Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 3

سورة إبراهيم

الَّذِیۡنَ یَسۡتَحِبُّوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۳﴾

The ones who prefer the worldly life over the Hereafter and avert [people] from the way of Allah , seeking to make it ( seem ) deviant. Those are in extreme error.

جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الاخِرَةِ ... Those who prefer the life of this world to the Hereafter, Allah described the disbelievers as preferring the life of the present world to the Hereafter, coveting the former life and working hard for its sake. They have forgotten the Hereafter and abandoned it behind their backs, ... وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ ... and hinder (men) from the path of Allah, from following the Messengers, ... وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ... and seek crookedness therein, they seek to make Allah's path crooked, even though it is straight itself and does not deviate on account of those who defy or betray it. When the disbelievers do this, they become engulfed in ignorance and misguidance far away from truth, and therefore, there is no hope that they will gain guidance and correctness while on this state. ... أُوْلَـيِكَ فِي ضَلَلٍ بَعِيدٍ they are far astray.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے میں میکھ نکالتے اور انھیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ 3۔ 2 اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] قرآن کی رو سے کافر کون کون ہیں ؟ یعنی جن کی تمام تر کوششیں دنیوی مفادات اور ان کے حصول میں لگی ہوئی ہیں آخرت کی انھیں کچھ فکر نہیں۔ وہ دنیا کے لئے آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کو تو قربان کرنے پر تیار ہیں لیکن آخرت کی فلاح و نجات حاصل کرنے کی خاطر اس دنیا کا کوئی نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پھر ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی انھیں دنیوی مفادات کی ترغیب دے کر اللہ کی راہ کی طرف نہ آنے دیں یا راہ حق کی طرف چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے اور انھیں اپنے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا اسی قرآن میں سے گمراہی کی راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کافروں کو تباہ کن عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ [ ٣] اللہ کی راہ میں کجی کی صورتیں :۔ یہ خطاب سب کے لیے عام ہے خواہ کافر ہوں یا مسلم۔ ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا حکم اپنی مرضی کے مطابق ہو اسے تو تسلیم کرلیا جائے اور جو مرضی کے مطابق نہ ہو اسے یا تو چھوڑ دیا جائے یا اس کا انکار کردیا جائے اور یا اس کی تاویل کرکے اللہ کے حکم کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جائے اور اس ٹیڑھ کو اختیار کرنے کے عام طور پر دو ہی سبب ہوتے ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسرے موجودہ زمانہ کے نظریات سے مرعوبیت۔ اور اس مرض کا شکار عوام سے زیادہ علمائے سوء ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر اوقات گمراہی کی اس انتہاء کو جا پہنچتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ : ” يَسْتَحِبُّوْنَ “ سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی اللہ تعالیٰ کو تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کو محبوب رکھنا ہی پسند نہیں جبکہ یہ کفار آخرت کے مقابلے میں دنیا کو بہت زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دنیا کی چیزوں سے محبت اس وقت بربادی کا باعث ہے جب وہ اللہ کی محبت کے مقابلے میں غالب ہو، ورنہ دنیا سے فائدہ مومن کے لیے بھی جائز ہے، بلکہ اللہ کی محبت کے تحت اور اس کے احکام کے تحت اپنے بیوی بچوں، دوستوں اور مال وغیرہ سے محبت فطری چیز ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے اجر ملتا ہے۔ اس کے برعکس رہبانیت اس فطرت سے جنگ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ کی راہ جو بالکل سیدھی اور بےعیب ہے، کافر اس میں عیب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ٹیڑھی بتاتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اس کے اختیار کرنے سے باز رکھ سکیں۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, in verse 3, it was said: الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَ‌ةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ To those who prefer the worldly life to the Hereafter and pre-vent (people) from the way of Allah, and seek crookedness in it. Those are far away in straying. This verse identifies the three states in which the deniers of the Qur&an are found among disbelievers. These are their distinct traits of charac¬ter. Firstly, they prefer their life in the present world to the life they are to have in the Hereafter. Therefore, they would tolerate any loss coming to them in