Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 36

سورة الرعد

وَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مِنَ الۡاَحۡزَابِ مَنۡ یُّنۡکِرُ بَعۡضَہٗ ؕ قُلۡ اِنَّمَاۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ اللّٰہَ وَ لَاۤ اُشۡرِکَ بِہٖ ؕ اِلَیۡہِ اَدۡعُوۡا وَ اِلَیۡہِ مَاٰبِ ﴿۳۶﴾

And [the believers among] those to whom We have given the [previous] Scripture rejoice at what has been revealed to you, [O Muhammad], but among the [opposing] factions are those who deny part of it. Say, "I have only been commanded to worship Allah and not associate [anything] with Him. To Him I invite, and to Him is my return."

جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو جو کچھ آپ پر اتارا جاتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں اور دوسرے فرقے اس کی بعض باتوں کے منکر ہیں ۔ آپ اعلان کر دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں ، میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں اور اسی کی جانب میرا لوٹنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Truthful Ones from among the People of the Scriptures rejoice at what Allah has revealed to Muhammad Allah said, وَالَّذِينَ اتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ ... Those to whom We have given the Book, and they adhere by it, ... يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ... rejoice at what has been revealed unto you, i.e. the Qur'an, because they have evidence in their Books affirming the truth of the Qur'an and conveying the good news of its imminent revelation, just as Allah said in another Ayah, الَّذِينَ اتَيْنَـهُمُ الْكِتَـبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَوَتِهِ Those to whom We gave the Book recite it as it should be recited. (2:121) Allah said, قُلْ امِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُوْمِنُواْ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلَذْقَانِ سُجَّدًا وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً Say: "Believe in it or do not believe (in it). Verily, those who were given knowledge before it, when it is recited to them, fall down on their chins (faces) in humble prostration." And they say: "Glory be to our Lord! Truly, the promise of our Lord must be fulfilled." (17:107-108) meaning, Allah's promise to us in our Books to send Muhammad is true. It is certain and will surely come to pass and be fulfilled, so all praise to our Lord, how truthful is His promise, all the thanks are due to Him, وَيَخِرُّونَ لِلٌّذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا And they fall down on their faces weeping and it increases their humility. (17:109) Allah said next, ... وَمِنَ الاَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ... but there are among the Ahzab (Confederates) those who reject a part thereof. meaning, `There are those among the sects who disbelieve in some of what was revealed to you (O Muhammad).' Mujahid said that, وَمِنَ الاَحْزَابِ (but there are among the Ahzab (Confederates), refers to Jews and Christians, مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ (those who reject a part thereof), meaning, `They reject a part of the truth that came down to you - O Muhammad.' Similar was reported from Qatadah and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. Allah said in similar Ayat, وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ لَمَن يُوْمِنُ بِاللَّهِ And there are, certainly, among the People of the Scripture, those who believe in Allah. (3:199) Allah said next, ... قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّهَ وَلا أُشْرِكَ بِهِ ... Say: "I am commanded only to worship Allah and not to join partners with Him..." meaning, `I (Muhammad) was sent with the religion of worshipping Allah alone without partners, just as the Messengers before me, ... إِلَيْهِ أَدْعُو ... To Him (alone) I call, I call the people to His path, ... وَإِلَيْهِ مَأبِ and to Him is my return. final destination and destiny.' Allah said,

