The Parable of the Word of Islam and the Word of Kufr
Allah says:
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء
See you not how Allah sets forth a parable! A goodly word as a goodly tree, whose root is firmly fixed, and its branches (reach) to the sky.
Ali bin Abi Talhah reported that Abd... ullah bin Abbas commented that Allah's statement,
مَثَلً كَلِمَةً طَيِّبَةً
(a parable: a goodly word),
refers to testifying to La ilaha illallah, (none has the right to be worshipped but Allah)
while,
كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ
(as a goodly tree),
refers to the believer,
and that,
أَصْلُهَا ثَابِتٌ
(whose root is firmly fixed),
indicates that La ilaha illallah, (none has the right to be worshipped but Allah) is firm in the believers' heart,
وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء
(and its branches (reach) to the sky.
with which the believer's works are ascended to heaven.
Similar is said by Ad-Dahhak, Sa'id bin Jubayr, Ikrimah, Mujahid and several others.
They stated that this parable describes the believer's deeds, good statements and good actions. The believer is just like the beneficial date tree, always having good actions ascending at all times, by day and by night.
Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Umar said,
"We were with the Messenger of Allah when he asked,
أَخْبِرُونِي عَنْ شَجَرَةٍ تُشْبِهُ أَوْ كَالرَّجُلِ الْمُسْلِمِ لاَ يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا صَيْفًا وَلاَ شِتَاءً وَتُوْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا
Tell me about a tree that resembles the Muslim, the leaves of which do not fall in summer or winter and gives its fruit at all times by the leave of its Lord."
Ibn Umar said, "I thought of the date palm tree, but felt shy to answer when I saw that Abu Bakr and Umar did not talk.
When they did not give an answer, the Messenger of Allah said,
هِيَ النَّخْلَة
It is the date palm tree.
When we departed, I said to Umar, `My father, by Allah! I thought that it was the date tree.'
He said, `Why did you not speak then?'
I said, `I saw you were silent and I felt shy to say anything.'
Umar said, `Had you said it, it would have been more precious to me than such things (i.e., would have been very precious to me)."'
Abdullah bin Abbas said that,
كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ
(as a goodly tree),
is a tree in Paradise.
Allah said next,
Show more
لا الہ الا اللہ کی شہادت
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مومن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی ... طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں ۔ کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ۔ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ۔ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابو بکر ہیں حضرت عمر ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ کا ہو رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ درخت کھجور کا ہے ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ نے فرمایا پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لئے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ ) ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ۔ ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال ۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لئے مثالیں واضح فرماتا ہے ۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ جس کی کوئی اصل نہیں ، جو مضبوط نہیں ، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعا بھی آئی ہے ۔ اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بےجڑ اور بےشاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔ Show more