Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 28

سورة الرعد

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾

Those who have believed and whose hearts are assured by the remembrance of Allah . Unquestionably, by the remembrance of Allah hearts are assured."

جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ امَنُواْ وَتَطْمَيِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ ... Those who believed, and whose hearts find rest in the remembrance of Allah. for their hearts find comfort on the side of Allah, become tranquil when He is remembered and pleased to have Him as their Protector and Supporter. So Allah said, ... أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَيِنُّ الْقُلُوبُ Verily, in the remembrance of Allah do hearts find rest. and surely, He is worthy of it. The Meaning of Tuba Allah said, الَّذِينَ امَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَأبٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان وتقویٰ بےقرار رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] اللہ کا ذکر دو طرح سے ہے۔ ایک ہر وقت اللہ کو اپنے دل میں یاد رکھنا۔ دوسرے زبان سے اس کے نام کا ورد کرتے رہنا اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے یا پھر یہ قرآن ہے۔ جس کے متعلق فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ۝) 15 ۔ الحجر :9) ذکر کے بیشمار فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے اللہ پر توکل پیدا ہوتا ہے اور جس شخص کو صحیح معنوں میں صرف اللہ پر توکل کی نعمت نصیب ہوگئی۔ وہ مصائب و آلام میں کبھی نہیں گھبراتا، نہ اس کا دل ہی لذائذ دنیا پر ریجھتا ہے وہ ہر حال میں اللہ پر نظر رکھتا ہے اور اسے ایسا قلبی سکون اور راحت نصیب ہوتی ہے جس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اللہ نے اس نعمت سے نوازا ہو اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے دل معجزہ دیکھنے کے بغیر بھی مطمئن ہوجاتے ہیں اور بات ہے بھی یہی کہ دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے نصیب ہوتا ہے معجزات سے نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ ۔۔ : یہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی صفت ہے، ذکر کا معنی نصیحت بھی ہے اور یاد کرنا بھی۔ اس لحاظ سے آیت کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ انھی کو اپنی طرف ہدایت دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل کو وحی الٰہی سے ملنے والی نصیحت سے پوری تسلی ہوجاتی ہے، اس کے سوا انھیں کہیں سے تسلی نہیں ہوتی، کوئی دوسرا اپنے خیال میں کیسی اچھی بات کیوں نہ کہے انھیں اس پر یقین نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بھی ان جیسا انسان ہے، اس کی بات درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی، اس لیے اس پر انھیں اطمینان نہیں ہوتا، صرف اللہ کی بات ایسی ہے جو غلط نہیں ہوتی، اس لیے اسی پر ان کے دل کو یقین و اطمینان ہوتا ہے۔ ” ذکر اللہ “ یعنی اللہ کی نصیحت صرف رسول پر نازل ہوئی، قرآن کی صورت میں بھی اور حدیث کی صورت میں بھی، پھر اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا، فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] ” بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ کافر اس نعمت سے محروم ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کی نعمت صرف اسی کو ملتی ہے جو اس کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرے، ایمان لائے اور وحی الٰہی سے اسے پوری تسلی حاصل ہوجائے۔ کوئی شخص اگر ایمان کا دعویٰ کرے مگر اسے قرآن و حدیث کے بجائے تسلی کسی اور کی بات سے ہوتی ہو تو وہ بدنصیب بھی ہدایت الٰہی سے محروم ہے۔ ” ذکر اللہ “ کا دوسرا معنی یاد الٰہی ہے۔ مولانا محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” یہ ایمان کے خالص اور پختہ ہونے کی علامت ہے کہ ذہن خواہ کتنی ہی فکروں میں الجھا ہوا ہو لیکن جوں ہی نماز شروع کرے یا اللہ کو یاد کرے تو تمام فکر بھول جائیں اور انسان حقیقی اطمینان قلب سے بہرہ ور ہوجائے۔ “ یہاں اگرچہ دونوں معنوں کی گنجائش ہے مگر پہلا معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ کافر نشانی مانگ رہے ہیں جبکہ سب سے بڑی نشانی قرآن موجود ہے۔ اہل ایمان کو اسی سے اطمینان ہوجاتا ہے، جبکہ کافر بدنصیب شک ہی میں مارا جاتا ہے اور مزید معجزے مانگتا رہتا ہے ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ 28؀ۭ طمن الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] ( ط م ن ) الطمانینۃ والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور قرآن کریم اور حلف باللہ سے ان کے دلوں کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے اچھی طرح جان لو کہ قرآن کریم سے دل کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ) دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٥ میں فرمایا گیا : (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ) ” اور (اے نبی ! ) یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے “۔ لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع (source) یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ چناچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔ (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ) دنیوی مال ومتاع اور سامان عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہوسکتا ہے یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔ دل کو یہ دولت نصیب ہوگی تو اللہ کے ذکر سے ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یہ ایمان کے خالص اور پختہ ہونے کی علامت ہے کہ ذہن خواہ کتنی ہی فکروں میں الجھا ہوا ہو لیکن جو نہی نماز شروع کرے یا اللہ کو یاد کرے تو تمام …ہوجائیں اور انسان حقیقی اطمینان قلب سے بہرہ ور ہوجائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی وہ قرآن کے اعجاز کو دلالت علی النبوة کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور واہی تباہی فرمایش نہیں کرتے پھر خدا کی یاد اور طاعت میں انکو ایسی رغبت ہوتی ہے کہ متاع حیات دنیا سے مثل کفار کے ان کو رغبت اور فرحت نہیں ہوتی۔ 2۔ یعنی جس مرتبہ کا ذکر ہو اسی مرتبہ کا اطمینان ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے : جب سیدنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ کو توحید کی دعوت دیتے تھے اور وہ لوگ بار بار یوں کہتے تھے کہ ہمارے کہنے کے مطابق آپ کی نبوت کی نشانی ظاہر ہوجائے تو ہم ایمان لے آئیں گے قرآن مجید میں ان کی جاہلانہ بات کا جگہ جگہ تذکرہ فرمایا کہ وہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کی طرف کوئی نشانی کیوں نازل نہیں کی گئی ‘ نشانیاں یعنی معجزات تو بہت تھے اور سب سے بڑا معجزہ قرآن ہی ہے جسے حق قبول کرنا ہو اس کے لیے یہی معجزات کافی تھے لیکن ضد اور عناد کی وجہ سے ایسی بات کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیں کہ فرمائشی معجزے ظاہر کرنا میرے قبضہ قدرت کی بات نہیں ‘ اور اللہ تعالیٰ بھی اس بات کا پابند نہیں کہ تمہاری فرمائش کے مطابق معجزے بھیجے اور یہ بھی معلوم ہے کہ تمہیں حق قبول کرنا نہیں ہے لہٰذا معلوم ہوگیا کہ تم گمراہ ہی رہو گے اللہ تعالیٰ جسے چاہے گمراہ فرمائے۔ اور جو شخص اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے اللہ اسے اپنی طرف ہدایت دیتا ہے ‘ تم اس کی طرف رجوع ہونا نہیں چاہتے ‘ جب تمہارا یہ حال ہے تو گمراہی کے گڑھے میں گرتے چلے جاؤ گے۔ پھر فرمایا (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَءِنُّ قُلُوْبُِھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ) (جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوگئے) یہ من اناب کی صفت ہے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طرف راہ دکھاتا ہے ‘ یہ لوگ معجزوں کی فرمائش نہیں کرتے جو معجزات ظاہر ہوئے انہیں میں غورو فکر کر کے ایمان کی راہ پر آجاتے ہیں ان کے دل میں اللہ کی یاد سے سکون ہوتا ہے اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ‘ اللہ کا ذکر سچے ایمان والوں کے قلوب کے مطمئن ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ‘ ایمان پر ان کا دل مطمئن ہے اور جب کبھی کسی سے اللہ کا ذکر سنتے ہیں یا خود ذکر کرتے ہیں (زبان سے یا دل سے) اس سب سے ان کے دلوں میں فرحت اور خوشی اور سکون و اطمینان کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ پھر اہل ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو خوشخبری دی اور فرمایا (طُوْبٰی لَھُمْ ) (ان کے لیے خوشحالی ہے اور عمدہ زندگی ہے) (وَحُسْنُ مَاٰبُ ) (اور اچھا انجام ہے) دنیا میں بھی ان کو حیات طیبہ اور سکون و آرام کی زندگی حاصل ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے اچھا ٹھکانا ہے۔ یہاں صاحب معالم التنزیل نے ایک سوال اٹھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت میں تو فرمایا کہ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں اور سورة انفال میں فرمایا ہے کہ مومنین کے دل اللہ کے ذکر کے وقت ڈر جاتے ہیں۔ (اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ ) بیک وقت اطمینان اور خوف کیسے حاصل ہوگا ؟ پھر جواب دیا ہے کہ ہر حالت کا موقع الگ الگ ہے وعید اور عذاب کا تذکرہ ہو تو ڈر جاتے ہیں اور ثواب کا تذکرہ ہو تو اطمینان حاصل ہوتا ہے ‘ احقر کے نزدیک سوال وارد ہی نہیں ہوتا کیونکہ خوفزدہ ہونا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے اور ایمان ہی اصل سکون ہے جسے ایمانیات کے سچا ہونے پر اطمینان نہ ہوگا وہ مومن ہی نہ ہوگا اور جب مومن نہ ہوگا تو عقاب اور وعیدوں سے ڈرے گا کیوں ؟ فافھم واغتنم اس کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرمایا کہ ہم نے آپ کو ایسی امت میں رسول بنا کر بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں ‘ ہم نے آپ کو اس لیے بھیجا ہے کہ آپ ان پر ہماری کتاب تلاوت فرمائیں یعنی پڑھ کر سنائیں ‘ اور حال یہ ہے کہ وہ لوگ رحمن کی ناشکری کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے تو اپنی رحمت سے ان پر قرآن نازل فرمایا لیکن اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری پر اتر آئے اور ناشکری کی وجہ سے کافر ہی رہے اور جانتے بوجھتے کفر اختیار کیا یہ سخت گمراہی کی بات ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ یہ پہلے مذکورہ شکوی کا اعادہ ہے۔ یعنی اس پیغمبر پر ہمارا طلبیدہ معجزہ کیوں نہیں نازل کیا جاتا یہ کفار کی انتہائی ضد اور ہٹ دھرمی تھی کہ بڑے بڑے معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور مزید معجزوں کا مطالبہ محض عند و مکابرہ کی وجہ سے کرنے لگے۔ ” قُلْ اِنَّ اللہَ الخ “ جواب شکوی ہے یعنی تمہیں مزید معجزہ دکھانے سے کوئی فائدہ نہیں تم ضدی اور معاند ہو تم پھر بھی نہیں مانو گے ہدایت صرف وہی لوگ پاتے ہیں جن میں انابت ہو اور وہ ہدایت پانے کا سچا جذبہ رکھتے ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28 ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ذکر الٰہی سے ان کے قلوب کو اطمینان میسر ہوا آگاہ رہو اور خوب یاد رکھو اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دل مطمئن ہوا کرتے ہیں اور قلوب کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ یعنی ان کا دل قرآن کریم سے مطمئن ہے اور قرآنی معجزات کے بعد بلاوجہ کسی اور معجزے کی فرمائش نہیں کرتے پھرتے بلکہ ایمان لانے کے لئے قرآن کریم کو کافی نشان سمجھتے ہیں تمام اذکار ہیں سب سے اہم اور سب سے بڑا ذکر قرآن کریم ہے۔