Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 6

سورة الرعد

وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبۡلَ الۡحَسَنَۃِ وَ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمُ الۡمَثُلٰتُ ؕ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوۡ مَغۡفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلۡمِہِمۡ ۚ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۶﴾

They impatiently urge you to bring about evil before good, while there has already occurred before them similar punishments [to what they demand]. And indeed, your Lord is full of forgiveness for the people despite their wrongdoing, and indeed, your Lord is severe in penalty.

اور جو تجھ سے ( سزا کی طلبی میں ) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی یقیناً ان سے پہلے سزائیں ( بطور مثال ) گزر چکی ہیں اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بے جا ظلم پر بھی اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers ask for the Punishment to be delivered now! Allah said, وَيَسْتَعْجِلُونَكَ ... They ask you to hasten, in reference to the disbelievers, ... بِالسَّيِّيَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ... the evil before the good, meaning, the punishment. Allah said in other Ayat that they said, وَقَالُواْ يأَيُّهَا الَّذِى نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ لَّوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَـيِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّـدِقِينَ مَا نُنَزِّلُ الْمَلَـيِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ And they say: "O you to whom the Dhikr (the Qur'an) has been sent down! Verily, you are a mad man! Why do you not bring angels to us if you are of the truthful!" We send not the angels down except with the truth (i.e. for torment), and in that case, they (the disbelieves) would have no respite! (15:6-8) and two Ayat; وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ And they ask you to hasten on the torment! (29:53-54) Allah also said, سَأَلَ سَأيِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ A questioner asked concerning a torment about to befall. (70:1) and, يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ Those who believe not therein seek to hasten it, while those who believe are fearful of it, and know that it is the very truth. (42:18) and, وَقَالُواْ رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا They say: "Our Lord! Hasten to us Qittana. (38:16), meaning, our due torment and reckoning. Allah said that they also supplicated, وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ And (remember) when they said: "O Allah! If this (the Qur'an) is indeed the truth from You. (8:32) They were such rebellious, stubborn disbelievers that they asked the Messenger to bring them Allah's torment. Allah replied, ... وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَتُ ... while exemplary punishments have indeed occurred before them. Meaning, `We have exerted Our punishment on the previous disbelieving nations, and made them a lesson and example for those who might take heed from their destruction.' If it was not for His forbearance and forgiveness, Allah would have indeed punished them sooner. Allah said in another Ayah, وَلَوْ يُوَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُواْ مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ And if Allah were to punish men for that which they earned, He would not leave a moving creature on the surface of the earth. (35:45) Allah said in this honorable Ayah, ... وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ... But verily, your Lord is full of forgiveness for mankind in spite of their wrongdoing. He is full of forgiveness, pardoning and covering the mistakes of people, in spite of their wrongdoing and the errors committed night and day. Allah next reminds that His punishment is severe, so that fear and hope are both addressed and mentioned. ... وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ And verily, your Lord is (also) severe in punishment. Allah said in other Ayat, فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَسِعَةٍ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ If they belie you, say: "Your Lord is the Owner of vast mercy, and never will His wrath be turned back from the people who are criminals." (6:147) إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ Verily, your Lord is quick in retribution and certainly He is Oft-Forgiving, Most Merciful. (7:167) and, نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ Declare unto My servants that truly I am the Oft-Forgiving, the Most Merciful. And that My torment is indeed the most painful torment. (15:49-50) There are many other Ayat that mention both fear and hope.

