Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 3

سورة الرعد

وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَدَّ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡہٰرًا ؕ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیۡہَا زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾

And it is He who spread the earth and placed therein firmly set mountains and rivers; and from all of the fruits He made therein two mates; He causes the night to cover the day. Indeed in that are signs for a people who give thought.

اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کر دی ہیں ۔ اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کر دیئے ہیں وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے ۔ یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's Signs on the Earth After Allah mentioned the higher worlds, He started asserting His power, wisdom and control over the lower parts of the world. Allah said, وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الاَرْضَ ... And it is He Who spread out the earth, made it spacious in length and width. ... وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ... and placed therein firm mountains and rivers, Allah has placed on the earth firm mountains and made rivers, springs and water streams run through it, so that the various kinds of fruits and plants of every color, shape, taste and scent are watered with this water, ... وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ... and of every kind of fruit He made Zawjayn Ithnayn, two types from every kind of fruit, ... يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ... He brings the night as a cover over the day. Allah made the day and night pursue each other, when one is about to depart, the other overcomes it, and vice versa. Allah controls time just as He controls space and matter, ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ Verily, in these things, there are Ayat for people who reflect. who reflect on Allah's signs and the evidences of His wisdom. Allah said,

عالم سفلی کے انواع واقسام اوپر کی آیت میں عالم علوی کا بیان تھا ، یہاں علم سفلی کا ذکر ہو رہا ہے ، زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے ۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں ، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے ۔ تاکہ مختلف شکل وصورت ، مختلف رنگ ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں ۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے ، کھٹے میٹھے وغیرہ ۔ رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں ، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے ۔ اللہ کی ان نشانیوں ، حکمتوں ، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے ۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں ، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو ۔ ایک کی مٹی سرخ ، دوسرے کی سفید ، زرد ، وہ سیاہ ، یہ پتھریلی ، وہ نرم ، یہ میٹھی ، وہ شور ۔ ایک ریتلی ، ایک صاف ، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل ، خود مختار ، مالک الملک ، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود ، نہ پالنے والا ۔ زرع ونحیل کو اگر جنات پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہئے اور اعناب پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہئے ۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأت یں ہیں ۔ صنوان کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں ۔ غیر صنوان جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں ۔ اسی سے انسان کے چچا کو صنوالاب کہتے ہیں حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے ۔ برا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے ۔ سب کے لئے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے ، کوئی میٹھا ہے ، کوئی کھٹا ہے ۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ الغرض قمسوں اور جنسوں کا اختلاف ، شکل صورت کا اختلاف ، رنگ کا اختلاف ، بو کا اختلاف ، مزے کا اختلاف ، پتوں کا اختلاف ، تروتازگی کا اختلاف ، ایک بہت ہی میٹھا ، ایک سخت کڑوا ، ایک نہایت خوش ذائقہ ، ایک بیحد بد مزہ ، رنگ کسی کا زرد ، کسی کا سرخ ، کسی کا سفید ، کسی کا سیاہ ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف ، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں ۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لئے عبرت ہیں ۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ عقل مندوں کے لئے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند وبالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ 3۔ 2 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] اس سے پہلی آیت میں نظام کائنات سے معاد پر دلیل لائی گئی تھی۔ اب ارضی آیات سے توحید اور معاد پر دلائل دیئے جارہے ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو پھیلایا اور اس کے بعض مخصوص مقامات پر پہاڑ پیدا کردیے۔ پھر ان پہاڑوں سے دریا اور نہریں جاری کیں۔ پھر اس پانی سے ہر طرح کی نباتات پیدا فرمائی۔ اور ہر طرح کے پھلوں میں نر اور مادہ پیدا کردیے۔ پھر ان پھلوں اور نباتات کے بارآور ہونے کے لیے دھوپ کی بھی ضرورت تھی اور ٹھنڈک کی بھی۔ لہذا اللہ نے دن اور رات پیدا کردیے۔ ان تمام باتوں میں ایک خاص قسم کا نظم، اعتدال اور حکمت پائی جاتی ہے جس سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور مدبر ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر بارش اور پانی کا دیوتا کوئی اور ہوتا، پہاڑوں کا، پھلوں اور نباتات کا کوئی دوسرا تو ان تمام اشیاء میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ناممکن تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ ۔۔ : ” مَدَّ “ کا معنی پھیلانا ہے۔ ” رَوَاسِيَ “ ” رَاسِیَۃٌ“ کی جمع ہے، ” رَسَا یَرْسُوْ “ کا معنی زمین میں گڑا ہوا ہونا ہے، لفظی معنی زمین میں گڑے ہوئے، مراد پہاڑ ہیں۔ پہلے اوپر کے جہان کا تذکرہ فرمایا، پھر زمین، آسمان، سورج، چاند وغیرہ کا، اب نیچے کے جہان میں اللہ تعالیٰ کی چند قدرتوں کا ذکر ہے کہ زمین ایک کرہ ہونے کے باوجود اتنی وسیع بنائی کہ طول و عرض میں آدمی کی نگاہ اس کی انتہا کو نہیں پاتی، انسان اور حیوان کسی تکلیف کے بغیر اس پر چلتے پھرتے ہیں، انسان عظیم الشان عمارتیں بناتے ہیں۔ زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے اور ہر وقت زلزلے کی کیفیت سے محفوظ رکھنے کے لیے اس میں بہت نیچے تک گڑے ہوئے اور بہت اوپر تک اٹھے ہوئے پہاڑ بنا دیے اور تمہاری زندگی کی بقا کے لیے دریا اور ندی نالے بنا دیے۔ ندی نالوں کا ذکر پہاڑوں کے ساتھ فرمایا، کیونکہ دریا عموماً پہاڑوں ہی سے نکلتے ہیں۔ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۔۔ : اس جملے میں ایک ایسی حقیقت بیان فرمائی ہے جس کا پوری طرح انکشاف کچھ مدت پہلے ہی ہوا ہے۔ پہلے لوگوں کو صرف چند درختوں کے جوڑا یعنی نر اور مادہ ہونے ہی کا علم تھا جن کے نر درخت الگ اور مادہ الگ ہوتے ہیں، مثلاً کھجور اور پپیتا وغیرہ۔ پھر ثابت ہوا کہ ہر درخت ہی کا پھل نر اور مادہ پھولوں کا بور ملنے سے وجود میں آتا ہے، یعنی ہر پھل میں جوڑا موجود ہے، پھر نر و مادہ دونوں پھول بعض اوقات ایک ہی پودے میں موجود ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک درخت کے ایک ہی پھول میں نر و مادہ دونوں حصے پائے جاتے ہیں۔ کتنی عظیم قدرتوں کا مالک ہے وہ جس کی صرف ایک تخلیق کی ایک حقیقت جو خود اس نے سیکڑوں برس پہلے بیان فرما دی تھی، اب کہیں انسان اسے کسی حد تک پا سکے ہیں۔ عموماً قدیم مفسرین نے اس کا معنی ہر پھل میں سے دو قسمیں کیا ہے، مثلاً میٹھا اور کھٹا، گرم اور سرد، چھوٹا اور بڑا، سیاہ اور سفید وغیرہ، یہ معنی بھی درست ہے۔ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ : یہ اس کی قدرت کا اور اپنے بندوں پر رحمت کے ایک اور نمونے کا بیان ہے۔ ” غَشِیَ یَغْشٰی “ (ع) کا معنی ڈھانپنا ہے۔ ” يُغْشِي “ باب افعال ” أَغْشَی یُغْشِیْ “ سے ہے، معنی ہے کسی چیز کو دوسری چیز کے لیے ڈھانپنے والی بنادینا۔ رات کو دن پر اڑھا دیتا ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے، اگلی بات خود سمجھ میں آرہی ہے، اس لیے حذف کردی، یعنی دن کو رات پر اڑھا دیتا ہے تو روشنی ہوجاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ دونوں کے فوائد کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١ تا ٧٣) ۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ۔۔ : یعنی جو لوگ غورو فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان چیزوں میں بہت سے دلائل ہیں کہ وہ اللہ کہ مکان و زمان کی ہر حرکت و سکون اور ہر تبدیلی مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہے، وہ انسان کو بھی دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ موضح میں ہے : ” رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا، اگر ہر چیز خاصیت سے ہوتی تو ایک سی ہوتی۔ “ رازی (رض) لکھتے ہیں کہ قرآن میں جہاں عالم سفلی، یعنی زمین کے دلائل کا ذکر ہے اس کے آخر میں : (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ) یا اس کا ہم معنی جملہ لایا گیا ہے، جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غور وفکر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ اختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں (یعنی خود بخود ایسا نہیں ہو رہا بلکہ ایک کرنے والا سب کچھ کر رہا ہے) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the next verse (3), it was said: وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْ‌ضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَ‌وَاسِيَ وَأَنْهَارً‌ا And He is the One who spread out the earth and made moun¬tains and rivers therein. The expression: &spread out the earth& is not contradictory of its being round - because each part of something very big and round appears to be, when looked at separately, nothing but a surface spread out - and the Qur’ an addresses common people in terms of their view of things. Since a common onlooker sees it as a spread-out surface, therefore, it was iden¬tified as such. Then, to keep it balanced and make it full of other bene¬fits, high and heavy mountains were placed on it. Besides providing weight and balance, these mountains store and supply water for the whole creation. To accomplish this, an unimaginably big storage of water is placed on their peaks in the form of a frozen sea. This snow has no re-servoir and certainly needs no monolithic structures, overhead or under-ground, to hold this supply of water. And the water thus stored cannot go bad or made impure. Then, nature has its own pipelines under the ground through which water is distributed all over the world. Some-where they show up in the form of rivers flowing freely along with their tributaries; and at other places, wells are dug to tap water from these hidden pipelines. In the next sentence of verse 3, it was said: وَمِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْن (and of all the fruits, He created therein the pairs of two). It means that Allah has created fruits of many kinds from this earth and made each one of two kinds: small and big, red, white, sweet and sour. It is also possible that the meaning of &zawjayn& (pairs) is not restricted to only two. Instead, it may be referring to several kinds the least number of which is two, therefore, it was termed as &the pairs of two.& And it is not so unlikely that &pairs& refers to the male and female, as we know about many trees which have males and females, for example, the date-palm and the papayah. Possibility of this being the case with other trees as well does exist, though not yet proved by relevant research about all of them. The next sentence of the verse declares: يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ (He makes the night cover the day). It means that He brings the night after the light of the day, as if something bright has been totally screened off from sight. The last sentence of the verse: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ‌ونَ translated as &surely, in that there are signs for a people who think,& means that there is no doubt about the fact that many signs of the most perfect power of Allah Ta’ ala are present all over for those who care to think about and deliberate in the arrangement and system of this whole universe.

