Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 4

سورة الرعد

وَ فِی الۡاَرۡضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّ زَرۡعٌ وَّ نَخِیۡلٌ صِنۡوَانٌ وَّ غَیۡرُ صِنۡوَانٍ یُّسۡقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ ۟ وَ نُفَضِّلُ بَعۡضَہَا عَلٰی بَعۡضٍ فِی الۡاُکُلِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾

And within the land are neighboring plots and gardens of grapevines and crops and palm trees, [growing] several from a root or otherwise, watered with one water; but We make some of them exceed others in [quality of] fruit. Indeed in that are signs for a people who reason.

اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں شاخ دار اور بعض ایسے ہیں جو بے شاخ ہیں سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں ۔ پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَفِي الاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ ... And in the earth are neighboring tracts, Meaning, next to each other, some of them are fertile and produce what benefits people, while others are dead, salty and do not produce anything. This meaning was collected from Ibn Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak and several others. This also covers the various colors and types of diver... se areas on the earth; some red, some white, or yellow, or black, some are stony, or flat, or sandy, or thick, or thin, all made to neighbor each other while preserving their own qualities. All this indicates the existence of the Creator Who does what He wills, there is no deity or lord except Him. Allah said next, ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ ... and gardens of vines, and green crops (fields), and date palms... Allah's statement, next, ... صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ ... Sinwanun wa (or) Ghayru Sinwan. `Sinwan' means, growing into two or three from a single stem, such as figs, pomegranate and dates. `Ghayru Sinwan' means, having one stem for every tree, as is the case with most plants. From this meaning, the paternal uncle is called one's `Sinw' of his father. There is an authentic Hadith that states that the Messenger of Allah said to Umar bin Al-Khattab, أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيه Do you not know that man's paternal uncle is the Sinw of his father! Allah said next, ... يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الاُكُلِ ... watered with the same water; yet some of them We make more excellent than others to eat. Abu Hurayrah narrated that the Prophet commented on Allah's statement, وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الاُكُلِ (yet some of them We make more excellent than others to eat), الدَّقَلُ وَالْفَارِسِيُّ وَالْحُلْوُ وَالْحَامِض The Dagal, the Persian, the sweet, the bitter..." At-Tirmidhi collected this Hadith and said, "Hasan Gharib." Therefore, there are differences between plants and fruits with regards to shape, color, taste, scent, blossoms and the shape of their leaves. There are plants that are very sweet or sour, bitter or mild, fresh; some plants have a combination of these attributes, and the taste then changes and becomes another taste, by Allah's will. There is also some that are yellow in color, or red, or white, or black, or blue, and the same can be said about their flowers; and all these variances and complex diversities are watered by the same water. Surely, in this there are signs for those who have sound reasoning, and surely, all this indicates the existence of the Creator Who does what He wills and Whose power made distinctions between various things and created them as He wills. So Allah said, ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ Verily, in these things there are Ayat for the people who understand.