Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 43

سورة إبراهيم

مُہۡطِعِیۡنَ مُقۡنِعِیۡ رُءُوۡسِہِمۡ لَا یَرۡتَدُّ اِلَیۡہِمۡ طَرۡفُہُمۡ ۚ وَ اَفۡئِدَتُہُمۡ ہَوَآءٌ ﴿ؕ۴۳﴾

Racing ahead, their heads raised up, their glance does not come back to them, and their hearts are void.

وہ اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑ بھاگ کر رہے ہونگے خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں نہ لوٹیں گی اور ان کے دل خالی اور اڑے ہوئے ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مُهْطِعِينَ ... hastening forward, in a hurry. Allah said in other Ayat, مُّهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ Hastening towards the caller. (54:8) يَوْمَيِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِىَ لاَ عِوَجَ لَهُ On that Day mankind will follow strictly Allah's caller, no crookedness will they show him.) (20:108) until, وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَىِّ الْقَيُّومِ And (all) faces shall be humbled before the Ever Living, the Sustainer. (20:111) Allah said: another Ayah, يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الاٌّجْدَاثِ سِرَاعاً The Day when they will come out of the graves quickly. (70:43) Allah said next, ... مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ ... with necks outstretched, meaning, raising their heads up, according to Ibn Abbas, Mujahid and several others. Allah said next, ... لااَ يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ... their gaze returning not towards them, meaning, their eyes are staring in confusion, trying not to blink because of the horror and tremendous insights they are experiencing, and fear of what is going to strike them, we seek refuge with Allah from this end. This is why Allah said, ... وَأَفْيِدَتُهُمْ هَوَاء and their hearts empty. meaning, their hearts are empty due to extreme fear and fright. Qatadah and several others said that; the places of their hearts are empty then, because the hearts will ascend to the throats due to extreme fear.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 مھطعین۔ تیزی سے دوڑ رہے ہونگے۔ دوسرے مقام پر فرمایا، مھطعین الی الداع۔ القمر بلانے والے کی طرف دوڑیں گے اور حیرت سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہونگے۔ 43۔ 2 جو ہولناکیاں وہ دیکھیں گے اور جو فکر اور خوف اپنے بارے میں انھیں ہوگا، ان کے پیش نظر ان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لئے بھی پست نہیں ہونگی اور کثرت خوف سے ان کے دل گرے ہوئے اور خالی ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” مُهْطِعِيْنَ “ تیز دوڑنے والے۔ ” أَھْطَعَ یُھْطِعُ “ (افعال) کا معنی ہے تیز دوڑنا۔ یہ لفظ سورة قمر (٨) اور سورة معارج (٣٦) میں بھی انھی معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی قبروں سے نکل کر صور کی آواز کی طرف تیزی سے اس طرح دوڑ کر جا رہے ہوں گے کہ سر اوپر کی طرف اٹھے ہوئے اور آنکھیں کھلی، ٹکٹکی بندھی ہوگی۔ ” مُقْنِعِيْ “ یہ لفظ اصل میں باب افعال سے مذکر اسم فاعل ” مُقْنِعِیْنَ “ تھا، ” رُءُوْسِهِمْ “ کی طرف مضاف ہونے سے نون گرگیا، اس کا معنی ہے دائیں بائیں دیکھے بغیر اوپر کو سر اٹھانا، بعض نے اس کا معنی سر جھکانا بھی کیا ہے۔ (طنطاوی) ” أَفْءِدَۃٌ“ ” فُوَادٌ“ کی جمع ہے، بمعنی دل۔ ” مُقْنِعِيْ “ کا معنی ہے خالی، یعنی ان کے دل گھبراہٹ کی وجہ سے سوچ سمجھ سے خالی ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (43), it has been said that the postponement of sudden punishment against these unjust people is not any better for them because, ultimately, they will be seized in the great punishment of the Qiyamah and the &Akhirah which will overtake them all of a sudden. The details of this punishment in the life to come and the horrendous happenings to be experienced there keep appearing right upto the end of the verse: لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ‌ A day when the eyes shall remain upraised (in terror). مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُ‌ءُوسِهِمْ They shall be rushing with their heads raised upward. لَا يَرْ‌تَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْ‌فُهُمْ Their eyes shall not return towards them. وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ , And their hearts shall be hollow. After the shape of things to come upon them has been stated, the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who has been asked to warn his people of the punishment of that day, the day on which the unjust and the wrong-doing will have no choice but to call their Lord for some more time to return to the world they knew so that they could say yes to the call of prophets and follow them this time and may thereby have their deliver¬ance from this punishment. The answer to their request will come from Allah Ta’ ala wherein it will be said: This is what you are saying now. Is it not that you had been giving sworn statements to the effect that your wealth and power shall never part with you, and that you shall go on liv¬ing in the world just like that, in comfort and luxury, forever; and is it not that you had rejected the idea that you will live again and that there was a world hereafter?

مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ یعنی خوف وحیرت کے سبب سر اوپر اٹھائے ہوئے بےتحاشا دوڑ رہے ہوں گے (آیت) لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ ان کی پلکیں نہ جھپکیں گی وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ ان کے دل خالی بدحواس ہوں گے۔ یہ حالات بیان کرنے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ آپ اپنی قوم کو اس دن کے عذاب سے ڈرائیے جس میں ظالم اور مجرم لوگ مجبور ہو کر پکاریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں کچھ اور مہلت دیدیجئے یعنی پھر دنیا میں چند روز کے لئے بھیج دیجئے تاکہ ہم آپ کی دعوت قبول کرلیں اور آپ کے رسولوں کا اتباع کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی درخواست کا یہ جواب ہوگا کہ اب تم یہ کہہ رہے ہو کیا تم نے اس سے پہلے یہ قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ ہماری دولت و شوکت کو زوال نہ ہوگا ہم ہمیشہ دنیا میں یونہی عیش و عشرت میں رہیں گے اور دوبارہ زندگی اور عالم آخرت کا انکار کیا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43؀ۭ هطع هَطَعَ الرجل ببصره : إذا صوّبه، وبعیر مُهْطِعٌ:إذا صوّب عنقه . قال تعالی: مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم/ 43] ، مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر/ 8] . ( ھ ط ع ) ھطع الرجل ببصرہ کے معنی ہیں اس نے نظر جماکر دیکھا اور گردن اٹھا کر چلنے والے اونٹ کو بعیر مھطع کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم/ 43] ( اور لوگ ) سر اٹھائے ہوئے ( میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے ۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ نہ سکیں گی ۔ مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر/ 8] اس بلانے والے کی طرف دوڑتے جاتے ہوں گے قْنَعَ رأسه : رفعه . قال تعالی: مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم/ 43] وقال بعضهم : أصل هذه الکلمة من الْقِنَاعِ ، وهو ما يغطّى به الرّأس، فَقَنِعَ ، أي : لبس القِنَاعَ ساترا لفقره کقولهم : خفي، أي : لبس الخفاء، وقَنَعَ : إذا رفع قِنَاعَهُ کاشفا رأسه بالسّؤال نحو خفی إذا رفع الخفاء، ومن الْقَنَاعَةِ قولهم : رجل مَقْنَعٌ يُقْنَعُ به، وجمعه : مَقَانِعُ. ( ق ن ع ) القناعۃ اقنع راسہ اس نے اپنے سر کو انچا کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم/ 43] سر اٹھائے ہوئے بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قناع سے مشتق ہے اور قناع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سر ڈھانکا جائے اس سے قنع ( س ) کے معنی ہیں اس نے اپنے فقر کو چھپانے کے لئے سر پر قناع اوڑھ لیا اور قنع ( ف ) کے معنی سوال کرنے کے لئے سر کھولنے کے ہیں جیسا کہ خفی ( س) کے معنی چھپنے اور خفٰی کے معنی خفاء کو دور کرنے یعنی ظاہر ہونے کے ہیض اور رجل مقتنع کا محاورہ قناعۃ سے ہے یعنی وہ آدمی جس کی شہادت کو کافی سمجھا جائے اس کی جمع مقانع طرف طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] ( ط رف ) الطرف کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ هوى وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية ( ھ و ی ) الھوی الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) اور وہ بلانے والے کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف دوڑتے ہوں گے اپنے سروں کو ہلاتے ہوئے یا اوپر اٹھاتے ہوئے ہوں گے یا یہ کہ اپنی گردنوں کو بلند کیے ہوئے ہوں گے، شدت، گھبراہٹ اور خوف کے مارے انکی نظران کی طرف ہٹ کر نہ آئے گی اور ان کے دل ہر ایک نیکی سے بالکل خالی ہوں گے یا یہ بالکل بدحواس ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ) خوف اور دہشت کے سبب نظریں ایک جگہ جم کر رہ جائیں گی اور ادھر ادھر حرکت کرنا بھی بھول جائیں گی۔ یہ میدان حشر میں لوگوں کی کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. This graphic picture depicts the horrible plight of the wrongdoers on the Day of Reckoning. When they will realize the situation, they will be so taken aback that they will have their looks fixed straight in front of them without seeing anything.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :54 یعنی قیامت کا جو ہولناک نظارہ ان کے سامنے ہوگا اس کو اس طرح ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں ، نہ پلک جھپکے گی ، نہ نظر ہٹے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: یعنی جو ہولناک انجام ان کے سامنے ہوگا۔ اس کی وجہ سے وہ ٹکٹکی باندھ کر ایک ہی طرف دیکھ رہے ہوں گے اور پلک جھپکانے کی جو صلاحیت دنیا میں تھی وہ ان کے پاس اس وقت واپس نہیں آئے گی

