Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 39

سورة إبراهيم

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹﴾

Praise to Allah , who has granted to me in old age Ishmael and Isaac. Indeed, my Lord is the Hearer of supplication.

اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق ( علیہا السلام ) عطا فرمائے کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All praise is due to Allah, Who has given me in old age Ismail (Ishmael) and Ishaq (Isaac). Verily, my Lord is indeed the All-Hearer of invocations. `He accepts the supplication of those who invoke Him, and has accepted my invocation when I asked Him to grant me offspring.' رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُوْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ "O my Lord! Make me one who performs Salah, and (also) from my offspring, our Lord! And accept my invocation." "Our Lord! Forgive me and my parents, and (all) the believers on the Day when the reckoning will be established." Ibrahim said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ ۔۔ : ” وَھَبَ یَھَبُ ھِبَۃً “ کا معنی کسی معاوضے کے بغیر عطا کردینا ہے۔ معلوم ہوا اولاد اللہ تعالیٰ کا ہبہ ہے، یہ صرف اسباب جمع ہوجانے سے نہیں ہوتی، ورنہ ہر تندرست جوڑے کے ملنے سے اولاد ہوجاتی، بلکہ یہ محض عطائے الٰہی ہے، وہ بھی اس کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے، چاہے تو لڑکے ہی دے، چاہے لڑکیاں، چاہے دونوں ملا کر دے اور چاہے تو بےاولاد رکھے۔ (مزید دیکھیے الشوریٰ : ٥٠) رازی نے فرمایا، قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دونوں بیٹے بڑی عمر اور بڑھاپے میں عطا کیے گئے، لیکن یہ بات کہ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی معلوم نہیں ہوتی، اس کے لیے صرف اسرائیلی روایات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، چناچہ کہا جاتا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ابراہیم (علیہ السلام) ننانویں (٩٩) برس کے تھے اور اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر ایک سو بارہ (١١٢) برس تھی۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہم اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرسکتے۔ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ : لفظی معنی ہے ” دعا کو بہت سننے والا “ مگر مراد قبول کرنے والا ہے، جیسے کہا جاتا ہے، فلاں کی تو سنی گئی، یعنی مراد پوری ہوگئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ اس آیت کا مضمون بھی اس دعاء کا تکملہ ہے کیونکہ یہ دعا کے آداب میں سے ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی جائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خصوصیت سے اس جگہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا کہ شدید بڑھاپے کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرما کر اولاد صالح حضرت اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔ اس حمد وثنا میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ بچہ جو بےیارومدد گار چٹیل میدان میں چھوڑا ہے آپ ہی کا عطیہ ہے آپ ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے آخر میں حمد وثناء کا تکملہ (آیت) اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ سے کیا گیا یعنی بلاشبہ میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ 39؁ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) تمام حمد اسی کے لیے ہے جس نے بڑھاپے میں مجھے اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) عطا کیے، حقیقت میں میرا رب دعا کا بڑا سننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ ) جب حضرت اسماعیل کی ولادت ہوئی تو حضرت ابراہیم کی عمر 81 برس تھی اور اس کے کئی سال بعد حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی بڑھاپے کے عالم میں ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل ( علیہ السلام) اور سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق ( علیہ السلام) غیر متوقع طور پر عنایت فرمائے۔ اب جس طرح میری پہلی دعا : رب ھب لی من الصالحین۔ “ ( اے میرے پروردگار مجھے نیک اولاد عنایت فرما) قبول فرمائی ہے اسی طرح میری یہ دعا بھی قبول فرما۔ ہوسکتا ہے کہ میری معت کے بعد ان دونوں اور ان کی اولاد ی اعانت فرماتا رہے اسی طرح الحمد اللہ “۔ کی پہلی دعا سے مناسبت بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ (رازی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں ہوئے مزید مانگتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کے خاندان کا مختصر تعارف : حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے اور ایک بچی تھی۔ جس کا نام مؤرخین نے بشامہ لکھا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹوں کے نام ١۔ نیابوط، جن کو عرب نابت کہتے ہیں۔ ٢۔ قید ار حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اس صاحبزادے نے بڑی شہرت حاصل کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قیدار کی نسل عدنان سے پیدا ہوئے۔ ٣۔ ادبایل ٤۔ بمشام ٥۔ سمع۔ ٦۔ دومہ ٧۔ مسا ٨۔ حدود ٩۔ یلتماد ١٠۔ جسطور ١١۔ نفیس ١٢۔ قدمہ (توراۃ پ ٢٥) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی اور اولاد : حضرت سارہ کے انتقال کے بعد آپ نے حضرت قطورا سے نکاح کیا۔ جناب شعیب (علیہ السلام) کا نسب انہی سے ملتا ہے۔ حضرت قطورا سے اولاد : آپ کے بطن سے چھ لڑکے پیدا ہوئے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ١۔ زمران ٢۔ مقسان ٣۔ مدیان ٤۔ مدان ٥۔ اسباق ٦۔ سوخ بنی قطورا میں اہل مدین اور اصحاب الایکہ آتے ہیں۔ جناب شعیب (علیہ السلام) کا تعلق اسی شاخ سے ہے۔ زیادہ مشہور حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ (رض) ہیں اور انہی کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کو نبوت سے نوازا گیا اور ان کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت : تمام مؤرخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ[ کی عمر نوے سال تھی۔ قرآن مجید نے اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ آپ ان کی ضیافت کے لیے ایک بچھڑابھون لائے لیکن انسانی شکل میں آنے والے ملائکہ کھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ تب حضرت نے اپنے آپ میں ایک خوف سا محسوس کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ کیفیت دیکھ کر فرشتوں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے انہیں اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی اور اس کے ساتھ ہی پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خبر بھی دی۔ (وَلَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُنَآ إِبْرَاہِیم بالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ فَلَمَّا رَاآی أَیْدِیَہُمْ لَا تَصِلُ إِلَیْہِ نَکِرَہُمْ وَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لَا تَخَفْ إِنَّآ أُرْسِلْنَا إِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ )[ ھود : ٦٩، ٧٠] ” جب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر پہنچے تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ابراہیم آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا ضیافت کے لیے لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگئے اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ “ بشارت سن کر حضرت سارہ[ مسکرائیں : ” اور آپ کی بیوی (آپ کے) پاس کھڑی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس پڑی، پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف ! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ جب کہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم کے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمان گرامی : ” اے نبی ! آپ ان کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب وہ آئے ابراہیم کے پاس اور کہا سلام ہو تم پر تو ابراہیم نے کہا ہمیں تو آپ سے ڈر لگتا ہے فرشتے کہنے لگے۔ آپ ڈریں نہیں ! ہم آپ کو ذی علم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ابراہیم فرمانے لگے۔ کیا آپ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بشارت دے رہے ہو ؟ “ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے : ” فرشتے کہنے لگے ہم آپ کو برحق خوشخبری دے رہے ہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم نے کہا۔ اپنے رب کی رحمت سے تو گمراہ لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لیے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ دوسرا اس واقعہ میں یہ بتانا مقصود ہے اے اہل مکہ ! یہ حقیقت جان لو کہ تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ وہ نازل ہو کر اس نبی کی تائید کریں۔ تب ہم غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لیے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت ! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو ؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے بظاہر اسباب نہیں تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے عنایت فرمائے۔ اسی طرح حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں اللہ اپنے دین کو ضرور بر ضرور سرفراز فرمائے گا۔ اللہ اسباب کا پابند نہیں۔ اسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ ”(فرشتوں) نے اس ( ابراہیم (علیہ السلام) کو علم والے بچے کی بشارت دی۔ یہ سن کر اس کی بیوی چلاتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اور کہنے لگی بوڑھی بانجھ کو اولاد ہوگی فرشتوں نے کہا، یہی کچھ تمہارے رب نے فرمایا ہے۔ یقیناً وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ “ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا قیام : جناب ابراہیم (علیہ السلام) نے تبلیغ دین کے لیے مراکز قائم فرمائے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن، حضرت ذبیح (علیہ السلام) کو حجاز مقدس اور جناب اسحاق (علیہ السلام) جب بڑے ہوئے تو ان کو شام و فلسطین میں تعینات فرمایا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شام میں پیدا ہوئے اور ایک سو اسی سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ مقام جرون جسے آج کل غرب اردن کہتے ہیں میں آپ ( علیہ السلام) کی آخری آرامگاہ ہے۔ جو فلسطین میں ہے۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کے چند پہلو قرآن حکیم نے ذکر فرمائے ہیں۔ سورة انبیاء میں ارشاد فرمایا، ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کیا کرتے تھے۔ مزید ارشاد ہوا کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی جس میں ہدایت کی گئی کہ نیکی کے کام کریں نماز اور زکوٰۃ ادا کریں۔ آخر میں ارشاد فرمایا۔ وہ ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ ” اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کیا اور یعقوب اس پر مستزاد کہ ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔ حضرت ہاجرہ اور آپ ( علیہ السلام) کے فرزند ارجمند : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری رفیقہ حیات حضرت ہاجرہ[ ہیں۔ جن کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو قرآن مجید نے اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی زندگی سے وابستہ واقعات اور مقامات کو شعائرا اللہ کہہ کر برائے اجروثواب زیارت گاہ بنا دیا اور ان کے صبرورضا کے واقعات کا اس طرح ذکر کیا کہ رہتی دنیا تک ان کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند اکبر ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف تورات میں تحریف ہونے کے باوجود کتاب پیدائش (باب ١٧، ٢٤، ٢٥) میں موجود ہے۔ اس تصریح کے ساتھ کہ اس وقت جناب خلیل (علیہ السلام) کی عمر ٨٦ سال کی تھی جب اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ اور جب حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر ننانوے یا سو سال کی تھا۔ تحقیق کے مطابق آپ کنعان میں پیدا ہوئے اور آپ ( علیہ السلام) نے مکہ معظمہ میں ١٣٧ سال کی عمر میں وفات پائی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد سے نوازا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مستجاب دعائیں : ١۔ اے اللہ مجھے نیک بچہ عطا فرما۔ (الصٰفٰت : ١٠٠) ٢۔ اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں مسلمان بنا دے اور ہماری نسل میں سے فرمانبردار امت پیدا فرما۔ (البقرۃ : ١٣٨) ٤۔ اے ہمارے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔ اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ (ابراہیم : ٤٠) ٥۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے قریب ٹھہرایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں لوگوں کے دل ان کی طرف مائل فرما دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (ابراہیم : ٣٧) ٦۔ اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ فرما۔ (ابراہیم : ٣٥) ٧۔ اے پروردگار ! مجھے علم و دانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل فرما۔ (الشعراء : ٨٣) ٨۔ اے اللہ ! مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث بنا۔ (الشعراء : ٨٥) ٩۔ اے اللہ انھی میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات تلاوت کرے انھیں کتاب و حکمت سکھلائے۔ (البقرۃ : ١٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ تمام صفات کارسازی اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں جس نے بڑھاپے میں مجھے دو بیٹے اسمعیل اور اسحاق عطا فرمائے۔ ” رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ “ میرے پروردگار ! مجھے بھی نماز کا پابند رکھ اور ہر زمانے میں میری اولاد میں ایسے لوگ پیدا کر جو نماز کے پابند ہوں اس سے نماز کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور حقیقت میں تقرب الٰہی کا اعمال میں سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 ۔ تمام تعریفیں اور تمام حمد و ثنا اس اللہ تعالیٰ کو سزا وار ہے جس نے بڑھاپے میں مجھ کو اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) عطا فرمائے۔ بلا شبہ میرا پروردگار کا بڑا سننے والا ہے۔ حضرت حق کی مہربانیوں کا اعتراف کیا تا کہ دعا کی قبولیت کے لئے مفید ہو۔