Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 41

سورة إبراهيم

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿۴۱﴾٪  18

Our Lord, forgive me and my parents and the believers the Day the account is established."

اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی جس دن حساب ہونے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ ... Our Lord! Forgive me and my parents, Ibrahim said this before he declared himself innocent from his father, after he became sure that he was an enemy of Allah, ... وَلِلْمُوْمِنِينَ ... and the believers, all of them, ... يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ on the Day when the reckoning will be established. on the Day when You will reckon Your servants and recompense or reward them for their deeds - good for good and evil for evil.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی ان پر اپنے ماں باپ کا عَدُوُّاللّٰہِ ہونا واضح نہیں ہوا تھا، جب یہ واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اظہار سبکدوشی کردیا۔ اس لئے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہیں چاہے وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] سیدنا ابراہیم کی اپنے والدین کے حق میں معافی کی دعا یا تو مشرک کے لیے دعائے مغفرت سے امتناع سے پہلے کی ہے اور یا اپنے باپ سے اس وعدہ کی بنا پر ہے جو آپ نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے والد سے کیا تھا جس کا ذکر سورة توبہ کی آیت نمبر ١١٤ میں گزر چکا ہے تاہم یہ دعا اس قدر جامع ہے جو ہر مسلمان کو اپنے والدین کے حق میں مانگتے رہنا چاہیے۔ اور اسی اہمیت کے پیش نظر ہر نماز میں درود کے بعد اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگی جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ۔۔ : والد کے لیے بخشش کی دعا وہ وعدہ پورا کرنے کے لیے تھی جو انھوں نے گھر سے نکلتے وقت اس سے کیا تھا، مگر جب وہ شرک ہی پر فوت ہوگیا اور اللہ سے اس کی دشمنی ختم ہونے کی امید ہی نہ رہی تو وہ اس سے صاف بری ہوگئے۔ (دیکھیے توبہ : ١١٤) رہی اپنی والدہ کے لیے دعا تو شاید وہ پہلے ہی مسلمان ہوچکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق تفصیل سے کچھ بیان نہیں فرمایا۔ تمام مومنین کے حق میں مغفرت کی دعا نوح (علیہ السلام) (نوح : ٢٨) سے لے کر ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بخاری : ٧٥١٠) تک انبیاء اور اہل ایمان کرتے چلے آئے ہیں۔ (دیکھیے حشر : ١٠)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

آخر میں ایک جامع دعاء فرمائی (آیت) رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤ ْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَاب یعنی اے ہمارے پروردگار میری اور میرے والدین کی اور تمام مؤمنین کی مغفرت فرما اس دن جب کہ محشر میں تمام زندگی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس میں والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائی حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے ہوسکتا ہے کہ یہ دعاء اس وقت کی ہو جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کافروں کی سفارش اور دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا تھا جیسے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے (آیت) وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ۔ احکام و ہدایات : آیات مذکورہ سے دعاء کے آداب یہ معلوم ہوئے کہ بار بار الحاح وزاری کے ساتھ کی جائے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بھی کی جائے اس طرح دعاء کی قبولیت کی بڑی امید ہوجاتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ 41؀ۧ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) اور میری اور میرے ماں باپ اور تمام مسلمانوں مرد وعورتوں کی مغفرت فرمائیے جس دن کہ حساب قائم ہوگا اور نیکیوں اور برائیوں کا وزن کیا جائے گا، سوجوس کی نیکیاں غالب ہوں گی تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کی برائیاں غالب ہوں گی، اس کے لیے دوزخ ہے اور جس کی نیکیاں غالب ہوگی تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کی برائیاں غالب ہوں گی، اس کے لیے دوزخ ہے اور جس کی نیکیاں اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی وہ اہل اعراف سے ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. Prophet Abraham (peace be upon him) included his mushrik father in his prayer because he had made promise that he would pray to his Lord for his forgiveness (Surah Maryam, Ayat 48). But afterwards, when he realized that he should not pray for his forgiveness because he was an enemy of Allah, he absolved himself of that promise. (Surah At-Tauba, Ayat 114).