the Hereafter for the sake of worldly gain or comfort. Given here is a hint towards the diagnosis of their disease - their chronic denial of the truth. Why is it that these people, despite that they have seen the all too manifest miracles of the Holy Qur’ an, still remain hostile and ne¬gative towards it? The reason is that their lust for life in the present world has blinded them. They are unable to visualize what would matter most in their life in the Hereafter. Therefore, they are quite content with the darkness they are in, and towards light they do not care to come. As for their second trait, it has been said that they certainly like to stay within the many layers of darkness they have chosen for them-selves after all. But, they inflict injustice upon injustice when, in order to conceal their error, they would prevent others too from taking to the Broadway of light, that is, the way of Allah. Identifying Some Errors in the Understanding of Qur&an Their third trait appears in: يَبْغُونَهَا عِوَجًا (seek crookedness in it). It can have two meanings. Firstly, they are always looking out for an opportu¬nity, mean at heart and evil in deed as they are, to seek and find, if they can, some crookedness or fault in the otherwise radiant and straight path of Allah, whereby they might have an occasion to raise an objection or throw a taunt. This is the meaning given by Ibn Kathir. And this sentence could also mean that these people are always try¬ing to find out something about the way of Allah, that is, about the Qur&an and Sunnah, which could be in line with their ideas and wishes so that they can present it in support of the truth of their position. This meaning has been given in Tafsir al-Qurtubi. A fairly large number of ed-ucated people these days are involved in this sort of activity. They would come up with the framework of an idea, either as an outcome of their own error, or under the influence of some other nation. Then, they would go about looking for its supporting evidences from the Qur’ an and Sun¬nah. And if they happen to come across some word supposedly in sup-port of that idea of theirs, they would take it to be a Qur&anic proof in their favour - although, this method is wrong in principle because it is the duty of a true believer that he should first unburden his or her mind from personal ideas and wishes and then consult the Book of Allah and the Sunnah of His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Whatever stands proved clearly there from should, for him or her, become the personal creed. In the last sentence of verse أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (Those are far away in straying), described there is the sad end of the disbelievers whose three traits have been mentioned above. The substance of the statement is that these people have strayed out too far, so much so that now it is diffi¬cult for them to return to the right path. Points of Guidance According to Tafsir al-Qurtubi, though, in this verse, these three traits have been clearly identified with disbelievers and that they are far away in straying has been mentioned as their sad end, but, in terms of the principle involved here, any Muslim who has these three traits pre-sent in him, he too shall be deserving of this warning. The gist of these three traits is given below: 1. To keep the love for worldly life on top of the concern for the Here-after to the limit that one starts avoiding exposure to the light of faith. 2. To prevent people from the way of Allah so that they too will join hands with them. To try to misread and misinterpret the Qur&an and Sunnah in order to apply them to fit into personal ideas and wishes. May Allah protect us from it.

(آیت) الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ اس آیت میں منکریں قرآن کافروں کے تین حال بتلائے گئے ہیں ایک یہ کہ وہ دنیا کی زندگی کو بہ نسبت آخرت کے زیادہ پسند کرتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں اسی لئے دنیا کے نفع یا آرام کی خاطر آخرت کا نقصان کرنا گوارا کرلیتے ہیں اس میں ان کے مرض کی تشخیص کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کے واضح معجزات دیکھنے کے باوجود اس سے منکر کیوں ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کو دنیا کی موجودہ زندگی کی محبت نے آخرت کے معاملات سے اندھا کر رکھا ہے اس لئے ان کو اپنی اندہیری ہی پسند ہے روشنی کی طرف آنے سے کوئی رغبت نہیں۔ دوسری خصلت ان کی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ خود تو اندہیریوں میں رہنے کو پسند کرتے ہی ہیں اس پر ظلم یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو بھی روشنی کی شاہراہ یعنی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ قرآن فہمی میں بعض غلطیوں کی نشاندہی : تیسری خصلت وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا میں بیان کی گئی ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہ لوگ اپنی بدباطنی اور بدعملی کے سبب اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے روشن اور سیدھے راستہ میں کوئی کجی اور خرابی نظر آئے تو ان کو اعتراض اور طعن کا موقع ملے ابن کثیر نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔ اور اس جملہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے راستے یعنی قرآن وسنت میں کوئی چیز ان کے خیالات اور خواہشات کے موافق مل جائے تو اس کو اپنی حقانیت کے استدلال میں پیش کریں تفسیر قرطبی میں اسی معنی کو اختیار کیا گیا ہے جیسے آج کل بیشمار اہل علم اس میں مبتلا ہیں کہ اپنے دل میں ایک خیال کبھی اپنی غلطی سے کبھی کسی دوسری قوم سے متاثر ہو کر گھڑ لیتے ہیں پھر قرآن و حدیث میں اس کے مؤ یدات تلاش کرتے ہیں اور کہیں کوئی الفظ اس خیال کی موافقت میں نظر پڑگیا تو اس کو اپنے حق میں قرآنی دلیل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ کار اصولا ہی غلط ہے کیونکہ مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے خیالات و خواہشات سے خالی الذہن ہو کر کتاب وسنت کو دیکھے جو کچھ ان سے واضح طور پر ثابت ہوجائے اسی کو اپنا مسلک قرار دے۔ (آیت) اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ اس جملہ میں ان کفار کا انجام بد بیان کیا گیا ہے جن کی تین صفتیں اوپر بیان ہوئی ہیں اور حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی گمراہی میں بڑی دور جا پہنچے ہیں کہ اب ان کا راہ پر آنا مشکل ہے۔ احکام و مسائل : تفسیر قرطبی میں ہے کہ اگرچہ اس آیت میں صراحۃ یہ تین خصلتیں کفار کی بیان کی گئی ہیں اور انہی کا یہ انجام ذکر کیا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں دور چلے گئے ہیں لیکن اصول کی رو سے جس مسلمان میں بھی یہ تین خصلتیں موجود ہوں وہ بھی اس وعید کا مستحق ہے ان تین خصلتوں کا خلاصہ یہ ہے ١ دنیا کی محبت کو آخرت پر غالب رکھیں یہاں تک کہ دین کی روشنی میں نہ آئیں۔ ٢ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شریک رکھنے کے لئے اللہ کے راستہ سے روکیں۔ ٣ قرآن وسنت کو ہیر پھیر کر کے اپنے خیالات پر منطبق کرنے کی کوشش کریں۔ نعوذ باللہ منہ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ ۝ استحباب وحقیقة الاستحباب : أن يتحرّى الإنسان في الشیء أن يحبّه، واقتضی تعدیته ب ( علی) معنی الإيثار، وعلی هذا قوله تعالی: وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت/ 17] میں ایسا معنی تلاش کرنے کے ہیں جس کی بناء پر اس سے محبت کی جائے مگر یہ ان علی ( صلہ ) کی وجہ سے اس میں ایثار اور ترجیح کے معنی پیدا ہوگئے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت/ 17] کے معنی بھی یہ ہیں کہ انہوں نے اندھا پن کو ہدایت پہ ترجیح دی ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ عوج الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال : عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، ( ع و ج ) العوج ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) اور لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکتے ہیں اور اس میں خمیدگی کے متلاشی رہتے ہیں یہ کفار حق اور ہدایت سے دور اور کھلی گمراہی میں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ) یہ آیت ہم سب کو دعوت دیتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی ترجیحات کا تجزیہ کرے کہ اس کی مہلت زندگی کے اوقات کار کی تقسیم کیا ہے ؟ اس کی بہترین صلاحیتیں کہاں کھپ رہی ہیں ؟ اور اس نے اپنی زندگی کا بنیادی نصب العین کس رخ پر متعین کر رکھا ہے ؟ پھر اپنی مشغولیات میں سے دنیا اور آخرت کے حصے الگ الگ کر کے دیکھے کہ دنیوی زندگی (مَتاع الغُرُوْر) کو سمیٹنے کی اس بھاگ دوڑ میں سے اصل اور حقیقی زندگی (خَیْرٌ وَّاَبْقٰی) کے لیے اس کے دامن میں کیا کچھ بچتا ہے ؟ (وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ ) اللہ کے راستے سے روکنے کی مثالیں آج بھی آپ کو قدم قدم پر ملیں گی۔ مثلاً ایک نوجوان کو اگر اللہ کی طرف سے دین کا شعور اور متاع ہدایت نصیب ہوئی ہے اور وہ اپنی زندگی کو اسی رخ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے والدین اور دوست احباب اس کو سمجھانے لگتے ہیں ‘ کہ تم اپنے کیرئیر کو دیکھو ‘ اپنے مستقبل کی فکر کرو ‘ یہ تمہارے دماغ میں کیا فتور آگیا ہے ؟ غرض وہ کسی نہ کسی طرح سے اسے قائل کر کے اپنے اسی رستے پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر وہ خود اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3. Those who reject the truth are the people whose interests are entirely bound with the life of this world, and who do not care at all for the interests of the life of the Hereafter: who are prepared to undergo any punishment in the next world for the sake of the interests, pleasures and comforts of this world: who, on the other hand, cannot bear the sacrifice of even the smallest pleasure in this world, nor are ready to bear any loss or encounter danger or trouble in this world for the sake of the joys of the next world. In short, such are the people who have coolly considered and weighed the pleasures of this world against the joys of the next world, and decided in favor of this world: therefore, they readily sacrifice the interest of the next world whenever there is a clash between the two. 4. That is, "They do not want to follow the Way of Allah, but endeavor that Allah's Way should follow their desires: it should adjust itself in such a way as to include all their conjectures, theories and whims as its part and parcel, and exclude every creed that does not suit their way of life: it should provide sanction for all their habits, customs and manners: it should not demand from them anything which they do not like: in short, the way of Allah should be their obedient slave and turn in the direction their devilish lusts want it to turn: nay, it should neither criticize them nor ask them to follow Allah’s injunctions. This is their condition for accepting the guidance of Allah.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :3 یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے ، آخرت کی پروا نہیں ہے ۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں ، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان ، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کر سکتے ۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کر لیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرا ئے گا وہاں اسے قربان کرتے چلے جائیں گے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :4 یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین ان کی مرضی کا تابع ہوکر رہے ۔ ان کے ہر خیال ، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظام فکر میں نہ رہنے دے جو ان کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو ۔ ان کی ہر رسم ، ہر عادت ، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا ان سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو ۔ وہ ان کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطان نفس کے اتباع میں مڑیں ادھر وہ بھی جائے ، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے ۔ وہ اللہ کی بات صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: اِس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ اسلام میں کوئی نہ کوئی عیب تلاش کرتے رہتے ہیں، تاکہ انہیں اعتراض کا موقع ملے، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں جب کوئی بات ان کے خیالات اور خواہشات کے مطابق مل جائے تو اُس کو اپنے باطل نظریات کی تائید میں پیش کریں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی اللہ کی راہ جو بالکل سیدھی اور بےعیب ہے۔ کافر اس میں عیب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ٹیڑھی بتاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کے اختیار کرنے سے باز رکھ سکیں۔ (از ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی ایسے شبہات جن کے ذریعے سے دوسروں کو گمراہ کرسکیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا انکار اور لوگوں کے صراط مستقیم سے انحراف کی بڑی وجہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا ہے۔ جو لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی عیش و عشرت کو ترجیح دیتے ہیں وہی لوگ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بننے کے ساتھ اس میں کج روی تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ گمراہی میں بہت دور نکل جاتے ہیں۔ ان کا صراط مستقیم کی طرف پلٹنا نہایت ہی مشکل ہے۔ قرآن مجید انسان کو دنیا سے لاتعلقی کا حکم نہیں دیتا اس کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر انسان آخرت کو مقدم رکھنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے اس کے مقابلے میں آخرت اور اس کی نعمتیں مستقل اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ آخرت کو مقدم رکھنے والا ہر وقت اپنا احتساب کرتا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ لوگ آخرت کی بجائے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں جو شخص دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے اس میں بیک وقت جو کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایسا شخص نہ صرف اپنے قول وفعل سے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ وہ اس قدر گمراہ ہوجاتا ہے اور دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے علماء سوء اور دنیا پرست لوگوں کا کردار ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ معاشرے میں جتنی بےپردگی، بےحیائی اور بےدینی پھیلتی ہے اس کا موجدکافی حد تک وہ طبقہ ہے جو آزادی کی آڑ میں نئے سے نیا فیشن اور آزادی کے نام پر اسلام کی من مانی کی تاویلیں کرتا ہے۔ یہ طبقہ ہر معاملہ میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ لوگ خود گمراہ ہونے کے ساتھ شعوری اور غیر شعوری طور پر معاشرے کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں بعض لوگ بالخصوص حکمران طبقہ مذہی لوگوں کی ہمدریاں حاصل کرنے کے لیے دین کے نام پر ہی بدعت، رسومات پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کام کے لیے علماء سوء ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے علما کے ذہن میں بھی دنیا پرستی کا عنصر ہی غالب ہوا کرتا ہے۔ جس کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں نشاندہی کی ہے ” اے ایمان والو ! علماء اور درویشوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں اذیت ناک عذاب کی خوشخبری دیجئے۔ قیامت کے دن سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں، کروٹوں اور پشتوں کو داغتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا اور اپنے جمع شدہ مال کی سزا پاتے رہو۔ (التوبۃ : ٣٥) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَٓا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ایک مربع شکل کا خط کھینچا۔ اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ خطوط کھینچے۔ ایک درمیان سے باہر نکلنے والا خط کھینچا اور فرمایا ‘ یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ جو خط باہر نکل رہے ہیں ‘ وہ انسان اس کی خواہشات ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے خطوط آفات اور بیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو دوسری اسے آلے گی۔ اگر یہ بھی اس سے خطا کر جائے ‘ تو تیسری آفت اسے اپنا نشانہ بنالے گی۔ “ مسائل ١۔ کافر آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو پسند کرتے ہیں۔ ٢۔ دنیا پرست لوگ قولاً اور عملاً لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن دین کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا انجام : ١۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : ٣) ٢۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بیشک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : ١٠٧) ٤۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کی صفات : پھر کافروں کی تین صفات بیان فرمائیں اور وہ یہ ہیں کہ (الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ ) (اور یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا والی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور آخرت کے مقابلہ میں اسے ترجیح دیتے ہیں) ان کا یہ دنیا سے محبت کرنا اور آخرت کو نظر انداز کرنا ان کے کفر پر جمے رہنے کا باعث بنا ہوا ہے ‘ ان کی دوسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (یعنی وہ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں) نہ خود ایمان لاتے ہیں نہ دوسروں کو ایمان لانے دیتے ہیں۔ تیسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ یَبْغُوْنَھَا عِوَجًا) (کہ اللہ کی راہ میں کجی تلاش کرتے ہیں) یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے دین میں کوئی عیب نکالیں اور اس پر اعتراض کریں۔ ان لوگوں کی یہ حرکتیں بیان فرمایا کر ارشاد فرمایا (اُولٰٓءِکَ فِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍ ) کہ یہ لوگ دور کی گمراہی میں ہیں راہ حق کا انکار کر کے ہدایت سے دور پہنچ چکے ہیں۔ قال صاحب الروح والمراد انھم قد ضلوا عن الحق ووقعوا عنہ بمراحل۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ یہ ان منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے جو امم سابقہ کے انجام بد سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں اور دین اسلام اور مسئلہ توحید میں طرح طرح کے شبہات نکال کر لوگوں کو اس سے بد راہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والے مولوی اور پیر بھی اس وعید شدید میں داخل ہیں۔ جو اپنی خواہشات فاسدہ اور اغراض خبیثہ کی خاطر شریعت کے احکام کی من مانی تعبیریں کرتے ہیں۔ علامہ قرطبی نے اس آیت کے تحت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث نقل کی ہے ” ان اخوف ما اخاف علی امتی الائمۃ المضلین “ یعنی مجھے اپنی امت کے لیے سب سے بڑا خطرہ گمراہ کرنے والے پیشواؤں کا ہے۔ اور ” یَبْغُوْنَھَا عِوَجًا “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ” ای یطلبون لھا زیغا و میلا لموا فقۃ اھوائہم و قضاء حاجاتہم و اغراضہم “ (قرطبی ج 9 ص 340) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 ۔ کافر وہ ہیں جو آخرت کے مقابلہ میں دنیوی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکتے اور خدا کی راہ میں کجی اور عیب کے متلاشی رہتے ہیں یہ لوگ ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو راہ حق سے بہت دور ہے۔ کافروں کی تین باتیں فرمائیں آخرت پر چونکہ ایمان نہیں اس لئے اس کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلنے سے لوگوں کو بہکاتے ہیں اور دھمکیاں دیکر روکتے ہیں اور اس راہ کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں یعنی نہ خود اسلام قبول کرتے ہیں نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں۔