(آیت) وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًا اور وہی وہ ذات ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں بوجھل پہاڑ اور نہریں بنائیں زمین کا پھیلانا اس کے کرہ اور گول ہونے کے منافی نہیں کیونکہ گول چیز جب بہت بڑی ہو تو اس کا ہر ایک حصہ الگ الگ ایک پھیلی ہوئی سطح ہی نظر آتا ہے اور قرآن کریم کا خطاب عام لوگوں سے انہی کی نظروں کے مطابق ہوتا ہے ظاہر دیکھنے والا اس کو ایک پھیلی ہوئی سطح دیکھتا ہے اس لئے اس کو پھیلانے سے تعبیر کردیا گیا پھر اس کا توازن قائم رکھنے کے لئے نیز اور بہت سے دوسرے فوائد کے لئے اس پر اونچے اونچے بھاری پہاڑ قائم فرما دئیے جو ایک طرف زمین کا توازن قائم رکھتے ہیں دوسری طرف ساری مخلوق کو پانی پہونچانے کا انتظام کرتے ہیں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ان کی چوٹیوں پر بحر منجمد (برف) کی شکل میں رکھ دیا جاتا ہے جس کے لئے نہ کوئی حوض ہے اور نہ ٹنکی بنانے کی ضرورت ہے نہ ناپاک ہونے کا احتمال نہ سڑنے کا امکان پھر اس کو ایک زیر زمین قدرتی پائپ لائن کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلا دیا جاتا ہے اسی سے کہیں تو کھلی ہوئی ندیاں اور نہریں نکلتی ہیں اور کہیں زیر زمین مستور رہ کر کنوؤں کے ذریعہ اس پائپ لائن کا سراغ لگایا اور پانی حاصل کیا جاتا ہے، (آیت) وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ یعنی پھر اس زمین سے طرح طرح کے پھل نکالے اور ہر ایک پھل دو دو قسم کے پیدا کئے چھوٹے بڑے سرخ سفید کھٹے میٹھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ زوجین سے مراد دو نہ ہوں بلکہ متعدد انواع و اقسام مراد ہوں جن کی تعداد کم سے کم دو ہوتی ہے اس لئے زمین اثنین سے تعبیر کردیا گیا اور کچھ بعید نہیں کہ زوجین سے مراد نر و مادہ ہوں جیسے بہت سے درختوں کے متعلق تو تجربہ سے ثابت ہوچکا ہے کہ ان میں نر مادہ ہوتے ہیں جیسے کھجور، پپیتہ وغیرہ دوسرے درختوں میں بھی اس کا امکان ہے اگرچہ ابھی تک تحقیقات وہاں تک نہ پہنچی ہوں۔ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَار یعنی اللہ تعالیٰ ہی ڈھانپ دیتا ہے رات کو دن پر مراد یہ ہے کہ دن کی روشنی کے بعد رات لے آتا ہے جیسے کسی روشن چیز کو کسی پردہ میں ڈھانپ دیا جائے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ بلاشبہ اس تمام کائنات کی تخلیق اور اس کی تدبیر ونظام میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًا ۭ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ۝ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی مرد اور عورت ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) اور اس نے زمین کو پانی پر پھیلایا اور زمین میں بڑے قائم رہنے والے پہاڑ کو جو کہ زمین کے لیے میخیں ہیں پیدا کیے اور نہریں جاری کیں اور اس میں ہر ایک قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پھل مثلا کھٹے، میٹھے، سفید سرخ پیدا کیے وہ دن کی روشنی سے رات کو رات کی تاریکی سے دن کی روشنی کو چھپا دیتا ہے یا یہ کہ وہ رات کو لے جاتا ہے دن کو لاتا ہے اور دن کو لے جاتا ہے اور رات کو لے آتا ہے۔ ان مور مذکورہ میں نشانیاں اور دلائل ہیں تاکہ ان میں غور کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًا) اللہ تعالیٰ نے زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس پر پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ دیے ہیں اور پانی کی فراہمی کے لیے دریا اور ندیاں بہا دی ہیں۔ (وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ) جوڑے بنانے کے اس قانون کو اللہ تعالیٰ نے سورة الذاریات آیت ٤٩ میں اس طرح بیان فرمایا ہے : (وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ ) ” اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے “ گویا یہ زوجین (نر اور مادہ) کی تخلیق اور ان کا قاعدہ و قانون اللہ تعالیٰ نے اس عالم خلق کے اندر ایک باقاعدہ نظام کے طور پر رکھا ہے۔ یہاں پر پھلوں کے حوالے سے اشارہ ہے کہ نباتات میں بھی نر اور مادہ کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ کہیں نر اور مادہ پھول الگ الگ ہوتے ہیں اور کہیں ایک ہی پھول کے اندر ایک حصہ نر اور ایک حصہ مادہ ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. After citing some heavenly signs in support of the doctrines of Tauhid and the Hereafter, a few signs are being cited from the earth for the same purpose. Briefly the following are the arguments for Tauhid, Resurrection and Accountability. (1) Tauhid: The fact that the earth is closely connected with the heavenly bodies (which help create life on it), and the fact that the mountains and the rivers are so interrelated with that life are clear proofs that all these things have not been created by separate and different gods nor are being governed, by gods with independent powers and authorities. Had it been so, there could not have been so much harmony, congruity, accord and unity of purpose among them; nor could these relationships have continued for such a long time. For it is quite obvious that if there had not been One All-Powerful and All-Wise Allah, it could not have been possible and practicable for different gods to sit together and evolve out such a harmonious system of the universe without any discord or conflict between its myriads of bodies. (2) Resurrection: This wonderful planet, the earth, is itself a great proof that its Creator is All-Powerful and can, therefore, raise the dead whenever He will. For it is floating in space round the sun and it has high mountains fixed in it and has large rivers flowing on its surface: it produces countless fruit-bearing trees and it brings about the cycles of the day and the night with precise regularity. All these things bear witness to the boundless power of its Creator. It would, therefore, be sheer folly to doubt that such All-Powerful Creator is incapable of raising mankind to life after death. (3) Accountability: The earth, with all its wonderful and purposeful signs, is a clear evidence of the fact that its Creator is All-Wise. Therefore it cannot even be imagined that He has created man, His noblest creation, without any purpose. Just as His wisdom is apparent from the structure of the earth, its mountains, its rivers, the pairs of its trees and fruits, its night and day, so it is quite obvious that it has not been made the habitation of man without any purpose, nor will it be brought to naught without the fulfillment of that purpose. Clearly mankind shall be accountable to its Creator for the fulfillment of that divine purpose.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :8 اجرام فلکی کے بعد عالم ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے انہی دونوں حقیقتوں ( توحید اور آخرت ) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالم سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا ۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے: ( ۱ ) اجرام فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق ، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق ، زمین کی بے شمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق ، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں ۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے ۔ ( ۲ ) زمین کے اس عظیم الشان کرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا ، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا ابھر آنا ، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا ، اس کی گود میں طرح طرح کے بے حد و حساب درختوں کا پھلنا ، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا ، یہ سب چیزیں اس خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ ایسے قادر مطلق کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا ، عقل ودانش کی نہیں ، حماقت و بلادت کی دلیل ہے ۔ ( ۳ ) زمین کی ساخت میں ، اس پر پہاڑوں کی پیدائش میں ، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں ، پھلوں کی ہر قسم دو دو طرح کے پھل پیدا کرنے میں ، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدانے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے ۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بے ارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا ۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کام کرتی نظر آتی ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کر کے اور اسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: نباتات میں نر اور مادہ کے جوڑے ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ حقیقت لوگوں کو معلوم نہیں تھی کہ نر اور مادہ کا یہ نظام ہر درخت اور ہر پودے میں ہوتا ہے، لیکن جدید سائنس کو یہ حقیقت اب دریافت ہوگئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣۔ ٤۔ اس سے اوپر کی آیت میں اللہ جل شانہ نے آسمان کا حال بیان فرمایا تھا اس آیت میں زمین میں اپنی قدرت کا حال بیان فرمایا کہ اللہ نے زمین کو پھیلا دیا۔ لمبائی اور چوڑائی میں پہاڑوں کے بوجھ رکھ دئیے اور اس میں جا بجا نہریں اور ندیاں دریا سمندر جاری کئے تاکہ زمین کی پیداوار کو مناسب موقع پر پانی پہنچتا رہے۔ اور ہر طرح کے پھل میوے الگ الگ رنگ کے علیحدہ ذائقہ کے پیدا ہوں جس میں کوئی سرخ ہے تو کوئی زرد کوئی سیاہ کسی کا مزہ پھیکا ہے کسی کا میٹھا کسی کا کڑوا کسی کا کسیلا پھر رات تمام ہوئی اور دن آن موجود ہوا یہ سب خدا کی ایسی قدرت ہے کہ جو اس میں غور اور فکر کرتا ہے اسے خدا کی ہستی کا یقین ہوجاتا ہے پھر فرمایا کہ زمین کو دیکھو ایک ٹکڑا ایک سے ملا ہوا ہے اس پر بھی کوئی ٹکڑا زمین کا شور ہوتا ہے اور کوئی پاکیزہ ہوتا ہے کہیں طرح طرح کے باغ ہوتے ہیں جس میں انگور کھجوروں کے مختلف قسم کے درخت ہوتے ہیں بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جس کی جڑ آپس میں ملی ہوتی ہے۔ اور بعض درخت علیحدہ علیحدہ ہیں کسی زمین میں کھیتی کی جاتی ہے جہاں طرح طرح کے اناج پیدا ہوتے ہیں۔ جس پر انسان کی زندگی کا دارو مدار ہے ان درختوں اور کھیتوں کو ایک پانی سے سر سبز و شاداب کیا جاتا ہے اور یہ ایک ہی زمین میں ہوتے ہیں پھر بھی قسم قسم کے طرح طرح کے پھل پھول میوے ترکاریاں اور اناج ہی کھانے میں ایک کا مزہ ایک سے بڑھ کر ہوتا ہے سب کا ذائقہ جدا جدا ہے کوئی کسی کے مزہ کو نہیں پہنچتا یہ سب اس کی ادنیٰ قدرت ہے اس لئے فرمایا کہ عقل مند آدمی کے واسطے خدا کے پہچاننے کے لئے یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طرح اب مینہ برسنے سے ہر طرح کی پیداوار تیار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس سے سب مرے ہوئے آدمیوں کے جسم تیار ہوجاویں گے پھر ان جسموں میں روحیں پھونک دی جا ویں گی۔ ١ ؎ قرآن شریف میں جگہ جگہ کھیتی کے ذکر کے بعد حشر کا تذکرہ جو آیا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منکرین حشر کے نزدیک حشر ایک دشوار چیز ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو حشر اور ہر سال کی کھیتی کی پیداوار دونوں یکساں ہیں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨١ باب النفخ فی الصور۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:3) مـد ۔ ماضی واحد مذکر غائب (نصر) پھیلایا۔ المد کے اصل معنی لمبائی میں کھینچنے اور بڑھانے کے ہیں۔ اسی لئے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں۔ مد الارض۔ اس نے زمین کو بچھایا۔ (زمین اگرچہ گول ہے لیکن یہ کر ّہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس کو اس کی اصلی شکل میں مکمل طور پر دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اور ہماری محدود وسعت نظر کے لحاظ سے ہمیں یہ چپٹی نظر آتی ہے۔ رازی) ۔ رواسی۔ مادہ۔ رسو۔ رسی۔ رسا الشیٔ۔ (نصر) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں۔ قرآن حکیم میں ہے وقدور رسیت (34:13) اور بڑی بڑی بھاری دیگیں جو ایک جگہ پر جمی رہیں۔ رواسی بمعنی پہاڑ بھی بوجہ ان کے اثبات اور استواری کے مستعمل ہے اس کی واحد راسیۃ ہے۔ یغشی الیل النھار۔ یغشی (افعال) فعل متعدی بدو مفعول ۔ اغشاء مصدر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے۔ (نیز ملاحظہ ہو : 12:107)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ اوپر عالم علوی کا تذکرہ فرمایا۔ اب یہاں عالم سفلی میں اپنی قدرت و حکمت کے دلائل بیان فرمائے (ابن کثیر) ۔ دریائوں کے بننے اور بہنے کا سبب پہاڑ ہی ہیں اس لئے دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمادیا۔ (روح) ۔ 7 ۔ جیسا کہ نباتات سے متعلق جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ہر قسم کے درختوں میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ یوں جوڑ بااعتبار کم و کیف اور طعم و لون بھی مراد ہوسکتا ہے مثلا گرم و سرد، چھوٹا و بڑا سیاہ وسفید کٹھا و میٹھا وغیرہ ذالک۔ (روح) ۔ 8 ۔ یعنی ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ زمان و مکان پر ہر قسم کا تصرف اللہ تعالیٰ کے قبضۃ قدرت میں ہے۔ 9 ۔ موضح میں ہے۔ رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا۔ اگر ہر چیز خاصیت سیہوتی تو ایک سی ہوتی۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں قرآن میں جہاں عالم فسلی کے دلائل ذکر فرمائے ہیں۔ اس کے آخر میں ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون۔ یا اس کے ہم معنی جملہ لایا گیا ہے جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غور و فکر سے نتیجہ نکل سکتا ہے کہ یہ ا اختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں ہے۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ مثلا کھٹے میٹھے یاچھوٹے اور بڑے کوئی کسی رنگ کے اور کوئی کسی رنگ کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے “ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پر ہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کا رداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً ٠٣٥، ٦ کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر ٣٥ کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔ )[ النباء : ٦۔ ٧] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ “ یہاں عربی لفظ ” اوتاد “ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ Earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو ١٢ سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو : Earth از : پریس اور سلور ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : (وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ )[ الانبیاء : ٣١] ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ “ اسی طرح کے ارشادات سورة لقمان، آیت : ١٠ اور سورة النحل اور آیت ١٥ میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں “ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً ١٠٠ کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے ٥ کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی ٣٥ کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی ٨٠ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بیشمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں۔ جو صاف شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ تمام دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں بیشمار قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بیشمار قسم کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ) (اور زمین میں ہر طرح کے پھلوں میں سے دو دو قسم کے پھل پیدا فرمائے) مثلاً بعض کھٹے ہیں ‘ بعض میٹھے بعض چھوٹے ہیں اور بعض بڑے کسی کا رنگ مثلاً پیلا ہے اور کسی کا رنگ ہرا ہے ‘ قال صاحب الروح ص ١٠ ج ١٣ جعل من کل نوع من انواع الثمرات الموجودۃ فی الدنیا ضربین وصنفین اما فی اللون کالابیض والاسود اوفی الطعم کالحلو والحامض او فی القدر کالصغیر والکبیراو فی الکیفیۃ کالحارو البارد فما اشبہ ذالک ‘ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : دنیا میں موجود تمام پھلوں کی دو دو قسمیں بنائیں یا تو رنگ کے اعتبار سے جیسا کہ سفید اور سیاہ یا ذائقہ کے لحاظ سے جیسے میٹھا اور کھٹایا مقدار کے لحاظ سے جیسے چھوٹا اور بڑایا کیفیت کے اعتبار سے جیسے ٹھنڈا اور گرم اور اسی طرح دیگر صورتیں چونکہ رنگ اور مزے دو سے زیادہ بھی ہوتے ہیں اس لئے بعض مفسرین نے فرمایا کہ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ میں تعداد انواع بیان فرمانا مقصود ہے، تعدد کا سب سے پہلا مرتبہ دو ہے اس لیے زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ فرما دیا لہٰذا یہ اس کے معارض نہیں کہ کسی پھل کے انواع کثیرہ ہوں ‘ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَ (اللہ تعالیٰ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے) یعنی دن کی روشنی کے بعد رات کو لے آتا ہے جس سے دن کی روشنی ختم ہوجاتی ہے ‘ جس طرح کسی روشن چیز کو کسی پردہ سے ڈھانپ دیا جائے اسی طرح رات ڈھانپ لیتی ہے۔ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو فکر کرتے ہیں) یہ جو کچھ باتیں بیان کی گئیں ان میں فکر کرنے والے فکر کریں اور یہ سوچیں کہ مذکورہ بالا چیزوں کی تخلیق اور ان کی ایجاد اور ان کا بقاء اور ان کی تسخیر اور ترتیب بغیر کسی متصرف کے نہیں ہے ‘ ان کا پیدا کرنے والا بھی ہے اور ان کو باقی رکھنے والا بھی ہے اور ان کو مسخر کرنے والا بھی ہے غور کریں گے تو خالق اور مالک کی الوہیت اور وحدانیت سمجھ میں آجائے گی۔ (وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرَاتٌ) (الایۃ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کی پیداوار کا تذکرہ فرمایا اس پیداوار میں جو عجائب قدرت ہیں ان کو بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا کہ زمین میں بہت سے قطعے ہیں۔ جو آپس میں ملتے ہیں ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے متصل ہے ان میں انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں بعض درخت ایسے ہیں کہ اوپر جا کر ایک تنے دو تنے ہوجاتے ہیں اور عام درختوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور بعض درخت ایسے ہیں جن کا آخر تک ایک ہی تنا رہتا ہے جیسا کہ کھجور کے درخت میں مشاہدہ کیا جاتا ہے ‘ ان باغوں اور کھیتیوں کو ایک ہی طرح کا پانی پلایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود مزوں میں مختلف ہوتے ہیں ‘ بعض پھلوں کو بعض دوسرے پھلوں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے ایک ہی زمین ہے ایک ہی جنس کے پھل ہیں لیکن مزہ میں مختلف ہوتے ہیں اور یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ کھاری زمین اچھی زمین سے متصل ہے اور دونوں میں درخت ہیں لیکن کھاری زمین کا اثر میٹھی جنس کے پھلوں میں نہیں آتا بلکہ خود کھاری زمین کے پھل بھی میٹھے ہوتے ہیں ‘ پھلوں کی میٹھی جنس کا مزاج زمین کے کھاری پن پر غالب آجاتا ہے ‘ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں سمجھداروں کے لیے نشانیاں ہیں) عقل والے غور کریں گے تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے خالق ومالک کو پہچان سکتے ہیں جو ان چیزوں میں اپنی سمجھ کو خرچ نہیں کرتے وہ اہل عقل ہی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ یہ بھی پہلی دلیل ہی کا حصہ ہے اور اس میں عالم سفلی کا ذکر ہے مبتدا کے ساتھ خبر کی تعریف مفید حصر ہے۔ کلام کے بعض اجزا میں حصر ہو تو باقی اجزا بھی حصر پر محمول ہوتے ہیں۔ ” زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ “ اثنین، زوجین سے بدل ہے۔ پھلوں میں زوجین سے ذائقہ، رنگ اور حج کے اعتبار سے اس کی مختل اقسام و اصناف مراد ہیں۔ مثلاً سفید و سیادہ، کھٹا میٹھا، چھوٹا بڑا اور سرد و گرم وغیرہ۔ ” ای جعل من کل نوع من الانواع اثمرات الموجودۃ فی الدنیا ضر بین و صنفین اما فی اللون کالابیض والاسود او فی الطعم کالحلو والحامض او فی القدر کالصغیر و الکبیر او فی الکیفیۃ کالحار والبارد وما اشبہ ذلک (روح ج 13 ص 100) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 ۔ وہ قادر مطلق ایسا ہے جس نے زمین کو بنایا اور اس زمین پر پہاڑ اور ندیاں پیدا کیں اور اس زمین میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پھل پیدا کئے وہ رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے بلا شبہ ان چیزوں میں ان لوگوں کے لئے دلائل توحید موجود ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔ قسم قسم کی چیزیں پیدا کیں کٹھا ، میٹھا ، چھوٹا ، بڑا ، گرم ، سرد ، نر ، مادہ ، غرض ہر پھل کا جواب موجود ہے۔ رات کو دن پر ڈھانکنا یعنی دن کی روشنی پر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر میوے کے جوڑے یعنی ایک قسم کا مل ایک قسم نا قص اور رات دن ایک اندھیرا ایک اجالا رنگا رنگ چیزیں بنائی نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا اگر ہر چیز خاصیت سے ہوتی تو ایک سی ہوتی ۔ 12