Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 1

سورة إبراهيم

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۱﴾

Alif, Lam, Ra. [This is] a Book which We have revealed to you, [O Muhammad], that you might bring mankind out of darknesses into the light by permission of their Lord - to the path of the Exalted in Might, the Praiseworthy -

الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Describing the Qur'an and warning Those Who defy it Allah says, الَر ... Alif-Lam-Ra. Previously we discussed the meaning of the separate letters that appear in the beginnings of some Surahs. ... كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ ... (This is) a Book which We have revealed unto you... Allah says, `This is a Book that We have revealed to you, O Muhammad. This `Book', is the Glorious Qur'an, the most honored Book, that Allah sent down from heaven to the most honored Messenger of Allah sent to all the people of the earth, Arabs and non-Arabs alike, ... لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ... in order that you might lead mankind out of darkness into light, We sent you, O Muhammad, with this Book in order that you might lead mankind away from misguidance and crookedness to guidance and the right way,' اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ ءامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَأوُهُمُ الطَّـغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَـتِ Allah is the Wali (Protector or Guardian) of those who believe. He brings them out from darkness into light. But as for those who disbelieve, their Awliya (supporters and helpers) are Taghut (false deities), they bring them out from light into darkness. (2:257) and, هُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ It is He Who sends down manifest Ayat to His servant that He may bring you out from darkness into light. (57:9) Allah said next, ... بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ... by their Lord's leave, He guides those whom He destined to be guided by the hand of His Messenger, whom He sent to guide them by His command, ... إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ ... to the path of the All-Mighty, Who can never be resisted or overpowered. Rather, Allah is Irresistible above everything and everyone else, ... الْحَمِيدِ the Praised. Who is glorified and praised in all His actions, statements, legislation, commandments and prohibitions and Who only says the truth in the information He conveys. Allah's statement,

حوف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے ۔ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے ۔ اللہ کی دوسری قرأت اللہ بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) ، میں ۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے ۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لئے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی ۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا ' (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 57 ۔ الحدید :9) سورة الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے ' (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ :257) ۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔ 1۔ 2 یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کرلیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کرلے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کرسکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] ہدایت اور اللہ کا اذن ؟ روشنی یا نور کے مقابلہ میں تاریکی نہیں بلکہ تاریکیاں فرمایا اس لیے صراط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور اسی صراط مستقیم کو روشنی سے تعبیر فرمایا جبکہ ٹیڑھی یا باطل کی راہیں لاتعداد ہوسکتی ہیں اور یہ سب گمراہی کے راستے ہیں اس لیے ان سب راستوں کو تاریکیوں سے تعبیر کیا۔ گویا اس کتاب قرآن کریم کو اتارنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو باطل کی تمام راہوں سے ہٹا کر صراط مستقیم پر لائیں۔ اور یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگوں کے پروردگار کو بھی انھیں راہ راست پر لانا منظور ہو۔ اور اس منظوری کا قانون یہ ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے اللہ یقیناً ہدایت کی توفیق دیتا ہے اور یہی اس کی منظوری یا اذن ہوتا ہے لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کریں انھیں اللہ ہدایت کی توفیق نہیں بخشتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الۗرٰ : حروف مقطعات کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ :” كِتٰبٌ“ کو ” الۗرٰ “ کی خبر بنائیں تو معنی ہوگا کہ ” الۗرٰ “ ایک کتاب ہے، یعنی وہ حروف تہجی جن سے تمہارا کلام وجود میں آتا ہے، انھی سے یہ کتاب وجود میں آئی ہے، اگر مقابلے کی ہمت ہے تو آؤ انھی حروف سے تم صرف ایک سورت ہی بنادو ۔ ایک صورت یہ ہے کہ اسے مبتدا محذوف ” ھٰذَا “ کی خبر بنالیں، پھر معنی ہوگا، یہ ایک کتاب ہے۔ ” نازل کیا “ کے لفظ سے اس کا بلندی سے اترنا اور اللہ تعالیٰ کا بلندی پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کو نہ لامکان کہہ سکتے ہیں اور نہ ہر جگہ میں کہہ سکتے ہیں، بلکہ وہ بلند ہے، عرش پر ہے۔ ” ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا “ سے اس کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔ لِتُخْرِجَ النَّاسَ : یعنی یہ کتاب آپ پر نازل کی، تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نکالیں۔ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث جو کتاب یعنی قرآن ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور رسول کو محض ڈا کیا قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرما کر اس میں بار بار رسول کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، مثلاً دیکھیے آل عمران (٣١، ٣٢) ۔ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ : یعنی کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف۔ ” اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ “ یہ ” اِلی النُّوْرِ “ ہی سے بدل ہے اور اسی کی وضاحت ہے، یعنی وہ نور کیا ہے، اس عزیز وحمید کا راستہ ہے جس کا نام نامی اللہ ہے، وہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کا اکیلا مالک ہے۔ لفظ ” الظُّلُمٰتِ “ کو جمع اور ” النُّوْرِ “ کو واحد لانے سے صاف ظاہر ہے کہ نور یعنی راہ ہدایت صرف ایک ہے یعنی اسلام، جبکہ تاریکیاں اور گمراہیاں بیشمار ہیں جو سب کی سب کفر کی مختلف صورتیں ہیں۔ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ : اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی سیدھی راہ کی طرف لاسکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لاسکتا ہے۔ ابوطالب، آزر، ابن نوح اور نوح و لوط (علیہ السلام) کی بیویاں اس کی واضح مثالیں ہیں کہ رب کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے کفر کے اندھیروں سے نہیں نکل سکے۔ وَوَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ : ” وَيْلٌ“ پر تنوین تعظیم کی ہے، معنی ہے بڑی ہلاکت، یعنی دنیا میں بھی ان کے لیے بربادی ہی بربادی ہے۔ ( دیکھیے توبہ : ٥٥۔ طٰہٰ : ١٢٤ تا ١٢٧) اور قیامت کے دن تو ان کی اس سے بھی بڑھ کر شامت آنے والی ہے۔ دنیا میں کفار کے لیے ” وَيْلٌ“ کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ خودکشی کی شرح آپ سب سے زیادہ کفار میں پائیں گے، خصوصاً جو ان میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، مثلاً جاپان وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Surah and Its Subjects Beginning here is Surah Ibrahim, the fourteenth Surah of the Holy Qur&an. This Surah is Makki. It was revealed before Hijrah with the ex¬ception of some verses about which difference exists whether they are Makki or Madani. In the beginning of the Surah, there is a description of the attributes of the mission of messengers and prophets which is followed by the theme of Tauhid, the Oneness of Allah, and its proofs. It was in this con¬nection that the story of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was introduced and it was in this context that the Surah was named: Surah Ibrahim. The Surah opens with the words: الر‌ ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِ‌جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ (Alif, Lam, Ra. This is a book We have sent down to you, that you may take the people out of (all sorts of) darkness into the light with the will of their Lord). The initial letters - Alif, Lam, Ra - are from among the Isolated Letters (al-huruf al-Muqatta’ at) about which it has been said time and again that there is a standard policy and practice pursued by the most righteous elders in this matter. Their method is the safest and totally doubt-free. It tells us that we should firmly believe and have faith that whatever they mean or signify is true - but, stay away from launching deeper investigations into their meanings. In the sentence which follows immediately: كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ (This is a book sent down to you), it is appropriate and clearly justified in terms of the syntactical construction that it should be taken as the predicate of the word: ھَذَا (hadha: this) understood here, and the sentence should mean that &this is a book which We have sent down to you.