Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 36

سورة إبراهيم

رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضۡلَلۡنَ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۶﴾

My Lord, indeed they have led astray many among the people. So whoever follows me - then he is of me; and whoever disobeys me - indeed, You are [yet] Forgiving and Merciful.

اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو ، تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"O my Lord! They have indeed led astray many among mankind. But whoso follows me, he verily, is of me. And whoso disobeys me, still You are indeed Oft-Forgiving, Most Merciful. Ibrahim next mentioned that many among mankind were led astray because of idols, and he disowned those who worship them and referred their matter to Allah; if Allah wills, He will punish them, and if He wills,...  He will forgive them. Isa, peace be upon him, said similar words, إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ If You punish them, they are Your servants, and if You forgive them, verily, You, only You are the Almighty, the All-Wise. (5:118) This supplication refers this and all matters to Allah, not that it is actually going to happen. Abdullah bin Amr narrated that the Messenger of Allah recited Ibrahim's supplication, رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ... O my Lord! They have indeed led astray many among mankind., and the supplication of Isa, إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ If You punish them, they are Your servants. (5:118) then raised his hands and said, اللَّهُمَّ أُمَّتِي اللَّهُمَّ أُمَّتِي اللَّهُمَّ أُمَّتِي O Allah, Save my Ummah! O, Allah, Save my Ummah! O, Allah, Save my Ummah! and cried. Allah said to the angel Jibril, "O Jibril, go to Muhammad, and Your Lord has more knowledge, and ask him what makes him cry." Jibril came to the Prophet and asked him, and he repeated to him what he said (in his supplication). Allah said, "Go to Muhammad and tell him this; `We will make you pleased with your Ummah, O Muhammad, and will not treat them in a way you dislike."'   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۔۔ : صنم پرستی عام ہونے اور لوگوں کے بہت جلد اس میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہیں دو ہیں، ایک تو یہ کہ ان دیکھے معبود (اللہ تعالیٰ ) پر یقین رکھنے کے بجائے انسان چاہتا ہے کہ وہ ایسی چیز کی عبادت کرے جو اسے نظر آئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ ظاہر کوئی چ... یز نہیں، کیونکہ کائنات کی ہر چیز اپنے بنانے والے کے وجود اور توحید کی شہادت دے رہی ہے اور لطف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا یہ دعویٰ نہیں کہ یہ زمین و آسمان اور ساری کائنات میں نے بنائی ہے، اگر کوئی یہ دعویٰ کرلے تو ہر شخص اسے جھوٹا کہے گا، بلکہ خود اس کا دل اسے جھٹلائے گا کہ آسمان و زمین تو تجھ سے اور تیرے باپ دادا سے لاکھوں برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ اگرچہ ظاہر ہے مگر اس کی ذات سے زیادہ کوئی چیز آنکھوں سے غائب بھی نہیں، کیونکہ کسی میں اسے دیکھنے کی تاب ہی نہیں۔ [ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ] اس لیے وہ پہلا تقاضا ہی ایمان بالغیب کا کرتا ہے، کوئی اس کے دیدار کا شوق رکھے یا درخواست کرے، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تو وہ ناراض نہیں ہوتا بلکہ جنت میں اپنے دیدار کا وعدہ کرتا ہے، مگر کوئی ایمان لانے کے لیے دیکھنے کی شرط لگائے، جیسے بنی اسرائیل نے کہا : (لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ) [ البقرۃ : ٥٥ ] ”(اے موسیٰ ! ) ہم تیرے لیے ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک اللہ کو صاف سامنے نہ دیکھ لیں “ تو پھر اس کی آتش غضب بھڑک اٹھتی ہے، پھر کبھی تو وہ بجلی گرا کر بھسم کردیتا ہے اور اکثر کو اس نے مہلت دے رکھی ہے، قیامت کو انھیں ان کے مطالبے کا جواب دے گا۔ غرض یہی انسان کی بےوقوفی ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تو ایمان بالغیب کے بجائے نظر آنے والا رب گھڑ کر اس کی پوجا شروع کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا سبب محبت میں غلو بھی شامل ہوجاتا ہے، یعنی جس ہستی سے بھی اس کو حد سے زیادہ محبت ہوتی ہے، اسے نیک سمجھتا ہے یا اس کی ہیبت سے ڈرتا ہے، اس کا بت بنا کر اسے پوجنا شروع کردیتا ہے۔ قوم نوح میں صنم پرستی کی ابتدا اسی طرح ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نوح۔ بیشمار قوموں کے صنم پرستی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ابراہیم (علیہ السلام) کہہ رہے ہیں کہ اے پروردگار ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا، مراد یہ ہے کہ یہ ان کی گمراہی کا باعث بن گئے، جیسے کہتے ہیں کہ سڑک لاہور لے جاتی ہے، وہ تو صرف ذریعہ ہے، جانے والا جاتا تو خود ہے۔ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : یہاں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کے لیے بھی بخشش کی دعا کی، حالانکہ ان الفاظ سے یہ بات نہیں نکلتی، بلکہ صرف یہ بات نکلتی ہے کہ ان کا معاملہ تیرے سپرد ہے، تو چاہے تو بخش دے، چاہے تو عذاب دے اور ساتھ ہی عرض کی : ” پس بیشک تو غفور و رحیم ہے۔ “ بلا شبہ اس میں نہایت ادب، عجز اور سلیقے سے ایک قسم کی سفارش ہے، مگر اسے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا نہیں کہا جاسکتا، ہاں انھوں نے اپنے والد کے لیے وعدہ کی وجہ سے بخشش کی دعا کی تھی، پھر اللہ کا دشمن ثابت ہوجانے پر اس سے براءت کا اظہار فرما دیا۔ (دیکھیے توبہ : ١١٤) قرآن میں ابراہیم اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول دعاؤں میں ہر نافرمان کا معاملہ، خواہ مشرک ہو یا عام گناہ گار، اللہ کے سپرد کیا گیا ہے، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کے ذکر کے ساتھ ایک قسم کی سفارش کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہ ان دونوں پیغمبروں کی بیشمار تکلیفیں اٹھانے کے باوجود حد درجے کی نرم دلی ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا ہے : (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ المائدۃ : ١١٨ ] سورة مائدہ میں اس آیت کا ترجمہ اور ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے برعکس نوح (علیہ السلام) کی دعا تھی : (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ) [ نوح : ٢٦ ]” اے میرے رب ! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔ “ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا یہ تھی : (رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ) [ یونس : ٨٨ ] ” اے ہمارے رب ! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ “ ان دونوں نبیوں کی یہ دعائیں بھی بلاسبب نہ تھیں۔ نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بتادیا تھا کہ اب تمہاری قوم میں سے مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ ( دیکھیے ہود : ٣٦) اور فرعونیوں نے بہت سے معجزے دیکھ کر بھی کہہ دیا تھا کہ موسیٰ ! تم جو بھی معجزہ لے آؤ ہم کسی صورت تم پر ایمان لانے والے نہیں۔ ( دیکھیے الاعراف : ١٣٢) اب اگر وہ یہ دعا نہ کرتے تو کیا کرتے ؟ ایسے موقع پر تو ابراہیم (علیہ السلام) بھی اپنے والد سے صاف لاتعلق ہوگئے تھے، فرمایا : (فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ) [ التوبۃ : ١١٤ ] ” پس جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بیشک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےتعلق ہوگیا۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (36), he gives the reason for making this prayer. He said that he sought refuge from idol-worship because it has led many a people astray. He said so because he had seen his father and his peo¬ple falling victims to the custom of idol-worship which had left them de¬prived of all possibilities of betterment in their lives. In the closing sentence of the verse, it was said: فَمَ... ن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(So, the one who follows me is surely mine, and the one who disobeys me, then You are Most Forgiving, Very Merciful). It means that one who keeps faith and abides by good deeds could obviously hope to be blessed, but should there be someone who disobeys his prophet, then, his case rests with the forgiveness and mercy of Allah. If disobedi¬ence referred to here is taken to be restricted to evils deeds, a form of dis¬obedience to Allah in practice, then, the meaning is obvious, that is, they too could hope to be forgiven by His good grace. And if disobedience is taken to mean disbelief, denial and