Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 52

سورة إبراهيم

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنۡذَرُوۡا بِہٖ وَ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۵۲﴾٪  19

This [Qur'an] is notification for the people that they may be warned thereby and that they may know that He is but one God and that those of understanding will be reminded.

یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیئے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah states; هَـذَا بَلَغٌ لِّلنَّاسِ ... This (Qur'an) is a Message for mankind (and a clear proof against them), لااٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ (So) that I may therewith warn you and whomsoever it may reach. (6:19) This Qur'an is for all mankind and the Jinns, just as Allah said in the beginning of this Surah, الَركِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ Alif-Lam-Ra. (This is) a Book which We have revealed unto you in order that you might lead mankind out of darkness into light. (14:1) Allah said next, ... وَلِيُنذَرُواْ بِهِ ... in order that they may be warned thereby, or to receive and draw lessons from it, ... وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ ... and that they may know that He is the only One God, using its proofs and evidences that testify that there is no true deity except Allah, ... وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الاَلْبَابِ and that men of understanding may take heed. meaning those who have good minds. This is the end of the Tafsir of Surah Ibrahim, and all praise is due to Allah.

تمام انسان اور جن پابند اطاعت ہیں ارشاد ہے کہ یہ قرآن دنیا کی طرف اللہ کا کھلا پیغام ہے جسے اور آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کہلوایا گیا ہے کہ لا نذرکم بہ ومن بلغ یعنی تاکہ میں اس قرآن سے تمہیں بھی ہوشیار کر دوں اور جسے جسے یہ پہنچے یعنی کل انسان اور تمام جنات جیسے اس سورت کے شروع میں فرمایا کہ اس کتاب کو ہم نے ہی تیری طرف نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے الخ ۔ اس قرآن کریم کی غرض یہ ہے کہ لوگ ہوشیار کر دئے جائیں ڈرا دئے جائیں ۔ اور اس کی دلیلیں حجتیں دیکھ سن کر پڑھ پڑھا کر تحقیق سے معلوم کرلیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور عقلمند لوگ نصیحت و عبرت وعظ و پند حاصل کرلیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 یہ اشارہ قرآن کی طرف ہے، یا پچھلی تفصیلات کی طرف جو ( وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا) 14 ۔ ابراہیم :42) بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] نزول قرآن کے تین مقاصد :۔ یعنی قرآن کا پیغام ایسی چیز ہے جسے تمام لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے اور اس کے تین فائدے ہیں ایک یہ کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے انجام سے بر وقت خبردار کیا جائے اور ڈرایا جائے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے اعمال پر گرفت کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہے۔ لہذا ہر حال میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، اس کی بندگی کی جائے اور اپنے نفع و نقصان کے وقت اسی کو پکارا جائے اور تیسرے یہ کہ اس قرآن میں مذکور آیات اور واقعات سے اہل دانش عبرت اور سبق حاصل کریں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ ۔۔ : اس آیت میں قرآن مجید نازل کرنے کے چار مقصد بیان ہوئے ہیں : 1 اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچ جائے۔ 2 اس کے ذریعے سے وہ آگاہ ہوجائیں اور ڈر جائیں۔ 3 لوگوں کو علم ہوجائے کہ عبادت صرف ایک اللہ کی کرنی ہے۔ 