Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 12

سورة الحجر

کَذٰلِکَ نَسۡلُکُہٗ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

Thus do We insert denial into the hearts of the criminals.

گناہگاروں کے دلوں میں ہم اسی طرح یہ ہی رچا دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Thus We allow it to enter the hearts of the guilty. Anas and Al-Hasan Al-Basri said that this referred to Shirk.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی کفر اور رسولوں کا استہزاء ہم مجرموں کے دلوں میں دیتے ہیں یا رچا دیتے ہیں، یہ نسبت نے اپنی طرف اس لئے کی کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے گو ان کا فعل ان کی مسلسل معصیت کے نتیجے میں اللہ کی مشیت سے رونما ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَذٰلِكَ نَسْلُكُهٗ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ ۔۔ : ” نَسْلُكُهٗ “ میں ” ہٗ “ ضمیر کے متعلق مفسرین نے دو وجہیں بیان کی ہیں، بعض نے کہا کہ ” ہٗ “ کی ضمیر ” اَالذِّکْرَ “ کی طرف جا رہی ہے، یعنی ہم مجرموں کے دلوں کے اندر ذکر کو داخل کردیتے ہیں اور وہ اسے اچھی طرح سنتے اور سمجھتے ہیں، مگر اس طرح کہ وہ باوجود دل سے سمجھنے کے اس پر ایمان بالکل نہیں لاتے اور پہلے لوگوں میں بھی یہی طریقہ گزر چکا ہے اور وہ اسی کی پاداش میں تباہ کیے جاتے رہے ہیں۔ زمخشری، رازی اور سید طنطاوی کی تفسیر کے مطابق ” نَسْلُكُهٗ “ اور ” لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ “ میں ضمیر غائب کا مرجع ایک رہتا ہے۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) نے بھی یہی تفسیر ذکر فرمائی ہے۔ دوسری تفسیر امام المفسرین طبری (رض) کی ہے کہ ” نَسْلُكُهٗ “ میں ضمیر ” ہٗ “ ” استہزا و کفر “ کی طرف جاتی ہے، یعنی ہم مجرموں کے جرائم کی پاداش میں ان کے دلوں میں کفر و استہزا داخل کردیتے ہیں، اس طرح کہ وہ اللہ کے نازل کردہ ذکر پر بالکل ایمان نہیں لاتے، بلکہ اس سے استہزا کرتے ہیں اور پہلے لوگوں کا طریقہ بھی یہی رہا ہے۔ دونوں تفسیروں کا نتیجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ نَسْلُكُهٗ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ 12۝ۙ سلك السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی: لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ. ( س ل ک ) السلوک ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (كَذٰلِكَ نَسْلُكُهٗ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ ) حق کی دعوت اپنی تاثیر کی وجہ سے ہمیشہ مخاطبین کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ چناچہ جو لوگ انبیاء کی دعوت کو ٹھکراتے رہے ‘ وہ اس کی حقانیت کو خوب پہچان لینے کے بعد ٹھکراتے رہے۔ اس لیے کہ حق کو حق تسلیم کرنے سے ان کے مفادات پر زد پڑتی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: ’’ یہ بات‘‘ سے قرآن کریم بھی مراد ہوسکتا ہے، یعنی قرآن کریم ان کے دلوں میں داخل تو ہوتا ہے، لیکن ان کے مجرمانہ طرز عمل کی وجہ سے وہ انہیں ایمان کی دولت نہیں بخشتا۔ اور ’’ یہ بات‘‘ سے ان کے مذاق اڑانے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ یعنی ان کے مجرمانہ طرز عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اور کفر و بغاوت اور اسہزاء ان کے دلوں میں داخل کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:12) نسلکہ۔ مضارع جمع متکلم ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ اس ضمیر کا مرجع الاستھزاء ہے جو یستھزء ون کا مصدر ہے۔ ہم (اس استہزا و تکذیب کو گنہگاروں کے دلوں میں) ڈال دیتے ہیں ۔ السلوک (باب نصر) کے اصل معنی راستہ پر چلنے کے ہیں۔ جیسے لتسلکوا منہا سبلا فجاجا (71:20) تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں پر چلوپھرو۔ یہ فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ما سلککم فی سفر۔ (74:42) تمہیں کس چیز نے دوزخ میں لا ڈالا۔ اسی سے ہے سلکت الخیط فی الابرۃ۔ میں نے سوئی میں دھاگہ ڈالا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ ” نسلکہ “ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ یعنی جب بدکاری سے باز نہیں آتے تو اس کی سزا یہدیتے ہیں کہ انہیں قرآن اور رسول کے ساتھ کفر و استہزا کا عادی بنادیتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 ۔ جس طرح ہم نے گزشتہ منکروں کے قلوب میں استہزاء اور تکذیب کو داخل کردیا تھا اسی طرح ہم ان مجرموں کے قلوب میں بھی کفر و ضلال استہزاء اور تکذیب کو داخل کردیتے ہیں۔