& By attribut¬ing the revelation of the book to Allah Ta’ ala here, and the address to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) a hint has been released which points out to two things. First, it says that this book is great as it was revealed by Allah Ta` ala Himself, and then it is suggestive of the personal high station of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as he has been made its first addressee. Said in the next sentence was: لِتُخْرِ‌جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ بِإِذْنِ رَ‌بِّهِمْ (that you may take the people out of (all sorts of) darkness into the light with the will of their Lord). The word: النَّاسَ (an-nas : people) is used for human-kind. It means all human beings who are present or will come in the fu¬ture. The word: الظُّلُمَاتِ (az-zulumat), the plural of ظُلُمَات (zulmah) which means darkness is well-known. Here, &zulumat & refers to the darkness of Kufr (infidelity, disbelief) and Shirk (the ascribing of partners to Allah) and the darkness of evil deeds - and the word: النُّورِ‌ (an-nur) means light, the light of faith. Therefore, the word: الظُّلُمَاتِ (az-zulumat: many a dark¬ness) has been used here in its plural form, because there are many kinds and shades of Kufr and Shirk. And similarly, there are countless evil deeds too. But, the word: النُّورِ‌ (an-nur: the light of faith) has been introduced in the singular form, because faith and truth are one and the same. The sense of the verse is: We have sent this book to you so that, through it, you may deliver all peoples of the world from the multiple forms of darkness of Kufr and Shirk and evil deeds, and bring them out into the light of faith and truth, with the will of their Lord. Here, the par¬ticular use of the expression: رَ‌بِّهِمْ (Rabbihim : their Lord) indicates that there is no other reason or intention behind this universal blessing of Allah Ta` ala, but that He would let human beings of the world be de-livered from every such darkness through His Book and Messenger. Indeed, it is the compassion and mercy which the Creator and Master of the entire humankind has, under the imperative of His being their Lord, always kept beaming on them. Otherwise, Allah Ta ala owes nothing to anyone, nor there is a right due against Him, nor is there anyone who can force Him to do anything. Guidance is an Act of God In this verse, taking people out from darkness into the light has been declared to be the act of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، although giving Hidayah or guidance is, in reality, an act of Allah Ta` ala alone - as it has been said in another verse of the Qur&an: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ that is, you cannot, on your own, give guidance to anyone, but it is Allah alone who gives guidance to whom He wills - 28:56). Therefore, by adding: بِإِذْنِ رَ‌بِّهِمْ (with the will of their Lord), this doubt was eliminated because the sense the verse now carries is: This act of bringing people out from the darkness of Kufr and Shirk into the light of faith and good deeds is, though not in your hands originally, but it shall be with the will and permission of Allah Ta’ ala that you could do so.& Rules of Guidance This verse tells us that there is only one way all children of Adam, the humankind on this earth, can be rescued from the evil layers of dark¬ness into light, and the only alternative which can save humanity from the dual destruction in this world and in the Hereafter is no other but that of the Holy Qur’ an. The closer people come towards it, the luckier they would find themselves to be. They will find peace and security and relief and happiness in their present life as well as in the life to come with success at its best. And similarly, the farther they remain from it, the more exposed they shall be to living self-destruct lives both in this world, and in the Hereafter. Not elaborated within the words of the verse is the manner in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will deliver people from the many kinds of darkness and bring them into the light through the Qur&an. But, this much is fair¬ly evident that the usual method of correcting a people through a book is that the teachings of that book be spread out among those people and they be convinced to abide by it. The Recitation of the Holy Qur&an too is a Standing Objective in its own right Apart from what has been stated above, there is yet another charac¬teristic of the Holy Qur&an, that is, its recitation and the reading of its words, even without understanding them, registers a positive effect on the human self. It helps its reciter to stay safe against evils. At least in the case of Kufr and Shirk, no matter how attractive their traps may be, a reciter of the Qur&an, even though he may be reciting it without under-standing it, can never fall into those traps. This has been witnessed in the current history during the Hindu movement of Shudhi Sanghtan. In this mass effort to convert Muslims, some of those who fell a victim to their trap were strangers even to the recitation of the Qur’ an. In our day, Christian missionaries maintain an inviting network fortified by many incentives and rewards in almost every region where Muslims live. But, their success, if any, is restricted only to households and families which are heedless even to the recitation of the Qur&an - whether because of illiteracy and ignorance among them, or because of the per¬verted influence of what passes as new education (pseudo-westernized). Perhaps, it is to point out to this spiritual influence that wherever the Holy Qur&an has described the basic functions of the Holy Prophet t, Recitation (Tilawah) has been mentioned separately and ahead of the need to teach its meanings: يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (3:164; 62:2). It means that the Holy Prophet has been sent to accomplish three tasks. The first task is the recitation of the Holy Qur&an, and it is obvious that Tilawah or Recitation is related to words. As for meanings, they are understood, not recited. The second task is to cleanse people pure from evils. And the third task is to teach the Holy Qur&an, and Wis¬dom, that is, teach the Sunnah of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In short, the Holy Qur’ an is a Book of Guidance the basic purpose of which, no doubt, is to understand its meaning and act in accordance with it. It is also clear that its essential effect is to reform the whole human life, but along with it, the reciting of its words too, brings about a distinct effect in the correction and strengthening of the human self, though in an invisible manner. As partly stated a little earlier, this verse attributes the act of bring¬ing people out from all sorts of darkness into the light with the will of their Lord to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In order to further refine the explana¬tion, it can now be said that by this attribution, it has also been estab¬lished that the giving of guidance is though the act of Allah Ta’ ala in re-ality - but, it cannot be received or acquired without the medium of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The fact is that only that sense or interpretation of the Holy Qur&an is trustworthy which has been communicated to us by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through his word or deed. Any interpretation contrary to it is not reliable. at has been said in the last sentence of verse 1: إِلَىٰ صِرَ‌اطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (to the path of the Mighty, the Praiseworthy,) which goes on to verse 2: اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ (Allah, the One to whom belongs what is in the heavens and what is in the earth) refers back to the statement ap¬pearing in the beginning of verse 1. It is obvious that the mention of darkness and light in the above verse is not referring to the darkness and light which could be seen with naked eyes as a physical phenomenon. Therefore, it was to make it clear that it refers to the way of Allah. Whoever adopts this way would not stray away like the one who walks in darkness, nor do his or her steps falter, nor do they fail to achieve the objective set. So, the way of Allah means the way walking on which human beings could reach their Creator and achieve the ultimate degree of success which is His pleasure. It will be noticed that, at this place, the word: alJ1 (Allah) has been pre-ceded by two of His attributes: الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (Al-` Aziz and Al-Hamid ). Lexi¬cally, Al-` Aziz means Mighty, Overpowering - and Al-Hamid denotes the Being who is deserving of praise. By bringing these two attributes before the basic name of Allah Ta’ ala the hint given is that the Pure and Sa¬cred Being to whom this way is going to lead is Mighty, and Overpower¬ing too, and deserving of all praise as well. Therefore, one who takes to this way will never falter or stumble anywhere enroute, nor the effort made on it will ever go waste. In fact, one is certain to reach the destina¬tion - only if one does not abandon this way.

