Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 32

سورة إبراهيم

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الۡفُلۡکَ لِتَجۡرِیَ فِی الۡبَحۡرِ بِاَمۡرِہٖ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الۡاَنۡہٰرَ ﴿ۚ۳۲﴾

It is Allah who created the heavens and the earth and sent down rain from the sky and produced thereby some fruits as provision for you and subjected for you the ships to sail through the sea by His command and subjected for you the rivers.

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لئے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں ۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Describing Some of Allah's Tremendous Favors Allah says; اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الاَنْهَارَ Allah is He Who has created the heavens and the earth and sends down water (rain) from the sk... y, and thereby brought forth fruits as provision for you; and He has made the ships to be of service to you, that they may sail through the sea by His command; and He has made rivers (also) to be of service to you. Allah mentions some of the favors He has done for His creatures, such as creating the heavens as a protective ceiling and the earth as a bed. He also sends down rain from the sky and, in its aftermath brings forth a variety of vegetation, fruits and plants of different colors, shapes, tastes, scents and uses. Allah also made the ships sail on the surface of the water by His command and He made the sea able to carry these ships in order that travelers can transfer from one area to another to transport goods. Allah also created the rivers that flow through the earth from one area to another as provision for the servants which they use to drink and irrigate, and for other benefits,   Show more

سب کچھ تمہارا مطیع ہے اللہ کی طرح طرح کی بیشمار نعمتوں کو دیکھو ۔ آسمان کو اس نے ایک محفوظ چھت بنا رکھا ہے زمین کو بہترین فرش بنا رکھا ہے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے مزے مزے کے پھل کھیتیاں باغات تیار کر دیتا ہے ۔ اسی کے حکم سے کشتیاں پانی کے اوپر تیرتی پھرتی ہیں کہ تمہیں ایک کنارے سے دوسرے ک... نارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائیں تم وہاں کا مال یہاں ، یہاں کا وہاں لے جاؤ ، لے آؤ ، نفع حاصل کرو ، تجربہ بڑھاؤ ۔ نہریں بھی اسی نے تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں ، تم ان کا پانی پیو ، پلاؤ ، اس سے کھیتیاں کرو ، نہاؤ دھوؤ اور طرح طرح کے فائدے حاصل کرو ۔ ہمیشہ چلتے پھرتے اور کبھی نہ تھکتے سورج چاند بھی تمہارے فائدے کے کاموں میں مشغول ہیں مقرر چال پر مقرر جگہ پر گردش میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ ان میں تکرار ہو نہ آگا پیچھا ، دن رات انہی کے آنے جانے سے پے درپے آتے جاتے رہتے ہیں ستارے اسی کے حکم کے ماتحت ہیں اور رب العالمین بابرکت ہے ۔ کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے ، ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے ، وہ اللہ عزیز و غفار ہے ۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لئے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے ، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں ، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بےمانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا ۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ تو ادا کرو گے ؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ۔ طلق بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کر سکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کر سکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ تیرے ہی لئے سب حمد و ثنا سزا وار ہے ، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں ، پوری اور بےپرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما ۔ بزار میں آپ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن انسان کے تین دیوان نکلیں گے ایک میں نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی اور دوسرے میں گناہ ہوں گے ، تیسرے میں اللہ کی نعمتیں ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں میں سے سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا کہ اٹھ اور اپنا معاوضہ اس کے نیک اعمال سے لے لے ، اس سے اس کے سارے ہی عمل ختم ہو جائیں گے پھر بھی وہ یکسو ہو کر کہے گی کہ باری تعالیٰ میری پوری قیمت وصول نہیں ہوئی خیال کیجئے ابھی گناہوں کا دیوان یونہی الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔ اگر بندے پر اللہ کا ارادہ رحم و کرم کا ہوا تو اب وہ اس کی نیکیاں بڑھا دے گا اور اس کے گناہوں سے تجاوز کر لے گا اور اس سے فرما دے گا کہ میں نے اپنی نعمتیں تجھے بغیر بدلے کے بخش دیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے جواب ملا کہ داؤد اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تو نے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شرک بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کر سکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر پھر نعمت ملی ، جس کا شکریہ واجب ہوا ۔ ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے کہ رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بیشمار ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پر جو انعامات کئے ہیں، ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا آسمان کو چھت اور زمین کو بچھونا بنایا۔ آسمان سے بارش نازل فرما کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں جن میں ذائقہ اور قوت کے لئے میوے اور فروٹ بھی ہیں اور انواع و اقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں ب... ھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے اور خوشبو اور فوائد بھی مختلف ہیں۔ کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگا دیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کردیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] اللہ کی نعمتوں کی ناشکری :۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر ان کی زندگی ممکن ہی نہ تھی۔ مثلاً زمین اور آسمان پیدا کیے۔ زمین اس کائنات میں بنی نوع انسان کا مسکن ہے پھر زمین و آسمان میں ہواؤں اور بادلوں کا نظام جاری کیا تاکہ اس ... زمین میں بارش برسے اور انسانوں اور دوسرے جانوروں کو خوراک مہیا ہوسکے اور وہ زندہ رہ سکیں۔ اگر بارش کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو انسان کو نہ کچھ پینے کو ملے اور نہ کھانے کو۔ پھر دودھ اور سواری کے لیے چوپائے بنائے اور بحری سفر کے لئے کشتیاں۔ اگر کشی کی ساخت میں چند مخصوص طبعی قوانین سے مدد نہ لی جاتی تو انسان کبھی بحری سفر کر ہی نہ سکتا۔ پانی بھی طبعی قوانین کا پابند ہے جس کی وجہ سے انسان دریاؤں سے بڑی بڑی نہریں پھر چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر اپنے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ پھر انسان کو کام کاج کے لیے روشنی کی اور کھیتوں کے پکنے کے لیے حرارت کی ضرورت تھی اس کے لیے سورج کو پیدا کیا۔ رات کو چاند روشنی مہیا کرتا ہے اور پھلوں میں چاند جب زائد النور ہوتا ہے رس تیزی سے بڑھنے لگتا ہے پھر سورج سے دن اور رات پیدا ہوتے ہیں۔ دن کام کاج کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی۔ اور ان تمام چیزوں کو اس طرح انسان کی خدمت پر لگا دیا کہ ان کے کام میں ذرہ بھر تاخیر، کمی یا کوتاہی واقع نہیں ہوتی۔ غرض انسانی زندگی کی جتنی بھی ضروریات اور مطلوبہ چیزیں تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے اسے فراہم کردیں پھر عقل و شعور بخش کر اسے تمام مخلوقات سے افضل و اشرف بنادیا۔ اور اگر نعمتوں کی جزئیات پر نظر ڈالی جائے تو انسان انھیں شمار کرنے سے عاجز ہے۔ پھر انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کا کیا جواب دیا ؟ یہ کہ بعض لوگوں نے تو اس کی ذات ہی سے انکار کردیا اور جنہوں نے مانا ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی رہی جو نعمتیں تو اللہ کی استعمال کرتے رہے اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے دوسروں کو پکارتے رہے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی بےانصافی اور احسان ناشناسی کی بات ہوسکتی ہے ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : یعنی وہ اللہ جس کی ناشکری پر تم کمربستہ ہو، جس کی اطاعت اور بندگی سے روگردانی کر رہے ہو اور جس کے ساتھ بلادلیل شریک بنا رہے ہو، وہ تو وہ ذات ہے۔۔ اس کے بعد ان تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی دس نعمتیں شمار کی گئی ہیں اور آخر میں بتایا گیا ہے کہ اللہ ... تعالیٰ کی تمام نعمتیں شمار کرنے کی تم میں طاقت ہی نہیں۔ الْفُلْكَ : واحد جمع ایک ہی طرح ہے، بڑی کشتیاں، بحری جہاز۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ : ” الْاَنْهٰرَ “ ” نَھْرٌ“ کی جمع ہے، ندی، نالے اور دریا۔ تم ان سے اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہو اور ان میں جہاز اور کشتیاں چلاتے ہو، مچھلیاں پکڑتے ہو، بجلی پیدا کرتے ہو، ان کے کناروں پر پہاڑوں میں راستے بناتے ہیں، غرض بیشمار فائدے اٹھاتے ہو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that it was said that Allah Ta’ ala has subjugated boats and ships to work for you for they move over the waters with His command. The word: سَخِّرَ (sakhkhara) appearing in this verse means that Allah Ta` ala has made the use of these things easy on you. Of course, there is wood and steel and the instrumentation and technology to build boats and ships, but when it comes to having the intell... igence and ability to use