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :53 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو انہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ ، ( مریم ۔ آیت ٤۷ ) ۔ مگر بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اس سے صاف تبری فر ما دی ۔ ( التوبہ ۔ آیت ۱۱٤ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ آزر تو کافر تھا اس کے لیے آپ نے مغفرت کی دعا کیسے فرمائی جواب یہ ہے کہ جس وقت یہ دعا فرمائی ہوسکتا ہے کہ اس کے کفر کی حالت میں مرنے کی آپ کو خبر نہ ہوئی ہو۔ لہذا دعا کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو ایمان کی توفیق مل جائے۔ جو اس کے لیے مغفرت کا سبب ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک آپ کو مشرک باپ کے لیے دعا کرنے سے منع نہ فرمایا گیا ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ شریعت میں ظلم کا لفظ شرک اور کبیرہ گناہ دونوں معنوں میں بولا جاتا ہے چناچہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند امام احمد ترمذی اور نسائی میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب سورت انعام کی آیت { الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم } [٦: ٨٢] نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو بڑا اندیشہ ہوا اور صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ حضرت ہم میں ایسا کون شخص ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا اور طرح طرح کے گناہ نہیں کرتا آپ نے فرمایا اس آیت میں ظلم کے معنے شرک کے ہیں لیکن صحابہ نے ظلم کے معنے گناہ کے جو سمجھے تھے اس کی ایک طرح سے آپ نے تائید فرمائی کہ سورت لقمان کی آیت { ان الشرک لظلم عظیم } [٣١: ١٣] پڑھ کر صحابہ کو ١ ؎ سنائی جس سے معلوم ہوا کہ شرک بڑا ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے کھانے پینے اور سب ضروریات کی چیزوں کو پیدا کیا اور انسان ظالم یہ ظلم کرتا ہے کہ بغیر کسی استحقاق کے غیروں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرتا ہے۔ عبادت نام ہے نہایت درجہ کی تعظیم کرنا اس سے بڑھ کر کونسا ظلم دنیا میں ہوسکتا ہے اس طرح اپنے پیدا کرنے والے کے خلاف مرضی کوئی کام کرنا یہ بھی ظلم تو ہے مگر پہلے ظلم سے چھوٹا ہے اس واسطے شریعت میں یہ حکم رکھا گیا ہے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا اور اگر بغیر توبہ کے ایسا کوئی شخص مرجاوے جو مشرک تو نہ ہو لیکن کبیرہ گناہوں کا گنہگار ہو تو ایسے شخص کے گناہوں کے معانی کی امید شریعت میں اللہ کی ذات سے رکھی گئی ہے غرض اوپر کی صحیح حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر قرار دینے سے حاصل معنے ان آیتوں کے یہ ہیں کہ مشرک کے شرک اور گنہگاروں کے گناہ کی سزا فوراً دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نہیں دیتا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے بیخبر ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ سزا کا ایک دن اللہ نے ٹھہرا رکھا ہے اس دن جو ہونا ہے وہ ہوجاوے گا اس لئے اس دن کے آنے سے پہلے اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذرا لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ اس دن غافل لوگ دنیا کی فرصت اور فراغت کے وقت کو بہت یاد کریں گے اور وہ یاد کرنا ان کے کچھ کام نہ آوے گا جو شرک یا گنہگاری کے سبب سے حق اللہ میں فتور ڈال کر اپنے نفس پر ظلم کرتے اور اس ظلم کے سبب سے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا سزاوار ٹھہراتے ہیں یہ تو ان کا حال ہوا اب بعضے وہ لوگ ہیں جو شرک سے بچنے اور نماز روزہ کے ادا کرنے میں حق اللہ کے تو پابند ہیں مگر مخلوق الٰہی کو طرح طرح کی ایذا دیتے ہیں یہ حق العباد کا ظلم کہلاتا ہے اس طرح کے ظلم کی سزا کا ذکر جو صحیح حدیثوں میں ہے اس کے پڑھنے سے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے ظالم لوگ تمام عمر عقبیٰ کے لئے نیکیاں کمائیں گے اور پھر عقبیٰ میں خالی ہاتھ رہ جاویں گے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ (رض) سے پوچھا کہ مفلس کس شخص کو کہتے ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت ہم لوگ تو مفلس اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو آپ نے فرمایا اصل مفلس وہ شخص ہے کہ جس کے نامہ اعمال میں قیامت کے دن نماز روزہ سب کچھ ہوگا لیکن اس شخص نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر بہتان لگایا ہوگا کسی کو جان سے مارا ہوگا کسی کا مال دبا لیا ہوگا اس لئے اس کی نیکیوں کا ثواب مظلوموں کو مل جاوے گا اور نیکیوں کا ثواب کم رہے گا تو مظلوم لوگوں کی بدیاں اس کے ذمہ پڑجاویں گی اور یہ شخص خالی ہاتھ دوزخ میں جا پڑے گا۔ ٢ ؎ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٦٦، ٧٠٤ ج کتاب التفسیر و تفسیر ابن کثیر ص ١٥٢ ج ٢۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٣٠ ج ٢ فصل نے ذکر الحساب۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے وطن سے ہجرت کے وقت اپنے والد سے کہا تھا۔ “ ساستغفرلک ربی (میں تیرے لئے اپنے رب سے بخشش چاہوں گا) ۔ اس لئے اس دعا میں انہوں نے اپنے والد کو شریک کرلیا۔ لیکن بعد میں جب انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے قطعی بیزاری کا اعلان کردیا۔ (دیکھئے سورة توبہ آیت 411) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی قیامت کے دن۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مزید دعائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ برا سلوک کرنے کے باوجود باپ کے لیے بخشش کی دعا کا وعدہ : ” ابراہیم کا تذکرہ کیجیے یقیناً وہ سچا نبی تھا جب انھوں نے اپنے باپ سے کہا ابا جان آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکتے ہیں ابا جان مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا میری فرمانبرداری کیجیے میں آپ کو سیدھی راہ پر چلاؤں گا۔ ابا جان شیطان کی پرستش نہ کیجیے یقیناً شیطان اللہ کا نافرمان ہے۔ ابا جان مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب آپکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں۔ اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے مجھے برگشتہ کرتا ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ ابراہیم نے کہا آپ پر سلامتی ہو میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا یقیناً وہ مجھ پر مہربان ہے۔ “ (مریم : ٤١ تا ٤٧) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا باپ کے حق میں قبول نہیں ہوئی : باپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دے کر گھر سے نکال باہر کیا کہ میری آنکھوں سے دور ہوجا ورنہ میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ اس کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کی ضرور دعا کروں گا۔ (مریم : ٤٦ تا ٤٨) جس کے نتیجہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) محشر کے دن اپنے رب کے حضور فریاد کریں گے لیکن ان کی فریاد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے اس بات کی یوں بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اے امت مسلمہ کے لوگو ! تمہارے لیے ابراہیم کا ہر عمل نمونہ ہے سوائے اس کے جو انھوں نے اپنے باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا۔ (الممتحنۃ : ٤) ماں باپ اور نیک لوگوں کے لیے دعا کرنے کا حکم : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا باپ کے حق میں اس لیے قبول نہ ہوگی کہ وہ مشرک تھا۔ قرآن مجید نے مشرک کے حق میں بخشش کی دعا کرنے سے منع کیا ہے۔ البتہ مواحد والدین اور مواحد فوت شدگان کے لیے بخشش کی دعا کرنا انبیاء کی سنت، نیک لوگوں کا طریقہ اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے والدین اور فوت شدگان کے لیے دعا : ” اے میرے پروردگار ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان دار میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور عورتوں کو معاف فرما اور ظالموں کی تباہی میں مزید اضافہ فرما۔ “ [ نوح : ٢٨] نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فوت شدگان کے لیے دعا : (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗٓ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ الاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِےَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْ لَہٗ ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہٖ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے فوت ہونے سے اس کے عمل کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ان تین چیزوں کے علاوہ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایساعلم جس سے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔ “ (وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بالإِْیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا رَبَّنَآ إِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ)[ الحشر : ١٠] ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دل میں کینہ ایمان داروں کے متعلق پیدا نہ فرما اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ مسائل ١۔ پروردگار سے اپنے لیے بخشش کی دعا مانگنی چاہے۔ ٢۔ والدین اور مومنین کے لیے بھی بخشش طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن موحّدفوت شدگان کے لیے مغفرت کی دعا : ١۔ اے ہمارے پروردگار مجھے، میرے والدین اور مومنوں کو بخش دے۔ (ابراہیم : ٤١) ٢۔ نوح نے کہا اے میرے پروردگار مجھے بخش دے اور میرے والدین کو اور مومن مردوں اور عورتوں کو (نوح : ٢٨) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخشے دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے۔ (الحشر : ١٠) ٤۔ ابراہیم نے کہا میرے باپ کی مغفرت فرما یقیناً وہ گمراہوں میں سے تھا۔ (الشعراء : ٨٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ انبیاء (علیہم السلام) بارگاہ الٰہی میں انتہائی تقرب کے باعث اپنی معمولی لغزشوں اور بھول چوک کو بھی گناہ سمجھتے۔ ابراہیم (علیہ السلام) ایسی ہی معمولی لغزشوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہے ہیں۔ والدین سے آدم و حواء (علیہما السلام) مراد ہیں اور اگر حقیقی والدین مراد ہوں تو یہ دعاء ان کے ایمان سے مایوسی اور نہی ربانی سے قبل کی ہوگی ای اٰدم وحواء او قالہ قبل النھی والیاس عن ایمان ابویہ (مدارک ج 2 ص 204) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

41 ۔ اے ہمارے پروردگار ! محاسبہ اعمال کے دن مجھ کو اور میرے والدین کو اور سب ایمان والوں کو بخش دیجئو ۔ یعنی جس دن حساب قائم ہو اور محاسبہ اعمال کا دن ہو تو اس دن تیری طرف سے یہ بخشش کا سامان ہو۔