Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 37

سورة إبراهيم

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۳۷﴾

Our Lord, I have settled some of my descendants in an uncultivated valley near Your sacred House, our Lord, that they may establish prayer. So make hearts among the people incline toward them and provide for them from the fruits that they might be grateful.

اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے ۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلَةَ ... "O our Lord! I have made some of my offspring dwell in an uncultivable valley by Your Sacred House in order, O our Lord, that they may perform Salah. This Ayah indicates that this was different supplication than the first one that Ibrahim said when he left Hajar and her son Ismail in Makkah, before the Sacred House was built. This prayer, it appears, was said after the House was built, begging Allah and seeking His favor, and He is the Exalted and Most Honored. Ibrahim said here, عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ by Your Sacred House... then he said, رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلَةَ (O our Lord, that they may perform Salah), Ibn Jarir At-Tabari commented that this, "Refers to his earlier statement, الْمُحَرَّمِ (the Sacred...)," meaning, `You have made this House Sacred so that people establish the prayer next to it,' .... فَاجْعَلْ أَفْيِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ ... So fill some hearts among men with love towards them, Ibn Abbas, Mujahid and Sa'id bin Jubayr said, "Had Ibrahim said, `The hearts of mankind', Persians, Romans, the Jews, the Christians and all other people would have gathered around it." However, Ibrahim said, مِّنَ النَّاسِ (among men), thus making it exclusive to Muslims only. He said next, ... وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ ... and (O Allah) provide them with fruits in order that they may be helped in obeying You, and because this is a barren valley; bring to them fruits that they might eat. ... لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ so that they may give thanks. Allah accepted Ibrahim's supplication, أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَماً ءَامِناً يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَىْءٍ رِّزْقاً مِّن لَّدُنَّا Have We not established for them a secure sanctuary (Makkah), to which are brought fruits of all kinds, a provision from Ourselves. (28:57) This only indicates Allah's compassion, kindness, mercy and blessing, in that there are no fruit producing trees in the Sacred City, Makkah, yet all kinds of fruits are being brought to it from all around; this is how Allah accepted the supplication of the Khalil - Allah's intimate friend, Prophet Ibrahim, peace be upon him.

دوسری دعا یہ دوسری دعا ہے پہلی دعا اس شہر کے آباد ہونے سے پہلے جب آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مع ان کی والدہ صاحبہ کے یہاں چھوڑ کر گئے تھے ۔ تب کی تھی اور یہ دعا اس شہر کے آباد ہو جانے کے بعد کی اسی لئے یہاں بیتک المحرم کا لفظ لائے اور نماز کے قائم کرنے کا بھی ذکر فرمایا ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ عیہ فرماتے ہیں یہ متعلق ہے لفظ المحرم ساتھ یعنی اسے باحرمت اس لئے بنایا ہے کہ یہاں والے باطمینان یہاں نمازیں ادا کر سکیں ۔ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ نے فرمایا کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے ، اگر سب لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکانے کی دعا ہوتی تو فارس و روم یہود و نصاری غرض تمام دنیا کے لوگ یہاں الٹ پڑتے ۔ آپ نے صرف مسلمانوں کے لئے یہ دعا کی ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ انہیں پھل بھی عنایت فرما ۔ یہ زمین زراعت کے قابل بھی نہیں اور دعا ہو رہی ہے پھلوں کی زوزی کی اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی جیسے ارشاد ہے آیت ( اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 28- القصص:57 ) یعنی کیا ہم نے انہیں حرمت و امن والی ایسی جگہ عنایت نہیں فرمائی ؟ جہاں ہر چیز کے پھل ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو خاص ہمارے پاس کی روزی ہے ۔ پس یہ بھی اللہ کا خاص لطف و کرم عنایت و رحم ہے کہ شہر کی پیداوار کچھ بھی نہیں اور پھل ہر قسم کے وہاں موجود ، چاروں طرف سے وہاں چلے آئیں ۔ یہ ہے حضرت ابراہیم خلیل الرحمن صلوات اللہ وسلامہ علیہ کی دعا کی قبولیت ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میں مِن اولاد کے لئے ہے۔ یعنی بعض کہتے ہیں حضرت ابراہم (علیہ السلام) کے آٹھ صلبی بیٹے تھے، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو یہاں بسایا (فتح القدیر) 37۔ 2 عبادت میں صرف نماز کا ذکر کیا، جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے۔ 37۔ 3 یہاں بھی اولاد کے لئے ہے۔ کہ کچھ لوگ، مراد اس سے مسلمان ہیں۔ چناچہ دیکھ لیجئے کہ کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور حج کے علاوہ بھی سارا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اَفْئِدَۃَ النَّاسِ (لوگوں کے دلوں) کہتے تو عیسائی، یہودی، مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے۔ مِنَ النَّاسِ کے مِنْ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کردیا (ابن کثیر) 37۔ 4 اس دعا کی تاثیر بھی دکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بےآب وگیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مذید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی، کہا جاتا ہے کہ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی۔ جب کہ پہلی دعا اس وقت مانگی، جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یہاں بخاری سے ایک طویل حدیث درج کی جاتی ہے کہ کن حالات میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو اس بےآب وگیاہ وادی میں لا کر بسایا تھا اور اللہ نے ان کے کھانے پینے کا سامان کیسے کیا۔ چاہ زمزم کا پھوٹنا اور بیت اللہ کی تعمیر وغیرہ بہت سے حالات اس حدیث میں تفصیلاً آگئے ہیں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ ہاجرہ نے کمر پٹہ باندھا تاکہ سارہ ان کا سراغ تک نہ پائیں۔ چناچہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ہاجرہ (علیہ السلام) اور اس کے بچے کو وہاں سے نکال لائے۔ ہاجرہ & اسماعیل کو دودھ پلاتی تھی۔ سیدنا ابراہیم نے انھیں ایک بڑے درخت تلے بٹھا دیا جہاں آب زمزم ہے مسجد الحرام کی بلند جانب میں۔ اس وقت نہ وہاں کوئی آدمی آباد تھا اور نہ ہی پانی تھا۔ آپ انھیں ایک تھیلہ کھجور کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دے کر چلے آئے۔ سیدہ حاجرہ ان کے پیچھے آئیں اور پوچھا && ابراہیم ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہو جہاں نہ کوئی آدمی ہے اور نہ پانی ہے ؟ && ہاجرہ نے کئی بار یہ بات پوچھی مگر ابراہیم نے مڑ کر نہ دیکھا۔ پھر کہنے لگیں && کیا اللہ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے ؟ && سیدنا ابراہیم نے کہا && ہاں && پھر کہنے لگیں && اچھا پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا && پھر واپس آگئیں۔ ابراہیم وہاں سے چل کر جب اس ٹیلہ پر پہنچے جہاں سے انھیں دیکھ نہ سکتے تھے تو بیت اللہ کی طرف منہ کرکے اپنے ہاتھ اٹھا کر ان کلمات کے ساتھ دعا کی && اے اللہ ! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصہ کو ایسی وادی میں لابسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔۔ یشکرون تک && صفا مروہ کی سعی کا آغاز کیسے ہوا ؟ سیدہ ہاجرہ سیدنا اسماعیل کو اپنا دودھ اور یہ پانی پلاتی رہیں حتیٰ کہ پانی ختم ہوگیا۔ تو خود بھی پیاسی اور بچہ بھی پیاسا ہوگیا۔ بچہ کو دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے تڑپ رہا ہے۔ آپ بچہ کی یہ حالت دیکھ نہ سکیں اور چل دیں۔ دیکھا کہ صفا پہاڑی ہی آپ کے قریب ہے۔ اس پر چڑھیں پھر وادی کی طرف آگئیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ کوئی آدمی نظر آئے مگر کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ آپ صفا سے اتر آئیں حتیٰ کہ وادی میں پہنچ گئیں اور اپنی قمیص کا دامن اٹھایا اور ایک مصیبت زدہ آدمی کی طرح دوڑنے لگیں یہاں تک کہ وادی طے کرلی اور مردہ پہاڑی پر آگئیں اور مروہ پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ کوئی آدمی نظر آتا ہے مگر انھیں کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ اسی کیفیت میں انہوں نے سات چکر لگائے۔ آپ نے فرمایا && اس وقت سے ہی لوگوں نے صفا مردہ کا طواف شروع کیا && پر جب وہ ساتویں چکر میں مروہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنی۔ انہوں نے اپنے آپ سے کہا : خاموش رہو۔ (بات سنو) پھر کان لگایا تو وہی آواز سنی۔ کہنے لگیں && میں نے تیری آواز سنی، کیا کچھ ہماری مدد کرسکتا ہے ؟ && آپ نے اسی وقت زمزم کے مقام پر ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنی ایڑی یا اپنا پیر زمین پر مار کر اسے کھود ڈالا۔ تو پانی نکل آیا۔ سیدہ ہاجرہ اسے حوض کی طرح بنانے لگیں اور اپنے ہاتھ سے منڈیر باندھنے لگیں اور چلوؤں سے پانی اپنے مشکیزہ میں بھرنے لگیں جب وہ چلو سے پانی لیتیں تو اس کے بعد جوش سے پانی نکل آتا۔ آپ نے فرمایا : && اللہ ام اسماعیل پر رحم فرمائے۔ اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں یا ( فرمایا) اس سے چلو چلو پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتا && چناچہ سیدہ ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ فرشتے نے ان سے کہا && تم جان کی فکر نہ کرو۔ یہاں اللہ کا گھر ہے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اس وقت کعبہ گر کر زمین سے اونچا ٹیلہ بن چکا تھا اور برسات کا پانی اس کے دائیں بائیں سے گزر جاتا تھا۔ آب زمزم اور بنو جرہم :۔ کچھ عرصہ بعد وہاں جرہم (قبیلہ) کے لوگ یا ان کے گھر والے کداء کے راستے سے آرہے تھے ادھر سے گزرے۔ وہ مکہ کے نشیب میں اترے۔ انہوں نے وہاں ایک پرندہ گھومتا دیکھا تو کہنے لگے : یہ پرندہ ضرور پانی پر گردش کررہا ہے ہم اس میدان سے واقف ہیں یہاں کبھی پانی نہیں دیکھا۔ چناچہ انہوں نے ایک دو آدمی بھیجے۔ انہوں نے پانی موجود پایا تو واپس جاکر انھیں پانی کی خبر دی تو وہ بھی آگئے۔ ام اسماعیل وہیں پانی کے پاس بیٹھیں تھیں۔ انہوں نے پوچھا : کیا ہمیں یہاں قیام کرنے کی اجازت دیں گی ؟ ام اسماعیل نے کہا : ہاں۔ لیکن پانی میں تمہارا حق نہیں ہوگا۔ وہ کہنے لگے : && ٹھیک ہے && آپ نے فرمایا : ام اسماعیل خود بھی یہ چاہتی تھیں کہ انسان وہاں آباد ہوں && چناچہ وہ وہاں اتر پڑے اور اپنے گھر والوں کو بھی بلا بھیجا۔ جب وہاں ان کے کئی گھر آباد ہوگئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور انھیں لوگوں سے عربی سیکھی تو ان کی نگاہ میں وہ بڑے اچھے جوان نکلے۔ وہ ان سے محبت کرتے تھے اور اپنے خاندان کی ایک عورت ان کو بیاہ دی۔ اور ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا پہلی بار وہاں سے گزرنا :۔ ایک دفعہ سیدنا ابراہیم اپنے بیوی بچے کو دیکھنے آئے اس وقت اسماعیل خود گھر پر نہ تھے۔ آپ نے ان کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا وہ کہنے لگیں && روزی کی تلاش میں نکلے ہیں && پھر آپ نے اس سے گزر بسر کے متعلق پوچھا تو کہنے لگی بڑی تنگی سے زندگی بسر ہو رہی ہے اور سختی کی آپ سے خوب شکایت کی۔ آپ نے کہا، && جب تیرا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دے && جب اسماعیل آئے تو انہوں نے محسوس کیا جیسے کوئی مہمان آیا ہو۔ بیوی سے پوچھا کیا کوئی آیا تھا ؟ && اس نے کہا && ہاں && اس طرح کا ایک بوڑھا آیا تھا، تمہارے متعلق پوچھتا تھا تو میں نے اسے بتادیا۔ پھر پوچھا کہ تمہاری گزران کیسے ہوتی ہے تو میں نے کہا بڑی تنگی ترشی سے دن کاٹ رہے ہیں && اسماعیل نے پوچھا && کچھ اور بھی کہا تھا ؟ && کہنے لگی && ہاں && تمہیں سلام کہا تھا اور کہا تھا کہ گھر کی چوکھٹ تبدیل کردو && اسماعیل کہنے لگے && وہ میرے والد تھے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں۔ اب تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا && چناچہ اسماعیل نے اسے طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا دوسرا چکر :۔ اس کے بعد ابراہیم جتنی مدت اللہ نے چاہا اپنے ملک میں قیام پذیر رہے۔ پھر یہاں آئے تو بھی اسماعیل نہ ملے۔ آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل کے متعلق پوچھا تو کہنے لگی۔ && روزی کمانے گئے ہیں && پھر آپ نے پوچھا && تمہارا کیا حال ہے اور گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ && وہ کہنے لگی && اللہ کا شکر ہے بڑی اچھی گزر بسر ہو رہی ہے && آپ نے پوچھا && کیا کھاتے ہو ؟ && کہنے لگی && گوشت && پوچھا && کیا پیتے ہو ؟ && کہنے لگی && پانی && پھر سیدنا ابراہیم نے دعا کی && یا اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ && رسول اکرم نے فرمایا : && ان دنوں مکہ میں اناج نام کو نہ تھا ورنہ ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ اور اگر مکہ کے علاوہ دوسرے لوگ صرف ان دو چیزوں پر گزران کریں تو انھیں موافق نہ آئیں۔ && خیر ابراہیم نے (اپنی بہو سے) کہا کہ && جب تمہارا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ یہ چوکھٹ اچھی ہے اس کی حفاظت کرو && جب اسماعیل آئے تو بیوی سے پوچھا && (آج) کوئی آیا تھا ؟ && وہ کہنے لگی && ہاں ایک خوش شکل بزرگ آئے تھے بہت اچھے آدمی تھے۔ آپ کا پوچھتے تھے میں نے بتادیا نیز پوچھا کہ تمہاری گزران کیسی ہے میں نے کہا بہت اچھی ہے && اسماعیل نے پوچھا && کچھ اور بھی کہا تھا && کہنے لگی && ہاں آپ کو سلام کہا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ عمدہ ہے اس کو حفاظت سے رکھنا && اسماعیل نے اسے بتایا کہ && وہ میرے والد تھے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھے اپنے پاس ہی رکھوں && تیسرا چکربیت اللہ کی تعمیر اور اس کا مقصد :۔ پھر کچھ مدت بعد جتنی اللہ کو منظور تھی سیدنا ابراہیم آئے تو اس وقت اسماعیل زمزم کے پاس ایک درخت تلے بیٹھے اپنے تیر درست کر رہے تھے۔ والد کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باپ بیٹا بڑے تپاک سے ملے۔ اس کے بعد ابراہیم نے کہا && اسماعیل ! اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے کیا اس کام میں تو میری مدد کرے گا ؟ && انہوں نے کہا && ضرور کروں گا && ابراہیم کہنے لگے، && اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس مقام پر ایک گھر بناؤں اور ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا۔ چناچہ باپ بیٹا دونوں نے اس گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے اور ابراہیم تعمیر کرتے جاتے۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو اسماعیل یہ پتھر (مقام ابراہیم) لے کر آئے اور اسے وہاں رکھ دیا۔ اب ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر چنائی کرتے اور اسماعیل پتھر دیتے جاتے تھے اور دونوں یہ دعا پڑھتے (رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١٢٧۔ ) 2 ۔ البقرة :127) غرض وہ چاروں طرف سے بیت اللہ کی تعمیر کرتے جاتے اور یہی دعا پڑھتے جاتے۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب یزفون النسلان فی المشی) [ ٤٠] بیت اللہ کی آبادی کے لئے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا :۔ جب سیدنا ابراہیم نے اللہ کے حکم سے اپنے بیوی اور بچے کو اس بےآب وگیاہ وادی میں چھوڑا تھا اس وقت بیت اللہ کے صرف نشانات باقی رہ گئے تھے۔ پھر کافی مدت بعد آپ تشریف لائے جبکہ سیدنا اسماعیل جوان ہوچکے تھے۔ اس وقت باپ بیٹا دونوں نے مل کر ازسر نو بیت اللہ کو اس کی بنیادوں پر اٹھا کر اس کی عمارت کھڑی کی۔ اسی تعمیر کے دوران آپ اللہ سے جو دعائیں کرتے رہے ان کے بعض جملے ان آیات میں مذکور ہیں۔ اس تعمیر کا اولین مقصد آپ کے نزدیک یہ تھا کہ آپ کی اولاد نماز کی پابند رہے اور بعد میں نسلاً بعد نسل نماز کا سلسلہ جاری رہے پھر آپ کے ذہن میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس سنگلاخ زمین اور بےآب وگیاہ وادی میں جہاں کھانے کو کچھ ملتا نہیں یہ مسجد آباد کیسے ہوگی ؟ تو اس سلسلہ میں آپ نے دعا کی کہ دنیا کے لوگوں میں سے بعض کے دل اس مسجد یا میری اولاد کی طرف مائل کر دے تاکہ یہ جگہ آباد ہوجائے اور مسجد بھی آباد ہو۔ اور دوسری دعا یہ فرمائی کہ جو لوگ اس طرف مائل ہوں ان کے کھانے پینے کا سامان بھی مہیا فرما تاکہ وہ یہاں آباد رہ سکیں۔ دعا کی قبولیت :۔ آپ کی یہ دعا ٹھیک ٹھیک قبول ہوگئی۔ چناچہ اس وقت سے لے کر آج تک لوگ دنیا کے مختلف ملکوں اور گوشوں سے بیت اللہ کے حج وعمرہ کے لیے جاتے ہیں اور یہ مسجد اتنی آباد ہوئی کہ دنیا کی کوئی مسجد اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ کی دعا یہ تھی کہ بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر، اگر آپ سب لوگوں کے دلوں کو مائل کر کہہ دیتے تو بیت اللہ کی طرف آنے والوں کی اس قدر بھر مار ہوجاتی کہ رہنے کو جگہ نہ ملتی۔ رہا دعا کا دوسرا حصہ تو اس کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے فرمائیے کہ دنیا کا کوئی پھل ایسا نہیں جو مکہ نہ پہنچتا ہو۔ اطراف عالم سے پھل وہاں پہنچ جاتے ہیں حالانکہ مکہ کی اپنی زمین ایسی ہے کہ وہاں ایک بھی ثمردار درخت نہیں۔ حتیٰ کہ جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ : ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے۔ ” کچھ اولاد “ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تو اس وقت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوچکے تھے۔ انھیں اور ان کی والدہ سارہ[ کو ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسری جگہ (شام میں) ٹھہرایا ہوا تھا۔ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ : وادی نیچی جگہ کو کہا جاتا ہے، جہاں کبھی پانی بہتا ہو، خصوصاً پہاڑوں کے درمیان گہری جگہ کو ” وادی “ کہتے ہیں۔ ” ذِيْ زَرْعٍ “ مکہ اور اس کے گردو نواح بلکہ ارض عرب میں کھیتی باڑی نہیں تھی، کیونکہ بارش کے علاوہ وہاں پانی نہیں ملتا تھا اور زمین بھی پتھریلی یا ریتلی تھی، خصوصاً مکہ والی جگہ میں تو بالکل نہ پانی تھا نہ کھیتی باڑی۔ ان غیر آباد بیابان پہاڑوں کے درمیان اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ (رض) کو لا کر چھوڑ جانے کا، پھر ہاجرہ[ کے صفا ومروہ کے درمیان دوڑنے کا اور پانی تلاش کرنے اور زم زم کے پھوٹ نکلنے کا لمبا واقعہ صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے مذکور ہے۔ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ( یزفون ) النسلان في المشي : ٣٣٦٤، ٣٣٦٥ ] ہزاروں سال بعد ابھی تک وہ ” ذِيْ زَرْعٍ “ ہی ہے، البتہ طائف میں کچھ کھیتی باڑی اور پھل وغیرہ ہیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّیٰ یَکْثُرَ الْمَالُ وَیَفِیْضَ ، حَتّٰی یَخْرُجَ الرَّجُلُ بِزَکَاۃِ مَالِہٖ فَلاَ یَجِدُ أَحَدًا یَقْبَلُھَا مِنْہُ ، وَحَتّٰی تَعُوْدَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوْجًا وَأَنْھَارًا ) ” قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مال بہت زیادہ نہ ہوجائے، حتیٰ کہ آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر نکلے گا، لیکن وہ کوئی ایسا شخص نہیں پائے گا جو اس سے اس کی زکوٰۃ لے لے اور جب تک ارض عرب دوبارہ مروج (سبزہ زار، کھلے کھیت) اور ندیوں نالوں کی صورت میں نہ بدل جائے۔ “ [ مسلم، الزکاۃ، باب الترغیب في الصدقۃ قبل أن۔۔ : ٦٠؍١٥٧، قبل ح : ١٠١٣ ] لفظ ” تَعُوْدَ “ (دوبارہ نہ بدل جائے) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی کبھی یہ پہاڑ کشمیر کے پہاڑوں کی طرح سرسبز اور ندیوں نہروں والے تھے، قیامت کے قریب پھر اسی طرح ہوجائیں گے۔ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ : اس سے بعض مفسرین نے اخذ کیا ہے کہ یہ دعا ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر کرنے کے بعد کی، ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر بیت اللہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے وہاں جانے سے بھی بہت پہلے تعمیر ہوچکا تھا، کیونکہ وہ زمین پر اللہ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے اور سب جانتے ہیں کہ زمین پر اللہ کی عبادت آدم (علیہ السلام) سے یا اس سے بھی پہلے سے شروع ہے، اس کے بانئ اول آدم (علیہ السلام) ہیں یا اس سے بھی پہلے کی کوئی مخلوق، مثلاً فرشتے یا جن وغیرہ۔ ہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں سیلابوں کی وجہ سے یہ ایک ٹیلے کی شکل میں بدل چکا تھا، وہ جگہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتائی اور انھی پہلی بنیادوں پر دوبارہ کعبہ تعمیر ہوا۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٢٨) اور سورة حج (٢٦) ” الْمُحَرَّمِ “ اس لیے کہ کئی کام جو دوسری جگہ حلال ہیں مثلاً شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ، وہ یہاں حرام ہیں اور اس گھر کی عزت نہ کرنے والے کا یہاں طاقت کے ذریعے سے قبضہ حرام ہے، ممکن نہیں۔ اس لیے اس گھر کا لقب ” اَلْبَیْتُ الْعَتِیْقُ “ بھی ہے، یعنی جو ہمیشہ سے آزاد رہا۔ عتیق کا ایک معنی قدیم بھی ہے۔ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : معلوم ہوا کہ آدمی کو خود بھی اور اولاد کو بھی ایسی جگہ ٹھہرانا چاہیے جہاں اہل توحید کی مسجد پہلے سے موجود ہو، یا جب آدمی وہاں سکونت اختیار کرے تو سب سے پہلا کام اپنا مکان اور مسجد بیک وقت بنانے کا کرے، خواہ کچی اینٹوں کی چار دیواری ہی ہو، جیسا کہ ہمارے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں آتے ہی کیا تھا، تاکہ اقامت صلاۃ میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور وہ آبادیاں تو رہنے کے قابل ہی نہیں جو نہایت عالی شان ہونے کے باوجود اکیلے اللہ کی عبادت کے لیے بنائی ہوئی مسجدوں سے خالی ہیں، یا وہاں ایسی مسجدیں گھر سے اتنی دور ہیں کہ نماز کے لیے وقت پر پہنچنا مشکل ہے۔ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ : ” اَفْىِٕدَةً “ ” فُوَادٌ“ کی جمع ہے، یعنی دل، یا ” وَفُوْدٌ“ کی یعنی آنے والے۔ (عینی) ” مِّنَ النَّاسِ “ کچھ لوگوں کے دل۔ ” مِن “ تبعیض کے لیے ہے۔ ” تَهْوِيْٓ“ ” ھَوَی یَھْوِیْ “ (ض) سے گرنا اور ” ھَوِیَ یَھْوٰی “ (ع) سے چاہنا اور محبت کرنا مراد ہوتا ہے۔ کوئی چیز جب بلندی سے گرتی ہے تو نہایت تیزی سے گرتی ہے اور بےاختیار ہو کر گرتی ہے، یعنی کچھ لوگوں کے دل ایسے بنا دے کہ بےاختیار اس کی طرف دوڑتے چلے آئیں۔ تفاسیر میں بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اگر دعا میں ” کچھ لوگوں “ کی قید نہ لگاتے تو سب لوگوں کے دل، خواہ مسلم ہوتے یا یہود و نصاریٰ ، اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ اس دعا کی قبولیت کا نظارہ ہر مسلمان اپنے دل میں اس گھر کے شوق سے اور وہاں حج وغیرہ کے لیے بار بار جانے والوں کی کثرت سے کرسکتا ہے۔ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ : مکہ میں دنیا کے تمام خطوں سے ہر موسم کا تازہ پھل دیکھ کر اس دعا کی قبولیت آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ اس دعا کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٢٤ تا ١٢٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Brimming with wisdom, there is another prayer of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) which appears in the third verse (37) as follows: رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُ‌ونَ : &Our Lord, I have settled some of my children in a valley of no vegetation [ nor any other obvious life support system ] close to Your sanctified House, so that, Our Lord, they may establish Salah. So, make hearts of a number of people yearn towards them [ to make them familiar with each other ], and provide them with fruits, so that they may be grateful.& The event which marks the making of this prayer by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) goes back to the time when Allah Ta’ ala intended to have the edifice of Baytullah which was destroyed in the Deluge during the time of Sayyidna Nuh علیہ السلام reconstructed. He chose His &friend,& Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) for this mission, arranging for him to migrate from Syria with wife, Sayyidah Hajira and son, Sayyidna Ismail (علیہ السلام) and settle down in that barren place. This he was appointed to do. It appears in the Sahih of Al-Bukhari that Sayyidna Ismail (علیہ السلام) was an infant at that time. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، as ordered, had him “ Ismail (علیہ السلام) “ and his mother, Sayyidah Hajira stay near the present Baytullah and the well of Zamzam. At that time, this place was an open and barren ground surrounded by hills. There was no water and no habitation in sight. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had thoughtfully put some food in a provi-sion-bag and water in a water-bag. Thereafter, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was commanded to return to Syr¬ia. The spot where he received this command was the spot from where he started his journey as commanded. That there was the natural effect of having to leave his wife and infant son in this wilderness on him will become evident from the prayer which he made a little later, but he did not tolerate the idea of making the least delay in carrying out the Divine command, not even for a few moments which he could have used to inform Sayyidah Hajira and say a few words of comfort to her. As a result, when Sayyidah Hajira saw him going away, she repeatedly called from behind him wondering why would he leave them in that manner and in a place which had no human being around nor was there anything which could help them survive. But, the &friend& of Allah did not look back. Thereupon, Sayyidah Hajira realized that one who is the &friend& of Allah cannot betray them in that manner. Perhaps, this is nothing but a command from Allah Ta` ala. So, she called again and asked: &Has Allah Ta` ala commanded you to leave this place?& Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) turned his face and said: &Yes.& Hearing this, Sayyidah Hajira said: & اِذاً لَا یُضَیِّعُنَا & that is, &Now it does not matter. Our Master, who has commanded you to leave this place, will certainly not let us be wasted away.& Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) kept going ahead until he reached close to a hill from where he could no more see Sayyidah Hajira and Sayyidna Ismail علیہ السلام . That was the time when he turned his attention towards Baytullah and prayed in the words mentioned in the verse1 (37). Many religious instructions and rulings issue forth from this prayer of 1. According to this interpretation, it is only the prayer mentioned in Verse (37) that was made at this time. As for the prayer mentioned in the verse (35) it was made at a later stage, when Makkah was already a populated city. Therefore, there is no contradiction between this state¬ment and the comment made on the verse 35. (Editor) Sayyidna Ibrahim علیہ السلام . These are being taken up in some details as given below. The Wisdom of Sayyidna Ibrahim&s Prayer 1. We see that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has accomplished two things very distinctly. On the one hand, he fulfills his obligation to his status as the Khalil or Friend of Allah. When and where he was commanded to leave for the country of Syria, he took no time in leaving his wife and in¬fant son in a desolate wilderness. When he was saying yes to the Divine command, he did not show the least hesitation. He did what he was asked to do right away. He did not tolerate the idea of postponing or de-laying even to the natural limit whereby he would first go to his blessed wife, say some words of comfort to her and tell her that he is under Divine orders to leave about which she should not worry. This he did not do. What he did was: When and where came the Divine command, he obeyed it and moved ahead right on. On the other hand, he did not neglect the rights of his family on him and paid the debt of their love in his own way. Once he could see them no more from behind a hill on his way, he prayed before Allah Ta’ ala that they be protected and blessed with peace. Thus, he had asked good life for them because he was confident, and at peace with himself. He knew that a prayer made after having carried out the Divine command first would never be rejected by the merciful Lord. And this is what hap¬pened actually. The helpless infant and his equally helpless mother found shelter. Not only that they settled there all alone and by them-selves, a whole city flowered with people around them and for their sake; and furthermore, the matter did not end at the fulfillment of the needs of their lives lived in peace, but it is for their sake that the doors of all sorts of blessing are still open to the people of Makkah. This is prophetic steadfastness, and the beauty of balance; when con¬sidering one aspect, they would never ignore the other. The prophets are not like common mystics who are overpowered by the state they are in (maghlub al-hal) مَغلُوب الحال . Prophets educate. It is their education which goes on to make man perfect, universal. Now, let us go to some significant statements made in this prayer. They are from verse 37 and are being taken up in the order they appear there. 2. غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ (valley of no vegetation): When Sayyidna Ibrahim was commanded by Allah Ta’ ala that he should leave his infant son and his mother in that barren land and go to Syria, he had become certain from the command itself that Allah Ta’ ala would not let them perish, in-stead, they would, at least, be provided with water somehow. That is why he did not say: بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي مَاء (in a valley with no water). What he said was: غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ (in a valley of no vegetation). Therefore, he requested that they be blessed with &fruits& - even if they had to be brought in from some-where else. This is the reason why Makkah al-Mukarramah does not have any significant areas of cultivation even to this day. But, fruits from all over the world, the produce and product of things of all sorts reach there in such numbers and variety that it would be difficult to find a similar arrangement in many cities. (Al-Bahr Al-Muhit) 3. The next sentence: عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ (close to Your sanctified House) proves that the foundation of Baytullah had been laid out before the appearance of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) as proved by the leading commenta¬tor, Al-Qurtubi on the authority of several narrations under his commen¬tary on Surah Al-Baqarah. According to him, the structure of Baytullah was first raised by Sayyidna Adam (علیہ السلام) at the time when he was sent to the earth and was made to reach at this place from the Mountain of Sa¬randip through a miracle. Angel Jibra&il (علیہ السلام) directed him to the site of Baytullah. Accordingly, Sayyidna Adam (علیہ السلام) raised its structure. He and his children used to do Tawaf round it until came the Deluge during the time of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) when the sacred Baytullah was raised up (as trust), but its foundations remained embedded under the earth. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was commanded to build the Baytullah anew on the already existing foundations. These were identified and shown to him by Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) . After that, when this Abrahimic structure collapsed during the age of Arab Jahiliyyah, the Quraysh of that period rebuilt it. When its construction work was in progress, Abu Talib along with the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم participated in it, which was before he was made prophet. Here, Baytullah has been qualified as: مُحَرَّم (muharram) which means &sanctified,& but could also mean &protected.& The great Baytullah has both attributes. It has always been sanctified and esteemed, and always protected from enemies as well. 4. The next statement: لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ (so that they may establish Salah) is significant in that it was the first prayer he made soon after mentioning the helplessness of his infant son and his mother. His prayer was that they be made particular and punctual in their obligation of Salah as due because Salah is a cumulative receptacle of everything good and blissful in life, mortal or eternal. This tells us that there can be no greater concern, or love or desire for the betterment of children than that they be made to become particular and punctual with their Salah. Finally, there is something here we should not miss to note. Though, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had left behind at that time and at that place only a mother and her child, but the prayer he made was in the plural form. This tells us that Sayyidna Ibrahim had come to know that this place will have a populated city of its own and the line of this child will flourish and go far in time. Therefore, he included all of them in his prayer. 5. In the next sentence: أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ (hearts of a number of people), the word: أَفْئِدَةً (afidah) is the plural of: فُوَاد) which means heart. Here, the word: &afidah& has been introduced in its indefinite form along with the particle: مِن (min) which is used for reducing, dividing and portioning. Hence, the meaning is: &make hearts of a number of people yearn to-wards them). Tafsir authority, Mujahid says: If this reductive particle was not there in this prayer, instead, said there would have been: أَفْئِدَةً النَّاسِ (hearts of the people), then, Muslims, non-Muslims, Jews, Chris¬tians, virtually people of the whole world from the East to West would have converged on Makkah, which would have become a cause of incon¬venience for them. It was in view of this reality that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، in his prayer, used the words: &make hearts of a number of people yearn towards them.& 6. In the next sentence: وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ (and provide them with fruits), the word: الثَّمَرَ‌اتِ (ath-thamarat) is the plural of: ثَمَرَۃ (thamrah) which means fruit. Customarily, they refer to fruits which are eaten. Given that sense of &fruit,& the prayer would mean: &provide them with all sorts of fruits to eat.& However, ثَمَرَۃ thamrah or fruit is also used in the sense of outcome and produce which is more general than things edible. The outcome of everything beneficial can be called its thamrah or fruit. Thus, the fruits of industries would be their products. The fruit of a job or work would be the pay or wages received as a result. In a verse of Surah Al-Qasas, also used there is the expression ثَمَرَ‌اتُ كُلِّ شَيْءٍ (fruits [ or produce ] of all things - 28:57). Here, instead of using the word: |" شَجَرَ |" (shajar : tree), what has been used is the word: شَيْءٍ (sha&ii : thing). Perhaps, this may be indicating that for these people Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has not simply prayed for the provision of fruits to eat. Rather, the prayer he has made is for the end product of everything which includes the products and produce and use-worthy things of all kinds, and again, with earnest pleading and humble plaint alongwith the recounting of praises for Allah Ta’ ala, then, this would be a manner in which it can be strongly hoped that the prayer will be answered.

