Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 41

سورة الرعد

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ وَ اللّٰہُ یَحۡکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکۡمِہٖ ؕ وَ ہُوَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۴۱﴾

Have they not seen that We set upon the land, reducing it from its borders? And Allah decides; there is no adjuster of His decision. And He is swift in account.

کیا وہ نہیں دیکھتے؟ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں اللہ حکم کرتا ہے کوئی اس کے احکام پیچھے ڈالنے والا نہیں وہ جلد حساب لینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِي الاَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ... See they not that We gradually reduce the land from its outlying borders. Ibn Abbas commented, "See they not that We are granting land after land to Muhammad!" Al-Hasan and Ad-Dahhak commented that; this Ayah refers to Muslims gaining the upper hand over idolators, just as Allah said in another Ayah, وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى And indeed We have destroyed towns round about you. (46:27) ... وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ And Allah judges, there is none to put back His judgement, and He is swift at reckoning.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یعنی عرب کی سرزمین مشرکین پر بتدریج تنگ ہو رہی ہے اور اسلام کو غلبہ عروج حاصل ہو رہا ہے۔ 41۔ 2 یعنی کوئی اللہ کے حکموں کو رد نہیں کرسکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] زمین کو ہر طرف سے کم کرنے سے مراد ؟:۔ یعنی اسلام چاروں طرف پھیلتا جارہا ہے اور کفر کی سرزمین ہر طرف سے سمٹتی اور کم ہوتی جارہی ہے اور اس کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔ اسلام کو غلبہ دینا اور اسے پھیلانا ایسی بات ہے جس کا اللہ فیصلہ کرچکا ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور جوں جوں اسلام پھیلتا ہے ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ ۔ : یہ کفار کے لیے وعید اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے، یعنی کیا ان کفار نے نہیں دیکھا کہ ہم ان کی زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں، ان کے شہر اور علاقے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضے میں آتے جا رہے ہیں، ایک وقت آ رہا ہے کہ انھیں زمین کے مرکز ام القریٰ یعنی مکہ سے بھی بےدخل ہونا پڑے گا۔ چونکہ مکہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اس لیے بعض مفسرین نے اس سورت کو مدنی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو اپنی پیش قدمی قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا دین آگے بڑھ رہا تھا اور مسلمانوں کا آگے بڑھنا صرف اللہ ہی کی مدد سے تھا، ورنہ وہ کفار کی متحدہ قوتوں کے سامنے اکیلے اپنی طاقت سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں کی پیش قدمی کو ” اَنَّا نَاْتِي “ (اپنے آنے) کے الفاظ کے ساتھ بیان کرنے میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال کا جو اظہار ہو رہا ہے وہ اللہ کے کلام ہی کی خصوصیت ہے، جیسے فرمایا : ( فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ ) [ النحل : ٢٦ ] ”(یعنی ان کفار سے پہلے لوگوں نے سازشیں کیں) تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا، پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔ “ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ پر کھڑے ہو کر ان الفاظ میں کیا : ( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَ نَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ ) [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨ ] ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی نے تمام جماعتوں کو شکست دی۔ “ کفار پر تعجب ہے کہ یہ دیکھ کر بھی کہ دن بدن اسلام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور کفر و شرک سمٹ رہا ہے، یہ لوگ اسلام نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق پھر وہ وقت آیا کہ مشرق اور مغرب کے آخر تک اسلام کا علم لہرانے لگا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق ہر صورت وہ وقت آنے والا ہے جو مقداد بن الاسود (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، فرماتے تھے : ( لاَ یَبْقَی عَلَی ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہٗ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الإِْسْلاَمِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیْلٍ أَمَّا یُعِزُّہُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُہُمْ مِنْ أَہْلِہَا أَوْ یُذِلُّہُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَہَا ) [ أحمد : ٦؍٤، ح : ٢٣٨٧٦ وصححہ الألبانی ]” زمین کی پشت پر اینٹوں یا بالوں کا بنا ہوا کوئی گھر (یا خیمہ) باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دے گا، عزت والوں کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت دے گا اور انھیں یہ کلمہ پڑھنے والوں میں داخل کر دے گا، یا انھیں ذلیل کرے گا اور وہ اس کے محکوم بن جائیں گے۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٤٤) ۔ وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ : کیونکہ اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اسے وہی بدل سکتا ہے جو اس پر غالب ہو، جب کہ ایسی کسی ہستی کا کہیں وجود ہی نہیں۔ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : یعنی اس کے حساب لینے کا وقت نہایت تیزی کے ساتھ آ رہا ہے، حتیٰ کہ اس کے آنے پر مجرم قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے ہیں۔ (روم : ٥٥) دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسے حساب لینے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگتی بلکہ قیامت کے دن پل بھر میں سارا حساب سامنے آجائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) کیا مکہ والے اس چیز کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ان کی زمین کو چاروں طرف سے فتح کرتے جارہے ہیں یا یہ کہ ہر طرف سے کمی سے مراد علماء کا اٹھ جانا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی شہروں کی فتوحات اور علمائے کرام کے انتقال کرنے بارے میں فیصلہ فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور وہ ان پر سخت قسم کا عذاب نازل کرنے والا ہے یا یہ کہ جس وقت وہ ان سے حساب لینا شروع کرے گا تو اس کا حساب بڑی جلدی ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ ۭ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) یہ مضمون سورة الانبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے : (اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَاط اَفَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) ” کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں تو کیا اب یہ غالب آنے والے ہیں ؟ “ یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب مشرکین مکہ نے مکہ کے اندر رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی بھٹی پورے زور شور سے دہکا رکھی تھی اور وہ لوگ اس میں اپنے سارے وسائل اس امید پر جھونکے جا رہے تھے کہ ایک دن محمد اور آپ کی اس تحریک کو نیچا دکھا کر رہیں گے۔ اس صورت حال میں انہیں مکہ کے مضافاتی علاقوں (اُمّ القریٰ وَ مَنْ حَوْلَھَا) کے معروضی حالات کے حوالے سے مستقبل کی ایک امکانی جھلک دکھائی جا رہی ہے کہ بیشک ابھی تک مکہ کے اندر تمہاری حکمت عملی کسی حد تک کامیاب ہے لیکن کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ مکہ کے آس پاس کے قبائل کے اندر اس دعوت کے اثر و نفوذ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں تمہارا حلقہ اثر روز بروز سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے قبیلہ بنی غفار کے ایک نوجوان ابوذر یہ دعوت قبول کر کے اپنے قبیلے میں ایک مبلغ کی حیثیت سے واپس گئے ہیں اور آپ کی وساطت سے یہ دعوت اس قبیلے میں بھی پہنچ گئی ہے۔ یہی حال اردگرد کے دوسرے قبائل کا ہے۔ ان حالات میں کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ دعوت رفتہ رفتہ تمہارے چاروں طرف سے تمہارے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جا رہی ہے ؟ اب وہ وقت بہت قریب نظر آ رہا ہے جب تمہارے ارد گرد کا ماحول اسلام قبول کرلے گا اور تم لوگ اس کے دائرہ اثر کے اندر محصور ہو کر رہ جاؤ گے۔ اس آیت میں جس صورت حال کا ذکر ہے اس کا عملی مظاہرہ ہجرت کے بعد بہت تیزی کے ساتھ سامنے آیا۔ حضور نے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک طرف قریش مکہ کے لیے ان کی تجارتی شاہراہوں کو مخدوش بنا دیا تو دوسری طرف مدینہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدات کر کے اس پورے علاقے سے قریش مکہ کے اثر و رسوخ کی بساط لپیٹ دی۔ مدینہ کے مضافات میں آباد بیشتر قبائل قریش مکہ کے حلیف تھے مگر اب ان میں سے اکثر یا تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے یا انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کردیا۔ قریش مکہ کی معاشی ناکہ بندی (economic blockade) اور سیاسی انقطاع (political isolation) کے لیے رسول اللہ کے یہ اقدامات اس قدر مؤثر تھے کہ اس کے بعد انہیں اپنے اردگرد سے سکڑتی ہوئی زمین بہت واضح انداز میں دکھائی دینے لگی۔ دراصل فلسفہ سیرت کے اعتبار سے یہ بہت اہم موضوع ہے مگر بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی ہے۔ میں نے اپنی کتاب ” منہج انقلاب نبوی “ میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. “We are advancing in the land.” This is a very subtle way of warning the opponents of the truth. The fact that Our message is spreading fast in Arabia. It does, in fact, mean that We Ourselves are advancing very fast in the country against you for We are with those who are carrying Our message. “Diminishing it from its outlying borders.” We are causing the influence of Islam to spread fast in the land and are thus reducing the boundaries of the influence of its opponents. Are not these things the portents of their coming disaster?

