Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 25

سورة إبراهيم

تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۵﴾

It produces its fruit all the time, by permission of its Lord. And Allah presents examples for the people that perhaps they will be reminded.

جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے ۔ اور اللہ تعالٰی لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تُوْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ ... Giving its fruit at all times, It is said that it means by day and by night. And they say that describes the believer as a tree that always has fruits during summer and winter, by night and by day. This is the parable of the believer whose good works ascend to heaven by day and by night and at all times, ... بِإِذْنِ رَبِّهَا ... by the leave of its Lord, thus earning perfection and becoming beneficial, plentiful, pure and blessed, ... وَيَضْرِبُ اللّهُ الاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ and Allah sets forth parables for mankind in order that they may remember. Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے، جو گرمی ہو یا سردی ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں، کَلِمَۃ طَیِّبَۃ سے اسلام، یا لا اِلٰہ الا اللہ اور شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] کلمہ طیبہ کے ثمرات :۔ یعنی جس کی کوئی فصل پھل سے خالی نہیں جاتی اور اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ جب کلمہ توحید کسی مومن کے دل میں رچ بس جاتا ہے اور اس میں اس کی جڑ پیوست ہوتی ہے اور وہ اپنی پوری زندگی اسی کلمہ کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے تو اس سے جو اعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ آس پاس کا معاشرہ بھی ان سے فیضیاب ہوتا ہے اور ہر آن ہوتا رہتا ہے۔ پھر یہی اعمال صالحہ آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ۭاِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ ۭ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّـيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ وَمَكْرُ اُولٰۗىِٕكَ هُوَ يَبُوْرُ 10۝) 35 ۔ فاطر :10) (پاکیزہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتا ہے اور عمل صالح اسے چڑھانے کا سبب بنتا ہے) اور اللہ کی رحمت اور برکات کے نزول کا سبب بنتے ہیں اور اگر اسی کلمہ طیبہ پر مبنی کوئی معاشرہ اپنا نظریہ حیات اسی بنیاد پر استوار کرلے تو اس کے ثمرات و برکات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی جڑ اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ انسانی زندگی میں اس کا آغاز سیدنا آدم (علیہ السلام) سے ہوا اور تاقیامت یہ کلمہ برقرار رہے گا۔ آندھیوں کے جھکڑ یا باطل کے بلاخیز طوفان اسے متزلزل نہیں کرسکے۔ اور باطنی لحاظ سے اس کلمہ کا مستقر مومن کا دل ہے اور مومن کے دل میں اس کلمہ کی جڑیں اس قدر راسخ ہوتی ہیں کہ زمانہ بھر کی مشکلات اور مصائب اسے اس عقیدہ سے متزلزل نہیں کرسکتے۔ پھر یہی کلمہ طیبہ کا مومن کے دل میں پڑا ہوا بیج جب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس کے برگ و بار سب کے سب خیر اور بھلائی کا سرچشمہ بن جاتے ہیں اور اس سے بنی نوع انسان تو درکنار اللہ کی دوسری مخلوق بھی اس کی برکتوں سے فیض یاب ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 25؁ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعی ارادہ اور حکم ہے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ تَّذْكِرَةُ والتَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . ( ذک ر ) تَّذْكِرَةُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حین سے مراد قول باری ہے (توتی اکلھا کل حین باذن ربھا۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے) ابو ظبیان نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” صبح اور شام ! سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس شجرۂ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے جو ہر چھ ماہ بعد پھل دیتا ہے۔ مجاہد، عامر اور عکرمہ سے بھی یہی مروی ہے۔ اسی طرح الحکم اور حماد سے بھی ان کا یہی قول منقول ہے۔ عکرمہ سے ایک روایت میں ان کا یہ قول مروی ہے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ آیت میں وارد لفظ ’ حسین ‘ سے مراد دو مہینے ہیں جو کھجور اتارنے سے لے کر نئے شگوفے نکلنے تک کی مدت ہے۔ سعید بن المسیب سے یہ بھی مروی ہے کہ کھجور کے درخت میں پھل صرف دو ماہ تک رہتا ہے۔ سعید سے ایک اور روایت کے مطابق آیت میں لفظ ’ حین ‘ سے چھ ماہ کا عرصہ مراد ہے۔ القاسم بن عبد اللہ نے ابو حازم سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ جب آپ سے لفظ ’ حین ‘ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی (توتی اکلھا کل حسین) اور فرمایا ” چھ ماہ “ پھر یہ آیت تلاوت کی (لیسجننہ حتی حین۔ اسے ایک مدت کے لئے قید کردیں) اور فرمایا : ” تیرہ سال “ پھر یہ آیت تلاوت کی (ولتعلمن نباہ بعد حین “ اور تمہیں ضرور اس کی خبر ایک مدت کے بعد مل جائے گی) اور فرمایا ” قیامت کا دن، ہشام بن حسان نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے کہا : ان فعلت کذا وکذا الی حین فغلا مہ حسو “ اگر میں نے فلاں فلاں کام فلاں مدت تک کر لئے تو میرا غلام آزاد) وہ شخص حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس آ کر مسئلہ پوچھنے لگا۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا میں نے جواب میں کہا۔ ” حین یعنی مدت کی ایک قسم وہ ہے جس کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ قول باری ہے (وان ادری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الی حین۔ اور میں خبر نہیں رکھتا شاید کہ وہ تمہارے لئے امتحان ہی ہو اور ایک (خاص) وقت تک کے لئے فائدہ اٹھانا) اس لئے یہ شخص کھجور اتارنے کے وقت سے لے کر شگوفہ نکلنے تک فقرے میں ذکر کردہ کاموں سے باز رہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میرا یہ جواب حضرت عمر بن عبد العزیز کو بہت پسند آیا۔ عبد الرزاق نے معمر سے اور انہوں نے حسن سے قول باری (توتلی اکلھا کل حین) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” چھ یا سات ماہ کے مابین “۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ’ حین ‘ کے لفظ کا اطلاق وقت مبہم پر ہوتا ہے لیکن اس سے ایک مقرر وقت مراد لینا بھی درست ہے۔ قول باری ہے (فسبحن اللہ حین تمسون وحین تصبحون۔ اللہ کی تسبیح ہے جب تم شام کرو اور جب صبح کرو) پھر فرمایا (وحین تظھرون۔ اور جب تم دوپہر کرو) یہاں یہ لفظ نماز فجر، ظہر اور مغرب کے اوقات پر محمول ہے اگرچہ اس میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے بھی ہے۔ یہاں لفظ ’ حین ‘ سے ان اوقات میں فرض نمازوں کی ادائیگی مراد ہے اس لئے یہاں یہ لفظ ان نمازوں کے اوقات کے لئے اسم بن گیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس سے لفظ ’ حین ‘ کی تفسیر میں ” صبح اور شام “ کی جو روایت منقول ہے اس میں آپ کا ذہن اس قول باری کی طرف گیا ہے (حین تمسون وحین تصبحون) بعض دفعہ ’ حین ‘ کے لفظ کا اطلاق کر کے اس سے کم سے کم وقت مراد لیا جاتا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (وسوف یعلمون حین یدون العذاب۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے) یہاں یہ لفظ دیکھنے کے وقت پر محمول ہے۔ دیکھ لینے کا وقت انتہائی مختصر ہوتا ہے اس میں کوئی امتداد نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ اس لفظ کا اطلاق کر کے چالیس سال کی مدت مراد ہوتی ہے اس لئے کہ قول باری (ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا۔ بیشک انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہیں تھا) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے چالیس سال مراد ہے۔ آیت زیر بحث کی تفسیر کے سلسلے میں ہم نے سلف سے ایک سال، چھ ماہ، تیرہ سال اور دو ماہ کے جو اقوال نقل کئے ہیں ان سب کا احتمال موجود ہے، جب بات اس طرح ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ ’ حین ‘ ایک ایسا اسم ہے جس کا اطلاق متکم کے حسب منشا وقت مبہم پر، کم سے کم وقت پر اور مقررہ مدت پر ہوتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ قسم کھا بیٹھے کہ وہ فلاں شخص سے گفتگو نہیں کرے گا، اس کی مدت اس نے اسی لفظ ’ حین ‘ سے مقرر کی ہو تو اس صورت میں اس قسم کو چھ ماہ کی مدت پر محمول کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بات تو واضح ہے کہ قسم کھانے والے نے یہ لفظ کہہ کر کم سے کم وقت مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ عام حالات میں لوگ کم سے کم مدت کے قلیل وقت کے لئے قسم نہیں کھاتے، نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ قسم کھانے والے نے اس سے چالیس برس کی مدت مراد نہیں لی ہے اس لئے کہ جو شخص چالیس برس کی مدت کے لئے ایک قسم کھائے گا وہ گویا ہمیشہ کے لئے قسم کھائے گا اور اس میں وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ پھر قول باری (ترتی اکلھا کل حین باذن ربھا) کی تفسیر میں مدت کے بارے میں سلف کے مابین اختلاف رائے پایا گیا جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں تو اس میں کم سے کم وقت چھ ماہ کا عرصہ ہوگا اس لئے کہ کھجور کی فصل کی کٹائی سے لے کر نئے شگوفے نکلنے کے وقت تک کی مدت چھ ماہ ہوتی ہے۔ ایک سال کی مدت کے اعتبار سے چھ ماہ کی مدت کا اعتبار اولیٰ ہے اس لئے کہ پھل لگے رہنے کی مدت ایک سال تک نہیں پھیلتی بلکہ یہ مدت منقطع ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اس میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ لیکن اگر ہم چھ ماہ کی مدت کا اعتبار کریں گے تو یہ ظاہر لفظ کے موافق ہوگا یعنی کھجور کا درخت چھ ماہ پھل دیتا ہے اور چھ ماہ پھل کے بغیر رہتا ہے۔ جن حضرات نے آیت کی تفسیر میں دو ماہ کا اعتبار کیا ہے ان کا یہ اعتبار کوئی معنی نہیں رکھتا سا لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کھجور کی فصل کی کٹائی سے لے کر نئے شگوفے نکلنے تک کی مدت دو ماہ سے زائد ہوتی ہے، اگر ان حضرات نے درخت پر پھل کا دو ماہ تک باقی رہنے کا اعتبار کیا ہے تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ شگوفے نکلنے کے وقت سے کھجور اتارنے کے وقت تک کا عرصہ بھی دو ماہ سے زائد ہوتا ہے۔ جب ایک سال نیز چھ ماہ کی مدتوں کا ان وجوہات کی بنا پر اعتبار باطل ہوگیا جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چھ ماہ کی مدت کا اعتبار ہی اولیٰ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا) اس درخت کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے جمی ہوئی ہیں اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اس کا پھل بھی متواتر آ رہا ہے۔ (وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَال للنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ) کوئی بھلائی کا کام ہو نیکی کی دعوت ہو راہ حق کی کوئی تحریک ہو جس نے بھی ایسی کسی نیکی کی ابتدا کی اس نے گویا اپنے لیے ایک بہت عمدہ پھلدار درخت لگا لیا۔ یہ درخت جب تک باقی رہے گا اپنے اثرات وثمرات سے نہ معلوم کس کس کو فیض یاب کرے گا۔ جیسے کسی نے بھلائی کی دعوت دی اور اس دعوت کو کچھ لوگوں نے قبول کیا انہوں نے اس دعوت کو مزید آگے پھیلایا یوں اس نیکی کا حلقہ اثر وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا اور نہ معلوم مستقبل میں ایسے نیک اثرات مزید کہاں کہاں تک پہنچیں گے۔ حضرت جریر بن عبداللہ بن جابر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : (مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْءٌ‘ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّءَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْءٌ ) (١) ” جس کسی نے اسلام میں کسی نیک کام کا آغاز کیا تو اس کے لیے اس کام کا اجر بھی ہوگا اور بعد میں جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی اس کو ملے گا ‘ لیکن ان کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اور جس کسی نے اسلام میں کسی بری شے کا آغاز کیا تو اس پر اس کا گناہ بھی ہوگا اور بعد میں جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر ڈالا جائے گا مگر ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. That is, the pure word is so fruitful that every person (or community) who bases his system of life on it, gets benefit from it every moment for it helps to produce clearness in thought, balance in temperament, strength in character, purity in morals, firmness in conduct, righteousness in talk, straightforwardness in conversation, good temperament in social behavior, nobility in culture, justice and equity in economy, honesty in politics, nobility in war, sincerity in peace; confidence in promises and pledges. In short, it is the elixir that changes everything into gold if one makes the proper use of it. 2

