رزق مل رہا ہے اور بظاہر وہ خوش حال نظر آتے ہیں۔ اس آیت میں اس شبہ کا جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں رزق کی فراوانی یا اس کی تنگی کا اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت...  سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی حکمت بالغہ کے تحت رزق خوب عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رزق کی تنگی میں مبتلا کردیتا ہے۔۔ کافر لوگ اگرچہ یہاں کی خوش حالی پر مگن ہیں۔ مگر انہیں یہ اندازہ نہیں کہ اس چند دن کی زندگی کا عیس آخرت کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نیک خصلت اور بد خصلت لوگوں کا ذکر فرمایا اور نیک خصلت لوگوں سے اپنی رضا مندی ظاہر فرمائی اور ان سے جنت کا وعدہ فرمایا اور بد خصلت لوگوں سے نا خوشنودی ظاہر فرمائی اور دوزخ ان کا ٹھکانا فرمایا۔ اس پر یہ خیال دل میں گزر سکتا تھا کہ دنیا میں اکثر ایسے بد خصلت لوگ جن ... کا ذکر آیت میں ہے بڑی آسائش اور خوشحالی سے بسر کرتے ہیں اور نیک خصلت لوگ تنگ حال ہیں پھر جن لوگوں سے اللہ راضی نہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے آسائش کس مصلحت اور حکمت سے دے رکھی ہے اس خیال کو اللہ تعالیٰ نے رفع فرما دیا کہ دنیا کی فارغ البال نیک عملی اور بد عملی پر موقوف نہیں ہے نیک عملی اور بد عملی کے موافق جزا اور سزا تو خاص آخرت میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے دنیا میں بعین مصلحت اور بعضی حکمت کے موافق اللہ تعالیٰ نے نیکوں کو تنگ حال اور بعضے بدوں کو خوشحال رکھا ہے اور اس مصلحت اور حکمت کا بھید اللہ کو ہی معلوم ہے لیکن اتنا خلاصہ تم کو بتلا دیا جاتا ہے کہ نہ خود دنیا کو قیام ہے نہ دنیا کی خوشحالی اور تنگ حالی کو قیام ہے اس لئے جس نیک خصلت لوگوں کے لئے عقبیٰ میں ہمیشہ کی راحت رکھی گئی ہے ان کو اگر دنیا میں چند روزہ کوئی تکلیف ہو تو وہ خیال کرنے کے قابل نہیں ہے اسی طرح کسی بد خصلت کی چند روز زندگی اگر آسائش سے گزری تو وہ بھی اس سبب سے کہ ایسے لوگوں کے لئے دائمی تنگ حالی اور ذلت عقبیٰ میں رکھی گئی ہے خیال کرنے کے لائق نہیں ہے اور دنیا کی خوشحالی پر اترانا اور خوش ہونا انہی لوگوں کا کام ہے جو عقبیٰ کے منکر ہیں صحیح سند سے ترمذی مسند امام احمد بن حنبل اور ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ بورئیے پر سوئے اور اس بورئیے کے نشان آپ کے جسم مبارک پر پڑگئے ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ فرماتے تو ہم لوگوں میں سے کوئی شخص بچھونا بچھا دیتا آپ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا لینا ہے میں دنیا کو اتنی ضرورت کی چیز سمجھتا ہوں جیسے ایک مسافر ایک پیڑ کی چھاؤں میں تھوڑی دیر ٹھہرا اور اپنے راستہ سے ١ ؎ لگا۔ صحیح سند سے صحیح ابن حبان مستدرک حاکم اور ترمذی میں کعب بن عیاض (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر امت دنیا کی ایک چیز سے خرابی میں پھنسی ہے میری امت کی خرابی میں ڈالنے والی چیز دنیا کا مال ومتاع ٢ ؎ ہے۔ اب آگے فرمایا دنیا کے مال و متاع والے لوگ دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہیں اور عقبیٰ سے غافل ہیں لیکن عقبیٰ کی ہمیشہ کی زندگی کے آگے دنیا کی چند روزہ زندگی کوئی چیز نہیں ہے۔ مولف کے ذبح کئے جانے اور جنتیوں و دوزخیوں کی ہمیشہ کی زندگی سے آگاہ کر دئیے جانے کی ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ٣ ؎ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکی ہے جو عقبیٰ کی ہمیشہ کی زندگی کی بابت آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٥٨٩ ج ٢ والترغیب ص ٢٤٢ ج ٢ باب الترغیب فی الزہد فی الدنیا الخ۔ ٢ ؎ جامع ترمذی ص ٥٧ ج ٢ باب ماجاء ان فتنہ سمزہ الامۃ فے المال والترغیب ص ٢٣٩ ج ٢ باب ایضاً ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٦٩١ ج ٢ باب قولہ وانذرھم یوم الحسرۃ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:26) یبسط۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ کشادہ کرتا ہے۔ وسیع کرتا ہے۔ فراخ کرتا ہے۔ بسط سے (باب نصر) ۔ یقدر۔ مضارع واحد مذکر غائب قدر مصدر (ضرب) وہ تنگ کرتا ہے یبسط کے مقابلہ میں آیا ہے لہٰذا فراخ کرتا ہے یا وسیع کرتا ہے کی ضدّ ہے ۔ یعنی کم کرتا ہے۔ تنگ کرتا ہے۔ اس کا مادّہ قدرۃ ہے جس کا معنی قدرت رکھن... ا۔ طاقت رکھنا۔ قابو پانا۔ غالب آنا۔ مقدار مقرر کرنا۔ اندازہ لگانا کے ہیں۔ فرحوا۔ ماضی جمع مذکر غائب وہ خوش ہوئے وہ اترائے فرح سے (باب سمع) ۔ فرح کا استعمال پسندیدہ اچھی خوشی کے لئے بھی ہوتا ہے اور مذموم خوشی کے لئے بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب خوش ہونا ہے اور دوسری صورت میں بدمست ہونا۔ اترانا۔ فی الاخرۃ۔ ای فی جنب الاخوۃ آخرت کے مقابلہ میں۔ متاع۔ اسم مفرد امتعۃ جمع۔ معین اور عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا۔ معاش۔ فائدہ۔ نفع وہ سامان جو کام آتا ہے۔ مال ومتاع جس سے کہ ہر قسم کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ متعۃ فائدہ اندوزی یہاں متاع بمعنی متعۃ لا تدوم۔ ایسا فائدہ جو دیرپا نہ ہو۔ متاع حقیر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ یعنی دنیا میں رزق کی فراوانی یا تنگی کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاط سے کسی شخص کے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ یا غیر پسندیدہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ بسا اوقات وہ کافر کو خوب سامان عیش دیتا ہے اور مومن پر تنگدستی وارد کرتا ہے تاکہ دونوں کی آزمائش کی جائے۔ مومن اپنے صبر وشکر کی وجہ سے آخرت میں بلن... د درجات پاتا ہے اور کافر ناکام رہتا ہے۔ اس لئے آخرت میں اس کا ٹھکانا برا ہوتا ہے لہٰذا گمراہ لوگوں کی ان بداعمالیوں کے باوجود ان کے عیش و عشرت سے کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ محض مہلت ہے جو کافر کو دنیا میں دی جاتی ہے۔ (روح) ۔ 9 ۔ یا ایک تھوڑی دیر کا سامان۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر آرام فرما رہے تھے جب اٹھے تو آپو کے پہلوئوں پر چٹائی کا نشان تھا ہم نے عرض کیا : کہا ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک نم بستر بنادیں ؟ فرمایا کیا کرنا ہے میں تو دنیا میں ایک راہ چلتے مسافر کی طرح ہوں جس نے ایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا اور پھر آگے چل دیا۔ (ترمذی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد شکنی اور باہمی تعلقات کو توڑنے کی سب سے بڑی وجہ دنیا پرستی ہے۔ حالانکہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ منکرین حق جس دنیا پر اتراتے اور جس کی خاطر اپنے رب کو فراموش اور لوگوں سے عہد شکنی کرتے ہیں اگر دنیا کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں انہیں م... علوم ہوجائے گا کہ یہ آخرت کے مقابلے میں قلیل اور عارضی ہے۔ جس دنیا کی خاطر بدمعاملگی اور عہد شکنی کرتے ہیں۔ غور کریں کہ کیا رزق کی فراوانی اور اسباب کی کشادگی انسان کی صلاحیتوں کے بدولت ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت کا نتیجہ ہے ؟ رزق کی فرادانی اور اسباب کی وسعت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے نوازتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ انسان کو تلاش رزق کا حکم ضرور ہے مگر رزق کا انحصارصرف انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق کا دار و مدار انسان کی محنت پر ہوتا تو دنیا میں کوئی ہنرمند غریب نہ ہوتا اور کوئی لینڈلارڈ مقروض نہ ہوتا، نہ ہی کار خانے دار دیوالیہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا صرف ایک اللہ ہے۔ اس نے اپنی حکمت، تقسیم اور لوگوں کے تعلقات کو مربوط رکھنے کے لیے رزق کی تقسیم اس طرح کر رکھی ہے کہ ایک شخص اپنی روزی کے لیے کئی انسانوں کے تعاون کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ جس بنا پر لوگ ایک دوسرے کی روزی میں معاون بنتے ہیں۔ کار خانے دار کو دیکھیں کہ وہ کتنے لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہی صورت حال زمیندار کی ہے کہ بظاہر وہ اپنی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ درجنوں گھرانوں، سینکڑوں جانوروں اور ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی روزی کا وسیلہ بنتا ہے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِذِی الْحُلَیْفَۃِ فَإِذَا ہُوَ بِشَاۃٍ مَّیِّتَۃٍ شَآءِلَۃٍ بِرِجْلِہَا فَقَالَ أَتُرَوْنَ ہٰذِہٖ ہَیِّنَۃً عَلٰی صَاحِبِہَا فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ہٰذِہِ عَلَی صَاحِبِہَا وَلَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا قَطْرَۃً أَبَدًا )[ سنن ابن ماجہ : بَابُ مَثَلِ الدُّنَّیَا ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ذوالحلیفہ کے مقام پر تھے جبکہ ایک مری ہوئی بکری جس کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ مردہ بکری اس کے مالک کے لیے حقیر ترین ہے۔ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اگر دنیا کی وقعت اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ کسی کافر کو ایک قطرہ پانی کا نہ دیتا۔ “ (عَنْ أَبِیْ وَاءِلٍ (رض) عَنْ عَلَیٍّ (رض) أَنَّ مَکَاتِبَا جَاءَ ہٗ فَقَالَ إِنِّیْ قَدْ عَجَزْتُ عَنِ کِتَابَتِیْ فَأَعِنِّیْ قَالَ أَلاَّ أُعَلَّمُکً کَلِمَاتِ عَلَمَّنِیِِْہُنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَ عَلَیْکَ مِثْلَ جَبْلِ ثَبَیْرٍ دَیْنًا أَدَاہُ اَللّٰہُ عَنْکَ ؟ قَالَ قُلْ اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَنْ سِوَاکَ ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابو وائل (رض) حضرت علی (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مکاتب غلام حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ میں اپنی غلامی کی رقم ادا کرنے سے عاجز آگیا ہوں میری مدد کیجیے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسے کلمات نہ سکھلادوں جو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھلائے تھے اگر تجھ پر ثبیر پہاڑ کے برابر قرض ہوگا تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اتار دے گا۔ فرمایا پڑھا کرو اے اللہ ! مجھے حلال رزق کے ساتھ حرام سے بچا لے اور مجھے اپنے فضل کے ساتھ غنی فرما کر دوسروں سے بےنیاز فرما۔ “ مسائل ١۔ رزق تنگ اور کشادہ کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ آخرت کا انکار کرنے والے دنیا کی زندگی پر خوش رہتے ہیں۔ ٣۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی حقیقت : ١۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرعد : ٢٦) ٢۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٣۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٤۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن : ٤٣) ٥۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ : ١٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٦ اس سے قبل اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ایک شخص اس حقیقت کو جانتا ہے اور مانتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو سچائی نازل ہو رہی ہے ، وہ حق ہے ، وہی دانشمند اور عقلمند ہے اور جو نہیں جانتا وہ اعمیٰ ہے۔ اب یہاں اہل کفر کی کم عقلی اور اندھے پن کی کچھ مثالیں دی جاتی ہیں ... کہ یہ لوگ اس کائنات میں اللہ کی آیات و نشانات کو نہیں دیکھ پا رہے۔ دانشوروں کے لئے یہ تو قرآن ہی کافی معجزہ ہے لیکن عقل کے یہ کورے قرآن سے بھی بڑا کوئی معجزہ طلب کرتے ہیں۔ سورة کے پہلے حصے میں ان کے مطالبات کا ذکر ہوچکا ہے اور وہاں یہ جواب بھی دے دیا گیا تھا کہ رسول تو صرف ڈرانے والا ہے اور معجزات کا صدور اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہاں ایسے ہی مطالبات کو پھر دہرا کر بتایا جاتا ہے کہ ضلالت و ہدایت کے اسباب کیا ہوتے ہیں ۔ پھر ان دلوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اللہ کے ذکر ہی سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور وہ اس قرآن اور ذکر الٰہی سے آگے مزید خوارق عادت معجزات کا مطالبہ نہیں کرتے۔ یہ قرآن اپنی جگہ گہری اثر آفرینی کا حامل ہے یہاں تک کہ اسے سن کر قریب ہے کہ پہاڑ چل پڑیں اور قریب ہے کہ زمین پھٹ پڑے اور قریب ہے کہ مردے بھی اس کی حقانیت کے نعرے لگانے لگ جائیں کیونکہ اس قرآن میں بےپناہ قوت ، مادہ حیات اور انقلابی اسپرٹ ہے۔ آخر میں مومنین کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں سے مایوس ہوجائیں جو معجزات طلب کرتے ہیں اور انسانی تاریخ میں ان لوگوں کے رویہ کا مطالعہ کریں جنہوں نے اچھی مثالیں چھوڑی ہیں اور پھر ان لوگوں کی حالت کو بھی دیکھیں جو ان جیسے تھے اور جو اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دنیاوی سازو سامان پر اترانا بےوقوفی ہے : آٹھویں آیت میں فرمایا (اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیَقْدِرُ ) اور اللہ رزق کو کشادہ فرماتا ہے جس کے لیے چاہے اور تنگ کرتا ہے جس کے لیے چاہے (دنیا میں رزق کی فراوانی اللہ کا مقبول بندہ ہونے کی دلیل نہیں ہے اور رزق کی تنگی اس بات کی دلیل نہیں...  کہ جس کا رزق تنگ ہو وہ اللہ کا مقبول بندہ نہ ہو ‘ لہٰذا کافر لوگ وسعت رزق سے دھوکہ نہ کھائیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی نہ ہوتا تو زیادہ مال ہمیں کیوں ملتا) (وَفَرِحُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) اور کافر لوگ دنیا والی زندگی پر اترا رہے ہیں اور اسی پر فریفتہ ہیں (اور اس کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے اور آخرت کی فکر نہیں کرتے) (وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِالاَّمَتَاعٌ) (اور دنیا والی زندگی آخرت کے مقابلہ میں بس ذرا سی چیز ہے جس سے لوگ نفع حاصل کرتے ہیں) اس حقیر اور ذرا سی دنیا کے لیے ایمان سے محروم رہنا پھر اس محرومیت کے نتیجہ میں آخرت کی نعمتوں سے محروم رہنا اور دوزخ میں جانا بہت بڑی تباہی ہے اور بہت بڑی کامیابی سے محرومی ہے۔ سورة آل عمران میں فرمایا۔ (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) (سو جو شخص دوزخ سے بچا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا سو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا والی زندگی دھوکہ کے سامان کے سوا کچھ نہیں) ۔ دنیا جس قدر بھی زیادہ ہوجائے وہ بہر حال آخرت کے مقابلہ میں بےحقیقت ہے کم ہے ہیچ در ہیچ ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ یہ مستحق وعید جماعت کے اوصاف ہیں جو پہلی جماعت کی ضد ہے۔ ” اُولٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ الخ “ یہ تخویف اخروی کا اعادہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 ۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے اور زیادہ رزق دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے روزی تنگ کردیتا ہے اور کم رزق دیتا ہے اور یہ دین حق کے منکر دنیوی زندگی پر اتراتے اور خوش ہوتے ہیں حالانکہ یہ دنیوی زندگی اور یہاں کا عیش و عشرت آخرت کے مقابلہ میں سوائے تھوڑے سے فائدے اور متاع حقیر کے اور ک... چھ بھی نہیں ۔ یعنی یہ دنیوی مفاد اور یہاں کے عیش و عشرت کو رحمت اور غضب کا معیار قرار نہ دو اور دھوکہ نہ کھائو رزق تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے کم و بیش دیتا ہے اور اگر کسی کو زیادہ دیتا بھی ہے تو آخرت کی نعمتوں کے مقابلہ میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے۔  Show more