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :60 یعنی کیا تمہارے مخلافین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سر زمین عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے ان پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے؟ یہ ان کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ” ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں“ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے ۔ کیونکہ دعوت حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ، اس لیے کسی سر زمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالی یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: مطلب یہ ہے کہ جزیرۂ عرب پر مشرکین اور ان کے عقائد کا جو تسلط تھا، وہ رفتہ رفتہ سمٹ رہا ہے، اور مشرکین کے اثر ورسوخ کا دائرہ کار روز بروز کم ہو کر سکڑ رہا ہے، اور اس کی جگہ اسلام کے اثرات پھیل رہے ہیں، یہ ایک تازیانہ ہے جس سے ان مشرکین کو سبق لینا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13: 41) تاتی۔ اتی یاتی (باب ضرب) اتیان مصدر۔ مضارع جمع متکلم۔ ہم آتے ہیں۔ ہم چلے آتے ہیں۔ اتیان کے معنی ” آنا “ کے ہیں خواہ کوئی بذاتہٖ آئے یا اس کا حکم پہنچے۔ یا اس کا نظم ونسق اور حکم عملاً جاری ہو۔ جیسے فاتی اللہ بنیانہم من القواعد (16:26) سو اللہ نے ان کی ساری عمارت جڑ سے اکھاڑ دی۔ اتیتہ بکذا واتیتہ کذا۔ کے معنی کوئی چیز لانا اور دینا کے ہیں۔ ننقصھا۔ ننقص۔ مضارع جمع متکلم۔ نقص مصدر (باب نصر) ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ ہم اس کو کم کرتے ہیں انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا۔ میں ننقصھا من اطرافھا حال ہے ناتی کا۔ یعنی ہم زمین کو اس کی تمام طرفوں سے کم کرتے چلے آتے ہیں۔ (یہاں اتیان مصدر اس معنی میں استعمال ہوا ہے جس طرح (16:26) متذکرہ بالا میں) مطلب یہ کہ اہل کفار کے علاقے آہستہ آہستہ اہل اسلام کے اثرونفوذ میں چلے آرہے ہیں (علاقوں سے جغرافیائی۔ اعتقادی۔ تمدنی۔ سبھی حدود مراد لی جاسکتی ہیں) ۔ معقب۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ تعقیت (تفعیل) سے عقب مادّہ۔ ردکر دینے والا۔ لوٹا دینے والا۔ لا معقب لحکمہ ۔ اللہ کے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے۔ یہ عقب الحاکم علی حکم من قبلہ۔ کے محاورہ سے ماخوذ ہے۔ یعنی حاکم نے اپنے پیشرو کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ (الکشاف) نیز ملاحظہ ہو 13:11 ۔ اور 13:22) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یہ خوشخبری ہے کہ نصرت الٰہی کا نزول شروع ہوچکا ہے۔ اطرافِ عرب میں تدریجاً اسلام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور کفر و شرک سمٹ رہا ہے۔ تعجب ہے کہ بایں ہمہ یہ لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ (از روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یعنی ان کی عمل داری بسبب کثرت فتوحات اسلامیہ کے روزبروز گھٹتی جارہی ہے سو یہ بھی تو ایک قسم کا عذاب ہے جو مقدمہ ہے اصلی عذاب کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤١ یہ لوگ امم سابقہ سے مکاری ، تدابیر اور سیاست اور دھوکہ بازی میں زیادہ نہیں ہیں لیکن اللہ نے اس کے باوجود ان اقوام کو پکڑا کیونکہ اللہ کی قوت اور تدبیر ان سے زیادہ محکم تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا) (کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کی اطراف سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں) بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ کافروں کو اس سے عبرت ہونی چاہئے کہ اس زمین پر اہل ایمان کا اقتدار بڑھتا چلا جا رہا ہے ہر طرف اسلام پھیل رہا ہے اور جو لوگ بھی اسلام قبول کرلیتے ہیں ان کا علاقہ مسلمانوں کی عملداری میں داخل ہوجاتا ہے جو لوگ مجبور اور مظلوم تھے انہیں زمین کا اقتدار ملتا جا رہا ہے اور ظالمین اقتدار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں کافروں کی عملداری ہر طرف سے گھٹ رہی ہے یہ سب کچھ ان کی نظروں کے سامنے ہے اس سے عبرت حاصل کریں۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ اور بعض دیگر حضرات سے آیت شریفہ کی یہی تفسیر منقول ہے پھر لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ ہم زمین کے اطراف کو ویران اور اس کے رہنے والوں کو ہلاک کرتے رہے ہیں ان لوگوں کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے انہیں اس بات کا کیسے اطمینان ہوگیا کہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہوگا۔ اللہ کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں : (وَ اللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ) (اور اللہ حکم فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں) (وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَاب) (اور وہ جلد حساب لینے والا ہے) اللہ تعالیٰ کا جب عذاب لانے کا فیصلہ ہوگا تو اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا وہ عنقریب ہی دنیا میں عذاب دے گا آخرت میں بھی حساب ہے وہاں کفر کی سزا ملے گی جو دنیاوی عذاب سے بڑھ چڑھ کر ہے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ تخویف دنیوی ہے۔ اَلْاَرْضَ سے ارض کفر و شرک مراد ہے۔ یعنی ارض الشرک۔ قال اکثر المفسرین المراد منہ فتح دار الشرک فان مازاد فی دار الاسلام فقد نقصد فی دار الشرک (خاذن ج 4 ص 29) ۔ کیا مشرکین نہیں دیکھ رہے کہ دنیا میں توحید پھیلتی جا رہی ہے اور شرک و کفر مٹتا جا رہا ہے، مشرکین کے زیر قبضہ علاقے فتح ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آرہے ہیں اس طرح اہل اسلام سے ہم نے وعدے کیے تھے وہ سچے ثابت ہو رہے، کیا اب بھی انکار کی کوئی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل اور محکم ہے اسے کوئی رد نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ اسلام اور اہل اسلام کو سربلند کرنے اور دشمنان پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) کو مقہور و مغلوب کرنے کا فیصلہ فرما چکا ہے اس لیے ایسا ہو کر رہے گا۔ وقد حکم لک ولاتباعک بالعز والاقبال وعلی اعدائک و مخالفیک بالقھر والاذلال حسب ما یشاھدہ ذو و الابصار الخ (روح ج 13 ص 174) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 1 ۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اور ان کے ملک کو چاروں طرف سے برابر کم کرتے چلے آتے ہیں اور زمین کو اس کے کناروں کی طرف سے گھٹا تے چلے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم کرتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا اور پیچھے ڈالنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ یعنی اسلام کا غلبہ اور فتوحات اسلامی کی وجہ سے کفار کا قبضہ اس ملک سے کم ہوتا جاتا ہے اللہ کے حکم کا کوئی روکنے والا نہیں اور وہ بہت جلدی ہی ان کا حساب لینے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہم چلے آتے ہیں زمین کو گھٹاتے یعنی اسلام پھیلتا جاتا ہے عرب کے ملک میں اور کفر گھٹتا ہے۔ 12