منکرین قیامت یہ منکرین قیامت کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب جلد ہی کیوں نہیں لاتے ؟ کہتے تھے کہ اے اپنے آپ پر اللہ کی وحی نازل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ، ہمارے نزدیک تو تو پاگل ہے ۔ اگر بالفرض سچا ہے تو عذاب کے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ؟ اس کے جواب میں ان سے کہا گیا کہ فرشتے حق کے اور فیصلے کے ساتھ ہی آیا کرتے ہیں ، جب وہ وقت آئے گا اس وقت ایمان لانے یا توبہ کرنے یا نیک عمل کرنے کی فرصت ومہلت نہیں ملے گی ۔ اسی طرح اور آیت میں ہے آیت ( ویستعجونک دو آیتوں تک ۔ اور جگہ ہے سال سائل الخ اور آیت میں ہے کہ بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار اس سے خوف کھا رہے ہیں اور اسے بر حق جان رہے ہیں ۔ اسی طرح اور آیت میں فرمان ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور المناک عذاب نازل فرما ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کفر وانکار کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا آنا محال جان کر اس قدر نڈر اور بےخوف ہو گئے تھے کہ عذاب کے اترنے کی آرزو اور طلب کیا کرتے تھے ۔ یہاں فرمایا کہ ان سے پہلے کے ایسے لوگوں کی مثالیں ان کے سامنے ہیں کہ کس طرح وہ عذاب کی پکڑ میں آ گئے ۔ کہہ دو کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حلم وکرم ہے کہ گناہ دیکھتا ہے اور فورا نہیں پکڑتا ورنہ روئے زمین پر کسی کو چلتا پھرتا نہ چھوڑے ، دن رات خطائیں دیکھتا ہے اور درگزر فرماتا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ عذاب پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اس کے عذاب بھی بڑے خطرناک نہایت سخت اور بہت درد دکھ دینے والے ہیں ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت ( فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ١٤٧؁ ) 6- الانعام:147 ) اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ تمہارا رب وسیع رحمتوں والا ہے لیکن اس کے آئے ہوئے عذاب گنہگاروں پر سے نہیں ہٹائے جا سکتے ۔ اور فرمان ہے کہ تیرا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ، بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے اور آیت میں ہے آیت ( نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ ) 15- الحجر:49 ) میرے بندوں کو خبر کر دے کہ میں غفور رحیم ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک ہیں ۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سے آیتیں ہیں جن میں امید وبیم ، خوف ولالچ ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے اس میں ہے اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حسن بن عثمان ابو حسان راوی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اللہ تعالیٰ عزوجل کا دیدار کیا دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سامنے کھڑے اپنے ایک امتی کی شفاعت کر رہے ہیں جس پر فرمان باری ہوا کہ کیا تجھے اتنا کافی نہیں کہ میں نے سورہ رعد میں تجھ پر آیت ( وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ Č۝ ) 13- الرعد:6 ) نازل فرمائی ہے ۔ ابو حسان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں ؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر ! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ 6۔ 3 یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آجائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے (وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا 45؀ ) 35 ۔ فاطر :45) اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک تنفس کو نہ چھوڑتا ' 6۔ 3 یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی وغفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہوجاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ودماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہوجاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے الایمان بین الخوف والرجاء ایمان خوف اور مبید کے درمیان ہے یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال و توازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے سورة الانعام۔ سورة الاعراف۔ سورة الحجر

