Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 7

سورة الرعد

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ٪﴿۷﴾  7

And those who disbelieved say, "Why has a sign not been sent down to him from his Lord?" You are only a warner, and for every people is a guide.

اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی ( معجزہ ) کیوں نہیں اتاری گئی ۔ بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators ask for a Miracle Allah says: وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَيْهِ ايَةٌ مِّن رَّبِّهِ ... And the disbelievers say: "Why is not a sign sent down to him from his Lord!" Allah states that out of their disbelief and stubbornness, the idolators asked why is not a miracle sent down to the Messenger from his Lord, just like the earlier Messengers. For instance, the disbelievers were being stubborn when they asked the Prophet to turn As-Safa into gold, to remove the mountains from around them, and to replace them with green fields and rivers. Allah said, وَمَا مَنَعَنَأ أَن نُّرْسِلَ بِالاٌّيَـتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الاٌّوَّلُونَ And nothing stops Us from sending the Ayat but that the people of old denied them. (17:59) Allah said here, ... إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ... You are only a warner, and your duty is only to convey Allah's Message which He has ordered you, لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ Not upon you is their guidance, but Allah guides whom He wills. (2:272) Allah said; ... وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ And to every people there is a guide. meaning that for every people there has been a caller, according to Ibn Abbas and as narrated from him by Ali bin Abi Talhah. Allah said in a similar Ayah, وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خَلَ فِيهَا نَذِيرٌ And there never was a nation but a warner had passed among them. (35:24) Similar has reported from Qatadah and Abdur-Rahman bin Zayd.

اعتراض برائے اعتراض کافر لوگ ازروئے اعتراض کہا کرتے تھے کہ جس طرح اگلے پیغمبر معجزے لے کر آئے ، یہ پیغمبر کیوں نہیں لائے ؟ مثلا صفا پہاڑ سونے کا بنا دیتے یا مثلا عرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اور یہاں سبزہ اور نہریں ہو جاتیں ۔ پس ان کے جواب میں اور جگہ ہے کہ ہم یہ معجزے بھی دکھا دیتے مگر اگلوں کی طرح ان کی جھٹلانے پر پھر اگلوں جیسے ہی عذاب ان پر آجاتے ۔ تو ان کی باتوں سے مغموم ومتفکر نہ ہو جایا کر ، تیرے ذمے تو صرف تبلیغ ہی ہے تو ہادی نہیں ، ان کے نہ ماننے سے تیری پکڑ نہ ہو گی ۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، یہ تیرے بس کی بات نہیں ۔ ہر قوم کے لئے رہبر اور داعی ہے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہادی میں ہوں تو تو ڈرانے والا ہے ۔ اور آیت میں ( وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 24 ؀ ) 35- فاطر:24 ) وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 24 ؀ ) 35- فاطر:24 ) ہر امت میں ڈرانے والا گزرا ہے اور مراد یہاں ہادی سے پیغمبر ہے ۔ پس پیشوا رہبر ہر گروہ میں ہوتا ہے ، جس کے علم وعمل سے دوسرے راہ پا سکیں ، اس امت کے پیشوا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے وقت آپ نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے فرمایا منذر تو میں ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے علی تو ہادی ہے ، میرے بعد ہدایات پانے والے تجھ سے ہدایت پائیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ اس جگہ ہادی سے مراد قریش کا ایک شخص ہے ۔ جنید کہتے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہادی ہونے کی روایت کی ہے لیکن اس میں سخت نکارت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنادیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر ! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔ 7۔ 2 یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ (وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) فاطر۔ ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] حسی مطا لبات کے پورا ہونے پر بھی کافر ایمان نہیں لا تے۔ یعنی انھیں کوئی ایسا حسی معجزہ درکار ہے جس سے ان کو یقین آئے کہ آپ فی الواقع اللہ کے نبی ہیں اور سچے ہیں۔ حالانکہ منکرین حق ایسے حسی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لایا کرتے۔ کیا صالح کے معجزہ اونٹنی کو دیکھ کر ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی تھی۔ یا عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اور یدبیضا دیکھ کر ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی تھی یا سیدنا عیسیٰ جو مردوں کو زندہ کرتے تھے تو یہود ان پر ایمان لے آئے تھے ؟ ایسے معجزات دیکھ کر بھی معاندین ایمان نہیں لاتے بلکہ ان کی دوسری مادی توجیہات بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ لہذا اگر مشرکین مکہ قرآن کے دلائل اور کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کے لیے حسی معجزات بھی بےکار ہیں۔ آپ یہ فکر چھوڑ دیں۔ آپ صرف انھیں سیدھی راہ دکھانے اور انجام سے ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ہم نے جو رہنما بھیجا، اس کا اتنا ہی کام ہوتا تھا۔ منکرین کے ایسے مطالبات کو پورا کرنا نہیں ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ ۭ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی ایک اور کمینگی کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ کفار تمام انبیاء کی آیات (معجزوں) سے بڑی آیت (بڑا معجزہ یعنی قرآن مجید) دیکھنے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ اس پر کوئی آیت (معجزہ) نازل کیوں نہیں ہوئی۔ ان کے مطالبوں کی مثال دیکھنی ہو تو دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) آیت یعنی نشانی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک تنزیلی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترنے والے احکام و آیات اور دوسری تکوینی یعنی جن کا مقابلہ کرنے سے ساری کائنات عاجز ہو۔ قرآن میں دونوں خوبیاں ہیں، اس میں ہدایت کی آیات بھی ہیں اور ساری دنیا کو پہلے پوری کتاب، پھر اس جیسی دس سورتیں اور پھر صرف ایک سورت جیسی سورت لانے کا چیلنج قیامت تک کے لیے ہے، جس کا جواب کافر آج تک نہیں دے سکے، کفار کی خست دیکھو پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتری۔ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر بھی تھے اور منذر بھی، مگر یہاں آپ کی صفت صرف منذر بیان فرمائی، کیونکہ ذکر کفار کا ہے۔ ” مُنْذِرٌ“ اور ” هَادٍ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، یعنی اللہ پر ایمان نہ لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے والے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر قوم کے لیے ایک عظیم رہنما ہوتا ہے۔ آپ کا کام کرشمے دکھانا نہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری لوگوں کو کفر کے برے انجام سے ڈرانا ہے، اس لیے آپ کرشمے دکھانے والے نہیں بلکہ صرف ایک عظیم ہادی، یعنی ڈرانے اور آگاہ کرنے والے ہیں۔ (” انما “ کے ساتھ یہ حصر اضافی ہے، یعنی معجزہ دکھانے والے کے بجائے منذر ہیں، یہ نہیں کہ آپ منذر کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں) پھر قوموں کو رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ عظیم رہنما بھی ہیں، لہٰذا ان کے بےجا مطالبے سے پریشان نہ ہوں۔ مستدرک حاکم (٣؍١٢٩، ح : ٤٦٤٦) میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علی (رض) نے اس آیت (اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) کے ضمن میں فرمایا : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منذر ہیں اور میں ہادی ہوں۔ “ مگر یہ روایت صحیح نہیں ہے، پھر خلافت بلا فصل پر اس سے استدلال بھی غلط ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اللہ کی طرف سے منذر ہیں اور وہی ہادی ہیں، پھر وہ لوگ جنھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم اور دین یعنی خالص کتاب و سنت کو (نہ کہ لوگوں کی رائے اور قیاس کو) دعوت و جہاد کے ذریعے آگے پہنچایا، پہنچا رہے ہیں اور پہنچاتے رہیں گے، مثلاً خلفائے اربعہ، صحابہ کرام، مجاہدین اسلام، محدثین اور عادل قاضی اور خلفاء (اللہ سب پر راضی ہو) سب آپ کے خلف صدق ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(that is, in order to raise an objection against the prophethood of Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، they say) &Why has the specific miracle they demand has not been shown by him?& The answer is clear. The showing of a miracle is not within the control of a prophet or messen¬ger. Instead, that is directly an act of God. It is He who elects to show a miracle, of whatever kind, at any time, and in His wisdom - all as deter-mined by Him alone. He is not restricted by or burdened with anyone&s demand or desire. Therefore, it was said: إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ (You are but a warner), that is, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is there only to warn disbelievers against Divine punishment - showing miracles is not his mission. Said in the last sentence of the verse was: وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ۔ It means that there have been guides for every people among past communities. You are not the lone prophet. The standard mission of all prophets was to guide their people, warn them of the punishment of Allah, but none of them were given the power and control to show miracles. It is Allah who shows miracles of His choice whenever He chooses to do so. Is it Necessary that a Prophet appears among every People and in every Country? The statement: &And for every people there is a guide& proves that no people and no region can remain unvisited by those who call towards Allah Ta ala and guide people to the straight path. It may be some prophet himself, or could be someone propagating the call of his deputy - as it appears in Surah Y’ Sin where the initial sending of two persons as de-puties to the prophet of the time to a certain people has been mentioned. Sent to carry the call and give guidance, these two persons were proph¬ets in their own right. Then, also mentioned there is the sending of a third person to help and support them in their mission. Therefore, this verse does not make it necessary that some prophet or messenger of Allah has also appeared in India. However, it stands proved that learned people who carried the call of the prophet and told people about his teachings came to this part of the world as well. Then, it is already common knowledge that many such &guides& have also ap¬peared here. Upto this point, in the first three verses cited above, there was the answer of the doubts expressed by the deniers of prophethood. In the fourth verse (8), we see a return to the principal theme of Tauhid (The Oneness of Allah) which started appearing since the beginning of the Surah.