شاداں و فرحاں لوگ جو لوگ اس سے پہلے کتاب دئیے گئے ہیں اور وہ اس کے عامل ہیں وہ تو تجھ پر اس قرآن کے اترنے سے شاداں و فرحاں ہو رہے ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں اس کی بشارت اور اس کی صداقت موجود ہے ۔ جیسے آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ:121 ) میں ہے کہ اگلی کتابوں کو اچھی طور سے پڑھنے اس آخری کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی خبر ہے اور وہ اس وعدے کو پوار دیکھ کر خوشی سے مان لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے وعدے غلط نکلیں اس کے فرمان صحیح ثابت نہ ہوں پس وہ شادماں ہوتے ہوئے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ ہاں ان جماعتوں میں ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے ، غرض بعض اہل کتاب مسلمان ہیں بعض نہیں ، تو اے نبی اعلان کر دے کہ مجھے صرف اللہ واحد کی عبادت کا حکم ملا ہوا ہے کہ دوسرے کی شرکت کے بغیر صرف اسی کی عبادت اس کی ہی توحید کے ساتھ کروں یہی حکم مجھ سے پہلے کے تمام نبیوں اور رسولوں کو ملا تھا ، اسی راہ کی طرف اسی الہٰی عبادت کی طرف میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں ۔ اسی اللہ کی طرف سب کو بلاتا ہوں اور اسی اللہ کی طرف میرا لوٹنا ہے ۔ جس طرح ہم نے تم سے پہلے نبی بھیجے ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اسی طرح یہ قرآن جو محکم اور مضبوط ہے عربی زبان میں جو تیری اور تیری قوم کی زبان ہے اس قرآن کو ہم نے تجھ پر نازل فرمایا ۔ یہ بھی تجھ پر خاص احسان ہے کہ اس واضح اظہار مفصل اور محکم کتاب کے ساتھ تجھے ہم نے نوازا کہ نہ اس کے آگے سے باطل آ سکے نہ اس کے پیچھے سے آ کر اس میں مل سکے یہ حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس الہامی علم آسمانی وحی آ چکی ہے اب بھی اگر تو نے ان کی خواہش کی ماتحتی کی تو یاد رکھ کہ اللہ کے عذابوں سے تجھے کوئی بھی نہ بچا سکے گا ۔ نہ کوئی تیری حمایت پر کھڑا ہوگا ۔ سنت نبویہ اور طریقہ محمدیہ کے علم کے بعد جو گمراہی والوں کے راستوں کو اختیار کریں ان علماء کے لئے اس آیت میں زبردست وعید ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اس سے مراد مسلمان ہیں اور مطلب ہے جو قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ 36۔ 2 یعنی قرآن کے صدق کے دلائل و شواہد دیکھ کر مذید خوش ہوتے ہیں۔ 36۔ 3 اس سے مراد یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین ہیں۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے، ان میں سے جو مسلمان ہوئے، وہ خوش ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے وہ یہود و انصاریٰ ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] یعنی یہود و نصاریٰ اس کتاب یعنی قرآن سے اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ یہ ان کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کے انبیاء کی تعظیم و تکریم سکھلاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو سارے اہل کتاب قرآن سے خوش ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ منصف مزاج ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور جن باتوں سے وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ وہی باتیں ہیں جن میں انہوں نے تحریف کر ڈالی تھی۔ کتاب کے کچھ احکام چھپا جاتے تھے اور کچھ باتیں انہوں نے خود ہی تصنیف کرکے اللہ سے منسوب کردی تھیں۔ قرآن نے ایسی تمام باتوں سے پردہ اٹھا دیا اور جو حقیقت تھی اسے واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے قرآن کے بعض حصوں کا انکار کیا پھر بعد میں پورے قرآن ہی سے انکار کردیا۔ [ ٤٧] اہل کتاب کی تحریف لفظی و معنوی اور شرک کی راہ کھولنا :۔ اہل کتاب نے جن باتوں میں تحریف کی تھی، خواہ یہ تحریف لفظی تھی یا معنوی تھی، ان میں سے سب سے بری بات یہ تھی کہ انہوں نے شرک کی راہیں اختیار کرلی تھیں۔ یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔ نیز اللہ کی بہت سی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے لیا تھا اور نصاریٰ نے پہلے تو خدائی کے تین حصے کئے اور کہا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ بعد میں سیدہ مریم کو الوہیت کا درجہ دے ڈالا اور یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں تحریف لفظی یا معنوی کا نتیجہ تھا۔ پھر وہ اپنے ان اعتقادات کی صحت پر مصر بھی تھے اور نجران کے عیسائی تو آپ سے مباحثہ کرنے کے لیے مدینہ بھی آئے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کو جواب دیتے ہوئے اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان سے صاف طور پر کہہ دیجئے کہ میں تمہاری اس قسم کی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ میں اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ اسی بات کی تم سب کو دعوت دیتا ہوں اور تمہارے انبیاء نے خود بھی اسی بات کی طرف دعوت دی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ ۔۔ : ” الْكِتٰبَ “ سے مراد یا تو پہلی کتابیں ہیں، یعنی تورات و انجیل، مطلب یہ ہوگا کہ پہلی کتب میں چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے کے بہت سے شواہد اور بشارتیں موجود ہیں، اس لیے جن لوگوں کو وہ کتابیں دی گئی ہیں وہ آپ کی طرف اترنے والی آیات پر خوش ہوتے ہیں۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٤٧) اور آل عمران (١١٣) کیونکہ وہ آپ کو پہچان کر ایمان لا چکے ہیں، ہاں ان کے کئی گروہ قرآن کی بعض چیزوں کا انکار کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کی ان باتوں کا رد کرتا ہے جو انھوں نے اپنے پاس سے داخل کرلی تھیں، یا ان میں تبدیلی اور تحریف کردی تھی، مثلاً یہود کا عزیر (علیہ السلام) اور نصاریٰ کا مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دینا اور وہ باتیں ظاہر کرنا ہے جو وہ چھپاتے تھے، مثلاً رجم کی حد، سود کی حرمت، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات وغیرہ، لہٰذا وہ پہچاننے کے باوجود عناد کی وجہ سے ان باتوں کا انکار کرتے اور اپنے کفر پر اڑے ہوئے تھے۔ دیکھیے سورة توبہ (٣٠، ٣١) یا پھر ” الْكِتٰبَ “ سے مراد قرآن مجید ہے اور ” جن لوگوں کو یہ کتاب دی “ سے مراد مسلمان ہیں کہ وہ آپ پر اترنے والی آیات پر دل سے خوش ہوتے ہیں اور ” الْاَحْزَابِ “ سے مراد عرب کے وہ جاہل اور ضدی لوگ ہیں جنھوں نے قرآن کی بعض باتیں اپنی مرضی کے خلاف ہونے کی وجہ سے نہ مانیں اور مسلمان نہ ہوئے۔ یہ لوگ خوش ہونے کے بجائے ناراض اور سیخ پا ہوتے ہیں۔ قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ ۔۔ : تو جو شخص نہیں مانتا وہ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت سے انکار کرتا ہے۔ وَاِلَيْهِ مَاٰبِ : ” مَاٰبِ “ یہ ” اٰبَ یَؤُوْبُ “ (ن، اجوف واوی) سے مصدر میمی ہے، اصل ” مَاٰبِیْ “ تھا، یعنی میرا لوٹنا، ” یاء “ حذف کر کے کسرہ اس پر دلالت کے لیے باقی رکھا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ يُّنْكِرُ بَعْضَهٗ ۭ قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36؀ فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم خوش کرتے تھے حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) یعنی جن لوگوں کو ہم نے توریت کا علم عطا کیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور انکے ساتھی تو وہ رحمان (اللہ تعالیٰ ) کے اس ذکر سے جو آپ پر نازل کیا گیا خوش ہوتے ہیں۔ اور ان یہود ہی میں بعض ایسے ہیں کہ سورة یوسف اور رحمن (اللہ تعالیٰ ) کے ذکرکے علاوہ بعض قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں یا یہ کہ کفار وغیرہ میں سے بعض گروہ قرآن کریم کے اس حصے کا انکار کرتے ہیں جس میں رحمن (اللہ تعالیٰ ) کا ذکر ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ مجھے اس بات کا حکم ہوا ہے کہ میں خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں اور مخلوق کو میں اللہ ہی کی طرف بلاتا ہوں اور آخرت میں مجھے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ ) یہ مدینہ کے اہل کتاب میں سے نیک سرشت لوگوں کا ذکر ہے۔ ان کو جب خبریں ملتی تھیں کہ مکہ میں آخری نبی کا ظہور ہوچکا ہے تو وہ ان خبروں سے خوش ہوتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55. This is in reply to a specific objection which was then raised by the disbelievers. They would say: If he has brought the same message that was brought by the Messengers before him (as he claims), why don’t the Jews and the Christians who are the followers of the former Prophets come forward and welcome it? The verse answers the objection and says that the true followers of the former Prophets really rejoice in the message of the Quran, but the false ones have been offended by it. Then it asks the Prophet (peace be upon him) not to worry at all about this, saying: O Prophet, you should not mind at all whether they are pleased or offended by it. Tell them plainly that this is the guidance I have received from my Lord and I will follow it at all costs.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :55 یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء علیہم السلام لائے تھے جیسا کہ ان کا دعوی ہے ، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاری ، جو پچھلے انبیاء علیہم السلام کے پیرو ہیں ، آگے بڑھ کر ان کا استقبال نہیں کرتے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اس پر خوش ہیں اور بعض ناراض ، مگر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض ، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہرحال اسی کی پیروی کروں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: اِس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف گروہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو قرآنِ کریم کی آیات سن کر خوش ہوتے ہیں کہ یہ وہی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس کی پیشینگوئی پچھلی آسمانی کتابوں میں کی گئی تھی،، چنانچہ اس گروہ کے بہت سے افراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے، عیسائیوں میں سے بھی، اور یہودیوں میں سے بھی۔ یہ حقیقت ذِکر فرماکر ایک طرف تو کفارِ مکہ کو شرم دِلائی گئی ہے کہ جن لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت موجود ہے، وہ تو اِیمان لارہے ہیں، اور جن لوگوں کے پاس نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی اور آسمانی ہدایت، وہ ایمان لانے سے کترارہے ہیں، اور دوسری طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ جہاں اسلام کے دُشمن موجود ہیں، وہاں بہت سے لوگ اس پیغامِ ہدایت کو قبول بھی کررہے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں دوسرا گر وہ کافروں کا ہے ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں بعض حصوں کا ذکر کرکے اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے، وہ بھی قرآنِ کریم کی ساری باتوں کا انکار نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کی بہت سی باتیں وہ ہیں جوتوارت یا اِنجیل میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً توحید، پچھلے انبیائے کرام پر ایمان اور اِن کے واقعات، آخرت کا عقیدہ وغیرہ۔ اِس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ یہ سوچتے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان باتوں کے معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے، اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کو یہ باتیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں۔ اس صورت میں آپ کی رسالت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ 34: اس آیت میں اسلام کے تین بنیادی عقائد توحید رسالت اور آخرت کا بیان فرمایا گیا ہے۔ پہلا فقرہ توحید کے اعلان پر مشتمل ہے، دوسرے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں‘‘۔ اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا اثبات کیا گیا ہے، اور آخری فقرہ یعنی: ’’اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے‘‘۔ آخرت کے عقیدے کو ظاہر کرتا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ تینوں عقائد پچھلی کتابوں میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر قرآنِ کریم کے انکار کا کیا جواز ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٣٧۔ اس آیت کی تفسیر میں سلف کے دو قول ہیں ایک تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو کتاب دی گئی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ کتاب قرآن ہے اور وہ لوگ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں یہ لوگ ان باتوں سے بہت خوش ہوتے ہیں جو حضرت پر اتاری گئی ہیں کہ خالص خدا کی عبادت کی جائے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے اور احزاب سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں جو قرآن کا پورا انکار نہیں کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں بعضی بعضی باتیں ایسی بھی ہیں جس کے یہود و نصاریٰ بھی قائل ہیں جیسے خدا کی ہستی اور اس کی قدرت اور انبیاء کے قصے جس کو یہ لوگ مانتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ بعض فرقے قرآن کی بعض باتوں کو نہیں مانتے انکار کرتے ہیں۔ قتادہ (رض) اسی قول کے قائل ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی وہ یہود و نصاریٰ میں وہ لوگ ہیں جو حضرت پر ایمان لا چکے ہیں وہ قرآن کے اترنے سے بہت خوش ہوئے کیوں کہ وہ تورات وانجیل میں قرآن کی پیشن گوئی پڑھ چکے تھے اور احزاب سے باقی اہل کتاب مراد ہیں جو حضرت پر ایمان نہیں لائے اس دوسرے قول میں کتاب کا مطلب تورات اور انجیل ہے بعض مفسروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ شروع شروع قرآن پاک میں رحمن کا لفظ بہت کم اترتا تھا پھر جب عبد اللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی جو ایمان لائے تھے وہ اپنے دل میں اس بات سے کسی قدر فکر مند ہوئے کہ قرآن میں رحمن کا ذکر کیوں کم ہے توریت میں تو اکثر جگہ ہے اس پر اللہ پاک نے قرآن مجید میں بھی اکثر جگہ رحمن کا لفظ بیان فرمایا تو یہ لوگ بہت خوش ہوئے اور یہ آیت خدا نے اتاری کہ جو لوگ اہل کتاب ہیں تم پر قرآن کے نازل ہونے سے بہت خوش ہوتے ہیں اور بعضے فرقے قرآن کی بعض باتوں کا بالکل انکار کرتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کے حدیبیہ کا صلح نامہ لکھنے کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم تو رحمن کو نہیں جانتے کیا شئے ہے رحمن تو مسیلمہ کذاب کا نام ہے پھر ان باتوں کے بیان کرنے کے بعد جس میں خدا کی پہچان بیان کی گئی ہے فرمایا کہ اے رسول تم لوگوں سے کہہ دو ہمیں تو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اس میں کسی کو شریک نہ کریں۔ کیونکہ جو نبی ہم سے پہلے آئے ان سب کا یہی دین و ایمان رہا ہے۔ اس واسطے ہم بھی لوگوں کو اسی خدائے واحد کی طرف بلاتے ہیں آخرت میں اسی کی طرف پھر کر ہمیں جانا ہے۔ پھر فرمایا کہ جس طرح پہلے رسولوں پر ہم نے کتابیں انہیں کی زبان میں اتاری ہیں اسی طرح یہ قرآن بھی اے رسول ہم تم پر عربی زبان میں اتارتے ہیں جو تمہاری اور تمہاری قوم کی زبان ہے تاکہ اس کے سمجھنے اور سمجھانے میں دقت نہ ہو اور یہ قرآن ایسی کتاب ہے جس میں شرع کے کل احکام بیان کر دئیے گئے ہیں اور اس شرع میں بعضے احکام پہلی کتابوں کے موافق نہیں ہیں اگر تم اس کی خواہش کرو گے کہ ہم ان کی شرع کی تابعداری کریں تو اچھا نہ ہوگا اللہ نے ساری باتیں تمہیں بتا دی ہیں اس کے بعد ان کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوگی جس سے کوئی بچانے والا اور مددگار نہیں ہے۔ بعض مفسروں نے { وللئن اتبعت اھوآءھم } کی تفسیر یہ بھی بیان کی ہے کہ مشرکین مکہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ترغیب دیتے تھے کہ تم اپنے بزرگوں کی قدیم ملت پر آجاؤ اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر تم ان کی خواہش کی پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوگی۔ ان آیتوں میں { بما انزل الیک } فرما کر قرآن شریف کا ذکر جدا فرما دیا گیا ہے کہ کتاب کا لفظ جو { بمآ انزل الیک } سے پہلے ہے اس کے معنے تورات اور انجیل کے لئے جاویں اس صورت میں حاصل مطلب پہلی آیت کا یہ ٹھہرے گا کہ یہود میں سے عبد اللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی اور نصاری میں سے مثلاً چالیس آدمی بخران کے جو قرآن کو وہی قرآن جانتے ہیں جس کی پیشن گوئی تورات اور انجیل میں انہوں نے پڑھی ہے وہ قرآن کی تمام آیتوں کے نازل ہونے سے اسی طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح مکہ والوں سے اہل اسلام قرآن کی نئی آیتوں کے نازل ہونے سے خوش ہیں اور باقی کے اہل کتاب نبی آخر الزمان کی اوصاف کی قرآن کی آیتوں کے اور خلاف مرضی آیتوں کے منکر ہیں۔ اس تفسیر کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق ان آیتوں کو مدنی کہنا پڑے گا کیونکہ عبد اللہ بن سلام اور بخرانی نصرانیوں کا اسلام ہجرت کے بعد ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد اور صحیح ابن حبان میں جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ عمر (رض) نے تورات کی بعض باتیں سن کر ان باتوں کے لکھنے کی اجازت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاہی تھی آپ حضرت عمر (رض) کی یہ بات سن کر خفا ہوئے اور یہ فرمایا کہ آج حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو وہ بھی اس آخری شریعت کی پیروی کرتے ١ ؎ اس حدیث کو آخری آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ کی مصلحت کے موافق ایک شریعت قرار دی ہے اور اس مصلحت کی پابندی یہاں تک ضروری ہے کہ اس آخری زمانہ میں پہلا کوئی نبی زندہ ہوتا تو اس آخری شریعت کی پیروی اس پر لازم ہوتی ہے اسی لئے آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر امت کے لوگوں کو سنایا ہے کہ جو کوئی اس آخری شریعت کو چھوڑ کر کسی اور طریقہ پر چلے گا تو اللہ تعالیٰ کی اس پر ایسی خفگی ہوگی جس سے اس کو کوئی بچا نہ سکے گا۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٧ ج ٢ ومجمع الزوائد ص ١٧٣۔ ١٧٤ ج اول لیکن بجائے ابن عباس کے ابن ثابت واللہ اعلم۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:36) الاحزاب۔ حزب کی جمع۔ گروہ۔ ٹولیاں۔ جماعتیں۔ الاحزاب۔ یعنی الجماعات الذین تحزبوا علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الکفار والیہود والنصاریٰ ۔ کفار ۔ اہل یہود۔ اور اہل نصاریٰ میں سے وہ گروہ جہوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف گروہ بندی کی ہوئی تھی۔ اور آپ کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ ومن الاحزاب من ینکر بعضہ۔ یعنی کفار اہل یہود واہل نصاریٰ میں سے مخالف جماعتوں کے بعض لوگ جو قرآن کے کچھ حصوں کے انکاری ہیں (جو حصے کہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں) ۔ ادعوا۔ مضارع واحد متکلم دعوۃ سے۔ میں پکارتا ہوں۔ میں پکاروں گا۔ میں دعوت دیتا ہوں۔ میں دعوت دوں گا۔ ماب۔ میرا لوٹنا۔ میری واپسی۔ ماب ظرف مکان۔ لوٹنے کی جگہ ۔ نیز ملاحظہ ہو۔ 13:29 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ کیونکہ اس کے متعلق ان کی کتابوں میں شواہد اور بشارتیں موجود ہیں۔ (روح) ۔ 7 ۔ یعنی اس سے ناراض اور سیخ پا ہوتے ہیں۔ ان سے مراد وہ باتیں ہیں جو قرآن نے ان کی خود ساخت شریعت اور اہوا و اغراض کے خلاف بیان کی ہیں۔ 8 ۔ تو جو شخص نہیں مانتا وہ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت سے انکار کرتا ہے۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی تورات و انجیل۔ 5۔ جیسے یہود میں عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اور نصاری میں نجاشی اور ان کے فرستادے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : موحدین کا صلہ، مشرکین اور کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اہل کتاب کو شرک کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ اہل کتاب دو گر وہ تھے ایک وہ جماعت جس نے حق پہنچایا اور اس پر ایمان لائے اور دین اسلام پر خوش ہوگئے۔ دوسرے وہ لوگ تھے جنھوں نے حق جاننے کے باوجود تعصب کی وجہ سے اس کا انکار کیا۔ اس طرح یہ لوگ کفرو شرک میں مبتلا ہوئے اور مبتلا رہیں گے۔ شرک کرنے والوں کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ کفار کا ہے جو ملائکہ، جنات، شمس و قمر، ستاروں، بتوں اور دیگر چیزوں کو مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں شریک سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی نبی کا پیروکار اور آسمانی کتاب کا حامل سمجھتے ہیں۔ لیکن انبیاء (علیہ السلام) اور اپنے بزرگوں کی روحوں اور مزارات کو اللہ کے قرب کا ذریعہ اور اس کے حضور وسیلہ اور واسطہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور عیسائیوں کی اکثریت نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم [ کو اللہ کی بیوی قرار دیا۔ آپ کو حکم ہے کہ اے رسول ! آپ فرمادیں کہ میں صرف اور صرف ایک اللہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسی کے حضور مجھے پیش ہونا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَال السَّلَامُ عَلَےْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِےْنَ وَاِنَّآ اِنْ شَآء اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ وَدِدْتُّ اَنَّا قَدْ رَاَےْنَا اِخْوَانَنَا قَالُوْا اَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ وَاِخْوَانُنَا الّذِےْنَ لَمْ ےَاتُوْابَعْدُ فَقَالُوْا کَےْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَّمْ ےَاْتِ بَعْدُ مِنْ اُمَّتِکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اَرَأَ ےْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلًا لَّہٗ خَےْلٌ غُرٌّ مُّحَجَّلَۃٌ بَےْنَ ظَہْرَیْ خَےْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ اَلَا ےَعْرِفُ خَےْلَہٗ قَالُوْا بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَاِنَّھُمْ ےَاتُوْنَغُرًّا مُّحَجَّلِےْنَ مِنَ الْوُضُوْٓءِ وَاَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ )[ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب اسْتِحْبَابِ إِطَالَۃِ الْغُرَّۃِ وَالتَّحْجِیْلِ فِی الْوُضُوْٓءِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن قبرستان میں تشریف لے گئے فرمایا السَّلَامُ عَلَےْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِےْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآء اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ اے ایمان والو ! تم پر سلام ہو ہم انشاء اللہ عنقریب تم سے ملنے والے ہیں۔ میری تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی زیارت کریں۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا تم میرے ساتھی ہو۔ میری مراد وہ بھائی ہیں جو ہمارے بعد آئیں گے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی امت کے بعد والے لوگوں کو کس طرح پہچانیں گے ؟ آپ نے استفسار فرمایا اگر کسی شخص کے گھوڑے کی پیشانی اور چاروں پاؤں سفید ہوں کیا وہ بالکل سیاہ رنگ گھوڑوں میں اسے پہچان نہیں سکتا ؟۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ فرمایا کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے اعضا وضو کی وجہ سے چمکتے ہوں گے میں حوض کوثر پر ان کا استقبال کروں گا۔ “ مسائل ١۔ کتاب اللہ کو تسلیم کرنے والے اس کے احکام سے خوش ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ ٤۔ ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے ہاں پلٹ کرجانا ہے۔ تفسیر بالقرآن سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے : ١۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٣۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے وارث ہیں اور وہ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم : ٤٠) ٤۔ اللہ کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اسی کے سامنے پیش کیے جاتے۔ (الزمر : ٤٤) ٥۔ وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے حضور تم نے پیش ہونا ہے (یونس : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْکِرُ بَعْضَہٗ ) (اور اہل کتاب کی بعض جماعتیں وہ ہیں جو قرآن کے بعض حصہ کے منکر ہو رہے ہیں) اس سے اہل کتاب کے معاندین مراد ہیں جو قرآن کریم کی ان چیزوں کو مان لیتے تھے جنہیں اپنے موافق سمجھتے تھے اور ان چیزوں کے منکر ہوجاتے تھے جو ان کے مزاج اور طبیعت کے خلاف ہوتی تھیں۔ (قُلْ اِنَّمَا اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ وَلَا اُشْرِکَ بِہٖ ) (آپ فرما دیجئے کہ مجھے تو صرف یہ حکم ہوا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کروں) یہ میرا دین ہے تم راضی ہو نہ ہو میں اللہ کی توحید پر اور اللہ کی عبادت پر قائم کروں (اِلَیْہِ اَدْعُوْا وَاِلَیْہِ مَاٰب) (میں اللہ ہی کی طرف بلاتا ہوں اور صرف اس کی طرف میرا لوٹنا ہے) وہی مجھے جزا دے گا جب اسی کی طرف جانا ہے اور وہی جزا دینے والا ہے تو میں تمہیں راضی رکھنے کی فکر کیوں کروں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ یہ مومنین اہل کتاب سے نقلی دلیل ہے۔ اہل کتاب کے علماء جو کتب سابقہ کے عالم ہیں وہ ہر اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی یہ بھی اس کی سچائی کی ایک دلیل ہے علماء اہل کتاب قرآن کی تصدیق اس لیے کرتے ہیں کہ اس تمام بیانات کتب سابقہ کے عین مطابق ہیں۔ مراد اہل کتاب کے وہ علماء ہیں جو اسلام قبول کرچکے تھے اور احزاب سے علماء اہل کتاب قرآن کی تصدیق اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے تمام بیانات کتب سابقہ کے عین مطابق ہیں۔ مراد اہل کتاب کے وہ علماء ہیں جو اسلام قبول کرچکے تھے اور احزاب سے مراد یہود و صاریٰ ہیں ان میں اسے اکثر لوگ نہیں مانتے۔ (روح) یا ” اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ “ سے صحابہ کرام مراد ہیں اور احزاب سے مشکرین مکہ اس سے صورت میں اَلْکِتَابَ سے قرا ان مراد ہوگا (قرطبی) 40:۔ یہ دوسری دلیل وحی ہے۔ یعنی مجھے اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے حکم دیتا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کروں، صرف اسی کو پکاروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں۔ اس لیے میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی توحید ہی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں اور آخر اسی کے پاس جانا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 ۔ اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب سے خوش ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور انہی میں کچھ فرقے ایسے بھی ہیں جو اس کتاب کی بعض باتوں کا انکار کرتے ہیں آپ ان سے فرما دیجئے مجھ کو تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائوں میں تم سب کو اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی ذات میرا مرجع ہے اور دنیا سے اسی کی طرف میری بازگشت ہے۔ اس آیت میں س لف کے دو قول ہیں ایک یہ کہ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے اور جن کو کتاب دی گئی اس سے مراد اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور احزاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصحاب تو نزول قرآن سے خوش ہوتے ہیں اور یہود و نصاریٰ اس قرآن کریم کی بعض باتیں نہیں مانتے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جن کو کتاب دی گئی وہ یہود و نصاریٰ میں کے وہ لوگ ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے ۔ جیسے عبد اللہ ابن سلام اور نجاشی وغیرہ یہ لوگ نزول قرآن سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس قرآن کو توریت و انجیل کی پیشین گوئیوں کے مطابق پاتے ہیں اور باقی یہود و نصاریٰ اس قرآن کی تمام باتوں نہیں مانتے بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ اسی انکار کا جواب ہے کہ اصول تو سب شرائع کے یکساں ہیں توحید رسالت مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ان کے انکار کی تو کوئی وجہ ہی نہیں مجھ کو بھی شرک سے الگ رہنے اور توحید کی دعوت دینے کا حکم ہوا ۔ میرا بھی آخری ٹھکانہ وہی ہے اور مرنے کے بعد اسی ٹھکانہ وہی ہے اور مرنے کے بعد اسی کے پاس جانا ہے اور اگر فروع میں اختلاف کرتے ہو تو اس کا جواب آگے فرمایا ۔