rejection, then, equally obvious is the fact that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had already been told that there was no forgiveness for the Kafir (disbeliever) and Mushrik (one who ascribes partners to Allah) and that he should not intercede on behalf of them. After that, expressing the hope of their forgiveness cannot be correct. Therefore, in Al-Bahr Al-Muhit, it was said: At this place, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has not used words which would suggest a recommenda¬tion or prayer. He did not say that they be forgiven. Nevertheless, he was a prophet with abounding mercy which encompasses his disbeliev¬ers too. Every prophet wishes from the deep recesses of his heart that no one should ever be subjected to Divine punishment, not even a disbeliev¬er. So, it was this elemental wish of his that he expressed when he said: &then You are Most Forgiving, Very Merciful.& He did not say precisely that they be forgiven and treated mercifully. This is similar to what Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) said about the disbelievers of his community: وَإِن تَغْفِرْ‌ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (and if You forgive them, then, You are the Mighty, the Wise - 5:118) which, in other words, would mean: If You were to for-give them, then, You have the Might and the Wisdom. You can do everything and there is no one to stop You. Thus, these two blessed souls did not take the initiative of recom¬mending forgiveness for disbelievers as it was contrary to the etiquette due before Allah. But, at the same time, they also did not say that those disbelievers be punished by Him. Instead of doing that, they remained respectful yet, in a manner of their own, gave vent to their elemental wish that they too may be forgiven. Injunctions and Instructions As for a du&, (prayer) everyone makes it. But, everyone does not know how to. The prayers made by the blessed prophets are les¬son-oriented. They teach us how to ask. And they tell us what is worth asking for. This prayer by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) is in two parts. The first part pleads that Makkah be made the city of peace, free of all secur¬ity threats, while the second part seeks that he and his children be de-livered from idol-worship forever. If we think about it, these are the two very basic principles of human betterment - because, should human beings remain insecure where they live or remain under the apprehension that their country would be at-tacked by an enemy, their lives can never be pleasant, neither material¬ly, nor spiritually. Everything done in this world, for profit or pleasure, depends on peace. There can be no two opinions at least about that. A person threatened by all sorts of dangers to his peace and security would naturally find the best of blessings he is surrounded with - dining and re-tiring in palaces, villas and mansions with possession and wealth abounding - all too sour to savor. Even in terms of one&s religious orientation, one can show his obedi¬ence to Divine commands only when one has the necessary peace to do so. Therefore, in the first prayer made by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، in¬cluded there are all aspects of human well-being, whether material or spiritual. Through this one sentence uttered by the Friend of Allah, Sayyidna Ibrahim, may the blessing of Allah and peace be upon him, he has asked for his children everything that matters in this world. We also learn from this prayer that emotional concern for one&s chil¬dren, and the arrangement of economic sufficiency and comfort for them is one of the obligations placed on the father, to the best of his ability and capacity. To make efforts for this purpose is not contrary to (what has been said about) Zuhd (having no greed for the worldly pleasures). Then comes the second prayer. This too has great comprehensiveness