خلاصہ تفسیر : الۗرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل فرمایا ہے تاکہ آپ (اس کے ذریعہ سے) تمام لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (مرتبہ تبلیغ میں کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف یعنی ذات غالب ستودہ صفات کی راہ کی طرف لاویں (روشنی میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راہ بتلا دیں) جو ایسا خدا ہے کہ اس کی ملک ہے جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے اور (جب یہ کتاب خدا کا راستہ بتلاتی ہے تو) بڑی خرابی یعنی بڑا سخت عذاب ہے ان کافروں کو جو (اس راہ کو نہ تو خود قبول کرتے ہیں بلکہ) دنیوی زندگانی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں (اس لئے دین کی جستجو نہیں کرتے) اور (نہ دوسروں کو یہ راہ اختیار کرنے دیتے ہیں بلکہ) اللہ کی (اس) راہ (مذکور) سے روکتے ہیں اور اس میں کجی (یعنی شبہات) کے متلاشی رہتے ہیں (جن کے ذریعہ سے دوسروں کو گمراہ کرسکیں) ایسے لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں (یعنی وہ گمراہی حق سے بڑی دور ہے) معارف و مسائل : سورۃ اور اس کے مضامین : یہ قرآن کریم کی چودہویں سورة سورة ابراہیم شروع ہوتی ہے یہ سورة مکی ہے قبل از ہجرت نازل ہوئی بجز چند آیات کے جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ مدنی ہیں یا مکی۔ اس سورة کے شروع میں رسالت ونبوت اور ان کی کچھ خصوصیات کا بیان ہے پھر توحید کا مضمون اور اس کے شواہد کا ذکر ہے اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا گیا ہے اور اسی مناسبت سے سورة کا نام سورة ابراہیم رکھا گیا ہے۔ الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ۔ الۗرٰ ان حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے متعلق بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس میں اسلم اور بےغبار طریقہ سلف صالحین کا ہے کہ اس میں ایمان و یقین رکھیں کہ جو کچھ اس کی مراد ہے وہ حق ہے لیکن اس کے معانی کی تحقیق وتفتیش کے درپے نہ ہوں۔ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ میں نحوی ترکیب کے لحاظ سے زیادہ واضح اور صاف بات یہ ہے کہ اس کو لفظ ھذا محذوف کی خبر قرار دی جائے اور جملہ کے معنی یہ ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس میں نازل کرنے کی نسبت حق تعالیٰ شانہ کی طرف اور خطاب کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنے میں دو چیزوں کی طرف اشارہ پایا گیا ایک یہ کہ یہ کتاب نہایت عظیم المرتبہ ہے کہ اس کو خود ذات حق تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے دوسرے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالی مرتبہ ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کو اس کا پہلا مخاطب بنایا ہے لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ۔ لفظ ناس عام انسانوں کے لئے بولا جاتا ہے اس سے مراد تمام عالم کے موجود اور آئندہ آنے والے انسان ہیں الظُّلُمٰتِ ظلمۃ کی جمع ہے جس کے معنی اندھیرے کے معروف و مشہور ہیں یہاں الظُّلُمٰتِ سے مراد کفر و شرک اور بداعمالیوں کی ظلمت ہے اور نور سے مراد ایمان کی روشنی ہے اسی لئے لفظ ظلمت کو بصیغہ جمع لایا گیا کیونکہ کفر و شرک کی بہت سی انواع و اقسام ہیں اسی طرح برے اعمال بھی بیشمار ہیں اور لفظ نور کو بصیغہ مفرد لایا گیا کیونکہ ایمان اور حق واحد ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ یہ کتاب ہم نے اس لیے آپ کی طرف نازل کی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ تمام عالم کے انسانوں کو کفر و شرک اور برے کاموں کی اندھیریوں سے نجات دلا کو ایمان اور حق کی روشنی میں لے آئیں ان کے رب کی اجازت سے یہاں لفظ رب لانے میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عام انسانوں پر یہ انعام کہ اپنی کتاب اور پیغمبر کے ذریعہ ان کو اندھیروں سے نجات دلائیں اس کا سبب اور منشاء بجز اس لطف و مہربانی کے اور کچھ نہیں جو تمام انسانوں کے خالق ومالک نے اپنی شان ربوبیت سے ان پر مبذول کر رکھی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق لازم ہے نہ کسی کا زور اس پر چلتا ہے ہدایت صرف خدا کا فعل ہے : اس آیت میں اندھیری سے نجات دے کر روشنی میں لانے کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل قرار دیا گیا ہے حالانکہ ہدایت دنیا حقیقت میں حق تعالیٰ ہی کا فعل ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ یعنی آپ باختیار خوش خود کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہدایت دیتا ہے اسی لئے اس آیت میں بِاِذْنِ رَبِّھِمْ کا لفظ بڑھا کر یہ شبہ ختم کردیا گیا کیونکہ معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ یہ کفر و شرک کی اندھیریوں سے نکل کر ایمان وعمل صالح کی روشنی میں لانا اگرچہ اصل حقیقت کی رو سے آپ کے ہاتھ میں نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حکم و اجازت سے آپ کرسکتے ہیں ، احکام و ہدایات : اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم اور نوع انسانی کو برائیوں کی اندھیریوں سے نکالنے اور روشنی میں لانے کا واحد ذریعہ اور انسان و انسانیت کو دنیا وآخرت کی بربادی اور ہلاکت سے نجات دلانے کا واحد راستہ قرآن کریم ہے جتنا لوگ اس کے قریب آئیں گے اسی انداز سے اس دنیا میں بھی امن وامان اور عافیت و اطمینان نصیب ہوگا اور آخرت میں بھی فلاح و کامیابی حاصل ہوگی اور جتنا اس سے دور ہوں گے اتنا ہی دونوں جہاں کی خرابیوں بربادیوں مصیبتوں اور پریشانیوں کے غار میں گریں گے آیت کے الفاظ میں یہ نہیں کھولا گیا کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے ذریعہ کس طرح لوگوں کو اندہیریوں سے نجات دے کر روشنی میں لائیں گے لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ کسی کتاب کے ذریعہ کسی قوم کو درست کرنے کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تعلیمات و ہدایات کو اس قوم میں پھیلایا جائے اور ان کو اس کا پابند کیا جائے قرآن کریم کی تلاوت بھی مستقل مقصد ہے : مگر قرآن کریم کی ایک مزید خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت اور بغیر سمجھے ہوئے اس کے الفاظ کا پڑھنا بھی بالخاصہ انسان کے نفس پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کو برائیوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے کم از کم کفر و شرک کے کیسے ہی خوب صورت جال ہوں قرآن پڑھنے والا اگرچہ بےسمجھے ہی پڑھتا ہو ان کے دام میں نہیں آسکتا ہندوؤں کی تحریک شدھی سنگٹھن کے زمانے میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے ان کے دام میں صرف کچھ وہ لوگ آئے جو قرآن کی تلاوت سے بھی بیگانہ تھے آج عیسائی مشنریاں مسلمانوں کے ہر خطہ میں طرح طرح کے سبز باغ اور سنہرے جال لئے پھرتی ہیں لیکن ان کا اگر کوئی اثر پڑتا ہے تو صرف ان گھرانوں پر جو قرآن کی تلاوت سے بھی غافل ہیں خواہ جاہل ہونے کی وجہ سے یا نئی تعلیم کے غلط اثر سے۔ شاید اسی معنوی اثر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم میں جہاں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد بتلائے گئے ہیں وہاں تعلیم معانی سے پہلے تلاوت کا جداگانہ ذکر کیا گیا ہے يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین کاموں کے لئے بھیجا گیا ہے پہلا کام قرآن مجید کی تلاوت ہے اور ظاہر ہے کہ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے معانی سمجھے جاتے ہیں ان کی تلاوت نہیں ہوتی دوسرا کام لوگوں کو برائیوں سے پاک کرنا اور تیسرا کام قرآن کریم اور حکمت یعنی سنت رسول کی تعلیم دینا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جس کے معانی سمجھ کر اس پر عمل کرنا تو اصل مقصد ہی ہے اور اس کا انسانی زندگی کی اصلاح میں مؤ ثر ہونا بھی واضح ہے اس کے ساتھ اس کے الفاظ کی تلاوت کرنا بھی غیر شعوری طور پر انسان کے نفس کی اصلاح میں نمایاں اثر رکھتا ہے۔ اس آیت میں باذن خداوندی اندہیریوں سے نکال کر روشنی میں لانے کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کر کے یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اگرچہ ہدایت کا پیدا کرنا حقیقۃ حق تعالیٰ کا فعل ہے مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ کے بغیر اس کو حاصل نہیں کیا جاسکتا قرآن کریم کا مفہوم اور تعبیر بھی وہی معتبر ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول یا عمل سے بتلا دی ہے اس کے خلاف کوئی تعبیر معتبر نہیں۔ (آیت) صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَافِي السَّمٰوٰتِ وَمَافِي الْاَرْضِ اس آیت کے شروع میں جو ظلمت ونور کا ذکر آیا ہے ظاہر ہے کہ یہ وہ اندہیری اور روشنی نہیں جو عام آنکھوں سے نظر آئے اس لئے اس کو واضح کرنے کے لئے اس جملے میں ارشاد فرمایا کہ وہ روشنی اللہ کا راستہ ہے جس پر گامزن ہونے والا نہ اندھیرے میں چلنے والے کی طرح بھٹکتا ہے نہ اس کو لغزش ہوتی ہے نہ وہ مقصد تک پہنچنے میں ناکام ہوتا ہے اللہ کے راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان خدا تک پہنچ سکے اور اس کی رضا کا درجہ حاصل کرسکے۔ اس جگہ لفظ اللہ تو بعد میں لایا گیا اس سے پہلے اس کی دو صفتیں عزیز اور حمید ذکر کی گئی ہیں عزیز کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے قوی اور غالب کے ہیں اور حمید کے معنی وہ ذات جو حمد کی مستحق ہو ان دو صفتوں کو اصل نام حق سے پہلے لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ جس ذات قدوس کی طرف لے جانے والا ہے وہ قوی اور غالب بھی ہے اور ہر حمد کی مستحق بھی اس لئے اس پر چلنے والا نہ کہیں ٹھوکر کھائے گا نہ اس کی کوشش رائیگاں ہوگی بلکہ اس کا منزل مقصود پر پہنچنا یقینی ہے شرط یہ ہے کہ اس راستہ کو نہ چھوڑے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ ظلم الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ نور النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ حمید إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، ( ح م د ) حمید اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) الر۔ یعنی میں اللہ ہوں جو کچھ تم کہہ رہے ہو اور کر رہے ہو میں سب سے باخبر ہوں یا یہ کہ ایک قسم ہے، یہ ایک کتاب ہے جس کو جبریل امین کے ذریعے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ اہل مکہ کو اپنے پروردگار کے حکم سے کفر سے ایمان کی طرف لائیں اور اس اللہ کے دین کی طرف دعوت دیں جو ایمان نہ لانے والوں کو سزا دینے پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

الۗرٰ اس مقام پر حروف مقطعات کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مکی سورتوں کے اس سلسلے کے پہلے ذیلی گروپ کی تینوں سورتوں (یونس ، ہود اور یوسف) کا آغاز الۗرٰ سے ہو رہا ہے ‘ جبکہ دوسرے ذیلی گروپ کی پہلی سورة (الرعد) ا آمآرٰ سے اور دوسری دونوں سورتیں (ابراہیم اور الحجر) پھر الۗرٰ سے ہی شروع ہورہی ہیں۔ (كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ) قرآن کریم میں اندھیرے کے لیے لفظ ” ظُلُمات “ ہمیشہ جمع اور اس کے مقابلے میں ” نُور “ ہمیشہ واحد استعمال ہوا ہے۔ چونکہ کسی فرد کی ہدایت کے لیے فیصلہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ آپ کا انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کا یہ عمل اللہ کے حکم اور اس کی منظوری سے ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. This is the purpose for which the Prophet (peace be upon him) had been sent. He was entrusted with the mission that he should bring mankind back from the ways of darkness and ways of wickedness into the way of God by the help of the light of the Quran. For everyone who is not on the way of God is, in fact, wandering about in the ways of the darkness and ignorance, even though he might consider himself to be very enlightened and full of knowledge. On the other hand, the one who finds the Way of Allah, comes into the light of knowledge, even though he might be an illiterate person. As regards to “by the permission of their Lord”, this implies that the most a missionary of Islam, even though he be a Messenger of Allah, can do is to present the right way. It is not in his power to bring anyone forcibly to the way, for this can only happen by the help and permission of Allah. That is why only that person whom Allah helps and permits gets guidance. Otherwise, even a perfect missionary like a Messenger fails to bring a person to the right way. As regards to the divine law, according to which Allah helps and permits a person to gain guidance, we learn from different passages of the Quran that Allah gives help only to that person who himself has a desire to get guidance: who frees himself from obduracy, obstinacy and prejudice: who is not a follower of his lust, nor a slave of his desires: who is inclined to see with open eyes and hear with open ears and think with a clear mind, and is ready to accede to any reasonable thing. 