Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 37

سورة الرعد

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ حُکۡمًا عَرَبِیًّا ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا وَاقٍ ﴿٪۳۷﴾  11

And thus We have revealed it as an Arabic legislation. And if you should follow their inclinations after what has come to you of knowledge, you would not have against Allah any ally or any protector.

اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان اتارا ہے ۔ اگر آپ نے ان کی خواہشوں کی پیروی کر لی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو اللہ ( کے عذابوں ) سے آپ کو کوئی حمایتی ملے گا اور نہ بچانے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ... And thus have We sent it (the Qur'an) down to be a judgement of authority in Arabic. Allah says, `Just as We sent Messengers before you and revealed to them Divine Books from heaven, We sent down to you the Qur'an, a judgement of authority in Arabic, as an honor for you, and We preferred you among all people with this clear, plain and unequivocal Book that, لااَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلااَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ Falsehood cannot come to it from before it or behind it: (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise.' (41:42) Allah's statement, ... وَلَيِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم ... Were you to follow their (vain) desires, means, their opinions, ... بَعْدَ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ ... after the knowledge which has come to you, from Allah, all praise to Him, ... مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ وَاقٍ then you will not have any Wali (protector) or defender against Allah. This part of the Ayah warns people of knowledge against following the paths of misguidance after they had gained knowledge in (and abided by) the Prophetic Sunnah and the path of Muhammad, may Allah's best peace and blessings be on him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کردیا۔ 37۔ 2 اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انھیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔ 37۔ 3 اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کردی گئی۔ 37۔ 4 یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انھیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] قرآن سابقہ کتابوں کے لئے حَکَمَ ہے :۔ یعنی جس طرح ہم نے سابقہ انبیاء کی کتابوں کو ان کی قومی زبان میں نازل کیا تھا۔ اسی طرح محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے یہ قرآن ان کی قومی زبان یعنی عربی میں نازل کیا ہے اور اسے حکم بنا کر نازل کیا ہے۔ یعنی یہ سابقہ الہامی کتابوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بیان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں کہاں کہاں تحریف کی، کون سے احکام و آیات کو چھپاتے رہے اور اپنے دین میں از خود کون کون سے اضافے کرلیے۔ [٤٩] العلم سے کیا مراد ہے ؟:۔ اس آیت میں خطاب عام مسلمانوں کے لیے ہے۔ مگر بطور تاکید مزید آپ کو مخاطب کیا گیا ہے اور علم سے مراد علم وحی ہے یعنی منزل من اللہ احکام آجانے کے بعد نہ کسی کے قول کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ بات جان لینے کے بعد کہ && یہ بات واقعی منزل من اللہ && ہے کوئی ایسا کام کرے گا تو اس کو اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہ سکے گا۔ واضح رہے کہ کسی حدیث کی صحت معلوم ہوجانے کے بعد اتباع کے لحاظ سے کتاب اور سنت دونوں ایک ہی درجہ پر ہیں اور قرون اولیٰ میں علم حدیث کے لیے بھی العلم کا لفظ عام استعمال ہوتا رہا ہے اور جو لوگ تقلید شخصی کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے اس آیت میں عبرت ہے۔ کیونکہ کسی بھی امام کی فقہ پر العلم کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں تقلید شخصی ہی وہ قباحت ہے جو امت مسلمہ میں تفرقہ بازی کا ایک بڑا سبب بنی ہوئی ہے اور جب تک امت تقلیدشخصی کے وجوب کے دعویٰ سے دستبردار نہیں ہوگی اس میں اتحاد کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور تفرقہ بازی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ اپنے اختلاف میں صرف کتاب و سنت ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا : یعنی جس طرح پہلے انبیاء کی طرف کتابیں اتریں اسی طرح ہم نے آپ پر یہ قرآن اتارا اور جس طرح ہر نبی پر اس کی قوم کی زبان میں وحی اور کتاب نازل کی اسی طرح عربوں پر بھی انھی کی زبان میں کتاب اتاری، کسی دوسری زبان میں نہیں، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم تو یہ زبان جانتے ہی نہیں۔ ” اَنْزَلْنٰهُ “ (ہم نے اسے اتارا) سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور وحی الٰہی اوپر کی جانب سے آئی ہیں۔ اس سے ان لوگوں کا صاف رد ہوگیا جو اللہ تعالیٰ کے لیے اوپر کی جانب ہونے یا عرش پر ہونے کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ کبھی کہتے ہیں کہ وہ لامکان ہے، یعنی کہیں بھی نہیں اور کبھی کہتے ہیں وہ ہر جگہ ہے، حالانکہ قرآن نے کئی جگہ صراحت فرما دی ہے کہ وہ اوپر کی جانب ہے اور عرش پر ہے، فرمایا : (قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ) [ البقرۃ : ١٤٤ ] ” یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں۔ “ اور فرمایا : (ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ) [ الأعراف : ٥٤ ] ” پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ “ اور دیگر متعدد آیات۔ پھر آپ کے مخاطب اگرچہ قیامت تک کے تمام جن و انس ہیں، تاہم سب سے اول مخاطب عرب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے ان کا اور ان کی زبان کا انتخاب ان کی فطری خوبیوں اور ان کی زبان کی جامعیت، فصاحت و بلاغت، حسن ادا، آسان ہونے اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے فرمایا اور اسے اہل عرب پر احسان قرار دیا : (وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ ) [ الزخرف : ٤٤ ] ” اور بیشک وہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے نصیحت (یا شہرت کا باعث) ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔ “ پھر اس قرآن نے عربی زبان کو ایسا محفوظ کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود عربی زبان اصل صورت میں موجود ہے، جبکہ دوسری تمام زبانیں کچھ عرصہ بعد بدل جاتی ہیں، حتیٰ کہ پہلے لفظ بالکل ہی متروک ہوجاتے ہیں، جیسا کہ انگریزی وغیرہ کا حال ہے۔ خود عربی کو دیکھ لیجیے کہ قرآن کی وجہ سے فصیح عربی محفوظ ہے، مگر عام لوگوں کی عربی بھی مختلف علاقوں اور مختلف ادوار کے لحاظ سے اتنی مختلف ہے کہ ایک علاقے کا عرب دوسرے علاقے کی عامی زبان نہیں سمجھتا۔ البتہ اصل عربی کو قرآن نے صدیوں سے اصل صورت میں باندھ رکھا ہے، وہ دنیا بھر میں ایک ہی ہے۔ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَاۗءَهُمْ ۔۔ : یہ خطاب بظاہر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور اس کے غصے سے ڈرنے والا ہے اور اس میں وعید ہے ان علماء کے لیے جو جانتے بوجھتے سنت کی راہ چھوڑ کر بدعت و ضلالت اور قرآن و حدیث چھوڑ کر اقوال رجال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَاۗءَهُمْ بَعْدَمَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا وَاقٍ 37؀ۧ عَرَبيُّ : الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، العربی واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) اور اسی طرح ہم نے قرآن حکیم کو جبریل امین کے ذریعے اس طرح نازل کیا ہے کہ وہ پورا کا پورا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص حکم ہے، عربی زبان میں اور بالفرض اگر آپ انکے دین اور ان کے قبلہ کی پیروی کرنے لگیں جبکہ آپ کے پاس دین ابراہیمی اور قبلہ ابراہیمی کا کھلا بیان پہنچ چکا ہے تو عذاب الہی کے مقابلہ میں نہ آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار آپ کو فائدہ پہنچائے گا اور نہ کوئی اس عذاب کو آپ سے روکنے والا ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا) ” حکم “ بمعنی ” فیصلہ “ یعنی یہ قرآن عربی قول فیصل بن کر آیا ہے۔ جیسا کہ سورة الطارق میں فرمایا : (اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ہُوَ بالْہَزْلِ ) ” یہ کلام (حق کو باطل سے) جدا کرنے والا ہے اور کوئی بےہودہ بات نہیں ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: یہاں سے آیت 38 تک اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ قرآنِ کریم کے جن حصوں کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں، اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ لوگ قرآنِ کریم کے ان احکام پر اِعتراض کرتے تھے جو تورات اور اِنجیل کے احکام سے مختلف ہیں۔ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ بنیادی عقیدے تو تمام انبیائے کرام کی دعوت میں مشترک رہے ہیں لیکن فروعی اور جزوی احکام مختلف انبیائے کرام کی شریعتوں میں مختلف ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر ُامت کے حالات مختلف ہوتے ہیں، اُس کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت مختلف زمانوں میں احکام بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یعنی بہت سی چیزیں جو ایک نبی کی شریعت میں جائز تھیں، دوسرے نبی کی شریعت میں حلال کردی گئیں۔ اور بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوا ہے۔ تو جس طرح پچھلی اُمتوں میں احکام کی تبدیلی کا یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، اسی طرح یہ قرآن بھی ایک نیا حکم نامہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے، اور اُس کے عربی زبان میں ہونے سے اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ یہ ان حالات سے بالکل مختلف حالات میں نازل ہوا ہے جن میں پچھلی کتابیں نازل ہوئی تھیں، اس لئے اُسے عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو رہتی دُنیا تک باقی رہنے والی زبان ہے، اور اِس میں اس آخری دور کے حالات کی رعایت رکھی گئی ہے۔ 36: یعنی قرآنِ کریم کے جو احکام ان کافروں کو اپنی خواہشات کے خلاف نظر آرہے ہیں، ان میں آپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کی رعایت سے ان میں کوئی تبدیلی کرسکیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کا تصور بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے اَحکام میں کوئی تبدیلی فرمائیں، لیکن ایک اُصول کے طور پر یہ بات ارشاد فرما کر ساری دُنیا کے لوگوں کو متنبہ کردیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:37) انزلنہ۔ میں ہُ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع القران ہے۔ حکما۔ حکم کے طورپر۔ جس میں حلال و حرام ۔ نیکی وبدی ۔ ہدایت و گمراہی وغیرہ ہر قسم کے احکام موجود ہیں۔ وعربیا۔ واضح طورپر۔ عربی زبان میں۔ حکما اور عربیا دونوں بوجہ حال کے منصوب ہیں۔ اس کے معنی ” احکام کی کتاب عربی زبان میں “ یا ” واضح اور ظاہر احکام کی کتاب “ دونوں ہوسکتے ہیں۔ کذلک۔ یعنی جس طرح انبیائے سلف پر ان ہی کی زبان میں وحی الٰہی نازل کی گئی تھی اسی طرح قرآن حکیم بھی اہل مکہ کی اپنی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ یا جس طرح واضح احکام کی کتب الٰہیہ سابق انبیاء پر نازل ہوتی تھی اسی طرح یہ قرآن مجید بھی واضح احکام کا مجموعہ نازل کیا گیا ہے ۔ اھواء ہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ اھوائ۔ ھوی کی جمع۔ ان کی خواہشیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی جس طرح ہم نے پہلی کتابیں ہر امت پر اس کی اپنی زبان میں اتاریں، اسی طرح… 10 ۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو تمام جن و انس کے لئے ہے لیکن اس کے اولین مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی زبان عربی ہے۔ 11 ۔ یہ خطاب بظاہر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا طالب اور اس کے غصہ سے ڈرنے والا ہو اور اس میں وعید ہے ان علما کے لئے جو جانتے بوجھتے سنت کی راہ چھوڑ کر بدعت و ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ جب نبی کو ایسا خطاب کیا جارہا ہے تو اور لوگ انکار کرکے کہاں رہیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) کو آسمانی کتابیں عنایت کی گئیں۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید عطا ہوا جو عربی زبان میں ہے۔ آپ کو حکم تھا کہ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ کے حکم کی اتباع کرنا ہے۔ اس خطاب کا آغاز آیت نمبر ٣٠ سے ان الفاظ سے شروع ہوا ہے کہ آپ کی امت جیسی پہلے بھی امتیں گزری ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی امت کو پڑھ کر سنائیں۔ جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی حیثیت رکھتا ہے یہ ایسا حکم ہے جس میں اچھے کاموں کے کرنے کا حکم ہے اور برے کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اچھے کام کرنے والوں کے لیے خوشخبریاں ہیں اور برے کام کرنے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ جس طرح پہلی کتابیں جن لوگوں کے لیے نازل کی گئیں وہ انہی کی زبان میں تھیں۔ تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ جس قوم کی زبان میں کتاب نازل ہوتی ہے ان کا فرض دوسری اقوام سے نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اور جس شخصیت گرامی پر کتاب نازل ہوتی ہے اس شخصیت پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اے پیغمبر ! آپ پر ہم نے قرآن مجید نازل کیا جو سراسر علم و حکمت کا منبع ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ نے ہمارے حکم کو چھوڑ کر خوف یا کسی وجہ سے ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ کوئی آپ کا حمایتی ہوگا اور نہ ہی کوئی آپ کو بچانے والا ہوگا۔ آپ کو اور آپ کے حوالے سے آپ کی امت کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کا حکم ماننا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلاَثٍ لِأَنِّیْ عَرَبِیٌّ، وَالْقُرْاٰنَ عَرَبِیٌّ، وَکَلاَمَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ عَرَبِیٌّ )[ شعب الایمان للبیھقی ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں عربوں سے تین وجہ سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں عربی ہوں، قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور جنتیوں کی زبان بھی عربی ہوگی۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ ) [ رواہ فی شرح السنۃ وقال النووی فی أربعینہ : ہذا حدیث صحیح ] ” عبداللہ بن عمر و (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لایا ہوں۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کا کوئی مدگار نہیں ہوتا۔ ٣۔ دین کا علم حاصل ہوجانے کے بعد کسی کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کو کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی اللہ سے بچانے والا ہوگا۔ (الرعد : ٣٧) ٢۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں پکڑ لیاتو انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ (المومن : ٢١) ٤۔ اس دن تم پیٹھوں کے بل واپس پلٹوگے اللہ تعالیٰ سے تمہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٥۔ کہہ دیجیے کون ہے جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچائے گا اگر وہ تمہیں اس میں مبتلا کرنا چاہے۔ (الاحزاب : ١٧) ٦۔ ان کے چہروں کو ذلت و رسوائی نے ڈھانپ رکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے انھیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب بات وحی اور توحید ہی کے مسائل کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے اہل کتاب کا موقف کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کتب سابقہ کے اندر جو ہدایات دی گئی تھیں ، اب یہ آخری کتاب ان کے بارے میں حکم ہے۔ اس کا فرمان قول فیصل ہے اور یہ آخری اور فائنل حکم ہے۔ اس آخری کتاب میں اللہ نے وہ احکام دئیے ہیں جو ابدالاباد تک ثابت رہیں گے۔ ان میں وہ امور بھی ہیں جن کو سابقہ رسولوں پر نازل کیا گیا تھا۔ نیز اس کتاب کے ذریعے اللہ نے سابقہ کتب کی جن باتوں کو مٹانا مناسب سمجھا ان کو مٹا دیا۔ ان کی حکمت سے اللہ ہی خبر دار ہے۔ لہٰذا اے پیغمبر آپ اس موقف پر جم جائیں جو قرآن کا موقف ہے اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں خصوصاً اہل کتاب کی۔ نہ کسی چھوٹے معاملے میں اور نہ کسی بڑے معاملے میں۔ رہے وہ لوگ جو معجزات طلب کرتے ہیں تو انہیں صاف صاف کہہ دو کہ میری ڈیوٹی دعوت پہنچانا ہے۔ جب معجزات کی ضرورت ہو تو اللہ کے اذن سے ان کا ظہور و صدور ہوتا ہے۔ آیت نمبر ٣٦ تا ٤٠ اہل کتاب میں سے جو سچے لوگ ہیں جو دین عیسیٰ کی بنیادی تعلیمات پر کاربند ہیں ، وہ جب قرآن کو پڑھتے ہیں تو قرآن کی تعلیمات کو اپنی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔ مثلاً عقیدۂ توحید وغیرہ میں۔ نیز وہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید تمام ادیان سماوی اور تمام کتب سماوی کی حقانیت کا قائل ہے ، ان سب کا ذکر نہایت ہی احترام سے کرتا ہے اور یہ تصور دیتا ہے کہ تمام اہل ایمان خواہ نبی آخر الزمان کے مومن ہوں یا انبیائے سابقین کے مومن ہوں وہ ایک ہی جماعت اور ایک ہی امت ہیں اور ذات باری ان کا آمرہ ہے۔ ایسے لوگ بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں ۔ یہاں ایسے لوگوں کی کیفیت قلبی کو فرحت سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ جب کوئی شخص سچائی پاتا ہے تو اسے بہت ہی خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنے خیالات کی تصدیق جب قرآن میں پاتے ہیں تو ان کو عقیدہ اور بھی پختہ ہوجاتا ہے اور وہ قرآن پر ایمان لا کر اس تحریک کے حامی بن جاتے ہیں۔ ومن الاحزاب من ینکر بعضہ (١٣ : ٣٦) ” اور مختلف گروہوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے “۔ یعنی ان سے مراد اہل کتاب اور مشرکین کی بعض جماعتیں ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ کیونکہ مقصد صرف یہ ہے کہ یہاں منکرین کا ذکر کر کے ان کا رد کردیا جائے۔ قل انما امرت۔۔۔۔۔ ماب (١٣ : ٣٦) ” تم صاف کہہ دو کہ مجھے صاف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤں لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے “۔ یعنی بندگی بھی اسی کی ہے۔ دعوت بھی اللہ کی طرف ہے اور رجوع بھی صرف اللہ ہی کی طرف ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے مقابلے میں اپنا موقف واضح کردیں جو قرآنی تعلیمات میں سے بعض چیزوں کے منکر ہیں۔ یہ کہ وہ پوری کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں گے جو ان پر نازل ہوئی ہے چاہے اس پر اہل کتاب خوش ہوں یا ان میں سے کچھ لوگ ناراض ہوں کیونکہ جو کچھ ان پر نازل ہوا ہے وہ حکم اخیر ہے۔ سابقہ احکام منسوخ ہوگئے ہیں اور یہ کتاب عربی زبان میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم بھی واضح اور مکمل ہے کیونکہ اب یہ اللہ کا آخری پیغام ہے۔ اس لیے ہم نے اب اپنے تمام نظریات اس سے اخذ کرتے ہیں۔ وکذلک انزلنہ حکماً عربیاً (١٣ : ٣٧) ” اس طرح ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیا ہے “۔ ولئن اتبعت۔۔۔۔ واق (١٣ : ٣٧) ” اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے “۔ کیونکہ تمہارے پاس جو علم آرہا ہے وہ علم الیقین ہے ، اور دوسرے گروہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کی اپنی خواہشات ہیں ، علم و یقین پر مبنی نہیں ہیں۔ یہ حکم حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تہدید آمیز الفاظ میں دیا گیا ہے۔ یہ انداز اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لئے زیادہ بلیغ طریقہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس معاملے میں قصامح کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہاں تک کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کی اجازت نہیں حالانکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی کو یہ اعتراض ہے کہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام رسول بشر ہی گزرے ہیں۔ ولقد ارسلنا۔۔۔۔۔ وذریۃ (١٣ : ٣٨) ” تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا بنایا تھا “۔ اور اگر اعتراض یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی مادی معجزہ لے کر نہیں آئے۔ تو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے ، یہ تو اللہ کا کام ہے۔ وما کان ۔۔۔۔۔ باذن اللہ (١٣ : ٣٨) ” اور کسی رسول کی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا “۔ اللہ اپنی حکمت کے مطابق ، جہاں ضرورت ہو وہاں خارق عادت معجزات کا صدور کرا دیتا ہے۔ ہاں اہل کتاب کو دی ہوئی کتابوں اور نبی آخر الزمان کو دی ہوئی کتاب میں بعض جزئیات کے حوالے سے اختلاف ضرور ہے۔ اس لیے کہ ہر دور کی کتاب الگ ہوتی ہے۔ لیکن یہ آخری کتاب ہے۔ لکل اجل کتاب۔۔۔۔۔۔۔ ام الکتب (١٣ : ٣٨ – ٣٩) ” ہر دور کے لئے ایک کتاب ہے ، اللہ جو کچھ چاہتا ہے ، مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتب ہے “۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا ہو تو وہ جس حکم کو چاہتا ہے ، مٹا دیتا ہے اور جو مفید ہو اسے قائم رکھتا ہے۔ تمام باتوں کی اصل کتاب اور سکیم اس کے پاس محفوظ ہے۔ جس کے اندر اس حذف اور فسخ اور نئے احکام کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ لہٰذا ! سب کتب اسی کی ہیں ، وہی اس میں تصرف اور فسخ کرتا ہے جہاں اور جب اس کی حکمت متقاضی ہو۔ اس کی مشیت کو نہ کوئی رد کرسکتا ہے اور نہ کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جس عذاب کی دھمکی دی اور جس برے انجام سے انہوں نے دوچار ہونا ہے ، چاہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں وہ اس انجام سے دو چار ہوں یا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے قبل ہی فوت ہوجائیں ، اس سے ان لوگوں کے انجام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے رسول کی رسالت اور باری تعالیٰ کی الوہیت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وان ما نرینک۔۔۔۔۔ الحساب (١٣ : ٤٠) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں ، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے “۔ اس فیصلہ کن ہدایت میں ، تحریک اسلامی کی نوعیت اور تحریک کی لیڈر شپ کے لئے سامان بصیرت ہے ، لیڈر شپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ہر مرحلے میں مناسب پالیسی اختیار کرے اور اپنا فریضہ سر انجام دے۔ ان کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ وہ تحریک کو اس انجام تک پہنچائیں جہاں تک اسے اللہ پہنچانا چاہتا ہے۔ نیز ان کا یہ فریضہ بھی نہیں کہ وہ تحریکی اقدامات اور مراحل میں شتابی دکھائیں نہ ان کا یہ کام ہے کہ تحریک کی ناکامی کا اعلان کر کے مایوس ہوجائیں۔ جب لیڈر شپ دیکھے کہ اللہ کے فیصلے میں دیر ہو رہی ہے اور ان کو تمکن فی الارض نصیب نہیں ہو رہا ہے اور اقدار سے وہ ابھی دور ہیں تو پریشان نہ ہوں ، وہ تو صرف داعی ہیں ، محض داعی۔ اللہ کی قوت کے آثار تمہارے ماحول میں نظر آرہے ہیں۔ اللہ بڑی بڑی مضبوط اقوام کو پکڑتا ہے۔ وہ زوال کے گڑھے میں گرتی ہیں ، اس وقت جبکہ وہ زمین پر سرکشی اختیار کرتی ہیں اور فساد برپا کرتی ہیں۔ ایسی اقوام کی قوت میں کمی ہوتی ہے ، دولت میں کمی ہوتی ہے اور ان کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے۔ کسی وقت تو ان کی حکومت سے سورج غروب نہیں ہوتا لیکن بعد میں وہ سکڑ کر رہ جاتی ہیں اور جب اللہ کسی قوم کی شکست وخسارے کا فیصلہ کرتا ہے تو اللہ سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور اللہ کا فیصلہ نافذ ہوکر رہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ قرآن کریم حکم خاص ہے عربی زبان میں ہے : پھر فرمایا (وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا) (اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو اس طور پر نازل کیا ہے کہ وہ خاص حکم عربی زبان میں ہے) اہل کتاب جو فروعی مسائل میں احکام اسلامیہ کو ان مسائل کے خلاف پاتے تھے جو انہیں شرائع سابقہ سے یاد تھے اور ان کی وجہ سے احکام قرآنیہ کا انکار کرتے تھے اس میں ان لوگوں کی تردید ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے پہلے کتابیں نازل کیں اور ان میں از منہ سابقہ کے مخاطبین کے اعتبار سے احکام بھیجے پھر ان میں سے بہت سے احکام کو بعد میں آنے والی امتوں کے لیے منسوخ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے احکام نازل کر دئیے اسی طرح ہم نے یہ قرآن نازل کیا ہے جس میں قرآن کے مخاطبین کی رعایت کی گئی ہے اور ایسے احکام دئیے گئے ہیں جو ان کے احوال کے مناسب ہیں اگر قرآن میں ایسے احکام پاتے ہو جو سابقہ شرائع کے موافق نہیں اور ان کی وجہ سے قرآن کی تکذیب کرتے ہیں تو یہ عادۃ اللہ سے اور شرائع سابقہ کے اصول سے جاہل ہونے پر بلکہ تجاہل پر مبنی ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی نازل فرمودہ پہلی کتابوں میں شرائع کا اختلاف تھا اور وہ کتابیں مختلف زبانوں میں تھیں جس طرح ان کا فروعی اختلاف اور کئی زبانوں میں نازل ہونا ایک دوسرے کی تکذیب کا سبب نہ بنا تو اب قرآن جو عربی زبان میں نازل ہوگیا اور شرائع سابقہ کی بعض چیزیں اس نے منسوخ کردیں تو اس کو قرآن کی تکذیب کا ذریعہ کیوں بناتے ہو قرآن مجید کی تکذیب کرنا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا منکر ہونا سراپا ضلالت اور سفاہت ہے۔ قال صاحب الروح ج ١٣ ص ١٢٧ شروع فی رد انکارھم لفروع الشرائع الواردۃ ابتداء اوبدلا من الشرائع المنسوخۃ ببیان الحکمۃ فی ذلک وان الضمیر راحع لما انزل الیک والاشارۃ الی مصدر (انزلناہ) او (انزل الیک) ای مثل ذلک الانزال البدیع الجامع لاصول مجمع علیھا و فروع متشعبۃ الی موافقۃ و مخالفۃ حسبما یقتضیہ قضیۃ الحکمۃ انزلناہ حاکما یحکم فی القضایا والواقعات بالحق ویحکم بہ کذلک “ (الی ان قال) وقیل ان الاشارۃ الی انزال الکتاب السالفۃ علی الانبیاء علیھم السلام ‘ والمعنی کما انزلنا الکتب علی من قبل انزلنا ھذا الکتاب علیک لان قولہ تعالیٰ (والذین اتیناھم الکتاب) یتضمن انزالہ تعالیٰ ذالک وھذا الذی انزلنا بلسان العرب کما ان الکتب السابقۃ بلسان من انزلت علیہ (وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم) والی ھذا ذھب الامام ابو حیان۔ پھر فرمایا (وَ لَءِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآءَ ھُمْ بَعْدَ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا وَاقٍ ) (اور اگر آپ نے ان کی خواہشوں کا اتباع کیا تو کوئی ایسا نہیں جو اللہ کے مقابلہ میں آپ کی مدد کرنے والا اور بچانے والا ہو) اس میں بظاہر حضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور فی الواقع حضرات مومنین کو دین پر ثابت رہنے کی تلقین ہے اور بظاہر آپ کو یہ خطاب یہ بات واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ جب بالفرض آپ دشمنوں کی خواہشوں کا اتباع کرنے میں ماخوذ ہوسکتے ہیں تو آپ کے علاوہ دوسرے لوگ بطریق اولیٰ ماخوذ ہوں گے۔ قال صاحب الروح (ص ١٦٨ ج ١٣) وامثال ھذہ القوارع انماھی لقطع اطماع الکفرۃ وتھییج المومنین علی الثبات فی الدین لا للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فانہ (علیہ السلام) بمکان لا یحتاج فیہ الی باعث او مھیج ومن ھنا قیل ان الخطاب لغیرہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ کاف بیان کمال کے لیے ہے یہ ماقبل کے تمام دلائل سے متعلق ہے۔ یعنی مذکورہ دلائل وبراہین کے ساتھ ہم نے یوں قرٓان کو عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ ” وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاءَھُمْ “ یہ زجر ہے جو دلائل مذکورہ پر متفرع ہے یعنی جب آپ کے پاس عقل ونقل اور وحی کے دلائل کے ساتھ مسئلہ توحید کی سچائی کا علم الیقین آگیا اب بھی اگر آپ نے مشرکین کی طرف میلان کیا تو پھر ہمارے عذاب سے دنیا کی کوئی طاقت آپ کو نہیں بچا سکتی۔ خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور مقصود امت کی تعلیم ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ اگر بفرض محال آپ ان دلائل کے ہوتے ہوئے مشرکین کی بات مان لی تو آپ بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 ۔ اور جس طرح ہم نے مختلف رسولوں کی امتوں کو مختلف احکام دیئے اسی طرح ہم نے اس قرآن کریم کو اس طور پر نازل فرمایا کہ یہ ایک فرمان ہے عربی زبان میں اور اگر اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے باوجود اس کے کہ آپ کو صحیح علم پہنچ چکا اور آپ کے پاس صحیح علم آچکا آپ نے ان کافروں کی خواہشات کا اتباع کیا تو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ کوئی آپ کا حمایتی ہوگا اور نہ بچانے والا یعنی جس طرح پہلی امتوں کے مناسب حال ان کے رسولوں پر کتابیں اور صحیفے نازل ہوتے رہے اسی طرح قرآن بھی آخری امت کے مناسب حال اور اسکی ضرورتوں کے موافق یہ قرآن کریم ہم نے نازل کیا جو عربی زبان میں ایک فرمان اور حکم ہے پھر اس فرمان کی بعض باتوں سے انکار کرنا اور ان کا نہ ماننا کیا معقول ہوسکتا ہے۔ پھر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے بفرض محال کسی منسوخ حکم یا تحریف شدہ بات کی پیروی کی اور ان کی دل جوئی کا خیال کیا تو اللہ سے نہ تم کو کوئی بچانے والا ملے گا نہ تمہارا کوئی مدد گار ہوگا ۔