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] عذاب میں تا خیر کے اسباب۔ منکرین حق کا یہ مطالبہ سنجیدگی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ ایسے مذاق اور طنز پر مبنی ہوتا ہے، جس میں ان کا انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر تم سچے ہو تو جیسا کہتے ہو وہ عذاب ہم پر کیوں نہیں لے آتے ؟ یا وہ عذاب ہم پر اب تک آیا کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان سے پہلے کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ لوگوں نے عذاب طلب کیا اور جیسا عذاب طلب کیا ان پر ویسا عذاب آگیا اور اب جو ان کے مطالبے پر ابھی تک عذاب نہیں آیا اور تو اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اللہ ان لوگوں کے ایسے مطالبات فوراً پورے کرنا شروع کردیتا تو یہ دنیا کب کی تباہ ہوچکی ہوتی۔ لہذا یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ایسے مطالبے فوراً پورے نہیں کردیتا۔ دوسرے یہ کہ عذاب کا بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مہلت کا وقت ہوتا ہے۔ اس مدت میں اگر قوم اپنی حالت بہتر بنا لے تو اللہ عذاب نازل ہی نہیں کرتا اور یہ بھی اللہ کی بندوں پر رحمت ہے۔ پھر بھی اگر قوم نہ سنبھلے تو آخری چارہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان کو سزا دے اور عذاب نازل کرے۔ پھر جب عذاب نازل کرتا ہے تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۔۔ :” اَلسَّیِّءَۃُ “ سے مراد بری حالت مثلاً عذاب اور ” الْحَسَنَةِ “ سے مراد اچھی حالت مثلاً عافیت اور خوش حالی ہے۔ ” الْمَثُلٰتُ “ کی واحد ” مَثُلَۃٌ“ بروزن ” سَمُرَۃٌ“ ہے، معنی ہے سخت سزا اور رسوا کن عذاب جو انسان پر اترے اور اسے دوسروں کے لیے برے کاموں سے باز رکھنے کے لیے مثال اور عبرت بن جائے۔ ” اِسْتِعْجَالٌ“ کسی چیز کا وقت آنے سے پہلے اسے لانے کا مطالبہ کرنا، یعنی ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جھٹلانے اور مذاق اڑانے کے لیے تندرستی اور عافیت کے بجائے پہلے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مشرکین کے اس قسم کے مطالبوں کا قرآن میں کئی جگہ ذکر ہے، مثلاً سورة انفال (٣٢) ، سورة عنکبوت (٥٣، ٥٤) اور سورة نمل (٤٦) ان آیات کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں۔ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ : جن میں ان کے لیے عبرت کا کافی سامان موجود ہے۔ موضح میں ہے کہ پہلے ہو چکیں ہیں کہاوتیں، یعنی ایسے عذاب آئے ہیں کہ ان کی کہاوتیں چلی ہیں۔ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ : ” مَغْفِرَةٍ “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی اللہ اتنی بڑی مغفرت والا ہے کہ لوگوں کے ظلم پر گرفت کرے تو زمین پر کوئی جان دار باقی نہ رہے، فرمایا : (وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ ) [ النحل : ٦١] ” اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے پکڑے تو اس کے اوپر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے اور لیکن وہ انھیں ایک مقرر وقت تک ڈھیل دیتا ہے، پھر جب ان کا وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھتے ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة فاطر کی آخری آیت۔ وہ مہلت ہی دیے جاتا ہے کہ شاید باز آجائیں، تو بہ کرلیں اور اس کا عذاب بھی نہایت سخت ہے۔ معلوم ہوا کہ سلامتی اور امن کی راہ امید اور خوف میں اعتدال ہے، انسان اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے عفو و درگزر کی امید نہ ہو تو کسی شخص کی زندگی خوش گوار نہ ہو اور اگر اس کے عذاب کا ڈر نہ ہو تو ہر شخص بےکھٹکے گناہ کرتا رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَ‌بَّكَ لَذُو مَغْفِرَ‌ةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَ‌بَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ &And they ask for evil to come sooner than good (by saying: If you are a prophet, let us have your promised punishment now - which shows that they take the coming of the Divine punish¬ment as something very far-removed or virtually impossible) al-though punishments have really come to pass against people earlier