Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 19

سورة إبراهيم

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ﴿ۙ۱۹﴾

Have you not seen that Allah created the heavens and the earth in truth? If He wills, He can do away with you and produce a new creation.

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Proof that Resurrection occurs after Death Allah says: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ بِالْحقِّ ... Do you not see that Allah has created the heavens and the earth with truth! Allah affirms His ability to resurrect the bodies on the Day of Resurrection, stating that He has created the heavens and earth which are stronger than the creation of man. Is not He Who is able to create the heavens, high, wide and strongly built, which include in them the planets and stars and the various heavenly objects and clear signs. Is not He Who created this earth with all what it contains of land, valleys, mountains, deserts, green fields, barren lands, seas and various shapes, benefits, species and colors of trees, plants and animals أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ Do they not see that Allah, Who created the heavens and the earth, and was not wearied by their creation, is able to give life to the dead! Yes, He surely, is able to do all things. (46:33) أَوَلَمْ يَرَ الاِنسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَـهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مٌّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلً وَنَسِىَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحىِ الْعِظَـمَ وَهِىَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى أَنشَأَهَأ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ الَّذِى جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الاٌّخْضَرِ نَاراً فَإِذَا أَنتُم مِّنْه تُوقِدُونَ أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّـقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَأ أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْياً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ فَسُبْحَـنَ الَّذِى بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ Does not man see that We have created him from Nutfah (drop of sperm). Yet behold he (stands forth) as an open opponent. And he puts forth for Us a parable, and forgets his own creation He says: "Who will give life to these bones after they are rotten and have become dust" Say: "He will give life to them Who created them for the first time! And He is the All-Knower of every creation!" He Who produces for you fire out of the green tree, when behold you kindle therewith. Is not He Who created the heavens and the earth, able to create the like of them! Yes, indeed! He is the All-Knowing Supreme Creator. Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be!" - and it is! So glorified is He and exalted above all that they associate with Him, and in Whose Hands is the dominion of all things: and to Him you shall be returned. (36:77-83) Allah's statement, ... إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ

حیات ثانیہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ قیامت کے دن کی دوبارہ پیدائش پر میں قادر ہوں ۔ جب میں نے آسمان زمین کی پیدائش کر دی تو انسان کی پیدائش مجھ پر کیا مشکل ہے ۔ آسمان کی اونچائی کشادگی بڑائی پھر اس میں ٹھیرے ہوئے اور چلتے پھرتے ستارے ۔ اور یہ زمین پہاڑوں اور جنگلوں درختوں اور حیوانوں والی سب اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہے جو ان کی پیدائش سے عاجز نہ آیا وہ کیا مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے ۔ سورہ یاسین میں فرمایا کہ کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ جھگڑا لو بن بیٹھا ۔ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اپنی پیدائش بھول گیا اور کہنے لگا ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ کہہ دے کہ وہی اللہ جس نے انہیں اول بار پیدا کیا وہ ہر چیز کی پیدائش کو بخوبی جانتا ہے اسی نے سبز درخت سے تمہارے لئے آگ بنائی ہے کہ تم اسے جلاتے ہو ۔ کیا آسمان و زمین کا خالق ان جیسوں کی پیدائش پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے ، وہی بڑا خالق اور بہت بڑا عالم ہے اس کے ارادے کے بعد اس کا صرف اتنا حکم بس ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ ہو جاتا ہے وہ اللہ پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تمہارا سب کا لوٹنا ہے ۔ اس کے قبضے میں ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق تمہارے قائم مقام یہاں آباد کر دے اس پر یہ کام بھی بھاری نہیں تم اس کے امر کا خلاف کرو گے تو یہی ہو گا جیسے فرمایا اگر تم منہ موڑ لو گے تو وہ تمہارے بدلے اور قوم لائے گا جو تمہاری طرح کی نہ ہوگی ۔ اور آیت میں ہے اے ایمان والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لائے گا جو اس کی پسندیدہ ہو گی اور اس سے محبت رکھنے والی ہو گی ۔ اور جگہ ہے اگر وہ چاہے تمہیں برباد کر دے اور دوسرے لائے اللہ اس پر قادر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یعنی زمین و آسمان اور اس کائنات کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے۔ اسی طرح اگر اعمال صالحہ کی بنیاد کسی ٹھوس حقیقت پر ہو تو اس کا ثمرہ دائمی اور پائیدار ہوگا اور وہ آخرت میں بھی اپنا ثمرہ دے گا۔ مگر جس تعمیر کی بنیاد کسی ٹھوس جگہ کی بجائے ریت یا راکھ پر رکھ دی جائے تو تیز آندھی اسے گرا کر زمین بوس کردے گی۔ اس کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے کہ کوئی تیز آندھی کا جھکڑ آجائے یا نیچے سے پانی بہہ جائے اور یہ جھکڑ یا حادثہ کافر کی موت ہے اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے نیک اعمال بھی برباد ہوجاتے ہیں۔ [ ٢٣] ان آیات میں مسلسل کافروں سے ہی خطاب چل رہا ہے جو محض حق کا انکار ہی نہیں کرتے بلکہ حق کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی مخالفت اور مومنوں کی ایذا رسانی میں ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ درمیان میں ان کے نیک اعمال کا بھی ذکر آگیا جیسے مشرکین مکہ حاجیوں کی خدمت کیا کرتے تھے، انھیں پانی پلانے کا بندوبست کرتے تھے، کمزور لوگوں کی امداد کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں بھی انھیں ان کی بداعمالیوں پر انتباہ کیا گیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اگر تم یہی کچھ کرتے رہے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو یہاں لانے اور انھیں اقتدار بخشنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ چناچہ چند ہی سالوں کے بعد کفار مکہ کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ ۔۔ :” اَلَمْ تَرَ “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ ہے، یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی اس صحیح اندازے کے مطابق جس کے مطابق اسے ہونا چاہیے تھا اور جو اپنے خالق کی کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کسی چیز میں کوئی نہ نقص نکال سکتا ہے نہ کوئی ایسی صورت پیش کرسکتا ہے جو اس سے بہتر ہو۔ ہاں وہ خود اس سے بھی بہتر بنانے پر پوری طرح قادر ہے۔ وَّمَا ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ : اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ایسے کروڑوں عالم دم بھر میں مٹا کر نئے پیدا کر دے۔ ” وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ “ کا ایک معنی بعض اہل علم نے یہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو تم سب کو دفعتاً ختم کرکے تمہیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کر دے۔ آگے آنے والی آیات جو حشر اور قیامت کے واقعات پر مشتمل ہیں اس معنی کی تائید کرتی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ 19۝ۙ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو یہ معلوم نہیں (یہاں مخاطب اپنے نبی کو کیا ہے مگر مقصود آپ کی قوم ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اظہار حق اور باطل یا یہ کہ زوال وفناء کے لیے پیدا کیا ہے مکہ والو اگر وہ چاہے تو تم سب کو ہلاک کردے یا موت دے دے اور ایک دوسری مخلوق پیدا کر دے جو تم سے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ کی تم سے زیادہ فرمانبردار ہو اور یہ کرنا اللہ کے لئے بالکل مشکل نہیں، اور بڑے درجے اور اچھے درجے کے لوگ سب اللہ کے حکم سے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے تو چھوٹے درجے کے لوگ بڑے درجے کے کافروں سے کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے دین کی راہ دکھلاتا تو ہم تمہیں کو بھی اس کے دین کا راستہ بتاتے اب تو عذاب ہم پر لازم ہے خواہہم پریشان ہوں اور خواہ ضبط کریں اب ہمارے لیے کوئی فریاد کی جگہ اور کوئی جائے پناہ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ) اس کی قدرت قوت تخلیق اور تخلیقی مہارت ختم تو نہیں ہوگئی وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے ختم کر دے اور جب چاہے کوئی نئی مخلوق پیدا کر دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. This is the proof of the preceding statement that the works of the disbelievers are worthless like ashes. The question implies: Why are you skeptical of this? Do you not see that the grand system of the earth and the heavens is based on the survival of truth and not on the survival of falsehood. Everything bears witness to the fact that anything which is not based on truth and reality but rests on unreal speculation and guess work cannot continue to live long. Therefore anyone who builds his works on the latter will most surely fail in his designs. For it is obvious that such a person builds his works on sand and should not, therefore, expect that they can last long. Likewise those who discard the truth and reality and build their works on false theories and presumptions should not expect at all that they can have any lasting value for they are bound to be scattered like worthless ashes. If this is obvious as it is, why should you cherish any doubts about the fact that anyone who builds the system of his life on the basis that he is independent of Allah or on the godhead of someone else (whereas there is no other God) shall inevitably find all his works to be worthless. When the fact is that man is not absolutely independent in this world nor is he the servant of anyone else than Allah, why should you not expect that anyone who builds his works on this falsehood, shall find that all his works were worthless like the heap of ashes that was scattered all over by the wind?

