Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 44

سورة إبراهيم

وَ اَنۡذِرِ النَّاسَ یَوۡمَ یَاۡتِیۡہِمُ الۡعَذَابُ فَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رَبَّنَاۤ اَخِّرۡنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ نُّجِبۡ دَعۡوَتَکَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ ؕ اَوَ لَمۡ تَکُوۡنُوۡۤا اَقۡسَمۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ مَا لَکُمۡ مِّنۡ زَوَالٍ ﴿ۙ۴۴﴾

And, [O Muhammad], warn the people of a Day when the punishment will come to them and those who did wrong will say, "Our Lord, delay us for a short term; we will answer Your call and follow the messengers." [But it will be said], "Had you not sworn, before, that for you there would be no cessation?

لوگوں کو اس دن سے ہوشیار کر دے جب کے ان کے پاس عذاب آجائے گا ، اور ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں بہت تھوڑے قریب کے وقت تک کی ہی مہلت دے کہ ہم تیری تبلیغ مان لیں اور تیرے پیغمبروں کی تابعداری میں لگ جائیں کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لئے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There will be no Respite after the Coming of the Torment Allah said next to His Messenger, وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُواْ ... And warn mankind of the Day when the torment will come unto them; then the wrongdoers will say: Allah mentions what those who committed injustice against themselves will say when they witness the torment... , ... رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ... Our Lord! Respite us for a little while, we will answer Your call and follow the Messengers! Allah said in other Ayat, حَتَّى إِذَا جَأءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ Until, when death comes to one of them, he says: "My Lord! Send me back." (23:99) and, يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاأَ تُلْهِكُمْ أَمْوَلُكُمْ O you who believe! Let not your properties divert you. (63:9-10) Allah described the condition of the wrongdoers on the Day of Gathering, when He said, وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ And if you only could see when the criminals shall hang their heads. (32:12) وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا If you could but see when they will be held over the Fire! They will say: "Would that we were but sent back (to the world)! Then we would not deny the Ayat of Our Lord. .."! (6:27) and, وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا Therein they will cry. (35:27) Allah refuted their statement here, ... أَوَلَمْ تَكُونُواْ أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ Had you not sworn aforetime that you would not leave.) Allah says, `Had you not vowed before, that your previous state will not change, that there will be no Resurrection or Reckoning! Therefore, taste this torment because of what you vowed before.' Mujahid commented that, مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ (that you would not leave), refers to leaving this worldly life to the Hereafter. Allah also said, وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللَّهُ مَن يَمُوتُ And they swear by Allah with their strongest oaths, that Allah will not raise up him who dies. (16:38) Allah said next, وَسَكَنتُمْ فِي مَسَـاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الاَمْثَالَ   Show more

