Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 24

سورة إبراهيم

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾

Have you not considered how Allah presents an example, [making] a good word like a good tree, whose root is firmly fixed and its branches [high] in the sky?

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی ، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Parable of the Word of Islam and the Word of Kufr Allah says: أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء See you not how Allah sets forth a parable! A goodly word as a goodly tree, whose root is firmly fixed, and its branches (reach) to the sky. Ali bin Abi Talhah reported that Abd... ullah bin Abbas commented that Allah's statement, مَثَلً كَلِمَةً طَيِّبَةً (a parable: a goodly word), refers to testifying to La ilaha illallah, (none has the right to be worshipped but Allah) while, كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ (as a goodly tree), refers to the believer, and that, أَصْلُهَا ثَابِتٌ (whose root is firmly fixed), indicates that La ilaha illallah, (none has the right to be worshipped but Allah) is firm in the believers' heart, وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء (and its branches (reach) to the sky. with which the believer's works are ascended to heaven. Similar is said by Ad-Dahhak, Sa'id bin Jubayr, Ikrimah, Mujahid and several others. They stated that this parable describes the believer's deeds, good statements and good actions. The believer is just like the beneficial date tree, always having good actions ascending at all times, by day and by night. Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Umar said, "We were with the Messenger of Allah when he asked, أَخْبِرُونِي عَنْ شَجَرَةٍ تُشْبِهُ أَوْ كَالرَّجُلِ الْمُسْلِمِ لاَ يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا صَيْفًا وَلاَ شِتَاءً وَتُوْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا Tell me about a tree that resembles the Muslim, the leaves of which do not fall in summer or winter and gives its fruit at all times by the leave of its Lord." Ibn Umar said, "I thought of the date palm tree, but felt shy to answer when I saw that Abu Bakr and Umar did not talk. When they did not give an answer, the Messenger of Allah said, هِيَ النَّخْلَة It is the date palm tree. When we departed, I said to Umar, `My father, by Allah! I thought that it was the date tree.' He said, `Why did you not speak then?' I said, `I saw you were silent and I felt shy to say anything.' Umar said, `Had you said it, it would have been more precious to me than such things (i.e., would have been very precious to me)."' Abdullah bin Abbas said that, كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ (as a goodly tree), is a tree in Paradise. Allah said next,   Show more

لا الہ الا اللہ کی شہادت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مومن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی ... طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں ۔ کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ۔ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ۔ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابو بکر ہیں حضرت عمر ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ کا ہو رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ درخت کھجور کا ہے ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ نے فرمایا پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لئے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ ) ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ۔ ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال ۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لئے مثالیں واضح فرماتا ہے ۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ جس کی کوئی اصل نہیں ، جو مضبوط نہیں ، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعا بھی آئی ہے ۔ اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بےجڑ اور بےشاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] کلمہ طیبہ کے لغوی معنی ہے && پاکیزہ بات && اور اس سے مراد کلمہ توحید یعنی (لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ جب عقیدہ و عمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو یہ جہاں تمام تر بھلائیوں کی بنیاد بن جاتا ہے وہاں ہر طرح کی برائی کی جڑ بھی کاٹ پھینکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نبی ... نے اپنی دعوت کا آغاز اسی کلمہ سے کیا ہے۔ [ ٣١] کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ ہے :۔ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے اور پاکیزہ درخت کی مومن سے مثال پیش کی گئی ہے جس کے دل میں کلمہ طیبہ یا کلمہ توحید رچ بس گیا ہو۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا && بتاؤ وہ درخت کون سا ہے جس کے پتے نہیں گرتے۔ مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے اور یہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی نہیں ہوتا، یہ بھی نہیں ہوتانہ تو اس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا دانہ معدوم ہوتا اور نہ اس کا نفع ضائع جاتا ہے، اور ہر وقت میوہ دیتا ہے ؟ && اس وقت میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے آپ کو جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ نے خود ہی بتادیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے اپنے والد سے کہا && اباجان ! اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے && انہوں نے کہا : && پھر تم نے کہہ کیوں نہ دیا ؟ && میں نے کہا : && آپ سب خاموش رہے تو میں نے (آگے بڑھ کر بات کرنا) مناسب نہ سمجھا && میرے والد کہنے لگے : && اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے زیادہ خوشی ہوتی && (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور اللہ تعالیٰ نے شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان فرمائیں (١) وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔ اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ، شیریں اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔ (٢) اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہوچکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ (٣) اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہذا اس سے جو پھل حاصل ہوگا وہ ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک و صاف ہوگا۔ (٤) یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے اور یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے اس درخت کو حدیث میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اللہ کے علم میں کوئی ایسا درخت بھی ہو جو ہر وقت پھل دیتا ہو جیسا کہ آیت کے الفاظ سے متبادرہوتا ہے۔ نیز اللہ نے شجرہ طیبہ کو کلمہ طیبہ کے مثل قرار دیا ہے اور کلمہ طیبہ میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ سدا بہار ہے اور ہر وقت اپنے صالح برگ و بار لاتا رہتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ : یہ خطاب اولاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور پھر ہر اس شخص سے ہے جو خطاب کے لائق ہے۔ استفہام سے مراد پوچھنا نہیں بتانا ہے۔ اسے استفہام تقریری کہتے ہیں۔ ” کیا تو نے نہیں دیکھا ؟ “ یہاں دیکھنے سے مراد علم اور جاننا ہے جو کائنات کو دیکھنے اور اس میں غور و فکر سے حاصل ہوتا ہ... ے۔ مفسر آلوسی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ” الم تر “ کا مخاطب بعض اوقات وہ شخص ہوتا ہے جو پہلے سے اس بات سے واقف ہو، ایسی صورت میں مراد تعجب کا اظہار ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کا مخاطب وہ شخص ہوتا ہے جو اس سے واقف نہ ہو، اس وقت مراد ایک تو اسے بتانا ہوتا ہے اور ایک اس بات پر تعجب کا اظہار ہوتا ہے کہ اتنی مشہور بات بھی تمہیں معلوم نہیں، جو سب لوگ دیکھی ہوئی بات کی طرح جانتے ہیں۔ پھر اس مخاطب سے بات اس طرح کی جاتی ہے گویا وہ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ مَثَلًا ” یہ ” ضَرَبَ “ کا مفعول بہ ہے، ” كَلِمَةً “ اس سے بدل ہے یا عطف بیان۔ مثل کا لفظ کسی چیز کی وضاحت کے لیے اس سے زیادہ واضح چیز کے ساتھ مثال دے کر سمجھانے کے لیے آتا ہے۔ كَلِمَةً طَيِّبَةً : اس میں ہر پاکیزہ کلام، مثلاً تسبیح، تقدیس، تحمید اور تہلیل وغیرہ شامل ہے اور ہر پاکیزہ کلام کا خلاصہ ” لا الٰہ الا اللہ “ ہے، کیونکہ ہر پاکیزہ کلام یا عمل کا مدار یہی ہے۔ اس لیے مفسرین نے عموماً اس سے کلمۂ اسلام اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ہر پاکیزہ قول و عمل مراد لیا ہے۔ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ ۔۔ : پاکیزہ اور عمدہ درخت کی چند خوبیاں بیان فرمائیں، پہلی یہ کہ اس کی جڑ مضبوط ہے، جس کی وجہ سے اس کا اکھڑنا مشکل ہے اور وہ زمین سے غذا بخوبی حاصل کرلیتا ہے اور ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس کی چوٹی بہت اونچی ہے، جس کی وجہ سے اسے نقصان پہنچانا مشکل ہے، وہ آلودگی سے محفوظ دھوپ اور صاف ہوا سے بھی اپنی پوری خوراک حاصل کرتا ہے۔ مفسر طنطاوی نے ” الوسیط “ میں لکھا ہے کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ درخت اپنی غذا کا صرف پانچ فیصد زمین سے حاصل کرتے ہیں، باقی فضا سے۔ تیسری یہ کہ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے۔ اس صفت کی تفسیر میں مفسرین کو مشکل پیش آئی ہے۔ صحیح بخاری (٦١٢٢، ٦١٤٤) میں ابن عمر (رض) کی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی ہے کہ اس کے پتے کبھی نہیں گرتے اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے دیتا ہے، مگر آپ نے اسے کلمہ طیبہ سے تشبیہ نہیں دی۔ ترمذی (٣١١٩) میں انس (رض) سے روایت ہے کہ یہاں کلمہ طیبہ (كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ) سے مراد کھجور ہے، مگر شیخ البانی (رض) نے اسے مرفوعاً ضعیف اور موقوفاً صحیح فرمایا ہے۔ بہرحال جو مفسرین اس سے مراد کھجور کا درخت لیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ کھجور کے درخت سے پھل کی ابتدا سے لے کر اس کے گودے، کچی کھجور، نیم پختہ، تازہ پکی ہوئی غرض ہر مرحلے کے پھل کو تقریباً چھ ماہ تک کھایا جاتا ہے، پھر اسے محفوظ کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے۔ مفسر طنطاوی نے فرمایا کہ میرے خیال میں ” تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا “ کو صرف پھل میں محدود کرنا ٹھیک نہیں، مراد یہ ہے کہ وہ درخت ہر وقت فائدہ پہنچاتا رہتا ہے، پھل کی صورت میں، سائے کی صورت میں، خوشبو کی صورت میں، عمارتی لکڑی یا ایندھن کی صورت میں، پتوں اور ٹہنیوں اور گوند کی مصنوعات کی صورت میں اور دوا کی صورت میں، اگر کچھ بھی نہ ہو تو ہوا کو آلودگی سے صاف کرکے آکسیجن بنانے کی صورت میں ہر وقت وہ اپنا فائدہ پہنچاتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کھجور کے علاوہ وہ تمام درخت بھی اس میں آجاتے ہیں جن میں یہ تینوں خوبیاں ہوں۔ اسی طرح کلمہ اسلام دنیا اور آخرت کے ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مومن کو مختلف قسم کے بیشمار فوائد پہنچاتا رہتا ہے اور ہر وقت مومن کا کوئی نہ کوئی نیک عمل آسمان کی طرف چڑھتا رہتا ہے۔ چونکہ مثال سے بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح لوگوں کی نصیحت اور سمجھانے کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : کیا آپ کو معلوم نہیں (اب معلوم ہوگیا) کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی (اچھی اور موقع کی) مثال بیان فرمائی ہے کلمہ طیبہ کی کی (یعنی کلمہ توحید و ایمان کی) کہ وہ مشابہ ہے ایک پاکیزہ دوخت کے (مراد کھجور کا درخت ہے) جس کی جڑ (زمین کے اندر) خوب گڑی ہوئی ہو اور اس کی شاخیں اونچائی میں جارہی ہوں (اور... ) وہ (یعنی خوب پھلتا ہو کوئی فصل ماری نہ جاتی ہو اسی طرح کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کی ایک جڑ ہے یعنی اعتقاد جو مومن کے قلب میں استحکام کے ساتھ جائگیر ہے اور اس کی کچھ شاخیں ہیں یعنی اعمال صالحہ جو ایمان پر مرتب ہوتے ہیں جو بارگاہ قبولیت میں آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں پھر ان پر رضائے دائمی کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (اس قسم کی) مثالیں لوگوں (کے بتلانے) کے واسطے اس لئے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ (لوگ معانی مقصود کو) خوب سمجھ لیں (کیونکہ مثال سے مقصود کی خوب توضیح ہوجاتی ہے)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ 24؀ۙ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ...  لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة/ 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔ أصل وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی: أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم/ 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح/ 9] . ( ا ص ل ) اصل الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : { أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء } [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا } [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔ فرع فَرْعُ الشّجر : غصنه، وجمعه : فُرُوعٌ. قال تعالی: أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم/ 24] ، واعتبر ذلک علی وجهين : أحدهما : بالطّول، فقیل : فَرَعَ كذا : إذا طال، وسمّي شعر الرأس فَرْعاً لعلوّه، وقیل : رجل أَفْرَعُ ، وامرأة فَرْعَاءُ ، وفَرَّعْتُ الجبل، وفَرَّعْتُ رأسَهُ بالسّيف، وتَفَرَّعْتُ في بني فلان : تزوّجت في أعاليهم وأشرافهم . والثاني : اعتبر بالعرض، فقیل : تَفَرَّعَ كذا، وفُرُوعُ ( ف ر ع ) فرع الشجر کے معنی درکت کی شاخ کے ہیں اس جمع فروع آتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم/ 24] اور شاخیں آسمان میں ۔ میں فرعھا کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ بلحاظ طوال کے اسے فی السماء کہا ہو جیسے محاورہ ہے فرع کذا ( یعنی لمبا ہوجانا ) اور سر کے بالوں کو بلندی اور طول کی وجہ سے فرع کہا جاتا ہے ۔ رجل افراغ گھنے اور لمبے بالوں والا اس کی مؤنث فرعاء اور جمع فرع آتی ہے اور کہا جاتا ہے ۔ فرعت الجبل پہاڑ کی چوٹی پر چلا جانا فرعت راسہ بالسیف اس کا سر تجوار ست قلم کردیا ۔ تفرعت فی بنی فلان میں نے ان کے اونچے خاندان میں شادی کرلی ۔ دوم یہ کہ عرض یعنی پھلاؤ کے لحاظ سے اسے فی السماء کہا ہوا اور یہ تفرع کذا سے ہو جس کے معنی پھیل جانے کے ہیں اور مسئلہ کی جز ئیات کو فروع کہا جاتا ہے اور فروع الرجل کے معنی اولاد کے بھی ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤۔ ٢٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کی کیسی اچھی مثال بیان فرمائی کہ مومن مشابہ ہے کھجور کے درخت کے جس کی جڑ خوب گہری ہوئی ہو، اس طرح سچے مومن کا دل کلمہ لا الہ الا اللہ پر خوب قائم رہتا ہے اور اس کی شاخیں اونچائی میں جاری...  ہوں، ایسے ہی سچے مومن کا عمل قبول ہوتا ہے اور وہ درخت اللہ کے حکم سے ہر فصل میں پھل دیتا ہے اسی طرح سچے مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بھلائی کے کاموں میں مصروف رہتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے نفع اور تعریف میں یہ لفظ کلمہ طیبہ کی صفت ہے جیسا کہ کھجور کا پاکیزہ درخت اس کا پھل بھی پاکیزہ ہے، اسی طرح مومن کی حالت ہے۔ غرض کہ کھجور کا درخت اپنی جڑوں کے ساتھ زمین پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہے، سو اسی طرح مومن حجت وبرہان کے ساتھ قائم ہے اور جیسا کہ کھجور کی شاخیں آسمان کی طرف بلند رہتی ہیں، اسی طرح سچے مومن کا عمل، آسمان کی طرف چڑھتا رہتا ہے اور جیسا کہ کھجور کا درخت ہر چھ ماہ پر اپنے پروردگار کے حکم سے پھل دیتا ہے، اسی طرح مومن مخلص اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اطلاعت اور بھلائی کے کاموں میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس قسم کی مثال لوگوں کو کلمہ توحید کے اوصاف بتانے کے لیے اس لیے بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور توحید خداوندی کے قائل ہوں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً ) کلمہ طیبہ سے عام طور پر تو کلمہ توحید ” لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ “ مراد لیا جاتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ افضل الذکر ہے لیکن یہاں کلمہ طیبہ سے توحید پر مبنی عقائد و نظریات بھل... ائی کی ہر بات کلام طیب اور حق کی دعوت مراد ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34. Though the expression literally means pure word, here it stands for truthful saying and righteous creed. According to the Quran, this saying and creed are the acceptance of the doctrine of Tauhid, belief in Prophethood and revelation, and in the life of the Hereafter, for it declares these things to be the fundamental truths. 35. This is to show the strength and extent of the pure word. As th... e entire system of the universe hangs upon the reality contained in this pure word which the believer professes, the earth and its entire system cooperates with him and the heaven with its entire system welcomes him. There is, therefore, no conflict between him and the law of nature, and everything in its very nature extends its help to him.  Show more