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 متجورات۔ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ 4۔ 2 صنوان۔ کے ایک معنی ملے ہوئے اور غیر صنوان۔ کے جداجدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صنوان، ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے ا... نار، انجیر اور بعض کھجوریں۔ 4۔ 3 یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] نباتات میں بیشمار مماثلتوں کے باوجود اختلاف۔ اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کھیت ایک ہی جگہ واقع ہوتے ہیں۔ ان میں بیج ایک جیساڈالا جاتا ہے۔ پانی اسپر ایک ہی برستا ہے یا ایک ہی طرح کے پانی سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ مگر ایک کھیت میں فصل اعلیٰ درجہ کی پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی...  ملے ہوئے کھیت میں فصل بھی کم ہوتی ہے اور ناقص بھی۔ اسی طرح مثلاً کھجور کے دو درخت ہیں مگر ان کی جڑ ایک ہی ہے، اوپر سے دو ہوگئے۔ اب ایک ہی جڑ زمین سے پانی کھینچ کر دونوں درختوں کو تر و تازہ رکھ رہی ہے اور انھیں بارآور ہونے میں تقویت پہنچا رہی ہے۔ مگر ایک درخت کے پھل کا ذائقہ الگ ہے اور دوسرے کا الگ۔ ایک کا پھل عمدہ ہوتا ہے اور دوسرے کا ناقص، کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور کونسی ایسی ہستی ہے جو اتنی مماثلتوں کے باوجود پھر ان کے پھلوں میں اختلاف واقع کردیتی ہے ؟ یا ایک ہی قطعہ زمین سے دو درخت ہیں، ایک کھجور کا ہے۔ دوسرا نیم کا ہے۔ دونوں کی جڑیں ایک ہی قطعہ زمین میں پانی کھینچ رہی ہیں کھجور کے پھل میں مٹھاس بھری جارہی ہے اور نیم یا بکائن کے درخت میں کڑواہٹ۔ کہ اس ایک ہی قطعہ زمین میں اتنی مٹھاس اور اس کے ساتھ ساتھ اتنی کڑواہٹ موجود ہے کہ وہ بیک وقت دونوں درختوں کے پھلوں کو مٹھاس اور کڑواہٹ بہم پہنچا سکے ؟ غرض اگر یہ لوگ ایسی باتوں میں غور و فکر کریں تو معرفت الٰہی کے بیشمار دلائل مل سکتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ ۔۔ : ” قِطَعٌ“ ” قِطْعَۃٌ“ کی جمع ہے، بمعنی ٹکڑے۔” مُّتَجٰوِرٰتٌ“ ” جِوَارٌ“ (ہمسائیگی) سے باب تفاعل کا اسم فاعل ہے، یعنی ساری زمین ایک جیسی نہیں، کوئی ٹکڑا زرخیز زمین کا ہے کوئی شور کا، کوئی نرم زمین ہے کوئی پتھریلی اور یہ سب قطعے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں، اب ... اسی زمین میں کسی علاقے میں کوئی کھیتی اور پھل پیدا ہوتا ہے کسی میں کوئی، اور اسی میں انگوروں (اور دوسرے پھلوں) کے باغات ہیں (قرآن کا اختصار دیکھیے کہ صرف انگوروں کا ذکر کرکے باقی باغات سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ دیے) اور کھیتی ہے (اس میں ہر کھیتی آگئی) اور کھجوروں کے درخت دو قسم کے ہیں (” صِنْوَانٌ“ ” صِنْوٌ“ کی جمع ہے، تثنیہ بھی یہی ہے، اس کا اصل معنی مثل ہے، جیسے فرمایا : ” عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ “ یعنی آدمی کا چچا اس کے باپ کی مثل ہے۔ کھجور کا تنا نیچے سے ایک ہو اور اوپر اس تنے سے کئی تنے نکلیں تو وہ ” صنوان “ ہے اور اگر یہ ایک ہی تنا رہے تو یہ ” وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ “ ہے ) اس قسم کے دوسرے درخت اس سے خود سمجھ لیں۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں، پھر اسی زمین اور اسی پانی سے کوئی پھل کڑوا پیدا ہو رہا ہے کوئی میٹھا، کوئی بدمزہ کوئی مزیدار اور کوئی اس سے بھی بڑھ کر لذت والا۔ پھر دیکھیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قُبْضَۃٍ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْھُمُ الْأَبْیَضُ وَالْأَحْمَرُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَالسَّھْلُ وَالْحَزْنُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ ) [ مسند أحمد : ٤؍ ٤٠٠، ح : ١٩٦٠١۔ ترمذی : ٢٩٥٥۔ أبوداوٗد : ٤٦٩٣، و صححہ الألبانی ] ” آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے لیے پوری روئے زمین سے اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی لی (جس میں سفید، سیاہ، سرخ ہر رنگ اور نرم، سخت، شور، زرخیز ہر قسم کی مٹی آگئی) اور آدم کی اولاد اسی کے مطابق کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی سیاہ، کوئی اس کے درمیان، کوئی نرم کوئی سخت اور کوئی خبیث کوئی طیب پیدا ہوتی ہے۔ “ ایک ہی زمین، ایک ہی پانی، ایک ہی باپ اور اسی کے نطفے سے بیشمار رنگا رنگ انسان پیدا ہوئے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : معلوم ہوا کوئی کمال کاریگر اور پوری قدرت والا مدبر ہے جس کے کرنے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، قرآن نے ان دلائل کا ذکر مختلف مقامات پر کیا ہے۔ عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس میں بیشمار نشانیاں ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لیے کوئی نشانی نہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse it was said: وَفِي الْأَرْ‌ضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَ‌اتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْ‌عٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ‌ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ And in the earth there are tracts of land neighboring each other and gardens of grapes and farms and date-palms, having twin or single trunks, watered with one water. And We ... make some better than others in taste. Surely, in that there are signs for a people who understand. Being pointed out here is that many tracts of land, despite being joined together, are different in their inherent properties. Some are good and soft, others are saline or hard. Some are good for farming while others grow gardens, of grapes and dates. Of the date-palms, some grow to have two trunks like other trees while others have only one. Then, all these fruits, though they come out of the same land and are watered by the same water and are touched by the rays of the sun and the glow of the moon and the draft of different winds in a uniform man¬ner, yet there remains among them the difference of colour and taste and size. Despite their being in such proximity with each other, the varied dif¬ference among them is a strong and clear proof of the fact that this whole system of creation is operating under the command of someone who is wise and knows how to plan, manage and run His creation. This has nothing to do with the postulates of the theory of evolution, as some ignorant people would like to believe. If these were the outcome of the stages of material development, how could we explain the element of dif¬ference among them despite all matter being common? One fruit grows on a tract of land in one season while another grows in the other. On one single branch of one tree, the fruits could be different in kinds, sizes and tastes! Said in the last sentence of the verse (4) was: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (Surely, in that there are signs for a people who understand). It means that there are in it, absolutely without doubt, many signs of the power and greatness of Allah Ta’ ala which go on to prove that He is One and that He alone is worthy of worship. By saying that these signs are &for a people who understand,& the hint released is that those who do not think about these things are not the people of understanding, no matter how highly they are rated and advertized for their intellect and intelligence.  Show more

وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ یعنی پھر زمین میں بہت سے قطعے آپس میں ملے ہوئے ہونے کے باوجود مزاج اور خاصیت میں مختلف ہیں کوئی اچھی زمین...  میں مختلف ہیں کوئی اچھی زمین ہے کوئی کھاری کوئی نرم کوئی سخت کوئی کھیتی کے قابل کوئی باغ کے قابل اور ان قطعات میں باغات ہیں انگور کے اور کھیتی ہے اور کھجور کے درخت ہیں جن میں بعض ایسے ہیں کہ ایک تنے سے اوپر جا کردو تنے ہوجاتے ہیں اور بعض میں ایک ہی تنہ رہتا ہے۔ اور یہ سارے پھل اگرچہ ایک ہی زمین سے پیدا ہوتے ہیں ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے اور آفتاب وماہتاب کی شعاعیں اور مختلف قسم کی ہوائیں بھی ان سب کو یکساں پہونچتی ہیں مگر پھر بھی ان کے رنگ اور ذائقے مختلف اور چھوٹے بڑے کا نمایاں فرق ہوتا ہے۔ باوجود اتصال کے پھر یہ طرح طرح کے اختلافات اس بات کی قوی اور واضح دلیل ہے کہ یہ سب کاروبار کسی حکیم و مدبر کے فرمان کے تابع چل رہا ہے محض مادے کے تطورات نہیں جیسا کہ بعض جاہل سمجھتے ہیں کیونکہ مادے کے تطورات ہوتے تو سب مواد کے مشترک ہونے کے باوجود یہ اختلاف کیسے ہوتا ایک ہی زمین سے ایک پھل ایک موسم میں نکلتا ہے دوسرا دوسرے موسم میں ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر مختلف قسم کے چھوٹے بڑے اور مختلف ذائقہ کے پھل پیدا ہوتے ہیں اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ اس میں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت اور اس کی وحدت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے اس میں اشارہ ہے کہ جو لوگ ان چیزوں میں غور نہیں کرتے وہ عقل والے نہیں گو دنیا میں ان کو کیسا ہی عقلمند سمجھا اور کہا جاتا ہو   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ۝ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو...  مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا جار الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب/ 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد/ 4] ( ج و ر ) الجار پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب/ 60] وہ اس ( شہر ) میں عرصہ قلیل کے سوا تمہارے ہمسایہ بن کر نہیں رہ سکیں گے ۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد/ 4] اور زمین ایک دوسرے سے متصل قطعات ہیں ۔ عنب العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی: وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] ، ( عن ن ب ) العنب ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] اور انگوروں کے باغ ۔ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ صنو الصِّنْوُ : الغصنُ الخارج عن أصل الشّجرة، يقال : هُمَا صِنْوَا نخلةٍ ، وفلانٌ صِنْوُ أبيه، والتّثنية : صِنْوَانِ ، وجمعه صِنْوَانٌ «1» . قال تعالی: صِنْوانٌ وَغَيْرُ صِنْوانٍ [ الرعد/ 4] . ( ص ن و ) الصنو کسی درخت کی جڑ سے جو مختلف شاخین پھوٹتی ہیں ان میں سے ہر ایک کو صنو کہاجاتا ہے محاورہ ہے فلان صنوا بیہ فلاں اس کے باپ کا حقیقی بھائی ہے ( کیونکہ باپ اور چچا ایک ہی اصل کی دوشاخیں ہوتی ہیں صنو کا تثنیہ صنوان اور جمع صنوان آتی ہے چناچہ کہاجاتا ہے ھما صنواتخلۃ وہ دونوں ایک ہی کھجور کی دو شاخیں ہیں ( یعنی ان کی اصل ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : صِنْوانٌ وَغَيْرُ صِنْوانٍ [ الرعد/ 4] بعض کھجوریں ایسی ہیں جو ایک ہی جڑ سے پھوٹتی ہیں اور بعض الگ الگ جڑوں سے . سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منه کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے معیض کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ 1) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زمین کے خطے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں قول باری ہے (وفی الارض قطع متجاورات، اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے زمین شورا اور زمین شیریں مراد ہے۔ قول باری ہے (ونخیل صہنوان۔ کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) حض... رت براء بن عازب (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ کھجور کے ایسے درخت جن کی جڑیں اکہری ہوں۔ قول باری ہے (یسقی بماء واحد و نفضل بعضھا علی بعض فی الاکل۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر) آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان کی واضح ترین دلالت موجود ہے جو کہتے ہیں کہ پھلوں وغیرہ کی پیدائش کا دارومدار مٹی کی طبیعت ہوا اور پانی پر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اصحاب الطبائع کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اگر پیدا ہونے والے پھلوں کی پیدائش کا انحصار مٹی کی خصوصیت نیز پانی اور ہوا پر ہوتا تو پھر یہ ضروری ہوتا کہ تمام پھل ایک جیسے ہوتے اس لئے کہ ان کی پیدائش کا سبب اور موجب ایک جیسا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک مٹی کی یکساں خاصیت اس سے پیدا ہونے والے پھلوں کی یکسانیت کو واجد کرتی ہے اور یہ درست نہیں ہوتا کہ یکساں طبیعت اور خاصیت دو مختلف اور متضاد اقعال کے حدوث کی موجب بن جائے اگر ان اشیاء کا حدوث جن کے رنگ، مزے، خوشبوئیں اور شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یکساں طبیعت اور خاصیت کی ایجاد کا نتیجہ ہوتا تو موجب کی یکسانیت کے ہوتے ہوئے ان کا اختلاف اور تضاد محال ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان اشیاء کو وجود میں لانے والا اللہ تعالیٰ جو قادر، مختار اور حکیم ہے، جس نے ان اشیاء کو اپنے علم اور قدرت سے مختلف شکلوں اور خصوصیتوں والی بنا کر پیدا کیا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور زمین میں پاس پاس مختلف قطعے ہیں کہ کھاری اور خراب زمین کا حصہ ہے اور اسی کے ساتھ صاف شیریں اور ٹھنڈی زمین کا حصہ ہے کہ یہ حصے ایک دوسرے سے ملحق ہیں اور انگوروں کے باغ ہیں اور مختلف کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں کہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ نیچے سے ایک ہی جڑ ہے اور اوپر جا کر دس اور اس...  سے زیادہ اور کم جڑیں ہوجاتی ہیں اور بعض میں جڑیں جدا جدا نہیں ہوتیں بلکہ ایک ہی جڑ رہتی ہے، سب کو بارش یا نہر ہی کا پانی دیا جاتا ہے، اس کے باوجود ہم ایک کو دوسرے پر وزن اور لذت میں فوقیت دیتے ہیں اور ان مزوں اور رنگوں کے اختلافات ہیں ان حضرات کے لیے دلائل ہیں جو ان تمام چیزوں کی منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ) ایک ہی زمین میں ایک ہی جڑ سے کھجور کے دو درخت اگتے ہیں ‘ دونوں کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن دونوں کے پھلوں کا اپنا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ) یہ التذکیر بالآء اللّٰہ کا انداز ہے جس میں با... ر بار اللہ کی قدرتوں نشانیوں اور نعمتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. That is, If you observe carefully, you will find divine wisdom, design and purpose in the diversity of the structure of the earth. Though it has countless regions adjoining one another, they are different from one another in their shapes, colors, component parts, characteristics, potentialities, productive capacity and source of minerals. This diversity has countless points of wisdom and advant... age. Let alone other creatures, if we consider the diversity of regions from the point of the good it has done to mankind, we shall have to acknowledge that this is the result of the well thought and well planned design of the All-Wise Creator. For this diversity has helped the growth of human civilization so much that only an unreasonable person can assign this to mere accident. 10. Some of the date palm trees have only a single trunk from the root while others have two or more stems from the same root. 11. The things mentioned in this verse contain many other signs besides the proofs of Tauhid and the boundless powers and All-Comprehensive Wisdom of Allah. Let us consider one of these, that is, the diversity in the universe, including mankind. There is the one and the same earth but all its regions are quite different from one another. Then there is one and the same water but it helps to produce different kinds of corn and fruits. Then one and the same tree bears fruits which, in spite of likeness, differ from one another in shapes, sizes, and other features. Then there is one and the same root from which sometimes one and at others two trunks sprout up, with their own different characteristics. If one considers these aspects of diversity, one shall come to the conclusion that the divine wisdom demands the same kind of diversity in the natures, temperaments and inclinations of human beings, and, therefore, in their conducts. So, one need not worry about the existence of this diversity. As it has been stated in (Ayat 31), if Allah had willed, He could have created all human beings alike and virtuous by birth. But the wisdom that underlies the creation of the universe, including mankind, requires diversity and not uniformity. Otherwise, all this creation would have become meaningless.  Show more

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :9 یعنی ساری زمین کو اس نے یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار خطے پیدا کر دیے ہیں جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں ، رنگ میں ، مادہ ترکیب میں ، خاصیتوں میں ، قوتوں اور صلاحیتوں میں ، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ...  ان مختلف خطوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا ۔ دوسری مخلوقات سے قطع نظر ، صرف ایک انسان ہی کے مفاد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مختلف اغراض و مصالح اور زمین کے ان خطوں کی گونا گونی کے درمیان جو مناسبتیں اور مطابقتیں پائی جاتی ہیں ، اور ان کی بدولت انسانی تمدن کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع بہم پہنچے ہیں ، وہ یقینا کسی حکیم کی فکر اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانشمندانہ ارادے کا نتیجہ ہیں ۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کےلیے بڑی ہٹ دھرمی درکار ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :10 کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :11 اس آیت میں اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و حکمت کے نشانات دکھانے کے علاوہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں کہیں بھی یکسانی نہیں رکھی ہے ۔ ایک ہی زمین ہے ، مگر اس کےقطعے اپنے اپنے رنگوں ، شکلوں اور خاصیتوں میں جدا ہیں ۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی ہے مگر اس سے طرح طرح کے غلے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں ۔ ایک ہی درخت اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل اور جسامت اور دوسری خصوصیات میں مختلف ہے ۔ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ انفرادی خصوصیات رکھتا ہے ۔ ان باتوں پر جو شخص غور کرے گا وہ کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ میں فرمایا گیا ہے ، اگر اللہ چاہتا تو سب انسانوں کو یکساں بنا سکتا تھا ، مگر جس حکمت پر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگا رنگی کی متقاضی ہے ۔ سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامہ وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی پاس پاس ہونے کے باوجود زمین کے مختلف حصوں کی خصوصیات میں فرق ہوتا ہے زمین کا ایک قطعہ کاشت کے لائق ہے، مگر اس کے بالکل برابر والا کاشت کے لائق نہیں۔ ایک حصے سے میٹھا پانی نکل رہا ہے۔ مگر اس کے قریب ہی دوسرے حصے سے کھارا پانی بر آمد ہوتا ہے۔ ایک قطعہ نرم ہے اور دوسرا سنگلاخ۔ 8: یعنی کسی در... خت سے زیادہ پھل نکلتے ہیں کسی سے کم، کسی کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے، اور کسی کا اتنا اچھا نہیں ہوتا۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:4) قطع۔ قطعۃ۔ کی جمع۔ ٹکڑے۔ متجورت۔ اسم فاعل جمع مؤنث ۔ متجاورۃ واحد۔ تج اور (تفاعل) مصدر ۔ برابر۔ برابر باہم ملے ہوئے۔ اس کا مادہ جور ہے لیکن مختلف ابواب سے مختلف ابواب سے مختلف صلہ کے سبب ہر جگہ معنی میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ مثلاً جار ہمسایہ۔ مددگار۔ شریک تجارت۔ پناہ دینے والا۔ پناہ پانے والا۔ ... پناہ چاہنے والا۔ جوار۔ ہمسائیگی۔ پناہ ۔ مکان کے آس پاس کا صحن۔ جور۔ راستی سے پھرجانا۔ راستہ سے مڑجانا۔ بشرطیکہ اس کے بعد عن آئے۔ اگر علی مذکور ہوگا جیسے جار علیہ تو ظلم کرنے کے معنی میں ہوگا۔ مجاورۃ۔ (مفاعلۃ) ہمسایہ ہونا۔ کسی کی پناہ میں ہوجانا۔ جوار۔ پناہ۔ امان۔ کسی کو پناہ دینا۔ قطع متجورت مختلف قسم کے ٹکڑہ ہائے اراضی جو قریب واقع ہوں۔ زرع۔ زرع اصل میں مصدر ہے اور اس سے مزروع (اسم مفعول) یعنی کھیتی مراد ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا فنخرج بہ زرعا (32:27) پھر ہم اس (پانی ) کے ذریعے کھیتی اگاتے ہیں۔ زرع واحد ہے یہاں بمعنی جمع آیا ہے۔ اس کی جمع زروع ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں وزروع ومقام کریم (44:26) اور کتنی ہی کھیتیاں اور کتنے ہی عمدہ عمدہ مکانا۔ اس سے مزرع بمعنی زراع بمعنی کسان ہے۔ یہاں زرع مختلف النوع کھیتیاں مراد ہیں۔ نخیل۔ کھجوریں یا کھجور کے درخت۔ نخل اور نخیل اسم جنس ہے۔ کھجور کے درخت نخل ونخیل کھجوروں کو بھی کہتے ہیں۔ صنوان ۔ جمع ہے اس کی واحد صنو ہے اس کا معنی مثل ہے۔ جیسے حدیث شریف میں ہے عم الرجل صنو ابیہ۔ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے۔ صنوان۔ کھجوروں کے ان متعدد درختوں کو کہتے ہیں جو ایک ہی جڑ سے ہوئے ہوں۔ غیر صنوان کھجوروں کے وہ درخت جو مختلف جڑوں سے ہوئے ہوں۔ کھجوروں کے الگ الگ درخت ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ یعنی وہ پانی تاثیر کے اعتبار سے ایک ہی قسم کا ہے۔ 11 ۔ معلوم ہوا کوئی صانع حکیم اور قادر مدبر ہے جس کے تصر سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ قرآن نے ان دلائل کا ذکر مختل مقامات پر کیا ہے۔ (از روح) ۔ 12 ۔ یعنی جو عقل سے کام لیتے ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لئے کوئی نشانی نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر توحید کا اثبات تھا آگے جواب ہے کفار کے شبہات کے جو نبوت کے متعلق تھے مع وعید کے اور وہ تین شبہ تھے اول بعثت ونشر کو وہ لوگ محال سمجھتے تھے اور اس سے نفی نبوت پر استدلال کرتے تھے دوسرا شبہہ یہ تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو انکار نبوت پر جس عذاب کی آپ وعید سناتے ہیں وہ کیوں نہیں آتا تیسرا شبہہ یہ ت... ھا کہ جن معجزات کی ہم فرمایش کرتے ہیں وہ کیوں نے ظاہر کیے جاتے۔ آیت وان تعجب میں اول شبہ کا رد ہے اور آیت ویستعجلونک میں دوسرے شبہ جواب اور آیت یقول الذین کفرا میں تیسرے شبہ کا جواب ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہاڑوں کے بعد نباتات کا بیان جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہونے کے ساتھ لوگوں کے لیے خوراک اور بیشمار فوائد کی حامل ہے۔ قرآن مجید نے پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں ویسے ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ک... ے پھولوں کے بھی جوڑے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجود کوئی میٹھا ہے، کوئی کڑوا، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے۔ ایک ناقص ہے اور ایک اعلیٰ قسم کا اور نہایت قیمتی اور مفید ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات کا علم یہ بتاتا ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Uni Sexual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا یکجا ہوتے ہیں۔ کھجور کے بارے میں تفصیلات کے لیے دیکھیں (فہم القرآن جلد ٢ صفحہ۔ ٤٠٠) نباتات میں جوڑے : (وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَبَاتٍ شَتَّی )[ طٰہٰ : ٥٣] ” اور اوپر سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار (جوڑا جوڑا) نکالی۔ “ پھلوں میں جوڑے : (وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ )[ الرعد : ٣] ” اسی نے ہر طرح کے پھلوں میں جوڑے پیدا کیے ہیں۔ “ اعلیٰ درجہ کے پودوں (Superior Plants) میں نسل خیزی کی آخری پیداوار ان کے پھل (Fruits) ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نر اور مادہ اعضا (Organs) یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور او ویولز (Ovules) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول ” بار آور “ ہو کر پھل میں بدلنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتا دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور مادہ اعضا ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔ پودوں کی بعض انواع غیر بار آور (Non Fertilized) پھولوں سے بھی پھل بن سکتے ہیں۔ (جنہیں مجموعی طور پر ” پارتھینو کارپک فروٹ “ کہا جاتا ہے) ان میں انناس، انجیر، نارنگی اور انگور وغیرہ کی بعض اقسام شامل ہیں۔ ان پودوں میں بھی بہت واضح صنفی خصوصیات (Sexual Characteristics) موجود ہوتی ہیں۔ ہر چیز کو جوڑوں میں بنایا گیا ہے : (وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ )[ الذ ریت : ٤٩] ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق لو۔ “ اس آیت مبارکہ میں ” ہر چیز “ کے جوڑوں کی شکل میں ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ انسانوں، جانوروں، پودوں اور پھلوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ بجلی کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہو کہ جس میں ایٹم منفی بار والے الیکٹرونوں اور مثبت باروالے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوڑے ہوسکتے ہیں۔ (سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ )[ یٰس : ٣٦] ” پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے کل میں انہیں دریافت کرلے۔ پودوں میں جنسی ملاپ : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پھلوں کے بارے غور فرمائیں ایک کھجور کو ہی دیکھیں کس طرح نر و مادہ درختوں کے ذریعہ سے اس کی بیشمار قسمیں وجود میں آرہی ہیں اور اسی طرح دیگر فصلوں کی نئی نئی اقسام پیدا کی جاتیں ہیں۔ مسائل ١۔ زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں۔ ٢۔ زمین میں انگوروں اور کھجوروں کے بہت سے درخت ہیں۔ ٣۔ ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والے درختوں کے پھل ذائقے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ٤۔ پھلوں میں ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ ٥۔ عقلمندوں کے لیے اللہ کی تخلیق میں نشان عبرت ہیں۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے کہ زمین کے ساتھ ساتھ واقع ٹکڑوں میں اس نے مختلف خاصیتیں ودیعت فرما دی ہیں کوئی زخریز ہے کوئی بجر، کوئی سخت ہے اور کوئی نرم۔ ” صنوان “ صنوٌ کی جمع ہے جس سے مراد وہ درخت ہے جس کی جڑ ایک ہو اور اس سے بہت سی شاخیں پھوٹ نکلیں۔ یہ بھی قدرت ا... لٰہی کا کرشمہ ہے کہ ایک ہی زمین میں پیدا ہونے والے کھجور کے درخت بعض شاخدار ہوتے ہیں اور بعض غیر شاخدار پھر سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے مگر ان کا پھل کم و بیش ہوتا ہے اور بو اور ذائقہ وغیرہ میں بھی مختلف ہوتا پہلی عقلی دلیل ختم ہوئی۔ دلیل کے تمام اجزاء میں حصر ہے یعنی یہ تمام امور صرف اللہ ہی کے قبضہ میں ہیں لہذا کارساز بھی وہی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 ۔ اور زمین میں مختلف کھیت اور قطعات ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور انگوروں کے باغ ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں جن میں سے بعض دو شاخیں ہوتے ہیں اور بعض دو شاخے نہیں ہوتے۔ ان مذکورہ بالا نباتات کو ایک ہی قسم کا پانی دیا جاتا ہے اور ان میں سے ہم ایک دوسرے پر پھلوں میں برتری دیتے ... ہیں ان باتوں میں بھی ان لوگوں کے لئے توحید کے دلائل موجود ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔ یعنی بعض درختوں میں زمین سے پھوٹتے ہی کتنی شاخیں ہوجاتی ہیں یا ایک تنے میں سے دوسرا تنا نکل آتا ہے اور بعض ایسے نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی تنا چلا جاتا ہے ۔ بعض برابر دو درخت اگ جاتے ہیں نیچے سے جڑ ملی ہوتی ہے جیسے کھجوروں کے جھنڈ ، پھر ایک ہی قسم کا پانی دیا جاتا ہے ایک ہی آفتاب کی دھوپ ایک ہی قسم کی ہوا اور باوجود اس کے پھلوں کے مزے میں فرق کسی کا پھل گھٹیا کسی کا بڑھیا یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت ہے بشرطیکہ کوئی عقل سے کام لے۔  Show more