تیسری آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک اور حکیمانہ دعا اس طرح مذکور ہے کہ (آیت) رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ الخ۔ الآیۃ اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی کچھ ذریت یعنی اہل و عیال کو ایک ایسے دامن کوہ میں ٹھہرا دیا ہے جس میں کوئی کھیتی وغیرہ نہیں ہو سکتی (اور بظاہر وہاں زندگی کا کوئی سامان نہیں) یہ دامن کوہ آپ کے عظمت والے گھر کے پاس ہے تاکہ یہ لوگ نماز قائم کریں اس لئے آپ کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردیں کہ ان کے انس اور آبادی کا سامان ہوجائے اور ان کو ثمرات (پھل) عطا فرمائیے تاکہ یہ لوگ شکر گذار ہوں۔ حضرت خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) کی اس دعاء کا واقعہ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر جو طوفان نوح میں بےنشان ہوگئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ فرمایا تو اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے لئے منتخب فرما کر ان کو ملک شام سے ہجرت کر کے حضرت ہاجرہ اور صاحبزادے اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ اس بےآب وگیاہ مقام مسکن بنانے کے لئے مامور فرمایا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اسماعیل اس وقت شیر خوار بچے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حسب حکم ان کو اور ان کی والدہ ہاجرہ کو موجودہ بیت اللہ اور چاہ زمزم کے قریب ٹھہرا دیا اس وقت یہ جگہ پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک چٹیل میدان تھی دور دور تک نہ پانی نہ آبادی، ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے لئے ایک توشہ دان میں کچھ کھانا اور ایک مشکیزہ میں پانی رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ملک شام کی طرف واپس ہونے کا حکم ملا جس جگہ حکم ملا تھا وہیں سے تعمیل حکم کے لئے روانہ ہوگئے بیوی اور شیرخوار بچہ کو اس لق ودق جنگل میں چھوڑنے کا جو طبعی اور فطری اثر تھا اس کا اظہار تو اس دعاء سے ہوگا جو بعد میں کی گئی مگر حکم ربانی کی تعمیل میں اتنی دیر بھی گوارا نہیں فرمائی کہ حضرت ہاجرہ کو خبر دیدیں اور کچھ تسلی کے الفاظ کہہ دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ہاجرہ نے ان کو جاتے ہوئے دیکھا تو بار بار آوازیں دیں کہ اس جنگل میں آپ ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں نہ کوئی انسان ہے نہ زندگی کا سامان مگر خلیل اللہ نے مڑ کر نہیں دیکھا تب حضرت ہاجرہ کو خیال آیا کہ اللہ کا خلیل ایسی بےوفائی نہیں کرسکتا شاید اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ملا ہے تو آواز دے کر پوچھا کہ کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا ہے تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مڑ کر جواب دیا کہ ہاں حضرت ہاجرہ نے یہ سن کر فرمایا اذا لایضیعنا یعنی اب کوئی پرواہ نہیں جس مالک نے آپ کو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا ہے وہ ہمیں بھی ضائع نہ کرے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگے بڑہتے رہے یہاں تک کہ ایک پہاڑی کے پیچھے پہنچ گئے جہاں ہاجرہ و اسماعیل (علیہما السلام) آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو اس وقت بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ دعاء مانگی جو اس آیت میں مذکور ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مذکورہ دعاء کے ضمن میں بہت سی ہدایات اور مسائل ہیں ان کا بیان یہ ہے۔ دعاء ابراہیمی کے اسرار و حکم : (١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک طرف تو مقام خلیل اللہ کا حق ادا کیا کہ جس وقت اور جس جگہ ان کو یہ حکم ملا کہ آپ ملک شام واپس چلے جائیں، اس بےآب وگیاہ لق ودق میدان میں اہلیہ اور شیر خوار بچے کو چھوڑ کر چلے جانے اور حکم ربانی کی تعمیل میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں فرمائی، اس کی تعمیل میں اتنی دیر لگانا بھی گوارا نہیں فرمایا کہ اہلیہ محترمہ کے پاس جا کر تسلی کردیں اور کہہ دیں کہ مجھے یہ حکم ملا ہے آپ گھبرائیں نہیں بلکہ جس وقت جس جگہ حکم ملا فورا حکم ربانی کی تعمیل کے لئے چل کھڑے ہوئے، دوسری طرف اہل و عیال کے حقوق اور ان کی محبت کا یہ حق ادا کیا کہ پہاڑی کے پیچھے ان سے اوجھل ہوتے ہی حق تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی حفاظت اور امن و اطمینان کے ساتھ رہنے کی دعاء فرمائی ان کی راحت کا سامان کردیا کیونکہ وہ اپنی جگہ مطمئن تھے کہ تعمیل حکم کے ساتھ جو دعاء کی جائے گی بارگاہ کریم سے وہ ہرگز رد نہ ہوگی اور ایسا ہی ہوا کہ یہ بیکس و بےبس عورت اور بچہ نہ صرف خود آباد ہوئے بلکہ ان کے طفیل میں ایک شہر آباد ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ ان کو ضروریات زندگی اطمینان کے ساتھ نصیب ہوئیں بلکہ ان کے طفیل میں آج تک اہل مکہ پر ہر طرح کی نعمتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں یہ ہے پیغمبرانہ استقامت اور حسن انتظام کہ ایک پہلو کی رعایت کے وقت دوسرا پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہوتا وہ عام صوفیائے کرام کی طرح مغلوب الحال نہیں ہوتے اور یہی وہ تعلیم ہے جس کے ذریعہ ایک انسان انسان کامل بنتا ہے۔ (٢) غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ شیر خوار بچے اور اس کی والدہ کو اس خشک میدان میں چھوڑ کر ملک شام چلے جائیں تو اسی حکم سے اتنا تو یقین ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ضائع نہ فرماویں گے بلکہ ان کے لئے پانی ضرور مہیا کیا جائے گا اس لئے بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ مَاءٍ نہیں کہا بلکہ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ فرما کر درخواست یہ کی کہ ان کو پھل اور ثمرات عطا ہوں خواہ کسی دوسری جگہ ہی سے لائے جائیں یہی وجہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں آج تک بھی کاشت کو کوئی خاص انتظام نہیں مگر دنیا بھر کے پھل اور ہر چیز کے ثمرات وہاں اتنے پہنچتے ہیں کہ دوسرے بہت سے شہروں میں ان کا ملنا مشکل ہے (بحرمحیط) (٣) عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ سے ثابت ہوا کہ بیت اللہ شریف کی بناء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے ہوچکی تھی جیسا کہ امام قرطبی نے تفسیر سورة بقرہ میں متعدد روایات سے ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر آدم (علیہ السلام) نے کی ہے جب ان کو زمین پر اتارا گیا تو بطور معجزہ جبل سرا اندیپ سے اس جگہ تک ان کو پہونچایا گیا اور جبرئیل امین نے بیت اللہ کی جگہ کی نشاندہی بھی کی اس کے مطابق حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر کی وہ خود اور ان کی اولاد اس کے گرد طواف کرتے تھے یہاں تک کہ طوفان نوح میں بیت اللہ کو اٹھا لیا گیا اور اس کی بنیادیں زمین میں موجود رہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انہی بنیادوں پر بیت اللہ کی نئی تعمیر کا حکم ملا حضرت جبریل امین نے قدیم بنیادوں کی نشان دہی کی پھر یہ بناء ابراہیمی عہد جاہلیت عرب میں منہدم ہوگئی تو قریش جاہلیت نے از سرنو تعمیر کی جس کی تعمیر میں ابو طالب کے ساتھ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی نبوت سے پہلے حصہ لیا اس میں بیت اللہ کی صفت محرم ذکر کی گئی ہے محرم کے معنی معزز کے بھی ہو سکتے ہیں اور محفوظ کے بھی بیت اللہ شریف میں یہ دونوں صفتیں موجود ہیں کہ ہمیشہ معزز اور مکرم رہا ہے اور ہمیشہ دشمنوں سے محفوظ بھی رہا ہے، (٤) لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ حضرت خلیل نے شروع دعاء میں اپنے بچے اور اس کی والدہ کی بےبسی اور خستہ حالی ذکر کرنے بعد سب سے پہلے جو دعا کی وہ یہ کہ ان کو نماز کا پابند بنا دے کیونکہ نماز دنیا و آخرت کی تمام خیرات و برکات کے لئے جامع ہے اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کے حق میں اس سے بڑی کوئی ہمدردی اور خیر نہیں کہ ان کو نماز نہیں کہ ان کو نماز کا پابند بنادیا جائے اور اگرچہ وہاں اس وقت صرف ایک عورت اور بچہ کو چھوڑا تھا مگر دعاء میں صیغہ جمع کا استعمال فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ حضرت خلییل (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ یہاں شہر آباد ہوگا اور اس بچہ کی نسل چلے گی اس لئے دعاء میں ان سب کو شریک کرلیا۔ (٥) اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ ۔ افئدہ فواد کی مجمع ہے جس کے معنی دل کے ہیں اس جگہ لفظ افئدہ کو نکرہ اور اسکے ساتھ حرف من لایا گیا جو تبعیض اور تقلیل کے لئے آتا ہے اس لئے معنی یہ ہوئے کہ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کر دیجئے امام تفسیر حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر اس دعاء میں یہ حرف تبعیض و تقلیل نہ ہوتا بلکہ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاس کہہ دیا جاتا تو ساری دنیا کے مسلم وغیر مسلم یہود و نصاری اور مشرق و مغرب کے سب آدمی مکہ پر ٹوٹ پڑتے جو ان کے لئے باعث زحمت ہوجاتا اس حقیقت کے پیش نظر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعاء میں یہ الفاظ فرمائے کہ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کر دیجئے۔ (٦) وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ ثمرات، ثمرۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں پھل اور عادۃ ان پھلوں کو کہا جاتا ہے جو کھائے جاتے ہیں اس اعتبار سے دعاء کا حاصل یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو کھانے کے لئے ہر طرح کے پھل عطا فرمائیے۔ اور کبھی لفظ ثمرہ نتیجہ اور پیداوار کے معنی میں بھی آتا ہے جو کھانے کی چیزوں سے زیادہ عام ہے ہر نفع آور چیز کے نتیجہ اور حاصل کو اس کا ثمرہ کہا جاسکتا ہے مشینوں اور صنعتی کارخانوں کے ثمرات ان کی مصنوعات کہلائیں گی ملازمت اور مزدوری کا ثمرہ وہ اجرت اور تنخواہ کہلائیگی جو اس کے نتیجہ میں حاصل ہوئی قرآن کریم کی ایک آیت میں اس دعاء میں ثَمَرٰتِ کَلِ شَیءٍ کا لفظ بھی آیا ہے اس میں لفظ شجر کے بجائے لفظ شیء لایا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے ان لوگوں کے لئے صرف کھانے کے پھلوں ہی کی دعاء نہیں فرمائی، بلکہ ہر چیز کے ثمرات اور حاصل شدہ نتائج کی دعاء مانگی ہے جس میں دنیا بھر کی مصنوعات اور ہر طرح کی قابل انتفاع چیزیں سب داخل ہیں شاید اس دعا کا یہ اثر ہے کہ مکہ مکرمہ باوجودیکہ نہ کوئی زراعتی ملک ہے نہ تجارتی یا صنتعی لیکن دنیا بھر کی ساری چیزیں مشرق ومغرب سے پہنچ کر مکہ معظمہ میں آتی ہیں جو غالبا دنیا کے کسی بڑے سے بڑے شہر کی بھی نصیب نہیں (٧) حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لئے یہ دعاء نہیں فرمائی کہ مکہ کی زمین کو قابل کاشت بنادیں ورنہ کچھ مشکل نہ تھا کہ مکہ کی وادی اور سارے پہاڑ سر سبز کردیئے جاتے جن میں باغات اور کھیت ہوتے مگر خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لئے یہ زراعت کا مشغلہ پسند نہ کیا اس لئے دعاء فرمائی کہ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیئے جائیں جو مشرق ومغرب اور اطراف عالم سے یہاں آیا کریں ان کا یہ اجتماع پوری دنیا کے لئے رشد و ہدایت کا اور اہل مکہ کی خوش حالی کا ذریعہ بنے اطراف عالم کی چیزیں بھی یہاں پہنچ جائیں اور اہل مکہ کو کسب مال کے ذرائع بھی ہاتھ آجائیں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آج تک اہل مکہ زراعت اور کاشت سے بےنیاز ہو کر تمام ضروریات زندگی سے مالا مال ہیں (٨) لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ میں اشارہ کردیا کہ اولاد کے لئے معاشی راحت و سکون کی دعاء بھی اسی لئے کی گئی کہ یہ شکر گذار بن کر اس پر بھی اجر حاصل کریں اس طرح دعاء کی ابتدا نماز کی پابندی سے ہوئی اور انتہا شکر گذاری پر درمیان میں معاشی راحت و سکون کا ذکر آیا اس میں یہ تعلیم ہے کہ مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اس کے اعمال و احوال خیالات و افکار پر آخرت کی فلاح کا غلبہ ہو اور دنیا کا کام بقدر ضرورت ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ 37؀ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی وادي قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء/ 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] أي : بقَدْرِ مياهها . ( و د ی ) الوادی ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) ہمارے پروردگار میں خانہ کعبہ کے قریب اسماعیل اور اس کی والدہ کو ایک ویران میدان میں جہاں نہ کھیتی ہے اور نہ گھاس ہے آباد کرتا ہوں تاکہ قبلہ کی جانب نماز کا اہتمام رکھیں اور آپ کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردیجیے تاکہ ان کو اس مقام کا شوق پیدا ہو اور ہر سال اس کی زیارت کے لیے حاضر ہوں اور ان کو مختلف قسم کے پھل کھانے کے لیے دے دیجیے تاکہ آپ کی نعمت کا شکر کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ) اے ہمارے پروردگار ! تیرے حکم کے مطابق میں نے یہاں تیرے اس محترم گھر کے پاس اپنی اولاد کو لا کر آباد کردیا ہے۔ حضرت ابراہیم کی دعا میں پہلے رَبِّ ‘ رَبِّ (اے میرے پروردگار ! ) کا صیغہ آ رہا تھا مگر اب ” رَبَّنَا “ جمع کا صیغہ آگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپ کے ساتھ حضرت اسماعیل بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہاں پر عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ کے الفاظ سے ان روایات کو بھی تقویت ملتی ہے جن کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدم نے کی تھی۔ ان روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت آدم کا تعمیر کردہ بیت اللہ ابتدائی زمانہ میں گرگیا اور سیلاب کے سبب اس کی دیواریں وغیرہ بھی بہہ گئیں ‘ صرف بنیادیں باقی رہ گئیں۔ ان ہی بنیادوں پر پھر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اس کی تعمیر کی جس کا ذکر سورة البقرۃ کی آیت ١٢٧ میں ملتا ہے : (وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط) ۔ بہرحال حضرت ابراہیم عرض کر رہے ہیں : (رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ ) لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا ہوجائے لوگ اطراف و جوانب سے ان کے پاس آئیں تاکہ اس طرح ان کے لیے یہاں رہنے اور بسنے کا بندوبست ہو سکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. Allah granted this prayer of Prophet Abraham (peace be upon him). That was why people from the whole of Arabia used to come there for Hajj and Umrah at the time of the revelation of this Surah, and now people gather there from all over the world. Besides this, there is plenty of food and fruit in all seasons of the year, though the valley is absolutely barren and no vegetation grows in it even for animals.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :50 یہ اسی دعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھچ کر آتا تھا ، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کر وہاں جاتے ہیں ۔ پھر یہ بھی اسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل ، غلے ، اور دوسرے سامان رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں ، حالانکہ اس وادی غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ایسی قبول ہوئی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مکہ مکرمہ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، موسم حج میں تو یہ نظارہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں سے لوگ مشقتیں اٹھاکر اس خشک اور بے آب وگیاہ علاقے میں پہنچتے ہیں، موسم حج کے علاوہ بھی لوگ بار بار عمرے اور دوسری عبادتوں کے لئے وہاں پہنچتے ہیں، اور جو ایک مرتبہ وہاں چلا جاتا ہے، اسے بار بار حاضری کا شوق لگا رہتا ہے، اور پھلوں کی افراط کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے پھل بڑی تعداد میں وہاں پہنچتے ہیں، حالانکہ وہاں کی زمین میں اپنا کوئی پھل پیدا نہیں ہوتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں یہ کہا کہ یا اللہ دنیا کی مخلوقات میں سے کچھ لوگوں کے دل مکہ کی طرف مائل فرما دے اگر بجائے اس کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منہ سے یہ نکل جاتا کہ یا اللہ دنیا کے لوگوں کے دل مکہ کی طرف مائل فرما دے تو کسی قوم کا کوئی آدمی ایسا دنیا میں باقی نہ رہتا جس کے دل میں مکہ کا شوق پیدا نہ ہوجاتا ١ ؎۔ اس دعا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے حق میں بت پرستی کے بچنے کی جو دعا کی تھی یہ دعا چند پشت کے حق میں قبول ہوئی پھر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کے سلسلہ میں قریش پیدا ہوئے اور ان میں بت پرستی پھیلی جس بت پرستی کی اصلاح نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوئی۔ علمائے مفسرین نے لکھا ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ کے جنگل میں چھوڑا اس وقت تک اگرچہ بیت اللہ نہیں بنا تھا اور بیت المعمور حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کے وقت آسمان پر اٹھ چکا تھا لیکن الہام کے ذریعہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ اس میدان میں اللہ کا گھر بنے گا اس واسطے انہوں نے اپنی اس دعا میں یہ کہا کہ یا اللہ تیرے ادب والے گھر کے پاس کے جنگل میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑتا ہوں اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) اگرچہ اس دعا کے بہت روز کے بعد پیدا ہوئے ہیں لیکن حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کے شکریہ کی دعا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی تھی اس کا ذکر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرما دیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سب دعا کا ذکر ایک جگہ ہوجاوے اور مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کی ممانعت جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہوئی اس سے پہلے مشرک ماں باپ کے حق میں یہ مفغرت کی دعا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی تھی۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو یوں قائل کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو نبی اسماعیل کہتے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں بنی اسماعیل کے لئے یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ مکہ کے جنگل میں شہر آباد ہوجاوے گا تو یہ لوگ یہاں اللہ کی عبادت کریں گے ملت ابراہیمی کے موافق نماز پڑھیں گے لیکن یہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی تمنا کے برخلاف کام کر رہے ہیں اللہ کے گھر میں انہوں نے بت رکھ چھوڑے ہیں اور تمام مکہ میں انہوں نے بت پرستی پھیلا رکھی ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایتیں گزر چکی ٢ ؎ ہیں کہ فتح مکہ کے وقت تین سو ساٹھ بت بیت اللہ کے اندر تھے جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکڑیاں مار مار کر گرایا۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عباس (رض) سے یہ بھی روایت ہے کہ ان مورتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی مورتیں بھی تھیں جن کے ہاتھوں میں مشرکوں نے فال دیکھنے کے تیر دے رکھے تھے۔ اس کو دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ ان مشرکوں کو غارت کرے کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے کبھی تیروں سے فال نہیں دیکھی ٣ ؎ حاصل کلام یہ ہے کہ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ بنی اسماعیل کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں تمنا کیا تھی اور بنی اسماعیل کہلا کر مشرکین مکہ نے اس تمنا کو کیا خاک میں ملایا۔ تفسیر ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں قتادہ کا قول یہی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں بیت المعمور زمین پر کعبہ کی جگہ رکھا گیا اور حضرت نوح کے طوفان کے زمانے میں پھر آسمان پر اٹھ گیا ٤ ؎ زیادہ تفصیل اس کی سورت حج میں آوے گی بیت المعمور ساتویں آسمان پر فرشتوں کا کعبہ ہے جس کا ذکر تفصیل سے سورت والطور میں آوے گا۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٢٣٤ ج ١٣۔ ٢ ؎ جلد ہذا ص ٢٣٥۔ ٢٢٥٤۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٦١٤ ج ٢ باب ابن رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرایۃ یوم الفتح۔ ٤ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٥٤١ ج ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:37) اسکنت۔ اسکان (افعال) سے ماضی واحد متکلم۔ میں نے بسایا۔ سکن مادہ۔ ذریتی۔ میری اولاد۔ ذریۃ مضاف۔ ی ضمیر واحد متکلم۔ مضاف الیہ۔ غیر ذی زرع۔ جس میں کوئی زراعت نہیں۔ جہاں کوئی کھیتی باڑی نہیں۔ لیقیموا الصلوۃ۔ اس لئے کہ وہ نماز کی پابندی کریں۔ افئدۃ۔ فواد کی جمع بمعنی دل۔ افئدۃ من الناس۔ ای افئدۃ من افئدۃ الناس۔ لوگوں کے دلوں میں سے کچھ دل یعنی کچھ لوگ۔ من تبعیض کے لئے ہے۔ تھوی الیہم۔ میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب ذریتی کی طرف راجع ہے۔ ھوی یھوی (باب ضرب) ھوی سے تھوی مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ بمعنی وہ گرتی ہے وہ گرے گی۔ وہ پھینک دیتی ہے وہ پھینک دے گی۔ ھوی کے معنی سرعت سے اوپر سے نیچے گرنے اور جلدی گذر جانے کے ہیں۔ اسی معنی میں ہے تھوی بہ الریح فی مکان سحیق۔ (22:31) ہوا نے اس کو بڑی دور دراز جگہ پھینک دیا (باب سمع) سے ھوی یھوی ھوی۔ بمعنی چاہنا۔ خواہش کرنا۔ جیسے ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس۔ (53:23) یہ لوگ نرے اٹکل پر اور اپنے نفس کی خواہش پر چل رہے ہیں۔ فراء نے تھوی الیہم کے معنی تزیدہم بتایا ہے۔ وہ ان کا ارادہ کریں۔ وہ ان کو چاہیں۔ جیسا کہ بولتے ہیں۔ رایت فلانا یھوی نحرک میں نے فلاں کو تیرا ارادہ کرتے دیکھا ۔ فراء نے تھوی الیہم کے معنی تسوع الیہم کے بھی بتائے ہیں۔ یعنی ان کی طرف تیزی سے آئیں۔ ابن الانباری اس کے معنی تنحط الیہم وتنحدر وتنزل۔ (وہ ان کی طرف فروکش ہوں۔ اتریں۔ نزول کریں) بیان کرتے ہیں۔ یہ ارباب لغت کا بیان ہے ۔ اور مفسرین میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مشتاق ہونے کے معنی کہتے ہیں۔ سدی مائل ہونے کے اور قتادہ تیزی سے روانہ ہونا بتاتے ہیں۔ تھوی کی ضمیر فاعل افئدۃ کی طرف راجع ہے۔ پس فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیہم کا ترجمہ ہوا۔ پس کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 ۔ یعنی خانہ کعبہ کے پاس۔ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی ہے جیسا کہ دعا کے الفاط سے معلوم ہوتا ہے۔ یا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے وحی کے اشارہ سے وہاں حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو بسایا ہو کہ یہاں کعبہ تعمیر ہوگا اور اس بنا پر دعا میں یہ الفاط کہدئے ہوں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ۔ 12 ۔ وہ تیرے اس گھر کا حج اور عمرہ کرنے کے لئے اس کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ” افئدۃ من الناس “ کہا کہ کچھ لوگوں کے دل اس طرف جھک جائیں اور اگر افئدۃ الناس۔ (لوگوں کے دل) کہتے تو ایرانی، رومی الغرض سب لوگ لپکے پڑتے اور مکہ میں جگہ نہ ملتی۔ (ابن کثیر) ۔ 1 ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرمائی، چناچہ ہر سال دنیا بھر کے لاکھوں آدمی مکہ معظمہ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ پھر یہ بھی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اس دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں طرح طرح کے پھل اور غلے وہاں پہنچتے رہتے ہیں حالانکہ خود وہاں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی۔ اس میں اشارہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ اسبابِ دنیا کے حصول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عبادتِ الٰہی کو اپنا مفصد بنائے۔ (رازی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی خانہ کعبہ۔ 7۔ تاکہ آبادی پر رونق ہوجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مزیدد عائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس لیے بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تھا تاکہ حضرت ہاجرہ نماز قائم کریں اور جب اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہوں تو وہ بھی نماز پڑھتے رہیں۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہاں ٹھہرا یا تو اس وقت بیت اللہ کی مقدس جگہ اور بنیادیں موجود تھیں مگر گردش ایام کی وجہ سے بیت اللہ کی عمارت موجود نہ تھی۔ جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ازسرنو تعمیر فرمایا۔ جس کا ذکر البقرۃ کی آیت : ١٢٧ میں ان الفاظ میں ہوا ہے : ” اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا کر رہے تھے تو کہنے لگے اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما یقیناً تو سننے والا جاننے والا ہے۔ “ [ البقرۃ : ١٢٧] ” حضرت ہاجرہ[ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کیا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! تب حضرت ہاجرہ[ نے عرض کی کہ پھر پروردگار ہمیں ہلاک نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ہاجرہ[ واپس آئیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چل دیئے حتی کہ اس پہاڑی پر پہنچے، جہاں سے حضرت ہاجرہ کو دکھائی نہیں دیتے تھے (اسی پہاڑی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تھے) تو ادھر کا رخ کیا جہاں اب کعبہ ہے۔ پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی۔ اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی اولاد ایسے میدان میں چھوڑی دی ہے جہاں کچھ نہیں اگتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جانے کے بعد حضرت ہاجرہ[ اسماعیل (علیہ السلام) کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتی رہیں۔ جب پانی ختم ہوگیا تو خود بھی پیاسی ہوئیں، بچے کو بھی پیاس لگنے لگی دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے تڑپ رہا ہے ذراپیچھے ہٹ کر بیٹھ گئیں کیونکہ بچے کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ دیکھا کہ صفا پہاڑ قریب ہے اس پر چڑھیں شاید کوئی آدمی نظر آئے لیکن کوئی نہیں دکھائی دیا۔ وہاں سے اتریں اور اپنا کرتہ سمیٹ کر نالے کے نشیب میں اس طرح دوڑیں جیسے کوئی مصیبت زدہ دوڑتا ہے۔ نالے کے پار جا کر مروہ پہاڑ پر دوسری جانب چڑھیں۔ وہاں بھی دیکھا، کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ انہوں نے اس طرح چکر لگائے۔ “ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ وا تخذ اللہ ابراہیم خلیلا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری دعا : اے ہمارے رب ! میں اس لیے تیرے گھر کے قریب اپنی اولاد کو ٹھہرائے جارہا ہوں یہ تیری توفیق سے نماز قائم کرتے رہیں، قائم کرنے سے مراد نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ چوتھی دعا : الٰہی ! لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل فرمادے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یہ اللہ کا گھر ہے جو لوگوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ہے۔ اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہاں ٹھہرایا تھا تاکہ آگے چل کر یہ اللہ کے گھر کو آباد کریں۔ اللہ کے گھر کی آبادی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف اس کے ساتھ لوگوں کی محبت اور رغبت ہو بلکہ اس کے آباد کرنے والے لوگوں کے درمیان بھی محبت والفت کا رشتہ قائم ہونا چاہیے۔ جس سے نہ صرف اللہ کا گھر آباد ہوتا ہے بلکہ لوگوں میں امن وامان اور باہمی محبت کی فضا پروان چڑھتی ہے اس طرح اللہ کا گھر آباد ہونے کے ساتھ امت کی وحدت اور اتحاد کا ذریعہ بنتا ہے۔ پانچویں دعا : اللہ کے گھر کو آباد کرنے کے لیے جس طرح اس میں نماز پڑھنا، اس کے آباد کرنے والوں کی آپس میں محبت ہونا لازم ہے، اسی طرح اس کے رہائشی بالخصوص امام اور اس کے لیے ہمہ وقت وقف ہونے والے خدام کے خوردونوش کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہوئے مکہ کے باسیوں کے لیے بھی دعا کی۔ اے میرے رب ! انہیں پھلوں سے رزق عطا فرمانا تاکہ تیرا شکریہ ادا کرتے رہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح قبول فرمایا کہ ہزاروں سال بیت چکے ہیں۔ مکہ میں لوگوں کو نہ صرف رزق مہیا ہو رہا ہے بلکہ ہر سال اناج اور پھلوں کی درآمد میں اضافہ ہی ہوا جارہا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا پھل ہوگا جو وافر مقدار میں مکہ مکرمہ میں موجود نہ ہو۔ اناج اور پھلوں کی فراوانی کا مظاہرہ لاکھوں لوگ ہر سال عمرہ اور حج کے موقعہ پر کرتے ہیں۔ اس دعا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جس کا ہم اظہار کرتے ہیں۔ زمین و آسمان میں کوئی بات اور چیز ایسی نہیں جو تیری نظر سے پوشیدہ ہو۔ یہ الفاظ ادا کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دل کی کیفیت بھی عرض کرتے ہیں جس کے دو مقصد ہوسکتے ہیں کہ الٰہی جو کچھ میں مانگ رہا ہوں اس کا مقصد تو جانتا ہے۔ اس کا مقصد ذاتی غرض نہیں بلکہ دین کی آبیاری ہے۔ اس دعا کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے رب جو کچھ ہمارے تحت الشعور میں پوشیدہ ہے اور ہمارے مستقبل کی ضروریات ہیں تو وہ بھی جانتا ہے۔ اس لیے جو مانگ لیا سومانگ لیا جو نہیں مانگ پایا اپنی جناب سے وہ بھی عطا فرما۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی اور بچے کو بےآب وگیاہ وادی میں بیت اللہ کے پاس چھوڑ آئے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بچے اور بیوی کو اس لیے چھوڑا تاکہ وہ نماز قائم کریں اور بیت اللہ کو آباد کریں۔ ٣۔ اپنی اولاد کے لیے نیکی کی دعا مانگنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اولاد کے نمازی ہونے کے لیے فکر مند ہونا پیغمبرانہ شان ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کیا کہ میں نے اپنی ذریت کو اس وادی میں آپ کے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے جہاں کھیتی نہیں ہے اور ساتھ ہی (لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) بھی کہا تاکہ وہ نماز قائم کریں اس سے نماز قائم کرنے کی اہمیت معلوم ہوئی جو ایمان کے بعد افضل الاعمال ہے نیز معلوم ہوا کہ اپنے اہل و عیال کی نماز کے لیے فکر مند رہنا کہ وہ نماز قائم کریں یہ بھی ایک ضروری بات ہے پھر رکوع کے ختم پر ان کی دعا کا تذکرہ فرمایا ہے کہ انہوں نے بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کیا (رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلوٰۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (کہ اے میرے رب مجھے نماز قائم رکھنے والا رکھیے اور میری ذریت میں سے بھی نماز قائم کرنے والا پیدا فرمائیے) اس سے اقامت صلوٰۃ کی مزید اہمیت کا پتہ چلا بہت سے لوگ خود تو نمازی ہوتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی نماز کے لیے فکر مند نہیں ہوتے بلکہ اولاد کو ایسی جگہوں میں تعلیم دلاتے ہیں جہاں نماز تو کیا ایمان سے بھی محروم ہوجاتے ہیں، اگر کوئی کہتا ہے کہ اپنے بچوں کو قرآن و حدیث کے مدرسہ میں پڑھائیے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ملا تھوڑا ہی بنانا ہے، یہ نہیں سمجھتے کہ بچوں کو دین میں لگانے ہی میں خیریت ہے دین سے اور دین کے فرائض کے جاننے اور عمل کرنے سے محروم رکھا تو یہ ان کا خون کردینا ہے، عام طور سے لوگوں کی ساری شفقت دنیا ہی سے متعلق ہوتی ہے موت کے بعد اولاد کا کیا بنے گا اس کا کچھ دھیان نہیں کرتے، ہماری اولاد دینی مقتدا ہوجائے اس کا فکر کرنا بھی پیغمبرانہ فکر کی بات ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ذریت کے لیے یہ دعا بھی کی کہ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کو دینی مقتدیٰ بنانا بھی ایک اہم مقصد ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اول تو بنی جرہم کو مکہ معظمہ میں بسا دیا انہیں میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی شادی ہوئی پھر ان کی نسل چلی اور بڑھی جن میں خاتم النّبیین سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہیں آپ سارے عالم کے مقتدا ہیں آپ مکہ معظمہ ہی کی سرزمین میں پیدا ہوئے اور وہیں نبوت سے سرفراز ہوئے آپ کی دعوت توحید کا پہلا مرکز مکہ معظمہ ہی تھا آپ سے اور آپ کی اولاد و اصحاب سے سارے عالم میں ایمان پہنچا جن کی طرف پورے عالم کے قلوب متوجہ ہوگئے اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی مقبولیت کا مظاہرہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں یہ بھی ہے کہ (وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ ) کہ انہیں پھلوں میں سے رزق عطا فرمانا تاکہ وہ شکر ادا کریں اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے لیے معاش کا انتظام کرنا اور ان کے لیے رزق کی دعا کرنا یہ بزرگی اور دین داری کے منافی نہیں ہے، اولاد کے دین و ایمان صالحہ کا فکر کرتے ہوئے ان کے معاشی حالات کی فکر کی جائے تو یہ توکل کے خلاف نہیں ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکرگزاری بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے، خود بھی اللہ کے شکر گزار بنیں اور اولاد کو بھی شکر گزار بنانے کی فکر کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ ” لِیُقِیْمُوْا “ اَسْکَنْتُ کے متعلق ہے۔ اور ” رَبَّنَا “ کا اعادہ بعد عہد کی وجہ سے ہے۔ یعنی میں نے اپنی اولاد کو یہاں اس لیے آباد کیا ہے تاکہ وہ تیرے عزت والے گھر کے پاس نماز قائم کریں اور تیرے گھر کو آباد کریں۔ ” تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ ای تمیل الیھم “ اور لوگوں کے دلوں میں ان سے محبت و الفت پیدا کردے تاکہ وہ بھی یہاں آکر ان کے پاس آباد ہوجائیں۔ اور ان کے ارد گرد بستیاں آباد فرما دے جہاں کے لوگ اہل مکہ کے لیے پھل اور میوے اگائیں۔ ” وانما یکوان المراد عمارۃ القری بالقرب منھا لتحصیل تلک الثمار منھا “ (کبیر ج 5 ص 362) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 ۔ اے ہمارے پروردگار میں اپنی اولاد میں سے بعض اولاد کو ایک بےزراعت اور خشک میدان میں تیرے محترم گھر کے پاس آباد کر رہا ہوں اور اور ان کو یہاں بسا رہا ہوں تا کہ یہ لوگ اے ہمارے پروردگار نماز کی پابندی رکھیں لہٰذا ! میں جن کو یہاں بسا رہا ہوں تو ان کی طرف کچھ لوگوں کے قلوب مائل کر دے اور ان کو کھانے کے لئے اپنی قدرت سے پھل عطا کرتا کہ یہ لوگ تیرا شکر ادا کرتے رہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بیوی اور بچے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں بسایا تھا مکہ کے آس پاس کوئی زراعت کی جگہ نہ تھی پابندی نماز کی دعا اس لئے کی کہ عبادات میں نماز خاص اہمیت رکھتی ہے لوگوں کے دلوں کو مائل فرما دے تا کہ وہ یہاں آ کر بسیں ۔ چناچہ قبیلہ جرہم کے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے خانہ کعبہ کی بنیاد پرانی ہے طوفان نوح (علیہ السلام) میں اس گھرکے نشان مٹ گئے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا گھر تھا شام میں حرم سے پیدا ہوئے ایک اسماعیل (علیہ السلام) ان کو ماں کے ساتھ لا کر اس جنگل میں بٹھا کر چلے گئے جہاں پیچھے شہر مکہ بسا اللہ تعالیٰ نے چشمہ زمزم نکالا اس سبب سے وہاں بستی ہوئی اور زمین لائق نہ تھی کھیتی کی اور میرے کی اس کے نزدیک زمین طائف سنوار دی کہ بہتر سے بہتر میوے وہاں ہو ویں اور شہر مکہ میں پہنچیں ۔ 12