Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 13

سورة الحجر

لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ قَدۡ خَلَتۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۳﴾

They will not believe in it, while there has already occurred the precedent of the former peoples.

وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور یقیناً اگلوں کا طریقہ گزرا ہوا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لااَ يُوْمِنُونَ بِهِ ... They would not believe in it (the Qur'an); ... وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الاَوَّلِينَ and already the example of the ancients has gone forth. meaning the destruction wrought by Allah on those who rejected His Messengers, and how He saved His Prophets and their followers in this world and in the Hereafter, is well known.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی ان کے ہلاک کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اللہ نے پہلے مقرر کر رکھا ہے کہ تکذیب و استہزاء کے بعد وہ قوموں کو ہلاک کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] کافروں کی ایمان نہ لانے کے لئے کٹ حجتیاں :۔ جس طرح منکرین حق اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کبھی آپ پر اختراغ کا الزام لگاتے ہیں کبھی کہتے ہیں یہ محض جادوگری اور جادو بیانی ہے۔ کبھی کسی معجزہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی فرشتوں کے نزول کا، کبھی بشر ہونے کی بنا پر آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں اور کبھی جادوگر اور کبھی دیوانہ کہہ دیتے ہیں تو یہ سب کچھ ان کے آیات الٰہی کو نہ ماننے کے لیے کٹ حجتیاں ہیں اور ایسا استہزاء صرف آپ سے ہی نہیں کیا جارہا بلکہ منکرین حق پہلے رسولوں سے بھی یہی کچھ کرتے چلے آئے ہیں۔ اللہ کی آیات سن لینے کے بعد انھیں سوجھتا ہی یہی کچھ ہے۔ ایسی آیات کو نازل کرنے کا ایک اہم مقصد رسول اللہ اور مسلمانوں کو تسلی دینا بھی ہے جو سخت سنگین حالات سے دو چار تھے اور چونکہ یہ تیرہ سال کا طویل عرصہ تھا لہذا ایسی آیات کا نزول بھی وقتاً فوقتاً بہ تکرار ہوتا رہا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ 13؀ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ ) انبیاء و رسل کے مخاطبین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے۔ جس طرح ہم نے اپنے رسول محمد پر یہ ” الذکر “ نازل کیا ہے اسی طرح پہلے بھی ہم اپنے رسولوں پر کتابیں اور صحیفے نازل کرتے رہے ہیں ‘ مگر ان کی قوموں کے لوگ اکثر انکار ہی کرتے رہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7. The majority of the translators and commentators are of the opinion that the pronoun “it”( Ayat 12), refers to their mockery, occurring in (Ayat 11), and in “they would not believe in it” in (Ayat 13), refers to the admonition occurring in (Ayat 9). Then (Ayats 12-13) will be rendered like this: “Thus we cause mockery enter into the hearts of the criminals and they do not believe in the admonition”. Though grammatically there is nothing wrong with this version, yet our version of “it” will be better even grammatically. According to this (Ayat 12) will mean, when the admonition enters into the hearts of the believers it gives them peace of mind and comfort of heart. But when the same enters into the hearts of the criminals it becomes a hot rod, and burns their minds and hearts.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :7 عام طور پر مترجمین و مفسرین نے نَسْلُکُہ کی ضمیر استہزاء کی طرف اور لَا یُوْمِنُوْنَ بِہ کی ضمیر ذکر کی طرف پھیری ہے ، اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ”ہم اسی طرح اس استہزاء کو مجرمین کے دلوں میں داخل کرتے ہیں اور وہ اس ذکر پر ایمان نہیں لاتے“ ۔ اگرچہ نحوی قاعدے کے لحاظ سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، لیکن ہمارے نزدیک نحو کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح یہ ہے کہ دونوں ضمیریں ذکر کی طرف پھیری جائیں ۔ سلک کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو دوسری چیز میں چلانے ، گزارنے اور پرونے کے ہیں ، جیسے تاگے کو سوئی کے ناکے میں گزارنا ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کے اندر تو یہ ذکر قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترتا ہے ، مگر مجرموں کے دلوں میں یہ شتابہ بن کر لگتا ہے اور اس کے اندر اسے سن کر ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے گویا کہ ایک گرم سلاخ تھی جو سینے کے پار ہو گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:13) لا یؤمنون بہ۔ میں ہٖ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الذکر (ایۃ 9) ہے۔ خلت۔ خلا یخلو (باب نصر) خلو سے ماضی۔ واحد مؤنث غائب۔ وہ گذر گئی۔ الخلا خالی جگہ ۔ جہاں عمارت ومکان وغیرہ نہ ہو۔ اور الخلو۔ کا لفظ زمان اور مکان دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ چونکہ زمانہ گذرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لئے قد خلت سنۃ الاولین کے معنی ہوں گے۔ پہلوں کی یہی روش گذر چکی ہے یعنی وہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ یہی ہوا۔ سنۃ۔ دستور۔ طریقہ جاریہ۔ رسم ۔ اس کی جمع سنن ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 ۔ کہ وہ اپنے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور اس کی پاداش میں تباہ کئے جاتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تحفظ اور ضبط قرآن کی گارنٹی دینے کے بعد رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور تشفی دی گئی ہے۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی تسلّی دینے کے بعد کہ جس قرآن مجید کی یہ لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ تو ہمیشہ رہے گا۔ جس کا دوسرے الفاظ میں معنیٰ یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنا کام اطمینان کے ساتھ کرتے جائیں کیونکہ آپ کا کام اور پیغام ہمیشہ رہے گا اور ان لوگوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہم نے آپ سے پہلی اقوام کی طرف بھی رسول بھیجے اور انہوں نے اپنے رسولوں کو استہزءا کا نشانہ بنایا۔ اس رویہ کی پاداش میں وہ جرائم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ یہی حالت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کی ہے۔ یہ بھی پہلے لوگوں کی روش اختیار کرتے ہوئے ایمان نہیں لائیں گے۔ گویا کہ بعد زمانی کے باوجود ان کے دل اور کردار ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ ان میں داخل ہوجائیں۔ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود کہیں گے کہ جو کچھ ہم نے دیکھا وہ دھوکے اور جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِرْقَتَیْنِ ، فِرْقَۃً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃً دُونَہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشْہَدُوا)[ رواہ البخاری : باب (وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُعْرِضُوا)] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں شق قمر کا واقعہ پیش آیا۔ چاند کے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ پر گرا اور ایک ٹکڑا اس کے علاوہ تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! گواہ ہوجاؤ۔ “ معراج کا واقعہ اور مسجد اقصیٰ کا نقشہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج سے تشریف لائے تو کفار نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ایک مہینہ کا سفر رات کے کچھ حصہ میں کس طرح طے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ واقعی مسجد اقصیٰ میں گئے ہیں تو اسکی نشانیاں بتلائیں ؟ آپ نے ایک ایک کرکے اس کی نشانیاں بتلادیں لیکن پھر بھی کفار نے معراج کا انکار کیے رکھا۔ (عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَمَّا کَذَّبَنِی قُرَیْشٌ قُمْتُ فِی الْحِجْرِ ، فَجَلَّی اللَّہُ لِی بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُہُمْ عَنْ آیَاتِہِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَیْہِ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ( أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) ” حضرت جابر بن عبدللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جب کفار نے واقعہ معراج کے سلسلہ میں میری تکذیب کی تو میں مقام حجر میں کھڑا ہوا۔ اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا میں نے اس کی طرف دیکھ کر اس کی ساری نشانیاں بتلا دیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے تھے۔ ٢۔ کفار انبیاء کا مذاق اڑاتے تھے۔ ٣۔ اکثریت اپنے بڑوں کے طور طریقوں کو اپناتی ہے۔ ٤۔ کچھ لوگ معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ ٥۔ کفار معجزات کو جادو سمجھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن کفار کے انبیاء ( علیہ السلام) پر الزامات : ١۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) ٢۔ آل فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٣۔ کفار تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیتے تھے۔ (الذاریات : ٥٢) ٤۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دیا۔ (الصف : ٦) ٥۔ کفار نے قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سبا : ٤٣) ٦۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ یعنی جس پر جادو کردیا گیا ہو بھی قرار دیا۔ (الفرقان : ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 ۔ اس لئے یہ لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور یہ طریقہ پہلے ہی لوگوں سے ہوتا چلا آتا ہے اور یہ رسم پہلوں سے ہی ہوتی آئی ہے۔ یعنی جرائم پر اصرار کی وجہ سے ان پر یہ نحوست مسلط ہوجاتی ہے اور کفر و ضلال ان پر مسلط ہوجاتا ہے نیک باتوں کے ساتھ ساتھ کفر و انکار بھی دل میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ طریقہ جو پہلوں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے یہی سلوک مکہ کے مجرموں کے ساتھ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اور قرآن کریم کو نہیں مانتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ قرآن کسی کے دل میں حق تعالیٰ اسی طرح سناتا ہے کہ ساتھ اس کے انکار چلا آوے نیک راہی اور گمراہی اس کے اختیار ہے۔ 12