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:43) مھطعین : اسم فاعل جمع مذکر۔ مھطع واحد۔ اھطاع (افعال) مصدر۔ سرجھکائے تیزی سے دوڑنے والے۔ مطھع عاجزی اور ذلت سے نظر نہ اٹھانے والا۔ بلانے والے کی طرف خاموشی سے چلا جانے والا۔ گردن دراز کر کے نظر جمائے تیزی سے چلنے والا۔ مقنعی۔ اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ مضاف۔ اصل میں مقنعین تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون گرگیا۔ اقناع (افعال) سے مصدر قنع مادہ۔ اٹھانے والے۔ اٹھائے ہوئے۔ اقنع رأسہ۔ اس نے اپنے سر کو اونچا کیا۔ مقنعی رؤسہم۔ اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے۔ لا یرتد۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب ۔ نہیں لوٹے گی۔ ضمیر فاعل کا مرجع طرفہم ہے۔ ان کی نگاہ۔ ان کی آنکھ ۔ یعنی ان کی آنکھ جھپک تک نہ سکے گی۔ ھوائ۔ اسم۔ خالی۔ خوف کے سبب سمجھ سے خالی۔ اصل میں ھواء اس فضاء اور خلاء کو کہتے ہیں۔ جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے لیکن محاورہ میں قلب کی صفت واقع ہوتی ہے۔ اور جو ڈرپوک ہو جرأت مند نہ ہو۔ اس کو قلب ھواء کہتے ہیں افئدتہم ھواء ۔ ان کے دل ہوا ہو رہے ہوں گے۔ اس آیۃ میں یوم حشر کی ہولناکی اور دہشت انگیزی کا منظر بیان ہوا ہے یعنی لوگ گردن آگے کو بڑھائے خوف وہراس سے ٹکٹکی لگائے دوڑے جا رہے ہوں گے۔ سر اوپر کو شدت اضطراب سے اٹھے ہوئے ہوں گے۔ اور آنکھیں پتھرائی ہوں گی کہ پلکیں اوپر اٹھی ہوئی ہیں تو وہاں ہی جم کر رہ جائے گی۔ اور نیچے واپس نہ آسکیں گی۔ اور دل ہوا ہوئے جارہے ہوں گے۔ اور اس حالت میں لوگ موقف حساب کی طرف دوڑ رہے ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 ۔ لوگ اپنے سر اوپر اٹھائے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے ان کی نگاہیں خود ان کی طرف بھی نہ پھرتی ہوں گی اور ان کے دل عقل و فہم اور ہوش و خرد سے یکسر خالی ہوں گے۔ یعنی سر اٹھاتے بھاگ رہے ہوں گے کسی طرف کا دھیان نہ ہوگا حتیٰ کہ اپنی بھی خبر نہ ہوگی نگاہ کی یہ حالت کہ ٹکٹکی بندھی ہوئی ہوگی دل ہوا ہو رہے ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قیامت کے دن آسمان کے دروازے کھل کر فرشتے لگیں گے اترنے اور لوگوں کو پکڑ کر عذاب کرنے اس ہول سے سب کی آنکیں اوپر لگ جائیں گی اور نیچے دیکھنے کی فرصت نہ ہوگی ۔ 12 ہوسکتا ہے کہ یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو اور آپ کی امت کو سنانا مقصود ہو۔