(آیت) وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی یہ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت پر اعتراض کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ان پر خاص معجزہ جس کو طلب کرتے ہیں وہ کیوں نازل نہیں کیا گیا سو اس کا جواب واضح ہے کہ معجزہ ظاہر کرنا پیغمبر اور نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ براہ راست وہ حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ وہ اپنی حکمت سے جس وقت جس طرح کا معجزہ ظاہر کرنا پسند فرماتے ہیں اس کو ظاہر کردیتے ہیں وہ کسی کے مطالبہ اور خواہش کے پابند نہیں اسی لئے فرمایا (آیت) اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافروں کو خدا کے عذاب سے صرف ڈرانے والے ہیں معجزہ ظاہر کرنا آپ کا کام نہیں وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی ہر قوم کے لئے پچھلی امتوں میں ہادی ہوتے چلے آئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی انوکھے نبی نہیں سب ہی انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ یہ تھا کہ وہ قوم کو ہدایت کریں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں معجزات کا ظاہر کرنا کسی کے اختیار میں نہیں دیا گیا اللہ تعالیٰ جب اور جس طرح کا معجزہ ظاہر کرنا پسند فرماتے ہیں ظاہر کردیتے ہیں۔ کیا ہر قوم اور ہر ملک میں نبی آنا ضروری ہے ؟ اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے اس سے ثابت ہوا کہ کوئی قوم اور کوئی خطہ ملک اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہدایت کرنے والوں سے خالی نہیں ہوسکتا خواہ وہ کوئی نبی ہو یا اس کے قائم مقام نبی کی دعوت کو پھیلانے والا ہو جیسا سورة یسین میں نبی کی طرف سے کسی قوم کی طرف پہلے دو شخصوں کو دعوت و ہدایت کے لئے بھیجنے کا ہے جو خود نبی نہیں تھے اور پھر تیسرے آدمی کو ان کی تائید ونصرت کے لئے بھیجنا مذکور ہے۔ اس لئے اس آیت میں یہ لازم نہیں آتا کہ ہندوستان میں بھی کوئی نبی و رسول پیدا ہوا ہو البتہ دعوت رسول کے پہونچانے اور پھیلانے والے علماء کا کثرت سے یہاں آنا بھی ثابت ہے اور پھر یہاں بیشمار ایسے ہادیوں کا پیدا ہونا بھی ہر شخص کو معلوم ہے، یہاں تک تین آیتوں میں نبوت کا انکار کرنے والوں کے شبہات کا جواب تھا چوتھی آیت میں پھر وہی اصل مضمون توحید کا مذکور ہے جس کا ذکر اس سورة کی ابتداء سے آرہا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ۝ۧ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (انما انت منذر ولکل قوم ھاد۔ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک رہنما ہے) حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ ہادی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے نیز قتادہ سے کہ ہر امت کا نبی اس کا ہادی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ ہادی وہ شخص ہے جو حق کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے، حسن، قتادہ، ابو الضحی اور عکرمہ سے مروی ہے کہ ہادی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یہی تاویل درست ہے اس لئے کہ عبارت کی ترتیب اس طرح ہے (انما انت منذرو ھاد لکل قوم) تم ہر قوم کو خبردار کرنے والے اور ہدایت دینے والے ہو) منذر کو ہادی کہتے ہیں اور ہادی کو منذر۔ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر یوں بھی کہتے ہیں کہ ان پر خاص معجزہ کیوں نہیں اتارا گیا جیسا کہ پہلے انبیاء (علیہ السلام) پر معجزات نازل کیے گئے تھے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو صرف عذاب خدا سے ڈرانے والے رسول ہیں، اور ہر ایک قوم کے لیے نبی ہوتے چلے آئے، یا یہ کہ داعی جو ان کو گمراہی سے نجات دے کر ہدایت کی طرف دعوت دیتے رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ) مشرکین مکہ بار بار اسی دلیل کو دہراتے تھے کہ اگر آپ رسول ہیں تو آپ کے رب کی طرف سے آپ کو کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں دیا گیا ؟ (اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) جس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اسی طرح آپ کو بھی ہم نے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہے۔ آپ کے ذمہ ان کی تبشیر ‘ تنذیر اور تذکیر ہے۔ آپ اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. This showed their mentality. The only criterion of judging whether Muhammad (peace be upon him) was a true Prophet or not according to these disbelievers, was whether he would perform a miracle to them. This was because they would not judge his message by rational arguments: they would not learn a lesson from his high character nor from the moral revolution that was being brought about among his companions by his message and noble example: nor would they carefully consider the rational arguments given in the Quran to prove the errors of their religion of shirk and superstitions of ignorance. They would ignore these rational things and demand a miracle to decide the issue. 16. This is the concise answer to their demand, though it has not been directly addressed to the disbelievers but to the Messenger (peace be upon him). It is this: O Prophet, you should not worry at all about some miracle which you might show to these people in order to convince them, for it is not a part of your mission. Your duty is only to warn the people of their negligence and of the evil consequences of their wrong ways. And for this purpose, We have always sent a guide to every people. Now you, too, are performing this duty, and it is for them to open their eyes and judge the truth of your Message. After giving this concise answer, Allah overlooks their demand but warns them, in the succeeding verses, that they have to deal with the All- Knowing Allah Who has full knowledge about everyone of them from the time they were in the wombs of their mothers, and Who keeps a keen watch over everything they do. Therefore their fates shall be decided strictly with justice in accordance with their merits and that there is no power on the earth and in the heavens that can influence in the least His decisions and judgments.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :15 نشانی سے ان کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر ان کو یقین آجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا ۔ وہ ان معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہام جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیے جا رہے تھے ۔ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو جانچ سکیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :16 یہ ان کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہ راست ان کو دینے کے بجائے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے ۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کر دینا نہیں ہے ۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور ان کو غلط روی کے برے انجام سے خبردار کرو ۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں ، ہر قوم میں ، ایک نا ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے ۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں ۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے ۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالی ان کے مطالبے کی طرف سے رخ پھیر لیتا ہے اور ان کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو ۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے ، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے ۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے ، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سے معجزات دئیے گئے تھے، لیکن کفار مکہ اپنی طرف سے نت نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ اور جب ان کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہوتا تو وہ یہ بات کہتے تھے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ جواب میں قرآن کریم نے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک پیغمبر ہیں وہ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی مجعزہ نہیں دکھا سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے پاس ایسے پیغمبر بھیجے ہیں ان سب کا یہی حال تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ یہ مشرکوں کا وہی پرانا سوال ہے جس کو بار بار وہ کہہ چکے تھے کہ اگلے رسولوں کو تو بڑی بڑی نشانیاں ملی تھیں حضرت موسیٰ کو عصا اور ید بیضا ملا تھا حضرت صالح کے وقت میں اونٹنی پیدا ہوئی تھی عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے تھے آپ بھی کوئی نشانی دکھلائیے اس صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دیجئے یا یہ پہاڑ یہاں سے اکھڑ کر کہیں دور چلا جاوے اور یہاں ایک خوشنما باغ لگ جائے اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم آپ کو سچا سمجھیں گے اور ایمان لائیں گے اللہ جل شانہ نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ تم ان کے سوال کے پورا ہونے کی زیادہ خواہش نہ کرو تمہارے متعلق تو صرف اتنی بات ہے کہ تم ان لوگوں کو نصیحت کر دو کیونکہ رسول تو فقط خدا کے خوف سے لوگوں کو ڈرانے والے ہیں اور حق کا رستہ دکھانا اللہ کے اختیار میں ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق ہر شخص کا دوزخ یا جنت میں ٹھکانا مقرر ہوچکا ہے اس لئے دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہر کوئی اپنے مقررہ ٹھکانے میں جانے کے قابل کام کرتا ہے۔ یہ حدیث ( انما انت منذر ولکل قوم ھاد) کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے کے مطلب کو اللہ کے رسول نے اس حدیث کے ذریعہ سے امت کے لوگوں کو یوں سمجھا دیا کہ رسولوں کا کام فقط نصیحت کا کردینا ہے اور اس نصیحت کا اثر اللہ کے علم ازلی کے نتیجہ پر منحصر ہے جو اللہ کے اختیار میں ہے۔ زوائد مسند امام احمد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو جو ہادی فرمایا ہے اس حدیث کی سند معتبر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:7) لولا ۔ کیوں نہیں۔ ایۃ۔ سے مراد یہاں معجزہ ہے (یعنی معجزے تو ان کو بار ہا دکھائے گئے لیکن ہر دفعہ کسی نئے معجزہ کا وہ مطالبہ کرتے رہے) ۔ منذر۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ انذار (افعال) مصدر۔ ڈرانے والا۔ ھاد۔ اصل میں ھادی تھا۔ اسم فاعل واحد مذکر ھدایۃ مصدر (باب ضرب) راستہ بتانے والا۔ ہدایت کرنے والا۔ ولکل قوم ھاد۔ اور ہر قوم کے لئے آپ ہادی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوا ہے جیسے پہلے انبیاء (علیہم السلام) اپنی اپنی قوموں کی طرف ہدایت کے لئے بھیجے گئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ جسے دیکھ کر ہمیں پتلا چل جاتا کہ یہ واقعی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ 8 ۔ ی سے خلفاء اربعہ (رض) اور سلف (رح) کہ اس امت کے بادی ہو گزرے ہیں۔ مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں منذر ہوں اور تو ہادی ہے۔ “ مگر یہ روعایت صحیح نہیں ہے پھر خلافت بلافصل پر اس سے استدلال بھی غلط ہے۔ کما لا یخفی (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کا منکر ہونے کی وجہ سے کفار جلد بازی کا مظاہرہ کرکے دنیا میں عذاب کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ آخرت کا انکار کرنے والے شخص میں خدا خوفی کا تصور بالآخرختم ہوجاتا ہے۔ جس کی بنا پر اس سے ایسے گناہ اور جرائم سرزد ہوتے ہیں جس کا ایماندار شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آخرت کے انکار کی وجہ سے کفار جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر تو واقعی اللہ کا پیغمبر اور یہ قرآن من جانب اللہ ہے تو اس کا انکار کرنے کی وجہ سے ہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نے کفار کے اس مطالبے کا مختلف انداز میں جواب دیا ہے۔ یہاں اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ لوگ کس قدر ناعاقبت اندیش ہیں۔ نیکی کی بجائے برائی اچھائی کی بجائے خرابی میں عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان سے پہلی اقوام جنہوں نے عذاب کا مطالبہ کیا ان کا انجام کیسا ہوا۔ آخرت کے منکر اپنے رب سے خیر اور اچھائی طلب کرنے کی بجائے بار بار آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان سے فرمائیں کہ عذاب لانا میرے اختیار میں نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ سو میں تمہیں مسلسل انتباہ کر رہا ہوں۔ اگر تم نے اپنی حالت نہ بدلی تو اللہ کا عذاب تمہیں آلے گا۔ انہیں یہ بھی فرمائیں کہ تم سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ہادی مبعوث فرمائے تھے۔ جن کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ رہی بات ان لوگوں کے فکرو عمل کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے جرائم اس قدر زیادہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر سخت عذاب نازل کرے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں پر فوری پکڑنے کی بجائے اپنے فضل وکرم سے بار بار درگزر کرتا اور مہلت دیتا ہے۔ اسی بنا پر انہیں ڈھیل پر ڈھیل دی جارہی ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے یہ لوگ اس قدر دلیر ہوچکے ہیں کہ آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ آپ کا رب شدید گرفت کرنے والا ہے جب وہ کسی فردیا قوم کو پکڑتا ہے تو پھر ولی کی ولایت اور کسی طاقتور کی طاقت مجرموں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا نہیں سکتی اس لیے انہیں اپنے سے پہلی اقوام کا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ اے نبی تو انھیں اللہ کی پکڑ سے ڈرانے والے ہیں لہٰذا آپ انھیں ڈراتے جائیں ہر قوم کے لیے ایک ڈرانے والا ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت مانگنے کی بجائے عذاب مانگتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سخت سزاد ینے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ٤۔ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کے باوجود درگزر کرنے والا ہے۔ ٦۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈرانے والا بناکر بھیجا گیا۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام کا انجام : ١۔ یہ لوگ عذاب الٰہی میں جلدی کرتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عذاب آنے کے واقعات گزرچکے ہیں۔ (الرعد : ٦) ٢۔ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ اللہ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٥۔ قوم لوط پر جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے ان پر ان کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش کی۔ (ھود : ٨٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرمائشی معجزہ طلب کرنے والوں کا عناد : پھر فرمایا (وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ) (یعنی کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ اگر آپ رسول ہیں تو آپ کی تصدیق اور تائید کے لیے وہ معجزہ ظاہر ہونا چاہئے جو ہم چاہتے ہیں) جاہلوں نے ضد وعناد اور ایمان لانے سے انکار کرنے کے لیے جو حیلے تراشے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم جو معجزہ چاہتے ہیں وہ ظاہر ہونا چاہئے۔ در حقیقت معجزہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور فضل ظاہر کیا جاتا تھا اصل چیز تو دلائل ہیں جب دلائل سے حق واضح ہوگیا اور نبی کی نبوت ثابت ہوگئی تو نبی پر ایمان لانا فرض ہوجاتا تھا لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل ہوتا تھا معجزات ظاہر ہوجاتے تھے۔ جن لوگوں کو ماننا نہ تھا وہ نہ دلائل سے مانتے تھے اور نہ معجزہ دیکھ کر ایمان لاتے تھے ان کے کہنے کے مطابق بھی بعض معجزات ظاہر ہوئے لیکن جنہیں عناد تھا اور ماننا نہ تھا انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے ‘ فرمائشی معجزوں کی بات کرنا قبول حق کے لیے نہیں تھا بلکہ اپنی ضد پر قائم رہنے کے لیے تھا۔ پھر فرمایا (اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ) کہ آپ ان کی باتوں سے دل گیر نہ ہوں آپ کا کام بس حق کا پہنچا دینا اور عذاب آخرت سے ڈرانا ہے ‘ لوگوں سے منوانا آپ کے ذمہ نہیں ہے اگر یہ کسی خاص معجزہ کی فرمائش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اسے ظاہر نہیں فرماتا اور اس کو وہ عدم قبول کا بہانہ بناتے ہیں تو آپ فکر مند نہ ہوں ‘ جب آپ نے انذار و تبلیغ کا کام کردیا تو آپ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے ماننا ان کا کام ہے ‘ پھر فرمایا ولکل قوم ھاد یعنی آپ سے پہلے بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) اقوام عالم کو ہدایت دینے کے لیے مبعوث ہوتے رہے ان کی بھی تکذیب کی گئی ان کی اقوام میں سے کسی نے حق قبول کیا اور کسی نے رد کردیا جو ان کے ساتھ ہوا وہی آپ کے ساتھ ہو رہا ہے ‘ منکرین کے طرز عمل سے رنجیدہ نہ ہوں صبر کریں اور اپنا کام کرتے رہیں سورة احقاف میں فرمایا (فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ ) (سو آپ صبر کیجئے جیسا کہ اولوا لعزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے عذاب آنے کی جلدی نہ کیجئے) ۔ فائدہ : ولکل قوم ھاد فرمایا ‘ ولکل قوم نبی نہیں فرمایا۔ ھادی کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں حضرات انبیاء کرام ( علیہ السلام) کی امتوں میں جو اہل علم تھے وہ اپنے اپنے نبی کی امتوں کو ہدایت دیتے رہے ‘ اگر دنیا کے کسی خطے میں کسی نبی کے تشریف لانے کا تحقیقی ثبوت نہ ملے تو اس آیت کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا نبی نہ آئے تو ان کے نائب ھادی ضرور آئے گو ہمیں ان سب کی تفصیل معلوم نہ ہو ‘ نیز یہ بھی سمجھ لینا چاہئے جس کسی کی نبوت کا ثبوت نہ ہو اسے خواہ مخواہ اس لئے نبیوں کی فہرست میں شمار کرلینا کہ اقوام عالم میں سے کوئی نہ کوئی قوم اس کی طرف منسوب ہوتی ہے اور ان کے مذہب کا پیشوا اور بانی ہے یہ غلط ہے اور گمراہی ہے بعض لوگ ہندوؤں ‘ بدھوں اور زرتشتوں کے بڑوں کو نبی ماننے کو تیار ہیں ‘ یہ ضالت اور جہالت کی بات ہے ‘ یہ لوگ آیت کریمہ (وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ) سے استدلال کرتے ہیں اول تو آیت میں لفظ ھاد ہے لفظ نبی ہوتا تب بھی کسی کو بلا دلیل شرعی محض اٹکل سے نبی ماننا غلط ہے ‘ پھر ان اقوام کے پیشواؤں کی تعلیمات نقل ہوتی چلی آرہی ہیں ان میں شرک ہے اور ان میں سے بعض لوگوں کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں وہ ننگی تصویریں ہیں کوئی نبی ننگا نہیں رہ سکتا ‘ شرم اور حیاء تو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا خصوصی شعار ہے ننگا رہنے والا کیسے نبی ہوسکتا ہے ؟ ہاں یہ ایک احتمال ہے کہ جو حضرات موحد تھے ان کے ماننے والوں نے ان کے دین میں شرک داخل کردیا ہو اور ان کی ننگی تصویریں خود سے تجویز کردی ہوں لیکن یقین کرنے کا کوئی راستہ نہیں اور بلا دلیل شرعی کسی کی نبوت کا اعتقاد رکھنا بھی باطل ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم فرمانے کا اعلان فرما دیا تو ان کے بعد کسی کا دعوائے نبوت کرنا اور اس کی تصدیق کرنا سراپا کفر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9: یہ شکویٰ ہے۔ یہ ضدی اور معاند لوگ بات اس قدر واضح اور ظاہر ہونے کے باوجود نہیں مانتے اور ٓپ سے معجزہ طلب کرتے ہیں۔ ” اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ الخ “ جواب شکوی ہے۔ معجزہ لانا آپ کے اختیار میں نہیں۔ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں آپ کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچانا ہے جس طرح پہلے انبیاء اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام دیتے اور انہیں اللہ کی توحید کی طرف بلاتے رہے (وَ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ) من الانبیاء یھدیھم الی الدین و یدعوھم الی اللہ الخ (مدارک ج 3 ص 187) ۔ پہلی عقلی دلیل دعوی اولیٰ (اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں) کے لیے تھی اور یہاں تک بشارتیں، تخویفیں، زجریں اور شکوے بھی سی دعوی سے متعلق تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 ۔ اور یہ دین حق کے منکروں کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر جو معجزہ ہم چاہتے ہیں وہ منہ مانگا معجزہ کیوں نہیں نازل ہوا ۔ اے پیغمبر آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور آپ کا کام تو صرف ڈر سنا دینا ہے بلکہ ہر قوم کے لئے کوئی نہ کوئی ہادی اور رہنما ہوا ہے۔ یعنی معجزوں کی فرمائش کا پورا کرنا آپ کے اختیار میں نہیں آپ تو کافروں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ، پھر یہ کہ آپ کوئی انوکھے پیغمبر نہیں ہیں بلکہ ہر قوم میں ہادی ہوتے چلے آئے ہیں خواہ ہر قوم میں کوئی بالذات پیغمبر اور رسول آیا ہو یا رسول کا رسول آیا ہو کسی ہادی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو معجزہ تم مانگو گے وہ ضرور تم کو دکھایا جائیگا اور ایسے ہی رسول تم بھی ہو تمام بنی نوع انسان کے لئے وہ خاص قوموں کے ہادی ہوتے تھے آپ کل عالم کے ہادی ہیں۔