Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 18

سورة إبراهيم

مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِ ۣ اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ ﴿۱۸﴾

The example of those who disbelieve in their Lord is [that] their deeds are like ashes which the wind blows forcefully on a stormy day; they are unable [to keep] from what they earned a [single] thing. That is what is extreme error.

ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا ، ان کے اعمال مثل اس راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہونگے ، یہی دورکی گمراہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Parable for the Deeds of the Disbelievers This is a parable that Allah has given for the deeds and actions of the disbelievers who worshipped others besides Him and rejected His Messengers, thus building their acts on groundless basis. Their actions vanished from them when they were most in need of their rewards. Allah said, مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ ... The parable of those who disbelieved in their Lord is that their works, on the Day of Judgment, when they will seek their rewards from Allah the Exalted. They used to think that they had something, but they will find nothing, except what remains of ashes when a strong wind blows on it, ... كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ ... are as ashes, on which the wind blows furiously, ... فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ... on a stormy day; ... لااَّ يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُواْ عَلَى شَيْءٍ ... they shall not be able to get aught of what they have earned. They will not earn rewards for any of the good works they performed during this life, except what they can preserve of ashes during a day of strong wind. Allah said in other Ayat, وَقَدِمْنَأ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَأءً مَّنثُوراً And We shall turn to whatever deeds they did, and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust. (25:23) and, مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِى هِـذِهِ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَـكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ The parable of what they spend in this world is that of a wind which is extremely cold; it struck the harvest of a people who did wrong against themselves and destroyed it. Allah wronged them not, but they wronged themselves. (3:117) and, يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاأَ تُبْطِلُواْ صَدَقَـتِكُم بِالْمَنِّ وَالاأٌّذَى كَالَّذِى يُنفِقُ مَالَهُ رِيَأءَ النَّاسِ وَلاأَ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاأٌّخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاأَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللَّهُ لاأَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَـفِرِينَ O you who believe! Do not render in vain your Sadaqah (charity) by reminders of your generosity or by injury, like him who spends his wealth to be seen of men, and he does not believe in Allah, nor in the Last Day. His parable is that of a smooth rock on which is a little dust; on it falls heavy rain which leaves it bare. They are not able to do anything with what they have earned. And Allah does not guide the disbelieving people. (2:264) Allah said in this Ayah, ... ذَلِكَ هُوَ الضَّلَلُ الْبَعِيدُ That is the straying, far away from the right path. meaning, their work and deeds were not based on firm, correct grounds, and thus, they lost their rewards when they needed them the most, ذَلِكَ هُوَ الضَّلَلُ الْبَعِيدُ (That is the straying, far away from the right path).

بے سود اعمال کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال ۔ قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی ھبا منشورا ہو گئے ۔ آیت ( مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِهِ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْهُ١١٧؁ ) 3-آل عمران:117 ) یہ کفار جو کچھ اس حیات دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس آگ کے گولے جیسی ہے جو ظالموں کی کھیتی جھلسا دے ۔ اللہ ظالم نہیں لیکن وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے کہ ایمان والو اپنے صدقے خیرات احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ جو ریا کاری کے لئے خرچ کرتا ہو اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی تھی لیکن بارش کے پانی نے اسے دھو دیا اب وہ بالکل صاف ہو گیا یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بےپایہ اور بےثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر وثواب انھیں نہیں ملے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] کافروں کے اچھے اعمال کی مثال راکھ کا ڈھیر :۔ شریعت کا ایک کلیہ ہے کہ اعمال کی جزا و سزا کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، یہ رسول اللہ کا مشہور و معروف فرمان اور متواتر حدیث ہے یعنی عمل کرتے وقت انسان جیسی نیت کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک مومن سارے کام اس نیت سے کرتا ہے کہ یہی اعمال آخرت میں اس کے کام آئیں گے اور اس کی نجات کا ذریعہ بنیں گے لہذا اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ مگر ایک شخص جو کہ بھلا کام اس نیت سے کرتا ہے جس سے اسے کوئی ذاتی یا قومی مفاد یا اپنی شہرت مطلوب ہوتی ہے تو اسے دنیا میں ہی اس کے اس طرح کے بھلے کاموں کا بدلہ دے دیا جاتا ہے۔ اس کے نیک اعمال خواہ بہت زیادہ ہوں، آخرت میں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی راکھ کا ڈھیر پڑا ہو اور آندھی کا ایک ہُلّہ اسے اڑا کر تتر بتر کردیتا ہے اور وہاں کچھ بھی نہیں رہتا۔ درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون کی وضاحت کررہی ہے۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && اللہ مومن پر اس کی نیکی کے سلسلے میں ذرہ سا بھی ظلم نہیں کرے گا۔ اسے اس کی نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیا جائے گا اور آخرت میں بھی۔ اور کافر نے جو نیک عمل کیے ہوں گے اس کو ان کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو کوئی نیکی نہ ہوگی جس کا اس کو صلہ دیا جائے۔ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب جزاء المومن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ) اور کافروں کا چونکہ آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور نہ آخرت میں اجر پانے کی نیت سے انہوں نے کوئی کام کیا ہوتا ہے۔ لہذا آخرت میں ان کے اجر کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا اور جو برے کام انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے جن میں سب سے بڑا گناہ یہی آخرت کا انکار ہے۔ ان کی سزا انھیں ضرور ملے گی۔ گویا ان سے نیکی برباد اور گناہ لازم والا معاملہ بن جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۔۔ : کفار دنیا میں جو بھی اچھے کام کرتے ہیں، مثلاً کمزوروں کی مدد اور صدقہ وغیرہ، وہ آخرت میں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے، کیونکہ ان کا بدلا انھیں دنیا ہی میں دیا جا چکا ہوگا۔ (دیکھیے الاحقاف : ٢٠) ” عَاصِفٍ “ ” عَصَفَ یَعْصِفُ “ سے ہے، بمعنی توڑنا۔ ” کَعَصْفٍ مَّأْکُوْلٍ “ کا معنی ہے ریزہ شدہ بھس، یعنی تیز و تند ہوا جو ہر چیز کو توڑتی جائے۔ اس آیت میں قیامت کے دن کفار کے اعمال کے بےکار ہونے کی مثال دی ہے کہ ایک تند و تیز ہوا والے دن میں کسی راکھ پر بہت سخت ہوا چلے تو اس ہوا میں راکھ کا ایک ذرہ بھی ہاتھ میں آنا مشکل ہے، اسی طرح کفار کے اعمال صالحہ اس دن بےکار ہوں گے، کیونکہ ان کا کوئی عمل اس دن کے لیے تھا ہی نہیں، نہ اس دن پر ان کا ایمان تھا۔ مزید دیکھیے سورة فرقان (٢٣) ، کہف (١٠٣ تا ١٠٦) اور آل عمران (١١٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : (ان کافروں کو اگر اپنی نجات کے متعلق یہ زعم ہو کر ہمارے اعمال ہم کو نافع ہوں گے تو اس کا قاعدہ کلیہ تو یہ سن لو کہ) جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کی حالت باعتبار عمل کے یہ ہے (یعنی ان کے اعمال کی ایسی مثال ہے) جیسے کچھ راکھ ہو (جو اڑنے میں بہت خفیف ہوتی ہے) جس کو تیز آندھی کے دن میں تیزی کے ساتھ ہوا اڑا لے جائے (کہ اس صورت میں اس راکھ کا نام و نشان بھی نہ رہے گا اسی طرح) ان لوگوں نے جو کچھ عمل کئے تھے اس کا کوئی حصہ (یعنی اثر و نفع کے قبیل سے) ان کو حاصل نہ ہوگا (اس راکھ کی طرح ضائع و برباد ہوجائے گا) یہ بھی بڑی دور دراز کی گمراہی ہے) کہ گمان تو ہو کہ ہمارے عمل نیک اور نافع ہیں اور پھر ظاہر ہوں بد اور مضر جیسے عبادات اصنام یا غیر نافع جیسے اعتاق وصلہ رحمی اور چونکہ حق سے اس کو بہت بعد ہے اس لئے کہا گیا پس اس طریق سے تو نجات کا احتمال نہ رہا اور اگر ان کو یہ زعم ہو کہ قیامت ہی کا وجود محال ہے اور اس صورت میں عذاب کا احتمال نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ) کیا (اے مخاطب) تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو بالکل ٹھیک ٹھیک (یعنی مشتمل بر منافع ومصالح) پیدا کیا ہے (اور اس سے قادر ہونا اس کا ظاہر ہے پس جب وہ قادر مطلق ہے تو) اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور ایک دوسری نئی مخلوق پیدا کر دے اور یہ خدا کو کچھ بھی مشکل نہیں (پس جب نئی مخلوق پیدا کرنا آسان ہے تو تم کو دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے) اور (اگر یہ وسوسہ ہو کہ ہمارے اکابر ہم کو بچا لیں گے تو اس کی حقیقت سن لو کہ قیامت کے دن) خدا کے سامنے سب پیش ہوں گے پھر چھوٹے درجہ کے لوگ (یعنی عوام وتابعین) بڑے درجہ کے لوگوں سے (یعنی خواص و متبوعین سے بطور ملامت و عتاب) کہیں گے کہ ہم (دنیا میں) تمہارے تابع تھے (حتی کہ دین کی جو راہ تم نے ہم کو بتلائی ہم اسی پر ہو لئے اور آج ہم پر مصیبت ہے) تو کیا تم خدا کے عذاب کا کچھ جزو ہم سے مٹا سکتے ہو (یعنی اگر بالکل نہ بچا سکو تو کسی قدر بھی بچا سکتے ہو) وہ (جواب میں) کہیں گے کہ (ہم تم کو کیا بچاتے خود ہی نہیں بچ سکتے ہیں البتہ) اگر اللہ ہم کو (کوئی) راہ (بچنے کی) بتلاتا تو ہم تم کو بھی (وہ) راہ بتلا دیتے (اور اب تو) ہم سب کے حق میں دونوں صورتیں برابر ہیں خواہ ہم پریشان ہوں (جیسا کہ تمہاری پریشانی فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّاسے ظاہر ہے اور ہماری پریشانی تو لو ہدانا اللہ سے ظاہر ہی ہے) خواہ ضبط کریں (دونوں حالتوں میں) ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں (پس اس سوال و جواب سے یہ معلوم ہوگیا کہ طریق کفر کے اکابر بھی اپنے متبعین کے کچھ کام نہ آئیں گے یہ طریق بھی نجات کا محتمل نہ رہا) اور (اگر اس کا بھروسہ ہو کر یہ معبودین غیر اللہ کام آویں گے اس کا حال اس حکایت سے معلوم ہوجائے گا کہ) جب (قیامت میں) تمام مقدمات فیصل ہو چکیں گے (یعنی اہل ایمان جنت میں اور کفار دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے) تو (اہل دوزخ سب شیطان کے پاس کہ وہ بھی وہاں ہوگا جا کر ملامت کریں گے کہ کم بخت تو تو ڈوبا ہی تھا ہم کو بھی اپنے ساتھ ڈبو یا اس وقت) شیطان (جواب میں) کہے گا کہ (مجھ پر تمہاری ملامت ناحق ہے کیونکہ) ( اللہ تعالیٰ نے تم سے (جتنے وعدے کئے تھے سب) سچے وعدے کئے تھے (کہ قیامت ہوگی اور کفر سے ہلاکت ہوگی اور ایمان سے نجات ہوگی) اور میں نے بھی وعدے تم سے کئے تھے (کہ قیامت نہ ہوگی اور تمہارا طریقہ کفر بھی طریقہ نجات ہے) سو میں نے وہ وعدے تم سے خلاف کئے تھے (اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے حق ہونے پر اور میرے وعدوں کے باطل ہونے پر دلائل قطعیہ قائم تھے سو باوجود اس کے تم نے میرے وعدوں کو صحیح اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کو غلط سمجھا تو اپنے ہاتھوں تم ڈوبے) اور (اگر تم یوں کہو کہ آخر سچے وعدوں کو جھوٹا سمجھنے اور جھوٹے وعدوں کا سچا سمجھنے کا سبب بھی تو میں ہی ہوا تو بات یہ ہے کہ واقعی میں اغواء کے مرتبہ میں سبب ضرور ہوا لیکن یہ دیکھو کہ میرے اغواء کے بعد تم مختار تھے یا مضطر و مجبور سو ظاہر ہے کہ) میرا تم پر اور تو کچھ زور چلتا نہ تھا بجز اس کے کہ میں نے تم کو (گمراہی کی طرف) بلایا تھا سو تم نے (باختیار خود) میرا کہنا مان لیا (اگر نہ مانتے تو میں بزور تم کو گمراہ نہ کرسکتا تھا جب یہ بات ثابت ہے) تو مجھ پر (ساری) ملامت مت کرو (اس طرح سے کہ اپنے کو بالکل بری سمجھنے لگو) اور (زیادہ) ملامت اپنے آپ کو کرو (کیونکہ اصل علت عذاب کی تمہارا ہی فعل ہے اور میرا فعل تو محض سبب ہے جو بعید اور غیر مستلزم ہے پس ملامت کا تو یہ جواب ہے اور اگر مقصود اس قول سے استعانت واستمداد ہے تو میں کسی کی کیا مدد کروں گا ورنہ میں بھی تم سے اپنے لئے مدد چاہتا کیونکہ زیادہ مناسبت تم سے ہے پس اب تو) نہ میں تمہارا مددگار (ہو سکتا) ہوں اور نہ تم میرے مددگار (ہو سکتے) ہو (البتہ اگر میں تمہارے طریقہ شرک کو حق سمجھتا تو بھی اس تعلق کی وجہ سے نصرت کا مطالبہ کرنے کی گنجائش تھی لیکن) میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں (اور اس کو باطل سمجھتا ہوں) کہ تم اس کے قبل (دنیا میں) مجھ کو (خدا کا) شریک قرار دیتے تھے (یعنی دربارہ عبادت اصنام وغیرھا میری ایسی اطاعت کرتے تھے جو اطاعت کہ خاصہ حق تعالیٰ ہے پس اصنام کو شریک ٹھہرانا بایں معنی شیطان کو شریک ٹھرانا ہے پس مجھ سے تمہارا کوئی تعلق نہ تم کو استمداد کا کوئی حق ہے پس) یقینا ظالموں کے لئے درد ناک عذاب (مقرر) ہے (پس عذاب میں پڑے رہو نہ مجھ پر ملامت کرنے سے نفع کی امید رکھو اور نہ مدد چاہنے سے جو تم نے ظلم کیا تھا تم بھگتو جو میں نے کیا تھا میں بھگتوں گا پس گفتگو قطع کرو یہ حاصل ہوا ابلیس کے جواب کا پس اس سے معبودین غیر اللہ کا بھروسہ بھی قطع ہوا کیونکہ جو ان معبودین کی عبادت کا اصل بانی و محرک ہے اور درحقیقت عبادت غیر اللہ سے زیادہ راضی وہی ہوتا ہے چناچہ اسی بنا پر قیامت کے دن دوزخ میں اہل نار اسی سے کہیں سنیں گے اور کسی معبود غیر اللہ سے کچھ بھی نہ کہیں گے جب اس نے صاف جواب دے دیاتو اوروں سے کیا امید ہو سکتی ہے پس نجات کفار کے سب طریقے مسدود ہوگئے اور یہی مضمون مقصود تھا ) معارف و مسائل : آیات مذکورہ سے پہلے ایک آیت میں حق تعالیٰ نے کفار کے اعمال کی یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز اور سخت ہوا چل جائے تو اس کا ذرہ ذرہ ہوا میں منتشر ہو کر بےنشان ہوجائے پھر کوئی اس کو جمع کر کے اس سے کوئی کام لینا چاہئے تو ناممکن ہوجائے۔ (آیت) مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ مطلب یہ ہے کہ کافر کے اعمال جو بظاہر اچھے بھی ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں اس لئے سب ضائع اور بیکار ہیں ، اس کے بعد مذکورہ آیات میں پہلے مومن اور اس کے اعمال کی ایک مثال دی گئی ہے پھر کفار و منافقین کے اعمال کی پہلی آیت میں مومن اور اس کے اعمال کی مثال ایک ایسے درخت سے دی گئی ہے جس کا تنہ مضبوط اور بلند ہو اور اس کی جڑیں زمین میں گہری گئی ہوئی ہوں اور زیر زمین پانی کے چشموں سے سیراب ہوتی ہوں گہری جڑوں کی وجہ سے اس درخت کو استحکام اور مضبوطی بھی حاصل ہو کہ ہوا کے جھونکے سے گر نہ جائے اور سطح زمین سے دور ہونے کی وجہ سے اس کا پھل گندگی سے پاک صاف رہے دوسری صفت اس درخت کی یہ ہے کہ اس کی شاخیں بلندی پر آسمان کی طرف ہوں تیسری صفت اس درخت کی یہ ہے کہ اس کا پھل ہر وقت ہر حال میں کھایا جاتا ہو ، یہ درخت کون سا اور کہاں ہے ؟ اس کے متعلق مفسرین کے اقوال مختلف ہیں مگر زیادہ اقرب یہ ہے کہ وہ کھجور کا درخت ہے اس کی تائید تجربہ اور مشاہدہ سے بھی ہوتی ہے اور روایات حدیث سے بھی کھجور کے درخت کے تنہ کا بلند اور مضبوط ہونا تو مشاہدہ کی چیز ہے سب ہی جانتے ہیں اس کی جڑوں کا زمین کی دور گہرائی تک پہنچنا بھی معروف و معلوم ہے اور اس کا پھل بھی ہر وقت اور ہر حال میں کھایا جاتا ہے جس وقت سے اس کا پھل درخت پر ظاہر ہوتا ہے اس وقت سے پکنے کے زمانہ تک ہر حال اور ہر صورت میں اس کا پھل مختلف طریقوں سے چٹنی واچار کے طریقہ سے یا دوسرے طریقہ سے کھایا جاتا ہے پھر پھل پک جانے کے بعد اس کا ذخیرہ بھی پورے سال باقی رہتا ہے صبح وشام دن اور رات، گرامی اور سردی، غرض ہر موسم اور ہر وقت میں کام دیتا ہے اس درخت کا گودا بھی کھایا جاتا ہے اس سے میٹھا رس بھی نکالا جاتا ہے اس کے پتوں سے بہت سی مفید چیزیں چٹائیاں وغیرہ بنتی ہیں اس کی گٹھلی جانوروں کا چارہ ہے بخلاف دوسری درختوں کے پھلوں کے کہ وہ خاص موسم میں آتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں ان کا ذخیرہ نہیں رکھا جاتا ہے اور نہ ان کی ہر چیز سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اور ترمذی، نسائی، ابن حبان اور حاکم نے بروایت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شجرۃ طیبۃ (جس کا ذکر قرآن میں ہے) کھجور کا درخت ہے اور شجرۃ خبیثہ حنظل کا درخت (مظہری) اور مسند احمد میں بروایت مجاہد مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک روز ہم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے کوئی صاحب آپ کے پاس کھجور کے درخت کا گودہ لائے اس وقت آپ نے صحابہ کرام (رض) اجمعین سے ایک سوال کیا کہ درختوں میں سے ایک ایسا درخت بھی ہے جو مرد مومن کی مثال ہے (اور بخاری کی روایت میں اس جگہ یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس درخت کے پتے کسی موسم میں جھڑتے ہیں) بتلاؤ وہ درخت کون سا ہے ؟ عمر (رض) اور دوسرے اکابر صحابہ موجود تھے ان کو خاموش دیکھ کر مجھے بولنے کی ہمت نہ ہوئی پھر خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مؤ من کی مثال اس درخت سے دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ میں ایمان اس کی جڑ ہے جو بہت مستحکم اور مضبوط ہے دنیا کے حوادث اس کو ہلا نہیں سکتے مؤمنین کاملین صحابہ وتابعین بلکہ ہر زمانہ کے پکے مسلمانوں کی ایسی مثالیں کچھ کم نہیں کہ ایمان کے مقابلہ میں نہ جان کی پروا کی نہ مال کی اور نہ کسی دوسری چیز کی دوسری وجہ ان کی طہارت ونظافت ہے کہ دنیا کی گندگیوں سے متاثر نہیں ہوتے جیسے بڑے درخت پر سطح زمین کی گندگی کا کوئی اثر نہیں ہوتا یہ دو وصف تو اصلہا ثابت کی مثال ہیں تیسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح کھجور کی شاخیں بلند آسمان کی طرف ہوتی ہیں مومن کے ایمان کے ثمرات یعنی اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں قرآن کریم میں ہے اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں پاکیزہ کلمات مطلب یہ ہے کہ مومن جو اللہ تعالیٰ کا ذکر تسبیح، تہلیل، قراءۃ قرآن وغیرہ کرتا ہے یہ صبح شام اللہ تعالیٰ کے پاس پہونچتے رہتے ہیں، چوتھی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کھجور کا پھل ہر وقت ہر حال، ہر موسم میں لیل ونہار کھایا جاتا ہے مومن کے اعمال صالحہ بھی ہر وقت، ہر موسم، اور ہر حال میں صبح شام جاری ہیں اور جس طرح کھجور کے درخت کی ہر چیز کارآمد ہے مومن کا ہر قول وفعل اور حرکت و سکون اور اس سے پیدا ہونے والے آثار پوری دنیا کے نافع ومفید ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ مومن کامل اور تعلیمات خدا و رسول کا پابند ہو، مذکورہ تقریر سے معلوم ہوا کہ تُؤ ْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍ میں اکل سے مراد پھل اور کھانے کے لائق چیزیں ہیں اور حین سے مراد ہر وقت ہر حال ہے اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض حضرات کے دوسرے اقوال بھی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ 18؀ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رمد يقال : رَمَادٌ ورِمْدِدٌ «1» ، وأَرْمَدُ وأَرْمِدَاءُ ، قال تعالی: كَرَمادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] ، ورَمِدَتِ النارُ : صارت رَمَاداً ، وعبّر بِالرَّمَدِ عن الهلاك كما عبّر عنه بالهمود، ورَمِدَ الماء : صار كأنّه فيه رماد لأُجُونِهِ «2» ، والْأَرْمَدُ ما کان علی لون الرّماد . وقیل للبعوض : رُمْدٌ ، والرَّمَادَةُ : سَنَةُ المَحْلِ. ( ر مد ) رما و رمد اد ارمد وارمد وارمد ارمد مداء ( خاکستر ) راکھ کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَرَمادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] گویا راکھ کا ڈھیر ہے جسے آندھی کے دن ہوا ڑ ا کرلے جائے رمدت النار کے معنی آگ کے سمجھ کر راکھ بن جانے کے ہیں پھر استعارہ کے طور پر ہلاکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ھمود کا لفظ مجازا بمعنی ہلاکت آجاتا ہے ۔ اور رمد الماء کے معنی پانی کے گدلا ہوجانے کے ہیں ۔ گویا اس میں راکھ ڈال دی گئی ہے اور الا رمد خاکستری رنگ کی چیز کو کہتے ہیں اور مچھر کو رمد کہا جاتا ہے ( جو ارمد کی جمع ہے ) اور رمادۃ کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔ عصف العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ. قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک . ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کے اعمال کی مثال یہ ہے جیسے کچھ راکھ ہو جس کو تیز آندھی کے دن تیز ہوا اڑا کرلے جائے، ان لوگوں نے حالت کفر میں جو اچھے کام کیے تھے، اس کا کچھ بھی ثواب نہیں پائیں گے، جیسا کہ جب راکھ کو ہوا اڑا کرلے جائے، اس کا ایک ذرہ بھی نہیں پاسکتے، یہ کفر اور غیر اللہ کے لیے اعمال کرنا یہ حق اور ہدایت سے دور دراز کی گمراہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ) اللہ کے ہاں کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازمی اور بنیادی شرط ہے۔ چناچہ جو لوگ اپنے رب کا کفر کرتے ہیں ان کے نیک اعمال کو یہاں راکھ کے ایسے ڈھیر سے تشبیہہ دی گئی ہے جس پر تیز آندھی چلی اور اس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہوگیا۔ یعنی بظاہر تو وہ ڈھیر نظر آتا تھا مگر اللہ کے ہاں اس کی کچھ بھی حیثیت باقی نہ رہی۔ یہ بہت اہم مضمون ہے اور قرآن کریم میں مختلف مثالوں کے ساتھ اسے تین بار دہرایا گیا ہے۔ سورة النور کی آیت ٣٩ میں کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے اور سورة الفرقان کی آیت ٢٣ میں منکرین آخرت کے اعمال کو (ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا) یعنی ” ہوا میں اڑتے ہوئے ذرات “ کی مانند قراردیا گیا ہے۔ دراصل ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق نیکی کا ایک تصور رکھتا ہے ‘ کیونکہ نیکی ہر انسان کی روح کی ضرورت ہے مگر نیکی کا تعلق چونکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی قبولیت کے ساتھ ہے ‘ چناچہ اس کے لیے معیار بھی وہی قابل قبول ہوگا جو اللہ نے خود قائم کیا ہے ‘ اور وہ معیار سورة البقرۃ کی آیت البر کی روشنی میں یہ ہے : (لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) ” نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو بلکہ اصل نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر یوم آخرت پر فرشتوں پر کتاب پر اور نبیوں پر۔ اور اس نے خرچ کیا مال اس کی محبت کے باوجود قرابت داروں یتیموں محتاجوں مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں۔ اور قائم کی نماز اور ادا کی زکوٰۃ۔ اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کے جب کوئی عہد کرلیں۔ اور صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں تکالیف میں اور حالت جنگ میں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔ “ اگر نیکی اس معیار کے مطابق ہے تو پھر یہ واقعی نیکی ہے ‘ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو نیکی کی شکل میں دھوکہ سراب اور فریب ہے نیکی نہیں ہے۔ دراصل جب انسان کی فطرت مسنح ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا نیکی کا تصور بھی مسنح ہوجاتا ہے۔ نیکی چونکہ ایک برے سے برے انسان کے بھی ضمیر کی ضرورت ہے اس لیے بجائے اس کے کہ ایک برا انسان اپنی اصلاح کر کے اپنے اعمال و کردار کو نیکی کے مطلوبہ معیار پر لے آئے وہ الٹا نیکی کے معیار کو گھسیٹ کر اپنے خیالات و نظریات کی گندگی کے ڈھیر کے اندر اس کی جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چور ڈاکو اور لٹیرے صدقہ و خیرات کرتے اور خدمت خلق کے بڑے بڑے کام کرتے نظر آتے ہیں اور جسم فروش عورتیں مزاروں پر دھمال ڈالتی اور نیاز بانٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پیشے میں قدرے قباحت کا عنصر پایا جاتا ہے تو کیا ہوا اس کے ساتھ ساتھ ہم نیکی کے فلاں فلاں کام بھی تو کرتے ہیں ! اسی طرح جب مذہبی مزاج رکھنے والے لوگوں کی فطرت مسنح ہوتی ہے تو وہ کبیرہ گناہوں کی طرف سے بےحس اور صغائر کے بارے میں بہت حساس ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ صغائر کے بارے میں تو بڑے زور دار مباحثے اور مناظرے کر رہے ہوتے ہیں ‘ مگر کبائر کو وہ لائق اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ اس پس منظر میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ پہلے کبائر سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے اور پھر اس کے بعد صغائر کی طرف توجہ کی جائے۔ بہر حال قیامت کے دن بیشمار ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے زعم میں بہت زیادہ نیکیاں لے کر آئے ہوں گے مگر اللہ کے نزدیک ان کی نیکیوں کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوگی۔ (لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ ) ان کو زعم ہوگا کہ انہوں نے دنیا میں بہت نیک کام کیے تھے ‘ خدمت خلق کے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کر رکھے تھے ‘ مگر اس دن وہاں ان میں سے کوئی نیکی بھی ان کے کام آنے والی نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. That is, those who were perfidious, faithless, and disobedient to the divine message, and refused to adopt that way to which the Messengers invited, will find in the end that all the deeds and earnings of their lives were as worthless as a heap of ashes. Just as each and every particle of a high mound of ashes formed during a long course of years is scattered by the wind on a stormy day, likewise all their grand works will prove on the stormy doomsday to be no more than a mound of ashes. Their dazzling culture, their grand civilization, their wonderful kingdoms and states, their magnificent universities, their sciences and their literatures, nay, even their hypocritical worship, and so called virtuous deeds, their charitable and reformative works of which they were very proud in the worldly life, shall prove to be as worthless as a heap of ashes, and will be scattered by the storm of the Day of Resurrection. So much so that there shall not remain a single particle of their works worthy of being placed in the divine scale on that Day in their favor.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :25 یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی ، بے وفائی ، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی ، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں ، ان کا پورا کارنامہ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایہ عمل آخرکار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہوگا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدت دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا ، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا یا کہ اس کا ایک ایک درہ منتشر ہو کر رہ گیا ۔ ان کی نظر فریب تہذیب ، ان کا شاندار تمدن ، ان کی حیرت انگیز صنعتیں ، ان کی زبردست سلطنتیں ، ان کی عالیشان یونیورسٹیاں ، ان کے علوم و فنون اور ادب لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے ، حتی کہ ان کی عبادتیں اور ان کی ظاہری نیکیاں اور ان کے بڑے بڑے خیراتی اور رفائی کارنامے بھی ، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں ، سب کے سب آخرکار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالم آخرت میں اس کا ایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: کافر لوگ دنیا میں کچھ اچھے کام بھی کرتے ہیں۔ مثلاً غریبوں کی امداد وغیرہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ ان کے ایسے اچھے کاموں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا، کیونکہ وہاں ثواب ملنے کے لیے ایمان شرط ہے۔ لہذا آخرت میں وہ اعمال ان کے کچھ کام نہیں آتے۔ اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ جس طرح راکھ کو آندھی اڑا لے جائے تو اس کا کوئی پتہ نشان نہیں ملتا۔ اسی طرح کافروں کے ان اعمال کو ان کا کفر کا لعدم کردے گا۔ اور ان اعمال کا کوئی فائدہ ان کو آخرت میں نہیں ملے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨۔ اس آیت میں کفار کے اعمال کی مثال بیان کی گئی ہے کہ کفار جو نیکی کرتے تھے اس کا ثواب بھی ان کو کچھ نہ ملے گا برے عمل کی سزا جو کچھ ہوگی وہ تو ہوگی مگر ان کے نیک عمل جیسے صدقہ دینا صلہ رحمی کرنی محتاجوں کی حاجت برلانی باپ ماں کے ساتھ بھلائی کرنی ان کی بھی ایسی مثال قیامت کے دن ہوجاوے گی جیسے آندھی میں کوئی راکھ اڑنے سے بچا نہیں سکتا اسی طرح سے قیامت کے دن کافروں کو نیک عملوں سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کیوں کہ یہ لوگ اکیلے خدا پر ایمان نہیں لائے تھے بتوں کو خدا کا شریک کرتے تھے اس لئے ان کی یہ سب نیکیاں بھی برباد جاوے گی اور ان کا اپنی نیکیوں کی بابت یہ خیال کہ ہم کو اس کا اجر ملے گا بہت بڑی گمراہی ٹھہرے گی کیونکہ جو شخص خدا کو پورا پہچانتا ہی نہیں عقبیٰ کے عذاب وثواب کا اس کو یقین نہیں اس کی نیکیاں خدا کے حکم کے موافق نہیں ہوسکتیں۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے دکھاوے کے نیک عمل کو چھوٹا شرک فرمایا ہے۔ ١ ؎ مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی معتبر روایت گزر چکی ہے کہ جس عمل میں دنیا کے دکھاوے کا لگاؤ ہوگا وہ اعمال نامہ میں سے نکال کر قیامت کے دن پھینک دیا جائے ٢ ؎ گا۔ ان حدیثوں سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب چھوٹا شرک نیک عملوں کو پھینک دینے کے قابل کردیتا ہے تو بت پرستی کے بڑے شرک میں جو لوگ گرفتار ہیں ان کے نیک عمل قیامت کے دن سوا پھینک دینے اور ہوا میں اڑا دینے اور کس کام کے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مشرکین مکہ عقبیٰ کے اجر کے تو قائل نہیں تھے اس واسطے ان کے نیک کام فقط دنیا کے نام نمود کے لئے ٹھہرے جو قیامت کے دن ہوا میں اڑ جاویں گے۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٩ ج ١ الترغیب من الریا ٢ ؎ الرتغیب ص ٢١ ج : الترھیب من الریائ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:18) کرماد۔ ک تشبیہ کے لئے رماد ۔ راکھ۔ خاکستر۔ اسم ہے اس کی جمع ارمدۃ۔ اشتدت بہ الریح۔ اشتدت۔ ماضی۔ واحد مؤنث غائب۔ وہ سخت ہوگئی۔ اشتداد (افتعال) سے مصدر۔ اشتدت بہ الریح۔ جس کو ہوا تیزی سے اڑا لے گئی۔ عاصف۔ تیزو تند ہوا۔ سخت جھونکا۔ عصف جس کے معنی تیزوتند ہوا چلنے اور آندھی آنے کے ہیں۔ المفردات میں ہے ریح عاصف تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنا دے۔ عصف کے معنی بھس ہیں جیسے کعصف ما کول۔ (105:5) جیسے کھایا ہوا بھس ہو۔ یوم عاصف آندھی کا دن۔ عاصف بمعنی معصوف ہے۔ عاصف کی جمع عواصف ہے۔ لا یقدرون مما کسبوا علی شیئ۔ ای لا یقدرون علی شیء مما کسبوا۔ یعنی جو کچھ انہوں نے کمایا تھا اس میں سے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ذلک ۔ یعنی ضیاع اعمال۔ ضلال۔ گمراہی۔ بھٹکنا۔ راہ سے دور جاپڑنا۔ کھو جانا۔ ضائع ہوجانا۔ گم ہوجانا۔ ہلاک ہوجانا۔ سیدھی راہ سے ہٹ جانا۔ مغلوب ہوجانا۔ یہاں ضلال بعید سے مراد راہ حق سے بعد کا ثواب سے مرومی ہے۔ یعنی ان کے اعمال نیک تو ضائع ہوگئے اور وہ ثواب سے محروم رہے اور اعمال سوء کا عذاب بدستور رہا۔ گو یا نیکی برباد گناہ لازم کے مصداق ہوئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ تو جس طرح اس راکھ کو کوئی ذرہ ہاتھ میں آنا مشکل ہے اسی طرح کافروں کے نیک اعمال۔ خیرات وغیرہ۔ بیکا رہیں۔11 ۔ کیونکہ نہ ان کا خدا پر ایمان تھا اور نہ انہوں نے اپنے اعمال سے آخرت چاہی تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 18 تا 21 رماد راکھ۔ اشتدت تیز چلی۔ الریح ہوا۔ عاصف تیز آندھی۔ لایقتدرون وہ طاقت وقدرت نہیں رکھتے ہیں۔ کسبوا انہوں نے کمایا۔ یشآء وہ چاہتا ہے۔ یذھب وہ لے جائے۔ وہ جاتا ہے۔ خلق جدید نئی مخلوق ۔ برزوا وہ ظاہر ہوئے۔ وہ حاضر ہوں گے۔ الضعفوا (ضعیف) ، کمزور ۔ استکبروا انہوں نے تکبر کیا۔ بڑائی کی۔ تبع پیچھے ۔ تابع داری کرنا ۔ مغنون بچانے والے ، ہلکا کرنے والے۔ ھدنا اس نے ہمیں راستہ سمجھایا، بتایا ۔ اجزعنا کیا ہم گھبرائیں ، چلائیں محیص چھٹکارا پانے کی جگہ ۔ تشریح :- آیت نمبر 18 تا 21 قرآن مجید اور احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کی بھلائی کے لئے جو کام بھی کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ اس پر بھی بدلہ دیا جائے گا لیکن فرق یہ ہے کہ اگر یہ نیک اور بھلے کام کوئی ایسا شخص کرے گا جو صاحب ایمان نہیں ہے تو اس کو اس کا اجر اسی دنیا میں دے دیا جائے گا۔ دولت، شہرت اور نیک نامی سے لوگ اس کی قدر کریں گے اور یہی اس کا بدلہ ہے لیکن اگر یہی نیک اعمال ایک ایسا شخص کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر مکمل یقین و ایمان رکھتا ہے تو اس کا اجر وثواب اس کو اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں تو بہت زیادہ قدر ہوگی اور اس کا ثواب کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا۔ فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور پھر بھلے کام بھی کرتے ہیں تو ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کے ڈھیر کی طرح ہے جو دیکھنے میں بہت زیادہ نظر آتی ہے لیکن ہوا کا ایک طوفان یا آندھی اس کو اس طرح اڑا کر فضا میں بکھیر دیتی ہے کہ اس کا وجود ہی مٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح ان کافروں کے کئے ہوئے بھلے کام ہیں کہ وہ بہت نظر اتٓے ہیں لیکن موت آتے ہی یہ سارے اعمال آخرت میں راکھ کا ڈھیر ثابت ہوں گے جن کا آخرت میں کوئی وجود نہیں ہوگا ۔ یہ لوگ اپنے نیک اعمال کے ساتھ جن غیر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے ہیں جن کے متعلق ان کا یہ گمان ہے کہ وہ ان کو قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے جب یہ بتوں کو ماننے والے کمزور لوگ قیامت کے دن ان سے درخواست کریں گے کہ ان کو عذاب الٰہی سے بچا لیں تو وہ تکبر اور غرور کے پیکر اپنے ماننے والوں سے یہی کہیں گے کہ اگر ہمیں کوئی راستہ ملا تو ہم تمہیں ضرور بتا دیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آج کے دن نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ ہم اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ فرمایا کہ یہی وہ چیز ہے جو ان کو ہدایت سے بہت دور کئے ہوئے تھی کیونکہ ان کا سہارا ان پر تھا جو یہ کہہ اٹھیں گے کہ آج کے دن ہمارا رونا اور چلانا بھی ہمارے کام نہ آسکے گا۔ ہم تو خود اس عذاب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے نجات پانا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ فرمایا کہ یہ اللہ کا کرم ہے کہ کفار و مشرکین کے کفر و شرک کے باوجود اللہ ان کے وجود کو گوارا فرما رہا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو ان لوگوں کو ختم کر کے کوئی دوسری مخلوق یا قوم کو لے آتا جو اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن نافرمانیوں کے باوجود اللہ ان کو ان کے ٹھکانوں پر برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نافرمانیوں کا یہ سلسلہ اسی طرح قائم رکھا تو پھر ان کے اعمال اور وجود کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا جائے گا جس کی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے نہ وزن ہوتا ہے اور نہ یہ راکھ کا ڈھیر کسی کام کا ہوتا ہے۔ کفار مکہ باہر سے آنے والے حجاج اور زائرین کی راحت و آرام کے لئے مہمان نوازی اور کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے اور یہ سجھتے تھے کہ صرف حجاج اور زائرین کے لئے پانی کی سبلیں اور کھانے پینے کا انتظام کردینا ان کی نجات کا ذریعہ بن جائے گا۔ ان آیات میں اسی کا جواب دیا گیا ہے کہ حجاج وغیرہ کے لئے یہ خدمات بھی اللہ کے ہاں قبول ہیں اور ان کا صلہ دنیا ہی میں دیدیا جائے گا۔ لیکن اگر یہی اعمال اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ کئے جائیں تو ان کا ثواب بہت زیادہ عطا کیا جائے گا دنیا میں بھی اور آخرت بھی۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کفر و شرک کے ساتھ ساتھ یہ نیک اعمال اس کی نجات کا باعث ہوں گے تو اس کو اس غلط فہمی کو دل سے نکال دینا چاہئے کیونکہ نہ یہ اعمال اس کا ساتھ دیں گے اور نہ وہ سہارے اس کے کام آئیں گے جن پر بھروسہ کر کے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو اللہ کے عذاب سے بچا لیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کے اعمال کا بدلہ ان کو اس دنیا میں بھی دیا جائے گا لیکن اگر ان کو ان کے نیک اور بھلے کاموں کا بدلہ اس دنیا میں نہ ملے تو قیامت میں ان کو اتنا اجر وثواب ملے گا جس کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کے ساتھ عمل صالح اور دنیا اور آخرت میں بھلائیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس صورت میں اس راکھ کا جو اڑنے میں بہت خفیف ہوتی ہے نام ونشان بھی نہ رہے گا۔ 6۔ اس لیے کہ گمان تو ہو کہ ہمارے عمل نیک اور نافع ہیں اور پھر ظاہر ہوں بد اور مضر۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہوگا۔ مشرک اور کافر دنیا میں جو نیک عمل کرتے رہے کفر و شرک کی وجہ سے ان کی حیثیت راکھ کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ کفر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات اور صفات کا انکار کرنا۔ یہ ایسا گناہ اور جرم ہے کہ اگر اس کا مرتکب شخص کوئی اور گناہ نہ بھی کرے تو کفر و شرک سے بڑا گناہ اور گمراہی کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرنے والے کچھ لوگ انسانی اقدار کے اعتبار سے شریف النفس اور دنیا میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے عظیم کار نامے سرانجام دیتے ہیں۔ خلق خدا ان کے کار ناموں سے صدیوں تک فائدہ اٹھاتی ہے۔ دنیوی اعتبار سے یہ بےمثال اور بھلے کام ہوتے ہیں چونکہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے منکر ہوتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے اس لیے عدل اور عقل و انصاف کا تقاضا ہے کہ انہیں قیامت کے دن کچھ صلہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عادل اور مہربان ہے۔ اس لیے آخرت کے منکروں کو دنیا میں اچھی شہرت، وسائل واسباب کی فراوانی اور کئی مشکلات سے بچاؤ کی صورت میں صلہ دیتا ہے۔ کیونکہ یہ کفر جیسے سنگین گناہ اور جرم میں ملوث تھے۔ اس لیے آخرت کے حوالے سے ان کے اچھے اعمال کی حیثیت راکھ کے ڈھیر کی مانند ہوگی۔ جس طرح آگ کسی چیز کے وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور اس راکھ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بیشک وہ کتنا بڑا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی حالت قیامت کے دن کفار کے اچھے اعمال اور کار ناموں کی ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا (فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا )[ رواہ البخاری کتاب التفسیر، باب قولہ أولئک الذین حبطت أعمالہم فی الحیاۃ الدنیا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ایک موٹا تازہ آدمی لایا جائے گا۔ اس کا وزن اللہ کے نزدیک مچھرکے پر کے برابر بھی نہ ہوگا اور آپ نے فرمایا پڑھو (فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) ” ہم قیامت کے دن ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْٓءَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لاینفعہ عمل ] ” حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے اللہ کے رسول ! ابن جدعان زمانۂ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کیا یہ چیز اسے نفع دے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کام اسے نفع نہیں دیں گے کیونکہ کبھی اس نے یہ نہیں کہا اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔ “ مسائل ١۔ کفار کے اعمال غارت جائیں گے۔ ٢۔ کفار کو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کے اعمال غارت کردیے جائیں گے : ١۔ کفار کے اعمال اس طرح غارت ہوجائیں گے جیسے تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے (ابراہیم : ١٨) ٢۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال تباہ کردیے گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبۃ : ١٧) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کے اعمال دنیا و آخرت میں تباہ و برباد کردیے گئے۔ (التوبۃ : ٦٩) ٤۔ جو لوگ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ان کے اعمال ضائع ہوں گے۔ (الکھف : ١٠٥) ٥۔ جو لوگ ہماری آیات کی اور آخرت میں ملاقات کی تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف : ١٤٧) ٦۔ ایمان نہ لانے والے کے اعمال غارت جائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ (المائدۃ : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٨ یہ منظر کہ سخت طوفانی ہوا کے دن راکھ اڑرہی ہے ، پیش آتا رہتا ہے اور ہر کسی کے ذہن میں ہے۔ یہاں اس منظر سے قرآن کریم یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کوئی چیز کسی طرح مجسم طور پر ضائع ہوجاتی ہے اور اس کا مالک اس کے یوں ضائع ہونے کو کسی طرح نہیں روک سکتا اور نہ ایسی ضائع شدہ چیز سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے اس طوفانی منظر میں اس مفہوم کو مجسم کر کے پیش کیا جاتا ہے اور یہ منظر انسانی شعور کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے ، ضیاع اعمال کی تعبیر اگر مجرد ذہنی اور فلسفیانہ انداز میں کی گئی ہوتی تو اس کا اس قد اثر ہرگز نہ ہوتا۔ اس سے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ یہ اعمال پوری طرح اکارت گئے۔ یہ منظر کفار کے اعمال کی بساط لپیٹ کر رکھ دیتا ہے جو اعمال ایمان کی مضبوط بنیاد پر قائم نہیں ہوتے اور جو اپنے حقیقی اسباب کے ساتھ مضبوط رسی سے باندھے ہوئے نہیں اور جن کا باعث اور سبب تعلق باللہ نہیں ہوتا۔ وہ اسی طرح اڑ جاتے ہیں جس طرح سخت آندھی میں راکھ اڑ جاتی ہے اور ایسے اعمال نہ مضبوطی سے قائم ہو سکتے اور نہ منظم ہو سکتے ہیں ، کیونکہ اصل بات عمل نہیں ہوتا بلکہ وہ داعیہ ہوتا ہے جس کی اساس پر عمل کا ظہور ہوتا ہے اس لیے کہ عمل ایک آلاتی حرکت ہے ، جس طرح مشین حرکت کرتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عمل کے پیچھے محرک ہو اور اس عمل کا کوئی متعین مقصد ہو۔ اس منظر میں ایک گہر معنوی حقیقت اور ظاہری تصور کے درمیان مکمل مطابقت ہے اور یہ منظر اس مفہوم کو نہایت موثر ، اشاراتی اور دلچسپ اسلوب میں ظاہر کرتا ہے اور پھر جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ اس مفہوم پر فٹ آتا ہے۔ ذلک ھو الضلل البعید (١٤ : ١٨) “ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے ”۔ یہ نتیجہ جس قدر تاریک ہے وہ راکھ کی اڑان کی تاریکی کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے ، کافر خود اپنے اعمال کے غبار میں گم گشتہ راہ نظر آتا ہے۔ پھر ایک دوسری جھلکی جو اگلی آیت میں آرہی ہے ، وہ بھی اس منظر کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس میں سیاق کلام میں اہل قریش کو یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ اقوام سابقہ کے مکذبین والا انجام تمہارے انتظار ہیں ہے۔ اگر تم درست نہ ہوئے تو اللہ تمہیں مٹا کر کسی دوسری قوم کو میدان میں اتار دے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کے اعمال باطل ہیں، قیامت کے دن دنیا والے سرداروں اور ان کے ماننے والوں کا سوال جواب ان آیات میں اول تو کافروں کے ان اعمال کا باطل ہونا بیان فرمایا جنہیں دنیا میں نیکی سمجھ کر کرتے ہیں مثلاً صلہ رحمی کردی مہمانوں کو کھانا کھلا دیا مجبور و پریشان حال آدمیوں کی مدد کردی وغیرہ ذالک ارشاد فرمایا ان کے یہ اعمال آخرت میں بےحیثیت ہونگے ان کا آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا ان کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی راکھ پڑی ہوئی ہو جسے خوب تیز آندھی اڑا کرلے جائے اول تو راکھ یوں ہی بےحیثیت ہے پھر کسی جگہ اس کا ڈھیر بنا ہوا ہو پھر اسے آندھی نے اڑا کر ادھر ادھر منتشر کردیا، نظروں کے سامنے جو اس کا ذرا سا وجود تھا وہ بھی نہ رہا اسی طرح کافروں کے ان اعمال کو سمجھ لیا جائے جو دنیا میں نیکیوں کے عنوان سے کرتے تھے، یہ اعمال قیامت کے دن بیکار ہونگے اور ان اعمال کا کوئی فائدہ نہ ملے گا نہ ثواب ملے گا نہ عذاب سے چھٹکارہ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ سائل کے اس سوال کا جواب ہے کہ کافروں کا یہ حال کیوں ہوگا جو گزشتہ آیت میں مذکور ہوا جبکہ انہوں نے دنیا میں کچھ نیک اعمال بھی کیے تھے اس کا جواب دیدیا کہ ان کے ان اعمال کی قیامت کے دن کوئی حیثیت نہ ہوگی اور کوئی قیمت نہ اٹھے گی ان کا یہ سمجھنا کہ ان اعمال پر ہمیں کچھ ملے گا یا ان اعمال کی وجہ سے ہم ہدایت پر ہیں یہ ضلال بعید ہے یعنی دور کی گمراہی ہے۔ سورة فرقان میں فرمایا (وَقَدِمْنَآ اِِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ھَبَآءً مَّنْثُوْرًا) (اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف جو کہ وہ کرچکے تھے متوجہ ہونگے سو ان کو ایسا کردیں گے جیسے پریشان غبار) اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ یعنی حکمت کے موافق پیدا فرمایا آسمانوں میں اور زمین میں اور کچھ ان میں ہے سب اسی کی ملکیت ہے جس کا بھی جو وجود ہے اسی کی مشیت سے ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ یہ مشرکین کے نیک اعمال کی مثال ہے ان کی نیکیاں رائیگاں اور محض باطل ہیں آخرت میں کچھ بھی کام نہ آئیں گی کیونکہ شرک تمام اعمال کو باطل کردیتا ہے۔ جیسا کہ راکھ پڑی ہو اور اوپر سے ہوا کا تیز و تند طوفان آجائے تو وہ تمام راکھ کو اڑا لے جائیگا اور کچھ بھی باقی نہیں چھوڑے گا۔ طوفان شرک کے سامنے مشرکین کے اعمال صالحہ کا یہی حال ہے۔ ” اراد بالاعمال الاعمال التی عملوھا فی الدنیا واشرکوا فیھا غیر اللہ فانھا لا تنفعھم لانھا صارت کالرماد الذی ذرتہ الریح و صار ھباء لا ینتفع بہ الخ “ (خازن ج 4 ص 38) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18 ۔ جن لوگوں نے اپنے رب کی توحید کا انکار کیا اور اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے رہے ان کے اعمال کی حالت ایسی ہے جیسے راکھ کہ اس راکھ کو سخت آندھی کے دن تیز ہوا اڑا کرلے جائے اسی طرح ان لوگوں نے جو اعمال خیر کئے ہوں گے ان میں سے کسی عمل پر بھی ان کو کوئی دسترس نہیں ہوگی اور ان اعمال کے کسی حصہ کا ان کو نفع حاصل نہ ہوگا یہی وہ گمراہی ہے جو راہ حق سے بہت دور ہے۔ یعنی اگر کسی کافر نے کچھ اعمال خیر کئے ہوں۔ جیسا کہ بعض آدمی اخلاق اور سخاوت کے اعتبار سے اچھے ہوتے ہیں لیکن اعتقاد کی خرابی اور کفر کے باعث ان اعمال کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا جس طرح تیز آندھی کے دن راکھ اڑ جاتی ہے اسی طرح ان کے وہ اعمال جو انہوں نے اچھے سمجھ کر کئے تھے ہبار منشورا ہوجائیں گے اور وہ وقت انتہائی حسرت اور حرماں نصیبی کا ہوگا کہ جو اعمال کسی امید کی توقع پر کیے تھے وہ امید خاک میں مل جائے گا ۔