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :34 کلمہ طیبہ کے لفظی معنی ” پاکیزہ بات “ کے ہیں ، مگر اس سے مراد وہ قول حق اور عقیدہ صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو ۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رو سے لازما وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار ، انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کا اقرار ، اور آخرت...  کا اقرار ہو ، کیونکہ قرآن انہی امور کو بنیادی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :35 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظام کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے ، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانون فطرت اس سے نہیں ٹکراتا ، کسی شے کی بھی اصل اور جبلت اس سے اِبا نہیں کرتی ، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اس سے متصادم نہیں ہوتی ۔ اسی لیے زمین اور اس کا پورا نظام اس سے تعاون کرتا ہے ، اور آسمان اور اس کا پورا عالم اس کا خیر مقدم کرتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الااللہ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں، اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہچاسکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل ودم... اغ میں پیوست ہوجاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامناکرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی ؛ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں ؛ لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کرچکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرہ برابر تزلزل نہیں آیا، کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اسکی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں، اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مومن کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے تو اسکے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ ٢٦۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے مومنوں اور کافروں کی ایک ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ جیسے کوئی پاکیزہ درخت ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں اوپر کو پھیلی ہوئی ہوں اور ہمیشہ اس میں پھل لگتے ہوں اسی طرح خدا کا کلمہ پاک لا الہ الا اللہ ہے کہ اس کی جڑ مومن کے دل میں مضبوطی سے جگہ پکڑے ہوئے ہوتی ہے اور ... اس کے عمل شاخوں کی طرح آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ اس کو قیامت کے دن معلوم ہوگا۔ اور کفر و گمراہی کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بےفیض درخت جس کی جڑ بالکل ہی مضبوط نہ ہو زمین کے اوپر ہی اوپر پھیلی ہوئی ہو اس کو کسی طرح قیام نہیں ذرا سی ٹھیس میں اپنی جگہ سے اکھڑ جاتا ہے۔ اسی طرح کفار کے غلط عقیدہ کی حالت ہے کہ اس کو وہ کسی مضبوط دلیل سے دنیا میں ثابت نہیں کرسکتے اس لئے عقبیٰ میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس کی جڑ بالکل بےثبات ہے۔ شجر طیبہ سے مفسرین نے کھجور کا درخت مراد لیا ہے بخاری میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم لوگوں سے پوچھنے لگے کہ وہ کونسا درخت ہے جو مرد مسلمان کی طرح ہے جس کے پتے نہ جاڑے میں جھڑتے ہیں نہ گرمی میں اور اس میں ہمیشہ پھل آتا رہتا ہے۔ ابن عمر (رض) نے چاہا کہ میں کہہ دوں کہ کھجور کا درخت ہے مگر وہاں حضرت ابوبکر (رض) و حضرت عمر (رض) وغیرہ بھی بیٹھے تھے اور بالکل خاموش تھے اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ میں بچہ ہو کر ان بزرگوں کے سامنے بولوں اور دخل دوں جب کسی نے کچھ جواب نہ دیا تو حضرت نے خود فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے جب سب لوگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو ابن عمر (رض) نے اپنے والد حضرت عمر (رض) سے رستے میں کہا کہ واللہ میرے جی میں آئی تھی کہ کہہ دوں کھجور کا درخت ہے حضرت عمر (رض) نے کہا پھر تو نے کیوں نہیں کہا ابن عمر (رض) نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کو چپ دیکھ کر میں نے زبان کھولنی مناسب نہ جانی حضرت عمر (رض) کہنے لگے اگر تو کہہ دیتا تو میں نہایت خوش ١ ؎ ہوتا۔ اور شجر خبیثہ کی تفسیر مفسروں نے یہ بیان کی ہے کہ یہ ایک درخت ہے جس کو اندرائن کہتے ہیں اس کا پھل نہایت کڑوا زہر ہوتا ہے اور جڑ بھی زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہے آسانی سے اکھڑ آتی ہے۔ ترمذی میں انس بن مالک (رض) کی مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں ان میں بھی شجر خبیثہ کی تفسیر اندرائن کے درخت کو ٹھہرایا گیا ٢ ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں نیک و بد لوگوں کا عقبیٰ کا حال بیان فرما کر ان آیتوں میں نیکوں کی مشابہت کھجور کے درخت سے اور بد لوگوں کی مشابہت اندرائن کے درخت سے دی گئی ہے جس مشابہت کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح کھجور کا پھل خشک و تر ہمیشہ کام میں آتا ہے اسی طرح نیک لوگ عقبیٰ میں ہمیشہ اپنے عقیدہ اور عمل کا پھل پاویں گے اور جس طرح اندرائن کا درخت کڑوا اور بےفیض ہے یہی حال نافرمان لوگوں کے عقیدہ اور عمل کا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٨١ ج ٢ باب قولہ کشجرۃ طیبۃ اصلہا ثابت الخ۔ ٢ ؎ جامع ترمذی ص ٤٠ ٢ ج ٢ تفسیر سورت ابراہیم۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:24) ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ۔ کلمہ طیبہ سے مراد ایمان و توحید ہے۔ اس فقرہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ۔ یہ قولہ تعالیٰ ضرب اللہ مثلا کی تفسیر ہے۔ (2) مثلا وکلمۃ طیبۃ بوجہ ضرب کے مفعول ہونے کے منصوب ہیں اور کلام یوں ہے۔ ضرب اللہ کلمۃ طیبۃ مثلا۔ بمعنی جعلھا ... مثلا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ کو مثال کے طور پر بیان فرماتا ہے۔ کلمۃ طیبۃ بوجہ موصوف وصفت ہونے کے ہم اعراب ہیں۔ (3) اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ کے لئے مثال بیان فرماتا ہے ای ضرب اللہ لکلمۃ طیبۃ مثلا۔ (4) کلمۃ طیبۃ۔ کا نصب بوجہ مثلا کے بدل ہونے کے ہے۔ (5) کشجرۃ طیبۃ کا جر بوجہ ک حرف تشبیہ کے ہے۔ اور شجرۃ طیبۃ یہ کلمہ کی دوسری صفت ہے۔ (6) کشجرۃ طیبۃ خبر ہے اور اس کا مبتداء محذوف ہے۔ یعنی کلام یوں ہےھی کشجرۃ طیبۃ۔ اصلھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی جڑ۔ جمع اصول۔ ثابت۔ استوار۔ محکم ۔ مضبوط۔ ثبات اور ثبوت سے اسم فاعل ۔ واحد مذکر۔ فرعہا۔ مضاف۔ مضاف الیہ۔ اس کی شاخ۔ جمع فروع۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ ” کلمہ طیبہ “ (اچھی بات) سے مراد لا الہ اللہ اللہ ہے یا تسبیح وتحمید یا ہر اچھی بات ہے۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 27 ضرب اس نے چلایا، بیان کیا، مارا۔ کلمۃ طیبۃ پاکیزہ بات، شجرۃ درخت ۔ اصل بنیاد، جڑ ثابت جمی ہوئی۔ فرع شاخ۔ شاخیں توتی دیتا ہے۔ اکل پھل۔ کل حین ہر وقت، ہر آن۔ الامثال مثالیں۔ یتذکرون وہ دھیان دیتے ہیں۔ غور فکر کرتے ہیں۔ کلمۃ خبیثۃ گندی بات۔ اجتثت اکھاڑ لیا گیا، اکھاڑ لیا ... جائے ۔ فوق اوپر۔ قرار جماؤ، استحکام۔ یثبت جماتا ہے۔ ثابت رکھتا ہے۔ القول الثابت مضبوط و مستحکم بات۔ یضل وہ گم راہ کرتا ہے۔ یفعل وہ کرتا ہے۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 27 قرآن کریم میں عام زندگی کی چھوٹی چھوٹی مثالوں سے بڑی سے بڑی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کفار و مشرکین عرب طرح طرح سے اللہ اور اس کے رسول کا مذاق اڑا کر ان کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے کبھی کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح بشر ہے، کھاتا ہے پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ اس کا جواب تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ دیا ہے کہ : 1) تمام انبیاء اور رسول بشر ہی تھے کوئی اور مخلوق نہیں تھے۔ ان کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ بشریت ان پر ناز کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وحی کو نازل فرماتا ہے جس کے ذریعہ راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہی فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ساری دنیا کو بتا دیجیے کہ میں بشر ہوں اللہ نے سب سے پہلے میرے نور یعنی روح لطیف کو پیدا کیا۔ تمام انبیاء اور رسولوں کی طرح میری طرف بھی وحی کی جاتی ہے۔ 2) اسی طرح کفار و مشرکین اگرچہ قرآن کریم کے سامنے عاجز اور بےبس تھے مگر اپنے دلی حسد اور بغض کا اظہار یہ کہہ کر کرتے تھے کہ یہ کیسا قرآن ہے جس میں مکڑی ، مچھر، گائے، بھینس کا ذکر ہے۔ وہ گستاخی کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیتے تھے کہ اللہ کو شرم نہیں آتی کہ وہ اپنے کلام میں ایسی معمولی معمولی چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ نے ان کی بات کا ان کے انداز ہی میں یہ کہہ کر جواب دیا کہ اللہ کو اس بات سے شرم نہیں آتی کہ وہ مچھر یا اس سے بھی بڑھ کر کسی چیز کی مثال بیان کرتا ہے کیونکہ جو اہل ایمان ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے جو بھی فرمایا ہے وہ بالکل سچ اور برحق ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کی روش کو اختیار کر رکھا ہے وہ یہی کہیں گے کہ بھلا یہ مثال بھی کوئی بیان کرنے کے قابل تھی ( سورة بقرہ) اس جگہ اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت کی عظمت اور باطل کے بےحقیقت ہونے کی مثال بیان کرتے ہوئے کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کے فرق کو دو مثالوں سے واضح فرمایا ہے ۔ سب سے پہلے کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کے معانی اور اس کی تفصیل سن لیجیے تاکہ یہ مثالیں واضح طریقہ پر ہمارے سامنے آسکیں۔ کلمہ طیبہ : توحید و رسالت پر ایمان، پائیدار عقیدہ، حق و صداقت کا سدا بہار کلام جو انسانی فطرت کا سچا ترجمان، پاکیزہ، صاف ستھرا اور سچا قول ہے۔ کلمہ خبیثہ : جھوٹا، کمزور، ناپائیدار باطل عقیدہ، غیر فطری انداز فکر، دنیا پرستی، شیطانی وسوسہ اور روحانی سکون و اطمینان سے خلای گندے کلام کو کلمہ خبیثہ کہا جاتا ہے۔ کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کا فرق، حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، نور اور اندھیرے کا فرق ہے کلمہ طیبہ حق، سچائی نور اور روشنی ہے اور کلمہ خبیثہ باطل، جھوٹ، اندھیرے اور تاریکی کا نام ہے۔ کلمہ طیبہ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا (الحدیث) اے لوگو ! یہ کہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے تم کامیاب ہوجاؤ گے۔ اسی بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دوسرے انداز سے بھی ارشاد فرمایا ہے ” من قال لا الہ الا اللہ دخل ال جنتہ “ یعنی جس نے بھی یہ کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ۔ دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس نے بھی کلمہ طیبہ پر اپنے ایمان و یقین کو مستحکم کرلیا وہ کامیاب و بامراد ہوا اور وہ جنت کا حق دار ہوگا ۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی اور ہر رسول کا یہی ایک کلمہ تھا اور انہوں نے اپنی امتوں کو پہلا درس اسی بات کا دیا تھا کہ وہ اس کلمہ پر آجائیں اسی میں ان کی نجات اور کامیابی ہے۔ چونکہ ہر نبی اور رسول نے اسی کلمے کو پیش کیا تو اس کلمہ کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ اس رسول اور نبی پر ایمان کا بھی اقرار کیا جائے چناچہ حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک اس کلمہ کے ساتھ ان پر ایمان لانے کا بھی اقرار کرنا ضروری تھا۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لئے جو کلمہ ہے وہ اس طرح ہے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ یعنی اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ چونکہ قرآن کریم اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں آپ کے بعد کوئی کسی طرح کا نبی یا رسول نہیں آئے اور آپ کے بعد جو بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے گا وہ قطعی جھوٹا ہوگا۔ اس لئے اس کلمہ کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھنا بھی اس کلمہ کا تقاضا ہے۔ اس کلمہ طیبہ کی بہت سی برکتیں ہیں جو درج ذیل ہیں : 1) کلمہ طیبہ وہ کلمہ ہے جو اہل ایمان کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اور کامیایباں عطا کئے جانے کی ضمانت ہے۔ 2) اس کلمہ کی برکت سے ایک مومن راہ مستقیم پر چل کر شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ 3) کلمہ طیبہ پر چلنے سے ایک مومن نہ صرف ثابت قدم رہتا ہے بلکہ ہر طرح کی گمراہیوں سے بچ جاتا ہے۔ 4) جب موت کے فرشتے سامنے آتے ہیں تو وہ ایمان پر قائم رہتا ہے۔ 5) قبر جو سفر آخرت کی پہلی منزل ہے اس کلمہ کی برکت سے اس پر آسان ہوجاتی ہے۔ 6) اس کلمہ طیبہ کی برکت سے اس پر جنت کی ابدی راحتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ 7) اس کلمہ کی برکت سے وہ میدان حشر کے ہولناک دن ہر اندیشے اور خوف سے محفوظ رہے گا۔ 8) کلمہ طیبہ کی برکت سے قبر کی منزل آسان، سفر آخرت سہل اور حشر کی رسوائیوں سے محفوظ رہے گا۔ 9) کلمہ طیبہ ایسا پائیدار اور مبوط عقیدہ ہے جس سے مومن کو دلی سکون کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ 01) کلمہ طیبہ توحید و رسالت پر پختہ یقین، کامل اعتماد اور دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ 11) کلمہ طیبہ فطرت کی سچی آواز اور حق و صداقت کا سدا بہار کلام ہے۔ 21) کلمہ طیبہ ایک ایسے پاکیزہ درخت کی طرح ہے جو نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں تو اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ تیز و تند آندھی اور بڑی سے بڑا طوفان بھی اس کو جڑوں سے نہ اکھاڑ سکے اور بڑی سے بڑی آفت کے وقت بھی وہ اپنی جڑوں پر کھڑا رہے اور اس کی شاخیں اس قدر بلند وبالا اور پھیلی ہوئی ہیں جو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ دیکھنے میں حسین و خوبصورت ۔ ہمیشہ پھل دینے والا درخت جس کا سایہ بھی دوسروں کی راحت کا سبب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ایک مستحکم و مضبوط درخت جس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں تک اور اس کی بلندی آسمان کی پنہائیوں تک ہو۔ آرام پہنچانے والا سایہ دار اور دائمی پھل دینے والا درخت ہو کسی کے اکھاڑنے سے اکھڑ نہ سکتا ہو اسی طرح کلمہ طیبہ ہے جو اس درخت کی مانند ہے جو مستحکم و مضبوط ہو۔ بتایا یہ جا رہا ہے کہ جو لوگ کلمہ طیبہ کی ساری سچائیوں کو اپنا لیتے ہیں وہ نہایت مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں ان کے اعمال کی مضوبطی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ شیطان کے تمام تر حربے ، فتنے اور سوسوے ان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ اسی طرح حالات کی گردش ، طوفانی کیفیات اور بڑی سے بڑی آفات ان کے پائے استقلال کو ڈگمگا نہیں سکتیں ان کے اعمال کی بلندی اس طرح مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے کہ فرشتے بھی اس کی بلندیوں کی عظمت پر ناز کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کی ہے کہ کفر کی تمام طاقتوں نے متحد و متفق ہو کر ان کو راہ حق سے ہٹانے کے لئے ہر طرح کے ظلم و ستم کئے مگر وہ کفر و شرک اور باطل کے سامنے اس طرح ڈٹ گئے کہ کفر کے ایوانوں میں زلزلے آگئے مگر ان کے پاؤں میں ذرا بھی پیدا نہیں ہوئی۔ کلمہ خبیثہ : کلمہ خبیثہ کی مثال ایک ایسے معمولی، گندے اور کمزور درخت کی جیسی ہے جس کی جڑیں زمین کے اوپر ہی ہوتی ہیں جس کو کسی طرح کا جماؤ، مضبوطی اور استحکام حاصل نہیں ہوتا یہ درخت نہ دیکھنے میں اچھا لگتا ہے۔ نہ اس کا سایہ کسی کو آرام پہنچاتا ہے۔ نہ اس کا پھل مزیدار ہوتا ہے اور نہ اس کے پھل میں کوئی خوشبو ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح کفر و شرک کلمہ خبیثہ کی طرح ہیں جس کے ماننے والوں کو نہ تو مضبوطی اور استحکام حاصل ہوتا ہے اور ان کے اعمال و افعال نہ ان کو فائد دیتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ کمزور اس قدر ہیں کہ حالات کے ذرا سے جھٹکے کو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ ہر وہ چیز جو ناحق، باطل اور جھوٹ ہو وہ کلمہ خبیثہ ہے۔ 1) کلمہ خبیثہ یہ ہے کہ ایک غلط اور ناحق بات کو سچا ثابت کرنے پر پوری طاقتیں لگا دی جائیں۔ 2) کلمہ خبیثہ انسانی فطرت اور ضمیر کے خلاف کوششوں کا نام ہے جو ظاہری خوبصورتی کے باوجود انسانی قلوب کی گہرائیوں میں اترنے کی صلاحیت نہیں کھتیں۔ 3) کلمہ خبیثہ شیطان کے وسوسں، گمراہیوں اور نشوں کا دوسرا نام ہے۔ 4) کلمہ خبیثہ اختیار کرنے والوں کی دنیاوی زندگی کتنی ہی کامیاب کیوں نہ ہو قبر اور حشر میں ان کو شدید تر ذلتوں اور رسوائیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 5) کلمہ خبیثہ پر عمل کرنے والے اسی دنیا میں ڈلوتے اور ڈگمگاتے رہتے ہیں۔ 6) کلمہ خبیثہ پر عمل کرنے والے راہ مستقیم سے محروم اور آخرت کی دائمی راحتوں اور جنتوں سے دور رہیں گے۔ 7) کلمہ خبیثہ فطرت سے جنگ اور حق و صداقت سے دشمنی کا دوسرا نام ہے۔ کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کا فرق بالکل واضح اور صاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ کلمہ طیبہ یعنی ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی خیر و فلاح ، عزت و سربلندی اور مضبوطی و استحکام عطا فرمائے گا۔ لیکن جن ظالموں نے کلمہ خبیثہ یعنی کفر و شرک کی راہ اختیار کر رکھی ہے ان کی آخرت کی ابدی زندگی بھی تباہ و برباد ہوگی اور وہ جنت کی راحتوں کی خوشبو تک نہ سونگھ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اپنے فیصلے کو نافذ کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اسی نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ حق و صداقت جب بھی نکھر کر سامنے آئے گی باطل مٹ جائے گا کیونکہ کمزور اور ناپائیدار چیزیں طوفان کے ساتھ بہہ جاتی ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد کھجور کا درخت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نیا خطاب۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت فرمائی ہے کہ اسے کوئی بات مثال دے کر سمجھائی جائے تو نہ صرف اسے سمجھ آجاتی ہے بلکہ وہ بات اسے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہم ترین مسائل کو امثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ پہلے پارے میں دین اسلا... م کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی۔ بارش میں فوائد بھی ہیں اور کچھ نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ گویا کہ دین میں فوائد کے ساتھ قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ (البقرۃ : ١٩) دین اسلام بارش کی طرح فائدہ مند چیز ہے لیکن جس طرح اچھی زمین بارش کا فائدہ اٹھا کر نباتات اگاتی ہے اور خراب زمین اس کا فائدہ نہیں اٹھا پاتی یہی مثال دین اسلام کی ہے سعادت مند اور عقلمند فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا کے طالب اور لاپروا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ عقیدۂ توحید سمجھانے کے لیے مکھی کی مثال دی کہ اگر وہ کھانے سے کوئی چیز اٹھا کے لے جائے تو معبودان باطل اور ان کو مشکل کشا سمجھنے والے اس سے وہ چیز واپس نہیں لے سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد مانگنے والے اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔ (الحج : ٧٣) شرکیہ عقیدہ کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے مکڑی کی مثال دی کہ جس طرح مکڑی مضبوط چھت کے نیچے اپنے لیے جالا بن کر اسے محفوظ سمجھتی ہے یہی مشرک کی حالت ہے کہ وہ قادر مطلق پر یقین کرنے کی بجائے کمزور سہارے تلاش کرتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٤١) حالانکہ وہ کسی وقت بھی سہارا نہیں بن سکتے۔ سورۃ ابراہیم کے اس مقام پر عقیدہ توحید کو ایک درخت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! کیا تم غور نہیں کرتے کہ کلمہ طیبہ کو اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ درخت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ یہ ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان کی بلند یوں میں لہرا رہی ہیں۔ یہ درخت اپنے رب کے حکم سے ہر موسم میں پھل دے رہا ہے۔ یہ مثال اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ حقیقت ہے کہ ہر درخت کا ایک بیج ہوتا ہے بیشک وہ بیج کی شکل میں ہو یا جڑ کی صورت میں درخت اسی کی بنیاد پر زمین میں جڑ پکڑتا، فضا میں پھیلتا اور پھل دیتا ہے۔ جس طرح کا بیج ہوگا اسی طرح کا درخت اور اس کا پھل ہوگا۔ یہی انسان کے عقیدہ اور اس کے کردار کی مثال ہے۔ اگر عقیدہ باطل یا کمزور ہے تو اس کا کردار بھی گھناؤنا اور کمزور ہوگا۔ اگر عقیدہ توحید پر مبنی اور مضبوط ہے تو اس کے کردار اور گفتار میں نکھار اور پختگی ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کو ایک ایسے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی اور مضبوط ہیں اگر اسے پانی نہ بھی مل سکے تو اس کی جڑیں زمین سے پانی جذب کر کے درخت کی ہر یالی کو سدا بہار رکھتے ہوئے اسے ہر موسم میں بار آور بناتی ہیں۔ اس کی شاخیں فضا میں ہر سو لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سایہ گھنا اور پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یہی مثال عقیدۂ توحید کی ہے۔ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے جس میں آدمی یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی چیز دینے والا ہے اور نہ کوئی چیز لینے والا ہے۔ اسی بنیاد پر مواحد کے عقیدہ وعمل میں نکھار اور کمال ہوتا ہے۔ اس کے تعلقات میں اخلاص، معاملات میں نکھار، کردار میں عدل و انصاف، گفتار میں وقار اور اخلاق اعلیٰ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ حاکم ہے تو رعایا پروری کرے گا، مال دار ہے تو صدقہ و خیرات کرے گا، طاقتو رہے تو دوسرے کی مدد کرے گا، علم و لیاقت کا مالک ہے تو لوگوں کے لیے علم و معرفت کا ذریعہ بنے گا، رات کو اٹھے گا تو اپنی اور امت کی خیر مانگے گا، صبح کو گھر سے نکلے گا تو اپنوں بیگانوں کا بھلا کرے گا۔ گویا کہ جلوت وخلوت، رات اور دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہوگی جس میں یہ اپنے رب سے غافل اور اس کا ضمیر اپنے رب کے حضور جو ابدہی کے تصور سے خالی ہو۔ مصیبت آئے گی تو ثابت قدم رہے گا، نعمت چھن جائے تو صبر کرے گا۔ کچھ حاصل ہوگا تو اپنے رب کا شکر گزار ہوگا۔ مسائل ١۔ کلمہ طیبہ کی مثال پاکیزہ درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں اونچائی میں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نصیحت کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٤ تا ٢٧ کلمہ طیبہ کی مثال اچھے درخت کی دی گئی ہے جو ہر وقت پھل دیتا ہے ، پھلتا پھولتا ہے ، اور کلمہ خبیثہ کی مثال بیکار جڑی بوٹیوں کی ہے ، جن کو کسان جہاں دیکھتا ہے بیکار اور مضر سمجھتے ہوئے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ کسی جگہ اس کے لئے قرار نہیں ہے۔ یہ تمثیل اور تمثیلی منظر انبیاء اور سرکش اور ڈکٹ... یٹروں کے قصے سے لیا گیا ہے۔ اس قصے میں انبیاء اور داعیوں کا جو انجام بتایا گیا ہے اور جھٹلانے والے سرکشوں کا جو انجام بتایا گیا ہے یہ تمثیل اس پر مبنی ہے۔ سلسلہ انبیاء ایک شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ یہ درخت تاریخ کے مختلف موسموں میں اپنا پھل دیتا رہا ہے ، کسی نہ کسی دور میں کوئی نہ کوئی نبی آیا ہے اور وہ اصلاح ، دعوت اور ایمان کا پھل دیتا رہا ہے جس میں بھلائی اور اچھی زندگی کا سامان فراہم ہوتا رہا ہے۔ لیکن یہ تمثیل اس سورة کی فضا اور اس قصے کی فضا کے ساتھ متناسب ہونے کے ساتھ ساتھ مطالب و معانی کا نہایت وسیع آفاق رکھتی ہے اور اس کے اندر گہرے حقائق ہیں۔ کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ حق ہے ، جو ایک مفید اور اصل دار درخت کی طرح ہوتا ہے ، یہ حق مستحکم ، ٹھوس اور مفید ہوتا ہے۔ زمانے گزر جاتے ہیں لیکن یہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ باطل کی طوفانی ہوائیں اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتیں اور ظلم و سرکشی کے کدال اسے اکھاڑ نہیں پھینک سکتے۔ اگرچہ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ ظلم اور سرکشی کے سخت طوفان اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ یہ درخت نہایت بلند ہوتے ہیں اور ان کی شاخیں فضاؤں میں بڑی دور تک جاتی ہیں۔ یہ سرکشی اور ظلم پر بڑی بلندی سے حقارت آمیز نظر ڈالتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ شر اس کا بلند فضاؤں میں بھی مقابلے کر رہا ہے لیکن اس درخت کا پھل آتا ہی رہتا ہے ، پھر اس درخت کی تخم ریزی صالح انسانوں کے دلوں میں ہوتی اور اس کی پود لگتی ہی رہتی ہے اور یہ نسلاً بعد نسل بڑھتا ہی رہتا ہے۔ باطل جو کلمہ خبیثہ ہوتا ہے۔ یہ بےکار جھاڑی اور بوٹی کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ جھاڑیاں بھی بہار دکھاتی ہیں اور گھنے جنگلات کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور بعض لوگ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید باطل کا درخت حق سے بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس کی جڑیں نہیں ہوتیں۔ معمولی طاقت صرف کرنے سے اسے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ جس طرح فصل سے جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ لیا جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھے لوگ اسے اکھاڑ پھینکتے ہیں اس لیے وہ قرار و بقا سے محروم ہوتا ہے کیونکہ ہوتا ہی خبیث ہے۔ یہ محض ایک مثال یا ضرب المثل ہی نہیں ہے ، نہ کوئی ایسی بات ہے جس کے ذریعہ نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ، بلکہ یہ تمثیل زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اس حقیقت کے ظاہر ہونے میں دیر لگتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سچائی اور بھلائی کو کبھی بیخ دین سے نہیں اکھاڑ کر پھینکا جاسکتا اور نہ یہ سچائی کبھی مرتی یا نابود ہوتی ہے اگرچہ شر کی گرفت سخت ہو اور شر اس کی راہ روک رہا ہو۔ اسی طرح خالص شر بھی دنیا میں پھلتا پھولتا نہیں۔ دراصل وہ اپنے ساتھ خیر کا کوئی حصہ ملاتا ہے ، اور جب اس شر کے ساتھ ملائے ہوئے خیر کے عناصر ختم ہوجاتے ہیں تو پھر شر اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ بڑی قوت اور عظیم طاقت نظر آتا ہے ہو۔ بہرحال اصل حقیقت یہ ہے کہ خیر ہی خیرت سے ہوتا ہے اور شر ہمیشہ مشکلات سے دوچار ہوتا ہے۔ ویضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون (١٤ : ٢٥) “ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں ”۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جو زمین پر حقیقت کی شکل میں موجود ہیں۔ لوگ ان پر نظر نہیں ڈالتے ، قرآن صرف لوگوں کو متوجہ کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ تذکرہ ہے۔ شجرۂ ثابتہ اور اس مستحکم درخت کی تعبیر میں حق کے ثبات کی تصویر کشی بھی ہے ، یوں کہ حق کی جڑیں گہری ہوتی ہیں اور وہ آسمان تک بلند شاخیں رکھتا ہے اور نظر بھی آتا ہے کہ وہ بلند ہے۔ حق کھڑا رہتا ہے اور یہ جتلاتا ہے کہ وہ مضبوط اور ٹھوس ہے ، اس کلمہ طیبہ اور شجرۂ طیبہ کے ذریعہ ایک تمثیل دے کر اللہ کیا چاہتا ہے ؟ یثبت اللہ ۔۔۔۔۔ وفی الاخرۃ (١٤ : ٢٧) “ ایمان والوں کو اللہ اس قول ثابت کی بنیاد پر ، دنیا و آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے ”۔ اور طرح کلمہ خبیثہ کی تمثیل دے کر کہ وہ شجرۂ خبیثہ کی طرح ہے اور اس کے لئے کوئی ثبات وقرار نہیں ہے۔ ویضل اللہ الظلمین (١٤ : ٢٧) “ اور ظالموں کو بھٹکا دیتا ہے ”۔ چناچہ انداز کلام اور اس سے مراد مفہوم کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ”۔ اللہ اہل ایمان کو اس زندگی میں ثبات وقرار عطا کرتا ہے اور یہاں ان کی بات پختہ ہوتی ہے آخرت میں انہیں مضبوط کرتا ہے ، وہاں ان کا انجام پختہ وہتا ہے کیونکہ ان کے دلوں کی دھرتی پر ایمان پختہ کھڑا ہوتا ہے۔ ان کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے اور اس درخت سے ان کی زندگی سے اعمال صالحہ پھوٹتے رہتے ہیں۔ پے در پے یہ اعمال آتے ہیں۔ یہ درخت قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے۔ اس کے سامنے امید کی شمع ہوتا ہے ۔ اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے ، یہ سب باتیں یا پھل حق ہیں اور ٹھوس ہیں۔ ایک ہی راہ ہے اور ایک ہی طریقہ ہے۔ اور جن لوگوں کے ضمیر کی دھرتی میں یہ درخت کھڑا ہوتا ہے اس سرزمین میں قلق ، بےچینی ، حیرت اور اضطراب نہیں ہوتا۔ ظالموں کو اپنے ظلم اور شرک کی وجہ سے (قرآن میں ظلم کا اطلاق بالعموم شرک پر ہوتا ہے ) نور اور روشنی سے دور کردیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اوہام و خرافات کی تنگ و تاریک وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ یہ ہوائے نفس کی مختلف راہوں پر چلتے ہیں۔ اللہ کی ایک ہی راہ سے محروم ہوتے ہیں ، تو اللہ اپنی سنت جاریہ کے مطابق پھر ان کو مزید گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود ظلم ، تاریکی اور ہوائے نفس کی بندگی کی راہ کو اختیار کیا۔ تو یہ بھٹکتے رہے اور بدی کی راہوں میں ادھر ادھر بھاگتے رہے۔ ویفعل اللہ ما یشاء ( ١٤ : ٢٧) “ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے ”۔ اس کا ارادہ بےقید ہے ، ٹھیک ہے کہ وہ ایک ناموس فطرت جاری کرتا ہے لیکن وہ خود اپنے ناموس فطرت کا پابند نہیں ہے ۔ البتہ اس کے قانون پر جو چلے وہ اس کو پسند کرتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اپنے جاری کئے ہوئے ناموس فطرت کو بدل بھی دیتا ہے کیونکہ اللہ کو روکنے والی کوئی قوت نہیں ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے ، وہی ہوتا ہے۔ اس تبصرے سے رسولان کرام کے عظیم قصے ، اور کہانی کی بات کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ دعوت اسلامی کی کہانی تھی۔ اس کا پہلا حصہ اس سورة کے آغاز میں ایک بڑے حصے میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں حضرت ابراہیم ابو الانبیاء کی کہانی تھی۔ پھر چند دوسرے انبیاء کی کہانی تھی جس کی شاخیں تاریخ کے اندر دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور یہ کلمہ طیبہ کے درخت کے مالی تھے جو حق کی طرح پھلتا پھولتا تھا۔ یہ کلمہ طیبہ جو یہ سب پیغمبر لے کر آئے یہ شجرۂ طیبہ کی طرح تھا۔ یہ کلمہ توحید تھا ، تمام انبیاء کا شجرۂ طیبہ ایک ہی تھا ، ایک ہی پھل دیتا تھا ، یہ کلمہ توحید تھا اور تمام انبیاء کے ہاں یہ کلمہ ایک رہا اور دعوت بھی ایک ہی رہی۔ یہ تھی اسلام اور جاہلیت کے درمیان طویل کشمکش۔ اس کی طرف ہم نے اس پوری سورة میں جا بجا سر سری اشارات کئے ہیں۔ میں اس بات کو ضروری سمجھتا ہوں کہ ان اشارات پر دوبارہ قدرے غور کیا جائے۔ چناچہ اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں قافلہ ایمان ایک ہی قافلہ ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے ادھر یہ قافلہ رواں دواں ہے اور رسولان کرام اس قافلے کے قائد ہیں۔ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی نظریہ و عقیدہ کی طرف تھی۔ ایک آواز انہوں نے بلند کی اور ایک ہی طریق کار پر انہوں نے کام کیا۔ سب کی دعوت یہ تھی کہ الٰہ اور حاکم ایک ہی ہے ، وہی رب ہے ، اور اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ اور رب اور حاکم نہیں ہے ، اور اہل ایمان کو اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔ نہ اللہ کے سوا کسی اور کی پناہ میں آنا چاہئے اور نہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا سہارا سمجھنا چاہئے۔ پس اللہ وحدہ کو ایک سمجھے اور عقیدۂ توحید کی وہ تاریخ جسے آج کل علماء “ تقابل ادیان ” بتلاتے پھرتے ہیں ، کہ پہلے لوگ متعدد الہٰوں کو مانتے تھے۔ پھر دو الہٰوں کو ماننے لگے یعنی “ خیر و شر کے الٰہ ، اس طرح لوگ پہلے شجر وحجر ، سورج ، چاند ، ستاروں اور سیاروں کی پوجا کرتے تھے اور پھر آخر میں انہوں نے الٰہ واحد کی پوجا شروع کردی۔ یوں ان کے نظریات میں ارتقاء ہوا اور انسانیت کا علم و فلسفہ ترقی کرتا رہا۔ اسی طرح ان کی سوسائٹی بھی ترقی کر کے ، ایک بادشاہ کی بادشاہی کے قیام تک جا پہنچی۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جب سے انسانی تاریخ شروع ہوئی ہے تمام رسولوں نے عقیدۂ توحید کی تبلیغ کی ہے۔ تمام رسولوں کی رسالت اور دعوت میں یہی بنیادی عنصر تھا اور اس میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ جس قدر معروف سماوی دین ہیں ، قرآن کریم کے مطابق ان کی دعوت یہی تھی۔ اگر تقابل ادیان کے علماء اپنی بات اس طرح کرتے کہ رسولوں نے جو عقیدۂ توحید آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بیان کیا۔ اس کے بعد سمجھنے کے لئے انسانوں کے فہم و ادراک میں یوں ارتقاء ہوا کہ رسولان کرام کی مسلسل جدو جہد کی وجہ سے عوام الناس کے اذہان میں یہ روشنی پھیلتی چلی گئی اور آخر میں اس طویل جدو جہد کے لئے زیادہ لوگ اللہ کے دین ، عقیدہ توحید کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوگئے تو ان علماء تقابل ادیان کی بات معقول نظر آتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس منہاج بحث و تحقیق سے متاثر ہیں ، جو یورب میں مروج ہے۔ اس منہاج کی تہ میں دراصل کنیا کے خلاف عداوت دفن ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دور جدید کے مسلم مفکرین نے بھی اس کا خیال نہیں رکھا۔ بہرحال تقابل ادیان دانستہ و نا دانستہ صحیح اسلامی اور دینی سوچ کے مخالف چلتے ہیں اور یہ انداز ثابت کرتے ہیں کہ ادیان کی بنیاد وحی پر نہیں ہے بلکہ دین بھی دراصل انسانی سوچ کا ارتقاء ہے۔ جس طرح دوسرے انسانی افکار ، فلسفوں اور تجربوں میں ارتقاء ہوتا رہا ہے اسی طرح دینی فکر بھی ارتقاء پذیر رہی ہے۔ غرض اس قدیمی دشمنی اور اس سوچ ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے دور کے ماہرین علماء تقابل ادیان اس طرز پر بات کرتے ہیں اور اپنی اس سوچ اور فکر کو علمی اور تحقیقی سوچ کہتے ہیں۔ اگر کسی اور ملک و ملت کا کوئی فرد اس منہاج سے دھوکہ کھاتا ہے تو کھائے مگر ایک مسلمان اس منہاج سے ایک منٹ کے لئے بھی متاثر نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے حوالے سے ایک صحیح منہاج فکر موجود ہے اور ان کے پاس دین کے حوالے سے ان کے اپنے کچھ طے شدہ اصول ہیں ، اور اپنا منہاج بحث موجود ہے۔ غرض تمام انبیاء انسانیت کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کرتے رہے۔ ایک ہی نظریہ دیتے رہے۔ اور اسی منہاج کے مطابق انہوں نے اپنے اپنے دور میں جاہلیت کا مقابلہ کیا۔ قرآن کریم اس بات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ تمام رسول یہ دعوت لے کر آئے ، یہ ایک ہی نظریہ پیش کر کے ، ہر دور میں ایک ہی طرح جاہلیت کا مقابلہ کرتے رہے۔ اور اس معاملے میں قرآن نے زمان و مکان کے حوالے سے کسی ارتقاء کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ اسلام ، اسلام ہے اور جاہلیت ، جاہلیت ہے۔ اسلام ہمیشہ اسلام رہا ہے اور جاہلیت ہمیشہ جاہلیت رہی ہے۔ تاریخ کے کسی دور میں ان کے درمیان کوئی اتحاد نہیں رہا ہے۔ جب اسلام کی بنیاد پر کوئی سوسائٹی بنی ہے ، اس کے ایک ہی مہ و سال رہے ہیں اور جب بھی جاہلیت کی اساس پر کوئی اکٹھ ہوا ہے وہ بھی ایک جیسا رہا ہے۔ مثلاً جاہلیت کی پہلی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے اور اس میں حاکم اللہ نہیں ہوتا بلکہ کوئی اور ہوتا ہے۔ پرورش کرنے والا بھی اور ہوتا ہے ، چاہے کوئی متعدد الہٰوں کا قائل ہو یا اللہ ایک سمجھتا ہو مگر رب اور حاکم متعدد ہوں تو بھی یہ سوسائٹی ایک جاہلی سوسائٹی ہوگی اور اس سوسائٹی میں جاہلیت کے تمام اوصاف و علامات موجود ہوں گی۔ رسولوں کی دعوت کی بنیا یہ رہی ہے کہ اللہ کو ایک سمجھاجائے اور تمام جھوٹے خداؤں کا انکار کردیا جائے۔ دین صرف اللہ کا ہو ، صرف اللہ کے دین و شریعت کی اطاعت ہو اور صرف اللہ کو حاکم اور قانون ساز تصور کیا جائے۔ یہ نظریہ براہ راست اس نظریہ کی ضد ہے جو جاہلیت کی اساس رہا ہے۔ جونہی کوئی شخص یہ اعلان کرتا ہے کہ حاکم بھی اللہ ہوگا ، قانون بھی اللہ کا ہوگا تو ہر جاہلیت اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے ، خصوصاً جب لوگ اس نظریہ کے گرد جمع ہو کر ایک جماعتی زندگی اختیار کرلیں اور خصوصاً یہ افراد جاہلیت سے چھٹ چھٹ کر آرہے ہوں اور ایک اکٹھ اختیار کر رہے ہوں ، ایسی صورت میں نظریہ جاہلیہ اور حاکم جاہلیت ایسے افراد کے اجتماع کو اپنے خلاف ایک بغاوت سمجھتے ہیں۔ پھر ہر جاہلی حکومت یہ خیال کرتی ہے کہ ان لوگوں کا عقیدہ مشکوک ہے۔ حالانکہ یہ امور ایسے ہیں کہ ہر دور میں یہ تحریک اسلامی کے لئے لابدی ہیں کہ وہ اپنے نظریات کا کھل کر اعلان کرے۔ پھر ان کی اساس پر جمعیت تشکیل دے اور پھر یہ لوگ مل کر کام کریں۔ ہر دور میں یہ طریق کار ضروری ہے۔ ہر دور میں نظام جاہلیت کا ایک نظام ہوتا ہے اور اس کی عضویاتی تشکیل ہوتی ہے۔ جب وہ نظام دیکھتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک متضاد نظریاتی نظام آگیا ہے اور ایک نئی سوسائٹی بھی بن رہی ہے جو ان کی سوسائٹی کے بالکل متضاد عضویاتی تشکیل اور نظام رکھتی ہے۔ کیونکہ جاہلی سوسائٹی کی تہ میں متعدد الہٰوں کا نظریہ ہوتا ہے۔ حاکم اس میں متعدد ہوتے ہیں اور اس میں انسان انسانوں کے غلام اور تابع ہوتے ہیں جبکہ اسلامی سوسائٹی میں ایک الٰہ اور حاکم کا نظریہ ہوتا ہے اور اس میں تمام لوگ اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا بندہ نہیں ہوتا تو پھر جاہلی سوسائٹی اس نئی سوسائٹی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ خطرے میں اضافہ اس بات سے بھی ہوجاتا ہے کہ یہ نو تشکیل شدہ اسلامی سوسائٹی روز بروز جاہلی سوسائٹی کے جسم کو کھاتی چلی جاتی ہے۔ ابتداء میں جب اسلامی سوسائٹی بنتی ہے تو خطرہ کم ہوتا ہے لیکن جب وہ جاہلیت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنی غلامی سے نکالو اور تم سب اللہ کی غلامی میں داخل ہوجاؤ۔ چونکہ آغاز رسل سے یہی طریق کار رہا ہے ، دعوت اسلامی اور تحریک اسلامی کا اس لیے آغاز ہی سے ہر دور میں جاہلیت نے اسلامی تحریک کو اپنے وجود کے خلاف چیلنج سمجھا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے اور قدرتی معلوم ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح کوئی قائم وجود کسی حملہ آور کے مقابلے میں اپنی حفاظت کرتا ہے اور جس طرح ہر وہ شخص اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے جس نے عوام سے حاکمیت غصب کی ہوئی ہوتی ہے۔ جب جاہلیت محسوس کرتی ہے کہ تحریک اسلامی اس کے وجود کے لئے خطرہ بن گئی ہے تو وہ بھی اس مقابلے کو موت وحیات کا مسئلہ سمجھتی رہی ہے۔ جاہلیت نے تحریک اسلامی کے ساتھ کبھی بھی نرمی ، مصالحت اور امن و سلامتی کے اصول کو نہیں اپنایا۔ کبھی بھی اس معرکے میں جاہلیت نے اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دیا۔ نہ رسولان کرام نے اس معرکے میں کبھی اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے۔ نہ ان کے بعد کسی مومن داعی نے اس سلسلے میں اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔ جاہلیت کا اعلان یہ رہا ہے۔ وقال الذین ۔۔۔۔۔ فی ملتنا (١٤ : ١٣) “ اور کفار نے ہمیشہ ان کے پاس آنے والے رسولوں کو یہ کہا کہ تو ہم اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہماری ملت اور دائرہ اقتدار میں آنا ہوگا ”۔ یہ لوگ رسولوں اور مومنوں کا علیحدہ وجود تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ ان کا اپنا کوئی نظریہ ہو یا اپنی کوئی جماعت ہو۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ واپس ہماری پارٹی میں آجاؤ یا جلاوطن ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ واپس آجاؤ، ہماری سوسائٹی میں مدغم نہ ہوجاؤ، پگھل جاؤ اور اپنی علیحدہ سوسائٹی اور اجتماعیت مت بناؤ۔ لیکن رسولان کرام نے بھی اس بات کو کبھی قبول نہیں کیا کہ وہ ملت جاہلیہ میں پگھل جائیں اور مدغم ہوجائیں۔ اپنا وجود ختم کردیں اور اپنی شخصیت کو ختم کردیں۔ اس لیے کہ ان کی سوسائٹی بالکل ایک نئے نظریہ ، نئے آئین و دستور منشور پر قائم ہوتی ہے جو جاہلیت کے نظریہ اور دستور ومنشور سے متضاد ہوتا ہے۔ رسولوں نے اس طرح کا جواب بھی نہیں دیا اور عمل بھی نہیں کیا جو ہمارے دور کے بعض جاہل لوگ کہتے ہیں کہ جاہلی سوسائٹی میں مدغم ہوجاؤ اور اندر اندر سے کام کرد ، اندر جا کر اپنے عقیدے کو پھیلاؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی جاہلی معاشرے میں اہل دعوت ایک نیا اسلامی نظریہ لے کر اٹھتے ہیں تو اس نظریہ کی اساس پر خود بخود ان کی سوسائٹی ، ان کی قیادت اور ان کی وفاداریاں الگ ہوجاتی ہیں ۔ یہ فطری بات ہے اس میں کسی کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ کسی بھی سوسائٹی کی تشکیل کے لئے فطری انداز ہے جو طبعی ہے اور لازمی ہے۔ اس عمل سے اگر کسی جاہلی سوسائٹی کے اندر رد عمل ہوتا ہے کہ لوگوں کو صرف ایک خدا کی بندگی ، حاکمیت اور قانون اور دستور و منشور پر جمع کیا جا رہا ہے تو یہ رد عمل بھی طبیعی ہوتا ہے۔ اس جاہلی نظام کے تمام کل پرزے پھر اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس جاہلی سوسائٹی کا کل پرزہ بنتا ہے تو یہ دراصل اس جاہلی سوسائٹی کا خادم ہوگا ، اسلام کا نہ ہوگا جس طرح بعض احمق یہ سمجھتے ہیں کہ جاہلیت کا پرزہ بن کر اسلام کی خدمت کرو۔ اس کے بعد وہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ جو کسی بھی دعوت کے لئے مقدر ہے ، اور جو شخص دعوت اسلامی کا کام کرتا ہے خواہ کسی زمان و مکان میں ہو ، وہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ جو نصرت کا وعدہ فرمایا ہے ضرور یہ کہا ہے کہ میری نصرت آئے گی اور انہیں زمین میں اقتدار ملے گا تو یہ وعدہ اس وقت تک حقیقت کا روپ اختیار نہ کرے گا جب تک وہ کسی جاہلی سوسائٹی سے ممتاز ہو کر علیحدہ نہ ہوجائیں ، اور وہ اس دعوت کی بنیاد پر اپنی قوم سے الگ ہو کر اپنی سوسائٹی اور اپنی جمعیت تشکیل نہ دے لیں۔ اگر وہ کسی جاہلی سوسائٹی کا ہی حصہ رہیں “ اس میں چلیں پھریں ، اسی کے کل پرزے ہوں ، تو اگرچہ وہ اسلام کے نظریہ حیات پر یقین رکھتے ہوں ، اس کے لئے کام کرتے ہو ، اللہ کی اس نصرت اور وعدے میں تاخیر ہوجائے گی۔ یہ وہ لازمی ، عظیم اور بنیادی شرط ہے جس پر دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں نے مکمل عمل کرنا ہے۔ اس بات کو انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ آخر میں ایک پہلو دوسرا بھی قابل غور ہے ، قرآن کریم رسولان کرام کے اس قافلے کو کس خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ قافلہ پوری انسانی تاریخ میں جاہلیت کا نہایت ہی خوبصورتی اور ثابت قدمی سے مقابلے کرتا چلا آرہا ہے۔ یہ بیان اس لیے خوبصورت ہے کہ اس قافلے کے مسافر جس حق کے حامل ہیں وہ نہایت ہی سادہ ، فطری اور خوبصورت ہے۔ یہ مسافر مطمئن ہیں ، سنجیدہ اور اپنی راہ پر ۔۔۔۔ ہوئے چلے آرہے ہیں۔ قالت لھم رسلھم ۔۔۔۔۔۔ فلیتوکل المومنون (١٤ : ١١) “ ان کے رسولوں نے ان سے کہا “ واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، نوازتا ہے ”۔ اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لا دیں ۔ سند تو اللہ ہی کے اذن سے ہو سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہئے ”۔ آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی یہ خوبصورتی ، اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ یہ ایک متحدہ قافلہ ہے جو ہر زمان و مکان میں ، متحدہ جاہلیت کا مقابلہ کرتا چلا آیا ہے ، ہر دور میں اور ہر قوم میں۔ پھر یہ خوبصورتی ایک دوسرے پہلو سے بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس دعوت اور اس حق کا جس کے یہ رسولان کرام حامل ہیں ، اور اس حق کا جو اس کائنات میں پوشیدہ باہم گہرا رابطہ ہے کیونکہ رسول یہ کہتے ہیں۔ افی اللہ شک فاطر السموت والارض (١٤ : ١٠) “ کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے ” ۔ اور دوسری آیت میں ہے۔ وما لنا ۔۔۔۔۔۔ ھدنا سبلنا (١٤ : ١٢) “ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟” اور دوسری جگہ ہے۔ الم تر ان اللہ خلق السموت ۔۔۔۔۔۔۔ بخلق جدید (١٩) وما ذلک علی اللہ بعزیز (٢٠) (١٤ : ١٩- ٢٠) “ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے ؟ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ ایسا کرنا اس پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے ”۔ اس طرح اس کائناتی سچائی اور دعوت اسلامی کی سچائی کے درمیان گہرا رابطہ قائم ہوتا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذات باری جو برحق ہے وہ ان دونوں سچائیوں کا سرچشمہ ہے اور یہ سچائیاں گہری مستحکم اور دور تک اس کائنات میں جڑیں رکھتی ہیں۔ کشجرۃ خبیثۃ ۔۔۔۔۔۔۔ من قرار (١٤ : ٢٦) “ جس طرح ایک خبیث درخت ہوتا ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور اسے زمین پر قرار نصیب نہیں ہوتا ”۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال یہ تین آیات ہیں جن میں پہلی آیت میں کلمہ طیبہ کو شجرہ طیبہ سے تشبیہ دی ہے اور دوسری آیت میں کلمہ خبیثہ کو شجرہ خبیثہ سے تشبیہ دی ہے حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ کلمہ طیبہ سے کلمہ ایمان لا الٰہ الا اللہ مراد ہے اور کلمہ خبیثہ سے کلمہ کفر مراد ہے، کلمہ طیبہ کے با... رے میں فرمایا کہ وہ ایسے پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ خوب مضبوطی کے ساتھ زمین میں جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں اونچائی میں اوپر جا رہی ہوں اور وہ ہمیشہ پھل دیتا ہو جب بھی اس کی فصل آئے تو فصل ضائع نہ ہو۔ سنن ترمذی (تفسیر سورة ابراہیم) میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ شجرہ طیبہ (پاکیزہ درخت) سے کھجور کا درخت مراد ہے جس سے کلمہ طیبہ کو تشبیہ دی ہے لا الٰہ الا اللہ کی جڑ (یعنی مضبوط اعتقاد) مومن کے قلب میں استحکام اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اس کی شاخیں یعنی اعمال صالحہ جو بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوتے ہیں وہ آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں اور ان پر رضائے الٰہی کے ثمرات مرتب ہوتے ہیں کما فی سورة فاطر (اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ ) کھجور کا درخت زمین میں مضبوطی کے ساتھ جما ہوا ہوتا ہے اپنی جڑوں میں استحکام اور پھلوں میں عمدگی اور شاخوں میں بلندی لیے ہوئے ہوتا ہے اس کے پھل بھی ہر فصل میں آتے رہتے ہیں اور لوگ اس سے برابر منتفع ہوتے رہتے ہیں اس کے پھل میں غذائیت بھی ہے اور قوت بھی ہے اور دیکھنے میں بھی نظروں میں خوب بھاتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال دینے کے بعد کلمہ خبیثہ کی مثال دی اور فرمایا کہ کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر ایسا ہے جیسے کوئی خبیث درخت ہو جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے اور اسے کوئی قرار اور ثبات نہ ہو سنن ترمذی کی مذکورہ بالا روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شجرہ خبیثہ سے حنظل مراد ہے جو بہت زیادہ کڑوا ہوتا ہے اس کا مزہ بھی برا ہے اور اس کی بو بھی بدترین ہے اور اس کے کھانے سے بہت سی مضرتیں پیدا ہوتی ہیں اس کا جماؤ بھی زمین میں نہیں ہوتا زمین سے یوں ہی ذرا تھوڑا سا تعلق ہوتا ہے ہلکے سے ہاتھ کے اشارے سے اکھڑ آتا ہے، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ چونکہ پہلی مثال میں شجرہ طیبہ فرمایا ہے اس لیے حنظل کو مشاکلۃً شجرہ خبیثہ فرما دیا ورنہ حنظل کا درخت نہیں ہوتا بلکہ بیل ہوتی ہے حنظل کی نہ جڑ مضبوط ہے نہ مزا اچھا ہے اور بدبو سے بھرا ہوا ہے اور نہ اس کی شاخیں اونچی ہیں اور مزید یہ کہ بدبودار ہوتا ہے، کفر کے کلمات کا یہی حال ہے حق کے سامنے ان کا کوئی جماؤ نہیں کافر کو اس سے نقصان ہی نقصان ہے اور اس کے اعمال پر بھی رضائے الٰہی مرتب نہیں ہوتی اور چونکہ کافر کے اعمال کے قبول ہونے کا احتمال ہی نہیں اس لیے مشبہ بہ یعنی حنظل کے تذکرہ میں شاخوں کا ذکر ہی نہیں فرمایا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ یہ توحید پر پہلی دلیل نقلی ہے اجمالی از تمام انبیاء (علیہم السلام) و جملہ مؤمنین کلمہ طیبہ سے مراد توحید اور کلمہ خبیژہ سے مراد شرک ہے۔ توحید ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو نہایت مضبوط ہے جس کی جڑیں بھی محکم اور اس کی ٹہنیاں بھی پائیدار اور دور دور تک پھیلی ہوئی اور اپنے اپنے وقت میں لوگ اس کے پھ... ل سے فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح توحید بھی محکم ہے جو تمام ادیان سابقہ میں محکم رہی ہے اور تمام انبیاء سابقین اپنے اپنے وقت میں توحید کی تبلیغ کرتے رہے ہیں اور ماننے والے اس سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اور شرک ایک ایسے کمزور درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں بالکل ناپائیدار ہوں اور یک معمولی سا جھٹکا بھی اسے اکھاڑ پھینکے اور اس کے لیے قرار و ثبات نہ ہو۔ شرک کا ناپائیدار پودا مشرکین نے لگا جسے اللہ کے پیغمبروں نے اکھاڑ پھینکا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 ۔ اے پیغمبر کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا اور کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ اور ستھری و پاکیزہ بات کی ایک کیسی اچھی مثال بیان کی ہے وہ کلمہ طیبہ ایسا ہے جیسے ایک پاکیزہ درخت کہ اس کی جڑ خوب مضبوط جمی ہوئی ہو اور اس کی شاخیں بلندی میں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں۔