Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 2

سورة إبراهيم

اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ وَیۡلٌ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ شَدِیۡدِۣ ۙ﴿۲﴾

Allah , to whom belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. And woe to the disbelievers from a severe punishment

جس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اللّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَرْضِ ... Allah to Whom belongs all that is in the heavens and all that is in the earth!, is similar to, قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah - to Whom belongs the dominion of the heavens and the earth. (7:158) Allah's statement, ... وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ And woe unto the disbelievers from a severe torment. means, `woe to them on the Day of Judgment because they defied you, O Muhammad, and rejected you.' Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After having mentioned these two attributes of Allah Ta’ ala earlier, it was said: اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ (Allah, the One to whom be-longs what is in the heavens and what is in the earth). In other words, Allah is that particular Being who is the Creator of everything in the heavens and the earth and He is the absolute Sovereign having no part¬ners or associates. Said in the concluding sentence of verse 2 was: وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِ‌ينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (Woe is to the disbelievers from a severe punishment). The word: وَيْلٌ (waiyl : woe to) is used in the sense of severe punishment and fatal conse¬quence. The verse means that those who dismiss and deny this blessing of the Qur’ an, and prefer to go on living in a multiplicity of darkness, should know that there is for them the darkest of destruction, and the se¬vere punishment which is about to visit them. The Meaning in Summation The gist of the verse is that the Qur&an has been revealed so that it rescues all human beings from darkness and brings them into the light of the way of Allah. But, certainly unfortunate are those who reject the Qur&an itself - they, by doing so, are bringing punishment on themselves with their own hands. So, those who deny from the very outset that the Qur’ an is the Divine Word, are the targets of this warning of punish¬ment obviously. But, those who, despite their belief in the Holy Qur&an, have abandoned it in their practical life, in the sense that they never re-cite it, nor try to understand it, nor act upon its teachings, they too can-not be considered totally free and safe from becoming targets of this warning.

اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفتیں پہلے بیان کرنے کے بعد فرمایا اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَافِي السَّمٰوٰتِ وَمَافِي الْاَرْضِ یعنی یہ وہ ذات ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اس کا پیدا کیا ہوا اور اسی کی ملک خاص ہے جس میں کوئی شریک نہیں۔ وَوَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدِ لفظ ویل عذاب شدید اور ہلاکت کے معنی میں آتا ہے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ اس نعمت قرآن سے منکر ہیں اور کفر و شرک کے اندھیرے ہی میں رہنے کو پسند کرتے ہیں ان کے لئے بڑی بربادی اور ہلاکت ہے اس عذاب شدید سے جو ان پر آنے والا ہے۔ خلاصہ مفہوم : آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ سب انسانوں کو اندھیرے سے نکال کر اللہ کے راستہ کی روشنی میں لے آئے مگر جو بدنصیب قرآن ہی کے منکر ہوجائیں تو وہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو عذاب میں ڈال رہے ہیں جو لوگ قرآن کے کلام الہی ہونے ہی کے منکر ہیں وہ تو اس وعید کی مراد ہیں ہی مگر جو اعتقادا منکر نہیں مگر عملا قرآن کو چھوڑے ہوئے ہیں نہ تلاوت سے کوئی واسطہ ہے نہ اس کے سمجھنے اور عمل کرنے کی طرف کوئی التفات ہے وہ بدنصیب بھی مسلمان ہونے کے باوجود اس وعید سے بالکل بری نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَافِي السَّمٰوٰتِ وَمَافِي الْاَرْضِ ۭ وَوَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدِۨ ۝ۙ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے مونمں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ شد والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) تمام مخلوقات اور تمام عجائبات اسی کی ملکیت ہیں اور ان کافروں کے لیے بڑی خرابی ہے یعنی بڑا سخت عذاب ہے جو دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:2) اللہ ۔۔ العزیز الحمید۔ کا عطف بیان ہے۔ کیونکہ یہ العزیز الحمید کی وضاحت کرتا ہے یعنی وہ العزیز الحمید۔ یعنی اللہ تعالیٰ اقدس ہے۔ ویل۔ اسم مرفوع۔ ہلاکت۔ عذاب۔ خرابی۔ بربادی۔ دوزخ کی ایک وادی۔ کلمہ ٔ زجرو وعید کلمہ حسرت و ندامت ہے۔ ویل من عذاب شدید۔ عذاب شدید سے خرابی۔ عذاب شدید کے باعث خرابی (یہ عذاب دنیوی بھی ہوسکتا ہے اور عذاب اخروی بھی) ۔ یستحبونمضارع جمع مذکر غائب۔ استحباب (استفعال) مصدر وہ محبوب رکھتے ہیں وہ پسند کرتے ہیں۔ وہ ترجیح دیتے ہیں یصدون۔ صد یصد صدا۔ لازم ومتعدی دونوں میں مستعمل ہے۔ وہ روکتے ہیں وہ باز رہتے ہیں۔ اعراض کرتے ہیں۔ آیۃ ہذا میں دونوں معنی مراد ہیں۔ یبغونھا۔ (وہ اسے چاہتے ہیں) میں ھا ضمیر کا مرجع سبیل اللہ ہے۔ عوجا۔ کج ۔ ٹیڑھا۔ العوج (نصر) کے معنی کسی چیز کا سیدھا کھڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانے کے ہیں۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف موڑ دیا۔ العوج۔ اس ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جاسکے جیسے لکڑی وغیرہ میں کجی۔ اور العوج (عین کے کسرے کے ساتھ) اس ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل اور بصیرت سے دیکھا جاسکے۔ جیسے کہ معاشرہ میں دینی اور معاشی ناہمواریاں کہ عقل و بصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے۔ یا جیسے قرآن مجید میں ہے قرانا عربیا غیر ذی عوج (39:38) قرآن واضح جس میں کوئی کجی نہیں ہے یا جیسے کہ آیہ ہذا۔ ضلال بعید۔ موصوف وصفت۔ بُعد حقیقۃً ضالّ (گمراہ) کے لئے ہے مبالغہ کے لئے گمراہ کے فعل گمراہی (ضلال) کی صفت میں اسے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی وہ گمراہی میں بہت دور جا چکے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی قیامت کے روز جہنم کے عذاب سے ان کی شامت آنے والی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر اللہ تعالیٰ کی شان مالکیت کو بیان فرمایا (الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ) اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اس کی ملکیت ہے ‘ وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے اور خالق بھی ہے سارا ملک بھی اسی کا ہے اور سب کچھ ملکیت اسی کی ہے ‘ جو لوگ اللہ کی کتاب پر اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے وہ اپنے خالق ومالک سے منحرف ہیں ایسے لوگوں کے لیے وعید بیان فرمائی (وَ وَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِ ) (اور کافروں کے لیے ہلاکت ہے یعنی سخت درد ناک عذاب ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ قراءت رفع پر یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ” ای ھُوَ اللہُ الَّذِیْ الخ “ اور قراءت جر پر ” اَلْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ “ کے لیے عطف بیان ہے (مدارک) اور یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ وقائع امم سابقہ بیان کر کے آپ اس غالب اور تمام صفات کمال کے مالک اللہ کے سیدے راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دیں جو ساری کائناتِ ارضی وسماوی کا مالک اور اس میں مختار و متصرف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2 ۔ جو ایسا معبود برحق ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کے ملک ہے اور ان کافروں کے لئے ایک سخت ترین عذاب سے بڑی خرابی ہے یعنی وہ بڑی خرابی اسی سخت عذاب کی ہے۔