Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 12

سورة إبراهيم

وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا ؕ وَ لَنَصۡبِرَنَّ عَلٰی مَاۤ اٰذَیۡتُمُوۡنَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ ﴿٪۱۲﴾  14

And why should we not rely upon Allah while He has guided us to our [good] ways. And we will surely be patient against whatever harm you should cause us. And upon Allah let those who would rely [indeed] rely."

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالٰی پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سجھا ئی ہیں ۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے توکل کرنے والوں کو یہی لائق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا لَنَا أَلاَّ نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّهِ ... And why should we not put our trust in Allah, after He had guided us to the best, most clear and plain way, ... وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ... while He indeed has guided us in our ways! ... وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا اذَيْتُمُونَا ... And we shall certainly bear with patience all the hurt you may cause us, such as foolish actions and abusive statements, ... وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ and in Allah (alone) let those who trust, put their trust.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں ہدایت دے دی تو اس کے بعد ہمارے پاس کیا عذر ہے کہ ہم اس کے بھروسے پر استقامت اختیار نہ کریں۔ رہا تمہارا ہمیں ایذا دینا تو ہم ہر حال میں اس پر صبر کریں گے اور اپنے رب پر بھروسا رکھیں گے، کیونکہ بھروسا رکھنے والوں کو اسی پر بھروسا رکھنا لازم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَا ۭ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَا ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ 12۝ۧ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ، قوله تعالی: فَآذُوهُما [ النساء/ 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة/ 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب/ 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام/ 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف/ 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة/ 222] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ { فَآذُوهُمَا } ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ { وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ } ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ { وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى } ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ { وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا } ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ { لِمَ تُؤْذُونَنِي } ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ } ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) رسولوں نے کہا ہم کو اللہ پر بھروسہ نہ کرنے کا کون سا امر باعث ہوسکتا ہے حالانکہ اس نے ہمیں نبوت اور اسلام کی دولت سے سرفراز فرمایا اور اطاعت خداوندی پر جو تم نے ہمیں کو اذیت پہنچائی، اس پر بھی صبر کرتے ہیں اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَا) اللہ نے ہمیں اپنے تقرب کے طریقے اور اپنی طرف آنے کے راستے بتائے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس پر توکل نہ کریں