4 عقلوں والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ رازی نے فرمایا، معلوم ہوا کہ انسان میں عقل ہی اصل ہے، یہ نہ ہو تو وہ کبھی نصیحت حاصل نہیں کرسکتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ایک یاد داشت اور اطلاع : احقر ناکارہ نہ اس کا اہل تھا کہ تفسیر قرآن لکھنے کی جرأت کرے نہ کبھی اس خیال کی ہمت کرتا تھا البتہ اپنے مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کو جو اس زمانہ کی بےنظیر متوسط تفسیر ہے نہ بہت مختصر کہ مضمون قرآن سمجھنا مشکل ہو نہ بہت طویل کہ پڑھنا مشکل ہو پھر خداداد علم وذکاوت اور تقوی و طہارت کی برکت سے اقوال مختلفہ میں ایک کو ترجیح دے کر لکھ دینے کا جو خاص ذوق حق تعالیٰ نے موصوف کو عطا فرمایا تھا وہ بڑی تفسیروں سے بھی حاصل ہونا مشکل تھا مگر یہ تفسیر حضرت نے اہل علم کے لئے انہی کی زبان اور علمی اصطلاحوں میں لکھی ہے عوام خصوصا اس زمانہ کے عوام جو عربی زبان اور اس کی اصطلاحات سے بہت دور ہوچکے ہیں ان کو اس تفسیر سے استفادہ مشکل تھا۔ اس لئے یہ خیال اکثر رہا کرتا تھا کہ اس کے مضامین عجیبہ کو آج کل کی آسان زبان میں لکھا جائے مگر یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ بحکم قضاء وقدر اس کی ابتداء اس طرح ہوگئی کہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر صاحب نے مجھ پر اصرار کیا کہ ریڈیو پر ایک سلسلہ قرآن کی خاص خاص آیات کا بعنوان معارف القرآن جاری کیا جائے ان کا اصرار اس کام کے آغاز کا سبب بن گیا اور ریڈیو پاکستان پر ہر جمعہ کے روز جمعہ ٣ شوال ١٣٧٣ ھ مطابق ٢ جولائی ١٩٥٤ سے شروع ہو کر ١٥ صفر ١٣٨٤ مطابق ٢٥ جون ١٩٦٤ ء تک جاری رہا جو سورة ابراہیم کے اختتام پر منجانب محکمہ ریڈیو پاکستان ختم کردیا گیا۔ حق تعالیٰ نے اس کو میرے وہم و گمان سے زیادہ مقبولیت عطا فرمائی اور اطراف عالم سے اس کو کتابی صورت میں طبع کرنے کا تقاضا ہوا اس کا ارادہ کیا تو جتنا کام اس وقت تک ہوچکا تھا وہ بھی اس لحاظ سے ناتمام تھا کہ یہ سلسلہ منتخب آیات کا تھا درمیانی آیات کو جو خالص علمی تھیں ریڈیو پر عوام کو ان کی تفسیر سمجھانا آسان نہ تھا وہ رہ گئی تھیں کتابی شکل میں طبع کرنے کے لئے ان کا سلسلہ بھی پورا کرنا تھا جو بوجہ وقتی مشاغل کے پورا کرنا مشکل تھا۔ عجائب قدرت سے ہے کہ رمضان ١٣٨٨ ھ میں احقر سخت بیمار ہو کر نقل و حرکت سے معذور صاحب فراش ہوگیا اور موت سامنے محسوس ہونے لگی تو اس کا افسوس ستانے لگا کہ یہ مسودات یوں ہی ضائع ہوجائیں گے حق تعالیٰ نے دل میں یہ داعیہ پیدا فرما دیا کہ لیٹے بیٹھے معارف القرآن کے مسودات پر نظر ثانی اور درمیانی آیات جو رہ گئی ہیں ان کی تکمیل کسی طرح اسی حالت میں کردی جائے ادھر بیماری کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا بیماری نے تمام دوسرے مشاغل پہلے ہی چھڑا دیئے تھے اب صرف یہی مشغلہ رہ گیا اس لئے قدرت کے عجیب و غریب انتظام نے اسی بیماری میں بحمد اللہ یہ کام ٢٩ رجب ١٣٩٠ ھ تک پورا کرا دیا۔ یہاں تک کہ سورة ابراہم کا ختم اور قرآن پاک کے تیرا پارے اسی ریڈیو کی نشری دروس کے ذریعہ پورے ہوگئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اگے حصہ لکھنے کی توفیق وہمت بھی عطا فرما دی نقل و حرکت سے معذوری کی تکلیف بھی رفع فرمادی اگرچہ سلسلہ مختلف امراض کا تقریبا مسلسل رہا اور ضعف بھی بڑہتا رہا مگر اللہ کے فضل وکرم اور اسی کی امداد سے ٣٠ شعبان ١٣٩٠ ھ سے قرآن کے اگلے پاروں کی تفسیر کا لکھنا شروع ہو کر اس وقت جبکہ معارف القرآن کی تین جلدیں چھپ کر شائع ہوچکی ہیں یعنی ٢٥ صفر ١٣٩١ ھ میں اس تفسیر کا مسودہ قرآن کریم کی چوتھی منزل سورة فرقان انیسویں پارے تک بعون اللہ سبحانہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس وقت بھی مختلف امراض اور ضعف کا سلسلہ بھی ہے اور بحمداللہ یہ کام بھی جاری ہے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرما دیں وما ذالک علی اللہ بعزیز۔ بندہ محمد شفیع ٢٥ صفر ١٣٩١ ھ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِهٖ وَلِيَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّلِيَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ 52۝ۧ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ تَّذْكِرَةُ والتَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . ( ذک ر ) تَّذْكِرَةُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ ) اس قرآن اور اس کے احکام کو لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم نے محمد رسول اللہ پر ڈالی تھی۔ آپ نے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کردی ہے۔ اب یہ ذمہ داری آپ کی امت کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ پیغام تمام انسانوں تک پہنچائے۔ (وَلِيُنْذَرُوْا بِهٖ ) یعنی اس قرآن کے ذریعے سے تمام انسانوں کی تذکیر و تنذیر کا حق ادا ہوجائے۔ اس حوالے سے سورة الانعام کی آیت ١٩ کے یہ الفاظ بھی یاد کر لیجیے : (وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط) ” یہ قرآن میری طرف سے وحی کیا گیا ہے تاکہ میں خبردار کردوں اس کے ذریعے سے تمہیں بھی اور (ہر اس شخص کو) جس تک بھی یہ پہنچ جائے۔ “ بارک اللّٰہ لی ولکم فی ال قرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالایات والذکر الحکیم

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٢۔ اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ یہ قرآن جو تم پر نازل کیا گیا ہے یہ ایک نصیحت ہے تاکہ لوگ خدا سے ڈریں اور جو نصیحت اس میں ہے اس سے معلوم کرلیں کہ سوائے اس ایک خدا کے دوسرا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے اس لئے کہ جو لوگ صاحب فہم ہیں عقل رکھتے ہیں ان کو اس میں غوروفکر کرنا چاہیے اور نصیحت حاصل کرنی چاہیے ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ شداد بن اوس (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کا کچھ عقبیٰ کا سامان کر لیوے اور عقل سے عاجز وہ شخص ہے جو عقبیٰ سے غافل رہ کر عقبیٰ کی بہبودی کی تمنا دل میں رکھے ١ ؎ یہ حدیث { ولیذکر اولوا الالباب } کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم الٰہی کے موافق جن لوگوں کو قرآن کے نصیحت کے سمجھنے کی عقل دی گئی ہے وہی قرآن کی نصیحت پر عمل کر کے اپنی عقبیٰ کو درست اور مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کا کچھ سامان کرتے ہیں اور جو لوگ عقبیٰ کے منکر یا عقبیٰ سے غافل ہیں وہ یا تو قرآن کی نصیحت کو سنتے ہی نہیں یا اس کان سے سن کر اس کان سے اڑا دیتے ہیں۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد دو ص ٢٠٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14: 52) ھذا ۔ ھذا القران ۔ یہ قرآن۔ بلغ۔ بلغ یبلغ بلغا۔ (باب نصر) مصدر۔ البلغ۔ کے معنی مقصد اور منتہیٰ کے آخری حد تک پہنچنے کے ہیں۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ۔ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچنے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہا تک پہنچنے کے معنی میں قرآن مجید میں ہے۔ حتی اذا بلغ اشدہ وبلغ اربعین سنۃ۔ (46:15) یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے۔ بلغ۔ کے معنی کافی ہونے کے بھی آتا ہے۔ مثلاً ان فی ھذا لبلغا لقوم عبدین۔ (21:106) عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) پوری پوری تبلیغ ہے۔ ھذا بلغ للناس۔ (آیۃ ہذا) یہ (قرآن) لوگوں کے نام (خدا کا) پیغام ہے۔ ولینذروا۔ معطوف ہے محذوف پر یعنی لینصخوا ولینذروا۔ تاکہ انہیں نصیحت کی جائے اور ان کو ڈرایا جائے۔ بہ میں ہٖ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع بلغ ہے یعنی اس قرآن کے ذریعہ سے۔ ولیذکر۔ مضارع واحد مذکر غائب تذکر (تفعل ) مصدر اصل میں یتذکر۔ اولوا الالباب۔ صاحب عقل۔ اہل فہم۔ عقل وفہم والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ بلاغ میں تصدیق رسالت اور لینذروا بہ میں تصدیق معاد اور لیعلموا میں عبادات بدنیہ ومالیہ جن کا ذکر یقیموا الصلوة میں تھا آگئیں، اور یہی حاصل ہے تمام سورت کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں ان کا انجام ذکر کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ قرآن مجید سب کے لیے بالخصوص عقل مندوں کے لیے خیر خواہی ہے جو تم تک پہنچ چکی ہے۔ اس سورة مبارکہ کی پہلی آیت میں ارشاد فرمایا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے اس قرآن مجید کو آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں اور ہر قسم کی جہالت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی روشنی میں لاکھڑا کریں۔ کیونکہ یہی آپ کے رب کا بتلایا ہوا سیدھا راستہ ہے جو لوگ اس راستہ کی طرف نہیں آئیں گے ان کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ یہی پیغام موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دیا اور اسی کی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی۔ لہٰذا لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایک اللہ پر ایمان لائیں، اس کا حکم مانیں جو لوگ ایک اللہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر مشکل کشا اور حاحت رواتلاش کرتے اور آخرت کو بھول بیٹھے ہیں انہیں ان کے انجام سے ڈرائیں۔ نصیحت کی نعمت کو وہی لوگ پائیں گے جو حقیقی عقل سے بہرہ مند ہیں۔ گویا کہ آخرت کے لیے تیاری کرنا اور عقیدۂ توحید اپنانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا عقل کی بات ہے۔ آخرت کو فراموش اور شرک کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کی توحید بتلانا اور سمجھانا تھا : (وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیْٓ إِلَیْہِ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّآأَنَا فَاعْبُدُوْنِ )[ الانبیاء : ٢٥] ” اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وہی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔ (کَمَآ أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْ لا مِنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ آَیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ )[ البقرۃ : ١٥١] ” جس طرح ہم نے تم میں سے رسول بھیجے جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمہیں پاک کرتے اور کتاب اور حکمت سکھلاتے اور ایسی باتیں بتاتے ہیں جو تم جانتے نہ تھے۔ “ (وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ )[ البقرۃ : ١٦٣] ” اور تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ (اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ )[ آل عمران : ٢] ” اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ زندہ اور قائم ہے۔ “ (فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ )[ محمد : ١٩] ” پس جان لو کہ بیشک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور مومن مردوں، عورتوں کے لیے بھی معافی طلب کرو اللہ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے سے واقف ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب ذِکْرِ الْمَوْتِ وَالاِسْتِعْدَادِ لَہُ ] ” حضرت ابویعلیٰ شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے۔ عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھتا ہے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت کا پیغام ہے۔ ٢۔ عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق اور سب کا حاجت روا، مشکل کشا ہے۔ تفسیر بالقرآن عقلمندوں کا کردار : ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے پیغام ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (ابراہیم : ٥٢) ٢۔ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٣۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ حق ہے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٥٢ اس اعلان عام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ جان لیں کہ اللہ ایک ہی الٰہ اور حاکم ہے۔ یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کے اوپر اسلامی نظام قائم ہے۔ لیکن اس اعلان عام سے اصل غرض وغایت مجرد نہیں ہے بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا پورا نظام اس اصول پر قائم کریں اور اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اختیار کریں۔ اگر وہ اللہ کو واحد الٰہ اور حاکم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی کو الٰہ اور خالق ومالک سمجھا جاتا ہے تو وہی حاکم اور رب بھی ہوگا۔ وہی سربراہ ، متصرف فی الامور ، ڈائریکٹر اور قانون ساز ہوگا۔ اس ایمان و اعلان پر اگر انسانی زندگی کو عملاً قائم کیا جائے تو وہ عملی نظام اس نظام کے سراسر متضاد ہوگا جو اس اصول اور اعلان پر قائم کیا جائے کہ کچھ لوگ اپنے جیسے کچھ لوگوں کے غلام ہوں گے۔ اور انسانوں میں سے کچھ حاکم ، قانون ساز اور ظالم ہوں گے۔ یہ ایک بنیادی اختلاف ہے ، جس کی وجہ سے عقائد و تصورات مختلف ہوجاتے ہیں۔ شعائر اور مراہم عبادت مکتلف ہوجاتے ہیں۔ اخلاق اور طرز عمل مختلف ہوجاتے ہیں۔ حسن و قبح کی قدریں بدل جاتی ہیں ، اور سیاسی اور اقتصادی نظام بدل جاتے ہیں۔ غرض کسی سوسائٹی کو ان میں سے کسی قاعدے پر منظم کیا جائے تو اس کے انفرادی اور اجتماعی خدو خال ہی بدل جائیں گے۔ یہ نظریہ کہ اللہ ایک ہے اور وہی حاکم ہے اس کی بنیاد پر ایک مکمل نظام حیارت تعمیر ہوتا ہے۔ یہ نظریہ صرف ذہنوں میں بیٹھے رہنے والا نظریہ نہیں ہے۔ اسلامی نظریہ حیات محض عقائد تک محدود نہیں ہے ، اس کی حدود بہت آگے چلی جاتی ہیں۔ یہ نظریہ انسان کی پوری عملی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا نظریہ اسلامی عقائد کا ایک حصہ ہے۔ اسلامی اخلاق کا قیام بھی ہمارے عقائد کا حصہ ہے۔ اور یہ ایک ایسا عقیدہ اور نظریہ حیات ہے جس سے ایک مکمل نظام پھوٹ کر نکلتا ہے۔ نئی قدریں وجود میں آتی ہیں اور یہ دنیا میں نئے حالات اور نیا دستوری اور قانونی نظام پیش کرتا ہے۔ ہم اس وقت تک قرآنی ، مقاصد و اہداف کو ادراک نہیں کرسکتے ، جب تک ہم قرآنی عقائد و نظریات کو اچھی طرح نہ سمجھ لیں اور جب تک ہم کلمہ شہادت کے مفہوم کو اچھی طرح نہ سمجھ لیں کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اصلی مفہوم کیا ہے اور جب تک ہم اس کے مفہوم کو اس کی وسعتوں کے ساتھ نہ سمجھ لیں ۔ جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ اسلام میں ” عبادت “ کا مفہوم کیا ہے۔ اور جب تک ہم عبادت کی تعریف میں یہ نہ شامل کرلیں کہ اس سے مراد پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت و غلامی ہے۔ صرف نماز کے اوقات میں نہیں ، بلکہ زندگی کے تمام امور میں۔ عرب بت پرستی جس کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنی اولاد کے بارے میں دعا کی کہ اللہ ہمیں اس سے بچائیو ، یہ اس قدر سادہ نہ تھی جس طرح عرب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اس پر عامل تھے یا جس طرح دوسری جاہلیتوں میں مختلف انداز میں اس پر عمل ہوتا تھا ، کہ درختوں اور پتھروں کی پوجا ہو رہی ہے ، حیوانوں اور پرندوں کو پوجا جا رہا ہے ، ستاروں اور سیاروں کو پوجا جا رہا ہے ، ارواح اور اوہام کو پوجا جا رہا ہے۔ یہ سادہ شکلیں ہی شرک نہ تھا ، اور نہ بتوں کی عبادت کی فقط یہ سادہ شکلیں تھیں ، نہ شرک ان سادہ شکلوں میں محدود تھا۔ نہ اس بت پرستی کا یہی مفہوم تھا اور اس سے آگے ہم شرک کی دوسری شکلیں دریافت نہیں کرسکتے یا ہیں ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شرک کی لاتعداد صورتیں ہیں ، ہم اپنی فکر کو ان صورتوں تک محدود نہیں کرسکتے یا ہیں ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شرک کی لاتعداد صورتیں ہیں ، ہم اپنی فکر کو ان صورتوں تک محدود نہیں کرسکتے ، بلکہ جاہلیت جدیدہ میں شرک کی بیشمار جدید صورتیں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم شرک کو سمجھیں اور شرک کے ساتھ بت پرستی کے تعلق کو بھی سمجھیں ، نیز بتوں کی حقیقت پر بھی غور کرنا ضروری ہے ، اور دور جدید میں ، جاہلیت جدیدہ نے جو نئے اصنام گھڑ لیے ہیں ان کا بت پرستی کے ساتھ تعلق دریافت کرنا بھی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کے مخالف شرک کا دائرہ ہر اس صورت حال تک وسیع ہوتا ہے جس میں زندگی کے محاملات میں سے کسی ایک حال میں اللہ وحدہ کی اطاعت نہ ہو ، یہ حال بھی شرک کی تعریف میں آتا ہے کہ ایک انسان زندگی کے بعض معاملات میں مطیع فرمان ہوتے ہوئے بھی دوسرے معاملات میں غیر اللہ کا مطیع ہو ، شرک صرف مراسم عبودیت کے اندر محدود نہیں ہے ، یہ تو شرک کی ایک مخصوص صورت ہوتی ہے۔ جدید دور میں ہماری زندگیوں میں بعض ایسی واضح مثالیں موجود ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ شرک صریح کی واضح مثالیں ہیں۔ ایک شخص جو اللہ کو وحدہ لا شریک تسلیم کرتا ہے۔ پھر وضو ، طہارت ، نماز ، روزے ، حج اور تمام دوسری عبادات میں اللہ کی طرف رخ رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اقتصادی معاملات اور اجتماعی قوانین میں ، غیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور وہ اپنی اجتماعی قدروں میں ایسے تصورات ایسی صطلاحات کا تابع ہے جو غیر اللہ کی جاری کردہ ہیں اور اپنے اخلاق ، اپنی عادات اور رسم و رواج میں ، اپنے لباس میں ، ایسے لوگوں کی اطاعت کرتا ہے ، جو اللہ کے احکام کے بالمقابل اس پر یہ تصورات ، اخلاق ، عادات اور لباس مسلط کرتے ہیں اور یہ ایسے ہیں جو صراحتہ شریعت کے مخالف ہیں ، اللہ کے احکام کے خلاف ہیں ، اور حقیقتاً اسلام کے خلاف ہیں تو یہ عمل اس کلمہ شہادت کے خلاف ہے جو وہ شخص پڑھتا ہے ، لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یہ ہے وہ اصل بات جس سے ہمارے دور کے مسلمان غافل ہیں۔ حالانکہ یہ شرک ہے ، آج کے مسلمان نہایت بھونڈے انداز میں غیر اللہ یہ اطاعت کرتے ہیں اور یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ یہ شرک ہے اور ہر دور کے مشرک یہی کام کرتے رہے ہیں۔ بت کیا ہیں ، یہ ضروری نہیں ہے کہ بت ہی مجسمے ہوں جو پتھروں سے بنے ہوں۔ یہ بت تو دراصل رمز ہیں طاغوت کے لئے ، ان بتوں کے پیچھے اصل طاغوت ہوتا ہے جو ان بتوں کے نام اور عنوان سے لوگوں سے اپنی بندگی کراتا ہے۔ اور ان بتوں کے نام سے اپنا اور اپنی بندگی کا نظام جاری کرتا ہے۔ بت تو نہ بات کرتے تھے ، نہ سنتے تھے اور نہ دیکھتے تھے ، دراصل مجاور ، ۔۔۔۔۔۔ اور حاکم وقت ان کی پشت پر ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ان کے نام سے تعویذ اور گنڈے کرتے تھے ، دم درود کرتے تھے اور اس طرح وہ جمہور عوام کو اپنا غلام بنائے رکھتے تھے۔ اب اگر کسی جگہ ایسے ہی شعار اٹھ کھڑے ہوں۔ کچھ ادارے ہوں اور ان اداروں کے نام سے کچھ کاہن اور کچھ مہنت اور کچھ احکام اپنے تصورات ، اپنے قوانین اور اپنے اعمال و تصرفات عوام پر مسلط کرتے ہوں تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ بھی شرک باللہ ہوگا۔ اگر قومیت کو ایک بت بنا لیا جائے۔ اگر کسی وطن کو بت بنا لیا جائے ، یا کسی مملکت کو بت بنا لیا جائے ، یا کسی طبقے کو بت بنا لیا جائے اور لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس بت کو پوجیں ، اور اللہ کے علی الرغم پوجیں اور ان کی راہ میں جان ، مال ، اخلاق اور اپنی عزت سب کچھ قربان کریں ، یوں کہ جب ان بتوں کے مطالبات اور شریعت کے مطالبات کے درمیان تعارض آجائے تو اللہ کی شریعت اس کے قوانین اور اس کے مطالبات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور ان نئے بتوں کے مطالبات ، تقاضوں ، قوانین اور اخلاق کو نافذ کردیا جائے یا صحیح الفاظ میں ان مفادات اور جدید بتوں کی پشت پر موجود طاغوتی قوتوں کی اطاعت کی جائے تو یہ صریح شرک ہوگا ۔ اور ایسے لوگ بت پرست ہوں گے ، مشرک ہوں کیونکہ بت کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ پتھر اور لکڑی کا بت ہو ، ہر مذہب اور ہر شعار بت ہوتا ہے۔ اسلام صرف اس لیے نہیں آیا تھا کہ وہ لکڑیوں اور پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کو توڑ دے اور یہ مسلسل مشقتیں جو رسولان کرام کے طویل سلسلہ نے برداشت کیں ، اور اس کے سلسلے میں ناقابل برداشت اور ناقابل تصور تکالیف برداشت کیں ، یہ محض پتھر اور لکڑی کے بتوں کے ختم کرنے کے لئے نہ تھیں بلکہ مقصد ہر قسم کی بت پرستی کو ختم کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کر دے۔ ہر شکل اور ہر صورت میں اور زندگی کے تمام معاملات میں سے ، چاہے اس کی شکل و صورت جو بھی ہو ، غیر اللہ کی اطاعت کو ختم کر دے لہٰذا زندگی کے ہر طور طریقے اور نظام میں ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ اس کی کون سی صورت توحید ہے اور کون سی صورت شرک ہے ، اس میں اطاعت اور بندگی اللہ وحدہ کی ہے یا کسی اور طاغوتی قوت کی ہے ، کسی اور رب یا بت کی ہے۔ وہ لوگ جو محض اس لیے اپنے آپ کو اللہ کے دین میں سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی زبان سے کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ادا کرتے ہیں اور وہ بھی محض اس لیے کہ وہ طہارت ، مراسم عبودیت ، نماز ، روزہ ، حج اور نکاح و طلاق میں یا مسئلہ میراث میں اللہ کے قانون کو مانتے ہیں۔ جب کہ اس سے آگے ان کی پوری زندگی ان قوانین کے مطابق ہے جو اللہ کے قوانین کے خلاف ہیں اور ان قوانین کی اکثریت ایسی ہے جو قرآن و سنت کے صریح خلاف ہیں ، اور وہ ان قوانین اور اس نظام کے لئے اپنے نفس ، اپنے مال اور اپنے اخلاق اور کلچر کو قربان کرتے ہیں ، خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ، اور یہ کام وہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ جدید بت ان سے راضی ہوں ، اور صورت حالات یہ ہو کہ کسی مرحلے میں اللہ کے احکام اور قوانین کا ان بتوں کے احکام کو نافذ کریں تو یہ صریح بت پرستی ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اللہ کے دین میں سمجھتے ہیں اور ان کا حال وہ ہے جو ابھی بتا یا گیا ، ان کو چاہئے کہ وہ اس شرک سے باز آجائیں جس میں وہ ہیں۔ دین اسلام ایسا مزاح نہیں ہے جو یہ لوگ سمجھتے ہیں جو مشرق و مغرب میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ دین اسلام روزمرہ کی جزئیات حیات کو بھی اپنے دائرہ میں لیتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ زندگی کی تمام جزئیات میں اللہ وحدہ کی اطاعت کی جائے ، اصول اور کلیات اور دستور و قانون تو بڑی بات ہے۔ یہ ہے وہ اسلام جس کے سوا خدا کسی ” دین “ کو قبول نہیں کرتا۔ شرک اس کے اندر محدود نہیں ہے کہ کوئی اللہ کو ایک نہ سمجھے بلکہ شرک کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ کوئی کسی غیر اللہ کو حاکم سمجھے۔ پتھروں اور لکڑیوں کے بنے ہوئے بتوں کو پوجنا بت پرستی کا بہت سادہ تصور ہے ، اصل بت پرستی خلاف اسلام اداروں کی پرستش ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں ، میں یوں کہتا ہوں کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ ان کی زندگی میں اہم کون ہے ؟ وہ کس کی مکمل اطاعت کرتے ہیں ؟ وہ کس کی مکمل اطاعت کرتے ہیں ؟ وہ کس کی پیروی ، اتباع کرتے ہیں ؟ کس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ؟ اگر وہ یہ سب کام اللہ کے لئے کرتے ہیں تو وہ مسلم ہیں ، اگر وہ یہ کام کسی اور کے لئے کرتے ہیں تو یہ ان کے دین پر ہیں۔ بت ہیں تو بتوں کے دین پر۔ طاغوت میں تو طاغوت کے دین ہو۔ یہ ہے پیغام ! سب انسانوں کو اس سے ڈرایا جائے ! ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ ان معنوں میں وحدہ لا شریک ہے ! اگر عقل ہے تو ان باتوں کو سمجھو ! ھذا بلاغ ھذا بلاغ صدق اللہ العظیم

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ ) یہ قرآن لوگوں کو پہنچ جانے والی چیز ہے اس میں نصیحت اور موعظت ہے (وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ ) تاکہ لوگوں کو اس کے ذریعہ ڈرایا جائے وہ موت کے بعد کے لیے فکر مند ہوں کفر کو چھوڑیں اور ایمان قبول کریں۔ (وَ لِیَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ) (اور تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ معبود ہے تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں) (وَّ لِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) (اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں) اللہ کی صفات خالقیت اور مالکیت کے بارے میں تدبر کریں شرکیہ عقائد سے باز رہیں امم سابقہ کی بغاوت اور پھر ان کی ہلاکت سامنے رکھیں اور اس سے عبرت حاصل کریں اور یہ جان لیں کہ ہم انہیں برباد شدہ اقوام کے گھروں میں رہتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بغاوت کی جس کا برا انجام ان کے سامنے آگیا غور و فکر کے ذریعہ عبرت حاصل کرنا لازم ہے۔ ولقد تم سورة ابراھیم (علیہ السلام) فی اللیلۃ التاسعۃ والعشرین من شھر شعبان المعظم سنۃ الف و اربع ماءۃ وثلاثۃ عشر من الھجرۃ النبویۃ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ والحمد للّٰہ بیدہ ملکوت کل شئ اولا واخرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ آخر میں سورت کے خلاصہ مضامین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ” ھٰذَا “ سے تمام مذکورہ وقائع اور دلائل کی طرف اشارہ ہے۔ ” وَ لِیُنْذَرُوْا “ کا معطوف علیہ مقدر ہے ای لیومنوا یعنی یہ تمام وقائع اور دلائل اس لیے زکر کیے گئے ہیں تاکہ لوگ ایمان لے آئیں اور وقائع امم سابقہ سنا کر ان کو ڈرایا جائے اور وقائع اور دلائل کے بیان سے جو مسئلہ (یعنی مسئلہ توحید) سمجھانا مقصود ہے تاکہ وہ اس کو مان لیں اور ان کو یقین ہوجائے کہ تنہا اللہ تعالیٰ ہی ساری مخلوق کا کارساز اور ساری کائنات میں اکیلا وہی متصرف و مختار ہے اور وہی پکارے نے کے لائق ہے۔ اور تاکہ عقل و فہم اور ہوش و خرد والے لوگ ان (وقائع و دلائل) میں غور و فکر کریں اور ان میں سے جن کے دلوں میں اخلاص وانابت ہو وہ ان سے نصیحت حاصل کریں اور راہ راست پر آجائیں۔ سورة ابراہیم (علیہ السلام) میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” کِتٰبٌ اَنْزَلنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ “ (رکوع 1) ۔ خصوصیت سورت ہے یعنی ہم نے یہ کتاب اس لیے نازل ہے تاکہ آپ لوگوں کو وقائع امم سابقہ سنا کر کفر و شرک کے اندھیرے سے نکال کر اسلام اور توحید کی روشنی کی طرف لائیں۔ 2 ۔ ” اَللہُ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ “ (رکوع 1) ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 3:۔ ” قَالَتْ لَھُمْ رُسُلُھُمْ “ تا ” فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ “ (رکوع 2) ۔ اثبات بشریت انبیاء (علیہم السلام) و نفی اختیار و تصرف از ایشان علیہم السلام۔ 4:۔ ” وَ مَا لَنَا اَنْ لَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللہِ “ اسم اعظم۔ 5:۔ ” اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ “ (رکوع 3) ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 6:۔ ” اِنْ یَّشَا یُذْھِبْکُمْ وَ یَاتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ “ (رکوع 3) ۔ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف میں ہے اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ 7:۔ ” اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طیِّبَۃً “ تا ” لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ “ (رکوع 4) ۔ توحید کی تمثیل۔ 8:۔ ” وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ “ تا ” وَ لَا فِی السَّمَاء “ (رکوع 6) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اللہ سے دعا کی کہ وہ ان کو اور ان کی اولاد کو شرک سے محفوظ رکھے۔ اور ” رَبَّنَا اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ “ اسم اعظم سے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے کا اعلان فرمایا۔ سورة ابراہیم ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 ۔ یہ قرآن کریم لوگوں کے لئے احکم پہنچانا ہے اور اس کی تبلیغ اس لئے ضروری ہے تا کہ لوگ اس کی وجہ سے ڈرائے جائیں اور چونک جائیں اور تا کہ یہ جان جائیں کہ معبود برحق وہی ایک اللہ تعالیٰ ہے اور تا کہ وہ لوگ نصیحت قبول کریں اور غور و فکر سے کام لیں جو اہل عقل و خرد ہیں ۔ یعنی یہ قرآن کریم ایک تبلیغ کی چیز ہے اور پہنچانے والی بات ہے اور لوگوں کو اس کی خبر دینی ہے تا کہ لوگ رسول کی تصدیق کریں اور اس کے ذریعہ سے ڈرائیں اور خدا کا وحدہٗ لا شریک ہونا معلوم کرلیں اور سمجھدار لوگ نصیحت قبول کریں۔ لم تفسیر سورة ابراہیم