Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 49

سورة إبراهيم

وَ تَـرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ مُّقَرَّنِیۡنَ فِی الۡاَصۡفَادِ ﴿ۚ۴۹﴾

And you will see the criminals that Day bound together in shackles,

آپ اس دن گنہگاروں کو دیکھیں گے کہ زنجیروں میں ملے جلے ایک جگہ جکڑے ہوئے ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Condition of the criminals on the Day of Resurrection Allah said, وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَيِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الاَصْفَادِ And you will see the criminals that Day, Muqarranun (bound together) in fetters. Allah said, يَوْمَ تُبَدَّلُ الاَرْضُ غَيْرَ الاَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (On the Day when the earth will be changed to another earth and so will be the heavens) `and the creations will be brought before their Lord, and you, O Muhammad, will witness the criminals who committed the crimes of Kufr and mischief,' مُّقَرَّنِينَ (Muqarranin), bound together, each with his or her like, just as Allah said, احْشُرُواْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزْوَجَهُمْ Assemble those who did wrong, together with their companions. (37:22) وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ And when the souls are joined with their bodies. (81:7) وَإَذَا أُلْقُواْ مِنْهَا مَكَاناً ضَيِّقاً مُّقَرَّنِينَ دَعَوْاْ هُنَالِكَ ثُبُوراً And when they shall be thrown into a narrow place thereof, chained together, they will exclaim therein for destruction. (25:13) and, وَالشَّيَـطِينَ كُلَّ بَنَّأءٍ وَغَوَّاصٍ وَءَاخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِى الاٌّصْفَادِ And also the Shayatin from the Jinn (including) every kind of builder and diver, and also others bound in fetters. (38:37-38) Allah said next,

جکڑے ہوئے مفسد انسان زمین و آسمان بدلے ہوئے ہیں ۔ مخلوق اللہ کے سامنے کھڑی ہے ، اس دن اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم دیکھو گے کہ کفر و فساد کرنے والے گنہگار آپس میں جکڑے بندھے ہوئے ہوں گے ہر ہر قسم کے گنہگار دوسروں سے ملے جلے ہوئے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ظالموں کو اور ان کی جوڑ کے لوگوں کو اکٹھا کرو اور آیت میں ہے آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽ ) 81- التكوير:7 ) جب کہ نفس کے جوڑے ملا دئے جائیں ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا 13۝ۭ ) 25- الفرقان:13 ) یعنی جب کہ جہنم کے تنگ مکان میں وہ ملے جلے ڈالے جائیں گے تو ہاں وہ موت موت پکاریں گے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے جنات کی بابت بھی آیت ( وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ 38؀ ) 38-ص:38 ) کا لفظ ہے ۔ اصفاد کہتے ہیں قید کی زنجیروں کو عمرو بن کلثوم کے شعر میں مصفد زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کے معنی میں آیا ہے ۔ جو کپڑے انہیں پہنائے جائیں گے وہ گندھک کے ہوں گے جو اونٹوں کو لگایا جاتا ہے اسے آگ تیزی اور سرعت سے پکڑتی ہے یہ لفظ قطران بھی ہے قطران بھی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ پگھلے ہوئے تانبے کو قطران کہتے ہیں اس سخت گرم آگ جیسے تانبے کے ان دوزخیوں کے لباس ہوں گے ۔ ان کے منہ بھی آپ میں ڈھکے ہوئے ہوں گے چہروں تک آگ چڑھی ہوئی ہو گی ۔ سر سے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے ۔ منہ بگڑ گئے ہوں گے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جو ان سے نہ چھوٹیں گے حسب پر فخر ۔ نسب میں طعنہ زنی ۔ ستاروں سے بارش کی طلبی ۔ میت پر نوحہ کرنے والی نے اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کر لی تو اسے قیامت کے دن گندھک کا کرتا اور کھجلی کا دوپٹا پہنایا جائے گا ۔ مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ وہ جنت دوزخ کے درمیان کھڑی کی جائے گی گندھک کا کرتا ہوگا اور منہ پر آگ کھیل رہی ہو گی ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے کاموں کا بدلہ دے گا ۔ بروں کی برائیاں سامنے آ جائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ساری مخلوق کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ ممکن ہے یہ آیت بھی مثل آیت ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ ) 21- الأنبياء:1 ) کے ہو یعنی لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا لیکن پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ پھیرے ہوئے ہی ہیں ۔ اور ممکن ہے کہ بندے کے حساب کے وقت کا بیان ہو ۔ یعنی بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ کیونکہ وہ تمام باتوں کا جاننے والا ہے اس پر ایک بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ جیسے ایک ویسے ہی ساری مخلوق ۔ جیسے فرمان ہے ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 28؀ ) 31- لقمان:28 ) تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد کا زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو مارنا اور جلانا ۔ یہی معنی مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے ہیں کہ حساب کے احاطے میں اللہ تعالیٰ بہت جلدی کرنے والا ہے ۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں یعنی وقت حساب بھی قریب اور اللہ کو حساب میں دیر بھی نہیں ۔ ادھر شروع ہوا ادھر ختم ہوا واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] مجرموں کی باپہ زنجیر پیشی :۔ مجرموں کو اللہ کے حضور قیدیوں کی صورت میں پابند سلاسل بنا کر پیش کیا جائے گا اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی نوعیت کے سب مجرموں کو اکٹھا کرکے سب کو ایک ہی زنجیر کے ذریعہ منسلک کردیا جائے گا جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ مُّقَرَّنِيْنَ : ” قَرَنٌ“ قاف اور راء کے فتحہ کے ساتھ، وہ رسی جس میں دو بیل یا دو آدمی اکٹھے بندھے ہوتے ہیں۔ ” مُّقَرَّنِيْنَ “ کئی آدمی جو آپس میں اکٹھے جکڑے ہوتے ہوں۔ سورة صٓ (٣٨) میں ہے : (وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ) یعنی سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کئی جن کردیے جو زنجیروں میں باہم جکڑے ہوئے تھے۔ لسان العرب میں ہے کہ ” مُّقَرَّنِيْنَ “ یا تو ” مَقْرُوْنِیْنَ “ کے معنی میں ہے، یا باب تفعیل تکثیر کے لیے ہے، یعنی کئی مجرم آپس میں زنجیروں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہوں گے۔ فِي الْاَصْفَادِ : ” الْاَصْفَادِ “ ” صَفَدٌ“ (فاء کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے جو اس زنجیر کو کہتے ہیں جو پاؤں میں ڈالی جائے، یا وہ طوق جس کے ساتھ ہاتھ پاؤں کو گردن کی طرف باندھ دیا جاتا ہے۔ [ الوسیط للطنطاوی ] یعنی اے مخاطب ! تو اس دن کئی مجرموں کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں بندھے ہوئے دیکھے گا۔ ہر قسم کا مجرم اپنے جیسے مجرموں کے ساتھ جکڑا ہوا ہوگا۔ دیکھیے سورة فرقان (١٣) اور سورة حاقہ (٣٠ تا ٣٣) اور ہر فاسق اپنے جیسے فاسق کے ساتھ ہوگا۔ دیکھیے سورة صافات (٢٢، ٢٣) اور مریم (٦٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ 49؀ۚ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ قرن الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ صفد الصَّفَدُ والصِّفَادُ : الغلُّ ، وجمعه أَصْفَادٌ. والأَصْفَادُ : الأغلالُ. قال تعالی: مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [إبراهيم/ 49] ، والصَّفَدُ : العطيّةُ ( ص ف د) الصفد والصفاد کے معنی لوہے کی زنجیر یا طوق کے ہیں اس کی جمع اصفاد ہے یعنی لوہے کے زنجیر جن سے قیدیوں کو جکڑا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [إبراهيم/ 49] جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ نیز الصفد کے معنی عطیہ بھی آتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩۔ ٥٠) اور قیامت کے دن تو مشرکین کو شیاطین کے ساتھ بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھے گا اور ان کے کرتے قطران کی طرح سیاہ آگ کے ہوں گے یا یہ کہ قطرین کے زرد کرتے نہایت ہی گرم ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر لپٹی ہوئی ہوگی اور سب کے سب ایک زبردست اللہ کے روبرو اس لیے پیش ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ ٥١۔ ان آیتوں میں یہ ارشاد ہے کہ جب قیامت کے دن یہ آسمان و زمین نہ ہوں گے اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے کی جاوے گی تو جن لوگوں نے دنیا میں فساد مچا رکھا تھا خود بھی راہ حق سے علیحدہ رہے اور اوروں کو بھی علیحدہ رکھا تھا یہ مجرم طوق اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے آویں گے ان کا کرتہ گندھک کے تیل کا ہوگا جس میں ذرا سی آگ لگنے سے بھڑک اٹھے گی اور بجھائے نہ بجھے گی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے قطران کی یہ تفسیر کی ہے کہ ان کے کرتے پگھلے ہوئے تانبے کے ہوں گے خدا ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا جس کا عمل اچھا ہوگا تو اپنی رحمت میں شامل کرے گا اگر عمل برے ہوں گے تو ویسا بدلہ دے گا اور خدا حساب کتاب لینے میں کچھ بھی دیر نہ لگائے گا جھٹ پٹ فارغ ہوجاوے گا۔ مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابو مالک اشعری (رض) کی ایک حدیث ہے کہ حضرت نے فرمایا میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی باقی ہیں لوگ اس کو چھوڑتے نہیں ہیں حسب و نسب کا فخر کرتے ہیں، تاروں کی گردش سے مینہ طلب کرتے ہیں، مردے پر نوحہ کرتے ہیں فرمایا نوحہ کرنے والی کو ایک کرتہ گندھک کے تیل کا یا پگھلے ہوئے تانبے کا پہنایا جاوے گا ١ ؎۔ اصل میں قطران ایک تیل ہے جو کھجلی والے اونٹوں کی کھال پر لگایا جاتا ہے جس سے کھجلی جل جاتی ہے اور اونٹ کی کھال میں زخم پڑجاتا ہے اس تیل میں یہ خاصیت بھی ہے کہ آگ میں ڈالنے سے اس کی آنچ بہت تیز ہوتی ہے۔ گندھک کے تیل میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اس لئے بعضے مفسروں نے قطران کے معنے ” گندھک “ کے تیل کے لکھے ہیں شاہ صاحب نے ترجمے میں یہی قول لیا ہے سلف میں سے جن علماء نے قطران کے معنے پگھلے ہوئے تانبے کے کئے ہیں۔ انہوں نے قطر کو الگ لفظ قرار دیا ہے اور ران کو الگ کیونکہ پگھلے ہوئے تانبے کو کہتے ہیں اور ران نہایت گرم کھولتی ہوئی چیز کو حاصل کلام یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کا اثر اور تیزی بڑھانے کے لئے یہ چیزیں لباس کی طرح دوزخیوں کے جسم پر ملی جاویں گے۔ شرک کے کلمے زبان سے نکلتے ہیں اور دل میں شرک کا اعتقاد ہوتا ہے اس واسطے یہاں منہ کے جلنے کا اور ویل لکل میں دل کے جلنے کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ { اذا السماء انشقت } میں آوے گا کہ جن لوگوں کے اعمال نامے سیدھے ہاتھ میں دیئے جاویں گے ان کا حساب تو سرسری طور پر آسانی سے یوں ہوجاوے گا کہ بعضوں کے گناہ معاف ہوجاویں گے اور بعضوں کے گناہ نیکیوں سے بدل دئیے جاویں گے چناچہ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر ٢ ؎ سے اور صحیح مسلم میں ابو ذر ٣ ؎ سے جو روایتیں ہیں ٤ ؎ ان میں اسکا ذکر تفصیل سے ہے اس صورت میں کرید اور جانچ سے انہیں لوگوں کا حساب ہوگا جو علم الٰہی کے موافق عذاب کے قابل ٹھہریں گے اور اسی واسطے ان کے نامہ اعمال الٹے ہاتھ میں دئیے جاویں گے لیکن ان لوگوں کے سب کام اللہ کی نظر میں ہیں سب غیب کا حال اسی کو معلوم ہے اس لئے یہ کرید اور جانچ بھی جلدی طے ہوجاوے گی۔ اس جانچ کے وقت جو لوگ نامہ اعمال کو جھٹلادیں گے ان کے ہاتھ پیروں سے گناہوں کی گواہی دلوائی جا کر ان کا حساب طے ہوجاوے گا۔ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت اس باب میں گزر چکی ہے حاصل یہ ہے کہ یہ حدیثیں اور اس قسم کی اور صحیح حدیثیں { ان اللہ سریع الحساب } کی گویا تفسیر ہیں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٥ باب الحساب والقصاص والمیزان۔ ٢ ؎ ایضاً ص ٤٩٢ باب احوض والشفاعۃ۔ ٣ ؎ دیکھئے فتح الباری ص ١٧٩ ج ٧ شرح باب من نوقتی الحساب عنب۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٤٠٩ ج ٢ کتاب الزھد۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:49) مقرنین۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ مقرن واحد۔ تقرین (تفعیل) مصدر۔ اقترات کے معنی ازرواج کی طرح دو یا دو سے زیادہ چیزوں سے کسی معنی میں مجتمع ہونے کے ہیں۔ قرن اس رسی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دو یا دو سے زیادہ اونٹوں کو باندھا جائے جیسے قرنت البعیر من البعیر ۔ میں نے اونٹ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ ایک رسی سے باندھ دیا۔ قرنتہ (تفعیل) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں۔ وہ آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری یا دوسرے اوصاف میں کسی کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہتے ہیں۔ اسی سے قرین بمعنی ساتھ، ہم نشین ہے۔ مقرنین۔ باہم کس کر مضبوطی سے باندھے گئے۔ جکڑے ہوئے۔ اصفاد۔ زنجیریں ۔ بیڑیاں۔ صفد اور صفاد کی جمع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤٩ تا ٥٠ ان مجرموں کا منظر یوں ہے کہ دو دو زنجیروں میں بندھے ہوں گے۔ صف در صف جا رہے ہوں گے۔ اللہ قہار کی طرف سے یہ ان کی تذلیل ہوگی۔ مزید یہ کہ ان کا لباس ایک ایسے مواد سے بنا ہوگا جو سخت آتش گیر ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ سیاہ تارکول سے ہوگا۔ یہ ان کی مزید تذلیل ہوگی۔ مقصد یہ ہے کہ آگ کے قریب آتے ہی یہ لوگ شعلوں کے نذر ہوں گے۔ وتغشی وجوھم النار (١٤ : ٥٠) “ ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ لے گی ”۔ یہ ایک ذلیل عذاب ہوگا ، اور ان کے مکر اور سرکشی اور استکبار کے لئے مناسب علاج۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ یہ ” تُبَدَّلُ “ پر معطوف ہے۔ اَصْفَاد، صفد کی جمع ہے یعنی گلے کا طوق اور پاؤں کا زنجیر قیامت کے دن مجرموں کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی۔ ” سَرَابِیْلُھُمْ “ سربال کی جمع ہے یعنی قمیص۔ ” قَطِرَانٍ “ ابہل یعنی درخت دیودار کا عصارہ یہ ایک آتش گیر مادہ ہے جو آگ کو تیزی سے پکڑ لیتا ہے (روح، مظہری) ۔ یعنی اس قسم کا کوئی آتش گیر مادہ ہوگا جسے جہنمیوں کے بدنوں پر لیپ دیا جائے گا تاکہ اس آتش گیر مادے کو آگ فوراً پکڑ لے اور ان کو زیادہ تکلیف اور اذیت پہنچے اس کے علاوہ اس مادے میں تیزی اور حدت ہوگی جو بدن میں جلن پیدا کرے گا اور اپنی بد بو کی وجہ سے ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث ہوگا۔ ” وھو عصارۃ الابھل۔ وھو اسود منتن لیشتعل فیہ النار بسرعۃ یطلی بہ جلود اھل النار حتی یکون طلاوۃ لھم کالقمیص لیجتمع علیہ لدغ القطران ووحشۃ لونہ ونتن ریحہ مع اسراع النار “ (مظہری ج 5 ص 386) یا قَطِرَان سے گندہک مراد ہے کیونکہ یہ بھی ایک آتش گیر ماد ہے جو جلتے وقت بدبو بھی چھوڑتا ہے، لَیَجْزِیَ اللہُ الخ اس کا متعلق محذوف ہے ای یفعل بہم ذلک لیجزی الخ (روح) یہ سب کچھ اس لیے کیا جائے گا تاکہ انہیں ان کے اعمال کی پوری پوری سزا دی جائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 ۔ اور اے مخاطب تو اس دن مجرموں کو باہم زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا ۔ یعنی ایک زنجیر میں بہت سے منکر بندھے ہوئے ہوں گے۔