to them, (which have been witnessed by others.) Now, if the punishment is to come to them, why should it be taken as something far out, or impossible? Here, the word: الْمَثُلَاتُ (al-mathulat) is the plural form of مَثُلَۃ (mathula) and it means a punishment which puts a person in disgrace before everyone and proves to be a lesson for all others. After that it was said that there is no doubt that your Lord is, de-spite the sinning and disobeying of people, the Lord of forgiveness and mercy as well. And for people who do not take advantage of this forgive¬ness and mercy and elect to stick to their disobedience and contumacy, then, for them He is &severe in punishing& as well. Therefore, they should not misunderstand the attributes of Allah&s forgiveness and mercy and reach the conclusion that punishment simply cannot come to them. 3. The third doubt of the disbelievers was: As for the miracles of the Holy Prophet &, they had seen many of them. But, why would he not show the specific miracles demanded by them? This has been answered in the third verse (7) by saying: وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ‌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ

(آیت) وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ ۭ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ یعنی یہ لوگ ہمیشہ عافیت کی میعاد ختم ہونے سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مصیبت کے نازل ہونے کا تقاضا کرتے ہیں (کہ اگر آپ نبی ہیں تو فوری عذاب منگوا دیجئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ عذاب کے آنے کو بہت ہی بعید یا ناممکن سمجھتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے دوسرے کافروں پر بہت سے واقعات عذاب کے گذر چکے ہیں جن کا سب لوگوں نے مشاہدہ کیا ہے تو ان پر عذاب آجانا کیا مستبعد ہے یہاں لفظ مثلت مثلہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایسی سزا جو انسان کو سب کے سامنے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کر دے اور دوسروں کے لئے عبرت کا ذریعہ بنے۔ پھر فرمایا کہ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب لوگوں کے گناہوں اور نافرمانیوں کے باوجود بڑی مغفرت و رحمت والا بھی ہے اور جو لوگ اس مغفرت و رحمت سے فائدہ نہ اٹھائیں اپنی سرکشی و نافرمانی پر جمے رہیں ان کے لئے سخت عذاب دینے والا بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے غفور و رحیم ہونے سے کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں کہ ہم پر عذاب آ ہی نہیں سکتا تیسرا شبہ ان کفار کا یہ تھا کہ اگرچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزات ہم دیکھ چکے ہیں لیکن جن خاص خاص قسم کے معجزات کا ہم نے مطالبہ کیا ہے وہ کیوں ظاہر نہیں کرتے ؟ اس کا جواب تیسری آیت میں یہ دیا گیا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ ۭ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ ۝ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ عقاب والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، عقاب اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ بطور مذاق کے آپ سے عافیت سے قبل نزول عذاب کا تقاضا کرتے ہیں اور آپ سے عافیت کی درخواست نہیں کرتے حالانکہ ان سے پہلے عقوبات کے واقعات گزر چکے جن کی بنا پر ہلاک ہونے والے ہلاک ہوئے اور آپ کا پروردگار ان مکہ کے کافروں کے شرک کو اگر یہ توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو معاف کردے گا اور جو شرک سے توبہ نہ کرے تو یقیناً آپ کا پروردگار اس کو سخت سزا دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ) کفار مکہ حضور سے بڑی جسارت اور ڈھٹائی کے ساتھ بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ لے آئیں ہم پر وہ عذاب جس کے بارے میں آپ ہمیں روز روز دھمکیاں دیتے ہیں۔ (وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ ) اللہ کے عذاب کی بہت سی عبرت ناک مثالیں گزشتہ اقوام کی تاریخ کی صورت میں ان کے سامنے ہیں۔ (وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ) یہ اس کی رحمت اور شان غفاری کا مظہر ہے کہ ان کے مطالبے کے باوجود اور ان کے شرک وظلم میں اس حد تک بڑھ جانے کے باوجود عذاب بھیجنے میں تاخیر فرما رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. This refers to the demand of the Quraish from the Prophet (peace be upon him): If you are a true Prophet (peace be upon him) of God, why don’t you hasten to bring that scourge of God upon us of which you have been threatening us, when we are flouting and denying you? They did this in different ways. Sometimes they would invoke God mockingly and say: O Lord, settle our accounts now and do not postpone these to the Day of Resurrection. At another time, they would say: Our Lord, if what Muhammad (peace be upon him) says be true, and be from Thee, then stone us from the sky or send down some other scourge upon us from the sky or send down some other painful torment upon us. In this verse an answer has been given to such impudent demands of the disbelievers. They have been admonished to refrain from such foolish demands and avail of the respite that was being given to them and mend their ways, for they were incurring the wrath of God by adopting the attitude of rebellion.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :14 کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اگر تم واقعی نبی ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ ہم نے تم کو جھٹلا دیا ہے تو اب آخر ہم پر وہ عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہم کو دھمکیاں دیتے ہو؟ اس کے آنے میں خواہ مخواہ دیر کیوں لگ رہی ہے؟ کبھی وہ چیلنج کے انداز میں کہتے کہ رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ( خدایا ہمارا حساب تو ابھی کر دے ، قیامت پر نہ اٹھا رکھ ) ۔ اور کبھی کہتے کہ اَلَّھُمّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِ کَ فَاَ مْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَ ۃً مِّنَ السَّمَآ ءِ اَوِأْ تِنَا بِعَذَ ابٍ اَلِیْمٍ ۔ ( خدایا اگر یہ باتیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں حق ہیں اور تیری ہی طرف سے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی دردناک عذاب نازل کر دے ) ۔ اس آیت میں کفار انہی باتوں کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نادان خیر سے پہلے شر مانگتے ہیں ، اللہ کی طرف ان کو سنبھلنے کے لیے جو مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کر دیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فورا گرفت کر ڈالی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: کفارِ مکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر ہمارا دِین غلط ہے تو اﷲ تعالیٰ سے کہئے کہ ہم پر عذاب نازل کردے۔ یہ ان کے اس بے ہودہ مطالبے کی طرف اشارہ ہے۔ 12: یعنی جو چھوٹے چھوٹے گناہ اِنسان سے نادانی میں سر زد ہوجائیں، یا بڑے گناہ ہوں، مگر اِنسان اُن سے توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ ان زیادتیوں کے باوجود اپنے بندوں کو معاف فرما دیتا ہے، لیکن کفر و شرک اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ضد اور عناد کا معاملہ ایسا ہے کہ اُس پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ لہٰذا بندوں کو یہ سوچ کر بے فکر نہ ہونا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے، اس لئے وہ ہماری ہر نافرمانی کو ضرور معاف فرما دے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ بت پرستی کی مذمت اور توحید اور احوال قیامت اس قسم کی آیتیں جب نازل ہوتیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش وہ آیتیں سناتے تو قریش لوگ سرکشی سے صاف کہہ دیتے تھے کہ ہم تو تمہاری ایک نہیں سنتے اگر تم سچے نبی ہو تو اللہ کی طرف سے ہم پر عذاب لے آؤ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرما دیا کہ رسول سے مخالفت کرنے والوں پر عذاب الٰہی کا نازل ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے بہت سی امتیں رسولوں کی مخالفت کے