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:12) سبلنا۔ مضاف ۔ مضاف الیہ۔ ہمارے راستے ۔ ہماری راہیں۔ سبیل کی جمع۔ ھدانا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ہدایۃ سے ۔ ہدانا سبلنا۔ اس نے ہم کو حق کے راستے بتا دئیے۔ لنصبرت۔ مضارع جمع متکلم لام تاکید ونون ثقیلہ ۔ ہم ضرور ہی صبر کریں گے۔ اذیتمونا۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ تم نے ہم کو ایذا دی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی اگر تم ہم سے دشمنی کرنے پر تلے ہوئے ہو تو ہمارا بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہے۔ تمہارے مقابلے میں وہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ جس کا اتنا بڑا فضل ہو اس پر تو ضرور بھروسہ کرنا چاہیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے کا اعلان اور عقیدہ۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) ہر مصیبت اور مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے اور اپنے ماننے والوں کو بھی یہی تعلیم دیتے تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں ہمیں اپنے رب پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ اس عقیدہ اور تعلیم کا یہ اثر تھا کہ ان پر ایمان لانے والے حضرات بےپناہ مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود ظلم کرنے والوں کو کہتے کہ تم جو چاہو کرگزرو۔ ہمارا ایمان اور اعتماد ہے کہ ہمارا رب ہماری ضرور مدد فرمائے گا۔ ہم کیوں نہ اپنے رب پر توکل کریں جب کہ اس نے کفرو شرک اور بدعت ورسومات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس لیے ہم صبر کریں گے اور وہ ایک دوسرے کو یہی بات کہتے کہ ہمیں اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ توکل کا معنی ٰہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا یہ مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق ومالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کرتا ہے۔ جو اپنے رب پر بھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ لہٰذا تنگی اور آسانی ‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے۔ یہ غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم اور فائدہ : ١۔ توکل کرنے والوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (ابراہیم : ١٢) ٢۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ : ٢٣) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر سے نوازے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٦۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال : ٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٢ وما لنا۔۔۔۔۔۔۔ ھدنا سبلنا (١٤ : ١٢) ” اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ “ یہ اس شخص کی بات ہے جسے اپنے موقف اور اپنے طریقہ کار پر پختہ یقین ہو اور وہ اپنے منہاج پر مطمئن ہو۔ اس کا دامن اپنے حقیقی ولی اور ناصر کے اعتماد سے بھرا ہوا ہو ، اور وہ یقین رکھتا کہ جو ذات ہدایت دیتی ہے وہ اس کی معین و مددگار ہوگی۔ اگر ایک راہ رو صحیح راہ پر جا رہا ہو تو اسے کیا پرواہ ہے کہ وہ منزل تک پہنچتا ہے یا نہیں۔ اصل فکر تو اس بات کی ہونا چاہئے کہ راہ رو جس راہ پر سفر کر رہا ہے وہ راہ دعوت ہے یا نہیں۔ جو شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ دست قدرت اس کی رہنمائی کر رہا ہے اور اپنے قدم بقدم چلا رہا ہے ، تو وہ ایک ایسا شخص ہے جس کا شعور اللہ کے وجود اور اس کی قدرت قاہرہ کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے شخص کا دل اللہ تک پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ جس شخص کو یہ شعور حاصل ہو وہ اپنی راہ پر چلنے میں پھر کوئی تردد نہیں کرتا اگرچہ راستے میں مشکلات ہوں ، اور اگرچہ راستے میں بڑی سے بڑی طاغوتی قوتیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انبیاء (علیہم السلام) کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ یہ یقین رکھیں کہ اللہ ان کا ہادی و ناصر ہے اور وہ طاغوتی قوتوں کو خاطر نہیں نہ لا کر اپنی راہ پر بےدھڑک چلیں۔ اور اللہ پر بھروسہ کریں اور طاغوتی قوتوں کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لا آگے ہی بڑھیں۔ اس عظیم حقیقت تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو کسی موجود اور مستحکم مقتدر اعلیٰ طاغوتی نظام کے خلاف عملاً اسلامی تحریک کو لے کر اٹھتے ہیں۔ صرف ایسے عملی لوگوں کے دل میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ خود ان کی راہنمائی کر رہا ہے۔ وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے دل ایمان ویقین سے بھر جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دل محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لئے روشنی کی کھڑکیاں کھل گئی ہیں اور ان کھڑکیوں اور روشن دانوں سے ان پر روشنی آتی ہے ، جو ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ اس رابطے کے ذریعہ ایمان کی تازہ ہوا کے جھونکے بھی آتے رہتے ہیں اور ایسے دل اللہ کے ساتھ نہایت انس اور قرب محسوس کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے جن کارکنوں کے دلوں میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے وہ پھر اس زمین پر پائے جانے والی مقتدر طاغوتی قوتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کو نہ کوئی دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ کوئی دھمکا سکتا ہے۔ ایسے کارکن پھر ایسی طاغوتی قوت کی قوت اور اقتدار کو نہایت ہی حقارت سے دیکھتے ہیں اس لیے کہ ان کے قلوب اللہ تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور ان حقیر لوگوں کی سازشوں اور مظالم کو پھر وہ خاطر ہی میں نہیں لاتے۔ وما لنا الا۔۔۔۔۔۔۔۔ ما اذیتمونا ” اور ہم کیوں اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ “ اور جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو ان پر ہم صبر کریں گے “۔ ہم صبر سے کام لیں گے اور انشاء اللہ ہمارے پاؤں ہرگز نہ ڈگمگائیں گے ، ہم کمزوری نہ دکھائیں گے اور ہمارے قدم متزلزل نہ ہوں گے اور وھن ہمارے قریب نہ آئے گا اور نہ ہم الٹے پاؤں پھریں گے۔ ہم اس راہ سے ہرگز ادھر ادھر نہ ہوں گے ۔ نہ جدو جہد میں کمی کریں گے اور نہ ہی ہم شک میں گرفتار ہوں گے۔ اور یہ اس لیے کہ : وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون (١٤ : ١٢) ” اور بھروسہ کرنے والے ، اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں “۔ اب سرکش طاغوتی قوتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں ، یہ قوتیں ، مجادلہ اور مباحثہ ترک کردیتی ہیں ، غوروفکر چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ یہ لوگ لوہے کے چنے ہیں۔ ان کو نہیں چبایا جاسکتا۔ نظریات کے مقابلے میں ان قوتوں کو شکست ہوجاتی ہے ۔ اب یہ لوگ تشدد کے اوچھے ہتھیار لے کر سامنے آتے ہیں کیونکہ طاغوتی سرکش قوتوں کے پاس اس کے سوا ہوتا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ اللہ کے پیغمبروں نے منکرین کے جواب میں مزید فرمایا کہ تمہاری عداوت و ضد کے مقابلہ میں ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں صبر و استقامت عطا فرمائے اور ہم اللہ پر کیوں بھروسہ نہ کریں اور اس کے سوا اوروں کو کیوں پکاریں حالانکہ اسی نے ہم سب کو ہدایت کی توفیق دی اور صراط مستقیم (توحید) کی طرف ہماری اہنمائی فرمائی۔ اور ضد وعناد سے بےجا معجزات طلب کر کے تم ہمیں جو ایذا دے رہے ہو اس پر ہم اللہ کی توفیق سے صبر کریں گے۔ اور تمہارے ان ہتھکنڈوں سے ہمارے پائے ثبات میں تزلزل نہیں آئے گا اور ہم توحید کی تبلیغ و اشاعت کا کام ہرگز ترک نہیں کریں گے ” وَ عَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ “ دنیا میں بھروسہ اور اعتماد توکل کی لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اس لیے سب کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے اور حاجات و مشکلات میں صرف اسی ہی کو پکارنا چاہئے۔ ” وَ مَا لَنَا اَنْ لَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللہِ “ یہ توحید کا خلاصہ ہے اور اسم اعظم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 ۔ اور ہم کو کیا عذم ہوسکتا ہے اور کونسا امر مانع ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اس نے ہمارے سب طریقے ہم کو بتا دیئے ہیں اور یقینا ہم ان تمام تکالیف پر جو تم ہم کو پہنچا ئو گے اور جو تکلیفیں تام ہم کو دشمنی اور عناد سے دو گے ہم ضرور ان پر صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل و احسان فرمایا ہم کو نبوت عطا فرمائی ہم کو دین و دنیا کے لئے کامیابی اور منافع کے راستے اس نے دیکھائے اور مکمل دین ہم کو سمجھادیا ہے اب ہم اس پر بھروسہ نہ کریں۔ یہ کیسے ممکن ہے اور یہ بھی ہم تمہارے مخالفانہ رویے سے سمجھ گئے کہ تم ہم کو ستائو گے اور ایذاء پہنچائو گے تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم تمہاری ایذا رسانی کا صبر و سہار سے مقابلہ کریں گے اور ہمارے توکل و استقامت میں فرق نہیں آئے گا ۔