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :26 یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ اس بات کو سن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانہ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو ، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو ، اسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی ۔ اس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ امید کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے ۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اسے ناکام ہونا ہی چاہیے ۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان کر ( جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے ) زندگی بسر کرے گا ، اس کا پورا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا ؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختار ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو ، تو اس جھوٹ پر ، اس خلاف واقعہ مفروضہ پر ، اپنے پورے نظام فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تو اس کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: اِس آیتِ کریمہ میں آخرت کی زندگی کا ضروری ہونا بھی بیان فرمایا گیا ہے، اور اس پر کافروں کو جو شبہہ ہوتا ہے، اُس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ایک برحق مقصد کے لئے کی گئی ہے۔ اور وہ مقصد یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فرماں برداروں کو اِنعام دیا جائے، اور نافرمانوں اور ظالموں کو سزا ملے۔ اگر آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو نیک اور بد سب برابر ہوجاتے۔ لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس دُنیا کے بعد ایک دوسری زندگی ہو جس میں ہر اِنسان کو اُس کے مناسب بدلہ دیا جا سکے۔ رہا کافروں کا یہ اعتراض کہ مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد اِنسان کس طرح دوبارہ زندہ ہوں گے؟ تو اس کا جواب اگلے جملے میں یہ دیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی ہے کہ تم سب کو فنا کر کے ایک نئی مخلوق پیدا کردے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک مخلوق بالکل عدم سے وجود میں لانا زیادہ مشکل کام ہے اور جو مخلوق ایک مرتبہ وجود میں آچکی ہو، اُس پر موت طاری کر کے اُسے زِندہ کردینا اُس کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ پہلے مشکل کام پر قادر ہے تو اس دوسرے کام کی تو یقینا قدرت رکھتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢٠۔ اس آیت میں اللہ پاک نے مشرکوں کو قائل کرنے کے لئے اپنی قدرت کا حال بیان فرمایا اور بظاہر اگرچہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا ہے مگر اس خطاب سے ساری امت مقصود ہے اس لئے فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا آسمان و زمین کا پیدا کرنا ساری مخلوق کے پیدا کرنے سے مشکل ہے کیونکہ اس میں عجیب عجیب حکمتیں ہیں بہرحال وہ اگر چاہے تو ساری دنیا کو نیست و نابود کر دے اور اس کی جگہ ایک نئی مخلوق پیدا کر دے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ١ ؎ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی تعظیم اور عبادت میں جو لوگ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کے گناہ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ مشرکین مکہ نے عذاب کی جلدی کر کے یہ دعا مانگی تھی ٢ ؎ کہ اگر قرآن شریف اللہ کا کلام ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں تو اس کے نہ ماننے کے وبال میں ہم لوگوں پر پتھروں کا مینہ برسے۔ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کو انسان کی ضرورت کی سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا کہ اس میں ان بت پرستوں کے بتوں کا کچھ دخل نہیں ہے تو پھر یہ بت پرست ان بتوں کی پوجا کس استحقاق سے کرتے ہیں۔ عذاب کی جلدی جو یہ لوگ کرتے ہیں یہ بھی ان لوگوں کی نادانی ہے کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی بہت سی قوموں کو برباد کر کے ان لوگوں کو ان کی جگہ بسایا اسی طرح ان کو برباد کر کے نئی مخلوق کا پیدا کردینا اس کی قدرت کے آگے کچھ دشوار نہیں ہے۔ اب آگے فرمایا اگر کسی مصلحت سے یہ لوگ دنیا کے عذاب سے بچ بھی گئے تو قیامت کے دن اللہ کے روبرو کھڑے ہو کر اس شرک کی جواب دہی ان کے سر سے کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٤۔ ٢٢٢۔ ٢٤٧۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٦٦٩ ج ٢ باب قولہ واذ قالوا اللہم ان کان ہذا ہو الحق الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی اس صحیح اندازے کے مطابق جس کے مطابق اسے ہونا چاہیے تھا اور جو اپنے خالق کی کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی مشتمل برمنافع ومصالح۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کے اعمال کی حیثیت اور انجام بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت وسطوت کا اظہار کرتا ہے۔ عربی زبان میں ” تَرٰی “ کا معنی صرف ” دیکھنا “ نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ غور کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اکثر اہل علم نے ” اَلَمْ تَرَ “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ یعنی کیا ہے۔ کہ کیا آپ نہیں جانتے یا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے حق کے ساتھ پیدا کرنے کے دو مفہوم ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلاوجہ اور بےمقصد پیدا نہیں فرمایا بلکہ زمین و آسمان اور ان میں بیشمار مخلوق کو پیدا فرما کر انہیں وسیع ترین نظام کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ جو اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ کی تفویض کردہ ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اس کی حمدوثنا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ٢۔ دوسرا مفہوم یہ ہے جس قادر مطلق نے زمین و آسمان کو وجود بخشا اور اس لامحدود نظام کو کنٹرول کر رکھا ہے اے انسان ! تجھے غور کرنا چاہیے کہ اس لامحدود نظام کے اندر تیری بغاوت کی کیا حیثیت ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تیرے وجود کو ناپید کر دے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آئے۔ کیونکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے مقابلے میں تمہیں ختم کر کے دوسری نسل یا مخلوق پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک معمولی بات ہے۔ سورة یٰس میں ارشاد فرمایا : (أَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلآی أَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ ۔إِنَّمَآ أَمْرُہٗٓ إِذَآ أَرَادَ شَیْءًا أَنْ یَّقُولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ )[ یٰس : ٨١] ” بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو ویسے ہی پیدا کردے کیوں نہیں ! وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے کہا بہترین ! اس نے کہا کہ میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ ہواؤں میں اڑا دینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کر کے دریافت فرمایا۔ تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے ابھارا تھا ؟ وہ کہنے لگا آپ کے ڈر نے ! اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ساری مخلوق تباہ کر دے اور نئی مخلوق کو بسا دے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز پیدا کرنا مشکل نہیں : ١۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٢۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہ ہے۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء : ١٢٣) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣) ٥۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہارے جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٩ تا ٢٠ ایمان اور کفر کے موضوع سے اور رسولوں اور جاہلیتوں کے مقابلے کے مضمون سے اب بات زمین و آسمان کے مناظر کی طرف آجاتی ہے۔ قرآن کے اسلوب کے مطابق اس انداز میں روئے سخن کا پھرجانا ایک طبیعی امر ہے اور انسانی شعور میں بھی یہ تبدیلی یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ اسلامی نظام حیات اور قرآنی اسلوب ایک ایمانی اور خدائی اسلوب ہے اس لیے کہ فطرت انسانی اور روح کائنات کے درمیان ایک خاص زبان کے ذریعہ پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ، خلوت کائنات کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتی ہے ، انسان جونہی اس کائنات کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ اس سے اثرات اور پیغامات وصول کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ لوگ جو اس کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر بھی ان کی فطرت ، فطرت کائنات کے اشارات اور پیغامات اخذ نہیں کرتی ، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی فطرت کی مشین بگڑ گئی ہے اور اس مشین کا ریسیور خراب ہوگیا ہے ، ان کے باطنی حواس خراب ہوگئے ہیں۔ اس طرح جس طرح آنکھ اندھی ہوجاتی ہے ، کان بہرے ہوجاتے ہیں ، زبان گونگی ہوجاتی ہے ، پرزے موجود ہیں مگر کام نہیں کرتے۔ ایسے افراد جن کی فطرت کے اہم پرزے خراب ہوگئے ہوں وہ اس دنیا کی قیادت کے بہرحال اہل نہیں رہتے۔ وہ تمام لوگ اس کیٹگری میں آتے ہیں جن کی سوچ پر مادیت چھا گئی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو سائنس دان کہتے ہیں ۔ اور اپنے اوپر دانشوری کا غلط اطلاق کرتے ہوں۔ اس لیے کہ علم و دانش انسانی فطرت کو معطل نہیں کرتے۔ اور انسان کو روح کائنات سے کاٹتے نہیں بلکہ جوڑتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو قرآن اندھا ، گونگا اور بہرہ کہتا ہے اور انسانی زندگی کی قیادت اگر اندھوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ زمین و آسمان کی تخلیق میں عظیم قدرت اور مضبوط نظم کے اشارات ہیں۔ سچائی اور حق نہایت مضبوط ہے۔ اپنے مفہوم میں بھی اور لفظ “ حق ” کے تلفظ میں بھی قوت ہے۔ یہ حق چٹان کی طرح ٹھوس نظر آتا ہے جس طرح طوفانی ہوا میں اڑنے والی باطل کی راکھ نظر آتی ہے۔ جو دور تک صحراؤں میں اڑتی نظر آتی ہے اور ناپید ہوجاتی ہے۔ تحریک اسلامی کے معاندین کو اس فضا میں سخت دھمکی دی جاتی ہے۔ ان یشا یذھبکم ویات بخلق جدید (١٤ : ١٩) “ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے ”۔ اور جو ذات زمین و آسمان پیدا کرسکتی ہے وہ اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ انسانوں کے مقابلے میں کوئی دوسری ہی مخلوق لے آئے۔ یا کسی ایک قوم کو زمین کی قیادت سے ہٹا کر کسی دوسری قوم کو لے آئے۔ اقوام کا منصہ شہود سے یوں غائب ہوتے چلے جانے کے معانی اس منظر کے ساتھ پوری طرح متفق ہیں جس میں کفار کے اعمال راکھ کی طرح آندھی میں دوڑتے نظر آتے ہیں اور نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز (١٤ : ٢٠) “ ایسا کرنا اس اللہ پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے ” اور اس پر زمین و آسمان کی تخلیق شاہد ہے۔ پھر انسانی تاریخ میں اقوام جس طرح مٹتی رہی ہیں اور ایک کا زوال اور دوسری کا عروج سامنے آتا رہا ہے۔ یہ بھی اس پر گواہ ہے ۔ جس طرح ایک طوفان آسانی سے راکھ کو اڑا دیتا ہے ، یہ کام اس سے بھی اللہ کے لئے آسان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کیا ہی اعجاز ہے ، قرآن کریم کا جس میں مناظر اور تصاویر اور معانی ہم آہنگ ہیں اور کلام نہایت ہی متناسب ہے۔ الفاظ ، معانی اور مناظر کے اعتبار سے۔ اب ہم فنی تصویر ، خوبصورت طرز ادا اور متناسب اسلوب اظہار کے ایک دوسرے افق کے سامنے آجاتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو ہماری آنکھ جباروں اور ڈکٹیٹروں کی بربادی کا منظر دیکھ رہی تھی۔ اس دنیا ہی میں ہر ڈکٹیٹر ذلیل ہو کر رہا۔ اس کا منظر اسکرین پر تھا کہ اس کے پیچھے ایک خیال بھی منظر پر آگیا جس میں قیامت میں اس کا حشر دکھایا گیا تھا۔ حالانکہ وہ ابھی دنیا ہی میں ذلیل ہو رہا تھا۔ اب ہمارے سامنے ان ڈکٹیٹروں کا حشر میدان حشر میں نظر آرہا ہے۔ ان کا یہ منظر اب انسانیت کی عظیم کہانی کے مناظر کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آرہا ہے۔ یہ شاید آخری منظر ہے۔ لیکن یہ منظر قیامت کے نہایت ہی عجیب اور دلچسپ مناظر میں سے ایک ہے ، جو تاثرات اور حرکات سے بھر پور ہے۔ اور جس کے اندر گمراہوں اور گمراہ کرنے والے بااثر لوگوں اور شیطان کے درمیان بھر پور مکالمے ہیں۔ ذرا قرآن کے الفاظ میں دیکھئے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نیز فرمایا (اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ ) (اگر وہ چاہے تو تمہیں معدوم کردے اور نئی مخلوق پیدا فرما دے) (وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ ) (اور یہ اللہ پر ذرا بھی مشکل نہیں ہے) اس کے بعد میدان حشر کا ایک منظر بیان فرمایا اور وہ یہ کہ قیامت کے دن چھوٹے بڑے سب قبروں سے نکل کر ظاہر ہونگے اس وقت جب عذاب سامنے آئے گا اور کفر و شرک کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے اور پہچانیں گے اس وقت چھوٹے لوگ جو دنیا میں کمزور تھے اپنے بڑوں سرداروں چودھریوں اور لیڈروں کے پیچھے چلتے تھے اور ان کی بات ماننے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی دعوت کو رد کردیتے تھے وہ اپنے قائدوں، لیڈروں، سرغنوں اور سرداروں سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہارے تابع تھے تم جو کہتے تھے ہم اسے مانتے تھے اور تمہارے کہنے کے مطابق عمل کرتے تھے ہم نے تمہاری بات مانی اور اپنے خالق اور مالک کے رسولوں کی باتوں پر کان نہ دھرا تو اب بتاؤ کیا تم ہم سے اللہ کے عذاب کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے اگر عذاب سے چھوٹنے کا کوئی راستہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے اب تو ہمارے لیے اور تمہارے لیے عذاب ہی عذاب ہے اور اب تم اور ہم یہاں پریشانی ظاہر کریں یا صبر کریں بہرحال چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہے، سورة مومن میں فرمایا کہ ان کے بڑے جواب میں یوں کہیں گے کہ (اِِنَّا کُلٌّ فِیْہَا اِِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ ) (بلاشبہ ہم سب کو اسی میں رہنا ہے بلاشبہ اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا) سورة بقرہ رکوع ٢٠ میں ہے متبوعین اپنے اتباع سے بیزاری ظاہر کردیں گے اور سورة اعراف رکوع ٤ میں گزر چکا ہے کہ اہل دوزخ آپس میں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے سورة سبا رکوع ٤ میں بھی بڑوں اور چھوٹوں کا مکالمہ مذکور ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ دوسری عقلی دلیل برائے توحید۔ ” بِالْحَقِّ “ میں باء بمعنی لام ہے اور مجرور مضاف محذوف ہے اور حق سے توحید مراد ہے۔ ” ای لاظہار الحق “ یا باء اپنے اصل پر ہے اور ملابست کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو ایسی حکمت بالغہ سے پیدا فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی توحید پر کھلی دلیل اور واضح برہان کا کام دے رہی ہے۔ 23:۔ تیسری بار وقائع کا ذکر۔ یہ تخویف دنیوی ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہیں ہلاک کردے اور تمہاری جگہ اور مخلوق پیدا کرلے اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام کام یکساں ہیں اس کی قدرت لا محدود کے سامنے آسان اور مشکل کی کوئی تقسیم نہیں یعنی ” ان الاشیاء تسھل فی القدرۃ لا یصعب علی اللہ شیء وان جل و عظم “ (معالم ج 4 ص 38) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 ۔ اے مخاطب ! کیا تونے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو ٹھیک بنایا اور ایسا بنایا جیسا ان کے بنانے کا حق تھا اگر وہ چاہے تو تم کو لے جائے اور بالکل معدوم کر دے اور تمہاری جگہ کسی نئی مخلوق کو لا موجود کر دے ۔ یعنی حکمت بالغہ کے ماتحت اور ہر قسم کی مصالح کی رعایت رکھتے ہوئے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ تم کو فنا کر دے اور تمہاری جگہ کوئی اور نئی مخلوق پیدا کر دے جیسا کہ عام انقلاب میں اسکا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