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :36 یعنی وہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص یا قوم اسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے ، اس کو ہر آن اس کے مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں ۔ وہ فکر میں سلجھاؤ ، طبیعت میں سلامت ، مزاج میں اعتدال ، سیرت میں مضبوطی ، اخلاق میں پاکیزگی ، روح میں لطافت ، جسم میں طہارت و نظافت ، برتاؤ میں خوشگواری ، معاملات میں راست بازی ، کلام میں صداقت شعاری ، قول و قرار میں پختگی ، معاشرت میں حسن سلوک ، تہذیب میں فضیلت ، تمدن میں توازن ، معیشت میں عدل و مواساۃ ، سیاست میں دیانت ، جنگ میں شرافت ، صلح میں خلوص اور عہدوپیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے ، وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کر لے تو کندن بن جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: یعنی یہ درخت سدا بہار ہے، اس پر کبھی خزاں طاری نہیں ہوتی، اور وہ ہرحال میں پھل دیتا ہے۔ اگر اس سے مراد کھجور کا درخت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کا پھل سارا سال کھایا جاتا ہے، نیز جس زمانے میں بظاہر اس پر پھل نہیں ہوتا، اس زمانے میں بھی اُس سے مختلف فائدے حاصل کئے جاتے ہیں۔ کبھی اُس سے نیرا نکال کر پیا جاتا ہے، کبھی اُس کے تنے کا گودا نکال کر کھایا جاتا ہے، اور کبھی اُس کے پتوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ اِسی طرح جب کوئی شخص توحید کے کلمے پر ایمان لے آتا ہے تو چاہے خوش حال ہو یا تنگدست، عیش وآرام میں ہو یا تکلیفوں میں، ہرحال میں اُس کے اِیمان کی بدولت اُس کے اعمال نامے میں نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اُس کے ثواب میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، جو درحقیقت توحید کے کلمے کا پھل ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:25) تؤ تی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ ضمیر فاعل شجرۃ کی طرف راجع ہے۔ وہ دیتی ہے ۔ وہ لاتی ہے۔ یعنی وہ درخت دیتا ہے یا لاتا ہے۔ اکلھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ اکل ۔ میوہ۔ پھل۔ خوراک۔ اکل یا کل سے اکل واکل۔ جو چیز کھائی جائے۔ اسے اکل کہتے ہیں۔ اکلھا۔ اس درخت کا پھل۔ یتذکرون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ خوب سمجھ لیں۔ وہ نصیحت پکڑیں۔ تذکر تفعل مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ اس طرح کلمہ طیبہ بھی مومن کو ہر آن بہشت کے میوے کھلائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح اس درکت کے پتے نہیں گرتے اسی طرح مومن کی دعا بھی ضائع نہیں جاتی۔ (قرطبی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی خوب پھلتا ہے کوئی فصل ماری نہ جاتی ہو اسی طرح کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کی ایک جڑ ہے یعنی اعتقاد جو مومن کے قلب میں استحکام کے ساتھ جانگیر ہے اور اس کی کچھ شاخیں ہیں یعنی اعمال صالحہ جو ایمان پر مرتب ہوتے ہیں جو بارگاہ قبولیت میں آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں پھر ان پر رضائے دائمی کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کلمہ طیبہ کے بعد کلمہ خبیثہ کی مثال۔ کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ ہے۔ جس طرح کلمہ طیبہ کے دنیاو آخرت میں فوائد وثمرات ہیں۔ اسی طرح دنیا اور آخرت میں کلمہ خبیثہ کے مضمرات اور نقصانات ہیں۔ اگر تعمق نگاہی کے ساتھ دیکھا جائے تو عقیدہ کا سب سے پہلا اثر انسان کی سوچ پر پڑتا ہے۔ اگر عقیدہ ٹھیک ہے تو اس کی سوچ مثبت اور ٹھیک ہوگی، اگر عقیدہ غلط ہے تو اس کی سوچ بھی منفی اور غلط ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں سوچ تبدیل ہوگی تو انسان تبدیل ہوگا۔ انسان تبدیل ہوگا تو پورا نظام تبدیل ہوگا۔ اس لیے دین سب سے زیادہ زورعقیدہ کی درستگی پر دیتا ہے، جسے قرآن و حدیث کی زبان میں ایمان کہا گیا ہے۔ ایمان کو درست رکھنے اور اس کو مضبوط کرنے کے لیے ارکان اسلام مقرر کیے گئے ہیں۔ ان کی ادائیگی سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ایمان کی مضبوطی سے کردار میں نکھار اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کلمہ طیبہ کے ثمرات کے ذکر کے بعد کلمہ خبیثہ کی بات کی ہے۔ اگر عقیدہ باطل ہے تو سوچ بھی غلط اور باطل ہوگی، جب سوچ غلط ہوگی تو عمل لامحالہ غلط ہوگا۔ جس طرح اچھے بیج سے اچھا درخت اور اس سے میٹھا پھل حاصل ہوتا ہے، اسی طرح برے بیچ سے ناقص درخت پیدا ہوگا، اس کا پھل کڑوا اور بےفائدہ ہوگا، یہ ایسادرخت ہے جس کی نہ جڑیں مضبوط ہیں اور نہ ہی اس کا تنا۔ یہی باطل عقیدہ اور برے عمل کی مثال ہے۔ بیشک دیکھنے میں کتنا اچھا لگتا ہو، اس کا نتیجہ دنیا میں بھی برا ہوگا۔ آخرت میں تو ہر صورت اس کا انجام برا ہوگا۔ یہی اچھے اور برے عقیدہ کی مثال ہے۔ جیسے ایک پاکیزہ اور خبیثہ شجر کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ ذات کبریا کا خوف اور آخرت کا ڈر اٹھ جائے تو انسان درندہ بن جاتا ہے۔ ذات اقدس کی حیا نہ رہے تو انسان سے ہر برائی کی توقع ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید کھلے الفاظ میں بتلا رہا ہے کہ برائی کو قرار حاصل نہیں بشرطیکہ حق میں آگے بڑھنے کی ہمت ہو کیونکہ حق میں یہ خصوصیت ہے کہ اسے قرار اور ثبات ہے اور باطل میں یہ قوت اور صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ (وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا )[ بنی اسرائیل : ٨١] ” اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا بیشک باطل نابود ہونے والا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہے تو بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی انسان دین اسلام پر قائم اور اپنے رب پر راضی رہے گا۔ اگر عقیدہ یعنی ایمان کمزور ہے تو چھوٹی سی آزمائش اور معمولی نقصان کے اندیشہ سے انسان دین کے اصول کو چھوڑ دے گا۔ جیسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے : ” اور جو شخص اپنا چہرہ اللہ کی طرف سپرد کردے اور وہ نیکی کرنے والا ہو تو یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو اچھی طرح پکڑ لیا۔ تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔ “ (لقمان : ٢٢) برے عمل اور بری سوچ کا برا نتیجہ : (وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ الْاُوْلٰی اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِءْتَ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء الباب الأخیر ] ” حضرت عبداللہ مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ لوگوں نے پہلے انبیاء کے کلام میں سے جو بھی پایا ہے ‘ اس میں یہ بات ہے کہ جب تجھ میں شرم نہیں تو جو چاہے کرتا رہ۔ “ مسائل ١۔ برے عقیدے کی مثال اس درخت کی سی ہے جس کا پھل کڑوا ہے۔ ٢۔ جس طرح زمین میں گہری جڑیں نہ رکھنے والا درخت قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح کمزور عقیدہ شخص آزمائش کے وقت دین پر قائم نہیں رہتا۔ تفسیر بالقرآن کفر و شرک کی مثال : ١۔ کفرو شرک کی مثال اس درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر ہی اوپر کھڑا ہو۔ (ابراہیم : ٢٦) ٢۔ اے لوگو ! تمہارے لیے مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : ٧٣) ٣۔ کفار کے اعمال کی مثال تیز آندھی کی سی ہے جس طرح تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے ایسے ہی کفار کے اعمال غارت ہوجائیں گے۔ (ابراہیم : ١٨) ٤۔ کفار کا حال تو اس شخص کا سا ہے جو ایسے جانور کے پیچھے چلا آرہا ہے جو پکارنے اور بلانے کے باوجود کچھ سنتا نہیں۔ (البقرۃ : ١٧١) ٥۔ حق کے فوائد ہمیشہ رہنے والے ہیں اور باطل مٹنے والا ہے۔ (الرعد : ١٧) ٦۔ اس کی مثال کتے کی سی ہے اگر حملہ کرو تو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے اور اگر چھوڑدو پھر بھی وہی حالت۔ (الاعراف : ١٧٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو قول ثابت پر ثابت رکھتا ہے تیسری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو قول ثابت (پکی بات یعنی لا الہ الا اللہ) پر دنیا میں بھی ثابت رکھتا ہے اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں کلمہ ایمان پر جمانے اور مضبوط رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین کے بہکانے اور گمراہ کرنے کا اہل ایمان پر اثر نہیں ہوتا مومن بندہ آخر دم تک ایمان پر جما ہوا رہتا ہے اور آخرت میں کلمہ ایمان پر جما رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ قبر میں منکر نکیر کے سوال پر مومنانہ جواب دلوا دیتا ہے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان آدمی سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیدیتا ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ) میں اسی کو بیان فرمایا (رواہ البخاری)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 ۔ وہ درخت اپنے رب کے حکم سے ہر فضل کے موقعہ پر اپنا پھل لاتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اس لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تا کہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں اور مقصود کو ذہن نشین کرسکیں اور سوچیں اور غور کریں ۔ یعنی کلمہ توحید کی ایک جڑ ہے جو مومن کے قلب میں مضبوط اور خوب جمی ہوئی ہے اور اس درخت کی شاخیں ہیں یعنی مومن کے اعمال صالحہ جو آسمان تک پہنچتے ہیں اور ان اعمال صالحہ سے فوز و صلاح الٰہی کے ثمرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مثال بیان کرنے سے مطلب آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے اور وہ مطلب اوقع فی النفس ہوتا ہے۔