سبب سے غارت ہوچکی ہیں بجائے فرمانبرداری کے یہ لوگ جو سرکشی کر کے عذاب کی جلدی کرتے ہیں ان کو یہ معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ میں رحم اور قہر دونوں صفتیں ہیں اور اب تک اللہ تعالیٰ نے اپنی رحم کی صفت کے تقاضے سے ان کو چھوڑ رکھا ہے جس دن قہر کی صفت کا تقاضا ہوگیا تو پھر پہلے کی اجڑی ہوئی امتوں کی طرح سے ان کا کہیں ٹھکانا بھی نہ لگے گا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ (رض) اشعری کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے سرکش لوگوں کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کی سرکشی کی سزا میں انہیں پکڑ لیتا ہے تو کسی کا ان میں سے چھٹکارہ نہیں ہو ١ ؎ سکتا۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے پہلے بارہ تیرہ برس تک اہل مکہ کو مہلت دی جب اس مہلت کے زمانہ میں ان میں کے سرکش لوگ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے اور مسخراپن کے طور پر عذاب کی جلدی کرتے رہے تو بدر کی لڑائی میں یہ بڑے سرکش نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرنے کے ساتھ ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوئے اور ان کے عذاب کا حال لوگوں کو جتلانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑا ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کے وعدہ کو سچاپایا چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی روایتیں اس باب میں ایک جگہ گزر چکی ہیں ٢ ؎ مثلات معنے وہ عذاب جس کا تذکرہ مثال اور کہاوت کے طور پر باقی رہے اسی واسطے شاہ صاحب نے مثلات کا مرادی ترجمہ ” کہاوتیں “ کیا ہے۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٥ ٢ ؎ جلد ہذا ٢٠٢، ٢٠٨۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:6) یستعجلونک ۔ یستعجلون مضارع جمع مذکر غائب استعجال (استفعال ) مصدر وہ جلدی مانگتے ہیں۔ تعجیل چاہتے ہیں۔ نیکی (یعنی بخشش سے) پہلے۔ یعنی اللہ کی طرف سے ان کو جو سنبھلنے کی مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کردیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فوراً گرفت کر ڈالی جائے۔ نادان نہیں جانتے کہ اگر ان کے اعمال بد کے نتیجہ میں عذاب آگیا اور وہ برباد ہوگئے تو ان کو پھر کیا فائدہ پہنچے گا۔ المثلت۔ جمع مؤنث اس کی واحد المثلۃ ہے۔ مثلۃ وہ سزا۔ جس سے دوسرے عبرت حاصل کر کے ارتکاب جرم سے رک جائیں۔ یہی معنی نکال کے ہیں۔ المثلت۔ عبرت ناک سزائیں۔ عبرت ناک عذاب۔ عبرت ناک نظریں۔ عبرت ناک عذاب کے نزول کے واقعات۔ خلت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ وہ گذر گئی۔ وہ گذر چکی۔ خلو سے (باب نصر ) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی استہذا اور تکذیب کے طور پر کہتے ہیں کہ اس تندرستی اور عافیت کی بجائے عذاب اور بلا کیوں نہیں نازل ہوتی۔ مشرکین کے اس قسم کے مطالبے کا قرآن نے متعدد آیات میں ذکر کیا ہے۔ (ابن کثیر) ۔ 5 ۔ جن میں انے لئے عبرت کا کافی سامان موجود ہے۔ موضح میں ہے کہ پہلے ہوچکی ہیں کہاوتیں یعنی عذاب ویسے کہ ان کی کہاوتیں چلی ہیں۔ 6 ۔ معلوم ہوا کہ اسلامتی اور امن کی راہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید بھی رکھے اور اسکے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ سعید (رض) بن المسیب سے ایک (مرسل) روایت میں ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ کا عفو و درگزر نہ ہو تو کسی شخص کی زندگی خوشگوار نہ ہو اور اگر اس کے عذاب کا ڈر نہ ہو تو ہر شخص بےکھٹکے گناہ کرے۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالسَّیِّءَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ ) (آپ سے یہ لوگ عافیت سے پہلے مصیبت کے جلدی آجانے کا تقاضا کرتے ہیں) یعنی ان سے جو کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ ورنہ تمہیں دنیا و آخرت میں عذاب بھگتنا ہوگا تو بطور استہزاء اور تمسخر کہتے ہیں کہ لاؤ عذاب لا کر دکھا دو ‘ یہ لوگ عافیت سے اور سلامتی والی حالت میں جی رہے ہیں اس کے بجائے عذاب طلب کر رہے ہیں ‘ چونکہ عذاب والی بات کو جھوٹ سمجھ رہے ہیں اس لئے عافیت اور سلامتی کا جو وقت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں مقرر ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے ہی عذاب آنے کی رٹ لگا رہے ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب عذاب آجائے گا تو ٹالا نہ جائے گا۔ سورة ہود میں فرمایا (وَلَءِنْ اَخَّرْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ اِلٰی اُمَّۃٍ مَّعْدُوْدَۃٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُہٗ اَلَایَوْمَ یَأْتِیْھِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْھُمْ وَحَاقَ بِھِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ ) (اور اگر ہم ایک وقت مقرر تک ان سے عذاب موخر کردیں تو کہتے ہیں کہ اسے کس نے روک رکھا ہے ‘ خبردار جس دن عذاب آئے گا تو وہ ان سے ہٹایا نہ جائے گا اور جس چیز کا وہ مذاق بناتے تھے وہ ان پر نازل ہوجائے گا) ۔ (وَقَدْ خلَتْ مِنْ قَبْلِھِمُ الْمَثُلٰتُ ) (حالانکہ ان سے پہلے عذاب کے رسوا کن واقعات گزر چکے ہیں) یعنی ان سے پہلے قوموں پر عذاب آچکا ہے۔ عذاب کے واقعات کا ان کو علم ہے پھر بھی عذاب آنے کی خواہش کر رہے ہیں۔ یہ ان کی بےہودگی اور بد فہمی کی بات ہے قال صاحب الروح المثلت جمع مثلۃ کثمرۃ وثمرات وھی العقوبۃ الفاضحۃ۔ (وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِھِمْ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ ) مطلب یہ ہے کہ گناہ کر کے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمانے والا ہے کبھی توبہ سے کبھی بلا توبہ ‘ کبھی حسنات کے ذریعہ سیئات کا کفارہ فرما کر اور کبھی اموال و اولاد وغیرہ میں مصیبت بھیج کر) اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا بھی ہے (مغفرت والی بات سن کر سرکشی اور نافرمانی میں آگے بڑھتے ہوئے نہ چلے جائیں ‘ اگر گرفت ہوگی تو عذاب کی مصیبت سے بچ نہ سکیں گے) کافروں کی مغفرت کے لیے لازم ہے کہ کفر سے توبہ کریں اہل ایمان سے جو گناہ سر زد ہوجاتے ہیں ان کی مغفرت کی صورتوں متعدد ہیں جو ابھی اوپر بیان کی گئیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ زجر مع شکوی۔ سیئہ سے عذاب اور حسنہ سے عافیت مراد ہے اور ” قَبْلَ الْحَسَنَۃ “ یعنی یہ لوگ عذاب ہی کا مطالبہ کرتے ہیں اور عافیت تو مانگتے ہی نہیں۔ مشرکین عناد و استہزاء کی وجہ سے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ فرمایا میرے عذاب سے ڈرو وہ مانگنے کی چیز نہیں تم سے پہلے تم جیسی مکذب اور معاند قوموں کو میں نے شدید ترین عذابوں سے ہلاک کیا ہے تمہارا بھی وہی حشر ہوگا۔ ” ان مشرکی مکۃ کانوا یطلبون العقوبۃ بدلا من العافیۃ استہزاء منھم الخ “ (مظہری ج 5 س 216) ۔ ” وَ قَدْ خَلَتْ الخ “ جملہ حالیہ ہے۔ ” والحال انہ مضت العقوبات الفاضحۃ النازلۃ علی امثالھم من المکذبین المستہزئین “ (روح ج 12 ص 106) ۔ 8:۔ باوجود اس کے کہ لوگ گناہ کرتے اور اللہ کی نافرمانی کرکے اپنی جانوں پر طلم کرتے ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ تائبین سے در گذر فرماتا ہے مگر اس کا عذاب بھی بڑا ہی دردناک ہے اور وہ عذاب دینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ یہ بشارت اور تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 ۔ اور اے پیغمبر عافیت اور بھلائی سے پہلے یہ لوگ آپ سے برائی اور مصیبت طلب کرنے کا تقاضا اور جلدی کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے بہت سے عذاب کے واقعات گزر چکے ہیں یہ امر یقینی ہے کہ آپ کا پروردگار لوگوں کو ان کی زیادتیوں کے باوجود معاف کرتا رہتا ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا پروردگار سخت سے سخت سزا دینے والا بھی ہے ۔ یعنی عافیت سے پہلے عذاب طلب کرتے ہیں اور آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں حالانکہ عذاب کوئی ایسی مستبعد چیز تو نہیں ہے کہ کبھی آیا نہ ہو ان سے پہلوں پر بارہا آچکا ہے جسکی مثالیں اور واقعات گزر چکے ہیں یہ واقعہ ہے کہ حضرت حق تعالیٰ خطائوں پر چشم پوشی بھی فرماتا ہے اور جب کسی کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بھی بڑی سخت ہوتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں برائی چاہتے ہیں آگے بھلائی سے یعنی ایمان نہیں قبول کرتے کہ تب خوبی پاویں انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں عذاب لے آئو اور پہلے ہوچکی ہیں کہاوتیں یعنی عذاب ویسے جن کی کہاوتیں چلی ہیں ۔ 12