عذاب دیکھنے کے بعد ظالم اور ناانصاف لوگ اللہ کا عذاب دیکھ کر تمنائیں کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمیں ذرا سی مہلت مل جائے کہ ہم فرمابرداری کرلیں اور پیغمبروں کی اطاعت بھی کرلیں ۔ اور آیت میں ہے موت کو دیکھ کر کہتے ہیں آیت ( رب ارجعون ) اے اللہ اب واپس لوٹا دے الخ یہی مضمون آیت ( يٰٓاَي... ُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ Ḍ۝ ) 63- المنافقون:9 ) میں ہے یعنی اے مسلمانوں تمہیں تمہارے مال اولاد یاد الہٰی سے غافل نہ کر دیں ۔ ایسا کرنے والے لوگ ظاہری خسارے میں ہیں ۔ ہمارا دیا ہوا ہماری راہ میں دیتے رہو ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت آرزو کرنے لگو کہ مجھے ذرا سی مہلت نہیں مل جائے تو میں خیرات ہی کر لوں اور نیک لوگوں میں مل جاؤں ۔ یاد رکھو اجل آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی اور اللہ تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے ۔ محشر میں بھی ان کا یہی حال ہوگا ۔ چنانچہ سورہ سجدہ کی آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِم 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) میں ہے کہ کاش کے تم گنہگاروں کو دیکھتے کہ وہ اپنے پروردگار کے روبرو سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک بار دنیا میں پھر بھیج دے کہ ہم یقین والے ہو کر نیک اعمال کرلیں ۔ یہی بیان آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀ ) 6- الانعام:27 ) اور آیت ( وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) وغیرہ میں بھی ہے ۔ یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ تم تو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ تمہاری نعمتوں کو زوال ہی نہیں قیامت کوئی چیز ہی نہیں مر کر اٹھنا ہی نہیں اب اس کا مزہ چکھو ۔ یہ کہا کرتے تھے اور خوب مضبوط قسمیں کھا کھا کر دوسروں کو بھی یقین دلاتے تھے کہ مردوں کو اللہ زندہ نہ کرے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم دیکھ چکے کہ تم سے پہلے کے تم جیسوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ؟ ان کی مثالیں ہم تم سے بیان بھی کر چکے کہ ہمارے عذابوں نے کیسے انہیں غارت کر دیا ؟ باوجود اس کے تم ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور چوکنا نہیں ہوتے ۔ یہ گو کتنے ہی چلاک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے سامنے کسی کی چالاکی نہیں چلتی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جس نے جھگڑا کیا تھا اس نے دو بچے گدھ کے پالے جب وہ بڑے ہو گئے ۔ جوانی کو پہنچے قوت والے ہو گئے تو ایک چھوٹی سی چوکی کے ایک پائے سے ایک کو باندھ دیا دوسرے سے دوسرے کو باندھ دیا انہیں کھانے کو کچھ نہ دیا خود اپنے ایک ساتھی سمیت اس چوکی پر بیٹھ گیا اور ایک لکڑی کے سرے پر گوشت باندھ کر اسے اوپر کو اٹھایا بھوکے گدھ وہ کھانے کے لئے اوپر کو اڑے اور اپنے زور سے چوکی کو بھی لے اڑے اب جب کہ یہ اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ ہر چیز انہیں مکھی کی طرح کی نظر آنے لگی تو اس نے لکڑی جگا دی اب گوشت نیچے دکھائی دینے لگا اس لئے جانوروں نے پر سمیٹ کر گوشت لینے کے لئے نیچے اترنا شروع کیا اور تخت بھی نیچا ہونے لگا یہاں تک کہ زمین تک پہنچ گیا پس یہ ہیں وہ مکاریاں جن سے پہاڑوں کا زوال بھی ممکن سا ہو جائے ۔ عبداللہ کی قرأت میں کاد مکرہم ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت بھی یہی ہے یہ قصہ نمرود کا ہے جو کنعان کا بادشاہ تھا اس نے اس حیلے سے آسمان کا قبض چاہا تھا اس کے بعد قبطیوں کے بادشاہ فرعون کو بھی یہی خبط سمایا تھا بڑا بلند منارہ تعمیر کرایا تھا لیکن دونوں کی ناتوانی ضعیفی اور عاجزی ظاہر ہو گئی ۔ اور ذلت و خواری پستی و تنزل کے ساتھ حقیر و ذلیل ہوئے ۔ کہتے ہیں کہ جب بخت نصر اس حیلہ سے اپنے تخت کو بہت اونچا لے گیا یہاں تک کہ زمین اور زمین والے اس کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اسے ایک قدرتی آواز آئی کہ اے سرکش طاغی کیا ارادہ ہے ؟ یہ ڈر گیا ذرا سی دیر بعد پھر اسے یہی غیب ندا سنائی دی اب تو اس کا پتہ پانی ہو گیا اور جلدی سے نیزہ جھکا کر اترنا شروع کر دیا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی قرأت میں لتزول ہے بدلے میں لتزول کے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو نافیہ مانتے ہیں یعنی ان کے مکر پہاڑوں کو زائل نہیں کر سکتے ۔ حسن بصری بھی یہی کہتے ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس کی توجیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ان کا شرک و کفر پہاڑوں وغیرہ کو ہٹا نہیں سکتا کوئی ضرر دے نہیں سکتا صرف اس کا وبال انہی کی جانوں پر ہے ۔ میں کہتا ہوں اسی کے مشابہ یہ فرمان الہٰی بھی ہے آیت ( ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبار طولا ) زمین پر اکڑفوں سے نہ چل نہ تو تو زمین کو چیر سکتا ہے نہ پہاڑوں کی بلند کو پہنچ سکتا ہے ۔ دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ہے کہ ان کا شرک پہاڑوں کو زائل کر دینے والا ہے ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت ( تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90۝ۙ ) 19-مريم:90 ) اس سے تو آسمانوں کا پھٹ جانا ممکن ہے ۔ ضحاک و قتادہ کا بھی یہی قول ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ کوئی حساب کتاب اور جنت دوزخ نہیں، دوبارہ کسے زندہ ہونا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] اس دن سے مراد یا تو ان کی موت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورة مومنون کی آیت نمبر ١٠٠ سے ہوتی ہے اور یا آخرت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورة السجدہ کی آیت نمبر ١٢ سے ہوتی ہے۔ نیز اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی تباہ کرنے والا عذاب مراد لیا جاسکتا ہے۔ [٤٤] قریش کا قسم کھانا کہ انھیں کبھی زوا... ل نہیں آئے گا :۔ یعنی زبان حال سے یا قال سے گویا انھیں اس بات کا دل میں اس قدر پختہ یقین تھا جیسے کوئی قسم کھا کر وثوق سے کہتا ہے اور وہ یہ بات تھی کہ ہماری اس شان و شوکت کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ صورت حال سامنے لائیے کہ ابتدائے اسلام میں ایک طرف تو رؤسائے قریش تھے جنہیں کعبہ کی تولیت اور بعض دوسری وجوہ سے عرب بھر میں قیادت و سیادت حاصل تھی۔ سارے عرب میں انھیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ تھے اور ان کی عزت اور ناموری کا ڈنکا بجتا تھا۔ دوسری طرف گنتی کے چند بےبس اور ناتواں مسلمان تھے جو ان کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اس صورت میں ان سرداران قریش کو کبھی یہ خیال آسکتا تھا کہ کسی وقت یہ سارا نقشہ الٹ بھی سکتا ہے۔ جب کہ ہم مجبور و محکوم ہوں گے اور یہ مسلمان ہم پر حاکم اور بالادست ہوں گے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے زبان حال سے قسمیں کھانے سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سرکش اور متکبر کافر نے فی الواقع ایسی قسم کھائی بھی ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙنُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۭ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ 44 ۝ ۙ۔۔ : یعنی لوگوں کو اس دن سے ڈرایے۔ لوگوں سے مراد تم... ام لوگ ہیں، کیونکہ ڈرانے کی ضرورت تو نیک و بد ہر شخص کو ہے۔ اگرچہ اہل ایمان کی جزا کا بھی وہی دن ہے مگر یہاں مقام ڈرانے کا ہے، اس لیے اسی کا ذکر فرمایا، یا ” النَّاسَ “ سے خصوصاً کفار مراد ہیں۔ عذاب کا دن ظالموں کے لیے دنیا میں کسی وقت اور کسی صورت میں ہوسکتا ہے، موت کا وقت بھی مراد ہے اور قیامت کا بھی۔ اس وقت کفار اللہ تعالیٰ کی دعوت قبول کرنے اور رسولوں کی پیروی کرنے کے لیے مہلت مانگیں گے، مگر مہلت کہاں۔ اس مفہوم کی آیات قرآن مجید میں بہت ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مومنون ( ٩٩، ١٠٠) ، سورة سجدہ (١٢) اور منافقون (٩، ١٠) ۔ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ ۔۔ : ” زَوَالٍ “ کا معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ، یا ایک حالت سے دوسری کی طرف منتقل ہونا ہے، یہاں مراد دوبارہ زندہ ہو کر اور قبروں سے نکل کر آخرت کی زندگی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے انھیں کہیں گے کہ تم نے تو دنیا میں قسمیں کھائی تھیں کہ مرنے کے بعد ہمیں کبھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مقصد انھیں ان کا ماضی یاد دلا کر مزید ذلیل و خوار کرنا ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ ۭ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ النحل : ٣٨ ] ” اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جو مرجائے۔ کیوں نہیں ! وعدہ ہے اس کے ذمے سچا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تم تو ایسے متکبر بن گئے اور موت کو بھول بیٹھے تھے کہ قسمیں اٹھاتے تھے کہ ہمارے عروج کو کبھی زوال نہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙنُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۭ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ 44۝ۙ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبش... یر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر جوب والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے وأَقْسَمَ : حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ زال زَالَ الشیء يَزُولُ زَوَالًا : فارق طریقته جانحا عنه، وقیل : أَزَلْتُهُ ، وزَوَّلْتُهُ ، قال : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر/ 41] زول زال الشئ یزول زوالا کسی چیز کا اپنا صحیح رخ چھوڑ کر ایک جانب مائل ہونا ( اپنی جگہ سے ہٹ کر جانا اور ازلتہ وزولتہ کے معنی ہیں ایک جانب مائل کردینا ۔ کسی چیز کو اس کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر/ 41]  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) آپ مکہ والوں کو قرآن کریم کے ذریعے سے اس دن سے ڈرائیے جس دن ان پر عذاب آپڑے گا اور وہ بدر کا دن ہے یا قیامت کا دن ہے تو پھر یہ مشرک کہیں گے، ہمارے پروردگار دنیا کے برابر ایک مدت اور ہم کو مہلت دے دیجیے، ہم توحید کے قائل ہوجائیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کیا تم ... نے اس سے قبل دنیا میں قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تمہیں دنیا سے کہیں جانا ہی نہیں اور حیات بعد الموت کچھ نہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ ) کہ ہمارا اقتدار ہماری یہ شان و شوکت ہماری یہ جاگیریں یہ سب کچھ ہماری بڑی سوچی سمجھی منصوبہ بندیوں کا نتیجہ ہے انہیں کہاں سے زوال آئے گا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٤۔ ٤٦۔ اس آیت میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا ہے کہ تم لوگوں کو یہ ڈر سنا دو کہ قیامت میں جب عذاب ہوگا اس وقت یہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا ہے اور راہ حق پر نہیں آئے یہ کہیں گے کہ اے خدا اک ذرا ہمیں مہلت دے دے تو ہم تیرے حکم کو قبول کرلیں اور رسول پر ایمان لے آئیں۔ اس کے جواب میں اللہ پاک ا... ن سے کہے گا کہ کیا تم نے دنیا میں قسم کھا کر یہ بات نہیں کہی تھی کہ آخرت کوئی چیز نہیں ہے مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا کیسا ہمیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کوئی جزا و سزا نہیں ہے اور کیا تم ایسی سرزمین میں نہیں رہتے تھے جہاں تم سے پہلے منکرین حشر گزر چکے تھے اور انہیں باتوں پر ان کا انجام کیا ہوا کس طرح ان پر عذاب بھیجے اور کیسی بےبسی کی حالت میں ان کو ہلاک کیا اور تم لوگوں کو مثالیں دے دے کر سمجھایا گیا مگر تم لوگوں نے کچھ غور وفکر نہ کیا اور نہ عبرت حاصل کی اور ان لوگوں نے بہتیرے مکر کئے کہ کسی طرح حق بات ضعیف ہوجائے اور وہ مکر ان کے اگرچہ ایسے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے اکھڑ جاتا مگر خدا اپنے دین کا حامی رہا اور کچھ ان کی پیش نہ چلی۔ معتبر سند سے صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں انس بن مالک (رض) اور عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ کے بعد جس شخص کے دل میں شرمندگی ہو اس شخص کی وہی توبہ ہے ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے دنیا اور عقبیٰ کی حالت میں جو فرق ہے وہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ دنیا میں فقط دل کی ندامت توبہ ہے اور عقبیٰ میں نافرمان لوگ دل کی ندامت کا زبان سے بھی اقرار کر کے دنیا میں دوبارہ آنے اور فرمانبردار بن کر عمر گزارنے کی خواہش کریں گے تو وہ خواہش منظور نہ ہوگی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ قیامت کے دن سے ان لوگوں کو دنیا ہی میں جو کچھ ڈرانا ہے ڈرادیا جاوے ورنہ قیامت کے دن کوئی ڈر کوئی ندامت کار آمد نہیں ہے۔ سورت النحل میں آوے گا کہ مشرکین مکہ قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر زندہ نہ ہوں گے اسی کو فرمایا تم لوگ تو اس بات پر قسمیں کھاتے تھے کہ دنیا کی زندگی کی حالت ٹل کر اور کوئی دوسری حالت بدلنے والی نہیں پھر اب دوبارہ زندہ ہونے کو تم سے ٹالا جاوے تو ٹال دو ۔ ملک شام کے سفر میں مشرکین مکہ کا گزر پہلی امتوں کی اجڑی ہوئی بستیوں پر ہوا کرتا تھا اسی کو فرمایا کہ ان بستیوں کا حال دیکھ کر تم لوگوں نے عبرت کیوں نہیں حاصل کی اور مثال کے طور پر ان پہلی امتوں کا حال قرآن میں سمجھایا گیا تو اس کو تم نے اس کان سے سن کر اس کان سے کیوں اڑا دیا نافرمان لوگوں کے مکرو فریب یہی تھے۔ مثلاً جیسے فرعون نے جادو گروں کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کرایا جس کا ذکر قرآن شریف میں کئی جگہ ہے یا مثلاً یہی تھے مثلاً جیسے فرعون نے جادوگروں کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کرایا جس کا ذکر قرآن شریف میں کئی جگہ ہے یا مثلاً جیسے مشرکین مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہید کر ڈالنے کا قصد کیا جس کا ذکر سورت انفال میں گزر چکا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:44) انذر۔ امر ۔ واحد مذکر حاضر۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو ڈرا۔ انذار (افعال) سے مصدر۔ یوم۔ مفعول ثانی۔ الناس۔ مفعول اوّل انذر کا۔ تو ڈرا لوگوں کو اس دن سے۔ اخرنا۔ امر واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ تو ہم کو مہلت دے۔ تاخیر (تفعیل) سے۔ اجل قریب۔ مدت قلیل اجل مدت مقررہ۔ ... نجب۔ اجاب یجیب اجابۃ سے مضارع مجزوم جمع متکلم۔ ہم قبول کرلیں گے۔ جواب دعا ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ نتبع۔ مضارع مجزوم جمع متکلم۔ اتباع (افتعال) سے ہم اتباع کریں گے۔ ہم پیروی کریں گے۔ جواب دعا ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ اولم تکونوا اقسمتم من قبل۔ کیا تم اس سے پہلے قسمیں نہیں اٹھایا کرتے تھے۔ من قبل۔ قبل۔ بعد کی ضد ہے۔ بغیر اضافت کے آئے تو اس پر ضمہ ہوگا۔ مالکم من زوال۔ جواب القسم۔ یعنی تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے ہم کو کوئی زوال نہیں ہے۔ زال یزول زوال (باب نصر) زوال کا معنی کسی چیز کا اپنا صحیح رخ چھوڑ کر ایک جانب مائل ہوجانا۔ اپنی جگہ سے ہٹ جانا۔ زوال۔ سمت الرأس سے جھک جانا۔ جیسے کہ سورج کا نقطۂ نصف النہار سے ڈھلنا۔ نقطۂ عروج سے نیچے آنا۔ دنیاوی جاہ و جلال یا مال و دولت کی حالت سے کم ہوجانا۔ نقطۃ الراس سے انحطاط۔ من صلہ تاکید نفی کے لئے آیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی ہماری دولت اور حکومت ہمیشہ رہنے والی ہے یا مرنے کے بعد دوسری زندگی نہیں ہے اور دنیا سے مرنے کے عبد مجازاۃ نہیں ہوگی۔ (رازی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی قیامت کے منکر تھے اور اس پر قسم کھاتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کی ہو لناکیاں بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کا انکار کرنے والوں کو ڈرائیں اور اس کی حقیقت بتلائیں۔ دنیا پرستی میں مبتلا ہونے والے لوگ آخرت کو اس قدربھول جاتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور انسان...  کو محض کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر دنیا کھیل تماشا ہوتی تو ہم یہ تماشا اپنے پاس کرتے۔ (الانبیاء : ١٦۔ ١٧) یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے انسان جو کچھ بوئے گا مرنے کے بعد وہی کچھ اپنے سامنے پائے گا۔ اس حقیقت کے باوجود دنیا پرست لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے اتنے بوسیدہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر وہ خود معمولی ساغور کریں تو ان کے دلائل میں بھی آخرت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ آخرت کا انکار کرنے والا ایک شخص سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک بوسیدہ ہڈی اپنے ہاتھ سے مسل کر کہتا ہے کہ اے محمد ! بتلاؤ یہ ہڈی مٹی بن چکی ہے اسے کون زندہ کرے گا ؟ قرآن مجید نے اس کا جواب دیا کہ کیا آخرت کے انکار کرنے والے نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے جس سے بڑا ہو کر وہ اپنے رب کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور اپنی تخلیق بھول کر ہمارے سامنے بوسیدہ ہڈی کی مثال پیش کر کے کہتا ہے کہ اسے کون زندہ کرے گا اے پیغمبر ! انہیں فرمائیں اسے وہی خالق زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا جو ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ( یٰس : ٧٠ تا ٧٧) قیامت کا انکار کرنے والوں کو یہ کہہ کر بھی لاجواب کیا گیا ہے کہ یہ بتاؤ تمہیں پہلی دفعہ پیدا کرنا مشکل تھا یا دوسری مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے۔ ( بنی اسرائیل : ٥١) پھر دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کہیں کہ تم لوہا بن جاؤ یا پتھر ہوجاؤ یا تمہارے دل میں جو خیال آسکتا ہے اس سے بھی کوئی بڑی مخلوق بن جاؤ تمہیں وہی ذات پیدا کرے گی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ یہ دلائل سننے کے باوجود نفرت کی بنا پر سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا انہیں فرمائیں ہوسکتا ہے کہ قیامت عنقریب برپا ہوجائے۔ ( بنی اسرائیل : ٤٩ تا ٥١) غور فرمائیں کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے قرآن مجید نے کس قدر طبعی اور ٹھوس دلائل دیے ہیں لیکن اس کے باوجود قیامت کے منکرہٹ دھرمی کی بنا پر قسمیں کھایا کرتے تھے کہ یہ دنیا کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اور ہمیں کبھی زوال نہیں آئے گا۔ کوئی طاقت ہمیں زندہ نہیں کرسکتی۔ اس باطل عقیدہ کی تردید یہاں یہ کہہ کر کی گئی ہے۔ اے پیغمبر ! انہیں سمجھائیں اور ڈرائیں کہ جب اللہ کا عذاب یا قیامت آئے گی تم دھاڑیں مار مار کر فریادیں کرو گے کہ ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت دیجئے تاکہ ہم تیری دعوت کو قبول کر کے رسول کی فرمانبرداری کریں لیکن اس وقت مہلت دینے کے بجائے یہ کہا جائے گا کہ کیا تم وہی ظالم نہیں ہو جو قسمیں کھا کھا کر آخرت کا انکار کرتے اور کہتے تھے کہ اس دنیا نے ہمیشہ رہنا ہے اور اسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔ مسائل ١۔ کفار قیامت کے دن کہیں گے اے رب ہمیں مہلت دے ہم تیری بات مانیں گے اور تیرے رسول کی پیروی کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں جہنمیوں کی فریادیں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤٤ تا ٤٥ اے پیغمبر ان لوگوں کو اس عذاب سے ڈرائیں جس کا نقشہ ابھی کھینچا گیا ، اس دن یہ ظالم بڑے پر امید ہو کر اور برخوردار بن کر یہ سوال کریں گے ۔ “ ربنا ” (اے ہمارے رب) آج تو وہ بہت احترام سے ربنا کہتے ہیں جبکہ دنیا میں تو وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے۔ اخرنا الی۔۔۔۔۔۔۔ ونتبع الرسل (١... ٤ : ٤٤) “ ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے ، ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے ”۔ اب یہاں حکایتی انداز کلام براہ راست خطاب کی صورت اختیار کرلیتا ہے ، گویا وہ ہمارے سامنے کھڑے ہیں ، دیکھ رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں ، دعا کر رہے ہیں اور ہم اب میدان محشر میں ہیں ، حیات دنیا کا دفتر لپیٹ دیا گیا ہے اور وہ دیکھو عالم بالا سے ان کو براہ راست مخاطب کر کے سخت سرزنش اور سخت شرمندہ کیا جا رہا ہے اور ان کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ ذرا پیچھے مڑکر دیکھو تم کیا کرتے رہے ہو۔ اولم تکونوا اقستم من قبل مالکم من زوال (١٤ : ٤٤) “ کیا تم لوگ وہی نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے ”۔ اب تمہاری کیا رائے ہے ؟ تم زوال پذیر ہوگئے یا نہیں ؟ تم تو ایسی باتیں کیا کرتے تھے جبکہ امم سابقہ کے آثار اور تاریخ تمہارے سامنے تھی۔ ظالموں اور سرکشوں کا انجام تو سامنے تھا۔ وسکنتم فی مسکن ۔۔۔۔۔ لکم الامثال (١٤ : ٤٥) “ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے کر تمہیں سمجھا چکے تھے ”۔ لیکن تمہارا رویہ بھی عجیب تھا کہ ان ظالموں کے کھنڈرات اور ان کے احوال کو دیکھ کر کہ وہ ان سے خالی پڑے ہیں اور ان کے شہروں میں اب تم بس رہے ہو اور پھر بھی تم قسمیں کھا رہے تھے۔ “ تمہارے لیے کوئی زوال نہیں ہے ”۔۔۔ یہاں اب یہ منظر ختم ہوجاتا ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ ان کی دعا اور اسے مسترد کرنے کے بعد اب ان کا انجام کیا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی میں ایسی صورت حال رات اور دن پیش آتی رہتی ہے۔ کئی سرکش اور ڈکٹیٹر ان لوگوں کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں جو ان سے پہلے گزرے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ ان برسر اقتدار سرکشوں کے ہاتھوں ہی وہ مغلوب ہو کر نکالے گئے ہوتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے یہ جانشینان پھر سرکشی اور جباری و قہاری شروع کردیتے ہیں اور عین ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور ہلاکت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے شعور و وجدان کے اندر اس سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے عبرتناک واقعات کوئی ارتعاش پیدا نہیں کرتے حالانکہ ان کی تاریخ پکار رہی ہوتی ہے۔ یہی تمہاری تاریخ ہے۔ پھر جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو یہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح پکڑے جاتے ہیں اور یہ بھی ان کے ساتھ ، اسی انجام سے دوچار ہوتے ہوئے جا ملتے ہیں اور اللہ کی زمین ان ناپاک لوگوں سے خالی کردی جاتی ہے۔ اب پردہ گرتا ہے ، قیامت کا منظر لپیٹ دیا جاتا ہے اور ان لوگوں کے موجودہ حالات پر بات شروع ہوتی ہے جو اس دنیا میں موجود تھے۔ یہ لوگ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے خلاف رات اور دن سازشیں کر رہے تھے اور زندگی کے میدانوں کے ہر پہلو کے اعتبار سے اسلام کے خلاف فتنے برپا کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا مکرو فریب اور پروپیگنڈا جس قدر بھی عظیم ہو تمہیں اللہ اقوام ما قبل ہی کی طرح پکڑے گا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ عذاب سے دنیوی عذاب مراد ہے بقرینہ ” اَخِّرْنَا اِلٰی اَجَلٍ الخ “ ان معاندین کو اس دن سے ڈرائیے جو تمام اقوام معاندہ پر آیا ہے جب ان پر اللہ کا عذاب آجاتا تو وہ گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگتے ہمارے پروردگار ! ہمیں تھوڑی سی مہلت ہی دیدے اب ہم تیری توحید کو مانیں گے اور تیرے پیغمبروں کا اتباع کریں گ... ے ” اَوَلَمْ تَکُوْنُوْا الخ “ ان کو جواب دیا جاتا کیا تم قسمیں کھا کھا کر نہیں کہا کرتے تھے کہ ہم پر عذاب آئے گا ہی نہیں زوال سے مراد عذاب ہے یا زوال سے مراد موت ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ہم بیک وقت تمام نہ مریں گے بلکہ باری باری مریں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

44 ۔ اور اے پیغمبر آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرایئے جس دن ان پر عذاب آجائے گا تب یہ ظالم لوگ یوں کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو تھوڑی سی مدت تک کے لئے اور مہلت دے دے تو اب کی دفعہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں گے اور تیرا سب کہنا مان لیں گے اور پیروی کریں گے۔ جواب دیا جائے گا کیا تم اس سے پہلے دنیا میں جب...  تم کو مہلت ملی ہوئی تھی قسمیں کھاکھا کر یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ تم کو دنیا سے کہیں جانا ہی نہیں ہے۔ یعنی مرتے وقت یا قیامت میں کہیں گے ۔ مرتے وقت کا مطلب یہ ہوگا کہ اور زندہ رکھ تو سب کام چھوڑ کر ایمان لے آئوں گا اور نیک اعمال کروں گا اور قیامت میں کہنے کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم کو پھر دنیا میں بھیج دے لیکن جواب میں کہا جائے گا یہ نہیں ہوسکتا تم کو مہلت بھی دی گئی سوچنے سمجھنے کا موقع بھی دیا گیا ڈرانے والے بھی آئے لیکن تم نے مان کر نہ دیا بلکہ قسمیں کھاکر قیامت کی اور برزخ کی تکذیب کرتے رہے۔  Show more