them correctly and expertly, it must be admitted that they were all given by Him. Therefore, those who feel proud of having invented, manufac-tured or produced things like that should better think twice and feel shy of ascribing all credit of such innovations to themselves. The simple rea¬son is that things used in this process are things none of which was created by them, nor they could. How can someone who works with wood, iron, copper and things like that, utilizes them to serve his end product and then goes about declaring himself as its inventor? Otherwise, if we were to look at hard reality, it will not be difficult to realize that this very existence of ours, our hands and feet, our mind and our in-telligence are not what we have made or invented.  Show more

پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی کشتیوں اور جہازوں کو تمہارے کام میں لگا دیا کہ وہ اللہ کے حکم سے دریاؤں میں چلتے پھرتے ہیں لفظ سخر جو اس آیت میں آیا ہے اس سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کا استعمال تمہارے لئے آسان کردیا ہے لکڑی لوہا اور ان سے کشتی جہاز بنانے کے اوزار وآلات اور ان سے صحیح ... کام لینے کی عقل و دانش یہ سب چیزیں اسی کی دی ہوئی ہیں اس لئے ان چیزوں کے موجد اس پر ناز نہ کریں کہ یہ ہم نے ایجاد کی یا بنائی ہے کیونکہ جن چیزوں سے ان میں کام لیا گیا ہے ان میں کوئی چیز بھی نہ تم نے پیدا کی ہے نہ کرسکتے ہو خالق کائنات کی بنائی ہوئی لکڑی لوہے، تانبے اور پیتل ہی میں تصرفات کر کے یہ ایجاد کا سہرا آپ نے اپنے سر لیا ہے ورنہ حقیقت دیکھو تو خود آپ کا اپنا وجود اپنے ہاتھ پاؤں، اپنا دماغ اور عقل بھی تو آپ کی بنائی ہوئی نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ 32؀ۚ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللا... م، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) اب اللہ تعالیٰ توحید کو بیان فرماتا ہے کہ اس ذات نے بارش برسا کر ہر قسم کے پھل اور چارہ تمہاری روزی اور تمہارے جانوروں کے کھانے کیلیے پیدا کیا اور تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کردیا کہ وہ اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ سے دریا میں چلے اور تمہارے نفع کے لیے چاند وسورج کو مسخر بنایا اور رات دن کو مسخر ... بنایا کہ جہاں چاہو تم نہریں لے جاؤ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. That is, it is the same Allah Whose bounties they are repaying with ingratitude and disobedience and with Whom they are setting up equals even though He has been so bountiful to them.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :43 یعنی وہ اللہ جس کی نعمت کا کفران کیا جا رہا ہے ، جس کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا جا رہا ہے ، جس کے ساتھ زبردستی کے شریک ٹھیرائے جا رہے ہیں ، وہ وہی تو ہے جس کے یہ اور یہ احسانات ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٣٤۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے اپنے بندوں پر جو احسان کئے ہیں ان کا حال بیان فرمایا کہ ہم نے آسمان و زمین کو تمہارے فائدہ کے لئے بنایا اور آسمان سے مینہ برسایا جس کی وجہ سے طرح طرح کے پھل درختوں میں لگتے ہیں اور ہزاروں قسم کے غلے پیدا ہوتے ہیں جس پر انسان کی زندگی کا دارو مدار ہے اور کشتیاں انسان ... کے قبضہ میں کردیں دریا کو بس میں کردیا تاکہ لوگ کشتیوں پر سوار ہو کر دریا کی راہ سے جہاں جی چاہے جائیں یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں لے جایا لے آیا کریں تجارت سے نفع اٹھائیں اور اس کے علاوہ دریا سے کھیتیوں اور باغوں کو سیراب کریں اس کا پانی خود بھی پیویں اور اپنے جانوروں کو بھی پلائیں سورج چاند کو تمہارا محکوم بنا دیا رات دن گردش میں رہتے ہیں ان کی روشنی سے رات دن برابر فائدہ اٹھایا جاتا ہے سورج کی چال سے موسمی فصلیں گرمی جاڑہ برسات ہوا کرتی ہیں چاند کے دورہ سے مہینوں اور سال کا شمار ہوتا ہے رات اور دن بھی تمہارے ہی تابع ہیں دن کو اپنے کام دھندے کے لئے ادھر ادھر جایا کرتے ہو رات کے وقت تھکے ماندے آکر آرام کرتے ہو پھر ان نعمتوں کو بیان کر کے یہ فرمایا کہ بس اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تمہاری ہر ایک خواہش کو بھی پورا کیا اس لئے اگر خدا کی نعمتیں شمار کی جائیں تو گنتی میں نہیں آسکتیں اس قدر بےحدو بےحساب ہیں کہ انسان کو خود بھی نہیں معلوم کہ رات دن میں کیا کیا نعمت ملتی رہتی ہے اک ذرا سی بات ہے کہ انسان کے سانس کا آنا جانا ہی غور کیا جائے تو بہت بڑی نعمت ہے اگر سانس اندر نہ جائے تو دم گھٹنے لگتا ہے اور اندر جا کر پھر اوپر کو نہ آئے تو آدمی ہلاک ہوجائے یہ خدا ہی کا کام ہے روز خبر نہیں کتنی دفعہ سانس اندر باہر آیا جایا کرتا ہے۔ انسان کے سونے کے وقت بھی اس کی آمدو رفت کا سلسلہ بند نہیں ہوتا اور اس سے مردے اور زندہ میں تمیز کی جاتی ہے غرض کہ ہر سانس میں خدا کی دو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں سانس کے اندر جانے سے زندگی کی امید بندھتی ہے اور پھر اسی سانس کے باہر آنے جانے سے طبیعت بشاش ہوجاتی ہے اگر شکر بھی کوئی کرے تو کتنا کرے گا ایک سانس میں ایک شکر کرسکتا ہے اور اتنی دیر میں نعمتیں دو حاصل ہوتی ہیں اس لئے اس کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں اور اس کا شکر کسی طرح بھی نہیں ادا ہوسکتا اسی واسطے اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ انسان ناشکرا ہے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کہاں تک ادا کرے گا وہ تو الٹی ناشکری کرنے لگتا ہے ان آیتوں میں مشرکین مکہ کو یوں قائل کیا گیا ہے کہ جس اللہ نے ان کو ان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پر پیدا کیا کہ جس میں اس کا کوئی شریک نہیں تو پھر اس کی تعظیم اور عبادت میں یہ مشرک لوگ دوسروں کو جو شریک کرتے ہیں تو ان کی ناشکری سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ناشکری نہیں ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گزر چکی ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا تو اس کی تعظیم اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرنا ایسا بڑا گناہ ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں { لظلوم کفار } اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا اپنی ہی جان پر یہ ظلم کیا کہ ایسی بڑی ناشکری کے بڑے گناہ میں قیامت کے دن پکڑے جاویں گے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:33) دائبین۔ پھرنے والے۔ ایک دستور پر چلنے والے۔ اسم فاعل تثنیہ مذکر۔ الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں۔ جیسے دأب فی السیر دأبا۔ وہ مسلسل چلا۔ نیز دأب کا لفظ عادت مستمرّہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے قرآن مجید میں ہے کداب ال فرعون (3:11) ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی ان کی سی عادت جس پر وہ ہ... میشہ چلتے رہے ہیں۔ سخرلکم الشمس والقمر دائبین۔ اس نے سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا کہ وہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی وہ اللہ جس کی ناشکری پر تم کمربستہ ہو، جس کی اطاعت اور بندگی سے روگردانی کر رہے ہو اور جس کے ساتھ بلا دلیل شرک بنا رہے ہو اس کے احسانات پر غور کرو۔ وہ تو وہ ذات ہے… 2 ۔ تم ان سے اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہو اور ان میں جہاز اور کشتیاں چلاتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 32 تا 34 انزل اس نے اتارا، نازل کیا۔ اخرج نکالا۔ الثمرات (ثمرۃ) ، (پھل، سبزہ، سبزی) رزق کھانے کو۔ سخر مسخر کردیا، حکم کے تابع کردیا ۔ الفلک کشتی، جہاز دائبین ہمیشہ کام میں لگے رہنے والے ۔ اتکم اس نے تمہیں دیا۔ سالتموہ تم نے اس سے مانگا۔ تعدوا تم گننا چاہو۔ تم شمار کرنا چاہو۔ لات... حصوا تم شمار نہ کرسکو گے۔ ظلوم بہت ظالم تشریح : آیت نمبر 32 تا 34 جیسا کہ گزشتہ آیات میں فرمایا گیا تھا کہ انسانی زندگی اور اس کی بقا و سلامتی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ اللہ نے ایک نعمت کے طور پر اس کائنات میں بکھیر دی ہیں۔ جن پر ہر انسان کو اللہ کا شکر ادا ا کرنا چاہئے مگر انسان ہر آن اپنی پریشانیوں کے گلے شکوے ہی کرتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ بلندیوں سے پانی برسایا جس کے ذریعے اس نے زمین پر ہر طرح کے ثمرات (سبزی ، سبزی، پھل وغیرہ) کو پیدا کیا۔ اس اللہ نے عظیم الشان سمندروں اور دریاؤں کو اس طرح مسخر اور اپنے حکم کے تابع کردیا کہ وہ بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز انسانی نفع اور تجارت کے سامان کو ایک کنارے سے دور سے کنارے تک پہنچاتے ہیں۔ اس نے چاند اور سورج کو ای طرح پابند کردیا ہے کہ وہ ایک خاص حساب اور طریقے سے روزانہ نکلتے اور ڈوبتے ہیں۔ انسانی گھڑیاں بند ہو سکتی ہیں ان کا وقت اور حساب غلط ہو سکتا ہے مگر ہزاروں سال سے چمکتے ہوئے سورج اور چمکتے چاند کے حساب اور وقت میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے نکلنے اور ڈوبنے سے رات اور دن بنتے ہیں۔ انسان رات کو آرام کر کے تازہ دم ہوجاتا ہے اور سارے دن اپنی روزی کماتا ہے۔ فرمایا کہ وہ کونسی نعمت ہے جو اللہ نے تمہیں عطا نہیں کی۔ اگر تم ان کو شمار کرنا چاہا تو شمار نہیں کرسکتے لیکن ان نعمتوں کے باوجود انسان ناشکری اور زیادتیاں کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس اللہ کی عبادت اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اس کی صفات یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو صرف حکم دیتا کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور میری عبادت کرو۔ اس نے حکم دینے کی بجائے اپنی ذات پر ایمان لانے اور اپنی عبادت کے استحقاق کے بیشمار دلائل دیے ہیں۔ جس میں ی... ہ ثابت کیا گیا ہے کہ اے لوگو ! اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہارے کھانے پینے کے لیے انواع و اقسام کے پھل پیدا کیے۔ بس اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ تم جانتے ہو زمین و آسمان کو بنانے اور تمہارے رزق کا بندوبست کرنے میں کوئی دوسرا اللہ کے ساتھ شامل نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢١) یہاں جسمانی اور مالی عبادت کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے آٹھ دلائل دیئے ہیں۔ ١۔ اللہ ہی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی پانی کے ساتھ مختلف قسم کے پھل پیدا کرتے ہوئے لوگوں کے لیے رزق مہیا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی نے جہازوں اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا جو اس کے حکم سے سمندر میں رواں دواں ہیں۔ ٥۔ اللہ ہی نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کیا۔ ٦۔ اللہ ہی نے چاند اور سورج کو مسخر فرمایا جو تمہاری خدمت کرنے کے لیے لگاتار ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔ ٧۔ اللہ ہی نے رات اور دن کو تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیا۔ رات آرام اور دن کام کاج کے لیے ہے۔ ٨۔ اللہ ہی تمہیں عطا کرتا ہے جو تم اس سے مانگتے ہو۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی عنایات کو شمار کرنا چاہو تو تم شمار نہیں کرسکتے، ہر چیز مسخر کرنے اور سب کچھ عنایت کرنے کے باوجود انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک کرکے زیادتی اور اس کی ناشکری کرتے ہیں۔ قرآن مجید کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لیل ونہار، شمس وقمر، دریاؤں، کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ : (وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ )[ الجاثیۃ : ١٣] ” زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے اللہ نے اسے انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اس میں عبرت آموزی کے لیے بڑے دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔ “ تسخیر کائنات کے دلائل دینے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تقدیس وتحمید بیان کرنے کے علاوہ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے، اے انسان ! تجھے زیادتی اور ناقدری کرنے کی بجائے اپنے خالق ومالک کا تابع فرمان ہونا اور اس کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے مگر انسانوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ بغاوت اور سرکشی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کچھ ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرتے ہیں اور کچھ اس کی ذات اور صفات میں غیروں کو شریک کرتے ہیں، جو پرلے درجے کا ظلم اور ناقدری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ناقدری کا یوں شکوہ کیا ہے۔ (وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْأَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌمبِیَمِینِہٖ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ )[ الزمر : ٦٧] ” لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں جانی، جس طرح قدر کرنے کا حق تھا حالانکہ قیامت کے دن زمین و آسمان اس کی مٹھی میں ہوں گے، وہ پاک اور بالا تر ہے ان سے جن کو لوگ اس کا شریک بناتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ٢۔ آسمانوں سے اللہ تعالیٰ پانی نازل فرماتا ہے۔ ٣۔ پانی سے پھل پیدا کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٤۔ کشتیاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسخر ہیں۔ ٍٍ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نہروں کو مسخر کردیا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سورج، چاند، دن اور رات کو مسخر کیا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہی عطا کرنے والا ہے۔ ٨۔ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتا۔ ٩۔ انسان اللہ تعالیٰ کی نا شکری کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن تسخیر کائنات : ١۔ اللہ نے کشتیوں، نہروں، چاند، سورج، دن اور رات کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ (ابراہیم : ٣٢۔ ٣٣) ٢۔ اللہ نے تمہارے لیے رات اور دن، چاند اور سورج کو مسخر کردیا ہے۔ (النحل : ١٢) ٣۔ اللہ نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم تازہ گوشت حاصل کرسکو۔ (النحل : ١٤) ٤۔ اللہ نے تمہارے لیے چاند اور سورج کو مسخر کردیا ہے ہر ایک اپنے وقت پر آتا ہے۔ (لقمان : ٢٩) ٥۔ اللہ عرش پر مستوی ہے اور اس نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ (الرعد : ٢) ٦۔ اللہ نے سورج اور چاند کو مسخر فرمایا ہے دونوں اپنے وقت مقررہ میں چلتے ہیں۔ (الزمر : ٥) ٧۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کردیا تاکہ اس میں اللہ کے حکم سے کشتیاں رواں دواں ہوں۔ (الجاثیۃ : ١٢) ٨۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمہارے لیے جو کچھ زمین میں ہے مسخر کردیا ہے۔ (الحج : ٦٥) ٩۔ اللہ نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے مسخر کردیا ہے۔ (الجاثیۃ : ١٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٢ تا ٣٤ یہ ایک زبردست تنقیدی حملہ ہے ، انسانی شعور پر کوڑے برسائے جا رہے ہیں۔ زمین و آسمان کے بڑے بڑے اجرام و پہاڑ ، شمس و قمر ، گردش لیل ونہار ، بارشیں اور پھل ، یہ سب کوڑے اور سنگ باری کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں اس ظالم انسان کے شعور کے لئے سخت کاٹ بھی ہے اور پر محبت اور پرسوز آواز بھی ہ... ے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل فکر کے لئے اس کتاب کے معجزات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اس کائنات کے مناظر اور نفس انسانی کی الجھنوں کو عقیدۂ توحید کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ کتاب اس کائنات کے مناظر میں سے ہر منظر اور ہر چمک کو ایک اشاراتی رنگ دیتی ہے۔ اسی طرح انسانی نفس کے تصورات اور اشراقات میں سے ہر اشراق سے اشارات اخذ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یوں یہ کتاب اس پوری کائنات کو اللہ کے نشانات اور دلائل کی نمائش گاہ بنا دیتی ہے ، جس میں دست قدرت کے عجائبات جگہ جگہ سجے ہوئے ہیں۔ ہر منظر اور ہر سٹال پر قدرت الہٰیہ کے عجائبات کے طومار لگے ہوئے ہیں۔ ہر تصور اور ہر رنگ اور ہر سایہ میں قدرت ہی قدرت نظر آتی ہے۔ قرآن کریم وجود باری کے مسئلہ پر منطقی مناظرہ نہیں شروع کرتا جس میں ۔۔۔۔۔ کے لاہوتی اور ناسوتی مباحث ہوں۔ فلسفیانہ ، مجرد ، مردہ ، خشک مباحث ، جن میں قلب انسانی کے لئے کچھ تروتازگی نہیں ہوتی بلکہ نفس انسانی پر یہ مباحث بوجھ ہوتی ہے۔ قرآن کریم اس مسئلہ کو نہایت موثر ، اشاراتی انداز دیتا ہے اور کائنات کے مناظر ، عجائبات ، فطری دلچسپ اور بدیبیات کے ذریعہ نہایت ہی خوبصورت انداز میں اور نہایت منطقی ترتیب سے اسے پیش کرتا ہے۔ یہ عظیم اور بھر پور منظر ہے ، جس کے مناظر اس لائن پر چلتے ہیں جس میں ، اللہ کے بندوں پر اس کے انعامات و اکرامات دکھائے گئے ہیں۔ دست قدرت کی کاری گری کے عجیب نمونے ہیں۔ اس لائن پر پہلے زمین و آسمان کے وسیع فاصلے اور لاتعداد عجائبات آتے ہیں۔ پھر بارشوں کے مناظر اور ان کے نتائج نباتات اور پھول پھل آتے ہیں ، اور یہ سب کچھ زمین پر پانی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، پھر اس راہ میں ہمارے سامنے سمندروں کے نظارے آتے ہیں جس میں کشتیاں اور جہاز چلتے ہیں جو لوگوں کی ضروریات اٹھائے ہوئے ہیں ، پھر ہمارے سامنے ایک نیا نظارہ آتا ہے جو شمس و قمر اور زمین سے متعلق ہے جس میں ان کی گردش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گردش لیل و نہار کے مناظر اور پھر ان تمام انعامات کی ایک مجموعی جھلک جس میں انسان کی ہر ضرورت اور خواہش اور ان کے پورے ہونے کی جھلک دکھالی گئی ہے۔ واتکم من کل ۔۔۔۔۔۔۔ لا تحصوھا (١٤ : ٣٤) ” جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا “ ۔ اب سوال یہ کیا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے بعد بھی تم اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہو۔ تمہارا اندازہ اور فیصلہ کس قدر ظالمانہ ہے کہ تم اللہ کی مخلوقات میں سے زمین و آسمان کی ایک ادنیٰ مخلوق کو پوجتے ہو۔ وانزل من السماء ۔۔۔۔۔ رزقا لکم (١٤ : ٣٢) ” اور جس نے آسمانوں سے پانی برسایا ، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح طرح کے پھل پیدا کئے “۔ زراعت تو انسانی رزق کا سب سے بڑا اور پہلا ذریعہ ہے ، اور تمام ظاہری انعامات کا تعلق زراعت سے ہے۔ بارش اور اس کے نتیجے میں نباتات کا پیدا ہونا اس قانون فطرت کے تابع ہے جو اللہ نے اس کرۂ ارض پر جاری کیا ہے۔ یہ قانون قدرت بارشیں برساتا ہے ، نباتات اگاتا ہے اور پھر اس سے مختلف قسم کے پھل تیار ہوتے ہیں اور یہ سب موافقات اور سہولیات انسان کے لئے ہیں۔ رزق کے ایک دانے کی تشکیل اور فراہمی کے اندر کسی قدر عوامل کام کرتے ہیں ، مثلاً زمین ، پانی ، سورج کی شعاعیں اور ہوا۔ لوگ لفظ رزق سن کر صرف مال و دولت کی آخری شکل کو ذہن میں لاتے ہیں حالانکہ انسانی رزق کے دائرے میں بہت سی چیزیں آتی ہیں اور رزق کا مکمل نظام بہت ہی گہرا ہے ۔ اس کرۂ ارض پر انسانی زندگی کے قیام کے لئے کم از کم جس چیز کی ضرورت ہے اس کی فراہمی کے لئے یہ کائنات بڑے بڑے اجرام فلکی کو حرکت دے رہی ہے۔ اس کے اندر ایک نہایت گہرا قانون قدرت کام کرتا ہے اور ہزارہا سہولیات اور موافقات فراہم ہوتے ہیں جو باہم ہمقدم ہو کر کام کرتے ہیں۔ تب جا کر انسان کی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے کم سے کم معیار پورا ہوتا ہے۔ اگر ان موافقات میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو اس حضرت انسان کا زندہ رہنا ہی محال ہوجائے اور اس کا وجود ہی نہ ہو۔ اس آیت میں جن اجرام کی حرکت اور خدمت کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ انسان کے رزق کے اسباب فراہم کرتے ہیں ، یہ کافی و شافی ہے اور یہ تمام دست قدرت کے ہیں۔ وسخرلکم الفلک اتجری فی البحر بامرہ (١٤ : ٣٢) ” اور جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے “۔ کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے عناصر میں یہ خواص رکھے جن کی وجہ سے کشتی پانیوں پر چلتی ہے اور انسان کو ایسے عقلی خواص دئیے جس نے یہ باتیں معلوم کیں۔ یہ سب کام انسان اللہ کے امر سے کرسکتا ہے۔ وسخر لکم الانھر (١٤ : ٣٢) ” اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا “۔ ان دریاؤں کے بہایا ، ان کے نتیجے میں زندگی کے دریا بہنے لگے اور انسانوں کے لئے خیر کے سوتے پھوٹ پڑے۔ پھر ان دریاؤں میں مچھلیاں اور بھلائی کی دوسری اشیاء ، یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیں۔ پرندے ہیں یا چرندے ہیں ، انسان ان سے استفادہ کرتا ہے۔ وسخر لکم الشمس والقمر دائبین (١٤ : ٣٣) ” اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں “ ۔ انسان براہ راست شمس و قمر سے استفادہ تو نہیں کرسکتا جس طرح پانی ، فصلوں اور پھلوں سے ، سمندروں اور کشتیوں اور نہروں اور دریاؤں سے براہ راست کرتا ہے لیکن شمس قمر کے آثار انسان کے لئے مفید ہیں۔ ان سے انسان زندگی کا مواد لیتا ہے اور قوت حاصل کرتا ہے کیونکہ ان کو اللہ نے ایسے قانون قدرت کا پابند کردیا ہے کہ یہ مسلسل انسان کے لئے اس کی ضرورت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کی ضروریات اور جسم انسانی کے خلیے سورج کی ان شعاعوں سے ترکیب ، تجدید اور تغیر پاتے ہیں۔ وسخرلکم الیل والنھار (١٤ : ٣٣) ” اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا “۔ ان کو اللہ نے انسانی ضرورت کے مطابق بنایا ، گردش لیل و نہار کا موجودہ نظام اس کرۂ ارض پر حیات انسانی کے لئے اور اس کی سرگرمیوں کے لئے از بس ضروری ہے۔ اگر یہاں ہمیشہ دن ہوتا یا ہمیشہ رات ہوتی تو انسان سرے سے زندہ ہی نہ رہ سکتا۔ زمین کا یہ ماحول اس کے لئے ناسازگار ہوجاتا ، یہ زندگی ، یہ ترقیات اور یہ پیدا وار مشکل بن جاتی۔ اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات کی تو یہ صرف آؤٹ لائن ہیں۔ ان خطوط کے اندر انعامات الٰہی کے جو نکات ہیں ، اگر ایک ایک نکتے پر بحث کی جائے تو مستقل کتاب بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ ان کو اجمالاً سمیٹ لیتے ہیں۔ ایک اصولی بات۔ واتکم من کل ما سالتموہ ” جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا “۔ مال ، اولاد ، صحت ، سازو سامان وغیرہ وغیرہ۔ وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا (١٤ : ٣٤) ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے “۔ یہ اس قدر زیادہ ہیں کہ انسانوں کی ایک عظیم جماعت بھی انہیں گن نہیں سکتی۔ بلکہ تمام انسان لگ جائیں تو بھی نہیں گن سکتے ۔ اس لیے کہ انسان زمان و مکان کے اندر محدد ہے ، اس کا علم محدود ہے ، اس کے علم کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے اور زمان و مکان کے درمیان محدودبھی ہے جبکہ اللہ کے انعامات اس قدر زیادہ ہیں کہ انسان کے دائرہ علم و ادراک سے وراء ہیں۔ ان سب حقائق کے بعد بھی ، اے لوگو ، تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو ، اور یہ سب کچھ جانتے ہوئے تم اللہ کے انعامات کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ شکر کے بجائے تم کفر کرتے ہو ، حق ہے : ان الانسان لظلوم کفار (١٤ : ٣٤) ” حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے “۔ جب انسانی ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور اپنے اردگرد کائنات کو چشم بینا سے دیکھنے لگتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ یہ پوری کائنات اس کے لئے مسخر کردی گئی ہے ۔ یا تو براہ راست اس کے کنٹرول میں ہے یا اس طرح کہ اللہ کے جاری کردہ ناموس قدرت کی رو سے یہ انسان کے لئے کام کر رہی ہے اور انسان کی ضروریات فراہم کر رہی ہے۔ جب اس طرح انسان اپنے ماحول پر غور کرتا ہے تو وہ اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ اللہ کے رحم و کرم کی وجہ سے یہ پورا ماحول انسان کا دوست ہے ، انسان کا مددگار ہے ، اور اللہ نے اس کو انسان کے لئے نہایت ہی نرم اور مطیع فرمان بنا دیا ہے۔ پھر انسان کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ وہ سر اٹھا کر ذرا اپنے ماحول پر غوروفکر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو وہ کانپنے لگتا ہے۔ اللہ کا خوف کھاتا ہے۔ سجدہ ریز ہوجاتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اور پھر وہ خضوع و خشوع میں اس رب منعم کی طرف دیکھتا ہے۔ اگر وہ کسی مشکل میں ہو تو فراخی کی دعا کرتا ہے اور اگر وہ اللہ کی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہو تو یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ان نعمتوں کو محفوظ اور جاری رکھ۔ اور انسان ذاکر اور شاکر اور متدبر کا اعلیٰ نمونہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے ، جن کے نام سے یہ سورة معنون ہے اور یہی مناسبت ہے کہ اس سورة کے مضامین اور فضا بھی شکر اور ناشکری اور کفران نعمت کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے اعلیٰ کردار میں پیش کیا جاتا ہے جس میں وہ مجسمہ شکر ہیں۔ نہایت خشوع و خضوع کی حالت میں ہیں اور نہایت ہی نرم اور دھیمے زمزمہ میں دست بدعا ہیں۔ آپ کی دعاؤں اور شکر کا یہ زمزہ آسمان کی طرف نہایت ہی نرم اور باادب موجوں کی شکل میں بلند ہوتا ہے اور دور تک اس کی گونج آسمانوں میں غائب ہوجاتی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتوں کا بیان اور انسان کی ناشکری کا تذکرہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہٗ کی صفت خالقیت اور مالکیت بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا جو سب کی نظروں کے سامنے ہیں اور جن سے سب ہی مستفید ہوتے ہیں اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو...  پیدا فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوقات ہیں نظروں کے سامنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے خالق اور صانع ہونے پر دلالت کرتی ہیں دوم یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس کے ذریعہ پھل نکالے جو تمہارے لیے رزق ہیں پانی برسنا بھی اسی کے حکم سے اور پھلوں کا پیدا ہوجانا بھی اسی کے حکم سے ہے پھر ان پھلوں کا رزق بن جانا بھی اسی کے حکم سے ہے سوم یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر فرما دیا جو سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہیں، کشتی بنانے کی سمجھ دینا، پھر ان کو سمندروں میں چلانے کی سمجھ دینا، ان کے چلانے کے لیے ہوا یا ایندھن پیدا فرمانا اور ان کے استعمال کے طریقے بتانا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ یہ چھوٹی بڑی کشتیاں بڑے بڑے جہاز انسانوں کو اور ان کے اموال تجارت کو سینکڑوں میل دور منتقل کرتے ہیں اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم پہنچا دیتے ہیں۔ چہارم یہ فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے نہروں کو مسخر کیا کشتیوں کے بارے میں لفظ فِی الْبَحْرِ فرمایا کیونکہ بڑے بڑے جہاز ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچانے کے لیے شور پانی کے سمندر میں چلتے ہیں اور اس کے بعد نہروں کا ذکر فرمایا جن میں میٹھا پانی بہتا ہے بڑی نہروں سے چھوٹی نہریں نکلتی ہیں ان سب سے انسان اور مویشی پانی پیتے ہیں اور کھیتوں کی آب پاشی بھی ہوتی ہے اگر یہ میٹھے پانی کی نہریں نہ ہوتیں تو انسان کے لیے بڑی دشواری ہوتی اور کھیتوں کی آبپاشی کے لیے حیران و پریشان رہتے صرف بارش ہی کھیتوں کی آبپاشی کا ذریعہ بن سکتی تھی اب ہوتا یہ ہے کہ بارش نہ ہو یا کم ہو تو میٹھے پانی کی نہروں سے آبپاشی کا کام ہوجاتا ہے نیز ان نہروں میں بھی کشتیاں چلا کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے پہنچ جاتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں فراہم کرکے لے آتے ہیں پنجم یہ فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر فرما دیا دونوں چل رہے ہیں اور برابر حرکت میں ہیں سورج کے طلوع سے دن کا وجود ہوتا ہے نیز سورج کی روشنی اور گرمی سے کھیتیاں پکتی ہیں اور اس سے بجلی حاصل کی جاتی ہے اور بھی بہت سے فائدے ہیں جو ریسرچ کرنے والوں نے معلوم کرلیے ہیں۔ چاند کے طلوع ہونے اور گردش کرنے میں بھی بڑے بڑے فائدے ہیں۔ نئی ایجادات میں ان کا مظاہرہ ہوا ہے، رات کی اندھیری میں چاند کی روشنی سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں پرکیف دھیمی اور ٹھنڈی روشنی کیسی بھلی معلوم ہوتی ہے اہل تحقیق کا کہنا ہے کہ چاند کی روشنی کی وجہ سے پھل رنگ پکڑتے ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں، ششم یوں فرمایا کہ تمہارے لیے رات اور دن کو مسخر فرما دیا رات ہوجاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور دن جاتا ہے تو رات آجاتی ہے رات میں آرام ہے اور دن میں کام ہے، کبھی دن بڑا ہے کبھی رات بڑی، ان دونوں کے آگے پیچھے آنے جانے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اگر ہمیشہ دن ہی ہوتا تو دشواری ہوجاتی اور ہمیشہ رات ہی ہوتی تو مصیبت میں پڑجاتے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کے اوقات مقرر فرما دئیے انہیں کے مطابق کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 ۔ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان کی جانب سے پانی نازل فرمایا اور مینہ برسایا اور پھر اس پانی سے تمہارے لئے پھلوں سے رزق پیدا کیا اور تمہارے کھانے کے لئے پھل نکالے اور تمہارے نفع کے لئے کشتیوں کو تابع اور مسخر کردیا تا کہ وہ کشتیاں خدا تعالیٰ کے حکم سے دریا میں چ... لیں اور اس نے تمہارے نفع کے لئے دریا اور ندیاں مسخر فرمائیں اور تمہارے کام میں لگا دی ۔ یعنی آسمان سے پانی اتارا یا آسمان کی جانب سے اتارا اس کی مفصل بحث پہلے پارے میں گزر چکی ہے اور مفسرین کی رائے یہی ہے کہ غیر مرئی طریقہ پر آسمان سے پانی بادلوں پر اترتا ہے اور پھر بادلوں سے زمین پر اترتا ہے۔ کشتی اور نہریں قدرت خداوندی کی مسخر ہیں انسانی تسخیر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کشتی بناتا ہے اور ندی کی تسخیر کا مطلب یہ ہے کہ ندی سے پانی حاصل کرتا ہے دریائوں میں بندباندھتا ہے نہریں نکالتا ہے اسی لئے تسخیر کا ترجہ شاہ صاحب (رح) نے کام میں لگا دیا گیا ہے اور اس ترجمہ پر کوئی شبہ نہیں ہے ۔ انسانی منافع کے لئے جس قدر ضرورت تھی اس قدر منافع حاصل کرنے کا موقع دیا باقی حقیقی تسخیر اور پورا قابو قدرت ہی کو حاصل ہے۔  Show more