because Shirk and idol-worship are sins for which there is no forgive¬ness, therefore, he has asked for being shielded against them. If a sin gets to be committed after that, it can also be expiated through other deeds, and such sins could also be forgiven through someone&s interces¬sion. And if we take the &worship of idols& mentioned in the text in its broader sense as taken by the noble mystics, that is, everything which makes man heedless to Allah is his idol, and overcome by its love, when man takes the initiative and disobeys Allah, this then is, in a way, its worship. So, in this prayer, that is, to be kept away from idol-worship, there is a coverage of being kept away from all sins. It is in this sense that some noble mystics of Islam have admonished their self against heedlessness and disobedience to the Creator; or, as the great Gnostic Rumi says: &Every (evil) desire is an idol in your way.&  Show more

دوسری آیت میں اپنی اس دعاء کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ بت پرستی سے ہم اس لئے پناہ مانگتے ہیں کہ ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد اور قوم کا تجربہ کرچکے تھے کہ بت پرستی کی رسم نے ان کو ہر خیر وصلاح سے محروم کردیا۔ آخر آیت میں فرما... یا (آیت) فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ یعنی ان میں سے جو شخص میرا اتباع کرے یعنی ایمان اور عمل صالح کا پابند ہوجائے وہ تو میرا ہی ہے مطلب یہ ہے کہ اس پر فضل و کرم کی امید تو ظاہر ہے اور جو شخص میری نافرمانی کرے تو آپ بہت مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنے والے ہیں اس میں نافرمانی سے اگر صرف عملی نافرمانی یعنی بدعملی مراد لی جائے تو معنی ظاہر ہیں کہ آپ کے فضل سے ان کی بھی مغفرت کی امید ہے اور اگر نافرمانی سے مراد کفر و انکار لیا جائے تو یہ ظاہر ہے کہ کافر و مشرک کی مغفرت نہ ہونے اور ان کی شفاعت نہ کرنے کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے ہوچکا تھا پھر ان کو مغفرت کی امید کا اظہار کرنا درست نہیں ہوسکتا اس لئے بحر محیط میں فرمایا کہ اس جگہ حضرت خلیل (علیہ السلام) نے ان کی سفارش یا دعاء کے الفاظ نہیں اختیار کئے یہ نہیں فرمایا کہ آپ ان کی مغفرت کردیں البتہ پیغمبرانہ شفقت جس کے دامن میں کافر بھی رہتے ہیں اور ہر پیغمبر کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کوئی کافر بھی عذاب میں مبتلا نہ ہو اپنی اس طبعی خواہش کا اظہار اس عنوان سے کردیا کہ آپ تو بڑے غفور ورحیم ہیں یوں نہیں فرمایا کہ ان کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرمائیں جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے کافروں کے بارے میں فرمایا (آیت) وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ یعنی اگر آپ ان کی مغفرت فرمائیں تو آپ قوی اور حکمت والے ہیں سب کچھ کرسکتے ہیں کوئی روکنے والا نہیں ان دونوں بزرگوں نے کافروں کے معاملہ میں سفارش پر اقدام تو اس لئے نہیں کیا کہ وہ ادب حق کے خلاف تھا مگر یہ بھی نہیں فرمایا کہ ان کافروں پر آپ عذاب نازل کردیں بلکہ وہ ادب کے ساتھ ایک خاص عنوان سے ان کے بھی بخشے جانے کی طبعی خواہش کا اظہار کردیا احکام و ہدایات : دعاء تو ہر انسان مانگتا ہے مگر مانگنے کا سلیقہ ہر ایک کو نہیں ہوتا انبیاء (علیہم السلام) کی دعائیں سبق آموز ہوتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیا چیز مانگنے کی ہے اس دعائے ابراہیمی کے دو جز ہیں ایک شہر مکہ کو خوف و خطر سے آزاد جائے امن بنادینا دوسرے اپنی اولاد کو بت پرستی سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانا غور سے کام لیا جائے تو انسان کی صلاح و فلاح کے یہی دو بنیادی اصول ہیں کیونکہ انسانوں کو اگر اپنے رہنے سہنے کی جگہ میں خوف و خطر اور دشمنوں کے حملوں سے امن و اطمینان نہ ہو تو نہ دنیوی اور مادی اعتبار سے ان کی زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے اور نہ دینی اور روحانی اعتبار سے دنیا کے سارے کاموں اور راحتوں کا مدار تو امن و اطمینان پر ہونا ظاہر ہی ہے جو شخص دشمنوں کے نرغوں اور مختلف قسم کے خطروں میں گھرا ہوا ہو اس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کھانے پینے، سونے جاگنے کی بہترین آسانیاں، اعلیٰ قسم کے محلات اور بنگلے، مال و دولت کی بہتات سب تلخ ہوجاتی ہیں دینی اعتبار سے بھی ہر اطاعت و عبادت اور احکام الہیہ کی تعمیل انسان اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کو کچھ سکون و اطمینان نصیب ہو۔ اس لئے حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی پہلی دعاء میں انسانی فلاح کی تمام ضروریات معاشی واقتصادی اور دینی و اخروی سب داخل ہوگئیں اس ایک جملہ سے حضرت خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کی تمام اہم چیزیں مانگ لیں۔ اس دعاء سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کی ہمدردی اور ان کی معاشی راحت کا انتظام بھی حسب قدرت باپ کے فرائض میں سے ہے اس کی کوشش زہد اور ترک دنیا کے منافی نہیں۔ دوسری دعاء میں بھی بڑی جامعیت ہے کیونکہ وہ گناہ جس کی مغفرت کا امکان نہیں، وہ شرک وبت پرستی ہے اس سے محفوظ رہنے کی دعاء فرما دی اس کے بعد اگر کوئی گناہ سرزد بھی ہوجائے تو اس کا کفارہ دوسرے اعمال سے بھی ہوسکتا ہے اور کسی کی شفاعت سے بھی معاف کئے جاسکتے ہیں اور اگر عبادت اصنام کا لفظ صوفیائے کرام کے اقوال کے مطابق اپنے وسیع مفہوم میں لیا جائے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو اللہ سے غافل کرے وہ اس کا بت ہے اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر خدا تعالیٰ کی نافرمانی پر اقدام کرلینا ایک طرح سے اس کی عبادت ہے تو اس دعاء یعنی عبادت اصنام سے محفوظ رہنے میں تمام گناہوں سے حفاظت کا مضمون آجاتا ہے بعض صوفیائے کرام نے اسی معنی میں اپنے نفس کو خطاب کر کے غفلت و معصیت پر ملامت کی ہے، سودہ گشت از سجدہ راہ بتاں پیشانیم چند بر خود تہمت دین مسلمانی نہم اور عارف رومی نے فرمایا ہے ہر خیال شہوتے دررہ بتے ست   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 36؀ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْ... ها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) کیوں کہ اے میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کردیا، انکی پوجا سے بہت سے لوگ گمراہ ہوگئے۔ سو جو میری راہ پر چلے گا اور میری اطاعت کرے گا وہ تو میرے دین پر قائم ہے اور جو میری رہ پر نہ چلے تو ان میں سے جو توبہ کرے اس کی آپ توبہ قبول فرمانے والے ہیں اور جو توبہ پر مرے تو آپ اس پر رح... مت فرمانے والے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ) میں نے خود کو ہر قسم کے شرک سے پاک کرلیا ہے اب جو لوگ میری پیروی کریں شرک سے دور رہیں توحید کے راستے پر چلیں ایسے لوگ تو میرے ہی ساتھی ہیں ان کے ساتھ تو تیرا وعدہ پورا ہوگا۔ (وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنّ... َكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) حضرت ابراہیم کی طبیعت کے بارے میں ہم سورة ہود میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ چکے ہیں : (اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ) کہ آپ بہت ہی نرم دل حلیم الطبع اور ہر وقت اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ چناچہ جب گنہگاروں کا ذکر ہوا ہے تو آپ نے اللہ کی صفات غفاری اور رحیمی کا ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ بالکل اسی انداز میں حضرت عیسیٰ کی التجا کا ذکر سورة المائدۃ میں آیا ہے : (اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) یعنی پروردگار ! اگر تو انہیں عذاب دے گا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں تو جس طرح چاہے انہیں عذاب دے تیرا اختیار مطلق ہے۔ لیکن اگر تو انہیں معاف کر دے تو بھی تیرے اختیار اور تیری حکمت پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48. This is a figurative way of saying that idols have been the means of turning many people away from Allah’s way into the ways of deviation. 49. This forbearance shown towards those who followed a different way from the right way is an instance of Prophet Abraham’s (peace be upon him) leniency to mankind. He left their case to the Forgiveness and Mercy of Allah for he could not bear to see them...  under divine scourge. Another instance of this has been cited in Surah Houd. When the angels were on their way to destroy the wicked people of Lot, Prophet Abraham (peace be upon him) began to plead for them: Abraham began to dispute with Us concerning the people of Lot for he was tender hearted and merciful. (Surah Houd, Ayats 74-75). Likewise Prophet Jesus (peace be upon him) was so tender hearted that even when Allah will show to him that his followers had deviated from the right way, he will plead their case: Now if you punish them, they are your own servants, and if you forgive them, you are All-Mighty and All-Wise. (Surah Al-Maidah, Ayat 118).  Show more