2. The word Hameed is more comprehensive than Mahmud. A person will be entitled to be Mahmud only when he is praised. But the Being Who is Hamed, is naturally and permanently worthy of praise, whether anyone praises Him or not, because the element of praise is inherent in Him and is inseparable from Him.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :1 یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطان راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو ۔ بخلاف اس کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا ، چاہے وہ ایک ان پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تم ان کو اپنے رب کے اذن یا اس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ، مبلغ ، خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو ، راہ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اس کے بس میں نہیں ہے ۔ اس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اس کے اذن پر ہے ۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے ، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا ۔ رہی اللہ کی توفیق ، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو ، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہو ، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو ، کھلی آنکھوں سے دیکھے ، کھلے کانوں سے سنے ، صاف دماغ سے سوچے ، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :2 حمید کا لفظ اگرچہ محمود ہی کا ہم معنی ہے ، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے ۔ محمود کسی شخص کو اسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو ۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے ، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات ، سزاوار حمد اور مستحق تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا ، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اپنی ذات میں آپ محمود کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٣۔ الٓر۔ انہیں حروف مقطعات میں سے ہے جن کا ذکر پہلے ہوچکا کہ اس کے معنے سوائے خدا کے اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ قرآن کا یہ طرز بیان ہے کہ بعد حروف مقطعات کے قرآن پاک کی عظمت بیان کی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں بھی فرمایا کہ یہ قرآن مجید اور آسمانی کتابوں سے اشرف ہے اور اشرف الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کو ہم نے اتارا ہے اور جس طرح پہلی کتابیں خاص خاص قوم اور علیحدہ علیحدہ امت کی ہدایت کو بھیجی گئیں اسی طرح یہ کتاب کل انسان کیا عرب کیا عجم ہر ایک بستی ہر ایک گاؤں ہر ملک کے رہنے والوں کی ہدایت کو اتاری گئی ہے تاکہ لوگوں کو کفر اور گمراہی سے نکال کر خدا کی توحید اور ایمان کے سیدھے رستہ کی طرف لاوے پھر اللہ نے اپنی یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ عزیز ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ایک شئے پر غالب ہے کسی سے مغلوب اور عاجز نہیں ہوتا اور حمید ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہر کام قابل تعریف ہے۔ پھر فرمایا کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے وہ سب کا مالک ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے اس میں کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اسی لئے اس کے بعد پھر یہ فرمایا کہ جب یہ باتیں ثابت ہو چکیں تو کافروں کی حالت بہت افسوس ناک ہے کیونکہ ان پر سخت سخت عذاب ہوں گے جو کسی طرح رک نہیں سکتے اس واسطے کہ ان لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ دوست رکھا ہے اور خود تو گمراہی میں ہی تھے اوروں کو بھی خدا کے سچے دین پر ایمان لانے سے روکتے ہیں اور اپنی خواہش اور غرض کے واسطے اس سیدھے راہ ٹیڑھی کرنی چاہتے ہیں یہ لوگ ایسی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں جو خدا سے بہت دور ہے۔ اس لئے کسی طرح امید نہیں ہے کہ یہ لوگ راہ حق تک پہنچیں گے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد نسائی اور دارمی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط کھینچ کر اس کو اللہ کا رستہ کہا اور سیدھے خط کے دائیں بائیں اور خط کھینچ کر یہ فرمایا کہ ان سب راستوں پر شیطان کا دخل ١ ؎ ہے۔ ان آیتوں میں ظلمت کے لفظ کو جمع اور نور کو مفرد جو فرمایا اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ ایک ہے اور شیطان کے دخل کے راستے بہت ہیں۔ ترمذی میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں وہی ایک ہدایت کا راستہ ٢ ؎ ہے۔ ان آیتوں میں نور کا جو لفظ ہے یہ حدیث اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہدایت کا طریقہ اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ کے طریقہ پر منحصر ہے۔ ترمذی کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی ہے جس کو دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن یحییٰ بن سعید القطان نے اس کو ثقہ کہا ٣ ؎ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت کے قابل کام کر کے جنت میں جاوے گا اور کون شخص دوزخ کے قابل کام کر کے دوزخ میں جاوے ٤ ؎ گا۔ یہ حدیث باذن ربھم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں رسولوں کی نصیحت سے انہی کا دل نیک کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک کاموں کے پورا کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کفر کے اندھیرے سے ایمان کے اجالے کی طرف لانے کو پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا کام ٹھہرایا اور پھر باذن ربھم فرمایا اس لئے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے یہاں اذن کے معنے توفیق کے لئے ہیں ٥ ؎۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا جس کے سبب سے انسان پر اللہ تعالیٰ کی تعظیم و اجب ہے ایسی موٹی بات کو جو لوگ نہیں سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان لوگوں کے گناہ سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی گناہ نہیں۔ ٦ ؎ اس حدیث کو آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی پر گرویدہ ہو کر آخرت کے منکر اور بڑے گناہ کو گناہ نہیں جانتے اور ایک موٹی بات جو ان کو سمجھائی جاتی ہے اس کو دنیا کی گرویدگی کے آگے کچھ نہیں سمجھتے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب تجویز فرمایا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث گزرچکی ہے کہ نرم عذاب والے شخص کے پیروں میں آگ کی جوتیاں قیامت کے دن پہنادی جاویں گی جس سے اس شخص کا بھیجا پگل کر نکل پڑے ٧ ؎ گا۔ اس نرم عذاب کا حال سن کر سخت عذاب کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے۔ اللہ کی راہ سے روکنا مثلاً جیسے عمرو بن لحی نے کیا کہ ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر لوگوں کو اس ملت کے موافق عمل کرنے سے روکا اللہ کے راستہ میں کجی کا ڈھونڈنا مثلاً جیسے ان مشرکوں کا یہ کہنا کہ قرآن میں سے بتوں کی مذمت کی آیتیں نکال دی جاویں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٠ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ایضاً ۔ ٣ ؎ تہذیب التہذیب ص ١٧٤ ج ٦۔ ٤ ؎ جلد ہذا ص ٤٨٢۔ ٤٣٢۔ ٢٣٥۔ ٢٤٠۔ ٥ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١٧٩ ج ٣۔ ٦ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٤۔ ٢٠٦۔ ٢٢٢۔ ٧ ؎ جلد ہذا ص ٢٣٧۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:1) الر۔ ملاحظہ ہو۔ الم ۔ 2:1 ۔ کتب۔ یعنی القران ۔ کتب خبر ہے۔ اس کا مبتدا ھذا محذوف ہے انزلنہ۔۔ اس کی صفت ہے۔ انزلنہ میں ہُ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع کتب ہے۔ کتب یہاں نکرہ ہے نکرہ کا استعمال بعض دفعہ رفع شان کے اظہار کے لئے بھی کیا جاتا ہے یعنی موصوف کی شان اس قدر مشہورو معروف ہے کہ اسے معرفہ لانے کی ضرورت نہیں۔ الناس۔ میں ال استغراق کا ہے جو کلیت چاہتا ہے۔ یعنی جمیع نسل انسانی۔ ظلمت الی النور۔ میں ظلمت کا صیغہ جمع اور نور کا صیغہ واحد اس بات کی دلیل ہیں کہ گمراہیاں اور اقسام کفر کثرت سے ہیں۔ جب کہ ہدایت کی راہ صرف ایک ہی راہ مستقیم ہے۔ الی صراط العزیز الحمید۔ بدل ہے النور کا۔ کیونکہ مقصود النور سے وہی راستہ ہے۔ عزیزو حمید کا جو سب پر غالب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی اسلام اور اس کی شریعت پر۔ ” باذن ربھم “ میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی راہ راست کی طرف لاسکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لاسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١) اسرارومعارف الر حروف مقطعات ہیں اور اس کے بعد ارشاد ہے کہ ۔ (کتاب کی عظمت) یہ عظیم الشان کتاب ہم نے کی طرف فرمائی تاکہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کی اجازت سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں ، سب سے پہلے تو کتاب کی عظمت کا اظہار ہے کہ یہ اللہ جل جلالہ کا ذاتی کلام ہے اور کلام الملوک ملوک الکلام کہ بادشاہوں کا کلام ، کلام کا بادشاہ ہوا کرتا ہے کے مصداق بہت ہی عظیم الشان ہے پھر ظاہرا کمال یہ ہے کہ ادبی لحاظ سے کوئی بڑے سے بڑا ادیب ایک جملے کے مقابلے میں جملہ لانے کی جرات نہیں کرسکتا انسانی زندگی کے ہر پہلو پہ راہنمائی اور اس کا معیار یہ کہ ساری انسانیت کے لیے بیک وقت قابل عمل سارے زمانوں کے لیے حرف آخر اور ہر موضوع پر ، خواہ سیاسیات ہوں یا سلطنت کے امور معاشیات ہوں یا اخلاقیات ، جنگ ہو یا صلح تعلیم و تعلم کا میدان ہو یا سائنسی تحقیقات کا کا دائرہ کار بندے کا بندے سے زیر بحث ہو یا بندے کا رشتہ اپنے رب سے تمام امور میں مکمل راہنما اور ۔ (عظمت رسالت) پھر عظمت رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنی عظیم الشان اور بےمثل کتاب کے مخاطب اول بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسے سمجھنا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب عالی اور اس کی برکت سے سینوں سے کفر اور معصیت کی تاریکی نکال کر انہیں نور معرفت سے روشن کردینا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تو گویا جس طرح وحی کو سننا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام ہے اسے سمجھنا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب عالی ہے اور وہی مفہوم معتبر ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو سکھایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو اس پر عمل ہوا اور یوں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین اس کے امین ٹھہرے جنہوں نے پوری انسانیت تک یہ پیام حیات پہنچایا آج بھی وہ معنی جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کی روایت کے خلاف ہو ذرہ برابر وقعت نہیں رکھتا بلکہ قرآن حکیم کا معنی یہ ہوگا کتاب کی تحریف کے زمرہ میں آئے گا ۔ دوسرے یہ کہ قرآن حکیم کا نزول ہی اس لیے ہوا کہ لوگ اسے پڑھیں سمجھیں اور عمل کریں یہ محض جھاڑ پھونک کی کتاب نہیں یہ پیام حیات ہے نہ صرف یہ کہ آسانی سے مرنے کے لیے مریض کے سرہانے پڑھا جائے یا صرف مرنے والوں کو بخشوانے کے لیے پڑھا جائے بلکہ اصل مقصد سمجھنا اور عمل کرنا ہے مگر اس ۔ (تلاوت کتاب کا اثر) کے باوجود اس کی ذات میں ایک نور موجود ہے جو مطلق تلاوت سے بھی حاصل ہو سکتا ہے اگر کوئی معنی نہ جانتا ہو تو بھی مسلسل تلاوت دل میں ایک خاص نور پیدا کردیتی ہے جس کے باعث گناہ سے نفرت اور نیکی سے محبت پیدا ہوجاتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک اور صرف ایک شرط کے ساتھ ممکن ہے کہ قرآن حکیم کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھا جائے ، درحقیقت ربوبیت نے جس طرح وجود بخشا اور ایک انسانی وجود کی خاطر ایک بہت بڑا وسیع نظام تخلیق فرمایا سورج ، چاند ، ستارے ، بادل ، بارش ، اور ہوا ، پہاڑ وادیاں میدان اور صحرا ، ندی نالے اور سمندر یہ رنگا رنگ مخلوق ، پھل پھول سبزیاں اور غذا شب وروز کی آمد وشد ، موسموں کا تغیرو تبدل یہ سب کیا ہے انسانی وجود کی ضروریات کو پورا کرنے کے اسباب جو ربوبیت باری نے انسان کے گرد پھیلا دیئے پھر عالم ملکوت اور فرشتے ایک الگ سے نظر نہ آنے والی وسیع دنیا جو اس عالم کے پورے نظام کی ترتیب اور چلانے کا کام کرتا ہے پیدائش اور موت ، رزق ، صحت ، بیماری وغیرہ سب کا ایک مرتب شدہ نظام رواں دواں رکھنے کی خدمت پہ مامور ہے ، ایسے انسان میں صرف وجود نہیں بلکہ روح بھی ہے جو حقیقی انسان کہلانے کی مستحق ہے یہ وجود تو اس کا لباس کہہ لیں سواری کہہ لیں یا دنیا میں قیام اور کام کرنے کا آلہ ہے یہ روح انسانی ان تمام جہانوں سے بالاتر جہاں دائرہ تخلیق ختم ہوتا ہے وہاں سے شروع ہونے والے عالم امر سے متعلق ہے امر اللہ کی صفت ہے اور روح کا تعلق اللہ جل جلالہ ہی جانے کیسا ہے کیفیت وکمیت کو جاننا اللہ جل جلالہ کا کام ہے مگر یہ ضرور فرما دیا کہ روح امر ربی سے ہے اب ظاہر ہے کہ مادی جسم کے لیے جس قدر وسیع اہتمام فرمائے گئے یہ صرف اسی کی عظمت کی سزاوار ہے تو روح کے لیے اس کی غذا دوا اور آرام و سکون کے لیے اہتمام نہ فرمانا تو شان ربوبیت کو زیب نہ دیتا تھا اور عقلا بھی یہ بات محال ہے کہ ادنی کے لیے تو اتنا اہتمام اور اعلی کو محروم کردیا جائے تو رب جلیل نے اپنی کتاب اپنا ذاتی کلام نازل فرما کر روح کی تمام ضروریات کی تکمیل فرما دی کہ عالم آب وگل میں جسم کے سارے افعال روح پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں تو ان سب کردارون کو اپنے حکم کے تابع فرما کر ایسا کردیا کہ بہترین اثر پیدا کریں اگر انسانی کمزوری کے باعث ٹھوکر لگے تو توبہ کا علاج تجویز فرما دیا اور یہ سب نظام انسانی ضرورت کے مطابق چلتا رہا اب کلام باری کو سننا سمجھنا یہ ہر انسان کے بس کی بات نہ تھی اس کے لیے وہ لطافت اور پاکیزگی ضروری تھی جو فرشتوں سے بھی بالاتر ہو تو یہ شان انبیاء کو عطا فرمایا اور یوں وقتا فوقتا اللہ جل جلالہ کے نبی مبعوث ہو کر کلام اللہ جل جلالہ کے بندوں تک پہنچاتے رہے تاآنکہ ایسا عظیم الشان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوا جو سب نبیوں کا بھی نبی امام اور پیشوا ٹھہرا اسے ایسی عظیم کتاب عطا ہوئی جو ساری انسانیت کی راہنمائی کے لیے سارے زمانوں میں کافی ہے اور جس میں وہ نور سمو دیا جو تمام انسانی ارواح کو سارے کمالات اور سب بلندیوں تک پہنچانے کے لیے کفایت کرتا ہے اب ظاہر ہے یہ کیفیت اسی منبع نور سے حاصل کی جائے گی جس پر اللہ جل جلالہ کی طرف سے اس کا نزول ہوا اور یوں منشائے ربوبیت اپنی تکمیل کو پہنچتا رہے گا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو تاریکی سے نکال کر نور اور روشنی میں لائیں جو اس غائب اور بہت زیادہ تعریف کیے گئے اللہ جل جلالہ کا راستہ ہے جو ارض وسما اور ” مافیھا “ کا اکیلا مالک ہے ۔ (تاریکی اور روشنی) تاریکی اور روشنی سے مراد یہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی دینے والا اندھیرا اجالا نہیں بلکہ اس سے مراد عقائد نظریات اور فکر وعمر کا ادھیرا یا اجالا ہے اگر عقیدہ خراب ہو تو دل میں ظلمت پیدا ہوتی ہے جو ہر برے عمل سے بڑھتی رہتی ہے اور یوں کافر کا دل مزید تاریکیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے حتی کہ ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جہاں سے واپسی بھی ممکن نہیں رہتی ایسے ہی لوگوں کے حق میں فرمایا گیا ہے کہ اب انہیں ہدایت نصیب نہ ہوگی اور جب کسی کو ایمان نصیب ہوتا ہے تو صرف ایمان قبول کرنا اتنا بڑا کام ہے کہ عمر بھر کے کفر نیز گناہوں کی تاریکی کو دھو دیتا ہے ، یہ نور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر سے نصیب ہوتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اس کے بڑھنے اور زیادتی کا باعث بنتی ہے اور یوں مومن مسلسل اکتساب نور کرتا رہتا ہے ، تیسرا اور اعلی ترین درجہ یہ ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو نصیب ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میسرآئی تو بیک نگاہ نہ صرف قلب بلکہ سارا وجود منور ہو کر اللہ جل جلالہ کا ذکر کرنے لگ گیا اور یوں اللہ جل جلالہ کی اطاعت ان کے دل کی چاہت بن گئی ، پہلے دو طریقے علماء حق کے ہیں کہ دعوت ایمان بھی دیتے ہیں اور اطاعت کی ترغیب بھی یوں جو خوش نصیب ایمان قبول کرتا ہے اور اطاعت کے لیے کوشش کرتا ہے اسے اس کی طلب کی گہرائی کے مطابق ایمان نصیب ہوتا رہتا ہے ، اور تیسرا طریقہ صوفیاء کا ہے جنہوں نے متقدمین کی صحبتوں سے نور قلب حاصل کیا ہوتا ہے اور اپنے ہم نشینوں میں بانٹتے ہیں جس جس کو یہ نعمت نصیب ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں اس کے اعمال اور عقائد سدھرنا شروع ہوجاتے ہیں اور یہی فیض کہلاتا ہے کہ انسان کے اندر اس کے دل میں ایسی تبدیلی آئے کہ وہ حق کے سوا کچھ قبول نہ کرے اور نافرمانی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا رہے ، رہے کافر یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے کو تاریکی ہی کا باسی بنا لیا تو انہوں نے خود اپنی بربادی کو آواز دی ہے چناچہ انہیں بہت شدید عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔ (کفر اور نافرمانی کا بنیادی سبب) قرآن حکیم اس کی وجہ حب دنیا کو قرار دیتا ہے کہ ایمان کا معنی یہ ہے کہ دنیا کو اللہ جل جلالہ کے حکم کے مطابق حاصل بھی کیا جائے اور اسی کے حکم کے مطابق خرچ یا استعمال بھی کیا جائے ، مگر انسان چاہتا ہے کہ اپنی پسند سے جو چاہے کرے ، اب جو اس اندھی طلب میں گرفتار ہوئے انہوں نے ایمان قبول نہ کیا یعنی آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرلیا یہ ایسی مصیبت ہے کہ اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ بڑے زور شور سے دلائل دینے لگے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس طرف بلانے لگے جو اللہ جل جلالہ کی راہ سے روکنے کا باعث بنا اور یوں ایک اور بہت بڑا جرم ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے ہیں اور باتوں کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور محض بودے اعتراضات کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ جل جلالہ کا راستہ جو بالکل سیدھا ہے اس میں ٹیڑھا پن اور کجی بتاتے ہیں ۔ (اپنی رائے کیلئے قرآن کے مفہوم کو تبدیل کرنے والے) ایسے لوگ بہت بڑی گمراہی کا شکار ہیں اس میں صرف کافر ہی نہیں ایسے مسلمان بھی گرفتار ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے یا دولت حاصل کرنے کے لیے یا محض اپنی رائے کو حق ثابت کرنے کے لیے قرآن حکیم یا شرعی فیصلوں کو ان کے اصل معانی اور مفہوم سے کھینچ تان کر اپنی تائید حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور یہ مرض آج کل تو بہت عام ہے اللہ جل جلالہ اس گمراہی سے اپنی پناہ میں رکھے آمین ۔ کفار کا یہ اعتراض کو قرآن عربی زبان میں کیوں ہے یہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مادری زبان ہے اگر اللہ جل جلالہ نے نازل فرمانا تھا تو کسی عجمی زبان میں فرماتا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود تصنیف فرما لیا ہے اس کا جواب تو تاریخ سے ثابت ہے کہ جن رسولوں کو تم تسلیم کرتے ہو کیا ان کی کتابیں ان کی قومی زبان میں ہی نہ تھیں رسالت ونبوت چونکہ انسانی ہدایت اور راہنمائی کے لیے ہوتی ہے لہذا ہر نبی جس قوم میں مبعوث ہوا اسی کی زبان میں کتاب بھی لایا اور شرعی احکام بھی سمجھائے اگر کوئی دوسری زبان ہوتی تو پھر اس کا ترجمہ کرنا خود اسے سمجھنا یہ ساری قوم کو ایک مصیبت میں مبتلا کردیتا اور بیشتر لوگ صرف اسی وجہ سے محرومی کا شکار ہوجاتے ، مگر اللہ جل جلالہ نے بندوں پہ آسمانی فرما کر انہیں کی زبان میں کتاب نازل فرمائی اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب تھے عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عربوں کو اللہ جل جلالہ نے یہ فضیلت بخشی کہ وہ سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام سنیں سمجھیں اور اسے دوسرے لوگوں تک پہنچائیں تو قرآن بھی عربی زبان میں نازل فرمایا پہلے نبی تو کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتے اور اسی کی زبان میں کتاب بھی لاتے تھے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ساری انسانیت کے لیے تھی جس میں بیشمار زبانیں رائج تھیں ، اگر ہر ہر زبان میں کتاب نازل ہوتی تو کبھی دعوت فکر پیدا نہ ہو سکتی تھی پھر کئی زبانیں جو اس وقت رائج تھیں ختم ہوگئیں ، اور نئی زبانیں آگئیں ، تو یہ الگ مسئلہ ہوتا لہذا ضروری تھا کہ قرآن کسی ایک ایسی زبان میں نازل ہوتا جو ساری انسانیت کو راہ دکھانے کا کام کرسکتی تو اللہ جل جلالہ نے عربی کو پسند فرمایا کہ عربی ہی انسانیت کی اصلی زبان ہے جو اہل جنت میں بولی جائے گی جو انسانوں کا دائمی گھر ہے ۔ اللہ جل جلالہ نے عرب قوم میں یہ خصوصیت رکھی کہ ہزار خامیوں کے باوجود جب وہ ایمان لائے تو اس کا حق ادا کردیا اور لمحوں میں دین سیکھا اور دونوں میں دوسروں تک پہنچایا حتی کہ اس راہ میں جان ومال ، عزت وناموس اور اولاد تک قربان کردی ان کی انہی خصوصیت کے باعث اللہ جل جلالہ نے اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عربوں میں پیدا فرمایا اس کو بھی عربی زبان بخشی اور کتاب اور دین بھی اسی زبان میں نازل فرمایا ، بحیثیت زبان بھی دنیا کی کوئی زبان عربی کی وسعت معنی ذخیرہ الفاظ اس کی گرامر اور روحانی کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتی اور عربوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ بحیثیت قوم واقعی اس قابل ہے کہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوتا ، انہوں نے تئیس برس میں نازل ہونے والی اللہ جل جلالہ کی آخری کتاب کو اس کی تکمیل کے ٹھیک تئیس برس تک کے عرصے میں روئے زمین پر اور اقوام عالم میں پہنچا دیا ان کی اس جرات رندانہ پہ تاریخ عالم شاہد عادل ہے ، لہذا یہ اعتراض تو کوئی حیثیت نہیں رکھتا رہی یہ بات کہ کچھ لوگ پھر بھی ہدایت سے محروم کیوں رہے ، تو یہ ایسے بدبخت لوگ تھے کہ اگر قرآن کسی اور زبان میں بھی نازل ہوتا تو محروم ہی رہتے کہ ان کی محرومی کا سبب یہ تھا کہ اللہ جل جلالہ کہ اللہ نے انہیں ہدایت سے محروم کیوں رہے تو یہ ایسے بدبخت لوگ تھے کہ اگر قرآن حکیم کسی اور زبان میں بھی نازل ہوتا تو محروم ہی رہتے کہ ان کی محرومی کا سبب یہ تھا کہ اللہ جل جلالہ نے انہیں ہدایت سے محروم ہی کردیا ، کیونکہ ان کے دلوں میں سے ہدایت کی طلب ہی کثرت گناہ کے باعث مٹ چکی تھی اللہ جل جلالہ غالب اور حکمت والا ہے وہ جسے چاہے بخشے یا گمراہ کر دے ، اور اس نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ ہدایت اسے عطا فرماتا ہے جس کے دل میں انابت یعنی ہدایت کی طلب باقی ہو ۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تو اسی عظیم مقصد کے لیے بھیجا تھا اور انہیں اپنی نشانیاں عطا فرمائی تھیں یعنی تورات اور دوسرے عظیم الشان معجزات کہ وہ اپنی قوم کو جس کی طرف مبعوث ہوئے تھے تاریکی سے نکالیں اور انہیں نور یعنی اجالے میں لے آئیں اس کے لیے انہیں اللہ جل جلالہ کے احسانات یاد دلائیں ، اور نافرمانوں کے انجام بدکا ذکر کریں ، ایام اللہ جل جلالہ سے خاص ایام مراد ہیں اور ہر دو صورت میں خواہ ان میں کوئی نعمت نصیب ہوئی ہو یا کسی قوم پر گرفت آئی ہو تو تبلیغ کے لیے دونوں طرح کی مثالیں معاون ہوتی ہیں کہ نعمت کا حصول اطاعت سے ہوتا ہے لہذا یہ ترغیب پیدا کرتی ہے اور گرفت ہمیشہ نافرمانی پہ کی جاتی ہے ، لہذا یہ ترہیب کے لیے کافی ہے ۔ (صبر وشکر) مگر ساتھ ارشاد ہوا کہ بےصبرے اور ناشکر گذار لوگوں پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا ایسے لوگ جو صبر کرنے والے ہوں ٹھنڈے دل سے حالات کا جائز لینے والے ہوں اور جن میں احساس شکر بھی ہو کہ اپنے زیر استعمال نعمتوں کا اندازہ کرسکیں ایسے ہی لوگوں کے لیے ایام اللہ میں بہت واضح نشانیاں موجود ہوتی ہیں مگر صبر سے عاری جو لوگ دوسروں کی نعمتیں چھیننے کے لیے بےتاب اور موجود نعمتوں کو کبھی شمار ہی نہ کرتے ہوں انہیں کیا درس عبرت حاصل ہوگا عموما ایسے لوگ تم اپنے رب کریم سے شاکی ہی رہتے ہیں ، اسی لیے صبر کو نصف ایمان فرمایا گیا ہے کہ صبر سے مراد جائز وسائل پر قناعت کرکے دوسروں کا حق نہ چھیننا ہے اور شکر کی اصل یہ ہے کہ موجودہ نعمت کا احساس تو ہو یہی احساس زبان پر کلمہ شکر جاری کرنے کا باعث بھی بنتا ہے ، اور عملا اطاعت کرنے کی توفیق بھی نصیب ہوتی ہے لیکن اگر یہ دونوں باتیں نصیب نہ ہوں تو آیات ومعجزات بھی کم ہی متاثر کرتے ہیں ۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے احسانات یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو اللہ جل جلالہ نے تمہیں فرعون جیسے ظالم سے نجات بخشی جو تمہیں جانوروں کی طرح کام میں جوتتا تھا اور غلاموں کی طرح رکھتا تھا تمہارے بیٹوں کو چھین کر ذبح کردیتا تھا اور تمہاری بیٹیاں اپنی اور اپنی قوم کی خدمت کے لیے باقی رکھتا تھا اللہ جل جلالہ نے اس بےپناہ مصیبت سے تمہیں نجات بخشی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4 لتخرج تاکہ تو نکالے الظلمت (الظلمۃ) ۔ اندھیرے اذن اجازت۔ توفیق صراط راستہ الحمید اللہ کی صفت۔ تمام تعریفوں کا مستحق ویل بربادی۔ تباہی یستحبون وہ پسند کرتے ہیں یصدون وہ روکتے ہیں یبغون وہ تلاش کرتے ہیں عوج کجی۔ ٹیڑھا پن ضلل گمراہی بعید دور لسان زبان لیبین تاکہ وہ کھول دے۔ واضح کر دے یضل وہ گمراہ کرتا ہے یھدی وہ ہدایت دیتا ہے۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 4 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت ساری دنیا کفر و شرک ، ظلم و ستم، قتل و غارت گری، رسم و رواج، بت پرستی، عقیدوں کی خرابی اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی کسی شخص، قوم یا قبیلے کو سکون اور چین حاصل نہ تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا جو ان کی زندگی کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے مشعل راہ بن گیا۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے اس کتاب کو اس لئے نازل فرمایا جو ان کی زندگی کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے مشعل راہ بن گیا۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے اس کتاب کو اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ اس کی تعلیمات کے ذریعہ ساری ساری دنیا کو جو جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے اس کو زندگی کی روشنی میں لے آئیں تاکہ ان کی آخرت اور دنیا کا ہر معاملہ درست ہوجائے۔ جو لوگ انسانیت اور اس کے جذبوں کا کالے، گورے، عرب، عجم، مزدور، سرمایہ دار اور حکمران و رعایا کے طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں وہ انسانیت پر ظلم عظیم کرتے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو لوگ ان اندھیروں سے نکلنا چاہتے ہیں ان کو اس صراط مستقیم کی طرف بلائیے۔ لیکن جو لوگ اس دنیا کی زندگی کو اصل سمجھتے ہوئے اندھیروں میں ہی رہنا چاہتے ہیں ان کی اصلاح کی فکر کیجیے لیکن ان کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو اللہ ان کی زندگی کو نشان عبرت بنا دے گا۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرمایا گیا ہے کہ : 1) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کریم کو نازل کیا گیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم سے لوگوں کو اس صراط مستقیم کی طرف بلائیں جو اس ذات کی طرف سے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے۔ 2) لیکن وہ لوگ جنہوں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے وہ نہ صرف اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں بلکہ وہ اس میں کجی اور کمزوریاں تلاش کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں حالانکہ اس طرح لاشعوری طور پر گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ 3) اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں اپنا پیغام دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ رسول جب ان کو واضح طریقے سے بتائے تو کسی کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو اور جس کو ہدایت پر آنا ہو اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور جو سمجھ کر بھی اس طرف نہ آئے وہ اپنے برے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ 4) لیکن اس کے باوجود بھی اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہی کے راستے پر لگا دیتا ہے کیونکہ وہ زبردست حکمت والا ہے۔ اس جگہ ایک مرتبہ پھر اس بات کی وضاحت کردی جاتی ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے سب سے زیادہ پاکیزہ اور مقدس ہستیوں کو بھیجتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے ہدایت کا راستہ معلوم نہ تھا۔ پھر بھی جو لوگ جانتے بوجھتے ہدایت کا راستہ اختیار نہیں کرتے اور گم راہی کا راستہ ہی پسند کرتے ہیں اللہ ان کو پھر ہدایت کی توفیق نہیں دیتا اور ان کو ان کے برے انجام تک پہنچانے کے لئے ذلت و گمراہی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ روشنی میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راہ بتلادیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ” ا ل ر “ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ان کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بعض مفسرین کے استدلال کے مطابق یہ دنیا بھر کے لوگوں کو چیلنج ہے کہ قرآن مجید انہی حروف پر مشتمل ہے اگر تم قرآن مجید کو منجانب اللہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر اس جیسا قرآن مجید بنا کر پیش کرو۔ جس کا قیامت تک، کوئی فرد، جماعت اور کوئی حکومت جواب نہیں دے سکتی۔ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر نازل فرمایا ہے۔ تاکہ لوگوں کو کفر وشرک، بدعت ورسومات اور ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت اور علم کی طرف لانے کی کوشش فرمائیں۔ اس رب کے راستے کی طرف لائیں۔ جو ہر اعتبار سے غالب اور تعریف کے لائق ہے۔ اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے۔ اس کی ذات اور کتاب کا انکار کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ سورة ابراہیم کی پہلی آیت میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ کسی شخص کا بتلایا ہوا یا نبی کا اپنی طرف سے بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ ہی نے اس قرآن کو محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق لوگوں کو کفر وشرک، بدعت رسومات اور جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کی طرف لائیں یہی راستہ تابناک اور صراط مستقیم ہے۔ ٣۔ لوگوں کے رب کا بتلایا ہوا یہ روشن راستہ ہے جس سے مرادیہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کی ملاقات اور اس کی خوشنودی کا طالب ہے اسے قرآن مجید کا بتلایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ العزیز اور الحمید کی صفات کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو غالب اور محمود سمجھ کر اس کے راستہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی غلبہ اور تعریف کے لائق بنادے گا۔ روشن اور تابناک راستہ : (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو السَّلَمِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃ َ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوْبُ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ ہٰذِہٖ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو السَّلَمِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃَ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّ ہَذِہِ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَآءِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لاَ یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْٓ إِلاَّ ہَالِکٌ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الأَنِفِ حَیْثُمَا قِیْدَ انْقَادَ ) [ رواہ ابن ماجۃ : فی المقدمۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْن ] ” حضرت عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی کہتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعظ فرمایا۔ ایساوعظ تھا کہ ہمارے آنسو جاری ہوگئے اور دل ڈر گئے۔ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایسا وعظ تو رخصت ہونے والے کا ہوتا ہے۔ آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بیشک میں نے تمہیں ایسی چیز پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کی رات دن کی مانند ہے۔ اس کو چھوڑنے والا ہلاک ہوجائے گا۔ تم میں سے جو کوئی زندہ رہا تو وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا جسے تم پہچان لو۔ تم اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا۔ امیر کی اطاعت کو لازم جاننا۔ اگرچہ وہ حبشی غلام ہی ہو۔ یقیناً مومن ایک ایسے اونٹ کی مانند ہے جس کی ناک میں نکیل ڈالی گئی ہو۔ اسے جہاں باندھا جائے وہ بندھ جاتا ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّےْلِ ےَتَھَجَّدُ قَالَ (اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَےِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مٰلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآءُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَےْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَےْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَےْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَآ اَخَّرْتُ وَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُ وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَآاِلٰہَ غَےْرُکَ ) [ رواہ البخاری : باب التَّہَجُّدِ باللَّیْلِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تیری ہی حمدوستائش ‘ تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو قائم رکھنے والا ہے ‘ تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیری وجہ سے ہی زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز روشن ہے ‘ تیرے لیے ہی تعریف ہے اور تو ہی زمین و آسمان اور ان میں ہر چیز کا مالک ہے ‘ تیرے ہی لیے حمدوثنا ہے تو ہی حق ہے تیرے وعدے سچ ہیں۔ تجھ سے ملاقات یقینی ہے۔ تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت ‘ دوزخ ‘ انبیاء ‘ محمد ‘ قیامت یہ سب سچ اور حق ہیں۔ الٰہی میں تیرا ہی فرمانبردار اور تجھ پر ایمان رکھتا ہوں ‘ تیری ذات پر میرا بھروسہ ہے۔ تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں ‘ تیری مدد سے ہی لوگوں سے لڑتا ہوں۔ میں سب کچھ تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پس میرے اگلے پچھلے ‘ پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیری ذات ہی اول وآخر ہے۔ تو ہی الٰہ برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود ومسجود نہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا ذریعہ ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ٤۔ کافروں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن نور کیا ہے : ١۔ اللہ نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ قرآن مجید نور ہے۔ (المائدۃ : ١٥) ٣۔ تورات نور ہے۔ ( المائدۃ : ٤٤) ٤۔ انجیل میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ : ٤٦) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نور کی طرف دعوت دیتے تھے۔ (الطلاق : ١١) ٦۔ اللہ لوگوں کو نور کی طرف بلاتا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) ٧۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نور کی طرف بلاتے تھے۔ (ابراہیم : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب پہلے سورة کا حصہ اول۔ درس نمبر ١١٤ تشریح آیات ١۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ ٢٧ آیت نمبر ١ تا ٤ الر کتب انزلنہ الیک (١٤ : ١) “ اے محمد یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ”۔ یہ کتاب الف ، لام اور میم اور ان جیسے دوسرے حروف کی ترکیب سے بنائی گئی ہے۔ یہ تمہاری طرف ہم نے نازل کی ہے ، کسی اور نے تمہاری طرف اسے نہیں اتارا۔ نہ تم نے خود اس کی تخلیق کی ہے۔ اور اسے کیوں اتارا گیا ہے۔ لتخرج الناس من الظلمت الی النور (١٤ : ١) “ تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاؤ ”۔ تم پوری انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ تم پوری انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ اوہام و خرافات کی تاریکیاں ، رسوم تقالید کی تاریکیاں ، ارباب متفرقہ کی بندگی اور کشاکش اور حیرت کی تاریکیاں ، جاہلی اقدار اور پیمانوں اور جاہلی خیالات و تصورات کی تاریکیوں سے تم انسانیت نکالو اور قرآن کی روشنی میں داخل کر دو ۔ ایسی روشنی جو فی الحقیقت ان تمام تاریکیوں کو دور کر دے۔ وہ عالم ضمیر کو روشن کر دے اور میدان فکر و نظر میں اجالا برپا کردے۔ زندگی کی عملی راہوں میں اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ افکار میں اجالا برپا کر دے۔ اللہ پر ایمان لانا ایک نور ہے جس سے دل روشن ہوجاتا ہے اور جس کا دل روشن ہوجائے اس کی پوری شخصیت اور اس کا بشری ڈھانچہ بھی منور ہوجاتا ہے اور انسانی شخصیت کے دونوں پہلو ، مٹی اور روح اللہ دونوں روشن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب انسانی شخصیت اس روشنی سے خالی ہوجائے اور جس کے اندر سے یہ چراغ بجھ جائے تو پھر انسان تاریک مٹی کا ایک ڈھیر ہوتا ہے اور خون اور گوشت کی شکل میں ایک کیچڑ ہوتا ہے۔ کیونکہ گوشت اور خون پوری طرح زمین کے مادی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اگر یہ نور نہ ہو جو روح اللہ سے پھوٹتا ہے اور اس کے اندر ایمان اپنی شفاف صیقل شدہ صورت میں موجود ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے یہ سیاہ مادہ شفاف اور چمکدار ہوجاتا ہے اور پھر یہ سیاہ کیچڑ ایک شفاف شیشہ ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ ایک ایسا نور ہے جس کے ساتھ نفس انسانی چمک اٹھتا ہے۔ اس کی روشنی میں انسان اپنی راہ متعین کرسکتا ہے۔ اسے اللہ کی طرف راہ بالکل واضح نظر آتی ہے۔ اس راہ میں نہ دھند ہوتی ہے اور نہ غبار۔ اوہام و خرافات کا غبار ، لالچ اور خواہشات کا غبار اور جب نفس انسانی راہ دیکھ لے اور صاف صاف نظر آنے لگے تو پھر ایسی راہ میں کوئی ٹھوکر اور کوئی اضطراب نہیں ہوتا اور نہ اس میں کوئی تردد ہوتا ہے اور نہ کوئی حیرانگی ہوتی ہے۔ پھر اللہ پر پختہ ایمان ایک ایسا نور ہے جس سے پوری زندگی چمک اٹھتی ہے۔ تمام لوگ اللہ کے مساوی بندے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ربط اور رشتہ خدائی رشتہ ہوتا ہے۔ وہ صرف اللہ کی اطاعت اور بندگی کرتے ہیں۔ اب ان میں آقا اور غلام کی تقسیم نہیں ہوتی۔ ان کو اس پوری کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس پوری کائنات سے بھی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ پوری کائنات ایک ناموس الٰہی اور قانون قدرت کے ساتھ چلتی ہے اس لیے وہ اس پوری کائنات ، اس کے اندر موجود پوری مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اس لیے کہ سب کے سب اللہ کے مخلوق ہیں۔ پھر ایمان ایک نور ہے ، انصاف کی روشنی ہے ، آزادی کی روشنی ہے۔ علم و معرفت کی روشنی ہے ، اللہ کے لئے محبت کی روشنی ہے۔ اللہ کے عدل ، حکمت اور رحمت پر اعتماد کی روشنی ہے۔ خواہ مشکلات ہوں یا مسرتیں ہوں یہ ایمان مشکلات میں صبر پر آمادہ کرتا ہے اور مسرتوں میں شکر رب کی تعلیم دینا ہے اور آزمائش میں حکمت و تجربہ عطا کرتا ہے۔ صرف اللہ پر ایمان کہ وہی الٰہ اور رب ہے ، یہ ایمان ایک نظام زندگی بھی ہے۔ فقط عقیدہ اور تصور ہی نہیں ہے جو دل کو روشن کرتا ہے۔ یہ نظام زندگی صرف اللہ کی بندگی کے اصول پر قائم ہے۔ جس میں صرف اللہ کی ربوبیت کا عقیدہ ہوتا ہے۔ اور تمام دوسری ربوبیتوں کا افکار ہوتا ہے ، جس کے اندر برتری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہوتی ہے ۔ وہی حاکم ہوتا ہے اور سب اس کے بندے ہوتے ہیں۔ اس نظام زندگی میں انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہے ، اس میں انسان کی ضروری اور لابدی حاجات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ایسی حاجات جو انسان کو سعادت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اس کو نور اطمینان دیتی ہے اور اسے خوشی اور مسرت عطا کرتی ہیں۔ اس نظام میں قرار و ثبات بھی موجود ہے اور جو معاشرے اللہ کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی کرتے ہیں۔ ان میں جو تغیرات ، انقلابات اور حیرانیاں اور پریشانیاں ہوتی ہے ان سے اس میں انسان محفوظ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا حاکم نہیں ہوتا۔ سیاست میں حکومت میں ، معاشیات میں اور سوسائٹی کے اجتماعی روابط اور رسم و رواج میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں ہوتا۔ اس نظام میں انسانوں کی قوتیں اس کام میں صرف نہیں ہوتیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو غلام بتائیں اور نہ اس نظام میں کوئی شخص کسی طاغوتی قوت کا طبلچی ہوتا ہے۔ اس مختصر جملے لتخرج الناس من الظلمت الی النور (١٤ : ١) “ کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالو ” کے پیچھے معانی و مفہومات کے جہاں پوشیدہ ہیں بڑے بڑے حقائق یہاں ہیں اور قلب و نظر کی گہری سوچ کے نتیجے میں وہ نظر آسکتے ہیں۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے بعد ہی وہ آفاق نظر آسکتے ہیں۔ صرف انسانی الفاظ ان وسیع معانی کے بیان کے لئے کافی نہیں ہے۔ لتخرج الناس من الظلمت الی النور باذن ربھم (١٤ : ١) “ تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لاؤ ان کے رب کے حکم سے ”۔ اللہ کے حکم سے اور اذن ہی سے تم یہ کام کرسکتے ہو کیونکہ رسول کا کام تو صرف یہ ہے کہ وہ پیغام پہنچائے۔ اس کی ڈیوٹی صرف بیان ہے۔ رہا لوگوں کا تاریکیوں سے روشنی میں آنا تو یہ صرف اللہ کے فضل و کرم اور اس کے حکم اور اذن سے ہو سکتا ہے اور یہ کام اس سنت کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ کی مشیت کے مطابق کام کرتی ہے۔ رسول تو فقط رسول ہوتا ہے۔ الی صراط العزیز الحمید (١٤ : ١) “ اس خدا کے راستے کی طرف جو زبردست اور اپنی ذات میں محمود ہے ”۔ نحو کے اعتبار سے صراط نور کا بدل ہے ، اور اللہ کی راہ اللہ کا طریقہ ہے۔ اللہ کی سنت ہے ، اس کا وہ ناموس ہے جو اس پوری کائنات پر حکمران ہے ، اس کی راہ اس کی وہ شریعت ہے جو زندگی پر حاوی کرنے کے لئے بھیجی گئی ہے اور ایمان کی روشنی اور نور اسی شریعت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ بلکہ یہ نور بذات خود یہ صراط اور شریعت ہے۔ انسانی نفس کے اندر جو ایمانی نور چمکتا ہے وہی نور اس پوری کائنات کے اندر بھی چمکتا ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے ، ناموس فطرت ہے اور وہی شریعت ہے جو نفس اس نور سے منور ہو وہ ادراک اور تصور میں غلطی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ طرز عمل اور طریقہ زندگی میں بھی وہ غلطی نہیں کرتا۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ عزیز وحمید کی راہ یہی ہے اور یہ عزیز قوت قاہرہ کا مالک ہے ، اور اپنی ذات میں محمود اور پوری کائنات پر قابض ہے۔ یہاں اللہ کی قوت کا اظہار اس لیے کیا گیا ہے کہ کفار سن کر ذرا خائف ہوجائیں اور حمید اس لیے کہا گیا کہ اہل شکر اس کی حمد و ثنا کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم بھی ہے۔ وہ لوگوں کا محتاج نہیں ہے وہ تو اس پوری کائنات کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھتا ہے۔ اللہ الذی لہ ما فی السموت وما فی الارض (١٤ : ٢) “ اور زمین و آسمان کی ساری موجودات کا مالک ہے ”۔ جو شخص اندھیروں سے نکل کر نور میں آگیا اور اس نے راہ ہدایت پالی تو اس کے بارے میں یہاں خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کو دھمکی دی جاتی ہے جو روشنی میں آنے سے انکار کرتے ہیں۔ کافروں کو عذاب شدید سے ڈرایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس نعمت سے استفادہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ نے رسول بھیجا ، اسے ایک کتاب دی تا کہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کرے۔ یہ اس قدر عظیم نعمت ہے کہ کوئی انسان اس نعمت عظمیٰ کا شکر ہی ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر کوئی الٹا اس نعمت کی ناشکری کرے تو پھر کہا : وویل للکفرین من عذاب شدید (١٤ : ٢) “ اور سخت تباہ کن سزا ہے قبول حق سے انکار کرنے والوں کے لئے ” ۔ یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ صفت کیا ہے جس سے اس نعمت کی نا شکری اور کفر ہوتا ہے جو رسول کریم لے کر آئے ہیں۔ وہ صفت یہ ہے۔ الذین یستحبون ۔۔۔۔۔ فی ضلل بعید (١٤ : ٣) “ جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق) ٹیڑھا ہوجائے ، یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں “۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی محبت ایمان کے تقاضوں کے ساتھ متصادم ہے اور صراط مستقیم پر استقامت کے خلاف ہے اور جب کوئی دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دے تو صورت یہ نہیں رہتی۔ آخرت کو ترجیح دینے سے دنیا میں بھی اعتدال پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا آخرت کی محبت اور ترجیح سے ترک دنیا لازم نہیں آتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے دل آخرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے میدان میں بھی خسارے میں نہیں ہوتے۔ یہ بات ان لوگوں کے ذہن میں آتی ہے جن کی فکر جاوۂ اعتدال سے منحرف ہو۔ اسلام میں آخرت کو ترجیح دینے کا تصور بھی دراصل دنیا ہی کی اصلاح کے لئے ہے۔ ایمان باللہ کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ فریضہ خلافت ارضی کو بحسن و خوبی سر انجام دیا جائے۔ حق خلافت ارضی میں یہ بھی داخل ہے کہ زمین کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی کی جائے اور اس کے اندر موجود خزانوں سے استفادہ کیا جائے۔ اسلام میں یہ تصور نہیں ہے کہ آخرت کے فائدے کے لئے دنیا کے نظام کو معطل کردیا جائے بلکہ سچائی ، انصاف ، راستی اور خدا کی رضا مندی کی خاطر زندگی کی تعمیر و ترقی ہی دراصل تمہید ہے ، آخرت کی ترقی کے لئے۔ یہ اسلام کی پالیسی ہے کہ دنیا میں بھی حسنہ ہو اور آخرت میں بھی حسنہ۔ پھر وہ لوگ کون ہیں جو دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نور ایمان کی روشنی میں اپنے مذموم مقاصد تک نہیں پہنچ سکتے ، وہ زمین کے قدرتی و مسائل پر تب ہی فیصلہ کرسکتے ہیں ، وہ حرام تب ہی کما سکتے ہیں ، وہ لوگوں کا استحصال تب ہی کرسکتے ہیں اور لوگوں کی اجتماع دولت کو تب ہی لوٹ سکتے ہیں جب وہ نور ایمان کے دائرے سے نکل جائیں اور اللہ کے دین کی طرف ہدایت اور اس پر استقامت سے محروم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے دنیا پر ست لوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کے راستے پر نہیں چلتے بلکہ وہ اللہ کے دین اور شریعت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتے ہیں۔ دین سے استقامت اور عدالت کو معیشت سے عدل کو نکالنا چاہتے ہیں۔ جب یہ لوگ اپنے آپ کو اور دوسرے عوام الناس کو اللہ کی راہ سے روک لینے میں ، کامیاب ہوجاتے ہیں اور جب وہ اسلام کی عدالت اور استقامت سے دامن چھڑا لیتے ہیں ، تب جا کر ایسے لوگ ظلم کرسکتے ، سرکشی کرسکتے ، دھوکہ دے سکتے ، اور لوگوں کو فساد پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ پھر زمین کے وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں ، حرام کماتے ہیں ، ذلیل اور غیر اخلاقی ذرائع سے دولت جمع کرتے ہیں۔ پھر یہ زمین میں سرکشی اور علو فی الارض اختیار کرتے ہیں۔ لوگوں کو غلام بناتے ہیں اور لوگوں کو اس قدر کمزور کردیتے ہیں کہ ان میں مقابلے یا احتجاج کی سکت بھی نہیں رہتی۔ یہ واقعہ ہے کہ ایمانی نظام زندگی ہی دراصل زندگی ، حرمت اور معاشی انصاف کا ضامن ہے اور یہی اس بات کی بھی ضمانت ہے کہ اس میں ان لوگوں کا اثرو رسوخ ختم ہوگا جو وسائل ارضی پر قابض ہونا چاہتے ہیں یا وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا پرستی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ وما ارسلنا من ۔۔۔۔۔۔ لھم (١٤ : ٤) ” اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تا کہ وہ اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے “۔ یہ انسانوں کے لئے ہر نبی کی نبوت میں ایک بڑی نعمت رہی ہے کہ رسول ان کی زبان ہی کا بھیجا ہے تا کہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف بڑی سہولت سے نکال سکے اور اس بات کی ضرورت بھی تھی کہ وہ اہل لسان ہوتا کہ وہ بیان کرے اور یہ سمجھیں اور مقصد پورا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ان کی قوم کی زبان میں رسول بنا کر بھیجا گیا ۔ اگرچہ آپ پوری انسانیت کے لئے رسول تھے کیونکہ آپ کی قوم کے ذمہ یہ فریضہ عائد کردیا گیا تھا کہ اب پوری انسانیت تک عربوں کا فرض ہے کہ وہ اس پیغام کو پہچانیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر تو محدود تھی۔ آپ کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا گیا کہ آپ سب سے پہلے جزیرۃ العرب کو جاہلیت سے پاک کردیں اور اسلام کو وہاں غالب کردیں تا کہ وہ مرکز اور سرچشمہ ہو اور آپ کی رسالت اور پیغام کو پھر امت کے لوگ دور دراز تک پہنچائیں اور عملاً ایسا ہی ہوا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرۃ العرب میں اسلام کو غالب کردیا تو اللہ نے آپ ؐ کو اس جہاں سے اٹھا لیا لیکن خود آپ نے جیش اسامہ کو جزیرۃ العرب کے اطراف کے لئے تیار کر کے بھیج دیا تھا۔ یہ لشکر ابھی نکلا نہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے۔ اس سے قبل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرۃ العرب سے باہر دوسرے ممالک تک اپنے دعوتی خطوط ارسال کر دئیے تھے۔ یہ خطوط آپ ؐ نے اس لیے بھیجے تھے کہ لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی رسالت تمام انسانوں کے لئے ہے۔ لیکن اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے صرف یہی فریضہ مقرر کیا تھا اور مختصر عمر انسانی میں ایک انسان صرف یہی کرسکتا ہے کہ آپ جزیرۃ العرب میں عربی زبان میں تبلیغ کا کام کریں اور اس کے بعد پوری دنیا تک تبلیغ رسالت کا کام بعد میں دعوت اسلامی کے حاملیں کریں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا لہٰذا اس بات میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پوری انسانیت کے لئے تھی اور خود آپ ؐ نے اپنی قومی زبان میں کام کرنا تھا اور اپنی زندگی میں عملاً عربوں ہی میں کام کرنا تھا۔ فیضل اللہ ۔۔۔۔۔ العزیز الحکیم (١٤ : ٤) ” پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، ہدایت بخشتا ہے ، وہ بالادست اور حکیم ہے “۔ ہر رسول اور نبی آخر الزمان کی رسالت کا فریضہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنا پیغام پہنچا دے۔ رہی یہ بات کہ کوئی ہدایت کی راہ لیتا ہے یا نہیں ، تو یہ کام تو کسی رسول کی قدرت میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ کسی کو ہدایت دے یا گمراہ کر دے۔ خود رسول کی خواہش بھی اس سلسلے میں ضروری نہیں ہے کہ پوری ہو۔ یہ شان الٰہی ہے ۔ اللہ نے اس کے لئے اس کائنات میں ایک سنت وضع کر رکھی ہے۔ یہ سنت اللہ کی مشیت کے مطابق چلتی ہے۔ جو شخص گمراہی کے مقدمات اختیار کرتا ہے اور گمراہی کی راہ لیتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور جو شخص ہدایت کے مقدمات اختیار کرتا ہے اور ہدایت کی راہیں اپناتا ہے تو وہ اہل ہدایت میں سے ہوجاتا ہے۔ یہ سب کام اللہ کی مشیت کے مطابق اور تابع ہوتے ہیں۔ اور انسان کے لئے یہی سنت اللہ نے وضع کی۔ وھو العزیز الحکیم (١٤ : ٤) ” وہ بالادست اور حکیم ہے “۔ وہ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ جس طرح اس کی مشیت ہو اس کے مطابق لوگوں کی زندگی پھرجائے اور وہ یہ تصرف اپنی حکمت اور اپنی تقدیر سے کرتا ہے ۔ اللہ نے تمام معاملات اپنے کنٹرول میں لے رکھے ہیں۔ اس کی مملکت میں واقعات اتفاقاً ، بغیر کسی سبب اور بغیر کسی تدبیر کے رونما نہیں ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف بلائیں ‘ اللہ غالب ہے ستودہ صفات ہے سارے جہانوں کا مالک ہے : یہاں سے سورة ابراہیم شروع ہے اول تو یہ فرمایا کہ یہ کتاب عظیم کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی پھر فرمایا کہ کتاب کا نازل فرمانا اس لیے ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں اور ساتھ ہی (بِاِذْنِ رَِبِّھْمْ ) بھی فرمایا کہ کتاب سنانا اور حق کی تبلیغ کرنا یہ آپ کا کام ہے جسے ہدایت ہوگی اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیئت ہی سے ہوگی۔ پھر نور کا مصداق بتایا اور فرمایا (اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ) کہ آپ جو لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہیں یہ نور عزیز حمید یعنی اس ذات پاک کا راستہ ہے جو زبردست ہے اور غالب ہے اور ستو دہ صفات ہے یعنی ہر اعتبار سے وہ مستحق حمد ہے ‘ پھر (عَزِیْزٌ حَمِیْدٌ) کا اسم ذات ذکر فرمایا کہ وہ ذات پاک اللہ تعالیٰ ہے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ یہ تمہید مع ترغیب ہے اس میں قرآن کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ قرآن ہم نے آپ پر اس لیے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو شرک و ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر توحید اور ہدایت کی روشنی سے ہمکنار کریں۔ ” لِتُخْرِجَ النَّاسَ “ کے بعد ” ببیان الوقائع “ مقدر ہوگا۔ یعنی دلائل بیان ہوچکے، تنبیہات کا ذکر ہوچکا اور شبہات کا ازالہ بھی ہوچکا اب آپ ان کے سامنے وقائع بیان کریں تاکہ اس طرح ہی وہ ظلمات سے نور کی طرف آجائیں۔ کیونکہ اس کے بعد اسی رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ “ یعنی اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالو اور ان کو وقائع امم ماضیہ یاد دلاؤ تاکہ وہ ان سے عبرت حاصل کریں۔ اس لیے اس قرینے سے یہ ان ” ببیان الوقائع “ یا ” بتذکیر ایام اللہ “ مقدر ہوگا۔ ” بِاِذْنِہٖ “ یعنی اللہ کی توفیق اور اس کی مہربانی سے ” ای بتوفیقہ ایاھم و لطفہ بھم “ (قرطبی ج 9 ص 338) ۔ ” اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ “ یہ ” النور “ سے باعادہ جار بدل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 ۔ الر قف یہ قرآن ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپکی جانب اس لئے نازل کیا ہے کہ اس قرآن کے ذریعے آپ تمام بنی نوع انسان کو ان کے پروردگار کے حکم سے تاریکیوں اور اندھیروں سے نکال کر روشنی اور اجالے کی طرف جو ایک زبردست ستودہ صاف کی راہ ہے لے آئیں۔ یعنی کفر کے اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لے آئیں اور وہ اجالا کیا ہے وہ زبردست اور ستودہ صفات کی راہ ہے اس راہ کی جانب لے آئو کہ اسی کا نام نور ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کو وہ راستہ بتلا دیں۔