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :48 یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے ۔ یہ مجازی کلام ہے ۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :49 یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے ح... ال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں ۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ ( البقرہ ۔ آیت ۱۲٦ ) ۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اسے سزا دے ڈالیو ، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ ان کے معاملہ میں کیا عرض کروں ، تو غفورٌرَّحِیْم ہے ۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قوم لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جا رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ” ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا “ ( ہود ، آیت ۷٤ ) ۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ” اگر حضور ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“ ( المائدہ ، آیت ۱۱۸ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: مطلب یہ ہے کہ میں اپنی اولاد اور دوسرے لوگوں کو بت پرستی سے بچنے کی تأکید کرتا رہوں گا۔ پھر جو لوگ میری ان ہدایات پر عمل کریں گے، وہ تو مجھ سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرسکیں گے، لیکن جو میری بات نہیں مانیں گے، اُن کے لئے میں بددُعا نہیں کرتا، بلکہ اُن کا معاملہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ غفور رحیم ہیں،...  اس لئے اُن کی مغفرت کا یہ راستہ بھی نکال سکتے ہیں کہ اُن کو ہدایت عطا فرمادیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:36) انہن۔ ان حرف مشبہ بالفعل ھن ۔ ضمیر جمع مؤنث غائب بیشک ان (بتوں) نے۔ رب۔ یا رب۔ اے میرے پروردگار۔ اضللن۔ اضلال (افعال) سے۔ ان مورتیوں نے گمراہ کیا۔ بہکایا۔ یہاں مراد بتوں سے ہے یعنی ان بتوں نے گمراہ کیا۔ من عصانی۔ جس نے میری نافرمانی کی۔ عصی سے ماضی واحد مذکر غائب۔ نون وقایہ ی ضمیر متکلم ... کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی تیری سیدھی راہ سے پھیر دیا۔ بت چونکہ بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے اس لئے مجازی طور پر گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔ اس جملہ میں دعا کی علت کی طرف اشارہ ہے۔ (شوکانی) ۔ 01 ۔ شاید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب انہیں مشرک کے لئے استغفار کرنے کا حک... م معلوم نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ شاید دوسرے گناہ مراد ہیں۔ یا ” تو بخشنے والا مہربان ہے “ کا مطلب یہ ہے کہ ” تو اسے توبہ کی توفیق دینے والا ہے۔ “ (شوکانی) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مقصود اس دعا سے شفاعت مومنین کے لیے اور طلب ہدایت غیرمومنین کے لیے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ اضلال یعنی گمراہ کرنے کی نسبت اصنام کی طرف اس لیے کی گئی کہ وہ گمراہی کا سبب ہیں کیونکہ صلحائے عباد کے بتوں کے ساتھ جو مشرکانہ روایتیں وابستہ ہیں ان کی وجہ سے مشرکین کے دلوں میں ان کی پستش کا جذبہ پایا جاتا ہے اس طرح ان کے بت گمراہی کا سبب بعید ہیں اس لیے مجازاً گمراہی کی نسبت ان کی طرف کی گئی ... ہے۔ لما کانت سببا للاضلال اضاف الفعل الیھن مجازا ً (قرطبی ج 9 ص 268) یا مطلب یہ ہے کہ لوگ ان اصنام کی عبادت کے سبب گمراہی اور فتنے میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ” والمعنی انھم ضلوا بعباد تھا کما تقول فتنتھم الدنیا ای افتتنوا بھا واغتروا بسببھا “ (بحر ج 5 ص 431) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 ۔ اے میرے پروردگار اس میں کچھ شک نہیں کہ ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کردیا پھر جو میری راہ پر چلا اور میری پیروی کی وہ تو میراہی ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا اور میری نافرمانی کی تو آپ بڑے بخشنے والے اور بڑی مہربانی کے مالک ہیں ۔ یعنی یہ مورتیاں اور اصنام بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب ہوتے...  ہیں اور ان کی وجہ سے بہت لوگ گمراہ ہوئے ہیں میں ان گمراہوں کو سمجھانے کی کوشش کر روں گا پھر جو سمجھ کر میرے ساتھ ہو لیا وہ تو میرا ہی ہے لیکن جو لوگ راہ راست پر نہ آئیں تو آپ ان کو ہدایت دیجئے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمایئے کیونکہ آپ غفور الرحیم ہیں۔  Show more